Powered By Blogger

جمعہ, جولائی 14, 2023

قائدین کی مانیںمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار ، اڈیشہ وجھارکھنڈ

قائدین کی مانیں
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار ، اڈیشہ وجھارکھنڈ
مختلف موقعوں سے اس بات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے کہ مسلمانوں میں قیادت کا فقدان ہے، حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی ؒ فرمایا کرتے تھے کہ فقدان قیادت کا نہیں، پیچھے چلنے والوں کا ہے، سمع وطاعت کے جذبے سے کام کرنے والوں کا ہے، واقعہ یہی ہے کہ مسلم قیادت کے لیے بڑے بڑے لوگ سامنے آئے، اپنی ساری طاقت، توانائی، مال ودولت آرام وسکون قوم وملت کے مفاد پر قربان کر دیا، اپنے آشیانہ کو پھونک کر زمانہ کو روشنی بخش دی، ایک زمانہ میں پذیرائی بھی ہوئی، لوگوں نے فنائیت کا مظاہرہ بھی کیا، اور پھر دھیرے دھیرے جوش ٹھنڈا ہو گیا، اور لوگ پرانی روش پر آگیے، قائدین پکارتے رہے آواز لگاتے رہے منصوبے بناتے رہے، لیکن ان منصوبوں میں رنگ بھرنے کے لیے جس صلاحیت کی لوگوں کو ضرورت تھی اور جنہیں آگے آنا چاہیے تھا، وہ نہیں آسکے اور ان منصوبوں کو عملی رنگ وروپ دینا ممکن نہیں ہو سکا، اس لیے ضرورت ہے کہ قائدین کی باتوں کو ما نیں،ا ن کے بنائے ہوئے خطوط پر چلیں، بغیر اجازت کے نہ آگے بڑھیں اور نہ پیچھے ہٹیں۔ سمع وطاعت کا مطلب یہی ہے کہ بات سمجھ میں آئے یا نہیں، جس کو قائد مان لیا، اس کی مانیں گے، اس کے نقش قدم کی پیروی کریں گے، ایمان والوں کی یہی صفت بیان کی گئی ہے، سمعنا واطعنا، اس کے بر عکس بے ایمانوں کا معاملہ رہا ہے، وہ سنتے تو ہیں، لیکن مان کر نہیں دیتے، صرف سننا کافی نہیں ہے، اگر کوئی مریض حکیم کے پاس جائے، اس سے دوا لکھوا لائے، نسخہ کو بار بار پڑھے بھی،لیکن دوانہ خریدے،استعمال نہ کرے، تو مرض صرف نسخے کو پڑھنے سے دور نہیں ہو گا، دوا کڑوی کسیلی ہو، کھانے پر جی بھی متلائے، لیکن اگر صحت یاب ہونا ہے تو دوا خریدنی ہوگی، استعمال کرنا ہوگا، تبھی مرض دور ہوگا، آج کے سماجی مسائل وامراض کو دور کرنا ہے تو اس کا واحد طریقہ قائدین کی باتوں کو ماننا ہے۔
 یہ تمہیدی سطوریہ بیان کرنے کے لیے لکھے گیے کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے قائدین نے یونی فارم سول کوڈ کے خلاف، مسلم پرسنل لا کی حمایت میں آن لائن لا کمیشن کو آرابھیجنے اوربھجوانے کی مہم چلا رکھی ہے،یہ مہم پورے ملک میں چل رہی ہے اور اب تک لاکھوں  کی تعداد میں لائکمیشن کو آرا بھیجی  جا چکی ہیں، 28 جولائی تک   ہی   ہی آرا بھیجنی ہے۔لوگوں میں جوش ہے، جذبہ ہے اور ہر مسلک ومکتب فکر کے اتحاد کی وجہ سے یہ کام بڑی تیزی میں ہو رہا ہے، اور ہم سب کو بھی کوشش جاری رکھنی چاہیے تاکہ زیادہ سے زیادہ آرا لاء کمیشن کو جا سکےامارت شرعیہ  کے تمام ذمہ داران حضرات قضاہ اور کارکنان شب وروز حضرت امیر شریعت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی دامت برکاتہم سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے حکم پر پوری مستعدی سے لگے ہوئیہیں ، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے با وقار صدر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی اور جنرل سکریٹری مولانا فضل الر حیم مجددی مدظلہما کے ساتھ تمام مسلک ومکتب فکر کے قائدین نے واضح کر دیا ہے کہ ہم مسلم پرسنل لا بورڈ کے ساتھ ہیں، ہمیں یکساں سول کوڈ منظور نہیں،  یہ مہم در اصل انہیں امور کا اعلان ہے، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے لا کمیشن کو آرا بھیجنے کی مہم سے آگے بڑ کر کچھ کرنے کو ابھی منع کیاہے،ا حتجاج، جلوس، بڑے اجلاس، دھرنا اور سڑکوں پر آنیسے بھی روکاہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ ابھی وہ مرحلہ نہیں آیا ہے، ہوسکتا ہے بعد میں نفقہ مطلقہ او رشاہ بانو کیس کی طرح اس کی بھی ضرورت پڑے، لیکن ابھی قائدین نے ان کاموں سے منع کیا ہے، اس لیے ہماری سعادت مندی یہ ہے کہ ابھی ان چیزوں سے باز رہیں، اتنا ہی کریں، جتنا ان کی طر ف سے ہدایت ہے، جوش وجذبہ اچھی چیز ہے، لیکن ہوش کی بات یہ ہے کہ ابھی ہمیں قائدین کے چشم وابرو کا انتظار کر نا چاہیے، کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارا غیر معمولی جوش وجذبہ ہمارے معاملہ کو دوسرا رخ دیدے، جو ہمارے لیے اور ساری ملت کے لئے ضرر رساں ثابت ہو۔

یونیفارم سول کوڈ کے نقصانات مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار ، اڈیشہ وجھارکھنڈ

یونیفارم سول کوڈ کے نقصانات 
Urudduinyanews72
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار ، اڈیشہ وجھارکھنڈ
=======================================
دستور کے رہنما اصولوں میں سے ایک دفعہ 44؍ کا سہارا لے کر حکومت ہند یو سی سی لانے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے، وزیر اعظم نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ ایک ملک دو قانون کے ذریعہ نہیں چل سکتا، حالاں کہ ہمارے تجربات ومشاہدات تو یہی کہتے ہیں کہ ہندوستان سارے پرسنل لاز کے ساتھ ہی پہلے ترقی پذیر اور پھر ترقی یافتہ ملک کے زمرے میں آیا، مختلف مذاہب کے لوگوں نے اپنے اپنے پرسنل لاز کے ساتھ ملک کو ترقی کی راہ پر لگایا، سب متحد رہے تو ملک کی سا لمیت محفوظ رہی، اب حکومت کو لگتا ہے کہ ایک ملک کوایک ہی قانون چاہیے تویہ ہمارے تجربات ومشاہدات کے بالکل بر عکس ہے۔ اس کے نفاذ سے دستور کے بنیادی حقوق کے دفعات کالعدم ہوجائیں گے۔ جس کی وجہ سے ہندوستان کے عام شہریوں میں بے چینی بڑھے گی اور اس کے نتیجے میں ملک کی یک جہتی اور سالمیت کو غیر معمولی نقصان پہونچے گا،یہ دستور کیخلاف بھی ہوگا کیونکہ دفعہ 44کی حیثیت صرف مشورے کی ہے اور اس کی حیثیت دستور کے ان دفعات سے بالکل الگ ہے جو ہمارے قانون کا حصہ ہے، کیوں کہ رہنما اصول کے ذریعہ بنیادی دفعات پر تیشہ نہیں چلایا جا سکتا ، یہی وجہ ہے کہ عدالتیں اس دفعہ کا تذکرہ تو کرتی ہیں، لیکن اس کے سہارے کوئی فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتیں، اس بنیادی نکتہ کی طرف اگر آپ کی توجہ مبذول ہو گئی ہو تو سمجھنا چاہیے کہ یونی فارم سول کوڈ کے خلاف لا کمیشن کو رائے بھیجنا در اصل ہندوستان کے دستور اور یک جہتی سے جڑا ہوا ہے، جسے ہم کسی طرح بھی نظر انداز نہیں کر سکتے ۔
یونی فارم سول کوڈ نافذ ہونے سے یہاں کی رنگا رنگ تہذیب متاثر ہوگی، یہاں ہر مذہب کی اپنی ایک تہذیب ہے، زندگی گذارنے کا اپنا طریقہ ہے، یہ معاملہ کا لر اوربے کالر کرتے کے انتخاب کا نہیں ہے ، یہ معاملہ اس سطحیت سے بہت اوپر کا ہے ، یونی فارم سول کوڈ سب کچھ بدل کر رکھ دے گا، کئی لوگ اس کے اثرات کو عائلی معاملات ومسائل تک محدود سمجھتے ہیں، یہ قطعا صحیح نہیں ہے، بغیر یونی فارم سول کوڈ کے مسجد کے باہر تک صفیں لگنے پر ایف آئی آر درج ہورہا ہے، جیل کی سزائیں دی جا رہی ہیں، کئی جگہ مائیک سے اذان دینے پر پابندی ہے، بعض جانور کے ذبیحہ پر پابندی ہے اور اس کے گوشت پائے جانے کا الزام لگا کر ماب لنچنگ ہو رہی ہے، ایسے میں یونی فارم سول کوڈ ہماری عبادت اور خوردونوش کو بھی متاثر کر دے گا، جو غیر اعلانیہ طور پرابھی بھی کم نہیں ہے۔
 یہ نکاح کے نظام کو متاثر کرے گا ، ہمارے یہاں لڑکے لڑکی جس عمر میں بالغ ہوجاتے ہیں ان کی زیادہ سے زیادہ مدت پندرہ سال ہے، ماحول اور موبائل کا کثرت سے استعمال اس سے بہت پہلے ان دنوں بچے بچیوں کو بلوغیت کے مرحلہ تک پہونچا دیتا ہے، ایسے میں یونی فارم سول کوڈ میں کم سے کم کورٹ میریج اور اس کے رجسٹریشن کو لازم کیا جائے گا، اٹھارہ سال سے کم عمر کی شادی یونی فارم سول کوڈ میں جرم ہونے کی وجہ سے ہو نہیں سکے گی اور تاخیر کی وجہ سے جو مفاسد پیدا ہوں، اس کا مشاہدہ لوگ کھلی آنکھوں کر رہے ہیں، شریعت نے بعض حالات میں بلوغیت سے قبل بھی صغر سنی میںولی کی اجازت سے نکاح کی اجازت دی ہے، یہ حکم نہیں اجازت ہی ہے ، لیکن اس اجازت کو ساقط کرنے کا کسی انسان کو کس طرح اختیار دیا جا سکتا ہے، یہی حال چار شادی کی اجازت کا ہے جوانصاف کی قید کے ساتھ قرآن میں مذکور ہے، بیک وقت چار بیویاں رکھنے والے ہندوستان میں شاید باید ہی ہوں ، لیکن یہ اجازت قرآن کریم میں مذکور ہے اسے کوئی انسان کس طرح ساقط کر سکتاہے۔ہمارے یہاں دو دھ شریک بھائی بہن میں شادی حرام ہے، یو سی سی کی نظر میں یہ تو کوئی ایسی بات نہیں، جس سے رشتہ کرنے میں خلل واقع ہو، بچے کی پرورش وپرداخت کی ذمہ داری کن حالات میں کس کی ہے، شریعت میں سب مقرر ہے، یو سی سی اس کو بھی بدل کر رکھ دے گا۔بچے کتنے ہوں گے اس کا فیصلہ حکومت نہیں کرے گی ، یو سی سی آئے گا تو دویا تین بچے کی ہی اجازت ہوگی ، زیادہ کے خلاف پہلے بھی آواز اٹھتی رہی ہے ، لیکن یو سی سی اس پر کلیۃً پابندی لگا دے گا، آپ کا حق چلا جائے گا، شادی کے بعد طلاق کا حق یو سی سی میں دو طرفہ ہوگا اور اصلاً فیصلہ عدالت کرے گی اور جج کے فیصلہ سے طلاق نافذ ہوگا، اگر طلاق مرددے گا تو یا تو وہ نافذ العمل نہیں ہوگا ، کیوں کہ یو سی سی کے مطابق دونوں چاہیں گے تب طلاق واقع ہوگی، چلیے مان لیتے ہیں کہ طلاق ہو بھی جائے تو یو سی سی آپ کو مطلقہ عورت کو تا زندگی یا تا نکاح ثانی گذارہ بھتہ دینے پر مجبور کردے گا، حالاں کہ عورت کا نفقہ نکاح کی وجہ سے مرد کے ذمہ تھا، اب وہ اس کی بیوی نہیں ہے تو نفقہ شوہر کیوں دے ؟ اس کو یہ کہہ کر رد کر دیا جائے گا کہ اب وہ کہاں جائے گی ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس کا شوہر مرجاتا تووہ کہاں جاتی جو لوگ اس کو دیکھتے اس کی خبر گیری کرتے وہی اس کو دیکھیں گے، اس میں کوئی مضائقہ بھی نہیں ہے، شریعت نے اس سلسلہ میں واضح کر دیا ہے کہ اگر اس عورت کے پاس مال ہوتا تو جس تناسب سے وارثوں کو ملتا اب اس کے پاس مال نہیں ہے تو وہ سب ملنے والے مال کے تناسب سے اس کی کفالت کریں گے۔ عورت طلاق یا شوہر کے مرنے کے بعد عدت گذارتی ہے یو سی سی میں اس کی کوئی جگہ نہیں ہوگی، طلاق کے بعد عورت نے کسی دوسرے مرد سے شادی کیا ، نباہ نہیں ہوا اور وہ پھر سے پہلے شوہر سے شادی کرنا چاہتی ہے تو اسے حلالہ کہہ کر رد کر دیا جائے گا۔
یو سی سی سے ترکہ کی تقسیم کا عمل بھی متاثر ہو گا، ان کے نزیک لڑکا لڑکی برابر ہیں، اس لیے حصہ بھی برابر دینا ہوگا، دو اور ایک کا فارمولہ نہیں چلے گا، جو انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہوگا، اس لیے کہ سارا مالی بوجھ لڑکوں پر ہوگااور حصہ ذمہ داری کی ادائیگی کی بنیادہیں پر فرضی مساوات کے نام پر قائم ہوگا۔یتیم پوتے اور گود لیے ہوئے بچوں کو بھی حصہ دینا ہوگا، اس کے لیے شریعت میں وصیت کا مضبوط نظام ہے اور ایک تہائی تک وصیت کی گنجائش ہے، لیکن جسے ترکہ میں حصہ کہتے ہیں اسے نہیں ملتا ہے اس لیے کہ ان کو ترکہ میں حصہ دینے سے جن کے حصص قرآن میں مذکور ہیں ان میں کمی بیشی آئے گی اور یہ قرآنی حکم کے خلاف ہوگا۔ متبنی بنانے کی شکل میں یو سی سی کے ذریعہ حقیقی باپ کی جگہ گود لینے والے کو باپ قرار دیا جائے گا اور سارے کاغذات میں باپ کی جگہ غیر باپ کا نام درج ہوگا یہ تو ہمارے سماج میں گالی ہوا کرتی ہے، اور پوری زندگی یو سی سی کے نفاذ کے بعد اس لڑکے کو اس گالی کو ڈھونا پڑے گا۔ مرنے کے بعد آخری رسوم کی ادائیگی کے لیے یو سی سی میں کیا نظم ہوگا، ابھی یہ کہنا ذرا مشکل ہے، لیکن اتنی بات یقینی ہے کہ وہ طریقہ ہمارا والا طریقہ نہیں ہوگا، یہ بھی شریعت کے خلاف ہوگا کہ ہم مردوں کے دفنانے تک کے طریقہ سے دستبردار ہو جائیں گے۔
نقصان غیر مسلم بھائیوں کا بھی کم نہیں ہوگا، ان کے یہاں تو رسم ورواج مذہب سے زیادہ ذات کی بنیاد پر ہیں، علاقہ بدلنے سے ان کے دیوی دیوتا بدل جاتے ہیں، نظام زندگی بدل جاتا ہے، ناگالینڈ کے ایک قبیلہ میں لڑکا بیاہ کر لڑکی کے گھر جاتا ہے، جنوب میں بھانجی سے شادی کرنا اچھا سمجھا جاتا ہے، ہمارے علاقہ میں چچیرے، پھوپھیرے، ممیرے، خلیرے بھائی بہن کے درمیان بھی رشتہ نہیں ہوتا، ان کے یہاں ہر برادری میں مختلف انداز کی روایت پائی جاتی ہے، جس سے وہ بھی دست بردار نہیں ہو سکیں گے، کیوں کہ محققین ہندو کو مذہب کے بجائے طریقۂ زندگی ہی قرار دیتے ہیں ، یہ طریقہ زندگی بدلا تو ان کا سب کچھ بدل کر رہ جائے گا، ان کے یہاں پہلے سے رائج ہندو میریج ایکٹ وغیرہ پر بھی اچھی خاصی زد پڑے گی، ان کے یہاں عبادتیں بھی الگ الگ ریاستوں میں الگ الگ دیوی دیوتا ؤں کی ہوتی ہیں، مہاراشٹر میں عقیدت اورتوجہ کا مرکز ’’گنپتی‘‘ بہار میں چھٹ اور درگا پوجا، مغربی بنگال میں کالی پوجا کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے، ہر گھر میں الگ الگ دیوی دیوتا پنڈت جی کے کہنے کے مطابق پوجے جاتے ہیں، یو سی سی میں ان کا کیا حشر ہوگا، قبل از وقت کہنا مشکل ہے۔اس طبقہ کو اطمینان ہے کہ یونی فارم سول کوڈ کے لفافے سے جو بر آمد ہوگا وہ ہندوؤں کے حسب حال ہوگا۔
سکھوں کا معاملہ اور گڑ بڑ ہوگا ان کے یہاں چار کاف کرپان، کڑا، کچھا اور کیش (بال) کی بڑی اہمیت ہے اور ان کو مذہبی شعار سمجھا جاتا ہے، اسی لیے ان کو ہوائی جہاز میں کرپان لے کر چلنے اور بغیر ہیلمیٹ کے پگڑی کے ساتھ بائیک چلانے پر کوئی دارو گیر نہیں ہے، جب کہ ہم سے سیکوریٹی کا حوالہ دے کر بلیڈ، قینچی وغیرہ تک لے لیا جاتا ہے، ہمیں ٹوپیوں پر ہیلمیٹ لگانے ہوتے ہیں، جب یو سی سی آئے گا تو ان کو بھی کرپان چھوڑ دینا پڑے گا، اور ہیلمیٹ پہننا ہوگا، ظاہر ہے سکھ قوم کو یہ منظور نہیں ہوگا، اور اس سے حکومت ہند کے ساتھ ان کے ٹکراؤ کی فضا بنے گی ۔اسی لیے دربار صاحب سے اعلان ہو گیا ہے کہ سکھ یونی فارم سول کوڈ کے سخت خلاف ہیں، ضرورت پڑی تووہ سڑکوں پرکرنے سے بھی باز نہیں آئیں گے۔
 یہی حال عیسائی، پارسی، جینی، بدھسٹ وغیرہ کے ساتھ ہوگا، یو سی سی کہیں نہ کہیں ان کے اقدار کو بدل کر رکھ دے گا جو انہیں منظور نہیں ہوگا، جینیوں کے بعض مذہبی پیشوا ننگے رہتے ہیں، اسے قانون کے ذریعہ ختم کر دیا جائے گا، ہمارے نزدیک بھی ننگا رہنا کوئی اچھا کام نہیں ہے، لیکن جن کے مذہب میں یہ روا ہے وہ تو اس کے خلاف جائیں گے، اس سے ملک میں ٹکراؤ کی فضا پیدا ہوگی اور ملک کی سا لمیت انتشار کا شکار ہو کر رہ جائے گی۔
 آدی باسیوں کے لیے یو سی سی صرف رسم ورواج کو بدلنے کا ذریعہ نہیں بلکہ اقتصادی طور پر ان کو کمزور کرنے کے مترادف ہے، کیوں کہ یو سی سی میں اس کی گنجائش باقی نہیں رہے گی ، یہی درج فہرست ذات اور فہرست قبائل کا ہوگا اس لیے یہ سب بھی یو سی سی کے خلاف ہیں۔اس طرح دستور ساز کمیٹی میں بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر کی یہ پیش گوئی سچ ثابت ہوگی کہ کوئی پاگل حکومت ہی اس طرح کا اقدام کرے گی، ہم اس حکومت کو پاگل نہیں کہتے، لیکن بابا صاحب کی رائے اس معاملہ میں واضح تھی اور ہم اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ ان کی بات کو جھٹلا سکیںیا رد کر دیں ، کیوںکہ حالات وآثار تو کچھ ایسے ہی ہیں۔
 حکومت خود سمجھتی ہے کہ اس کے اثرات کہاں کہاں پڑیں گے، اسی لیے حکومت نے عیسائیوں اور قبائل کو یونیفارم سول کوڈ سے الگ رکھنے پر گور شروع کر دیا ہے اس کا آغاز پارلیامنٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی کی میٹنگ میں بھاجپا کے لیڈر سوشل کمار مودی نے کیا تھا، انہوں نے شمال مشرق کے علاقے اور قبائل کو باہر رکھنے کی زبردست وکالت کی تھی، کیوں کہ ان علاقوں اور قبائل سے حکومت کو سخت رد عمل کا خوف ہے، اور اس پر کام قبائلیوں نے شروع کر دیا ہے، ناگا لینڈ کے وزیر اعلیٰ نیفیوریو نے گذشتہ ۴؍ جولائی کو ۱۲؍ رکنی وفد کے ساتھ وزیر داخلہ امیت شاہ کے سامنے اپنا موقف رکھ دیا تھا، ناگالینڈ حکومت کی پریس ریلیز میں اس ملاقات کے نتیجہ کے طور پر امیت شاہ کا یہ جملہ نقل کیا گیاہے، حکومت عیسائیوں اور چند قبائلی علاقوں کو بائیسویں لاء کمیشن کے دائرہ کار سے باہر رکھنے کے لیے فعال طور پر کام کر رہی ہے۔ معاملہ صاف ہو گیا کہ جس طرح ۳۷۰؍ ختم کر دیا گیا تھا، سی اے اے، این آر سی میں سارے مذاہب کو مسلمانوں کو چھوڑ کر شہریت دینے اور مسلمانوں کو چُن چُن کر نکالنے کی بات کہی گئیتھی، اور ۲۷۱؍ کو باقی رکھ کر قبائلیوں کو مطمئن کیا گیا تھا، یوسی سی میں ایسا ہی کچھ ہونے والا ہے ۔ یعنی
 برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر 
  مجبوری یہ ہے کہ وہ بے روزگاری، مہنگائی، افراط زر، اقتصادی نمو میں کمی ، گھریلو صنعتوں کو در پیش مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانا چاہتی ہے، نو سال میں حکومت نے جو کچھ کیا ہے، اس کے سہارے وہ انتخاب ہیں کامیاب نہیں ہو سکتی، اس لیے یو سی سی کے انتخاب میں کامیاب ہونا چاہتی ہے یوں بھی بابری مسجد کی جگہ رام مندر بنانے اور تین طلاق کو کالعدم کرنے کے بعد یو سی سی کے علاوہ کوئی مُدَّا اس کے پاس بچا نہیں ہے، اس لیے وہ اس ملک کے دستور کو ہی داؤ پر لگانے پر تُلی ہوئی ہے۔

جمعرات, جولائی 13, 2023

ماہ محرم الحرام کے موقع پر سلسلہ وار اصلاحی پروگرام

ماہ محرم الحرام کے موقع پر سلسلہ وار اصلاحی پروگرام 
اردودنیانیوز۷۲ 
الحمدللہ  بتاریخ 12 جولائی 2023بروز بدھ کو تحفظ شریعت ویلفیئر سوسائٹی جوکی ہاٹ وپلاسی بلاک کے بینر تلے محرم الحرام کے سلسلہ سے ایک اہم موضوع محرم الحرام کے شرعی حقوق وفضائل وخرافات کے عنوان پر سرزمین دیگھلی کے مرکزی مسجد میں ایک پروگرام رکھا گیا
جس میں مہمان خصوصی کے طور پر مولانا الحاج عبدالسلام عادل ندوی صاحب کی کلیدی خطاب ہوئی ماشاءاللہ پروگرام میں مزید مولانا نے یکساں سیول کوڈ کے حساس موضوع پر بھی روشنی ڈالی جس سے لوگ بااکل ناواقف تھے بروقت مجموعی طور پر اکٹھا تمام احباب نے عہد لیا ہم سب آج ہی اس کام کی تکمیل کا ذمہ داری لیا کہ ہم لوگ ان شاءاللہ اس کام کو بہت جلد مکمل کریں گے مولانا کی پر مغز خطاب کے بعد مولانا عبدالوارث مظاہری نے تحفظ شریعت کی اس سلسلہ وار پروگرام اور اس کے فائدے سے لوگوں کو بیدار کیا مزید یہ بھی کہاکہ یہ تنظیم الحمدللہ ہر محاذ پر آپکی آواز سے آواز ملانے کیلئے ہمہ تن تیار رہتی ہے جو گزشتہ کئی اہم وقت پر یہ تنظیم اپنا کارنامہ پیش کرچکی ہے جو قابل مبارکباد ہے 
مولانا فیاض احمد راہی نے تحفظ شریعت کی مکمل کارگزاری سے لوگوں کو روشناس کرایا اور 30 روپے ماہانہ امداد کا جو سلسلہ زوروں پر ہے اس سے بھی عوام کو واقف کرایا اور کہا یہ تنظیم آپکی اپنی تنظیم ہے اسلئے اس تنظیم کو آپکی محبت کی اشد ضرورت ہے حافظ محمد عادل صاحب نے والدین کے عنوان پر اچھے انداز میں بیان فرمائے اور مولانا محمد انوار صاحب مظاہری نے حالات حاضرہ پر گفتگو فرمائی اور آخیر میں زیرصدارت تمہیدی گفتگو کے بعد دعاء فرماکر مجلس اختتام ہوگئی پروگرام میں شریک رہے عبدالقدوس صاحب راہی قاری محمد خطاب قاری محمد معصوم رحیمی حافظ عبدالقدوس اور دیگھلی کے اکثر لوگ موجود تھے ، 
اللہ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین
            نیک خواہشات 
راقم الحروف 
العبد فیاض احمدراھی سوناپور

بدھ, جولائی 12, 2023

ترکیہ اور اس کی قیادت ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

ترکیہ اور اس کی قیادت  _
Urudduinyanews72
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

ترکیہ (سابق نام ترکی) سے ہندوستانی مسلمانوں اورعالم اسلام کا بڑا گہرا تعلق رہا ہے ، یہاں کی خلافت عثمانیہ سولہویں اور سترہویں صدی میں دنیا کی سب سے بڑی سیاسی قوت تھی ، چھ سو اکتیس (631)سال تک قائم اس حکومت کے زوال کا آغاز پہلی جنگ عظیم سے ہوا، جب اس نے جرمنی کا ساتھ دیا اور شکست کھانے کے بعد سیورے معاہدہ کے مطابق فاتح اتحادی قوتوں نے اسے ٹکڑے ٹکڑے کر کے تقسیم کر دیا ، 19؍ مئی 1919ء کو اس جارحیت کے خلاف ترکوں نے مصطفیٰ کمال پاشا کی قیادت میں تحریک آزادی کا اعلان کیا اور 18؍ ستمبر 1922ء کو غیر ملکی افواج سے ملک کو خالی کرالیا گیا  اور جمہوریہ ترکی کے نام سے ایک نئی ریاست تشکیل پائی ، یکم نومبر 1922ء کو ترکی کی مجلس پارلیمان نے خلافت کا خاتمہ کر دیا ، جس کی وجہ سے پوری دنیا کے مسلمانوں میں اضطراب اور بے چینی پیدا ہوئی، ہندوستان میں خلافت کے احیاء کے لیے تحریک چلائی گئی ، جو تاریخ میں خلافت تحریک کے نام سے موسوم ہے اور جنگ آزادی کی تحریک کے بعد ہندوستان کی سب سے بڑی تحریک سمجھی جاتی ہے ۔
مصطفی کمال پاشا اپنی سیاسی حصولیابی کے طفیل اتاترک (ترکوں کا باپ) بن بیٹھا ، اس نے ملک میں اصلاحات کا سلسلہ شروع کیا اور مذہبی تشخص کے خاتمہ کی جتنی کوششیں ہو سکتی تھیں، کر ڈالیں ، اس نے عربی پر پابندی لگایا ، ترکی زبان کے رسم الخط کو بھی عربی سے لاطینی کی طرف منتقل کر دیا اور ملک میں لا دینی حکومت کے قیام کا اعلان کر دیا ، 1938ء میں مصطفی کمال پاشا کے انتقال کے بعد ان کے نائب عصمت انونو بھی اسی کے نقش قدم پر چلتے رہے اور اصلاح کا عمل جاری رکھا ۔ 
ترکی کے آئین کے مطابق’’ مسلح افواج ترک آئین وسلامتی کی محافظ ہے‘‘ ، اس جملے کا سہارا لے کر فوج نے متعدد بار جمہوری حکومتوں کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا ، سب سے بڑی بغاوت 1960ء میں وزیر اعظم عدنان میندرس کے خلاف ہوئی تھی ، عدنان کا قصور یہ تھا کہ اس نے اپنی اصلاحات کے ذریعہ ترکوں کوسیکولرزم کے نئے معنی ومفاہیم سے آشنا کیا اور مذہب اسلام پر مصطفی کمال پاشا کے ذریعہ لگائی گئی پابندیوں کے اختتام کا اعلان کیا ، فوج کو یہ گوارہ نہیں ہوا، اور عدنان کا تختہ پلٹ کر فوج نے اسے تختہ دار پر چڑھا دیا۔
 1980ء میں مخلوط حکومت کے خلاف فوج نے پھر بغاوت کی اور اقتدار پر قبضہ کرکے ہزاروں مخالفین کو قید کر لیا اور کئی کو سزائے موت دی گئی ، لیکن جلد ہی عوام کے رخ کو دیکھ کر ترکی میں نیا آئین 1982ء میں نافذ ہوا ، لیکن فوج اقتدار پر قابض رہی ، بالآخر 1989ء میں طور غوث اوزال صدر بنے اور فوج اپنے بیرکوں میں واپس گئی ، اوزال نے انتہائی تدبر اور فراست کے ساتھ ترکی کی گرتی ہوئی معیشت کو نئے خطوط پر استوار کیا ، معاشی اصلاحات کی وجہ سے عالمی برادری میں ترکی کا وزن بڑھا ، مئی 1993ء میں ان کے انتقال کے بعد سلیمان دیمرل صدر منتخب ہوئے اور جون 1993ء میں راہ حق پارٹی کی جانب سے پہلی خاتون وزر اعظم تانسو چیرل نے کام شروع کیا ، ملک تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ چلتا رہا ، 1995ء کے انتخاب میں پہلی بار اسلامی افکار ونظریات کے لیے مشہور رفاہ عام پارٹی ترکی میں سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری اور نجم الدین اربکان وزیر اعظم بنے، لیکن وہاں کی قومی سلامتی کونسل سے ان کے اختلافات ہوئے، کیونکہ دونوں دو،سِرے پر تھے، اربکان اسلامی نظریات واقدار کو ملک میں رائج کرنا  چاہتے تھے جب کہ کونسل ترکی کے لا دینی نظام اور مغربی افکار ونظریات کو فروغ دینا چاہتی تھی ، اسے خطرہ تھا کہ کہیں ملک اسلامی راہ پر نہ چل پڑے ؛چنانچہ اس نے اربکان پر مستعفی ہونے کے لیے دبا ؤ بنایا، اربکان اس دباؤ کا مقابلہ نہیں کر سکے اور انہیں نہ صرف استعفا دینا پڑا بلکہ ان پر کونسل نے پوری زندگی سیاست میں حصہ لینے پر پابندی لگادی ، اس کے بعد کئی اتار چڑھاؤ آئے، جس کے نتیجے میں بلند ایجوت وزیر اعظم بنے اور 5؍ مئی 2000ء کو ترکی عدالت عالیہ کے سابق سر براہ احمد نجدات صدر منتخب ہوئے، اور 16؍ مئی کو صدارتی عہدے کا حلف لے کر صدارتی محل میں قیام پذیر ہوئے، یہ صدارتی محل انقرہ کے مضافات میں ایک پہاڑی پر واقع ہے ایک ہزار کمروں پر مشتمل یہ محل امریکہ کے وہائٹ ہاؤس اور روس کے کریملن سے کافی بڑا ہے ، اکسٹھ کڑوڑ پچاس لاکھ ڈالر سے زائد اس کی تعمیر پر خرچ ہوئے تھے یہ صدارتی محل ترکی کی شان ، آن بان کا تاریخی طور پر شاہد ہے ۔ 
 موجودہ صدر رجب طیب اردوگان جنہوں نے تیسری بار صدارتی انتخاب میں فتح حاصل کی ہے، اپنے اسلامی خیالات کے لیے مشہور ہیں ، ان کی ایک مشہور نظم ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ مسجدیں ہماری چھاؤنیاں ہیں ، گنبد ہمارے خود (سر کی حفاظت کر نے والا لوہے کا ٹوپ) مینار یں ہماری سنگینیں اور مؤمن ہمارے سپاہی ہیں، اردوگان 1954ء میں بحر اسود کے ساحلی علاقے میں ایک گارڈ کے گھر پیدا ہوئے، بعد میں اپنے والد کے ساتھ نقل مکانی کرکے استنبول آئے، معاشی طور پر خود کفیل ہونے کے لیے ا نہوں نے روغنی روٹیاں فروخت کیں ، مدرسہ میں تعلیم حاصل کی ، فٹ بال کے پیشہ ور کھلاڑی رہے ، مرمر یونیورسٹی استنبول سے منیجمنٹ کی ڈگری حاصل کی ، زمانہ طالب علمی میں نجم الدین اربکان کے قریب آئے ، ان کے خیالات سے متاثر ہوئے، 1994ء میں استنبول کے میر(Mayor) بنے اور پورے شہر کو لا لہ زار بنا دیا ، پیڑ پودے اور ہر یالی سے یہ شہر سج سنور گیا ، لیکن 1999ء میں ان پر مذہبی بنیادوں پر اشتعال انگیزی کا الزام لگا کر قید میں ڈال دیا گیا ، جہاں انہیں چار ماہ گذارنے پڑے ، اس سزا کے بعد انہوں نے سیاست میں اپنی پکڑ مضبوط کی ، عوام ان کے لیے فرش راہ ہوئی اور بالآخر اے کے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد پہلے 2003ء میں وزیر اعظم اور پھر 2014ء میں صدر کے منصب پر فائز ہوئے ،فوج نے ایک بار بغاوت کی جسے عوام نے کچل کر رکھ دیا، یہ اردگان کی مقبولیت کی انتہاتھی، انہوں نے ناٹو کے رکن ہونے کے با وجود اسلامی اصلاحات کی اپنی کوششیں جاری رکھیں ، اس کوشش کے نتیجے میں ملک میں جو ماحول بنا، اس کی وجہ سے معاشی ترقی ہوئی ، روزگار کے نئے مواقع فراہم ہوئے، ملک سے قرض کا بوجھ کم ہوا، 24 نئے ایر پورٹ بنائے گیے اب ان کی تعداد پچاس ہو گئی ہے ، ہزاروں کلو میٹر نئی سڑکیں اور ہائی اسپیڈ ریلوے لائن بچھائی گئی ، صحت کے محکمہ پر توجہ دی گئی اور غریب عوام کے لیے مفت طبی مراکز بنائے گیے ، بجٹ کا بڑا حصہ تعلیم کے لیے مختص کیاگیا ، یونیورسیٹیوں کی تعداد بڑھائی گئی ،ترک کرنسی لیراکی قدر وقیمت میں غیر معمولی اضافہ ہوا، یہ وہ وجوہات ہیں ، جس نے صدر رجب طیب اردوگان کو ملک میں مقبول بنا رکھا ہے ، اس مقبولیت کا نتیجہ ہے کہ وہ تیسری بار صدارت کے با وقار منصب پر فائز ہوئے ہیں، ان کی مقبولیت کو لوگ ان کی دہشت سے تعبیر کرتے ہیں ، غیر ملکی میڈیا انہیں تانا شاہ اور ڈکٹیٹر باور کرانا چاہتا ہے، جو ان کے دل کے پھپھولے ہیں، تانا شاہ اور ڈکٹیٹر اتنا مقبول ومحبوب نہیں ہوتا کہ مغربی قوتوں کی سخت ترین مخالفت کے باوجود تیسری بار فتح حاصل کرلے۔

نایاب ہورہی فصلیں ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

نایاب ہورہی فصلیں ___
Urudduinyanews72
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
پوری دنیا میں عموماً اور ہندوستان میں خصوصاً بہت ساری فصلیں اور اناج ہمارے کھیتوں سے رخصت ہوچکے یا ہوتے جارہے ہیں ، عجیب وغریب با ت یہ ہے کہ جانوروں کی بعض نسلوں کے ختم ہونے کی فکر سرکار کو زیادہ ہے اور جن جانوروں کی نسلیں ہندوستان سے نایاب ہورہی ہیں انہیں موٹی قیمت اور بڑے خرچ پر ہندوستان لاکر چڑیا خانے میں رکھا جارہا ہے اور مرکزی حکومت اس کا فخریہ ذکربھی کرتی ہے، مثال کے طور پر چیتا کا ذکر کیا جا سکتا ہے ، جس کے باہر ملک سے لانے پر سوشل اور الکٹرونک میڈیا نے زمین وآسمان کے قلابے ملا دیے اور خوب واہ واہی ہوئی۔
جانوروں کی نسلوں کی جس قدر حفاظت کی فکر حکومت کو ہے ویسی فکر نایاب ہورہی فصلوں، غلوں اور اناج کے سلسلے میں نہیں کی جا رہی ہے۔ اناج کی بہت ساری قسمیں جو غذائیت سے بھرپور تھیں اور صحت کے لئے انتہائی مفیدتھیں ہماری نئی نسلوں نے ان کا نام تک نہیں سنا ہے، جیسے جوار ، باجرہ ، ساما ، کونی، کودو، مڑوا، رام دانا ، کنگنی، الوا(شکرقند) سُتھنی، کٹکی وغیرہ۔ آج کسان اس کو اگانے سے اس لئے بیزار ہے کہ ہماری تھالی سے یہ اناج غائب ہوگئے ہیں۔اناج کا استعمال نہ ہوتو اس کے دام بازار میں نہیں ملتے، کھانے میں ان کی افادیت اور غذائیت جتنی ہو، یہ موٹے اناج کہے جاتے ہیںاور دسترخوان پر مہمانوں کے سامنے اسے پیش نہیںکیا جاتا ہے ۔ اس کے باوجود ہندوستان جیسے ملک میں جہاں کی آبادی اب چین سے زیادہ ہو گئی ہے ان فصلوں کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے۔
یہ حالات ایسے ہی نہیں پیدا ہوئے ،۱۹۶۰ کی دہائی میں سبز انقلاب کے نام پر ہندوستان کے روایتی کھانے کو غائب کر کے گیہوں چاول اور مکئی کی کھیتی کو بڑھاوا دیاگیا اور دوسری فصلوں کے مقابلے اس کی قیمت مارکیٹ میں زیادہ مقرر ہوئی، کسان پورے طور پر اس طرف راغب ہوگئے اور دھیرے دھیرے موٹے اناج کا اگانا بند کر دیا۔
ابھی بھی سرکار کی توجہ ان فصلوں کے واپس لانے کی طرف نہیں ہے، زرعی سائنسدانوں کے متوجہ کرنے سے تھوڑا سااحساس جاگا ہے، یہ احساس اندرون ملک کے لیے نہیں ، عالمی برادری کے لیے ہے ، اسی لیے موٹے اناج کے استعمال اور اس کی پیدارار کو بڑھانے کے لیے ہندوستانی حکومت نے اقوام متحدہ کو ایک تجویز بھیجی تھی ، اقوام متحدہ نے اس تجویز کو منظور کرکے ۲۰۲۳ء کو ’’عالمی موٹا اناج سال‘‘ قرار دیا ہے۔ وزیر خزانہ نرملاسیتارمن نے اپنے بجٹ میں جو فروری میں پیش کیا گیا تھا اور جس میں وزیر خزانہ نے موٹے اناج کی اہمیت اور ہندوستان کے روایتی کھانے کو پوری دنیا میں متعارف کرانے کے لیے ’’شری انن یوجنا ‘‘ شروع کرنے کا وعدہ کیا تھا یہ وعدہ اب تک وعدہ کی منزل سے آگے نہیں بڑھ سکا ہے۔
موٹے اناج کی فصل اگانے میں محنت بھی کم پڑتی ہے، پانی کا استعمال بھی گیہوں وغیرہ کی طرح نہیں ہوتا ، اور اس میں کیمیاوی کھاداور جراثیم کش دواؤں کے استعمال کی بھی حاجت نہیں ہوتی، فصل کاٹ کر اس کا باقی حصہ جانور کے چارے کے طور پر استعمال کر لیا جاتا ہے ، ان کوجلانے کی ضرورت نہیں ہوتی ، جس کی وجہ سے فضائی آلودگی نہیں پیدا ہوتی اور اس کا خطرہ بھی باقی نہیں رہتا۔ کورونا کے بعد یہ اناج جسم کی دفاعی قوت کو مضبوط کرنے کے لیے استعمال کئے جاتے رہے اور اس طرح ان فصلوں کی اہمیت کسی درجہ میں سامنے آئی ۔
ملک کی زرعی یونیورسیٹیوں میں موٹے اناج پر تحقیق کا کام چل رہا ہے، جن ریاستوں نے اس کی اہمیت کو سمجھ لیا ہے وہاں ان کی کھیتی بڑے پیمانے پر ہونے لگی ہے، کرناٹک ، راجستھان ، گجرات ، مدھیہ پردیش اور مہاراشٹرا میں ان فصلوں پر توجہ دی جارہی ہے لیکن شمالی ہندوستان بشمول بہارمیں ابھی کام شروع نہیںہوا ہے، حالانکہ موٹے اناج میں کلشیم، آئرن ، جنک ، فاسفورس، مینگنی شیم ، پوٹاشیم، فائبر، وٹامن ، کیروٹن، لیسی تھین وغیرہ کی موجودگی کی وجہ سے امراض قلب شوگر، تنفس وغیرہ میں راحت ہوتی ہے، تھائرائٹ ، یورک ایسیڈ ،کڈنی، لیورکے امراض بھی ان موٹے اناج کے استعمال سے قابو میں رہتے ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ اس سلسلے میں عوامی سطح پر بیداری لائی جائے اور اس بیداری کو عملی رنگ وروپ دینے کے لئے سرکار اور حکومت کا تعاون ملے،بازار میں ان فصلوں کی مناسب قیمت سرکار مقرر کرے، ورنہ جس طرح جانوروں کی بعض نسلیں ختم ہوگئیں ان فصلوں کا بھی نام ونشان مٹ جائے گا اور آنے والی نسل جانے گی ہی نہیں کہ کبھی یہ اناج ہماری تھالی کی رونق ہوا کرتے تھے۔

پیر, جولائی 10, 2023

مناظر اسلام حضرت مولانا سید طاہرگیاوی صاحب کا انتقال علمی دنیا کا بڑا خسارہ__ مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی

مناظر اسلام حضرت مولانا سید طاہرگیاوی صاحب کا انتقال علمی دنیا کا بڑا خسارہ__ مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی
Urudduinyanews72
پٹنہ 10 جولائ (عبدالرحیم برہولیاوی/پریس ریلیز)
مناظر اسلام، فقہ حنفی اور مسلک دیوبند کے ترجمان معروف علمی شخصیت حضرت مولانا سید طاہرگیاوی صاحب کے انتقال پر اپنے دلی جذبات کا اظہار کرتے ہوئے امارت شرعیہ کے نائب ناظم اور وفاق المدارس الاسلامیہ کے ناظم اعلیٰ مولانا مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی صاحب نے ان کے انتقال کو علمی دنیا کا بڑا خسارہ قرار دیا ہے.آپ نے کہا کہ حضرت مولانا طاہر گیاوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے نصف صدی سے زائد عرصہ تک پوری دنیا میں فقہ حنفی اور مسلک دیوبند کی ترجمانی کی اور اپنی پوری زندگی اس کام کے لیے وقف کر دیا. اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس حوالے سے بڑی مقبولیت اور محبوبیت عطا کی تھی.
آپ کا خطاب بڑا پر اثر اور دلائل و براھین سے پر ہوتا،علمی اور فقہی نکات سے بھر پور اور مسکت جواب سے وہ مخالفین کو لا جواب کر دیا کرتے تھے، اللہ نے آپ کو زبان و قلم کا یکساں ملکہ دیا تھااور ایک لمبی مدت تک آپ نے اپنی تقریر و تحریر کے ذریعہ فقہ حنفی خاص کر مسلک دیوبند کا مضبوط دفاع کیا.
ان کے انتقال سے علمی دنیا میں ایسا خلاء پیدا ہو گیا ہے جس کی تلافی میں بڑا وقت لگے گا، اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے سرفراز کرے، پسماندگان کو صبر جمیل اور ملت کو نعم البدل عطا فرمائے آمین

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمینائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ ورکن آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ___

مفکر ملت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی حفظہ للہ
اردودنیانیوز۷۲
 ✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ ورکن آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ___

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے نو منتخب سکریٹری، امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ کے آٹھویں امیر شریعت،خانقاہ رحمانی مونگیر کے سجادہ نشیں،جامعہ رحمانی،رحمانی تھرٹی،رحمانی فاؤنڈیشن اور درجنوں مدارس اسلامیہ کے سر پرست،امیر شریعت رابع حضرت مولانا منت اللہ رحمانیؒ کے آنکھوں کا تارہ،امیر شریعت سابع مفکر اسلام حضرت مولانا محمد ولی رحمانی ؒ کے خلف اکبر،وفاق المدارس الاسلامیہ کے صدر،خانقاہ،جامعہ،امارت شرعیہ کے ہزاروں معتقدین،متوسلین اور محبین کے مرجع اور مربی،مفکر ملت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی دامت برکاتہم کی ولادت 12/مئی1975ءکو خانقاہ رحمانی مونگیر میں ہوئی،خانقاہ اور جامعہ رحمانی کے روحانی اور علمی ماحول میں پلے،بڑھے،کچھ بڑے ہوئے تو جامعہ رحمانی کے اساتذہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا،اور ان کے فیوض وبرکات کو اپنے ذہن ودماغ میں سمیٹا،اجازت حدیث سند عالی کے ساتھ حضرت مولانامحمد یحیٰ ندوی(م 2023)سے پائی،عربی زبان و ادب میں مہارت تامہ حاصل کرنے کے لئے جامعہ ازہر مصر کے بڑے اساتذہ کے زیر درس رہے،اور عربی بولنے لکھنے پر قدرت حاصل کی،عصری علوم کے لیے امریکہ کا سفر کیا اور وہاں سے انجینئرنگ کی اعلی تعلیم پائی، انہیں اردو کے علاوہ عربی اور انگریزی زبان میں مہارت حاصل ہے،ان زبانوں میں جب حضرت بولنے لگتے ہیں تو ان کی مادری زبان کی طرح معلوم ہوتی ہے، علوم و فنون سے فراغت کے بعد آپ نے اپنی خدمات امریکہ کی مختلف کمپنیوں کو دیں،2001ءسے خدمات کا سلسلہ شروع ہوا، بہت ساری کمپنیوں میں مختلف مناصب اور عہدے پر آپ نے کام کیا، امریکہ کی مشہور یونیورسٹی کیلی فورنیانے بھی آپ کی خدمات حاصل کیں اور آپ کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا، اکتوبر2015ءمیں حضرت امیر شریعت صاحب رحمة اللہ علیہ نے فاتحہ کی مجلس کے موقع سے اگلے سجادہ نشیں کے لیے ان کے نام کا اعلان کیا، حضرت کے وصال کے بعد 9/ اپریل 2021 کو حضرت کے خلفاءکی موجودگی میں آپ کے سر پر دستار باندھی گئی اور روایتی خرقہ زیب تن کرایا گیا،9/ اکتوبر2021 ءکو ارباب حل و عقد امارت شرعیہ نے کثرت آراءسے آپ کوامیر شریعت منتخب کیا اور 3/ جون 2023 کو آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے 28ویں اجلاس اندور مدھیہ پردیش میں آپ سکریٹری منتخب ہوئے، اس طرح آپ کے کندھوں پر ذمہ داریوں کا بوجھ بڑھتا چلا گیا، ہم سب کو دعا کرنی چاہیے کی صحت و عافیت کے ساتھ اللہ تعالیٰ آپ کو درازیءعمر عطا فرمائے تاکہ آپ ملت کی بیش بہا خدمات انجام دے سکیں، 
 حضرت امیر شریعت دامت برکاتہم کا اپنا ایک نظریہ اور کام کے تئیں ان کا ایک وژن ہے، انہوں نے امارت شرعیہ کے تمام شعبوں کو فعال، متحرک اور مزید بااثر بنانے کے لیے کئی اقدام کئے، کئی شعبوں کا اضافہ کیا،دارالقضاءاور شعبہ تعلیم پر خصوصی توجہ مرکوز کی اور نئے نصاب تعلیم کی ترتیب کے لئے کمیٹی بنائی،اسی طرح دارالقضاءکی تعداد آپ کے وقت میں کافی بڑھی، خود کفیل مکاتب کامنصوبہ 1965 میں ترتیب پایا تھا،اشتہارات اور کیلنڈر کے ذریعہ اسکی تشہیربھی کی گئی تھی؛ لیکن زمین پر کام حضرت کے وقت میں ہی اتارا جا سکا، امارت شرعیہ کی غیر منقولہ جائیداد کے تحفظ کے لئے اصلاحات اراضی اور اوقاف کی جائیداد کی صورت حال سے واقفیت کے لئے بھی حضرت نے شعبے قائم کئے۔
  حضرت اپنے والد محترم کی طرح ہی تھکنا نہیں جانتے مسلسل دورے اور کاموں میں انہماک آپ کی خصوصیت ہے، آپ کی سادگی تواضع، انکساری،کسی بھی بھول چوک پر معذرت پیش کرنا، اپنا سامان خود اٹھانا اور مشکل حالات میں بھی انفعالی کیفیت سے دوچار نہ ہونا، آپ کی زندگی کا لازمہ ہے،بات غور سے سنتے ہیں اور اپنی بات دو ٹوک رکھنے کے عادی ہیں،حق واضح ہونے کے بعدلیت ولعل کا مزاج نہیں ہے،سیدھے سیدھے قبول کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے، جہانگیر نے مظلوموں تک پہنچنے کے لئے ایک رسی باندھ رکھی تھی جس کو کھینچنے سے جہانگیر تک گھنٹی کی آواز پہنچ جاتی تھی اور مظلوم انصاف پالیتاتھا، اسی طرح حضرت نے ایک لیٹر بکس اپنی آفس کے سامنے لگا رکھا ہے، چابی حضرت کے پاس ہی رہتی ہے آپ اگر اپنی بات نہیں کہہ پا رہے ہیں یا ملاقات نہیں ہوپا رہی ہے تو اپنی عرضی لیٹر بکس میں ڈال دیجئے نام چھپانا چاہتے ہیں تو نام مت لکھئے، حروف سے پہچان لیے جانے کاخدشہ ہو تو کمپوز کرکے ڈال دیجئے،حضرت تک آپ کی معروضات پہنچ جائے گی،یہ امارت کی تاریخ کا پہلا واقعہ ہے، اس قسم کا سسٹم یہاں پہلے کبھی نہیں رہا۔اس لیے اسے حضرت امیر شریعت کے اولیات میں شمار کر نا چاہئے ،حضرت کاہٹو بچو کا بھی مزاج نہیں ہے،اور نہ ہی استقبال کے لئے کارندوں اور کارکنوں کی صف بندی کو پسند کرتے ہیں،کبھی کبھی تو ان کے آنے کے بہت بعدہم لوگوں کو پتہ چلتا ہے کہ حضرت تشریف لائے ہیں،ضرورت محسوس کیا تو کبھی یاد بھی کر لیتے ہیں،ضروری بات مکمل ہوگئی تو ان کی خواہش ہوتی ہے کہ کارکنان زیادہ دیر ان کے پاس نہ بیٹھیں، تاکہ دفتر کے کاموں کا حرج نہ ہو،حضرت کو کسی کی بیماری کی خبر مل جائے تو بے چین ہو جاتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ اس کی تیمار داری کریں، نہیں ممکن ہو تو فون پر ہی مزاج پرسی کر لیتے ہیں، ابھی اسی اندور کے سفر میں جس میں حضرت سکریٹری منتخب ہوئے، میری طبیعت بگڑ گئی، میں مفتی ذکاءاللہ شبلی صاحب کے یہاں چلا آیا،حضرت کو بھی وہاں آنا تھا، تشریف لائے،میری خرابی صحت کا علم ہوا تو دیر تک میرے پاس رہے، اپنے ہاتھ سے دوا لکھا اور اس وقت تک انتظار کرتے رہے جب تک دواآنہیں گئی اور اپنے سامنے مجھے کھلا نہیں دیا، جانے کے بعد فون سے کئی بار خیریت دریافت کیا صبح کو جب میں نے اپنی طبیعت ٹھیک ہونے کی اطلاع دی تو ان کو اطمینان ہوا،حضرت کی قوت تمیزی اور قوت فیصلہ اس قدر مضبوط ہے کہ وہ رطب و یابس، معاصرانہ اور حاسدانہ چشمک کو بھی خوب سمجھتے ہیں ایسے موقع سے ان کے ہونٹوں پر تبسم کی لکیریں مزید گہری ہو جاتی ہیں،ان کے پیش نظر ہمیشہ یہ بات رہتی ہے کہ کوئی خبر آئے تو اس کی تحقیق کر لی جائے،کم و بیش دو سالوں میں حضرت نے اپنی صلاحیتوں سے اداروں کے کاموں کو آگے بڑھایا ہے، امید کرنی چاہیے کہ مسلم پرسنل لاءبورڈ کا کام بھی حضرت کے سکریٹری شپ میں آگے بڑھے گا اور ملت اسلامیہ ہندوستان وستان میں اپنا وقار بلند کرنے میں کامیاب ہوگا

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...