Powered By Blogger

ہفتہ, جولائی 15, 2023

مولانا محمد اسلام قاسمیؒ __مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمینائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

مولانا محمد اسلام قاسمیؒ __
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
 
 امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ کی مجلس شوریٰ وارباب حل وعقد کے رکن، دار العلوم وقف دیو بند کے نامور استاذ، بلکہ استاذ الاساتذہ، عربی زبان وادب کے ماہر اور رمز شناس ، الثقافة اور سجاد لائبریری کے ترجمان البیان نیز ماہنامہ طیب دیو بند کے سابق مدیر محترم ، استاذ حدیث ، سادگی کے پیکر ، گفتگو سے مجلس کو قہقہہ زار بنانے والی عظیم شخصیت حضرت مولانا محمد اسلام قاسمی نے 16 جون 2023ءمطابق 26 ذیقعدہ بروز جمعہ بوقت ساڑھے آٹھ بجے صبح دیو بند واقع اپنے مکان میں اس دنیا کو الوداع کہہ دیا، وہ عرصہ سے صاحب فراش تھے، چار پانچ بار فالج کا حملہ ہوچکا تھا۔ اپنی قوت ارادی سے وہ ان حملوں کا مقابلہ کرتے رہے، لیکن وقت موعود آچکا تھا اور اس کے سامنے آدمی مجبور وبے بس ہوتا ہے، چنانچہ مولانا بھی چل بسے، جنازہ کی نماز اسی دن بعد نماز عشاءرات کے کوئی دس بجے احاطہ مولسری میں مولانا فرید الدین قاسمی استاذ حدیث دار العلوم وقف نے پڑھائی، مزار قاسمی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی، پس ماندگان میں دو لڑکے، دولڑکی اور اہلیہ کو چھوڑا، تمام لڑکے لڑکیوں کی شادی ہو چکی ہے، اور سب صاحب اولاد ہیں، مولانا کے بڑے لڑکا قمر الاسلام انجینئر ہیں اور بنگلور میں بسلسلہ ملازمت مقیم ہیں، دوسرے صاحب زادہ مولانا بدر الاسلام قاسمی جامعہ محمد انور شاہ میں استاذ حدیث ہیں، سبھی بچے ، بچیاں پابند شرع ہیں، جو مولانا کے لیے صدقہ جاریہ ہیں، ان کے علاوہ ملک وبیرون ملک میں پھیلے ان کے شاگردوں کی بڑی تعداد درس وتدریس دعوت دین کے کام میں مصروف ہیں، وہ سب بھی مولانا کے نامہ اعمال میں ثواب جاریہ کا سبب بنیں گے۔
 مولانا محمد اسلام قاسمی بن محمد صدیق کا آبائی وطن قدیم ضلع دمکاکا ایک گاؤں راجہ بھیٹا ہے، جھارکھنڈ بننے کے بعد اب یہ گاؤں جامتاڑا میں ہے، 16 فروری 1954ءکو مولانا نے اسی گاؤں میں آنکھیں کھولیں، یہیں سے قریب رام پور کے مکتب میں مولوی حواجی لقمان مرحوم سے ابتدائی تعلیم پائی، ناظرہ قرآن کے ساتھ اردو کی پہلی دوسری اور دینی تعلیم کے رسالے کے کئی حصے اسی مکتب میں پڑھ ڈالے، مولانا کی نانی ہال موضع بھِٹرہ موجودہ ضلع جامتاڑہ تھی، عربی کے ابتدائی درجات کی تعلیم جامعہ حسینیہ گریڈیہہ جھارکھنڈ سے حاصل کی، اشرف المدارس کلٹی بردوان میں بھی تعلیم وتربیت کے لیے کچھ دن گذارا 1967ءمیں، شرح جامی کی جماعت میں جامعہ مظاہر علوم سہارنپورمیں داخلہ لیا اور امام النحو علامہ صدیق احمد کشمیری ؒ سے شرح جامی اور مفتی عبد القیوم مظاہری ؒ سے کنز الدقائق سبقاً سبقاً پڑھنے کی سعادت پائی، 1968ءمیں دار العلو م دیوبند کا رخ کیا،1971ءمیں تکمیل ادب عربی، 1973-74میں اردو عربی خطاطی کی تکمیل ، 1975میں دار الافتاءمیں داخلہ لے کر تمرین افتا سے فراغت، 1976ءمیں علی گڈھ سے ادیب کامل اور آگرہ یونیورسیٹی سے 1989-90ءمیں ایم اے اردو کیا اس طرح مولانا علوم شرقیہ کے نامور عالم اور علوم عصریہ سے بھی یک گونہ مناسبت رکھتے تھے ۔ دوران تعلیم ہی آپ رشتہ ازدواج سے منسلک ہوئے اور موضع پھُل جھریا ضلع گریڈیہہ کے محمد خلیل انصاری کی دختر نیک اختر آپ کے نکاح میں آئیں۔
 1976میں ان کا تقرر الداعی کے معاون کے طور پر ہوا، اس موقع سے ان کی عربی خطاطی کام آئی اور وہ الداعی کی کتابت میں اپنے فن کا بھر پور استعمال کرتے رہے، اس دوران انہون نے عربی میں مضامین ومقالات لکھے، اردو نثر کا بھی صاف ستھرا ذوق تھا، چنانچہ ان کے مضامین الجمعیة، ہفت روزہ ہجوم ، پندرہ روزہ اشاعت حق، ماہنامہ دار العلوم دیو بند میں کثرت سے شائع ہوتے رہے، وہ دار العلوم وقف کے ترجمان پندرہ روزہ ندائے دار العلوم کے شریک ادارت رہے، صد سالہ اجلاس کے انقلاب کے بعد انہوں نے اپنا ایک ذاتی رسالہ 1983ءمیں الثقافة کے نام سے نکالا، دار العلوم وقف دیو بند میں تدریسی خدمات پر مامور ہوئے اور اپنی تدریسی صلاحیتوں کی وجہ سے ان کا شمار دا رالعلوم دیو بند وقف کے نامور اساتذہ میں ہونے لگا، طلبہ ان کے اخلاق اور محبت کے اسیر رہے، انہوں نے خورد نوازی کی جو مثال قائم کی وہ خود اپنے میں ایک نظیر ہے، سادگی اور شاگردوں سے گھل مل جانا ان کا طرۂ امتیاز تھا، وہ مولانا وحید الزماں کیرانویؒ کے شاگرد تھے، اس لیے ان کے یہاں شاگردوں کو اہمیت دی جاتی تھی، ہٹاؤ ، بچاؤ کا مزاج بھی نہیں تھا، جس سے ملتے، کھل کر ملتے اور لوگ ان سے متاثر ہو کر واپس ہو ا کرتے تھے۔
امارت شرعیہ اور اکابر امارت شرعیہ سے انہیں بے پناہ محبت تھی، بیماری کی حالت میں امارت شرعیہ کا آخری سفر انہوں نے انتخاب امیر کے موقع سے کیا تھا۔
 مولانا تقریر بھی اچھی کرتے تھے، میں کئی مدرسوں کے پروگرام میں ان کے ساتھ رہا، نثر بھی بڑی پیاری لکھتے تھے اور تحقیق کا مزاج بھی پایا تھا، ان کی اٹھارہ کتابیں زیور طبع سے آراستہ ہو ئیں، ان میں ترجمہ مفید الطالبین ، دار العلوم کی ایک صدی کا علمی سفرنامہ ، مقالات حکیم الاسلام، ضمیمہ منجد عربی اردو، ترجمہ القراء الرشیدہ (تین حصے) ازمة الخلیج (عربی) خلیجی بحران اور صدام حسین جدید عربی میں خط لکھے (عربی اردو) جمع الفضائل شرح اردو شمائل ترمذی، منہاج الابرار شرح اردو مشکوٰة الآثار ، دار العلوم دیو بند اور حکیم الاسلام قاری محمد طیب ، میرے اساتذہ ، میری درسگاہیں، درخشاں ستارے، رمضان المبارک فضائل ومسائل ، زکوٰة وصدقات اہمیت وفوائد ، دار العلوم دیو بند اور خانوادہ قاسمی، متعلقات قرآن اور تفسیر مقبول ومشہور ہیں، ان کے علاوہ تین کتابیں اور زیر تالیف تھیں جو یا تو مکمل نہیں ہوپائیں یا طبع نہیں ہو سکیں، ان میں موجز تاریخ الادب العربی، علم حدیث اور علماءہند اور چند مشاہیر عظام خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔
 مولانا سے میرے تعلقات امارت شرعیہ آنے سے قبل سے تھے۔ دار العلوم دیو بند میں ابتلاءوآزمائش کا دور ہم دونوں نے ساتھ ساتھ دیکھا تھا، فرق یہ تھا کہ وہ ان دنوں الداعی کے معاون ایڈیٹر تھے اور یہ بندہ طالب علم، بعد کے دنوں میں کئی جلسوں میں ہمارا ساتھ رہا، دار العلوم وقف میں جب بھی حاضری ہوتی وہ ساتھ ساتھ گھوماتے، علمائ، اساتذہ اور ذمہ داروں سے ملاتے، بے پناہ خوشی کا اظہار کرتے، معقول ضیافت فرماتے، پتہ ہی نہیں چلتا کہ وہ اتنے بڑے عالم ہیں، اور ان کے ساتھ گھومنے والا ان کے وقت میں طالب علم تھا۔
مولانا سے میری آخری ملاقات 25 دسمبر 2022ءکو ان کے مکان پر دیو بند میں ہوئی تھی، میں دہلی ایک سمینار میں شرکت کرکے اپنے دوست مولانا مصطفی قاسمی کی لڑکی کی شادی میں دیو بند گیا تھا، مولانا کو فون کیا تو عصر بعد کا وقت دیا، پھر تھوڑی دیر کے بعد فون آیا کہ اگر ابھی خالی ہوں تو آجائیے، صبح کے دس بج رہے تھے، میں پہونچ گیا کوئی ایک گھنٹہ لیٹے لیٹے گفتگو کرتے رہے، امارت شرعیہ ، دار العلوم ، دیوبند کے احوال ، بہار کا سیاسی اتھل پتھل سارے موضوعات زیر بحث آئے، طبیعت بحال تھی اور بائیں طرف فالج کے اثر کے علاوہ کوئی تکلیف نہیں تھی، فرمایا کہ دیوار پکڑ کر اب قضائے حاجت کے لیے چلا جاتا ہوں، پہلے سے طبیعت اچھی ہے، میں مطمئن ہو کر واپس ہوا، معلوم ہوا کہ میرے وہاں سے اٹھتے ہی ان پر فالج کا پھر حملہ ہو گیا، اور وہ آئی سی او میں ڈال دیے گیے، ان کے صاحب زادہ مولانا بدر الاسلام قاسمی سے خیریت دریافت کیا اور واپس چلا آیا، زبان پر اللہ سے دعاءصحت کی درخواست تھی، اللہ نے افاقہ فرمایا اور پھر وہ کم وبیش چھ ماہ حیات سے رہے، پھر ملک الموت ان کی روح کو قفس عنصری سے لے کر چلتا بنا ۔ اللھم اغفر وارحم وانت خیر الراحمین۔

جمعہ, جولائی 14, 2023

*تحفظ شریعت وویلفیئر سوسائٹی جوکی وپلاسی بلاک* کے بینرتلے سلسلہ وار *پروگرام

*تحفظ شریعت وویلفیئر سوسائٹی جوکی وپلاسی بلاک* کے بینرتلے سلسلہ وار
اردودنیانیوز۷۲ 
 *پروگرام بتاریخ 13 جولائی 2023 بروز جمعرات* بعنوان محرم الحرام کے شرعی فضائل واحکام وحقائق پر *سرزمین جوگجان بھاگ ڈہٹی* میں رکھی گئی جس میں قرآن کریم کی تلاوت سے محفل کا آغاز ہوا قرآن کریم کی تلاوت قارئ خوش الحان جناب *مظفرحسین صاحب* نے فرمائی قرآن کریم کی تلاوت کے بعد شاعر اسلام  *ماسٹر ابوالبشر صاحب* نے نعت رسول ﷺ سے اس محفل کو چارچاند لگایا اوراپنی سریلی آواز سے مجمع کے اندر روح پھونکی مجمع دھیرے دھیرے کثیرتعداد میں تبدیل ہوگیا دیکھتے ہی دیکھتے پوری مسجد عاشقان مصطفٰیﷺ سے کھچاکھچ بھرگیا 
مجمع کو دیکھتے ہوئے مقصد اصلیہ کو مدنظر رکھتے ہوئے *مولاناعبداللہ سالم قمرقاسمی چترویدی* صاحب کو دعوت دی گئی مولاناکے آتے ہی مجمع سمٹ کر آغوشِ دیوانگی میں تبدیل ہوگیا حضرت چترویدی صاحب نے عوام کو اس وقت چل رہے حکومت کی دو-طرفہ رویہ اور یکساں سیول کوڈ جیسے مہلک پروپیگنڈے سے آگاہ کرایا مزید مولانا نے حالات کے کومدنظر رکھتے ہوئے اپنی تفصیلی پرمغز خطاب سے عوام کوجھنجھورا اور آنے والے محرم الحرام کے مہینے کی بھی حقیقی اور شرعی حقائق وفضائل سے وابسطہ کرایا کہ محرم الحرام کا مہینہ کیا ہے اور اسکی اہمیت ہمارے اندر کیا ہونی چاہئے اور ہم کس طرح کے ماحول کو جنم دیتے ہیں جو سراسر ہمارے شریعت کے منافی ہے اسلئے اس مہینے کی قدرہمیں اپنی شریعت کے دائرے میں رہ کر کی جائے اور نئی نسل کو محرم الحرام میں غلط رسومات کی پہل سے روکا جائے 
مزید *مولاناعبدالوارث مظاہری* نے تحفظ شریعت وویلفیئر سوسائٹی کی اہم نقطے پر روشنی ڈالی اور کہا یہ تنظیم فی سبیل اللہ آپکی ہرآواز پر کمربستہ ہوکر ہمیشہ قوم وملت کی سربراہی کیلئے تیاررہتی ہے یہ تنظیم قومی خدمت٬اور مظلوم کی آواز سے آواز ملانے کیلئے متحرک رہتی ہے
*مولانا عادل حسین صاحب قاسمی* نے تعلیم کی افادیت پر روشنی ڈالی 
*مولانامحمد اخلاق صاحب* نے محرم الحرام کے عنوان پر مختصر لیکن جامع بات رکھی جوآج بیحد ضروری ہے 
مزید *مولانا ومفتی دانش اقبال صاحب قاسمی* نے بھی محرم الحرام میں پنپ رہے بدعات پر قدغن لگانے کی اپیل کی اور اس غلط فعل سے نپٹنے کیلئے ایک مضبوط قدم اٹھانے کی اپیل کی مجمعے میں شریک تمام احباب نے بیک زبان مفتی صاحب کی باتوں پرلبیک کہے 
 وہیں پر شریک رہے 
*قاری عبدالقدوس صاحب* 
*جناب عبدالقدوس صاحب راہی* 
*مولانا وثیق الرحمن صاحب* 
اورموجودہ *مکھیا محمد راغب عرف ببلو صاحب* بھی تحفظ شریعت کی اس مشن کو سراہا 
*چہٹ پور پنچایت کے موجودہ مکھیا جناب محمد شعیب صاحب* اس پروگرام میں ابتداء سے اختتام تک پیش پیش رہے 
            مزید کثیرتعداد میں وہاں کے گرامی علماء کرام ودانشوران تشریف فرما رہے اور پروگرام کو کامیاب کرنے میں اپنا بھرپور تعاؤن دیا 
اخیر میں *مولاناعبداللہ سالم قمرقاسمی چترویدی* صاحب کی پرمغز دعاء سے مجلس کا اختتام ہوا اللہ اس پروگرام کوقوم وملت کی فلاح وبہبود کیلئے مزید امت مسلمہ کے لئے نجات کا ذریعہ بنائے آمین یارب العالمین 
                 *راقم الحروف* 
*العبد فیاض احمدراھی سوناپور* 
*ممبر تحفظ شریعت وویلفیئر سوسائٹی جوکی وپلاسی ارریہ بہار*

قائدین کی مانیںمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار ، اڈیشہ وجھارکھنڈ

قائدین کی مانیں
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار ، اڈیشہ وجھارکھنڈ
مختلف موقعوں سے اس بات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے کہ مسلمانوں میں قیادت کا فقدان ہے، حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی ؒ فرمایا کرتے تھے کہ فقدان قیادت کا نہیں، پیچھے چلنے والوں کا ہے، سمع وطاعت کے جذبے سے کام کرنے والوں کا ہے، واقعہ یہی ہے کہ مسلم قیادت کے لیے بڑے بڑے لوگ سامنے آئے، اپنی ساری طاقت، توانائی، مال ودولت آرام وسکون قوم وملت کے مفاد پر قربان کر دیا، اپنے آشیانہ کو پھونک کر زمانہ کو روشنی بخش دی، ایک زمانہ میں پذیرائی بھی ہوئی، لوگوں نے فنائیت کا مظاہرہ بھی کیا، اور پھر دھیرے دھیرے جوش ٹھنڈا ہو گیا، اور لوگ پرانی روش پر آگیے، قائدین پکارتے رہے آواز لگاتے رہے منصوبے بناتے رہے، لیکن ان منصوبوں میں رنگ بھرنے کے لیے جس صلاحیت کی لوگوں کو ضرورت تھی اور جنہیں آگے آنا چاہیے تھا، وہ نہیں آسکے اور ان منصوبوں کو عملی رنگ وروپ دینا ممکن نہیں ہو سکا، اس لیے ضرورت ہے کہ قائدین کی باتوں کو ما نیں،ا ن کے بنائے ہوئے خطوط پر چلیں، بغیر اجازت کے نہ آگے بڑھیں اور نہ پیچھے ہٹیں۔ سمع وطاعت کا مطلب یہی ہے کہ بات سمجھ میں آئے یا نہیں، جس کو قائد مان لیا، اس کی مانیں گے، اس کے نقش قدم کی پیروی کریں گے، ایمان والوں کی یہی صفت بیان کی گئی ہے، سمعنا واطعنا، اس کے بر عکس بے ایمانوں کا معاملہ رہا ہے، وہ سنتے تو ہیں، لیکن مان کر نہیں دیتے، صرف سننا کافی نہیں ہے، اگر کوئی مریض حکیم کے پاس جائے، اس سے دوا لکھوا لائے، نسخہ کو بار بار پڑھے بھی،لیکن دوانہ خریدے،استعمال نہ کرے، تو مرض صرف نسخے کو پڑھنے سے دور نہیں ہو گا، دوا کڑوی کسیلی ہو، کھانے پر جی بھی متلائے، لیکن اگر صحت یاب ہونا ہے تو دوا خریدنی ہوگی، استعمال کرنا ہوگا، تبھی مرض دور ہوگا، آج کے سماجی مسائل وامراض کو دور کرنا ہے تو اس کا واحد طریقہ قائدین کی باتوں کو ماننا ہے۔
 یہ تمہیدی سطوریہ بیان کرنے کے لیے لکھے گیے کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے قائدین نے یونی فارم سول کوڈ کے خلاف، مسلم پرسنل لا کی حمایت میں آن لائن لا کمیشن کو آرابھیجنے اوربھجوانے کی مہم چلا رکھی ہے،یہ مہم پورے ملک میں چل رہی ہے اور اب تک لاکھوں  کی تعداد میں لائکمیشن کو آرا بھیجی  جا چکی ہیں، 28 جولائی تک   ہی   ہی آرا بھیجنی ہے۔لوگوں میں جوش ہے، جذبہ ہے اور ہر مسلک ومکتب فکر کے اتحاد کی وجہ سے یہ کام بڑی تیزی میں ہو رہا ہے، اور ہم سب کو بھی کوشش جاری رکھنی چاہیے تاکہ زیادہ سے زیادہ آرا لاء کمیشن کو جا سکےامارت شرعیہ  کے تمام ذمہ داران حضرات قضاہ اور کارکنان شب وروز حضرت امیر شریعت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی دامت برکاتہم سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے حکم پر پوری مستعدی سے لگے ہوئیہیں ، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے با وقار صدر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی اور جنرل سکریٹری مولانا فضل الر حیم مجددی مدظلہما کے ساتھ تمام مسلک ومکتب فکر کے قائدین نے واضح کر دیا ہے کہ ہم مسلم پرسنل لا بورڈ کے ساتھ ہیں، ہمیں یکساں سول کوڈ منظور نہیں،  یہ مہم در اصل انہیں امور کا اعلان ہے، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے لا کمیشن کو آرا بھیجنے کی مہم سے آگے بڑ کر کچھ کرنے کو ابھی منع کیاہے،ا حتجاج، جلوس، بڑے اجلاس، دھرنا اور سڑکوں پر آنیسے بھی روکاہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ ابھی وہ مرحلہ نہیں آیا ہے، ہوسکتا ہے بعد میں نفقہ مطلقہ او رشاہ بانو کیس کی طرح اس کی بھی ضرورت پڑے، لیکن ابھی قائدین نے ان کاموں سے منع کیا ہے، اس لیے ہماری سعادت مندی یہ ہے کہ ابھی ان چیزوں سے باز رہیں، اتنا ہی کریں، جتنا ان کی طر ف سے ہدایت ہے، جوش وجذبہ اچھی چیز ہے، لیکن ہوش کی بات یہ ہے کہ ابھی ہمیں قائدین کے چشم وابرو کا انتظار کر نا چاہیے، کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارا غیر معمولی جوش وجذبہ ہمارے معاملہ کو دوسرا رخ دیدے، جو ہمارے لیے اور ساری ملت کے لئے ضرر رساں ثابت ہو۔

یونیفارم سول کوڈ کے نقصانات مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار ، اڈیشہ وجھارکھنڈ

یونیفارم سول کوڈ کے نقصانات 
Urudduinyanews72
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار ، اڈیشہ وجھارکھنڈ
=======================================
دستور کے رہنما اصولوں میں سے ایک دفعہ 44؍ کا سہارا لے کر حکومت ہند یو سی سی لانے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے، وزیر اعظم نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ ایک ملک دو قانون کے ذریعہ نہیں چل سکتا، حالاں کہ ہمارے تجربات ومشاہدات تو یہی کہتے ہیں کہ ہندوستان سارے پرسنل لاز کے ساتھ ہی پہلے ترقی پذیر اور پھر ترقی یافتہ ملک کے زمرے میں آیا، مختلف مذاہب کے لوگوں نے اپنے اپنے پرسنل لاز کے ساتھ ملک کو ترقی کی راہ پر لگایا، سب متحد رہے تو ملک کی سا لمیت محفوظ رہی، اب حکومت کو لگتا ہے کہ ایک ملک کوایک ہی قانون چاہیے تویہ ہمارے تجربات ومشاہدات کے بالکل بر عکس ہے۔ اس کے نفاذ سے دستور کے بنیادی حقوق کے دفعات کالعدم ہوجائیں گے۔ جس کی وجہ سے ہندوستان کے عام شہریوں میں بے چینی بڑھے گی اور اس کے نتیجے میں ملک کی یک جہتی اور سالمیت کو غیر معمولی نقصان پہونچے گا،یہ دستور کیخلاف بھی ہوگا کیونکہ دفعہ 44کی حیثیت صرف مشورے کی ہے اور اس کی حیثیت دستور کے ان دفعات سے بالکل الگ ہے جو ہمارے قانون کا حصہ ہے، کیوں کہ رہنما اصول کے ذریعہ بنیادی دفعات پر تیشہ نہیں چلایا جا سکتا ، یہی وجہ ہے کہ عدالتیں اس دفعہ کا تذکرہ تو کرتی ہیں، لیکن اس کے سہارے کوئی فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتیں، اس بنیادی نکتہ کی طرف اگر آپ کی توجہ مبذول ہو گئی ہو تو سمجھنا چاہیے کہ یونی فارم سول کوڈ کے خلاف لا کمیشن کو رائے بھیجنا در اصل ہندوستان کے دستور اور یک جہتی سے جڑا ہوا ہے، جسے ہم کسی طرح بھی نظر انداز نہیں کر سکتے ۔
یونی فارم سول کوڈ نافذ ہونے سے یہاں کی رنگا رنگ تہذیب متاثر ہوگی، یہاں ہر مذہب کی اپنی ایک تہذیب ہے، زندگی گذارنے کا اپنا طریقہ ہے، یہ معاملہ کا لر اوربے کالر کرتے کے انتخاب کا نہیں ہے ، یہ معاملہ اس سطحیت سے بہت اوپر کا ہے ، یونی فارم سول کوڈ سب کچھ بدل کر رکھ دے گا، کئی لوگ اس کے اثرات کو عائلی معاملات ومسائل تک محدود سمجھتے ہیں، یہ قطعا صحیح نہیں ہے، بغیر یونی فارم سول کوڈ کے مسجد کے باہر تک صفیں لگنے پر ایف آئی آر درج ہورہا ہے، جیل کی سزائیں دی جا رہی ہیں، کئی جگہ مائیک سے اذان دینے پر پابندی ہے، بعض جانور کے ذبیحہ پر پابندی ہے اور اس کے گوشت پائے جانے کا الزام لگا کر ماب لنچنگ ہو رہی ہے، ایسے میں یونی فارم سول کوڈ ہماری عبادت اور خوردونوش کو بھی متاثر کر دے گا، جو غیر اعلانیہ طور پرابھی بھی کم نہیں ہے۔
 یہ نکاح کے نظام کو متاثر کرے گا ، ہمارے یہاں لڑکے لڑکی جس عمر میں بالغ ہوجاتے ہیں ان کی زیادہ سے زیادہ مدت پندرہ سال ہے، ماحول اور موبائل کا کثرت سے استعمال اس سے بہت پہلے ان دنوں بچے بچیوں کو بلوغیت کے مرحلہ تک پہونچا دیتا ہے، ایسے میں یونی فارم سول کوڈ میں کم سے کم کورٹ میریج اور اس کے رجسٹریشن کو لازم کیا جائے گا، اٹھارہ سال سے کم عمر کی شادی یونی فارم سول کوڈ میں جرم ہونے کی وجہ سے ہو نہیں سکے گی اور تاخیر کی وجہ سے جو مفاسد پیدا ہوں، اس کا مشاہدہ لوگ کھلی آنکھوں کر رہے ہیں، شریعت نے بعض حالات میں بلوغیت سے قبل بھی صغر سنی میںولی کی اجازت سے نکاح کی اجازت دی ہے، یہ حکم نہیں اجازت ہی ہے ، لیکن اس اجازت کو ساقط کرنے کا کسی انسان کو کس طرح اختیار دیا جا سکتا ہے، یہی حال چار شادی کی اجازت کا ہے جوانصاف کی قید کے ساتھ قرآن میں مذکور ہے، بیک وقت چار بیویاں رکھنے والے ہندوستان میں شاید باید ہی ہوں ، لیکن یہ اجازت قرآن کریم میں مذکور ہے اسے کوئی انسان کس طرح ساقط کر سکتاہے۔ہمارے یہاں دو دھ شریک بھائی بہن میں شادی حرام ہے، یو سی سی کی نظر میں یہ تو کوئی ایسی بات نہیں، جس سے رشتہ کرنے میں خلل واقع ہو، بچے کی پرورش وپرداخت کی ذمہ داری کن حالات میں کس کی ہے، شریعت میں سب مقرر ہے، یو سی سی اس کو بھی بدل کر رکھ دے گا۔بچے کتنے ہوں گے اس کا فیصلہ حکومت نہیں کرے گی ، یو سی سی آئے گا تو دویا تین بچے کی ہی اجازت ہوگی ، زیادہ کے خلاف پہلے بھی آواز اٹھتی رہی ہے ، لیکن یو سی سی اس پر کلیۃً پابندی لگا دے گا، آپ کا حق چلا جائے گا، شادی کے بعد طلاق کا حق یو سی سی میں دو طرفہ ہوگا اور اصلاً فیصلہ عدالت کرے گی اور جج کے فیصلہ سے طلاق نافذ ہوگا، اگر طلاق مرددے گا تو یا تو وہ نافذ العمل نہیں ہوگا ، کیوں کہ یو سی سی کے مطابق دونوں چاہیں گے تب طلاق واقع ہوگی، چلیے مان لیتے ہیں کہ طلاق ہو بھی جائے تو یو سی سی آپ کو مطلقہ عورت کو تا زندگی یا تا نکاح ثانی گذارہ بھتہ دینے پر مجبور کردے گا، حالاں کہ عورت کا نفقہ نکاح کی وجہ سے مرد کے ذمہ تھا، اب وہ اس کی بیوی نہیں ہے تو نفقہ شوہر کیوں دے ؟ اس کو یہ کہہ کر رد کر دیا جائے گا کہ اب وہ کہاں جائے گی ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس کا شوہر مرجاتا تووہ کہاں جاتی جو لوگ اس کو دیکھتے اس کی خبر گیری کرتے وہی اس کو دیکھیں گے، اس میں کوئی مضائقہ بھی نہیں ہے، شریعت نے اس سلسلہ میں واضح کر دیا ہے کہ اگر اس عورت کے پاس مال ہوتا تو جس تناسب سے وارثوں کو ملتا اب اس کے پاس مال نہیں ہے تو وہ سب ملنے والے مال کے تناسب سے اس کی کفالت کریں گے۔ عورت طلاق یا شوہر کے مرنے کے بعد عدت گذارتی ہے یو سی سی میں اس کی کوئی جگہ نہیں ہوگی، طلاق کے بعد عورت نے کسی دوسرے مرد سے شادی کیا ، نباہ نہیں ہوا اور وہ پھر سے پہلے شوہر سے شادی کرنا چاہتی ہے تو اسے حلالہ کہہ کر رد کر دیا جائے گا۔
یو سی سی سے ترکہ کی تقسیم کا عمل بھی متاثر ہو گا، ان کے نزیک لڑکا لڑکی برابر ہیں، اس لیے حصہ بھی برابر دینا ہوگا، دو اور ایک کا فارمولہ نہیں چلے گا، جو انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہوگا، اس لیے کہ سارا مالی بوجھ لڑکوں پر ہوگااور حصہ ذمہ داری کی ادائیگی کی بنیادہیں پر فرضی مساوات کے نام پر قائم ہوگا۔یتیم پوتے اور گود لیے ہوئے بچوں کو بھی حصہ دینا ہوگا، اس کے لیے شریعت میں وصیت کا مضبوط نظام ہے اور ایک تہائی تک وصیت کی گنجائش ہے، لیکن جسے ترکہ میں حصہ کہتے ہیں اسے نہیں ملتا ہے اس لیے کہ ان کو ترکہ میں حصہ دینے سے جن کے حصص قرآن میں مذکور ہیں ان میں کمی بیشی آئے گی اور یہ قرآنی حکم کے خلاف ہوگا۔ متبنی بنانے کی شکل میں یو سی سی کے ذریعہ حقیقی باپ کی جگہ گود لینے والے کو باپ قرار دیا جائے گا اور سارے کاغذات میں باپ کی جگہ غیر باپ کا نام درج ہوگا یہ تو ہمارے سماج میں گالی ہوا کرتی ہے، اور پوری زندگی یو سی سی کے نفاذ کے بعد اس لڑکے کو اس گالی کو ڈھونا پڑے گا۔ مرنے کے بعد آخری رسوم کی ادائیگی کے لیے یو سی سی میں کیا نظم ہوگا، ابھی یہ کہنا ذرا مشکل ہے، لیکن اتنی بات یقینی ہے کہ وہ طریقہ ہمارا والا طریقہ نہیں ہوگا، یہ بھی شریعت کے خلاف ہوگا کہ ہم مردوں کے دفنانے تک کے طریقہ سے دستبردار ہو جائیں گے۔
نقصان غیر مسلم بھائیوں کا بھی کم نہیں ہوگا، ان کے یہاں تو رسم ورواج مذہب سے زیادہ ذات کی بنیاد پر ہیں، علاقہ بدلنے سے ان کے دیوی دیوتا بدل جاتے ہیں، نظام زندگی بدل جاتا ہے، ناگالینڈ کے ایک قبیلہ میں لڑکا بیاہ کر لڑکی کے گھر جاتا ہے، جنوب میں بھانجی سے شادی کرنا اچھا سمجھا جاتا ہے، ہمارے علاقہ میں چچیرے، پھوپھیرے، ممیرے، خلیرے بھائی بہن کے درمیان بھی رشتہ نہیں ہوتا، ان کے یہاں ہر برادری میں مختلف انداز کی روایت پائی جاتی ہے، جس سے وہ بھی دست بردار نہیں ہو سکیں گے، کیوں کہ محققین ہندو کو مذہب کے بجائے طریقۂ زندگی ہی قرار دیتے ہیں ، یہ طریقہ زندگی بدلا تو ان کا سب کچھ بدل کر رہ جائے گا، ان کے یہاں پہلے سے رائج ہندو میریج ایکٹ وغیرہ پر بھی اچھی خاصی زد پڑے گی، ان کے یہاں عبادتیں بھی الگ الگ ریاستوں میں الگ الگ دیوی دیوتا ؤں کی ہوتی ہیں، مہاراشٹر میں عقیدت اورتوجہ کا مرکز ’’گنپتی‘‘ بہار میں چھٹ اور درگا پوجا، مغربی بنگال میں کالی پوجا کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے، ہر گھر میں الگ الگ دیوی دیوتا پنڈت جی کے کہنے کے مطابق پوجے جاتے ہیں، یو سی سی میں ان کا کیا حشر ہوگا، قبل از وقت کہنا مشکل ہے۔اس طبقہ کو اطمینان ہے کہ یونی فارم سول کوڈ کے لفافے سے جو بر آمد ہوگا وہ ہندوؤں کے حسب حال ہوگا۔
سکھوں کا معاملہ اور گڑ بڑ ہوگا ان کے یہاں چار کاف کرپان، کڑا، کچھا اور کیش (بال) کی بڑی اہمیت ہے اور ان کو مذہبی شعار سمجھا جاتا ہے، اسی لیے ان کو ہوائی جہاز میں کرپان لے کر چلنے اور بغیر ہیلمیٹ کے پگڑی کے ساتھ بائیک چلانے پر کوئی دارو گیر نہیں ہے، جب کہ ہم سے سیکوریٹی کا حوالہ دے کر بلیڈ، قینچی وغیرہ تک لے لیا جاتا ہے، ہمیں ٹوپیوں پر ہیلمیٹ لگانے ہوتے ہیں، جب یو سی سی آئے گا تو ان کو بھی کرپان چھوڑ دینا پڑے گا، اور ہیلمیٹ پہننا ہوگا، ظاہر ہے سکھ قوم کو یہ منظور نہیں ہوگا، اور اس سے حکومت ہند کے ساتھ ان کے ٹکراؤ کی فضا بنے گی ۔اسی لیے دربار صاحب سے اعلان ہو گیا ہے کہ سکھ یونی فارم سول کوڈ کے سخت خلاف ہیں، ضرورت پڑی تووہ سڑکوں پرکرنے سے بھی باز نہیں آئیں گے۔
 یہی حال عیسائی، پارسی، جینی، بدھسٹ وغیرہ کے ساتھ ہوگا، یو سی سی کہیں نہ کہیں ان کے اقدار کو بدل کر رکھ دے گا جو انہیں منظور نہیں ہوگا، جینیوں کے بعض مذہبی پیشوا ننگے رہتے ہیں، اسے قانون کے ذریعہ ختم کر دیا جائے گا، ہمارے نزدیک بھی ننگا رہنا کوئی اچھا کام نہیں ہے، لیکن جن کے مذہب میں یہ روا ہے وہ تو اس کے خلاف جائیں گے، اس سے ملک میں ٹکراؤ کی فضا پیدا ہوگی اور ملک کی سا لمیت انتشار کا شکار ہو کر رہ جائے گی۔
 آدی باسیوں کے لیے یو سی سی صرف رسم ورواج کو بدلنے کا ذریعہ نہیں بلکہ اقتصادی طور پر ان کو کمزور کرنے کے مترادف ہے، کیوں کہ یو سی سی میں اس کی گنجائش باقی نہیں رہے گی ، یہی درج فہرست ذات اور فہرست قبائل کا ہوگا اس لیے یہ سب بھی یو سی سی کے خلاف ہیں۔اس طرح دستور ساز کمیٹی میں بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر کی یہ پیش گوئی سچ ثابت ہوگی کہ کوئی پاگل حکومت ہی اس طرح کا اقدام کرے گی، ہم اس حکومت کو پاگل نہیں کہتے، لیکن بابا صاحب کی رائے اس معاملہ میں واضح تھی اور ہم اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ ان کی بات کو جھٹلا سکیںیا رد کر دیں ، کیوںکہ حالات وآثار تو کچھ ایسے ہی ہیں۔
 حکومت خود سمجھتی ہے کہ اس کے اثرات کہاں کہاں پڑیں گے، اسی لیے حکومت نے عیسائیوں اور قبائل کو یونیفارم سول کوڈ سے الگ رکھنے پر گور شروع کر دیا ہے اس کا آغاز پارلیامنٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی کی میٹنگ میں بھاجپا کے لیڈر سوشل کمار مودی نے کیا تھا، انہوں نے شمال مشرق کے علاقے اور قبائل کو باہر رکھنے کی زبردست وکالت کی تھی، کیوں کہ ان علاقوں اور قبائل سے حکومت کو سخت رد عمل کا خوف ہے، اور اس پر کام قبائلیوں نے شروع کر دیا ہے، ناگا لینڈ کے وزیر اعلیٰ نیفیوریو نے گذشتہ ۴؍ جولائی کو ۱۲؍ رکنی وفد کے ساتھ وزیر داخلہ امیت شاہ کے سامنے اپنا موقف رکھ دیا تھا، ناگالینڈ حکومت کی پریس ریلیز میں اس ملاقات کے نتیجہ کے طور پر امیت شاہ کا یہ جملہ نقل کیا گیاہے، حکومت عیسائیوں اور چند قبائلی علاقوں کو بائیسویں لاء کمیشن کے دائرہ کار سے باہر رکھنے کے لیے فعال طور پر کام کر رہی ہے۔ معاملہ صاف ہو گیا کہ جس طرح ۳۷۰؍ ختم کر دیا گیا تھا، سی اے اے، این آر سی میں سارے مذاہب کو مسلمانوں کو چھوڑ کر شہریت دینے اور مسلمانوں کو چُن چُن کر نکالنے کی بات کہی گئیتھی، اور ۲۷۱؍ کو باقی رکھ کر قبائلیوں کو مطمئن کیا گیا تھا، یوسی سی میں ایسا ہی کچھ ہونے والا ہے ۔ یعنی
 برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر 
  مجبوری یہ ہے کہ وہ بے روزگاری، مہنگائی، افراط زر، اقتصادی نمو میں کمی ، گھریلو صنعتوں کو در پیش مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانا چاہتی ہے، نو سال میں حکومت نے جو کچھ کیا ہے، اس کے سہارے وہ انتخاب ہیں کامیاب نہیں ہو سکتی، اس لیے یو سی سی کے انتخاب میں کامیاب ہونا چاہتی ہے یوں بھی بابری مسجد کی جگہ رام مندر بنانے اور تین طلاق کو کالعدم کرنے کے بعد یو سی سی کے علاوہ کوئی مُدَّا اس کے پاس بچا نہیں ہے، اس لیے وہ اس ملک کے دستور کو ہی داؤ پر لگانے پر تُلی ہوئی ہے۔

جمعرات, جولائی 13, 2023

ماہ محرم الحرام کے موقع پر سلسلہ وار اصلاحی پروگرام

ماہ محرم الحرام کے موقع پر سلسلہ وار اصلاحی پروگرام 
اردودنیانیوز۷۲ 
الحمدللہ  بتاریخ 12 جولائی 2023بروز بدھ کو تحفظ شریعت ویلفیئر سوسائٹی جوکی ہاٹ وپلاسی بلاک کے بینر تلے محرم الحرام کے سلسلہ سے ایک اہم موضوع محرم الحرام کے شرعی حقوق وفضائل وخرافات کے عنوان پر سرزمین دیگھلی کے مرکزی مسجد میں ایک پروگرام رکھا گیا
جس میں مہمان خصوصی کے طور پر مولانا الحاج عبدالسلام عادل ندوی صاحب کی کلیدی خطاب ہوئی ماشاءاللہ پروگرام میں مزید مولانا نے یکساں سیول کوڈ کے حساس موضوع پر بھی روشنی ڈالی جس سے لوگ بااکل ناواقف تھے بروقت مجموعی طور پر اکٹھا تمام احباب نے عہد لیا ہم سب آج ہی اس کام کی تکمیل کا ذمہ داری لیا کہ ہم لوگ ان شاءاللہ اس کام کو بہت جلد مکمل کریں گے مولانا کی پر مغز خطاب کے بعد مولانا عبدالوارث مظاہری نے تحفظ شریعت کی اس سلسلہ وار پروگرام اور اس کے فائدے سے لوگوں کو بیدار کیا مزید یہ بھی کہاکہ یہ تنظیم الحمدللہ ہر محاذ پر آپکی آواز سے آواز ملانے کیلئے ہمہ تن تیار رہتی ہے جو گزشتہ کئی اہم وقت پر یہ تنظیم اپنا کارنامہ پیش کرچکی ہے جو قابل مبارکباد ہے 
مولانا فیاض احمد راہی نے تحفظ شریعت کی مکمل کارگزاری سے لوگوں کو روشناس کرایا اور 30 روپے ماہانہ امداد کا جو سلسلہ زوروں پر ہے اس سے بھی عوام کو واقف کرایا اور کہا یہ تنظیم آپکی اپنی تنظیم ہے اسلئے اس تنظیم کو آپکی محبت کی اشد ضرورت ہے حافظ محمد عادل صاحب نے والدین کے عنوان پر اچھے انداز میں بیان فرمائے اور مولانا محمد انوار صاحب مظاہری نے حالات حاضرہ پر گفتگو فرمائی اور آخیر میں زیرصدارت تمہیدی گفتگو کے بعد دعاء فرماکر مجلس اختتام ہوگئی پروگرام میں شریک رہے عبدالقدوس صاحب راہی قاری محمد خطاب قاری محمد معصوم رحیمی حافظ عبدالقدوس اور دیگھلی کے اکثر لوگ موجود تھے ، 
اللہ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین
            نیک خواہشات 
راقم الحروف 
العبد فیاض احمدراھی سوناپور

بدھ, جولائی 12, 2023

ترکیہ اور اس کی قیادت ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

ترکیہ اور اس کی قیادت  _
Urudduinyanews72
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

ترکیہ (سابق نام ترکی) سے ہندوستانی مسلمانوں اورعالم اسلام کا بڑا گہرا تعلق رہا ہے ، یہاں کی خلافت عثمانیہ سولہویں اور سترہویں صدی میں دنیا کی سب سے بڑی سیاسی قوت تھی ، چھ سو اکتیس (631)سال تک قائم اس حکومت کے زوال کا آغاز پہلی جنگ عظیم سے ہوا، جب اس نے جرمنی کا ساتھ دیا اور شکست کھانے کے بعد سیورے معاہدہ کے مطابق فاتح اتحادی قوتوں نے اسے ٹکڑے ٹکڑے کر کے تقسیم کر دیا ، 19؍ مئی 1919ء کو اس جارحیت کے خلاف ترکوں نے مصطفیٰ کمال پاشا کی قیادت میں تحریک آزادی کا اعلان کیا اور 18؍ ستمبر 1922ء کو غیر ملکی افواج سے ملک کو خالی کرالیا گیا  اور جمہوریہ ترکی کے نام سے ایک نئی ریاست تشکیل پائی ، یکم نومبر 1922ء کو ترکی کی مجلس پارلیمان نے خلافت کا خاتمہ کر دیا ، جس کی وجہ سے پوری دنیا کے مسلمانوں میں اضطراب اور بے چینی پیدا ہوئی، ہندوستان میں خلافت کے احیاء کے لیے تحریک چلائی گئی ، جو تاریخ میں خلافت تحریک کے نام سے موسوم ہے اور جنگ آزادی کی تحریک کے بعد ہندوستان کی سب سے بڑی تحریک سمجھی جاتی ہے ۔
مصطفی کمال پاشا اپنی سیاسی حصولیابی کے طفیل اتاترک (ترکوں کا باپ) بن بیٹھا ، اس نے ملک میں اصلاحات کا سلسلہ شروع کیا اور مذہبی تشخص کے خاتمہ کی جتنی کوششیں ہو سکتی تھیں، کر ڈالیں ، اس نے عربی پر پابندی لگایا ، ترکی زبان کے رسم الخط کو بھی عربی سے لاطینی کی طرف منتقل کر دیا اور ملک میں لا دینی حکومت کے قیام کا اعلان کر دیا ، 1938ء میں مصطفی کمال پاشا کے انتقال کے بعد ان کے نائب عصمت انونو بھی اسی کے نقش قدم پر چلتے رہے اور اصلاح کا عمل جاری رکھا ۔ 
ترکی کے آئین کے مطابق’’ مسلح افواج ترک آئین وسلامتی کی محافظ ہے‘‘ ، اس جملے کا سہارا لے کر فوج نے متعدد بار جمہوری حکومتوں کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا ، سب سے بڑی بغاوت 1960ء میں وزیر اعظم عدنان میندرس کے خلاف ہوئی تھی ، عدنان کا قصور یہ تھا کہ اس نے اپنی اصلاحات کے ذریعہ ترکوں کوسیکولرزم کے نئے معنی ومفاہیم سے آشنا کیا اور مذہب اسلام پر مصطفی کمال پاشا کے ذریعہ لگائی گئی پابندیوں کے اختتام کا اعلان کیا ، فوج کو یہ گوارہ نہیں ہوا، اور عدنان کا تختہ پلٹ کر فوج نے اسے تختہ دار پر چڑھا دیا۔
 1980ء میں مخلوط حکومت کے خلاف فوج نے پھر بغاوت کی اور اقتدار پر قبضہ کرکے ہزاروں مخالفین کو قید کر لیا اور کئی کو سزائے موت دی گئی ، لیکن جلد ہی عوام کے رخ کو دیکھ کر ترکی میں نیا آئین 1982ء میں نافذ ہوا ، لیکن فوج اقتدار پر قابض رہی ، بالآخر 1989ء میں طور غوث اوزال صدر بنے اور فوج اپنے بیرکوں میں واپس گئی ، اوزال نے انتہائی تدبر اور فراست کے ساتھ ترکی کی گرتی ہوئی معیشت کو نئے خطوط پر استوار کیا ، معاشی اصلاحات کی وجہ سے عالمی برادری میں ترکی کا وزن بڑھا ، مئی 1993ء میں ان کے انتقال کے بعد سلیمان دیمرل صدر منتخب ہوئے اور جون 1993ء میں راہ حق پارٹی کی جانب سے پہلی خاتون وزر اعظم تانسو چیرل نے کام شروع کیا ، ملک تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ چلتا رہا ، 1995ء کے انتخاب میں پہلی بار اسلامی افکار ونظریات کے لیے مشہور رفاہ عام پارٹی ترکی میں سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری اور نجم الدین اربکان وزیر اعظم بنے، لیکن وہاں کی قومی سلامتی کونسل سے ان کے اختلافات ہوئے، کیونکہ دونوں دو،سِرے پر تھے، اربکان اسلامی نظریات واقدار کو ملک میں رائج کرنا  چاہتے تھے جب کہ کونسل ترکی کے لا دینی نظام اور مغربی افکار ونظریات کو فروغ دینا چاہتی تھی ، اسے خطرہ تھا کہ کہیں ملک اسلامی راہ پر نہ چل پڑے ؛چنانچہ اس نے اربکان پر مستعفی ہونے کے لیے دبا ؤ بنایا، اربکان اس دباؤ کا مقابلہ نہیں کر سکے اور انہیں نہ صرف استعفا دینا پڑا بلکہ ان پر کونسل نے پوری زندگی سیاست میں حصہ لینے پر پابندی لگادی ، اس کے بعد کئی اتار چڑھاؤ آئے، جس کے نتیجے میں بلند ایجوت وزیر اعظم بنے اور 5؍ مئی 2000ء کو ترکی عدالت عالیہ کے سابق سر براہ احمد نجدات صدر منتخب ہوئے، اور 16؍ مئی کو صدارتی عہدے کا حلف لے کر صدارتی محل میں قیام پذیر ہوئے، یہ صدارتی محل انقرہ کے مضافات میں ایک پہاڑی پر واقع ہے ایک ہزار کمروں پر مشتمل یہ محل امریکہ کے وہائٹ ہاؤس اور روس کے کریملن سے کافی بڑا ہے ، اکسٹھ کڑوڑ پچاس لاکھ ڈالر سے زائد اس کی تعمیر پر خرچ ہوئے تھے یہ صدارتی محل ترکی کی شان ، آن بان کا تاریخی طور پر شاہد ہے ۔ 
 موجودہ صدر رجب طیب اردوگان جنہوں نے تیسری بار صدارتی انتخاب میں فتح حاصل کی ہے، اپنے اسلامی خیالات کے لیے مشہور ہیں ، ان کی ایک مشہور نظم ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ مسجدیں ہماری چھاؤنیاں ہیں ، گنبد ہمارے خود (سر کی حفاظت کر نے والا لوہے کا ٹوپ) مینار یں ہماری سنگینیں اور مؤمن ہمارے سپاہی ہیں، اردوگان 1954ء میں بحر اسود کے ساحلی علاقے میں ایک گارڈ کے گھر پیدا ہوئے، بعد میں اپنے والد کے ساتھ نقل مکانی کرکے استنبول آئے، معاشی طور پر خود کفیل ہونے کے لیے ا نہوں نے روغنی روٹیاں فروخت کیں ، مدرسہ میں تعلیم حاصل کی ، فٹ بال کے پیشہ ور کھلاڑی رہے ، مرمر یونیورسٹی استنبول سے منیجمنٹ کی ڈگری حاصل کی ، زمانہ طالب علمی میں نجم الدین اربکان کے قریب آئے ، ان کے خیالات سے متاثر ہوئے، 1994ء میں استنبول کے میر(Mayor) بنے اور پورے شہر کو لا لہ زار بنا دیا ، پیڑ پودے اور ہر یالی سے یہ شہر سج سنور گیا ، لیکن 1999ء میں ان پر مذہبی بنیادوں پر اشتعال انگیزی کا الزام لگا کر قید میں ڈال دیا گیا ، جہاں انہیں چار ماہ گذارنے پڑے ، اس سزا کے بعد انہوں نے سیاست میں اپنی پکڑ مضبوط کی ، عوام ان کے لیے فرش راہ ہوئی اور بالآخر اے کے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد پہلے 2003ء میں وزیر اعظم اور پھر 2014ء میں صدر کے منصب پر فائز ہوئے ،فوج نے ایک بار بغاوت کی جسے عوام نے کچل کر رکھ دیا، یہ اردگان کی مقبولیت کی انتہاتھی، انہوں نے ناٹو کے رکن ہونے کے با وجود اسلامی اصلاحات کی اپنی کوششیں جاری رکھیں ، اس کوشش کے نتیجے میں ملک میں جو ماحول بنا، اس کی وجہ سے معاشی ترقی ہوئی ، روزگار کے نئے مواقع فراہم ہوئے، ملک سے قرض کا بوجھ کم ہوا، 24 نئے ایر پورٹ بنائے گیے اب ان کی تعداد پچاس ہو گئی ہے ، ہزاروں کلو میٹر نئی سڑکیں اور ہائی اسپیڈ ریلوے لائن بچھائی گئی ، صحت کے محکمہ پر توجہ دی گئی اور غریب عوام کے لیے مفت طبی مراکز بنائے گیے ، بجٹ کا بڑا حصہ تعلیم کے لیے مختص کیاگیا ، یونیورسیٹیوں کی تعداد بڑھائی گئی ،ترک کرنسی لیراکی قدر وقیمت میں غیر معمولی اضافہ ہوا، یہ وہ وجوہات ہیں ، جس نے صدر رجب طیب اردوگان کو ملک میں مقبول بنا رکھا ہے ، اس مقبولیت کا نتیجہ ہے کہ وہ تیسری بار صدارت کے با وقار منصب پر فائز ہوئے ہیں، ان کی مقبولیت کو لوگ ان کی دہشت سے تعبیر کرتے ہیں ، غیر ملکی میڈیا انہیں تانا شاہ اور ڈکٹیٹر باور کرانا چاہتا ہے، جو ان کے دل کے پھپھولے ہیں، تانا شاہ اور ڈکٹیٹر اتنا مقبول ومحبوب نہیں ہوتا کہ مغربی قوتوں کی سخت ترین مخالفت کے باوجود تیسری بار فتح حاصل کرلے۔

نایاب ہورہی فصلیں ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

نایاب ہورہی فصلیں ___
Urudduinyanews72
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
پوری دنیا میں عموماً اور ہندوستان میں خصوصاً بہت ساری فصلیں اور اناج ہمارے کھیتوں سے رخصت ہوچکے یا ہوتے جارہے ہیں ، عجیب وغریب با ت یہ ہے کہ جانوروں کی بعض نسلوں کے ختم ہونے کی فکر سرکار کو زیادہ ہے اور جن جانوروں کی نسلیں ہندوستان سے نایاب ہورہی ہیں انہیں موٹی قیمت اور بڑے خرچ پر ہندوستان لاکر چڑیا خانے میں رکھا جارہا ہے اور مرکزی حکومت اس کا فخریہ ذکربھی کرتی ہے، مثال کے طور پر چیتا کا ذکر کیا جا سکتا ہے ، جس کے باہر ملک سے لانے پر سوشل اور الکٹرونک میڈیا نے زمین وآسمان کے قلابے ملا دیے اور خوب واہ واہی ہوئی۔
جانوروں کی نسلوں کی جس قدر حفاظت کی فکر حکومت کو ہے ویسی فکر نایاب ہورہی فصلوں، غلوں اور اناج کے سلسلے میں نہیں کی جا رہی ہے۔ اناج کی بہت ساری قسمیں جو غذائیت سے بھرپور تھیں اور صحت کے لئے انتہائی مفیدتھیں ہماری نئی نسلوں نے ان کا نام تک نہیں سنا ہے، جیسے جوار ، باجرہ ، ساما ، کونی، کودو، مڑوا، رام دانا ، کنگنی، الوا(شکرقند) سُتھنی، کٹکی وغیرہ۔ آج کسان اس کو اگانے سے اس لئے بیزار ہے کہ ہماری تھالی سے یہ اناج غائب ہوگئے ہیں۔اناج کا استعمال نہ ہوتو اس کے دام بازار میں نہیں ملتے، کھانے میں ان کی افادیت اور غذائیت جتنی ہو، یہ موٹے اناج کہے جاتے ہیںاور دسترخوان پر مہمانوں کے سامنے اسے پیش نہیںکیا جاتا ہے ۔ اس کے باوجود ہندوستان جیسے ملک میں جہاں کی آبادی اب چین سے زیادہ ہو گئی ہے ان فصلوں کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے۔
یہ حالات ایسے ہی نہیں پیدا ہوئے ،۱۹۶۰ کی دہائی میں سبز انقلاب کے نام پر ہندوستان کے روایتی کھانے کو غائب کر کے گیہوں چاول اور مکئی کی کھیتی کو بڑھاوا دیاگیا اور دوسری فصلوں کے مقابلے اس کی قیمت مارکیٹ میں زیادہ مقرر ہوئی، کسان پورے طور پر اس طرف راغب ہوگئے اور دھیرے دھیرے موٹے اناج کا اگانا بند کر دیا۔
ابھی بھی سرکار کی توجہ ان فصلوں کے واپس لانے کی طرف نہیں ہے، زرعی سائنسدانوں کے متوجہ کرنے سے تھوڑا سااحساس جاگا ہے، یہ احساس اندرون ملک کے لیے نہیں ، عالمی برادری کے لیے ہے ، اسی لیے موٹے اناج کے استعمال اور اس کی پیدارار کو بڑھانے کے لیے ہندوستانی حکومت نے اقوام متحدہ کو ایک تجویز بھیجی تھی ، اقوام متحدہ نے اس تجویز کو منظور کرکے ۲۰۲۳ء کو ’’عالمی موٹا اناج سال‘‘ قرار دیا ہے۔ وزیر خزانہ نرملاسیتارمن نے اپنے بجٹ میں جو فروری میں پیش کیا گیا تھا اور جس میں وزیر خزانہ نے موٹے اناج کی اہمیت اور ہندوستان کے روایتی کھانے کو پوری دنیا میں متعارف کرانے کے لیے ’’شری انن یوجنا ‘‘ شروع کرنے کا وعدہ کیا تھا یہ وعدہ اب تک وعدہ کی منزل سے آگے نہیں بڑھ سکا ہے۔
موٹے اناج کی فصل اگانے میں محنت بھی کم پڑتی ہے، پانی کا استعمال بھی گیہوں وغیرہ کی طرح نہیں ہوتا ، اور اس میں کیمیاوی کھاداور جراثیم کش دواؤں کے استعمال کی بھی حاجت نہیں ہوتی، فصل کاٹ کر اس کا باقی حصہ جانور کے چارے کے طور پر استعمال کر لیا جاتا ہے ، ان کوجلانے کی ضرورت نہیں ہوتی ، جس کی وجہ سے فضائی آلودگی نہیں پیدا ہوتی اور اس کا خطرہ بھی باقی نہیں رہتا۔ کورونا کے بعد یہ اناج جسم کی دفاعی قوت کو مضبوط کرنے کے لیے استعمال کئے جاتے رہے اور اس طرح ان فصلوں کی اہمیت کسی درجہ میں سامنے آئی ۔
ملک کی زرعی یونیورسیٹیوں میں موٹے اناج پر تحقیق کا کام چل رہا ہے، جن ریاستوں نے اس کی اہمیت کو سمجھ لیا ہے وہاں ان کی کھیتی بڑے پیمانے پر ہونے لگی ہے، کرناٹک ، راجستھان ، گجرات ، مدھیہ پردیش اور مہاراشٹرا میں ان فصلوں پر توجہ دی جارہی ہے لیکن شمالی ہندوستان بشمول بہارمیں ابھی کام شروع نہیںہوا ہے، حالانکہ موٹے اناج میں کلشیم، آئرن ، جنک ، فاسفورس، مینگنی شیم ، پوٹاشیم، فائبر، وٹامن ، کیروٹن، لیسی تھین وغیرہ کی موجودگی کی وجہ سے امراض قلب شوگر، تنفس وغیرہ میں راحت ہوتی ہے، تھائرائٹ ، یورک ایسیڈ ،کڈنی، لیورکے امراض بھی ان موٹے اناج کے استعمال سے قابو میں رہتے ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ اس سلسلے میں عوامی سطح پر بیداری لائی جائے اور اس بیداری کو عملی رنگ وروپ دینے کے لئے سرکار اور حکومت کا تعاون ملے،بازار میں ان فصلوں کی مناسب قیمت سرکار مقرر کرے، ورنہ جس طرح جانوروں کی بعض نسلیں ختم ہوگئیں ان فصلوں کا بھی نام ونشان مٹ جائے گا اور آنے والی نسل جانے گی ہی نہیں کہ کبھی یہ اناج ہماری تھالی کی رونق ہوا کرتے تھے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...