Powered By Blogger

جمعرات, جولائی 20, 2023

مسلمانو ! اپنی شکل وصورت محمدی بناؤشمشیر عالم مظاہری دربھنگوی

مسلمانو !  اپنی شکل وصورت محمدی بناؤ
اردودنیانیوز۷۲ 
شمشیر عالم مظاہری دربھنگوی
امام جامع مسجد شاہ میاں روہوا ویشالی بہار

سچ یہ ہے انسان کو یورپ نے ہلکا کر دیا 
ابتدا ڈاڑھی سے کی اور انتہاء میں مونچھ لی ۔
ڈاڑھی کبھی عورت کے چہرے پر نہیں آتی جب بھی آتی ہے مرد کے چہرے پر آتی ہے صرف یہ بتانے کے لئے کہ تم مرد ہو اور مرد ڈاڑھی منڈواکر کہتا ہے نہیں بھائی تم غلط فہمی میں مبتلا ہو میں وہ نہیں ہوں جو تم سمجھ رہے ہو ۔
فرمان رسول ﷺ  
اپنی مونچھیں کترواتے رہو اپنی ڈاڑھیاں بڑھاؤ   (طبرانی )
ہر لشکر کی ایک وردی ہوتی ہے جس سے وہ لشکر پہچانا جاتا ہے اسی طرح ہر مذہب کے کچھ ظاہری احکام بھی ہوتے ہیں جن سے صاحب مذہب کی پہچان ہو جاتی ہے محمدی لشکر اور اہل اسلام کی وردی اور ظاہری پہچان جو شریعت اور بانئ شریعت نے مقرر کی ہے وہ جن لوگوں پر نظر آئے گی بظاہر وہ ہی اس میں شمار کئے جائیں گے اور مومن و مسلم ہونے کا انہیں کے سر سہرا بندھے گا دنیا میں ہم دیکھتے ہیں جس کسی شخص کو کوئی زیادہ محبوب ہوتا ہے اور جس کو وہ اپنا سچا خیر خواہ سمجھتا ہے اس کی باتوں کا ماننا وہ اپنے اوپر لازم کر لیتا ہے اس کے خلاف کو اپنے حق میں سم قاتل سمجھتا ہے اور اس سے کوسوں دور رہتا ہے
یاد رکھیں نشان اسلام اور تمغۂ محمدی داڑھی کا بڑھانا مونچھوں کا پست کرنا ہے رسول اللہ ﷺ  فرماتے ہیں مشرکوں کا خلاف کرو داڑھی بڑھاؤ اور مونچھیں بہت ہی پست کراؤ  (بخاری و مسلم ) 
مجھے ماننے والوں کو چاہیے کہ وہ اپنی ڈاڑھیاں بڑھائیں اور مونچھیں بہت کم کرا ئیں اور کسریٰ کو ماننے والے اس کا خلاف کریں یعنی مونچھیں بڑھائیں اور داڑھیاں منڈوائیں  ہمارا طریقہ ان کے خلاف ہے ( دیلمی)
 ایک مرسل حدیث میں ہے کہ لوطیوں کی بستیاں الٹ دینے کے جو اسباب پیدا ہوئے تھے ان میں ڈاڑھیوں کا منڈوانا اور  مونچھوں کا بڑھانا بھی تھا (ابنِ عساکر )
آپ فرماتے ہیں ڈاڑھیوں کو منڈوانے اور زیادہ کتروانے والوں کی اللہ تعالی دعا قبول نہیں کرتا اور نہ ان پر اپنی رحمت نازل کرتا ہے اور نہ ان کی طرف نظر رحمت سے دیکھتا ہے اور فرشتے ان کو ملعون کہتے ہیں اور وہ خدا کے نزدیک یہود و نصاریٰ کے برابر ہیں  (طحاوی) 
حضرت کعب احبار رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ڈاڑھیوں کو کبوتروں کی دموں کی طرح کتروانے والوں کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں اسی طرح اخروی نعمتوں سے بھی محروم ہیں ( احیاء العلوم) 
سارے انبیاء علیہم السلام کی سنت یہی ہے کہ وہ ڈاڑھیاں بڑھاتے تھے اور مونچھیں کم کراتے تھے یہ علامت ہے اسلام کی اور اس کا خلاف کرنے والا کل انبیاء علیہم السلام کا مخالف ہے ( مسند احمد) 
خود رسول اللہ ﷺ  کی ڈاڑھی مبارک گھنی اور بہت زیادہ بالوں والی تھی ( مسلم ، ترمذی ، نوی) 
افسوس آج کل مسلمانوں کو ان شکلوں سے کیوں نفرت ہے وہ آپ کے اور صحابہ کرام کے طریقہ کو کیوں نا پسند کرتے ہیں ایسی شکلیں صورتیں بنا لیتے ہیں کہ بعض وقت تو مسلم و غیر مسلم میں تمیز مشکل ہو جاتی ہے۔  نوجوانوں میں یہ بیماری عام طور پر پھیل گئی ہے حدیث میں ہے جس صورت پر مرو گے اسی صورت پر قیامت کے دن اٹھائے جاؤ گے منڈی ہوئی داڑھی اوربڑی ہوئی مونچھوں سے خدا کے اور اس کے رسول ﷺ  کے سامنے جانے سے کیا آپ کو شرم معلوم نہیں ہوگی۔  سکھوں کو دیکھو ان کے گرو کا حکم ہے کہ جسم کے کسی حصے کے بال نہ لیں وہ کس طرح اپنے مذہب کا احترام کرتے ہیں کہ ناپاک بال بھی نہیں لیتے پھر تعجب ہے کہ ایک مسلمان کے دل میں اپنے رسول اللہ ﷺ  کی تعلیم کی ذرہ بھر بھی قدر نہ ہو بلکہ وہ بڑھی ہوئی ڈاڑھی اور پست مونچھ پر پھبتیاں اڑائیں آوازے کسیں ۔  طب کی رو سے بھی ڈاڑھی منہ کی اور گلے کی بیماریوں سے بچا لیتی ہے قوت قائم رکھتی ہے وغیرہ ۔ اپنے ہاتھوں سے اسلام کے نشان کو گرانا اپنے آپ محمدی صورت سے نفرت رکھنا پیسے دے کر سنت کو مارنا یہ انسان کی کون سی شرافت ہے ۔ 
مسلمانو ! لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ ۔  تمہارے لئے تو اچھا نمونہ رسول اللہ ﷺ ہی ہیں تمہیں نہیں چاہیے کہ آپ کی مخالفت اور مشرکین اور یہود و نصاریٰ کی موافقت کرو آپ فرماتے ہیں جو شخص جس قوم کی مشابہت کرے گا قیامت کے دن اس کا حشر انہی کے ساتھ ہوگا (ابوداؤد) 
مرد ہو کر عورتوں کی مشابہت کرنی نہایت بے شرمی کی بات ہے صحیح بخاری میں حدیث ہے کہ رسول اللّٰہ ﷺ  فرماتے ہیں اللہ کی لعنت ہے اس مرد پر جو عورتوں کی مشابہت کرے مرد کو داڑھی کا منڈانا ایسا ہی برا ہے جیسے کہ عورت کا سر منڈوانا بلکہ اس سے بھی بد اور بدتر باوجود اس قدر وعید شدید کے پھر بھی اکثر مسلمان اپنی شکلوں صورتوں  کو شریعت کے مطابق نہیں رکھتے اکثر تو صفا چٹ کر اتے ہیں اور بہت سے برائے نام کچھ بال لگے رہنے دیتے ہیں پھر بعض کے انچ پھر بعض کے دو انچ  اور بعض فرنچ فیشن دمدار ڈاڑھی رکھوا تے ہیں یہ سب کے سب سنت کے خلاف ہیں ۔ 
جس طرح صحابہ نے جاہلیت کی رسمیں چھوڑ دیں جس طرح عہد اول کے لوگوں نے ڈاکہ زنی،  شراب خوری،  زناکاری،  چوری،  بت پرستی،  حرام خوری،  صدیوں کی عادتیں ترک کردیں۔  اگر ہم بھی مسلمان ہیں تو کیا ہم سے یہ نہیں ہو سکتا کہ قبروں کی پوجا پاٹ ہم بھی چھوڑ دیں تجارتوں کی برائیاں ہم بھی نکال دیں ڈاڑھیاں منڈوا نے اور خلاف شرع لباس پہننے کی عادت کو ہم بھی ترک کر دیں ۔
مسلمانو ! کسی سنت کو ہلکی نہ سمجھو کسی فرمان رسول کی بے ادبی نہ کرو اپنی شکل و صورت محمدی بنا ؤ اللہ ہمیں نیک صورت خوش سیرت بنائے ہمارا ظاہر وباطن سنوار دے آمین ۔

منگل, جولائی 18, 2023

حضرت مولانا مفتی ظفیرالدین مفتاحیؒ. __✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

حضرت مولانا مفتی ظفیرالدین مفتاحیؒ. __
اردودنیانیوز۷۲ 
✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ بہار ، اڈیشہ وجھارکھنڈ
مؤمن کی زندگی کا اختتام موت پر ہوتاہے جو اصلاً عالم برزخ ہوکر عالم آخرت تک پہونچنے کا دروازہ ہے، فرمان نبوی کے مطابق موت ایک پُل ہے جو محبوب کو محبوب سے ملادیتاہے، یہ ایک تحفہ ہے جسے اللہ کی جانب سے اللہ کے فرشتے بندۂ مومن کے پاس لے کر آتے ہیں، اور روح کو قفسِ عنصری سے لیکر چلتے بنتے ہیں،اس دروازے میں داخل ہونے اور پُل سے گذرنے کے بعد ایک ایسی زندگی کا آغاز ہوتاہے جو کبھی ختم نہیں ہونے والی ہے، اس لئے کہاگیاہے کہ انسان ازلی تو نہیں ابدی ہے،عہدِالستُ سے گذرنے کے بعد کسی نہ کسی حیثیت سے وہ ہمیشہ باقی رہتاہے، اس ہمیشگی کی زندگی کی بہتری کا مدار دنیوی اعمال پر ہے، اس لئے دنیا کو آخرت کی کھیتی کہاگیاہے،اس کھیتی میں حسنِ عمل،پختہ ایمان ،حقوق اللہ وحقوق العباد کی ادائیگی کے بعد ہی اچھی فصل لہلہاتی ہے اور بالآخر انسان جنت کے باغوں میں سے ایک باغ میں اپنا ٹھکانہ بنانے میں کامیاب ہوجاتاہے۔
لیکن دنیا کی چکاچوند اور عیش وآرام کی زندگی اس راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہے اورانسان خواہی نخواہی شیطان کے مکروفریب کا شکار ہوکر آخرت کے اعتبار سے ناکام ہوجاتاہے، اسی لئے صوفیاء نے فکرِ آخرت اور حیات بعد الممات کے مراقبہ پر زور دیاہے،کیوں کہ اس کی وجہ سے انسان شیطانی مکر سے بچ جاتاہے، اورآخرت میں کامیاب ہوجاتاہے، یہ وہ دولت ہے جو ہرکسی کے حصہ میں نہیں آتی۔
حضرت مولانامفتی ظفیرالدین مفتاحی(آمد:7؍مارچ 1926ء رفت: 31؍ مارچ 2011ء) بن منشی شمس الدین کو اللہ رب العزت نے فکرِآخرت کی دولت سے نوزا تھا اوراس دولت نے ان کی زندگی کو تقویٰ کی دولت سے مالامال کردیا تھا، تقویٰ کے اثرات ان کی زندگی ،بودوباش،علمی مشغلے، تدریس وتصنیف اورتبلیغ دین میں کھلی آنکھوں سے دیکھے جاسکتے ہیں، ان کی مثال اس پھلدار درخت کی طر ح تھی جو پھلوں کے بوجھ پر اکڑتا نہیں ،جھک جاتاہے،ان کی علمی فتوحات ،فقہی بصیرت نے ان کے اندر تواضع وانکساری پیدا کردیاتھا، اللہ کی بڑائی کے تصورنے ان کے اندر سے دوسری ساری بَڑائی کاخیال نکال دیاتھا، اس کی وجہ سے کسی بڑے کے سامنے زندگی بھروہ سجدہ ریز نہیں ہوئے۔یہی ایک مومن کی شان ہے، سجدہ صرف اس خدا ئے برتر کو زیباہے ،عہدے، جاہ ومنصب کا احترام تو وہ کرتے تھے لیکن بچھ جانے کا مزاج ان کا کسی دور میں نہیں رہا، فکرآخرت نے انہیں ظاہری بنائو سنوارسے بھی بڑی حد تک بے نیاز کردیاتھا، صفائی ستھرائی ان کے مزاج کا حصہ تھا، لیکن آج کی اصطلاح میں جسے بننا سنورنا کہتے ہیں اس سے وہ کوسوں دور تھے، یہ صفت ان کے اندر ان کے ناموراستاذ حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمیؒ کی صحبت سے پیدا ہوئی تھی، جو عالمی شہرت یافتہ محدث اور اسماء رجال کے بڑے ماہر تھے، اورمئو کے لوگ ان کی علمی عبقریت وعظمت کے اعتبار سے انہیں ’’بڑے مولاناؒ ‘‘کہاکرتے تھے، لیکن کتابوں کے درمیان سادگی کے ساتھ ان کی زندگی گذرتی تھی، حضرت مولانا مفتی ظفیرالدین مفتاحی نے علم وصلاح کے ساتھ یہ صفت بھی ان کی اپنے اندر جذب کرلیاتھا،ان کا خیال تھاکہ خوبصورتی ان کپڑوں سے نہیں ہے جو انسان زیب تن کرتاہے ،اصل خوبصورتی علم وادب کی خوبصورتی ہے
عربی کا مشہور شعر ہے ؎
لیس الجمال باثوب تزیننا
ان الجمال جمال العلم والادب
حضرت مفتی ظفیرالدین کے دل میں بزرگوں کی صحبت سے فکرآخرت کی آگ لگی گئی تھی، انہیں بیعت کی سعادت شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ اوران کے بعد حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب سے حاصل تھی،خلافت واجازت مولانا فضل اللہ جیلانیؒ اورحضرت مولانا قاری محمد طیب صاحبؒ نے بخشی تھی۔اس لئے ان کی تحریر وتقریر میں اس کا عکس صاف طورپر دکھائی دیتاتھا، ان کی تقریروں میں اصلاحِ حال اورفکرِآخرت کے حوالے سے دردمندی جھلکتی نہیں، چھلکتی تھی، ان کے کالبدخاکی میں جو تڑپتا ہوا دل تھا، اس کی تڑپ اور کسک سامعین محسوس کرتے تھے، یہ تڑپ اور بے چینی، مخلوق کو خالق سے قریب کرنے کا یہ جذبہ ان کے اورادواذکار ،باجماعت تکبیر اولیٰ کے ساتھ صف اول میں نماز کی پابندی ،تلاوت قرآن کے اہتمام اور تہجد وغیرہ کے معمولات کی پابندی کی وجہ سے پائے جاتے تھے ،وہ فنا فی اللہ ہوگئے تھے اوراس مقام پر پہونچ کر وہ اللہ کے ہوگئے تھے اوراللہ ان کا ہوگیا تھا، اب ان کے اعضاء وجوارح سے جن اعمال کا صدور ہوتا وہ مرضیات الہی ،احکام خداوندی اور طریقۂ نبوی کے مطابق ہوا کرتاتھا، یہ وہ مقام ہے جس کے بارے میں مشہور ہے کہ اللہ بندے کا ہاتھ بن جاتاہے، جس سے وہ کام کرتاہے، اللہ بندے کی آنکھیں بن جاتاہے جس سے وہ دیکھتاہے، اللہ بندہ کا پائوں بن جاتاہے جس سے وہ چلتاہے، یہ مرضیات الہی پر چلنے کی تفہیم وتعبیر ہے ،اسے وحدۃ الوجود کے عقیدہ سے جوڑکر نہیں دیکھنا چاہئے، حضرت مولانا مفتی سعیداحمد پالن پوریؒ نے حضرت مفتی صاحب کے بارے میں لکھاہے:
’’وسعت علم، اصابت رائے، خلوص، للہییت،دینی وملی فکرمندی، جہد مسلسل اورقلم کی تیزگامی میں بے مثال تھے، سادگی اور عزلت نشینی کے عادی تھے‘‘(حیات ظفیر31۔32)
مولانا مفتی ظفیرالدین صاحبؒ اپنے کام سے کام رکھنے والے انسان تھے، انہیں لابی نہیں آتی تھی اوران کی اپنی اتنی مضبوط صلاحیت تھی کہ وہ دوسروں کو گراکر آگے بڑھنے کے قائل نہیں تھے، جیساآج کل ہمارے عہد میں رواج ہے کہ جب تک دوسرے کی برائی نہ کرو، سامنے والے کے قد کو مختلف عیوب لگا کر چھوٹا نہ دکھائو، تب تک اگلے کا قد بڑا ہوتاہی نہیں ہے، کئی لوگ توآپ کو روند کر آگے بڑھنے سے بھی گریز نہیں کرتے، ان کا مقصد صرف اپنی ناموری ہوتی ہے، چاہے اس کے لئے تمام شرعی حدود وقیود کو توڑنا ہی کیوں نہ پڑے، ایسے لوگوں میں کسی بڑی لکیر کے سامنے اس سے بڑی لکیر کھینچنے کی صلاحیت تو ہوتی نہیں، البتہ وہ سامنے کی لکیر کے بعض حصے کو مٹاکر اپنی لکیر بڑی دکھادیتے ہیں۔
حضرت مفتی ظفیرالدین صاحبؒ کو یہ طریقہ نہیں آتاتھا،آتا بھی تو وہ اس کو بَرت نہیں سکتے تھے، کیوں کہ فکر آخرت ان کودامن گیر ہوجاتی، اس کی ایک مثال یہ ہے کہ جب حضرت مولانا مفتی ظفیرالدین صاحب مفتاحی کو کتب خانہ کی ترتیب جدید کا کام سونپا گیا تو عام خیال یہی تھاکہ انہیں یہ کام پہلے سے کام کررہے ناظم کتب خانہ کو سائڈ کرنے کے لئے سونپا گیا ہے، کیونکہ ناظم کتب خانہ کے بارے میں یہ بات مشہور تھی کہ قاری محمد طیب صاحبؒ کے خلاف جو لوگ جو کچھ بھی کرتے ہیں اس میں اصل دماغ مولانا موصوف کا ہی کام کرتاہے،لیکن مفتی ظفیرالدین صاحب ؒنے اپنے طرز عمل ،رویے اور مخلصانہ جدوجہد کے ذریعہ جلدہی لوگوں کی غلط فہمیاں دور کردیں اور ناظم کتب خانہ کا شمار بھی مفتی صاحب کے مداحوں میں ہونے گا
مفتی ظفیرالدین مفتاحیؒ کے مزاج میں اعتدال اور توازن تھا ،خوشامدپسندی اور چاپلوسی کا مزاج انہوں نے پایا نہیں تھا، ان کی اس صفت خاص نے مفتی صاحب کو عوام وخواص میں مقبول بنارکھاتھا، وہ طلبہ کی حوصلہ افزائی میں طاق تھے، اورحق بات بے باکی اورسلیقہ سے کہنا جانتے تھے، وہ خاموش رہنا پسند کرتے تھے، لیکن بولتے تو حق بات بولتے، البتہ وہ یہ بات اچھی طرح جانتے تھے اور اس پر عمل پیرا بھی تھے کہ تمام حق بات کا کہنا شرعی فریضہ نہیں ہے، ورنہ آدمی سرمد ومنصور بن کر رہ جائے گا، ان کی مضبوط اور سوچی سمجھی رائے تھی کہ جب بولاجائے تو حق بولاجائے، بقول ان کے صاحب زادہ ڈاکٹر ابوبکر عباد اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو دہلی یونیور سیٹی ’’ابوجان سچی اورصحیح بات کہنے میں بے باک ہی نہیں کافی حد تک بے احتیاط تھے، ممکن ہے یہ سادگی صاف گوئی اس بے خوفی کی زائیدہ ہو جوان کی شخصیت کا لازمی حصہ تھے(میرے ابوجان حیات ظفیر63)
مفتی صاحب کو اللہ تعالیٰ نے صبر وشکر کی دولت سے بھی مالامال کیا تھا، انقلاب دارالعلوم کے موقع سے ان کی تصنیفات وتالیفات کے کئی مسودے کتابوں کی پلیٹیں ان کے کمرے سے غائب کردی گئیں، یہ ان کی زندگی کا بڑا سانحہ تھا، قاری محمد طیب ؒ سے قلبی تعلق کی وجہ سے سقوط اہتمام اور انقلاب کا معاملہ حضرت مفتی صاحب کے لئے کم جاں گسل نہیں تھا کہ اس علمی سرمایہ کے ضیاع نے انہیں اندر سے توڑ کر رکھ دیا، میں بھی اس زمانہ میں دارالعلوم دیوبند کا طالب علم تھا، میں نے بعض مسودات مال غنیمت پر قبضہ کرنے والوں سے حاصل کرکے محاسبی میں جمع کردیا تھا، بعض کتابوں کی پلیٹیں بھی برآمد کرکے امانتاً وہاں ڈال دی تھیں کہ حضرت تک پہونچ جائے، لیکن تقدیر میں یہی لکھاتھاکہ وہ ان تک نہ پہونچے، سو نہیں پہونچا، حضرت مفتی صاحب کو اس کا غم والم پوری زندگی رہا، لیکن اللہ رب العزت نے صبروثبات کی جو دولت انہیں عطا کی تھی اس نے انہیں حوصلہ بخشنا اور مشکل حالات میں زندگی گذارنے والے بہتوں کے لئے وہ نمونۂ عمل بن گئے اور ہم جیسے چھوٹوں کو یہ درس دے گئے کہ حالات موافق ہوں تو شکر کرو اور سازگار نہ ہوں تو صبر کو نصب العین بنا لو، یہ لکھناجتنا آسان ہے عملی زندگی میں اسے برتنا اسی قدر مشکل اور دشوار ہے، مفتی صاحب کو اس علمی خزینے کی گم شدگی کا افسوس تو زندگی بھر رہا اورجب بھی اس حادثہ کی یادآتی دل خون کے آنسو روتا، لیکن مجال ہے کہ صبرو ثبات کے قدموں میں کوئی تزلزل اور راضی برضاء الہی کے ریشمی تار پر کوئی بل آیاہو۔
مفتی صاحب کو امارتِ شرعیہ اور اکابر امارتِ شرعیہ سے فطری انسیت تھی، حضرت امیر شریعت رابع مولانا سید شاہ منت اللہ رحمانی ان پر بڑا اعتماد کرتے تھے، امیر شریعت سابع حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی ؒکو وہ ہمیشہ ’’پیر جی ‘‘کہہ کر مخاطب کرتے تھے ،امارت شرعیہ کو علمی وفکری انداز میں اہل علم کے درمیان مقبول کرنے میں بانیٔ امارت شرعیہ حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد ،نائب امیر شریعت ثانی مولانا عبدالصمد رحمانیؒ کے بعد تیسرا بڑا نام حضرت مولانا مفتی ظفیرالدین مفتاحیؒ کا ہے،’’ امات شرعیہ کتاب وسنت کی روشنی میں‘‘ اور’’ امارت شرعیہ دینی جدوجہد کا روشن باب‘‘نامی کتاب کا شمار امارت شرعیہ پر کام کرنے والوں کے لئے حوالہ جاتی کتب میں ہوتاہے، آخر الذکر کو تاحال مرتب کرنے کی ذمہ داری حضرت امیر شریعت سابعؒ نے
 میرے ذمہ کی تھی، کام میں پھیلائو او روقت میں تنگی داماں کی شکایت کی وجہ سے کام ابھی مکمل نہیں ہوسکاہے، دعا کی ضرورت ہے کہ یہ کام میرے ہاتھوں انجام پاجائے یہ حضرت امیر شریعت سابع ؒکی خواہش کی تکمیل بھی ہوگئی اور حضرت مفتی صاحبؒ کی کتاب کا تکملہ بھی۔
لیکن میرے نام یہ قرعہ فال بعد میں نکلا،پہلے ہم لوگوں نے یہ کوشش کی حضرت مفتی صاحب ہی عمر کی آخری منزل میں اس کام کو کردیں، چنانچہ امیر شریعت سادس حضرت مولانا سید نظام الدین صاحبؒ کی گذارش پر وہ امارت شرعیہ تشریف لائے، قیام دفتر میں واقع حضرت امیر شریعت کے حجرے میں ہوا،ہم لوگوں نے بار بار یہ گذارش کی کہ آپ املاکرادیں،ہم لوگ لکھ لیں گے، لیکن اس وقت ان کا حافظہ جواب دے رہاتھا اور فکرِ آخرت کا غلبہ اس قدر تھاکہ ذکرِ آخرت اوراپنی مغفرت کے علاوہ کوئی دوسری بات زبان پر آہی نہیں رہی تھی، شام میں بعد نماز مغرب ہم لوگوں نے تجویز رکھی کہ المعہدالعالی کے طلبہ کو فتاویٰ نویسی کے حوالے سے کچھ نصیحت کردیں ،اصرار پر تشریف لے گئے، طلبہ کے سامنے کرسی پر فروکش ہوئے، اور اپنی بات شروع کی، میر احافظہ اگر خطا نہ کررہاہوتو انہوں نے کہاکہ طلبۂ عزیز ہم آپ کے پاس کیوں آئے ہیں؟ جانتے ہیں، میں اس لئے آیاکہ آپ میرے لئے مغفرت کی دعا کردیں ، پھر خود کلامی کے انداز میں فرمایا کہ میری مغفرت ہوجائے گی نا، گلو گیر ہوگئے اور پھر خود ہی فرمایاکہ میرے اتنے شاگرد ہیں وہ سب مغفرت کی دعا کریں گے تو یقینا اللہ معاف کردے گا، بس اتنا کہہ کر خاموش ہوگئے، ہم لوگوں نے لڑکوں کو ابھاراکہ سوالات کرو، جن کا حافظہ جواب دے رہاہو ان کے تحت الشعور سے باتوں کے نکلوانے کا یہی طریقہ ان دنوں مروج ہے، چنانچہ ایک لڑکے نے سوال کردیاکہ جدوجہد آزادی میں آپ کی کیا خدمات رہی ہیں، ذرا ہمیں بھی بتائیں، کہنے لگے، اس سے ہماری یاآپ کی آخرت کا کیاتعلق ہے؟ کہہ کر خاموش ہوگئے، لہجہ میں خفگی کا عنصر شامل تھا، ہم لوگ سمجھ گئے کہ اب اللہ کے یہاں جانے کی فکر کا غلبہ ہے، بقیہ باتیں ذہین میں سماہی نہیں رہی ہیں،چنانچہ ہم لوگ مفتی صاحب کی مختصر دعاکے بعد امارت شرعیہ آگئے، غالباً یہاں ایک دو روز قیام کیا ، اس پیرانہ سالی کے باوجود مجھ سے جو انہیں محبت تھی، اس کے پیش نظر میری درخواست پرانہوں نے میری کتاب’’ نئے مسائل کے شرعی احکام‘‘ کا پیش لفظ لکھا اور بہت اچھا لکھا، یہ پیش لفظ شامل کتاب ہے، میری ایک اور کتاب غالباً نقد معتبر پر بھی ان کی تحریر موجود ہے؛ جو اصلاً اسی سفر کی یادگار ہے۔
لذیذ بود حکایت دراز تر گفتم کے مصداق یہ قصۂ پارینہ طویل ہوگیا، اللہ تعالیٰ حضرت کی مغفرت فرمائے اور ان کے علمی فیوض سے ہم سب کو بہرہ ور کرے اوران کے اوصاف وکمالات ،اطوار واقدار کو اپناکر ہم بھی کچھ کر پائیں ،اس دعاپر اپنی بات ختم کرتاہوں، آمین  صلی اللہ علی النبی الکریم وعلیٰ الہ وصحبہ اجمعین۔

پیر, جولائی 17, 2023

شعبہ اردو پٹنہ یونیورسٹی کا خبر نامہ ڈاکٹر ریحان غنی

شعبہ اردو پٹنہ یونیورسٹی کا خبر نامہ 
اردودنیانیوز۷۲ 

ڈاکٹر ریحان غنی 

ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی جب سے پٹنہ یونیورسٹی کے صدر شعبہ اردو ہوئے ہیں شعبہ کی ادبی سرگرمیوں میں اضافہ ہو گیا ہے.وہ کچھ نہ کچھ کرتے ہی رہتے ہیں. انہوں نے" اردو جرنل" کے ساتھ ہی "خبر نامہ" کی بھی اشاعت شروع کی ہے. تازہ ترین "خبر نامہ" (جنوری - دسمبر 2022، جلد 3)اس وقت میرے ہاتھ میں ہے. پٹنہ یونی ورسیٹی کے شعبہ اردو سے خبر نامے کی اشاعت کا سلسلہ بھی غالباً ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی نے ہی شروع کیاہے. "نیوز لیٹر" یا "خبر نامے" کی اشاعت کسی ادارے کے سرگرم ہونے کی پہچان ہے. کیونکہ اس سے متعلقہ ادارے کی جملہ سرگرمیوں سے لوگوں کو بہت حد تک واقفیت ہو جاتی ہے.اس کی اشاعت بالکل آسان ہے. کیونکہ اسے شائع کرنے کے لئے کسی رسالے کی طرح رجسٹرار آف نیوز پیپر آف انڈیا ( آر این آئی) سے اجازت لینے یارجسٹریشن کرانے کی ضرورت نہیں ہوتی. میں چونکہ اس شعبہ کا طالب علم رہا ہوں اور جب اس شعبے کے تحت اردو صحافت اور ابلاغ عامہ کا کورس شروع ہوا تھا تو مجھے بھی کچھ دنوں تک اس میں کلاس لینے کا موقع ملا تھا، اس لئے مجھے اس شعبے سے قلبی لگاؤ ہے. یہی وجہ ہے کہ جب اس شعبے میں کوئی علمی کام ہوتا ہے تو مجھے اس سے دلی خوشی ہوتی ہے. زیر نظر خبر نامہ دیکھ کر مجھے اس لئے بھی خوشی ہوئی کہ ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی کو اللہ تعالیٰ نے اس شعبے سے تعلق رکھنے والی عظیم المرتبت شخصیتوں کی روایت کو کس نہ کسی شکل میں پروان چڑھانے اور آگے بڑھانے کا موقع دیا. چار صفحات پر مشتمل اس خوبصورت اور دیدہ زیب خبر نامے کے سرپرست یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر گریش کمار چودھری اور چیف ایڈیٹر ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی ہیں.ڈاکٹر سورج دیو سنگھ اس کے ایسو سی ایٹ ایڈیٹر اور ڈاکٹر محمد ضمیر رضا، ڈاکٹر عشرت صبوحی اور ڈاکٹر شبنم اس کی اسسٹنٹ ایڈیٹر ہیں. یہ سب کے سب ایسے اساتذہ ہیں جن سے اردو زبان وادب نے اچھی امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں. خبر نامے کے اداریہ میں ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی نے اپنے کئی عزائم کا ذکر کیا ہے جن میں شاد عظیم آبادی پر اردو جرنل کا خصوصی نمبر، اگست میں ان پر قومی سمینار اور شعبہ کے ویب سائٹ کے قیام کا منصوبہ خاص طور پر شامل ہے. اس شمارے میں تصاویر اور اخبارات کے تراشے کے ساتھ شعبے کی ان تمام پروگرام کا بھی احاطہ کیا گیا ہے جو ماضی میں شعبے میں منعقد کئے گئے. اس شمارے میں اس شعبے سےتعلق رکھنے والے ان طلبا اور طالبات کی فہرست بھی دی گئی ہے جو یو جی سی نیٹ میں کامیاب ہوئے اور جو مقابلہ جاتی امتحان میں کامیاب ہو کر اردو ڈائریکٹوریٹ (محکمہ کابینہ سکریٹریٹ ،حکومت بہار )کے ماتحت مترجم کے عہدے پر فائز ہوئے. اس کے علاوہ اس میں اس شعبے میں مختلف موضوعات پر تحقیق کرنے والے طلبا و طالبات کے ذکر کے ساتھ ہی "سرود رفتہ" کے تحت علامہ جمیل مظاہری اور "نوائے امروز " کے تحت عالم خورشید کی غزل بھی شامل کی گئی ہے. اس طرح ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی نے خبر نامے کو خوب سے خوب تر بنانے کی کوشش کی ہے.میں آخر میں ایک بات کا خاص طور پر ذکرِ کرنا چاہتا ہوں وہ یہ کہ کسی زمانے میں شعبہ اردو پٹنہ یونیورسٹی ، پٹنہ کالج کی ایک بزم،" بزم ادب" ہوا کرتی تھی جو اپنے زمانے میں بہت فعال تھی. ہرسال اس کا اسٹوڈنٹس یونین کی طرح باضابطہ الیکشن ہوا کرتا تھا، انتخابی مہم چلائی جاتی تھی.اس کے صدر، شعبہ اردو پٹنہ یونیورسٹی کے صدر شعبہ اردو ہوا کرتے تھے. غالباً ستر کی دہائی میں میرے چھوٹے چچا رضوان غنی اصلاحی جب اس کے سکریٹری منتخب ہوئے تھے تو انہوں ایک شاندار آل انڈیا مشاعرہ کرایا تھا جس میں ڈاکٹر جگن ناتھ آزاد جیسے کئی بڑے شاعر شریک ہوئے تھے. اس کے بعد شعبہ اردو پٹنہ یونیورسٹی میں ایسا مشاعرہ نہیں ہو سکا. ضرورت اس بات کی ہے کہ "بزم ادب" کو زندہ کیا جائے.یہ کام ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی کو اپنے دور صدارت میں ضرور کرنا چاہیئے. اگر وہ "بزم ادب "کو فعال بنانے میں کامیاب ہو گئے تو یہ ان کا بڑا ادبی کار نامہ ہو گا جسے پٹنہ یونیورسٹی کی تاریخ ہمیشہ یاد رکھے گی..

مجبوری میں نہیں خوشدلی سے ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار ، اڈیشہ وجھارکھنڈ

مجبوری میں نہیں خوشدلی سے ___
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ بہار ، اڈیشہ وجھارکھنڈ
دین پر چلنا آسان ہے، اس کے اصول وضوابط آسانیاں پید اکرتے ہیں، اس پر چلنے سے ذہنی سکون ملتا ہے اور تناؤ کی کیفیت سے آدمی باہر آجاتا ہے، دین سے جس قدر دوری ہوگی اسی قدر پریشانیاں پیدا ہوں گی، عمومی احوال کے اعتبار سے دیکھیں تو مسلم سماج کو اس حقیقت کا ادراک نہیں ہے، وہ دین پر چلنا اور اس کے احکام کو مانناا اس وقت پسند کرتا ہے جب معاملہ اختیار کا باقی نہ رہے، اور حالات اضطرار کے پیدا ہوجائیں۔
 اس کو مثالوں سے سمجھنا ہو تو جان لیجئے کہ میت کی تدفین میں جلدی کرنے کا حکم ہے، ہم ایسا نہیں کرتے چوبیس گھنٹے روک لینا تو عام سی بات ہے کبھی دوچار دن بھی روک لیا جاتا ہے، اس وقت جب شریعت پر عمل کرنا اختیاری ہوتا ہے، لیکن اگر خدانخواستہ کسی نے خود کشی کرلی، تو حالت اضطرار میں فوری تدفین کا خیال آتا ہے، تاکہ تھانہ پولیس کے جھنجھٹ سے بچا جا سکے،کاش یہ خیال عام موت کی شکل میں بھی آتا اور تدفین میں جلدی کرلی جاتی،اور یہ خیال رکھا جاتا  کہ میت اگر نیک ہے تو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے جلد قبر میں جا کر بہرہ ور ہونے لگے اورخدانخواستہ بد ہے توزمین اس کے وجود سے جلد پاک ہو جائے۔
 یہی حال ہمارا توکل اور قناعت کے سلسلے میں ہے، ہمارے پاس مال ودولت کی کمی ہے، بھوک پیاس سے بے حال ہیں تو توکل اور قناعت کا سبق یاد دلایا جا تا ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے شکم مبارک پر پتھر باندھنے کا ذکر آتا ہے، کئی کئی روز کے فاقے اور پوری زندگی شکم سیر نہ ہونے کی بات کہی جاتی ہے،لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فقر وفاقہ کو اختیار کیاتھا، ان کا معاملہ اضطرار کا نہیں تھا، جب احد پہاڑ سونے کا آپ کے کہنے سے ہو سکتا تھا اس کے با وجود آپ نے الفقر فخری کا اعلان کیا، یقینا آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عمل اورصحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کی زندگی ہمارے لیے اسوہ اور نمونہ ہے اور ہر حال میں ہے، لیکن ہمیں یہ فرق یا د رکھنا چاہیے کہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مرضی سے اسے اختیار کیا تھا، اور ہم حالت اضطرار میں جب کچھ دستیاب نہیں ہوتا تو ان احوال وواقعات کے ذکر سے دل کو تسلی دیتے ہیں، یقینا آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا اس طرح زندگی گزار نا پریشان حال لوگوں کے لئے نمونہ ہے اور صبر وشکر، توکل علی اللہ اور اعتمادکا بڑا ذریعہ بھی، لیکن جب ہم آسودہ حال ہوتے ہیں تو ہمارا عمل بالکل دوسرا ہو جاتا ہے، فضول خرچی، لہو ولعب میں ہمارا سر مایہ زیادہ خرچ ہوتا ہے، منکرات اور گناہوں کے کام کی ہمارے یہاں فراوانی ہوجاتی ہے اور ہم شریعت کی روشنی میں خوشی وغمی نہیں مناتے، بلکہ من مانی پر اترآتے ہیں، اسی طرح جب ہم کمزور پڑجاتے ہیں، دشمن سے بدلہ لینے کی سکت ہم میں نہیں ہوتی تو آقا صلی اللہ علیہ وسلم کادشمنوں کے ساتھ سلوک یاد آتا ہے، اور عفو در گذر کی بات کی جاتی ہے، طائف کی گلیوں میں دشمنوں کو معاف کر دینے کا ذکر کیا جاتا ہے، فتح مکہ کے موقع سے اذہبو انتم الطلقاء (جاؤ تم سب آزاد ہو) کا ورد کیا جاتا ہے، قرآنی آیت   والکاظمین الغیظ والعافین عن الناس کی تلاوت کی جاتی ہے،یہ سب کچھ  بدلے کی طاقت نہ پاکر کیا جاتا ہے، اگر بد لے کی طاقت موجود ہے تو اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی کوشش کی جاتی ہے،حالانکہ شریعت کا مطالبہ ہر حال میں دین پر عمل کرنے کا ہے، حالت اختیار میں بھی اور حالت اضطرار میں بھی، بلکہ جولوگ بھی حالت اضطرار کو اختیارمیں بدلنے پر قادر ہوں، انہیں چاہیے کہ ایسا ماحول پیدا کریں کہ اضطرار کی نوبت ہی نہ آئے سب کچھ اختیار می رہے اور قدرت واختیار کے با وجود شریعت پر عمل ہماری زندگی کا لازمہ بن جائے۔

انس مسرورانصاری *دار التحریر* قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن(رجسٹرڈ

* تاج محل*
        اردودنیانیوز۷۲ 
      * انس مسرورانصاری
  تابش روئے حسیں، تا ج محل،شر ح جما ل 
 جیسے شاعر کی غزل جیسے مصور کا خیال

 ہند کو نا ز ہےجس پر و ہ حسیں تا ج محل 
کو ئی تمثیل نہ تیر ی نہ کو ئی تیر ا بد ل
ا ہل د ل کےلیے ا حسا س کی دھڑ کن گو یا
 بو ئےگل،خو ا ب سحر،چا ندکا د ر پن گو یا
 کتنے نا موں سے تجھے یا د کر یں تاج محل
 ا پنےہرعہد کی تا ر یخ میں خو د ا پنا بد ل
 آ ئینہ خا نہء د ل میں تر ی تصو یر یں ہیں
 حسن کے نا م جنوں خیز سی تحریریں ہیں
 قصہءشو ق و طلب،ماجرا ئے ہجر ووصا ل
 جیسےشاعر کی غزل جیسے مصور کا خیال

 ا ک نئے ہند کی تہذ یب و تمد ن کا نشا ں
 کا و ش خو ا ب کی تعبیر کا جا ن عنو ا ں
 ہند کی عظمت ر فتہ کا پتا د یتا ہے
 مر مر یں تا ج ہمیں د ر س و فا د یتا ہے
 ملک سے قوم سےہند و سےمسلماں سے و فا
 یعنی ا نسان کے رشتے سےہرا نساں سے وفا
کوئی بھی غیرنہیں،جوبھی ہیں سب اپنے ہیں 
 ا پنے تہذ یبی تعلق کے سبب ا پنے ہیں
 ر و ئے تہذ یب و تمد ن کو جلا د یتا ہے
 تا ج خو د ا پنی حقیقت کا پتا د یتا ہے
 مظہر عشق و محبت کا د رخشا ں یہ کما ل
 جیسے شاعر کی غز ل جیسےمصور کا خیال

ر ا ت کی آ نکھ سے ٹپکا ہو ا آ نسو جیسے
صبح کےدودھیا آ نچل کی ہےخوشبوجیسے
جس طر ح آ خر شب چا ند کا شفا ف بد ن 
 یا کسی خو ا ب کی تکمیل کا رو شن در پن
جیسے بلو ر کے سا غر میں ہو ا نگو رکا رس
جیسےپھیلی ہوئی خوشبوسی نفس تابہ نفس
کسی کا فر کی جو ا نی، کسی ا لھڑ کا شبا ب
جیسےمحجوب سی آنکھو ں میں ہمکتاہواخوب
پائےرقاصہء فطر ت میں ہے گھنگھروکی مثال
جیسے شا عر کی غز ل جیسے مصو ر کا خیال

صبح آ غو ش کشا ہے کہ ا ٹھا لے تجھ کو
 سورج ا س فکرمیں ہےا و راجا لےتجھ کو
 و ا د ئ جمنا بھی شادا ب ہے تیر ی خاطر
وقت کی آنکھ بھی بےخواب ہےتیری خاطر
 تو کسی شا ہ کی ا لفت کامظا ہر ہی سہی
 یا طلسما ت کی دنیا ؤں کاساحر ہی سہی
 تیرے معما رتو د را صل و ہ مزد و ر ہو ئے
جن کےدل خون ہوئے،دیدےبھی بےنورہوئے
جن کی عظمت کےفسانوں کورقم کرنامحال
جیسے شاعر کی غزل جیسے مصور کا خیال

شہر یاروں کے ہو ں جذبےکہ عوامی جذ بے
قلب ا نسا ں میں محبت کے دو ا می جذبے
عشق جب ڈ وب گیا حسن کی گہرائی میں
بن گیا تا ج محل ا یک ہی ا نگڑ ا ئی میں
جذبہء شو ق وجنو ں ہو تو غز ل ہو تی ہے
 کو ئی رنگین فسو ں ہو تو غز ل ہو تی ہے
 عشق جب بڑھ کے جنوں خیز عمل بنتا ہے
 تب کہیں جا کے کو ئی تا ج محل بنتا ہے
 مشترک ذ و ق فراواں کا ہے بے مثل کما ل
جیسےشاعرکی غزل جیسےمصور کا خیا ل

 نرم ہونٹوں پہ ہےبےساختہ مسکان کہ تاج
 دل میں ا نگڑ ا ئی سا لیتاہواارمان کہ تاج
 سینہء سا ز میں بید ا ر سا نغمہ کو ئی
ادھ کھلی آ نکھوں میں جاگاہواسپناکوئی
ا پنے ہی نو ر میں ڈو با ہو اخود ماہ منیر
 تا ج ! ا ئے آ بر و ئے ہند، محبت کی نظیر
 تیر ی پا کیزہ و معصوم فضاؤں کوسلام
 آ ج کی شا م ترے حسن،ترے پیا رکےنا م
 نہ کہیں تیرابدل ہے نہ کو ئی تیر ی مثال
جیسےشاعرکی غزل جیسےمصور کاخیال

           انس مسرورانصاری             *دار التحریر*
      قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن(رجسٹرڈ) 
                 رابطہ/9453347784/

اتوار, جولائی 16, 2023

خانگی زندگی ____مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

خانگی زندگی ____
Urudduinyanews72
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ بہار ، اڈیشہ وجھارکھنڈ

انسان علمی، سائنسی اور تحقیقی میدان میں آگے بڑھ رہا ہے اور اس نے اپنے علم وعمل سے تسخیر کائنات کے قرآنی نظریہ اور الٰہی فرمان کو سچ کر دکھایا ہے، لیکن اس کے بر عکس دین وشریعت سے دوری نے اس کی ذاتی زندگی کو اجیرن بنا رکھا ہے، خاندان ٹوٹ رہا ہے اور ذہنی سکون چھنتا جا رہا ہے، حالاں کہ اللہ رب العزت نے انسانی زندگی میں مرد وعورت کے نکاحی رشتے کو مودت ومحبت اور پر سکون زندگی کا سبب قرار دیا تھا، لیکن  ہماری بے عملی، بدعملی اور اس رشتے کے احترام کی لازمی اہمیت کے نظر انداز کرنے کی وجہ سے گھر میں سکون وطمانینت جیسی کوئی چیز باقی نہیں رہی، بیش تر گھروں میں خانگی زندگی کو آپسی جھگڑے اور غلط فہمیوں نے بر باد کر رکھا ہے، اس لیے گھر کے نظام کو درست کرنے کی ضرورت ہے، یہ درستگی گھر کو پر سکون بنا نے کے لیے اصول کے درجے میں ہے، ہماری خانگی زندگی کی بے ترتیبی کے اثرات بچوں کی ذہنی نشو ونما پر پڑتے ہیں، ہم نے بچوں کی تربیت کا کام اسکولوں اور کنونٹوں کے ذمہ کر دیا ہے، جہاں اعلیٰ اخلاق اقدار کے فروغ کا کام تمام ہو چکا ہے، مادہ پرستی نے ا نہیں ایک صنعتی کار خانہ بنا دیا ہے جہاں نصاب پڑھا دیا جاتا ہے، اقدار نہیں پڑھائے جاتے،ایسے میں ہماری ذمہ داری کافی بڑھ گئی ہے، ہمیں اپنے گھر کے نظام کو چست درست رکھنا ہوگا، اور اس کے لیے ملکی قوانین وضوابط کی طرح کچھ اصولوں کو گھر میں رائج کر نا ہوگا، تاکہ ہماری خانگی زندگی اور گھر یلو نظام دوسروں کے لیے بھی اسوہ اور نمونہ بن سکے اور پر سکون ماحول میں بچے اچھی تربیت پا سکیں۔
 سب سے پہلا کام یہ کرنا ہوگا کہ گھر کا ہر فرد نماز وقت پر ادا کرے،قرآن کریم کی تلاوت کا اہتمام کرے، نماز بندگی، عاجزی، در ماندگی، بے کسی اور بے بسی کے اظہار کا بڑا ذریعہ ہے، نماز کی پابندی سے تواضع اور انکساری پیدا ہوتی ہے اور اپنے کو بڑا سمجھنے کے بجائے اللہ کی بڑائی کا خیال ذہن ودماغ پر جمتا ہے، جو سار ے جھگڑوں کے ختم کرنے کا سبب بنتا ہے، اس لیے کہ جھگڑے اپنی بڑائی کے خیال سے ہی پیدا ہوتے ہیں۔
گھر کا ہر فرد کسی نہ کسی درجہ میں اپنے مقام مرتبہ اور حیثیت کے اعتبار سے ’’انا‘‘ کا شکار ہوتا ہے اور اس انانیت کی وجہ سے وہ دوسرے لوگوں کو اپنے سے کم تر سمجھتا ہے، ان کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کرتا ہے، اس لیے معاملہ بگڑتا چلا جاتاہے، یہ بیماری نماز کے ذریعہ ہی ختم ہو سکتی ہے، ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ تواضع اختیار کریں، آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے تواضع کو رفع درجات کا سبب بتایا ہے۔ من تواضع للہ رفعہ اللہ۔
 گھر کے ماحول کو خوشگوار بنانے کے لیے برائے مہربانی اور شکریہ کے کلمات کو رواج دینا چاہے اس سے ایک دوسرے کی وقعت دل میں بڑھتی ہے، آتے جاتے سلام کے الفاظ دل کے دروازے ایک دوسرے کے لیے کھولتے ہیں، یہ آداب ملاقات بھی ہے اور لوگوں کے لیے سلامتی کی دعا بھی، گھریلو مسائل جو بھی ہوں انہیں آپس میں ادب واحترام کے ساتھ ایک دوسرے کو منتقل کر نا چاہیے، مار پٹائی، گالی گلوج، لعن طعن سے بچنا چاہیے، عورتوں اور بچوں پر ہاتھ اٹھانا انتہائی غلط حرکت ہے، یہ ہمارے خاندان کے کمزور افراد ہوتے ہیں، اور کمزوروں پر ہاتھ اٹھانا انتہائی بزدلی کی بات ہے، تنبیہ کی گنجائش تو ہے لیکن اس کا اسلوب بھی جارحانہ نہ ہو، اس لیے کہ یہی جارحیت خانگی زندگی کو جو الا مکھی اور آتش فشاں بنا دیتی ہے۔
 خانگی نظام کو ٹھیک رکھنے میں ادب واحترام کے ساتھ خوش سلیقگی کا بھی بڑا عمل دخل ہوتا ہے،خوش سلیقگی یہ ہے کہ جب کوئی بات کرے تو توجہ سے سنی جائے، خواہ وہ بچہ ہی کیوں نہ ہو، اس سے اس کے اندر یہ احساس جاگے گا کہ میری بات توجہ سے سنی گئی اور اسے اہمیت دی گئی، اہمیت کا یہ احساس گھروں میں جو باغیانہ تیور نئی نسلوں میں پیدا ہو رہے ہیں، اسے ختم کر نے میں معاون ومدد گار ہوگا، یہ سلیقہ گھروں میں نظر بھی آئے، اس کا طریقہ یہ ہے کہ گھر کا ہر فرد اپنے ذمہ لازم کر لے کہ جو چیز جہاں سے اٹھائے گا، وہیں رکھے گا، دروازہ اور کھڑکی کھولا ہے تو ضرورت پوری ہونے کے بعد اسے بند بھی کرے گا، رات کو بارہ بجے کے بعد کوئی جاگا نہیں رہے گا، فضول گفتگو نہیں کرے گا، رات کے اس حصہ میں وہاٹس ایپ اور دوسرے ذرائع کا استعمال بھی نہیں کرے گا، یہ پابندی آپسی مجلسی گفتگو کے وقت بھی جاری رہے گی۔
 انفرادی طور پر کھانے کے بجائے اجتماعی طور پر خورد ونوش بھی گھر کے ماحول کو ساز گار بنانے میں انتہائی معاون ہوتا ہے، اوراس سے بہت ساری غلط فہمیوں کا دروازہ بند ہوتا ہے،اپنے ضروری کام خود انجام دے لینا بھی اسوہ? رسول ہے، اپنے چھوٹوں پر رعب ودبدبہ کے ساتھ حکم جمانا بچوں کی نفسیات کے لیے مضر ہے، البتہ تربیتی نقطۂ نظر سے ایسا ماحول بچوں کو فراہم کرنا چاہیے کہ وہ اپنے بڑوں کی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور اسے اپنی سعادت سمجھیں، در اصل یہ دو طرفہ الفت ومحبت کا معاملہ ہے، آپ چھوٹوں  پر رحم کریں گے تو وہ اپنے بڑے کی تو قیر کریں گے، گھر میں اگر وسعت ہو اور ہر ایک کے لیے الگ الگ کمرے مختص ہوں تو حتی الامکان دوسرے کے کمرے میں جانا اس کے سامان کو الٹ پلٹ کرنا بھی ممنوع ہونا چاہیے، جانا ضروری ہو تو دروازہ پہلے کھٹکھٹا یا جائے، سلام کیا جائے، یہ سلام استیذانی کہلاتا ہے،سلام کا جواب مل جائے اور صاحب کمرہ استقبال کی پوزیشن میں ہو تو ضرور جانا چاہیے، بچوں کی تربیت کے لیے اچھے کاموں اورامتحان میں اچھے نتائج کے موقع سے حوصلہ افزائی بھی ضروری ہے، اس سے آگے بڑھنے کا حوصلہ اور جذبہ پیدا ہوتا ہے، گھر کے کسی فرد کی بیماری پر تیمار داری اور عیادت سے بھی آپسی محبت  پروان چڑھتی ہے، اس لیے اس کام کو دوسری ضروریات پر مقدم رکھنا چاہیے، خانگی زندگی کو پر سکون رکھنے کے لیے اصول اور بھی ہیں فی الوقت اتنا ہی، باقی پھر کبھی۔

ہفتہ, جولائی 15, 2023

مولانا محمد اسلام قاسمیؒ __مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمینائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

مولانا محمد اسلام قاسمیؒ __
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
 
 امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ کی مجلس شوریٰ وارباب حل وعقد کے رکن، دار العلوم وقف دیو بند کے نامور استاذ، بلکہ استاذ الاساتذہ، عربی زبان وادب کے ماہر اور رمز شناس ، الثقافة اور سجاد لائبریری کے ترجمان البیان نیز ماہنامہ طیب دیو بند کے سابق مدیر محترم ، استاذ حدیث ، سادگی کے پیکر ، گفتگو سے مجلس کو قہقہہ زار بنانے والی عظیم شخصیت حضرت مولانا محمد اسلام قاسمی نے 16 جون 2023ءمطابق 26 ذیقعدہ بروز جمعہ بوقت ساڑھے آٹھ بجے صبح دیو بند واقع اپنے مکان میں اس دنیا کو الوداع کہہ دیا، وہ عرصہ سے صاحب فراش تھے، چار پانچ بار فالج کا حملہ ہوچکا تھا۔ اپنی قوت ارادی سے وہ ان حملوں کا مقابلہ کرتے رہے، لیکن وقت موعود آچکا تھا اور اس کے سامنے آدمی مجبور وبے بس ہوتا ہے، چنانچہ مولانا بھی چل بسے، جنازہ کی نماز اسی دن بعد نماز عشاءرات کے کوئی دس بجے احاطہ مولسری میں مولانا فرید الدین قاسمی استاذ حدیث دار العلوم وقف نے پڑھائی، مزار قاسمی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی، پس ماندگان میں دو لڑکے، دولڑکی اور اہلیہ کو چھوڑا، تمام لڑکے لڑکیوں کی شادی ہو چکی ہے، اور سب صاحب اولاد ہیں، مولانا کے بڑے لڑکا قمر الاسلام انجینئر ہیں اور بنگلور میں بسلسلہ ملازمت مقیم ہیں، دوسرے صاحب زادہ مولانا بدر الاسلام قاسمی جامعہ محمد انور شاہ میں استاذ حدیث ہیں، سبھی بچے ، بچیاں پابند شرع ہیں، جو مولانا کے لیے صدقہ جاریہ ہیں، ان کے علاوہ ملک وبیرون ملک میں پھیلے ان کے شاگردوں کی بڑی تعداد درس وتدریس دعوت دین کے کام میں مصروف ہیں، وہ سب بھی مولانا کے نامہ اعمال میں ثواب جاریہ کا سبب بنیں گے۔
 مولانا محمد اسلام قاسمی بن محمد صدیق کا آبائی وطن قدیم ضلع دمکاکا ایک گاؤں راجہ بھیٹا ہے، جھارکھنڈ بننے کے بعد اب یہ گاؤں جامتاڑا میں ہے، 16 فروری 1954ءکو مولانا نے اسی گاؤں میں آنکھیں کھولیں، یہیں سے قریب رام پور کے مکتب میں مولوی حواجی لقمان مرحوم سے ابتدائی تعلیم پائی، ناظرہ قرآن کے ساتھ اردو کی پہلی دوسری اور دینی تعلیم کے رسالے کے کئی حصے اسی مکتب میں پڑھ ڈالے، مولانا کی نانی ہال موضع بھِٹرہ موجودہ ضلع جامتاڑہ تھی، عربی کے ابتدائی درجات کی تعلیم جامعہ حسینیہ گریڈیہہ جھارکھنڈ سے حاصل کی، اشرف المدارس کلٹی بردوان میں بھی تعلیم وتربیت کے لیے کچھ دن گذارا 1967ءمیں، شرح جامی کی جماعت میں جامعہ مظاہر علوم سہارنپورمیں داخلہ لیا اور امام النحو علامہ صدیق احمد کشمیری ؒ سے شرح جامی اور مفتی عبد القیوم مظاہری ؒ سے کنز الدقائق سبقاً سبقاً پڑھنے کی سعادت پائی، 1968ءمیں دار العلو م دیوبند کا رخ کیا،1971ءمیں تکمیل ادب عربی، 1973-74میں اردو عربی خطاطی کی تکمیل ، 1975میں دار الافتاءمیں داخلہ لے کر تمرین افتا سے فراغت، 1976ءمیں علی گڈھ سے ادیب کامل اور آگرہ یونیورسیٹی سے 1989-90ءمیں ایم اے اردو کیا اس طرح مولانا علوم شرقیہ کے نامور عالم اور علوم عصریہ سے بھی یک گونہ مناسبت رکھتے تھے ۔ دوران تعلیم ہی آپ رشتہ ازدواج سے منسلک ہوئے اور موضع پھُل جھریا ضلع گریڈیہہ کے محمد خلیل انصاری کی دختر نیک اختر آپ کے نکاح میں آئیں۔
 1976میں ان کا تقرر الداعی کے معاون کے طور پر ہوا، اس موقع سے ان کی عربی خطاطی کام آئی اور وہ الداعی کی کتابت میں اپنے فن کا بھر پور استعمال کرتے رہے، اس دوران انہون نے عربی میں مضامین ومقالات لکھے، اردو نثر کا بھی صاف ستھرا ذوق تھا، چنانچہ ان کے مضامین الجمعیة، ہفت روزہ ہجوم ، پندرہ روزہ اشاعت حق، ماہنامہ دار العلوم دیو بند میں کثرت سے شائع ہوتے رہے، وہ دار العلوم وقف کے ترجمان پندرہ روزہ ندائے دار العلوم کے شریک ادارت رہے، صد سالہ اجلاس کے انقلاب کے بعد انہوں نے اپنا ایک ذاتی رسالہ 1983ءمیں الثقافة کے نام سے نکالا، دار العلوم وقف دیو بند میں تدریسی خدمات پر مامور ہوئے اور اپنی تدریسی صلاحیتوں کی وجہ سے ان کا شمار دا رالعلوم دیو بند وقف کے نامور اساتذہ میں ہونے لگا، طلبہ ان کے اخلاق اور محبت کے اسیر رہے، انہوں نے خورد نوازی کی جو مثال قائم کی وہ خود اپنے میں ایک نظیر ہے، سادگی اور شاگردوں سے گھل مل جانا ان کا طرۂ امتیاز تھا، وہ مولانا وحید الزماں کیرانویؒ کے شاگرد تھے، اس لیے ان کے یہاں شاگردوں کو اہمیت دی جاتی تھی، ہٹاؤ ، بچاؤ کا مزاج بھی نہیں تھا، جس سے ملتے، کھل کر ملتے اور لوگ ان سے متاثر ہو کر واپس ہو ا کرتے تھے۔
امارت شرعیہ اور اکابر امارت شرعیہ سے انہیں بے پناہ محبت تھی، بیماری کی حالت میں امارت شرعیہ کا آخری سفر انہوں نے انتخاب امیر کے موقع سے کیا تھا۔
 مولانا تقریر بھی اچھی کرتے تھے، میں کئی مدرسوں کے پروگرام میں ان کے ساتھ رہا، نثر بھی بڑی پیاری لکھتے تھے اور تحقیق کا مزاج بھی پایا تھا، ان کی اٹھارہ کتابیں زیور طبع سے آراستہ ہو ئیں، ان میں ترجمہ مفید الطالبین ، دار العلوم کی ایک صدی کا علمی سفرنامہ ، مقالات حکیم الاسلام، ضمیمہ منجد عربی اردو، ترجمہ القراء الرشیدہ (تین حصے) ازمة الخلیج (عربی) خلیجی بحران اور صدام حسین جدید عربی میں خط لکھے (عربی اردو) جمع الفضائل شرح اردو شمائل ترمذی، منہاج الابرار شرح اردو مشکوٰة الآثار ، دار العلوم دیو بند اور حکیم الاسلام قاری محمد طیب ، میرے اساتذہ ، میری درسگاہیں، درخشاں ستارے، رمضان المبارک فضائل ومسائل ، زکوٰة وصدقات اہمیت وفوائد ، دار العلوم دیو بند اور خانوادہ قاسمی، متعلقات قرآن اور تفسیر مقبول ومشہور ہیں، ان کے علاوہ تین کتابیں اور زیر تالیف تھیں جو یا تو مکمل نہیں ہوپائیں یا طبع نہیں ہو سکیں، ان میں موجز تاریخ الادب العربی، علم حدیث اور علماءہند اور چند مشاہیر عظام خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔
 مولانا سے میرے تعلقات امارت شرعیہ آنے سے قبل سے تھے۔ دار العلوم دیو بند میں ابتلاءوآزمائش کا دور ہم دونوں نے ساتھ ساتھ دیکھا تھا، فرق یہ تھا کہ وہ ان دنوں الداعی کے معاون ایڈیٹر تھے اور یہ بندہ طالب علم، بعد کے دنوں میں کئی جلسوں میں ہمارا ساتھ رہا، دار العلوم وقف میں جب بھی حاضری ہوتی وہ ساتھ ساتھ گھوماتے، علمائ، اساتذہ اور ذمہ داروں سے ملاتے، بے پناہ خوشی کا اظہار کرتے، معقول ضیافت فرماتے، پتہ ہی نہیں چلتا کہ وہ اتنے بڑے عالم ہیں، اور ان کے ساتھ گھومنے والا ان کے وقت میں طالب علم تھا۔
مولانا سے میری آخری ملاقات 25 دسمبر 2022ءکو ان کے مکان پر دیو بند میں ہوئی تھی، میں دہلی ایک سمینار میں شرکت کرکے اپنے دوست مولانا مصطفی قاسمی کی لڑکی کی شادی میں دیو بند گیا تھا، مولانا کو فون کیا تو عصر بعد کا وقت دیا، پھر تھوڑی دیر کے بعد فون آیا کہ اگر ابھی خالی ہوں تو آجائیے، صبح کے دس بج رہے تھے، میں پہونچ گیا کوئی ایک گھنٹہ لیٹے لیٹے گفتگو کرتے رہے، امارت شرعیہ ، دار العلوم ، دیوبند کے احوال ، بہار کا سیاسی اتھل پتھل سارے موضوعات زیر بحث آئے، طبیعت بحال تھی اور بائیں طرف فالج کے اثر کے علاوہ کوئی تکلیف نہیں تھی، فرمایا کہ دیوار پکڑ کر اب قضائے حاجت کے لیے چلا جاتا ہوں، پہلے سے طبیعت اچھی ہے، میں مطمئن ہو کر واپس ہوا، معلوم ہوا کہ میرے وہاں سے اٹھتے ہی ان پر فالج کا پھر حملہ ہو گیا، اور وہ آئی سی او میں ڈال دیے گیے، ان کے صاحب زادہ مولانا بدر الاسلام قاسمی سے خیریت دریافت کیا اور واپس چلا آیا، زبان پر اللہ سے دعاءصحت کی درخواست تھی، اللہ نے افاقہ فرمایا اور پھر وہ کم وبیش چھ ماہ حیات سے رہے، پھر ملک الموت ان کی روح کو قفس عنصری سے لے کر چلتا بنا ۔ اللھم اغفر وارحم وانت خیر الراحمین۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...