Powered By Blogger

ہفتہ, جولائی 22, 2023

اسکولوں میں آن لائن حاضر یمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار ، اڈیشہ وجھارکھنڈ

اسکولوں میں آن لائن حاضر ی
Urudduinyanews72
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار ، اڈیشہ وجھارکھنڈ
 سرکاری اسکولوں میں طالب علموں کی گھٹتی تعداد اور اساتذہ کی غیر حاضری کی شکایتوں کے پیش نظر 16 جولائی سے اساتذہ اور طلبہ کی حاضری کو آن لائن کر دیا ہے، یہ حاضری آمد ورفت دونوں کے وقت بھیجی جانی ہے، مدرسہ بورڈ کے مدارس میں یہ حاضری رجسٹر کی فوٹو کے ذریعہ ہو رہا تھا، اب ہو سکتا ہے وہاں بھی یہ سلسلہ جاری ہوجائے۔
 یہ ایک اچھا قدم ہے، اس کی وجہ سے اساتذہ کی زبان میں’’فرنچ لیو‘‘ پر پابندی لگے گی، رخصت اتفاقیہ کی درخواست دے کر غائب رہنے اور آئندہ دن آکر حاضری بنانے پر بھی روک لگے گی ، بعض سر پھرے استاذ اور استانیاں صدر مدرس سے سی ایل چڑھانے پر جھگڑ لیتے تھے، جس سے اسکول میں پڑھنے والے طلبہ وطالبات اور استاذ واستانیوں پر بُرا اثر پڑتا تھا، اس سے بھی نجات ملے گی، حاضری کا تناسب بڑھے گا اور کار طفلاں جو تمام ہوتا جا رہا تھا اس پر بڑا فرق پڑے گا، طلبہ کی حاضری ہوگی تو پڑھائی کا ماحول بھی بنے گا، اور طلبہ وطالبات کی دلچسپی اسکول سے بڑھے گی ، ابھی بیش تر اسکولوں میں طلبہ کی حاضری مڈ ڈے میل کے حصول کے لیے ہوتی ہے اور کھانا کھا کر طلبہ وطالبات رفو چکر ہوجاتے ہیں، پہلے استاذ سکنڈ ہاف میں خوش گپیوں میں مشغول رہتے تھے اور استانیاں سوئٹر بننے میں ، اب سوئٹر بننے کا کام بند ہو گیا ہے، چنانچہ استانیاں بھی خوش گپیوں میں شریک ہوجاتی ہیں، ان حالات میں گارجین حضرات یہ سمجھتے تھے کہ لڑکوں کو اگر پڑھانا ہے تو کسی کنونٹ یا پرائیوٹ اسکول کا سہارا لیا جائے، چنانچہ سرکاری اسکولوں میں داخل بیش تر بچے کھانا اسکول میں دن کا کھاتے ہیں اور پڑھائی کہیں اور کرتے ہیں۔
استثنا سب جگہ ہوتا ہے، یہاں بھی ہے، لیکن بیش تر اسکولوں کا حال وہی ہے، جس کا ذکر اوپر کیا گیا ، شہری اسکولوں میں کم اور دیہاتی اسکولوں میں زیادہ ، شہری اسکولوں کی طرف تعلیمی افسران کا رخ زیادہ ہوتا ہے، کسی کسی دن تو الگ الگ کٹیگری کے افسران دن میں دو بار بھی آدھمکتے ہیں اور دارو گیر کرتے ہیں، داروگیر کو نرم کرنے بلکہ ختم کرنے کا رجحان بھی ہندوستانی روایات کے مطابق ہے، اور اس سے بھی کام چلالیا جاتا ہے، لیکن برابر ایسا نہیں کیا جا سکتا، اس لیے یہ نسخہ بھی ہمیشہ کام نہیں آتا، بعض سخت گیر افسران ہوتے ہیں جن کے یہاں داد ودہش کا مفہوم آج بھی رشوت ہے، وہ کسی طرح مینیج نہیں ہوپاتے، در اصل ایسے ہی افسران سے لوگ صحیح رخ پر جاپاتے ہیں، ظاہر ہے یہ فیصلہ اساتذہ اسکول کو راس نہیں آ رہا ہے، لیکن راس آوے یا نہیں ’’راست‘‘ یہی ہے۔

گھریلوکشیدگی اوربچوں کی نشوونما✍️✍️ ٭انس مسرورانصاری

گھریلوکشیدگی اوربچوں کی نشوونما
Urudduinyanews72

✍️✍️ ٭انس مسرورانصاری
میاں بیوی میں کتنی ہی محبت اورخلوص واپنائیت کیوں نہ ہولیکن کبھی کبھی ،کسی نہ کسی وجہ سے اختلافِ رائے کے سبب توتو،میں میں ،ہوہی جاتی ہے۔کہتے ہیں کہ روٹھنے اورمنانے کے بغیرازدواجی زندگی میں حقیقی لطف ومسرت بھی تونہیں۔ 
میاں بیوی کے درمیان اَن بن کی صورت میں گھریلوکام کاج کے لیے سب سے اہم رول اداکرتے ہیں ننھے بچے۔یہ معصوم بچے فریقین کے درمیان ترجمانی کے فرائض انجام دیتے ہیں۔ممی کوپاپاسے کوئی ضرورت آن پڑے یاپاپاکو ممی سے کوئی کام ہو توننھے میاں پکڑے جاتے ہیں۔ 
‘‘ببلو!ذرااپنے پاپاسے کہوکہ فلاں چیز لانی ہے۔آفس سے ذراجلدی آجائیں گے۔ہمیں کہیں جاناہے۔ببلو!اپنے پاپاسے کہوناشتہ تیارہے۔پاپاسے پوچھوکہ رات کے کھانے میں کیارہے گا۔؟میں ذراپڑوس میں بڑی آپاکے گھرجارہی ہوں۔اپنے پاپاسے کہومیزپرکھانالگادیاہے،کھالیں گے۔’’وغیرہ وغیرہ۔پاپاکوممی سے کچھ کہناہے توببلوسے کہاجائے گا۔‘‘بیٹا!ہمارے شرٹ کی بٹن ٹوٹ گئی ہے،ممی سے کہوبٹن لگادیں۔شام کوذرادیرسے واپس آؤں گا،ممی کوبتادو۔ممی سے کہوکل صبح مجھے کہیں جاناہے،ناشتہ کرکے جاؤں گا۔’’وغیرہ وغیرہ۔ایسے ہرموقع پرببلومیاں کی حیثیت بہت بڑھ جاتی ہے۔والدین کے لیے وہ بہت زیادہ اہم ہوجاتے ہیں۔انھیں ضرورت سے زیادہ پیارکیاجانے لگتاہے۔اُن کی ہرفرمائش کوفوراََپوراکیاجاتاہے۔میاں،بیوی کے درمیان وہ رابطے کاواحدذریعہ ہوتے ہیں۔ببلومیاں کوبھی حیرت ہوتی ہے کہ آخرمعاملہ کیاہے کہ انھیں کبھی اُدھربھیجاجاتاہے اورکبھی اِدھر!وہ پیغام رسانی کاکام حسن وخوبی سے انجام دیتے رہتے ہیں۔اس درمیان ببلومیاں کی طبیعت خراب ہوجاتی ہے یاگھرمیں کوئی مہمان آجاتاہے یاکوئی غیرمعمولی واقعہ ہوجاتاہے تومیاں،بیوی کے درمیان کشیدگی خودبخودختم ہوجاتی ہے اورلگتاہی نہیں کہ ان میں اَن بن تھی۔ 
یہ گھریلوکشیدگی مہذّب اورتعلیم یافتہ گھرانوں کی ہے۔لیکن جب یہی کشیدگی ناخواندہ یانیم خواندہ گھرانوں میں پیداہوتی ہے توآخری تان گالی گلوج اورمارپیٹ پرٹوٹتی ہے۔کشیدگی اورتناؤکے درمیان اگرفریقین میں کوئی بیمارپڑجاتاہے یاکوئی بچہ علیل ہوجاتاہے یاگھرمیں کوئی غیرمعمولی واقعہ پیش آجاتاہے توگھرکی فضارفتہ رفتہ معمول پرآجاتی ہے۔پھروہی روزوشب پھروہی زندگی۔کبھی کبھی تھوڑی سی گھریلوکشیدگی کھٹّے میٹھے لمحوں کااحساس دلاتی ہے۔میاں بیوی کے تعلق کومستحکم بھی کرتی ہے اورپیارومحبت میں اضافے کاسبب بھی ہوتی ہے۔ازدواجی زندگی میں مزید خوش گواریت پیداہوتی ہے۔لیکن جب یہی کشیدگی تسلسل اورتواتراختیارکرلیتی ہے توفریقین کے آپسی اختلافات اورکشیدگی کے مضراورمنفی اثرات سب سے زیادہ بچوں پر پڑتے ہیں۔گھریلوکشیدگی سے گھرکی فضامیں ہروقت جو ایک تناؤ،سنسنی خیزخاموشی،اُداسی اورمتوقع مہابھارت کی سی کیفیت ہوتی ہے،وہ بچوں کی ذہنی وجسمانی نشوونماکے لیے زہرِقاتل ہوتی ہے۔ 
گھریلوکشیدگی کے اس ماحول میں بچے ہراساں،خاموش،اداس،غم زدہ اورمتفکررہتے ہیں۔ہمہ وقت اُن پرخوف ودہشت اورایک طرح کی بے چارگی و محرومی اورمایوسی طاری رہتی ہے۔والدین کے درمیان متوقع مہابھارت کی وجہ سے معصوم بچے ہروقت خائف ،گم سم اورخاموش رہتے ہیں۔چونکہ بچوں کواپنے والدین سے وہ پیار،وہ محبتیں اورشفقتیں نہیں مل پاتیں جن کے وہ مطلوب،متلاشی اورتمنّائی ہوتے ہیں اورجو ان کی ضرورت اوران کا حق ہیں۔والدین کی بے توجہی کے سبب اُن میں متعددنفسیاتی امراض پیداہوجاتے ہیں۔ہروقت چہلیں کرنا،کھیناکودنا،ہنسناہنسانابچوں کی فطرت ہوتی ہے لیکن جب فضااورماحول ناخوش گوارہوتے ہیں توبچوں کی ذہنی و فطری قوت اچھی طرح بیدارنہیں ہوپاتی۔ان میں اضافہ نہیں ہوپاتا۔صلاحیتوں کے سوتے خشک ہونے لگتے ہیں۔گھریلوکشیدگی کے درمیان خوف ودہشت،اُداسی اورخاموشی کی حالت میں پرورش پانے والے بچے ذہنی ونفسیاتی اورجسمانی امراض کی وجہ سے کبھی کوئی بڑاکارنامہ انجام نہیں دے پاتے۔وہ بزدل اورڈرپوک ہوجاتے ہیں ۔مایوسی انہیں اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔اُن میں احساسِ کمتری کے جذبات شدّت کے ساتھ عودکرآتے ہیں۔اُن کے افعال اورفیصلے جذباتی ہوتے ہیں۔والدین کی توجہ سے محروم بچے ایک طرح سے ذہنی طورپرناکارہ ہوتے ہیں اوراحساسِ محرومی اُ ن کی پوری زندگی کو سانحاتی بنادیتاہے۔وہ بڑے ہوکر ایک ناکام زندگی جیتے ہیں۔ 
نفسیات کے ماہرین کامتفقہ فیصلہ ہے کہ ایسے کشیدہ اورناخوش گوارماحول میں پرورش پانے والے بچے زندگی میں کبھی کوئی کارنامہ انجام نہیں دے سکتے۔ 
بچوں کی جسمانی وذہنی نشوونمامیں خوش گوارگھریلوفضابہت زیادہ معاون ومددگارہوتی ہے۔اس لیے جن گھروں میں فضاکسی بھی وجہ سے کشیدہ اورمکدّرہوان گھروں کے افرادکی بڑی ذمّہ داری ہے کہ وہ نئی نسل پررحم کریں۔خاندان کی فلاح وبہبوداوربہتری کے لیے مصالحت اوردرگزرکاراستہ اختیارکریں۔بچو ں کے ساتھ شفقت اورمحبت سے پیش آئیں۔نئی نسل کوتباہ وبرباد ہونے سے بچائیں
۔ موڈکتنابھی خراب کیوں نہ ہومگرجب گھرمیں داخل ہوں تومسکراتے ہوئے چہرے کے ساتھ داخل ہوں۔اپنے بچوں کے ساتھ کچھ وقت ضرورگزاریں۔اسکول کاہوم ورک دیکھیں۔تعلیم کے معاملے میں اُن کاحوصلہ بڑھائیں۔بچوں کی ضرورتوں کاپوراخیال رکھیں۔انھیں محسوس نہ ہونے دیں کہ اُن سے غفلت برتی جارہی ہے یااُنھیں نظراندازکیاجارہاہے۔اس حقیقت کوکبھی فراموش نہ کریں کہ گھریلوماحول ہی انسان کی کردارسازی کرتاہے۔اچھایابُرابناتاہے۔اپنے بچوں کوکامیاب دیکھناچاہتے ہیں تواُن کی رہنمائی کریں اور اُن کے ساتھ پوراپوراتعاون کریں۔ 
٭٭ 

 انس مسرؔورانصاری 
 
 قومی اردوتحریک فاؤنڈیشن 
 سکراول،اردوبازار،ٹانڈہ۔امبیڈکرنگر۲۲۴۱۹۰۔ 
(یو،پی) 
 

جمعہ, جولائی 21, 2023

ماہ محرم الحرام اسلامی تاریخ کا اہم باب رہا ہے : محمد ضیاء العظیم قاسمی ،

ماہ محرم الحرام اسلامی تاریخ کا اہم باب رہا ہے : محمد ضیاء العظیم قاسمی ،
اردودنیانیوز۷۲ 
جامعہ عربیہ دارالعلوم محمدیہ کے زیر اہتمام محرم الحرام کے استقبال میں پروگرام کا انعقاد ۔
پھلواری شریف پٹنہ مورخہ 21/جولائی 2023 (پریس ریلیز :محمد ضیاء العظیم قاسمی)
جامعہ عربیہ دارالعلوم محمدیہ البا کالونی پھلواری شریف پٹنہ میں مورخہ 20/جولائی 2023 بعد نماز مغرب محرم الحرام کے استقبال پر مولانا محمد ضیاء العظیم قاسمی کی صدارت میں ایک خوبصورت پروگرام کا انعقاد کیا گیا، جس میں محرم الحرام کی اہمیت و فضیلت، اور اس ماہ سے وابستہ تاریخ پر روشنی ڈالی گئی، اس پروگرام میں طلبہ وطالبات سمیت اور بھی کئی لوگوں نے شرکت کی ۔
 پروگرام کی نظامت شہزاد عالم نے کی ۔
پروگرام کا آغاز حافظ اعجاز کے تلاوت قرآن سے ہوا ، بعدہ قاری واجد علی عرفانی استاذ جامعہ ہذا ، شہزاد عالم،سجاد عالم ،قاری ماجد نے نعت پاک پیش کیا ۔
مقرر کی حیثیت سے سرور عالم نے صحابہ، عظمت صحابہ، اور محرم الحرام کے پس منظر پر اپنی تقریر پیش کی، 
آخر میں صدارتی خطبہ دیتے ہوئے مولانا محمد ضیاء العظیم قاسمی استاذ جامعہ ہذا نے محرم الحرام کی اہمیت و فضیلت اور اس کی تاریخی پس منظر پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ماہ محرم الحرام اسلامی تاریخ کا اہم باب رہا ہے، یہ اسلامی تاریخ کا پہلا مہینہ ہے، اس ماہ میں کئ اہم واقعات رونما ہوئے ہیں جو اسلامی تاریخ کا اہم حصہ رہا ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ محرم الحرام کا ہم سے کیا تقاضہ ہے، اور ان واقعات سے ہمیں جو پیغامات اور سبق ملتے ہیں انہیں سمجھیں اور ان پر عمل کریں ۔
واضح رہے کہ جامعہ عربیہ دارالعلوم محمدیہ البا کالونی پھلواری شریف پٹنہ جو کہ امارت شرعیہ سے تقریباً ڈیڑھ کیلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے ۔یہ ایک خالص دینی ادارہ ہے،جس کی بنیاد محض اخلاص وللہت پر ہے، اس ادارہ نے بہت کم وقتوں میں اپنی خدمات کی بنا پر ایک انفرادی شناخت قائم کرچکا ہے، اسی سال شعبان المعظم کے ماہ میں 16/حفاظ کرام جنہوں نے اس ادارہ سے تکمیل حفظ قرآن کیا ان کے سروں پر دستارِ فضیلت باندھی گئی۔
اس وقت ادارہ میں پانچ ماہر وباہر اور محنتی اساتذۂ کرام، ایک باورچی اور تقریباً تیس طلبہ ہاسٹل میں مقیم ہیں جن کی مکمل کفالت مدرسہ ھذا کے ذمہ ہے ،نیز بیس مقامی طلبہ وطالبات اپنے مقرر وقتوں میں آکر علمی پیاس بجھا رہے ہیں ،یہ ادارہ محض فی سبیل اللہ اور اہل خیر خواتین وحضرات کے تعاون سے چل رہا ہے ۔

حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شادی __آسان نکاح کا عملی نمونہ✍️مفتی محمد ثناء الہدٰی قاسمی

حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شادی __آسان نکاح کا عملی نمونہ
Urudduinyanews72
✍️مفتی محمد ثناء الہدٰی قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 

آقاصلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ رب العز ت نے چار صاحبزادیاں عطا فرمائی تھیں، ان میں سب سے بڑی صاحبزادی حضرت زینبؓ ہیں، جن کی شادی مکہ میں حضرت خدیحہؓ کے خالہ کے لڑکے ابوالعاص بن ربیع کے ساتھ ہوئی،دوسری صاحبزادی حضرت رقیہؓ اور تیسری صاحبزادی حضرت ام کلثوم ؓ کا نکاح یکے بعددیگرے حضرت عثمان غنی ؓ سے ہوا، ان شادیوں کے جوتذکرے کتابوں میں ملتے ہیں، اس سے پتہ چلتاہے کہ ان صاحبزادیوں کونکا ح کے بعد ان کے شوہروں کے گھر پہنچادیاگیا، کسی بھی حدیث اور سیر وتاریخ کی کتاب سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ آپ نے ان صاحبزادیوں کوکچھ جہیز کے طور پردیا۔
  حضرت فاطمہؓ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے چھوٹی صاحبزادی ہیں، جب آپ کچھ بڑی ہوئیں تو حضرت ابوبکرؓ وحضرت عمرؓ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نکاح کا پیغام بھیجا، آپ فداہ ابی وامی نے کم عمری کا عذر کیا اوربات ختم ہوگئی۔ کچھ دنوں کے بعدحضرت علیؓ شرماتے ہوئے دراقدس پر حاضر ہوئے اور جھجکتے ہوئے اپنا پیغام دیا۔(البدایة والنہایة 3/345)
حضرت علیؓ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابوطالب کے لڑکا تھے، عمرمیں کم وبیش حضرت فاطمہؓ سے چھ سال بڑے تھے، رہنے سہنے کاانتظام بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت علیؓ کے چچیرے بھائی اور سرپرست تھے۔(الاستیعاب ج 1 ص83،سیرت النبی ج 2ص367، سیرت سرورعالم 2021)
حضرت علیؓ کے اس پیغام کا تذکرہ پہلے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہؓ سے کیا، جب وہ شرم کی وجہ سے خاموش رہ گئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا کے حکم سے اس رشتہ کوقبول کرلیااورحضرت علیؓ سے دریافت کیا کہ تمہارے پاس فاطمہؓ کو دینے کے لیے کچھ ہے؟ حضرت علیؓ نے جوا ب دیا: جنگ بدر میں جوزرہ ہاتھ آئی تھی، وہ ہے، اور ایک گھوڑا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گھوڑا تمہارے کام کا ہے،البتہ زرہ بیچ دو، چنانچہ یہ زرہ چار سو اسّی درہم میں حضرت عثمان غنیؓ نے خریدلیا، حضرت علیؓ وہ رقم لے کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی میں سے کچھ رقم حضرت بلالؓ کو دیا کہ وہ خوشبو خرید کرلائیں۔ (زرقانی شرح مواہب اللدنیہ 2/413) اور بقیہ رقم حضرت انس کی والدہ ام سلیمؓ کودیاکہ وہ حضرت سیدہؓ کی رخصتی کا انتظام کریں۔(تواریخ حبیب الٰہ ص34 ) خادم خاص حضرت انسؓ کوحکم ہوا کہ جاکر حضرت ابوبکرؓ،حضرت عمرؓ، عثمانؓ،طلحہؓ،زبیرؓ اور انصاری صحابہ کی ایک جماعت کوبلالاﺅ ،یہ سب لوگ حاضر ہوگئے تو آپ نے مختصر سا خطبہ پڑھ کر نکاح کردیا، اور چھوارے تقسیم کرادیئے۔پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی ام ایمنؓ کے ہمراہ حضرت فاطمہؓ کو حضرت علیؓ کے گھر بھیج دیا جوپہلے سے کرایہ پر حاصل کرلیاگیاتھا، بعد میں حضرت حارثہؓ بن نعمان نے اپنا مکان دے دیا توحضرت فاطمہؓ مسجد نبوی کے قریب اس مکان میں منتقل ہوگئیں۔
  حضرت ام سلیمؓ نے حضرت علیؓ کی زرہ والی رقم سے حضرت فاطمہؓ کی رخصتی کا جوسامان لیاتھا، وہ بھی حضرت فاطمہؓ کے ساتھ ان کے گھر بھیجودایا ، تذکروں میں ملتا ہے کہ یہ معمولی قسم کے گھریلو سامان تھے،جس میں دوچادریں، کچھ اوڑھنے بچھانے کامختصر سامان، دوبازو بند، ایک کملی، ایک تکیہ، ایک پیالہ، ایک چکی، ایک مشکیزہ ،ایک گھڑا اوربعض روایتوں میں ایک پلنگ کا تذکرہ بھی ملتاہے۔(مسنداحمد ج1 ص104، البدایة والنہایة 3/146)
یہ ہے حضرت فاطمہؓ کے نکاح کی پوری تفصیل جو کتب احادیث سیر وتاریخ میں عام طور پردیکھاجاسکتاہے،اس نکاح کو جس سادگی کے ساتھ کیا گیا اس میں امت کے لیے آسان نکاح وشادی کا عملی نمونہ ملتا ہے، اسے ایک بار پھر پڑھ لیں اورغورکریں تو تین باتیں بہت صاف طور پر آپ کے سمجھ میں آئیں گی:
1۔حضرت علیؓ بچپن سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہتے تھے ،ان کی علیحدہ کوئی مستقل سکونت نہیں تھی،اورنہ ہی الگ سے کوئی گھریلو سامان تھا، اس طرح 
آ پ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے سرپرست تھے،مربی اور ولی تھے۔
   2۔بحیثیت ولی اورسرپرست آپ کی اخلاقی ذمہ داری تھی کہ شادی کے بعد حضرت علیؓ کے گھردر کاانتظام کرتے، تاکہ حضرت علیؓ کی سکونت ورہائش جب آپ سے الگ ہوتو کسی قسم کی دقت روزمرہ کی زندگی میں پیش نہ آئے، اسی خیال سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ ضروری سامان حضرت علیؓ کے لیے مہیا کرایا،گویا ان چیزوں کی فراہمی آپ نے حضرت علیؓ کے لیے بحیثیت سسر نہیں، بلکہ سرپرست ہونے کے ناطے کیا۔
 3۔یہ سامان کی فراہمی بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی رقم سے نہیں،بلکہ حضرت علیؓ کی زرہ بیچ کر جو رقم حاصل ہوئی تھی اس رقم سے کیا۔
 یہی وہ حقائق ہیں جن کی بنیاد پرعلماءامت نے بہت واضح اور صاف طور پرلکھا ہے کہ حضرت فاطمہؓ کو دیے گئے سامان سے جہیز کے سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہونے کا استدلال صحیح نہیں ہے۔چنانچہ استاذ حدیث دارالعلوم ندوة العلماءحضرت مولانا برہان الدین سنبھلیؒ لکھتے ہیں:”جہیز کے موجودہ طریقہ کے سنت نہ ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ وہ گھریلو سامان جو حضرت فاطمہؓ کو آپ نے بوقت رخصتی(یا اس کے بعد) دیاتھا، جسے عوام جہیز دینا کہتے ہیں ،وہ خود حضرت علیؓ کی طرف سے فراہم کردہ رقم سے خریدکردیاتھا، جس کی صراحت اہل سیر نے کی ہے“۔ (جہیز یا نقد رقم کا مطالبہ ص 92)
  حافظ محمد سعد اللہ صاحب لاہوری نے تو صاف لفظوں میں اسے خلاف شرع اور خلاف قرآن وسنت قرار دیاہے، لکھتے ہیں:”اس کو حضرت فاطمہ زہرہؓ کی پاک ذات کی طرف منسوب کرکے جو ایک مذہبی تقدس دیاجاتاہے، اور اس مذہبی تقدس کی آڑمیں جونمود ونمائش اور اظہار دولت کیا جاتاہے ، اورایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور برتری حاصل کرنے کی جو سعی نامشکور کی جاتی ہے وہ بہر کیف غلط ، ممنوع خلاف شرع اور قرآن وسنت ہے“۔(جہیز کی شرعی حیثیت بحوالہ سہ ماہی منہاج لاہور)
حضر ت مفتی محمد شفیع صاحبؒ لکھتے ہیں:”ہمارے زمانہ میں جہیز کوجس طرح نکاح کالازمی جزو قرار دیا گیاہے، جس طرح اس کے بغیر لڑکی کی شادی کو ناک کٹوانے کامرادف سمجھ لیاگیا ہے،اورجس طرح اس کی مقدار میں نام ونمود اور دکھلاوے کی خاطر روز بروز اضافہ کیاجارہا ہے کہ غریب سے غریب انسان قرض لے کر رشوت اور مال حرام استعمال کرکے اس مقدار کوپورا کرنا ضروری سمجھتا ہے اور جب تک اس پر قدرت نہ ہولڑکیاں بغیر نکاح کے بیٹھی رہتی ہےں، یہ پورا طرز عمل سنت کے قطعی خلاف ہے“۔(جہیز کی حقیقت ، البلاغ کراچی نومبر 1987ء)
  مولانا وحید الدین خاں کی بہت ساری فکر سے امت کو اختلاف ہے ، لیکن یہ بات ان کی صد فی صد صحیح اور شرعی تقاضوں کے عین مطابق ہے کہ ”کچھ مسلمان یہ کہتے ہیں کہ جہیزرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنی صاحبزادی فاطمہؓ کا نکاح حضرت علیؓ سے کیاتو ان کوا پنے پاس سے جہیز بھی عطا کیا اس قسم کی بات دراصل غلطی پرسرکشی کااضافہ ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جوکچھ دیااس کو کسی طرح بھی جہیز نہیں کہا جاسکتا، اوراگر اس کوجہیز کہاجائے تو ساری دنیا میں غالباً کوئی ایک مسلمان بھی نہیں جو اپنی لڑکی کویہ پیغمبرانہ جہیز دینے کو تیار ہو“۔
   اس کے بعد ایک جگہ لکھتے ہیں:”اگرجہیز فی الواقع آپ کی مستقل سنت ہوتی تو آپ نے بقیہ صاحبزادیوں کوبھی ضرور جہیز دیا ہوتا، مگر تاریخ اورسیرت کی کتابوں میں نہیں ملتا ہے کہ آپنے بقیہ صاحبزادیوں کو بھی جہیز دیا ہو“۔(خاتون اسلام ص 163)
 مولانا عبیداللہ رحمانی مبارکپوریؒ لکھتے ہیں:”حضرت فاطمہؓ کی شادی کے موقع پر آپ کی طرف سے دونوں کو جو کچھ دیاگیااس کوجہیز کی مروجہ ملعون رسم کے ثبوت میں پیش کرنا بالکل غلط اور نادرست ہے“۔(جہیز اسلامی شریعت میں، ماہنامہ’محدث‘ بنارس ، اپریل 1985ء)ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں:”لینے اور دینے کی یہ رسم چاہے اس کا جو بھی نام رکھ دیاجائے، شرعاً ناجائز اور واجب الترک ہے“۔(جہیز اسلامی شریعت میں، ماہنامہ’محدث‘ بنارس ، اپریل 1985ء)
حافظ محمد سعد اللہ جونپوری ریسرچ آفیسر مرکز تحقیق دیال سنگھ ٹرسٹ لائبریری لاہور نے جہیز سے متعلق اپنے تفصیلی مقالہ” جہیز کی شرعی حیثیت“ میں تمام روایات کاجائزہ لینے کے بعد بالکل صحیح لکھاہے:”قرآن مجید میں، کتب احادیث میں، متقدمین فقہاءکی کتابوں میں مروجہ جہیزکاوجود ہی نہیں،صحاح ستہ، معروف کتب احادیث اورچاروں ائمہ فقہاءکی امہات الکتب میں ”باب الجہیز“ کے عنوان سے کوئی باب نہیں، اگر یہ کوئی شرعی حکم ہوتا توکوئی وجہ نہ تھی کہ جہاں نکاح سے متعلق دیگراحکامات مثلاً نان نفقہ، مہر، بہتر معاشرت ، طلاق، عدت، وغیرہ تفصیلاً بیان ہوتے ، وہاںجہیز کابیان نہ ہوتا“۔(جہیز کی شرعی حیثیت ،سہ ماہی ’منہاج‘ لاہور)
اگر آج بھی آسان نکاح وشادی کو رواج دینا ہے تو حضرت فاطمہ ؓ کی اس شادی کو عملی نمونہ بناکر کام کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔

جمعرات, جولائی 20, 2023

عرب لیگ میں شام کی شمولیت ✍️ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

عرب لیگ میں شام کی شمولیت 
اردودنیانیوز۷۲ 
✍️ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
عرب ممالک میں عرب لیگ اور تنظیم برائے تعاون اسلامی (OIC)کی بڑی اہمیت ہے، عرب لیگ کا قیام ۱۹۴۵ میں ہوا تھا ، اس کا صدر دفتر مصر کی راجدھانی قاہرہ میںہے، بائیس (۲۲) عرب ممالک اس کے ممبر ہیں، شام کے صدر بشار الاسد نے روس کے صدر ولادیمیرپوتین کی حمایت او راپنے ہی شہریوں پر مہلک ترین اور خطرناک کیمیاوی ہتھیار استعمال کرکے ظلم وستم کی نئی مثال قائم کی تھی جس کے نتیجے میں شام کا بڑا علاقہ قبرستان میں بدل گیا تھا اور بہت سارے شہری موت کے گھاٹ اتر گئے تھے ان حالات میں عرب لیگ نے ۱۲؍نومبر ۲۰۱۱ئ؁ کو اس کی رکنیت کو معطل اور منجمد کر دیا تھا، اس کے فوراً بعد تنظیم برائے تعاون اسلامی (OIC)نے شام کے بارے میں عرب لیگ کی تائید کرتے ہوئے اپنی تنظیم سے بھی دور کردیا تھا، لیکن اب حالات بدل گیے ہیں ۔ ترکی ، سعودی عرب ، مصر، تیونس ،عمان،  اردن وغیرہ شام کی عرب لیگ میں شمولیت کے حق میں تھے،یہ اس لیے بھی ضروری تھا کہ لیبیا، شام لبنان ، عراق اور یمن سب کے احوال اس قدر خراب ہیں کہ بغیر اجتماعی آواز کے ان کے مسائل حل نہیں ہو سکتے تھے، اس لیے پرانے گلے شکوے بھلا کر عرب لیگ نے اس کی رکنیت ۷؍ مئی ۲۰۲۳ء کو بحال کر دی ہے، اس عمل سے شام کی قوت میں اضافہ ہوگا اور بہت سارے کام اس کے سہارے کئے جا سکیں گے ، آگے بڑھنے کے لیے کبھی کبھی مضی مامضی یعنی جو گذر گیا وہ گذر گیاپر عمل کرنا ہوتا ہے اور سارے گلے شکوے بھلا کر ملنا ہوتا ہے، جیسا کہ سعودی عرب اور ایران کے مابین پہلے ہو چکا ہے۔

یکساں سول کوڈ (uniform civil code) مفید یا مضر ؟🖋️🖋️ اسرار عالم قاسمی، کشن گنج، بہار

یکساں سول کوڈ (uniform civil code) مفید یا مضر ؟
اردودنیانیوز۷۲ 
🖋️🖋️ اسرار عالم قاسمی، کشن گنج، بہار

ہندوستان کے قوانین (سمودھان) میں یہاں کے رہنے والے تمام ادیان و مذاہب کے لوگوں کو اپنے اپنے مذہبی پرسنل لا پر عمل کرنے کی کُھلی آزادی ہے، وہ اپنے دین و مذہب پر عمل کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی نشر و اشاعت بھی کر سکتے ہیں۔
ایک زمانے سے برادرانِ وطن میں سے کچھ شر پسند عناصر موقع موقع سے شور مچاتے رہے ہیں اور ہنگامہ آرائی کرتے رہے ہیں کہ ہندوستان میں رہنے والے خواہ ہندو ہوں یا مسلمان، سکھ ہوں یا عیسائی، بدھ مت کے ماننے والے ہوں یا جینی حضرات، تمام ادیان و مذاہب کے لوگوں کے لیے صرف اور صرف ایک ہی قانون ہونا چاہیے، جسے (uniform civil code) کہتے ہیں؟ اب حکومت بھی اس سلسلے میں بہت متحرک ہوگئی ہے، لا کمیشن نے عوام و خواص سے اس سلسلے میں ایک ماہ  کے اندر 13/جولائی 2023ء تک اپنی اپنی رائے پیش کرنے کے لیے کہا ہے۔
محترم قارئین! میں چاہتا ہوں کہ ہر شخص اس سے واقف ہو، اور اس سے بچنے کے جو بھی مؤثر اسباب ہوں انہیں اختیار کیا جائے۔
سب سے پہلے تو یکساں سول کوڈ (uniform civil law) کیا ہے؟ اسے سمجھا جائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت اپنے شہریوں کے لیے ایسے قوانین بنائے گی، جو تمام لوگوں کے لیے یکساں ہو؛ حالاں کہ ملک کے موجودہ دستور نے تمام باشندوں کو اپنے عائلی قوانین پر عمل کرنے کی آزادی دے رکھی ہے۔
"یکساں سول کوڈ" کو ان مثالوں سے بھی بآسانی سمجھا جاسکتا ہے، جیسے کہ قرآن مجید کا صریح حکم ہے "لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظّ الْأُنْثَیَیْنِ" کہ مؤنث (بیٹی) کو میت کے متروکہ مال میں مذکر (لڑکے) کا نصف ملے گا، اب اگر ہندوستان میں یکساں شہری قانون کے طور پر یہ قانون بنادیا جائے کہ وراثت میں سب کو برابر ملے گا، کوئی کمی بیشی نہیں، تو یہ قرآن کے صریح حکم کے خلاف ہوگا۔ یہ تو میں نے ایک مثال دی ہے، ایسی سینکڑوں مثالیں بن سکتی ہیں، متبنی کا مسئلہ، طلاق ثلاثہ کا مسئلہ، 18 سال سے پہلے بچے اور بچیوں کو بالغ نہ ماننا، اور ولی کو شادی کروانے کا حق نہ ہونا وغیرہ، کورٹ کے یہ سب فیصلے، جو ہمارے عائلی قوانین میں دخل اندازی ہے، یکساں سول کوڈ ہی کی طرف بڑھتے قدم ہیں۔
یاد رکھیے! ہر جگہ کے قوانین دو طرح کے ہوتے ہیں:  (١) سول کوڈ: سول کوڈ شہری قوانین کو کہتے ہیں، اور(٢) کرمنل کوڈ: کرمنل کوڈ فوجداری قوانین کو کہتے ہیں۔ سِوِل کوڈ میں شہریوں کو اپنے اپنے عائلی قوانین پر عمل کرنے اور اس کی نشر و اشاعت کی مکمل آزادی ہے۔ ہاں! فوجداری قوانین میں کسی بھی دین و مذہب کو دخل نہیں ہے، وہ ملک کے سیکولر نظام‌کے مطابق ہی چلے گا۔
ہندوستان کے قوانین کی ایک اور تقسیم ہے؛(۱) بنیادی اصول، اور (۲) رہنمایانہ اصول۔ رہنمایانہ اصول میں سے آرٹیکل نمبر:44 کہتا ہے کہ ملک کی حکومت یہ کوشش کرے گی کہ تمام شہریوں کے لیے یکساں قانون ہو۔ اور بنیادی حقوق میں آرٹیکل نمبر: 25،جس کو (fundamental rights) کہتے ہیں، یہ آرٹیکل کہتا ہے کہ ہر مذہب کے لوگوں کو اپنے اپنے مذہب کے آئینی قوانین پر عمل کرنے کی کلیتاً اجازت ہے۔ یہ قوانین بن کر لوگوں کے سامنے جب آئے تھے، اس وقت بھی ہمارے علمائے کرام نے اس کے خلاف احتجاج درج کرایا تھا کہ ان دونوں آرٹیکلس کے درمیان تصادم اور ٹکراؤ ہو رہا ہے؛ لیکن پھر بھی یہ بل پاس ہو گیا۔
ان قانونی دفعات میں ایک بات یہ بھی لکھی ہوئی ہے کہ: اگر رہنمایانہ اصول اور بنیادی حقوق کے درمیان تصادم اور ٹکراؤ ہو جائے، تو اس وقت بنیادی حقوق کو ترجیح دی جائے گی، اور بنیادی حق یہ ہے کہ ہر آدمی اپنے اپنے دینی و مذہبی عائلی قوانین پر عمل کرسکتا ہے، اسے عمل کی مکمل اجازت ہے۔
یہ بات بھی آپ کے ذہن نشیں رہے کہ "یونیفارم سول کوڈ" کا مخالف ہر شہری کو ہونا چاہیے، یہ سبہوں کی دینی روایات، سماجی پرمپرا اور ملکی سمودھان کے خلاف ہے؛ تاہم ایسا لگتا ہے کہ "یکساں سول کوڈ" کی مخالفت سب سے زیادہ مسلمان ہی کر رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا دین اللّٰہ تعالیٰ کی جانب سے نازل کردہ ہے، اس کا تعلق وحی الٰہی سے ہے، اور اس کی بنیاد قرآن و سنت ہے۔ دیگر ادیان و مذاھب میں اتنی پختگی نہیں ہے، ان میں سے اکثر کا تعلق "ادیانِ وضعیہ" سے ہے، بعض کا تعلق "ادیانِ سماویہ" سے ہے؛ لیکن ان کے اندر اتنی تبدیلیاں آگئی ہیں کہ صحیح اور غلط کا امتیاز انتہائی مشکل ہو گیا ہے، وہ ادیان اپنی اصلی حالت پر نہیں ہیں۔
کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ "یکساں سول کوڈ" یعنی ایک جیسے شہری قوانین کے نفاذ سے ملک میں امن و سکون کا ماحول ہو گا؛ حالاں کہ یہ بات بھی صحیح نہیں ہے۔ دنیا نے دیکھا کہ سنہ1914ء سے 1918ء تک عالمی جنگ ہوئی، جس کو عالمی جنگ عظیم اول کہتے ہیں، اور سنہ1939ء سے سنہ 1945ء تک جنگ ہوئی، جس کو عالمی جنگ عظیم ثانی کہتے ہیں، ان دونوں جنگوں میں جو ممالک لیڈنگ کر رہے تھے، یعنی قائدانہ کردار ادا کر رہے تھے، وہ سب عیسائی مذہب کے تھے، پوری دنیا تقریباً دو حصوں میں تقسیم ہو گئی تھی، صرف جنگ عظیم اول میں تقریباً تین کروڑ لوگ مارے گئے تھے۔
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ملک کا قانون ایک ہوگا تو امن وامان ہوگا، یہاں بھی تو دونوں جانب عیسائی مذہب کے ماننے والے تھے، ان کے قوانین کی یکسانیت ان کی جان نہیں بچاسکی۔ ہمارے ملکِ ہندوستان میں کورو اور پانڈو نام کے بادشاہ گزرے ہیں، ایک ہی دین اور ایک ہی فیملی سے تعلق رکھتے تھے؛ لیکن ان میں ایسی شدید لڑائی ہوئی کہ دنیا اسے "مہا بھارت" کے نام سے جانتی ہے۔
قانون ایک ہونے سے ملک میں امن و سکون اور احترامِ انسانیت نہیں ہوسکتا، امن و سکون کے لیے  اللہ کا خوف، اس کی خشیت، دین و شریعت کا پاس و لحاظ انتہائی ضروری ہے۔
ہر شہری کے لیے ضروری ہے کہ "یونیفارم‌ سول کوڈ" کے نفاذ کی مخالفت کرے اور اپنا احتجاج درج کروائے۔ الحمد للّٰہ مسلم تنظیمیں اس پر کام کر رہی ہیں، آپ بھی ڈٹے رہیں، ان شاءاللہ کامیابی ہمارے قدم چومے گی۔ آخر میں بارگاہ رب العزت میں دست بدعا ہوں کہ: اے الہٰ العالمین! ہم سب کو امن و سکون اور عافیت کے ساتھ دین و شریعت پر عمل کرنے والا بنا، دشمنان اسلام کے لیے اگر ہدایت مقدر  ہو، تو انہیں ہدایت نصیب فرمادے، ورنہ تو ان سے اپنی زمین کو پاک کردے، آمین ثم آمین
********** _________ **********

مسلمانو ! اپنی شکل وصورت محمدی بناؤشمشیر عالم مظاہری دربھنگوی

مسلمانو !  اپنی شکل وصورت محمدی بناؤ
اردودنیانیوز۷۲ 
شمشیر عالم مظاہری دربھنگوی
امام جامع مسجد شاہ میاں روہوا ویشالی بہار

سچ یہ ہے انسان کو یورپ نے ہلکا کر دیا 
ابتدا ڈاڑھی سے کی اور انتہاء میں مونچھ لی ۔
ڈاڑھی کبھی عورت کے چہرے پر نہیں آتی جب بھی آتی ہے مرد کے چہرے پر آتی ہے صرف یہ بتانے کے لئے کہ تم مرد ہو اور مرد ڈاڑھی منڈواکر کہتا ہے نہیں بھائی تم غلط فہمی میں مبتلا ہو میں وہ نہیں ہوں جو تم سمجھ رہے ہو ۔
فرمان رسول ﷺ  
اپنی مونچھیں کترواتے رہو اپنی ڈاڑھیاں بڑھاؤ   (طبرانی )
ہر لشکر کی ایک وردی ہوتی ہے جس سے وہ لشکر پہچانا جاتا ہے اسی طرح ہر مذہب کے کچھ ظاہری احکام بھی ہوتے ہیں جن سے صاحب مذہب کی پہچان ہو جاتی ہے محمدی لشکر اور اہل اسلام کی وردی اور ظاہری پہچان جو شریعت اور بانئ شریعت نے مقرر کی ہے وہ جن لوگوں پر نظر آئے گی بظاہر وہ ہی اس میں شمار کئے جائیں گے اور مومن و مسلم ہونے کا انہیں کے سر سہرا بندھے گا دنیا میں ہم دیکھتے ہیں جس کسی شخص کو کوئی زیادہ محبوب ہوتا ہے اور جس کو وہ اپنا سچا خیر خواہ سمجھتا ہے اس کی باتوں کا ماننا وہ اپنے اوپر لازم کر لیتا ہے اس کے خلاف کو اپنے حق میں سم قاتل سمجھتا ہے اور اس سے کوسوں دور رہتا ہے
یاد رکھیں نشان اسلام اور تمغۂ محمدی داڑھی کا بڑھانا مونچھوں کا پست کرنا ہے رسول اللہ ﷺ  فرماتے ہیں مشرکوں کا خلاف کرو داڑھی بڑھاؤ اور مونچھیں بہت ہی پست کراؤ  (بخاری و مسلم ) 
مجھے ماننے والوں کو چاہیے کہ وہ اپنی ڈاڑھیاں بڑھائیں اور مونچھیں بہت کم کرا ئیں اور کسریٰ کو ماننے والے اس کا خلاف کریں یعنی مونچھیں بڑھائیں اور داڑھیاں منڈوائیں  ہمارا طریقہ ان کے خلاف ہے ( دیلمی)
 ایک مرسل حدیث میں ہے کہ لوطیوں کی بستیاں الٹ دینے کے جو اسباب پیدا ہوئے تھے ان میں ڈاڑھیوں کا منڈوانا اور  مونچھوں کا بڑھانا بھی تھا (ابنِ عساکر )
آپ فرماتے ہیں ڈاڑھیوں کو منڈوانے اور زیادہ کتروانے والوں کی اللہ تعالی دعا قبول نہیں کرتا اور نہ ان پر اپنی رحمت نازل کرتا ہے اور نہ ان کی طرف نظر رحمت سے دیکھتا ہے اور فرشتے ان کو ملعون کہتے ہیں اور وہ خدا کے نزدیک یہود و نصاریٰ کے برابر ہیں  (طحاوی) 
حضرت کعب احبار رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ڈاڑھیوں کو کبوتروں کی دموں کی طرح کتروانے والوں کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں اسی طرح اخروی نعمتوں سے بھی محروم ہیں ( احیاء العلوم) 
سارے انبیاء علیہم السلام کی سنت یہی ہے کہ وہ ڈاڑھیاں بڑھاتے تھے اور مونچھیں کم کراتے تھے یہ علامت ہے اسلام کی اور اس کا خلاف کرنے والا کل انبیاء علیہم السلام کا مخالف ہے ( مسند احمد) 
خود رسول اللہ ﷺ  کی ڈاڑھی مبارک گھنی اور بہت زیادہ بالوں والی تھی ( مسلم ، ترمذی ، نوی) 
افسوس آج کل مسلمانوں کو ان شکلوں سے کیوں نفرت ہے وہ آپ کے اور صحابہ کرام کے طریقہ کو کیوں نا پسند کرتے ہیں ایسی شکلیں صورتیں بنا لیتے ہیں کہ بعض وقت تو مسلم و غیر مسلم میں تمیز مشکل ہو جاتی ہے۔  نوجوانوں میں یہ بیماری عام طور پر پھیل گئی ہے حدیث میں ہے جس صورت پر مرو گے اسی صورت پر قیامت کے دن اٹھائے جاؤ گے منڈی ہوئی داڑھی اوربڑی ہوئی مونچھوں سے خدا کے اور اس کے رسول ﷺ  کے سامنے جانے سے کیا آپ کو شرم معلوم نہیں ہوگی۔  سکھوں کو دیکھو ان کے گرو کا حکم ہے کہ جسم کے کسی حصے کے بال نہ لیں وہ کس طرح اپنے مذہب کا احترام کرتے ہیں کہ ناپاک بال بھی نہیں لیتے پھر تعجب ہے کہ ایک مسلمان کے دل میں اپنے رسول اللہ ﷺ  کی تعلیم کی ذرہ بھر بھی قدر نہ ہو بلکہ وہ بڑھی ہوئی ڈاڑھی اور پست مونچھ پر پھبتیاں اڑائیں آوازے کسیں ۔  طب کی رو سے بھی ڈاڑھی منہ کی اور گلے کی بیماریوں سے بچا لیتی ہے قوت قائم رکھتی ہے وغیرہ ۔ اپنے ہاتھوں سے اسلام کے نشان کو گرانا اپنے آپ محمدی صورت سے نفرت رکھنا پیسے دے کر سنت کو مارنا یہ انسان کی کون سی شرافت ہے ۔ 
مسلمانو ! لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ ۔  تمہارے لئے تو اچھا نمونہ رسول اللہ ﷺ ہی ہیں تمہیں نہیں چاہیے کہ آپ کی مخالفت اور مشرکین اور یہود و نصاریٰ کی موافقت کرو آپ فرماتے ہیں جو شخص جس قوم کی مشابہت کرے گا قیامت کے دن اس کا حشر انہی کے ساتھ ہوگا (ابوداؤد) 
مرد ہو کر عورتوں کی مشابہت کرنی نہایت بے شرمی کی بات ہے صحیح بخاری میں حدیث ہے کہ رسول اللّٰہ ﷺ  فرماتے ہیں اللہ کی لعنت ہے اس مرد پر جو عورتوں کی مشابہت کرے مرد کو داڑھی کا منڈانا ایسا ہی برا ہے جیسے کہ عورت کا سر منڈوانا بلکہ اس سے بھی بد اور بدتر باوجود اس قدر وعید شدید کے پھر بھی اکثر مسلمان اپنی شکلوں صورتوں  کو شریعت کے مطابق نہیں رکھتے اکثر تو صفا چٹ کر اتے ہیں اور بہت سے برائے نام کچھ بال لگے رہنے دیتے ہیں پھر بعض کے انچ پھر بعض کے دو انچ  اور بعض فرنچ فیشن دمدار ڈاڑھی رکھوا تے ہیں یہ سب کے سب سنت کے خلاف ہیں ۔ 
جس طرح صحابہ نے جاہلیت کی رسمیں چھوڑ دیں جس طرح عہد اول کے لوگوں نے ڈاکہ زنی،  شراب خوری،  زناکاری،  چوری،  بت پرستی،  حرام خوری،  صدیوں کی عادتیں ترک کردیں۔  اگر ہم بھی مسلمان ہیں تو کیا ہم سے یہ نہیں ہو سکتا کہ قبروں کی پوجا پاٹ ہم بھی چھوڑ دیں تجارتوں کی برائیاں ہم بھی نکال دیں ڈاڑھیاں منڈوا نے اور خلاف شرع لباس پہننے کی عادت کو ہم بھی ترک کر دیں ۔
مسلمانو ! کسی سنت کو ہلکی نہ سمجھو کسی فرمان رسول کی بے ادبی نہ کرو اپنی شکل و صورت محمدی بنا ؤ اللہ ہمیں نیک صورت خوش سیرت بنائے ہمارا ظاہر وباطن سنوار دے آمین ۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...