Powered By Blogger

منگل, جولائی 25, 2023

مولانا سہیل احمد ندوی کا انتقال ایک ناقابل تلافی نقصان:کاروان ادب

مولانا سہیل احمد ندوی کا انتقال ایک ناقابل تلافی نقصان:کاروان ادب
Urudduinyanews72
حاجی پور (پریس ریلیز/25جولایی)
امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ کے نائب ناظم مولانا سہیل احمد ندوی جو یو سی سی کی مہم پر کٹک کے سفر پر تھے وہیں ظہر کی نماز کے دوران حالت سجدہ میں جان جان آفریں کے سپرد کر دی - اناللہ وانا الیہ راجعون مولانا موصوف کے اچانک انتقال پر کاروان ادب کے صدر مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی اور جنرل سیکرٹری انوارالحسن وسطوی نے اپنے مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ مولانا سہیل احمد ندوی کا انتقال امارت شرعیہ کے لئے ایک ناقابل تلافی نقصان ہے مولانا موصوف نے تقریباً ربع صدی سے امارت شرعیہ کے نائب ناظم کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دے رہے تھے فی الحال وہ  مولانا سجاد میموریل ہاسپٹل ،مولانا منت اللہ ٹیکنیکل انسٹیٹیوٹ اور دارالعلوم السلامیہ کی اہم ذمہ داریاں سنبھالے ہوئے تھے،مولانا بڑی ہمت اور حوصلے کے انسان تھے اور نا مساعد حالات میں بھی حالات کا سامنا کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے مرحوم ایک مجاہد آزادی خاندان سے تعلق رکھتے تھے ،خدا سے دعاء ہے کہ اللّٰہ مرحوم کی خدمات کو قبول فرماکر انہیں جنت میں جگہ دے ۔ان کے پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے اور امارت شرعیہ کو ان کا بدل عطا فرمائے ۔کاروان ادب کے جن ذمہ داروں نے مولانا کے انتقال پر  اپنی تعزیت کا اظہار کیا ہے ان میں محمد ظہیر الدین نوری،نسیم الدین صدیقی ایڈووکیٹ ،سید مصباح الدین احمد،مولانا قمر عالم ندوی،ماسٹر عظیم الدین انصاری ،ڈاکٹر ذاکر حسین ،شاہنواز عطا،عبدالرحیم برہولیاوی ،پروفیسر واعظ الحق ،پروفیسر حسن رضا،ارشد ندوی،ماسٹر عبدالقادر ،صد رعالم ندوی ،مولانا نظر الہدیٰ قاسمی ،ڈاکٹر عارف حسن وسطوی ،ڈاکٹر لطیف احمد خان ،ڈاکٹر منظور حسن اور قمر اعظم صدیقی کے نام شامل ہیں

بڑا انکشاف، ہندوستان آنے کیلئے سیما حیدر نے بنائے تھے دو منصوبے، پہلے میں ہی ہوگئی کامیاب، جانئے کیا تھ دوسرا پلان

بڑا انکشاف، ہندوستان آنے کیلئے سیما حیدر نے بنائے تھے دو منصوبے، پہلے میں ہی ہوگئی کامیاب، جانئے کیا تھ دوسرا پلان

نئی دہلی : اردودنیانیوز۷۲; پاکستان سے غیر قانونی طور پر ہندوستان آئی سیما حیدر کے بارے میں آئے روز نئے نئے انکشافات ہو رہے ہیں۔ دریں اثنا نئی معلومات سامنے آئی ہیں کہ سیما حیدر نے ہندوستان آنے کے لئے دو منصوبے بنائے تھے۔ ذرائع کے مطابق سیما غلام حیدر نے پاکستان سے ہی ہندوستان میں داخل ہونے کا بڑا منصوبہ بنالیا تھا۔ سب سے پہلے اس نے نیپال کے 15 دن کے سیاحتی ویزا کے لئے اپلائی کیا اور اسے آسانی سے 15 دنوں کا سیاحتی ویزا مل بھی گیا۔ کیونکہ اس سال 10 مارچ کو ہی سیما تقریباً 7 دنوں کا ویزا لے کر نیپال آئی تھی اور 17 مارچ تک سچن کے ساتھ رہی تھی، جس کا اس کو دوبارہ نیپال کا ویزا حاصل کرنے میں فائدہ ملا ۔

پیر, جولائی 24, 2023

گھریلوکشیدگی اوربچوں کی نشوونما ✍️✍️✍️ ٭انس مسرورانصاری

گھریلوکشیدگی اوربچوں کی نشوونما
Urudduinyanews72
 ✍️✍️✍️        ٭انس مسرورانصاری
میاں بیوی میں کتنی ہی محبت اورخلوص واپنائیت کیوں نہ ہولیکن کبھی کبھی ،کسی نہ کسی وجہ سے اختلافِ رائے کے سبب توتو،میں میں ،ہوہی جاتی ہے۔کہتے ہیں کہ روٹھنے اورمنانے کے بغیرازدواجی زندگی میں حقیقی لطف ومسرت بھی تونہیں۔ 
میاں بیوی کے درمیان اَن بن کی صورت میں گھریلوکام کاج کے لیے سب سے اہم رول اداکرتے ہیں ننھے بچے۔یہ معصوم بچے فریقین کے درمیان ترجمانی کے فرائض انجام دیتے ہیں۔ممی کوپاپاسے کوئی ضرورت آن پڑے یاپاپاکو ممی سے کوئی کام ہو توننھے میاں پکڑے جاتے ہیں۔ 
‘‘ببلو!ذرااپنے پاپاسے کہوکہ فلاں چیز لانی ہے۔آفس سے ذراجلدی آجائیں گے۔ہمیں کہیں جاناہے۔ببلو!اپنے پاپاسے کہوناشتہ تیارہے۔پاپاسے پوچھوکہ رات کے کھانے میں کیارہے گا۔؟میں ذراپڑوس میں بڑی آپاکے گھرجارہی ہوں۔اپنے پاپاسے کہومیزپرکھانالگادیاہے،کھالیں گے۔’’وغیرہ وغیرہ۔پاپاکوممی سے کچھ کہناہے توببلوسے کہاجائے گا۔‘‘بیٹا!ہمارے شرٹ کی بٹن ٹوٹ گئی ہے،ممی سے کہوبٹن لگادیں۔شام کوذرادیرسے واپس آؤں گا،ممی کوبتادو۔ممی سے کہوکل صبح مجھے کہیں جاناہے،ناشتہ کرکے جاؤں گا۔’’وغیرہ وغیرہ۔ایسے ہرموقع پرببلومیاں کی حیثیت بہت بڑھ جاتی ہے۔والدین کے لیے وہ بہت زیادہ اہم ہوجاتے ہیں۔انھیں ضرورت سے زیادہ پیارکیاجانے لگتاہے۔اُن کی ہرفرمائش کوفوراََپوراکیاجاتاہے۔میاں،بیوی کے درمیان وہ رابطے کاواحدذریعہ ہوتے ہیں۔ببلومیاں کوبھی حیرت ہوتی ہے کہ آخرمعاملہ کیاہے کہ انھیں کبھی اُدھربھیجاجاتاہے اورکبھی اِدھر!وہ پیغام رسانی کاکام حسن وخوبی سے انجام دیتے رہتے ہیں۔اس درمیان ببلومیاں کی طبیعت خراب ہوجاتی ہے یاگھرمیں کوئی مہمان آجاتاہے یاکوئی غیرمعمولی واقعہ ہوجاتاہے تومیاں،بیوی کے درمیان کشیدگی خودبخودختم ہوجاتی ہے اورلگتاہی نہیں کہ ان میں اَن بن تھی۔ 
یہ گھریلوکشیدگی مہذّب اورتعلیم یافتہ گھرانوں کی ہے۔لیکن جب یہی کشیدگی ناخواندہ یانیم خواندہ گھرانوں میں پیداہوتی ہے توآخری تان گالی گلوج اورمارپیٹ پرٹوٹتی ہے۔کشیدگی اورتناؤکے درمیان اگرفریقین میں کوئی بیمارپڑجاتاہے یاکوئی بچہ علیل ہوجاتاہے یاگھرمیں کوئی غیرمعمولی واقعہ پیش آجاتاہے توگھرکی فضارفتہ رفتہ معمول پرآجاتی ہے۔پھروہی روزوشب پھروہی زندگی۔کبھی کبھی تھوڑی سی گھریلوکشیدگی کھٹّے میٹھے لمحوں کااحساس دلاتی ہے۔میاں بیوی کے تعلق کومستحکم بھی کرتی ہے اورپیارومحبت میں اضافے کاسبب بھی ہوتی ہے۔ازدواجی زندگی میں مزید خوش گواریت پیداہوتی ہے۔لیکن جب یہی کشیدگی تسلسل اورتواتراختیارکرلیتی ہے توفریقین کے آپسی اختلافات اورکشیدگی کے مضراورمنفی اثرات سب سے زیادہ بچوں پر پڑتے ہیں۔گھریلوکشیدگی سے گھرکی فضامیں ہروقت جو ایک تناؤ،سنسنی خیزخاموشی،اُداسی اورمتوقع مہابھارت کی سی کیفیت ہوتی ہے،وہ بچوں کی ذہنی وجسمانی نشوونماکے لیے زہرِقاتل ہوتی ہے۔ 
گھریلوکشیدگی کے اس ماحول میں بچے ہراساں،خاموش،اداس،غم زدہ اورمتفکررہتے ہیں۔ہمہ وقت اُن پرخوف ودہشت اورایک طرح کی بے چارگی و محرومی اورمایوسی طاری رہتی ہے۔والدین کے درمیان متوقع مہابھارت کی وجہ سے معصوم بچے ہروقت خائف ،گم سم اورخاموش رہتے ہیں۔چونکہ بچوں کواپنے والدین سے وہ پیار،وہ محبتیں اورشفقتیں نہیں مل پاتیں جن کے وہ مطلوب،متلاشی اورتمنّائی ہوتے ہیں اورجو ان کی ضرورت اوران کا حق ہیں۔والدین کی بے توجہی کے سبب اُن میں متعددنفسیاتی امراض پیداہوجاتے ہیں۔ہروقت چہلیں کرنا،کھیناکودنا،ہنسناہنسانابچوں کی فطرت ہوتی ہے لیکن جب فضااورماحول ناخوش گوارہوتے ہیں توبچوں کی ذہنی و فطری قوت اچھی طرح بیدارنہیں ہوپاتی۔ان میں اضافہ نہیں ہوپاتا۔صلاحیتوں کے سوتے خشک ہونے لگتے ہیں۔گھریلوکشیدگی کے درمیان خوف ودہشت،اُداسی اورخاموشی کی حالت میں پرورش پانے والے بچے ذہنی ونفسیاتی اورجسمانی امراض کی وجہ سے کبھی کوئی بڑاکارنامہ انجام نہیں دے پاتے۔وہ بزدل اورڈرپوک ہوجاتے ہیں ۔مایوسی انہیں اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔اُن میں احساسِ کمتری کے جذبات شدّت کے ساتھ عودکرآتے ہیں۔اُن کے افعال اورفیصلے جذباتی ہوتے ہیں۔والدین کی توجہ سے محروم بچے ایک طرح سے ذہنی طورپرناکارہ ہوتے ہیں اوراحساسِ محرومی اُ ن کی پوری زندگی کو سانحاتی بنادیتاہے۔وہ بڑے ہوکر ایک ناکام زندگی جیتے ہیں۔ 
نفسیات کے ماہرین کامتفقہ فیصلہ ہے کہ ایسے کشیدہ اورناخوش گوارماحول میں پرورش پانے والے بچے زندگی میں کبھی کوئی کارنامہ انجام نہیں دے سکتے۔ 
بچوں کی جسمانی وذہنی نشوونمامیں خوش گوارگھریلوفضابہت زیادہ معاون ومددگارہوتی ہے۔اس لیے جن گھروں میں فضاکسی بھی وجہ سے کشیدہ اورمکدّرہوان گھروں کے افرادکی بڑی ذمّہ داری ہے کہ وہ نئی نسل پررحم کریں۔خاندان کی فلاح وبہبوداوربہتری کے لیے مصالحت اوردرگزرکاراستہ اختیارکریں۔بچو ں کے ساتھ شفقت اورمحبت سے پیش آئیں۔نئی نسل کوتباہ وبرباد ہونے سے بچائیں
۔ موڈکتنابھی خراب کیوں نہ ہومگرجب گھرمیں داخل ہوں تومسکراتے ہوئے چہرے کے ساتھ داخل ہوں۔اپنے بچوں کے ساتھ کچھ وقت ضرورگزاریں۔اسکول کاہوم ورک دیکھیں۔تعلیم کے معاملے میں اُن کاحوصلہ بڑھائیں۔بچوں کی ضرورتوں کاپوراخیال رکھیں۔انھیں محسوس نہ ہونے دیں کہ اُن سے غفلت برتی جارہی ہے یااُنھیں نظراندازکیاجارہاہے۔اس حقیقت کوکبھی فراموش نہ کریں کہ گھریلوماحول ہی انسان کی کردارسازی کرتاہے۔اچھایابُرابناتاہے۔اپنے بچوں کوکامیاب دیکھناچاہتے ہیں تواُن کی رہنمائی کریں اور اُن کے ساتھ پوراپوراتعاون کریں۔ 
٭٭ 

            * انس مسرؔورانصاری 
                   قومی اردوتحریک فاؤنڈیشن 
 سکراول،اردوبازار،ٹانڈہ۔امبیڈکرنگر224190(یو،پی) 
                     رابطہ/9453347784/َ

عربی زبان وادب سے بے توجہیمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار ، اڈیشہ وجھارکھنڈ

عربی زبان وادب سے بے توجہی
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار ، اڈیشہ وجھارکھنڈ
 عربی زبان وادب کے امتیازات وخصوصیات میں سب سے بڑی خصوصیت اس کا قیامت تک باقی رہنا ہے، کیوںکہ یہ اللہ ورسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کی زبان ہے، اور اللہ نے اپنے کلام کی حفاظت ’’اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہُ لَحَافِظُوْنَ‘‘ کہہ کر خود لے لی ہے، اور جب قرآن کریم کو محفوظ رہنا ہے تو کتاب کی زبان عربی مبین کو کیوں کر ختم کیا جا سکتا ہے، دنیا کی بہت ساری زبانوں کا وجود باقی نہیں رہا یا وہ لکھنے بولنے کی زبان کے بجائے میوزیم میں پائی جانے والی زبان بن گئی ہے، عربی زبان وادب کے ساتھ ایسا ہونے کا کہیں کوئی شائبہ نہیں ہے۔
اس کی دوسری خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ ہماری علمی ، ادبی، مذہبی اور ثقافتی زبان ہے، بہت سارے ملکوں کی یہ عوامی اور سرکاری زبان ہے، جس کی وجہ سے عربی زبان پر قدرت رکھنے والوں کے لیے معاش کے حصول کے بہترین مواقع یہاں حاصل ہیں، یہی وجہ ہے کہ بر صغیر ہندو پاک اور بنگلہ دیش کے باشندگان بڑی تعداد میںان ممالک میں حصول روزگار کے کے لیے فروکش ہیں اور بر صغیر ہی کیا، دنیا کے ہر ملک سے لوگ یہاں معاش کی تلاش میں آتے ہیں، اور روزگار سے لگ کر نہ صرف اپنے خاندان کی کفالت کرتے ہیں، بلکہ یہ ہندوستان اور دوسرے ملکوں کے لیے غیر ملکی زر مبادلہ کی شکل میں اپنے اپنے ملک کے معاشی نظام کومستحکم کرنے کا بڑا ذریعہ ہیں، آپ کو یاد ہوگا کہ ماضی قریب میں سری لنکا اور پاکستان میں زر مبادلہ کے ذخیرہ کی کمی کی وجہ سے کیسے حالات پیدا ہو گیے تھے، ایسا اس لیے ہوا کہ غیر ملک کو سامان در آمد اور بر آمد کرنے میں ملکی کرنسی کے بجائے غیر ملکی زر مبادلہ کی ضرورت پڑتی ہے، عرب ممالک میں کام کرنے والے اس ضرورت کی تکمیل کرتے ہیں۔
 اس زبان کی اہمیت اس لیے بھی ہے کہ ہمارا بڑا علمی ذخیرہ قرآن وحدیث، تفسیر وفقہ اور ادب کا اس زبان میں محفوظ ہے، یہ ایک مالدار زبان ہے ا س لیے کہ جتنی تعبیرات اور ایک شئی کے لیے جتنے الفاظ کمیت وکیفیت کے تغیر وتبدل کو واضح کرنے کے لیے اس زمان میںموجود ہیں، ایسا کسی دوسری زبان میں نہیں ہے۔
ان خصوصیات وامتیازات نیز اہمیت کا تقاضہ ہے کہ اسے مدارس اسلامیہ اور یونیورسیٹیوں میں زندہ زبان کی حیثیت سے پڑھایا جائے، اور اس قدر مہارت پیدا کردی جائے کہ وہ طلبہ کی عام بول چال کی زبان بن جائے، صرف عبارتوں کے سمجھنے، مسائل کے حل کرنے اور جزئیات کو ذہن نشیں کرانے کی زبان کی حیثیت اسے نہ دی جائے، بلکہ اسے بول چال کی زبان مشق وتمرین کے ذریعہ بنائی جائے، اس کے لئے ضروری ہے کہ تقلیدی اور روایتی انداز کو ترک کرکے براہ راست اس زبان میں لکھایا، پڑھا یا جائے، انداز ترجمہ کا نہ ہو بلکہ طریقۂ تعلیم میں میڈیم عربی رکھا جائے تو یہ کام انتہائی آسان ہوجائے گا۔ 
بد قسمتی سے ہمارے مدارس اسلامیہ اور دانش گاہوں میں عربی ادب کو ایک مضمون کے طور پر پڑھایا جاتا ہے، جس سے کتابیں حل ہوجاتی ہیں اور امتحان میں لڑکے کامیاب بھی ہوجاتے ہیں، لیکن ان کے اندر بول چال اور لکھنے کی مضبوط صلاحیت نہیں پیدا ہوتی، مشق وتمرین اور عربی بول چال کا ماحول بنا کر اس کام کو بحسن وخوبی انجام دیا جاسکتا ہے، اس کے لیے ماہر اساتذہ کی بھی ضرورت ہے، جو مدارس میں تنخواہ انتہائی کم ہونے کی وجہ سے نہیں مل پاتے۔ ہماری درسگاہوں سے جو قیمتی جواہر نکلتے ہیں اور عربی زبان وادب میں ممتاز ہوتے ہیں وہ حصول معاش کے لیے عرب کا رخ کر تے ہیں یا یونیورسیٹیوں کی راہ لیتے ہیںاور ہمارے مدارس کو اچھے اساتذہ نہیں مل پاتے، ہم اچھی تنخواہ اور سہولت دے کر عربی زبان وادب کے ماہرین کو اس کام پر لگا سکتے ہیں، معاملہ عربی ادب کو قرآن واحادیث کے زبان کے ناطے خصوصی توجہ کا ہے، عربی میں مہارت سے نصوص کا سمجھنا اور سمجھانا آسان ہوگا، اور ہم اس کو دوسری زندہ زبانوں کی طرح برت سکیںگے، یہ بھی ایک کام کرنے کا ہے جس سے دنیا کی فراہمی کے ساتھ ساتھ آخرت کی دولت بھی نصیب ہوگی، خانقاہ رحمانی مونگیر میں حضرت امیر شریعت دامت برکاتہم نے ایسا نظام بنایا ہے کہ حفظ کے بچے عربی زبان بولنے پر قادر ہوجاتے ہیں، خواہش مند لوگوں کو اس نظام کو قریب سے جا کر دیکھنا اور سمجھناچاہیے اورممکن ہو تو اسے ہر مدرسہ میں رائج کرنا چاہیے۔

اتوار, جولائی 23, 2023

راز درون خانہاردودنیانیوز۷۲ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

راز درون خانہ
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
انسان کی ذہنی وجسمانی ساخت اللہ رب العزت نے ایسی بنائی ہے کہ اس کے احساسات ، مشاہدات ، خیالات ، معلومات اس کے ذہن ودماغ میں محفوظ رہتے ہیں، کچھ شعور کی گرفت میں ہوتے ہیں اور کچھ تحت الشعور میں محفوظ رہا کرتی ہیں، تھوڑی سی تحریک سے وہ شعور کی گرفت میں آجاتی ہیں،آپ نے بار ہا دیکھا ہوگا کہ ایک آدمی بولتے بولتے رک جاتا ہے ، آگے جو کہنا چاہتا ہے وہ اس کی گرفت میں نہیں آ رہا ہے، وہ خاموش ہو کر ذہن پر زور ڈالتا ہے، تو وہ بات یاد آجاتی ہے، اورسلسلہ کلام جاری ہو جاتا ہے۔ ا س صورت حال کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ آپ کسی دوسرے کو اپنے معاملات اور حالات میں جس قدر شریک کرنا چاہتے ہیں، اسی قدر بتاتے ہیں، آپ کی زندگی کے بہت سارے واقعات جنہیں آپ پردۂ خفا میں رکھنا چاہتے ہیں، اسے کوئی آپ سے اُگلوا نہیں سکتا،تا آں کہ آپ خود اس کو طشت از بام کرنا چاہیں، اسی لیے ہپنا ٹزم, نار کوٹسٹ اور دواؤں کے اثرات کے ذریعہ تحت الشعور سے چیزوں کے نکالنے کو قانونا جرم قرار دیا گیا ہے اور مجرموں پر بھی اس کا استعمال بغیر عدالت کی اجازت کے نہیں ہوتا، قانونی اصطلاح میں اخفاء راز کو رائٹ ٹو پرائیویسی(Right to privacy)کہتے ہیں، آپ گھر میں کیا کھا رہے ہیں؟ بیوی بچوں کے ساتھ کس طرح رہتے ہیں؟ کس کو فون کر رہے ہیں؟ اور کس کس سائٹ پر مشغول رہے ہیں، اسے جاننے کا حق باہر کے لوگوں کو نہیں ہے ، یہ قدرت کی جانب سے دیا گیا حق ہے اور سماجی سوچ ہے، بند گھروں کے اندر جھانکنے کی اجازت کسی کو نہیں ہے، اس اصول کا خیال رکھا جانا چاہیے،ٹوہ میں نہیں پڑنا چاہیے، اللہ رب العزت نے تجسس سے منع کیا ہے۔  ’’ولا تجسسوا‘‘  ٹوہ میں مت پرو۔ترقی کے اس دور میں یہ خیال ختم ہو تا جا رہا ہے ، درون خانہ تک پہونچنے کی مذموم کوشش ہر سطح پر ہو رہی ہے، بھیجے ہوئے خطوط کی اسکیننگ اور فون ٹیپ کیے جانے کی بات اور روایت عام سی ہو گئی ہے ، جس کے نتیجے میںنجی راز طشت ازبام ہو رہے ہیں، سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ نجی راز کی حفاظت ہمارا بنیادی حق ہے یا نہیں،اور ہندوستانی دستور اس کی کس حد تک اجازت دیتا ہے ، یہ سوال اس لیے اٹھ کھڑا ہوا کہ سرکار سارے کام سے آدھار کارڈ کو جوڑ رہی ہے، آدھار کارڈ میں جومعلومات ہو تی ہیں، وہ نجی ہیں اور اس صورت میں راز ، راز نہیں رہ پائیں گے۔

ہفتہ, جولائی 22, 2023

اسکولوں میں آن لائن حاضر یمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار ، اڈیشہ وجھارکھنڈ

اسکولوں میں آن لائن حاضر ی
Urudduinyanews72
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار ، اڈیشہ وجھارکھنڈ
 سرکاری اسکولوں میں طالب علموں کی گھٹتی تعداد اور اساتذہ کی غیر حاضری کی شکایتوں کے پیش نظر 16 جولائی سے اساتذہ اور طلبہ کی حاضری کو آن لائن کر دیا ہے، یہ حاضری آمد ورفت دونوں کے وقت بھیجی جانی ہے، مدرسہ بورڈ کے مدارس میں یہ حاضری رجسٹر کی فوٹو کے ذریعہ ہو رہا تھا، اب ہو سکتا ہے وہاں بھی یہ سلسلہ جاری ہوجائے۔
 یہ ایک اچھا قدم ہے، اس کی وجہ سے اساتذہ کی زبان میں’’فرنچ لیو‘‘ پر پابندی لگے گی، رخصت اتفاقیہ کی درخواست دے کر غائب رہنے اور آئندہ دن آکر حاضری بنانے پر بھی روک لگے گی ، بعض سر پھرے استاذ اور استانیاں صدر مدرس سے سی ایل چڑھانے پر جھگڑ لیتے تھے، جس سے اسکول میں پڑھنے والے طلبہ وطالبات اور استاذ واستانیوں پر بُرا اثر پڑتا تھا، اس سے بھی نجات ملے گی، حاضری کا تناسب بڑھے گا اور کار طفلاں جو تمام ہوتا جا رہا تھا اس پر بڑا فرق پڑے گا، طلبہ کی حاضری ہوگی تو پڑھائی کا ماحول بھی بنے گا، اور طلبہ وطالبات کی دلچسپی اسکول سے بڑھے گی ، ابھی بیش تر اسکولوں میں طلبہ کی حاضری مڈ ڈے میل کے حصول کے لیے ہوتی ہے اور کھانا کھا کر طلبہ وطالبات رفو چکر ہوجاتے ہیں، پہلے استاذ سکنڈ ہاف میں خوش گپیوں میں مشغول رہتے تھے اور استانیاں سوئٹر بننے میں ، اب سوئٹر بننے کا کام بند ہو گیا ہے، چنانچہ استانیاں بھی خوش گپیوں میں شریک ہوجاتی ہیں، ان حالات میں گارجین حضرات یہ سمجھتے تھے کہ لڑکوں کو اگر پڑھانا ہے تو کسی کنونٹ یا پرائیوٹ اسکول کا سہارا لیا جائے، چنانچہ سرکاری اسکولوں میں داخل بیش تر بچے کھانا اسکول میں دن کا کھاتے ہیں اور پڑھائی کہیں اور کرتے ہیں۔
استثنا سب جگہ ہوتا ہے، یہاں بھی ہے، لیکن بیش تر اسکولوں کا حال وہی ہے، جس کا ذکر اوپر کیا گیا ، شہری اسکولوں میں کم اور دیہاتی اسکولوں میں زیادہ ، شہری اسکولوں کی طرف تعلیمی افسران کا رخ زیادہ ہوتا ہے، کسی کسی دن تو الگ الگ کٹیگری کے افسران دن میں دو بار بھی آدھمکتے ہیں اور دارو گیر کرتے ہیں، داروگیر کو نرم کرنے بلکہ ختم کرنے کا رجحان بھی ہندوستانی روایات کے مطابق ہے، اور اس سے بھی کام چلالیا جاتا ہے، لیکن برابر ایسا نہیں کیا جا سکتا، اس لیے یہ نسخہ بھی ہمیشہ کام نہیں آتا، بعض سخت گیر افسران ہوتے ہیں جن کے یہاں داد ودہش کا مفہوم آج بھی رشوت ہے، وہ کسی طرح مینیج نہیں ہوپاتے، در اصل ایسے ہی افسران سے لوگ صحیح رخ پر جاپاتے ہیں، ظاہر ہے یہ فیصلہ اساتذہ اسکول کو راس نہیں آ رہا ہے، لیکن راس آوے یا نہیں ’’راست‘‘ یہی ہے۔

گھریلوکشیدگی اوربچوں کی نشوونما✍️✍️ ٭انس مسرورانصاری

گھریلوکشیدگی اوربچوں کی نشوونما
Urudduinyanews72

✍️✍️ ٭انس مسرورانصاری
میاں بیوی میں کتنی ہی محبت اورخلوص واپنائیت کیوں نہ ہولیکن کبھی کبھی ،کسی نہ کسی وجہ سے اختلافِ رائے کے سبب توتو،میں میں ،ہوہی جاتی ہے۔کہتے ہیں کہ روٹھنے اورمنانے کے بغیرازدواجی زندگی میں حقیقی لطف ومسرت بھی تونہیں۔ 
میاں بیوی کے درمیان اَن بن کی صورت میں گھریلوکام کاج کے لیے سب سے اہم رول اداکرتے ہیں ننھے بچے۔یہ معصوم بچے فریقین کے درمیان ترجمانی کے فرائض انجام دیتے ہیں۔ممی کوپاپاسے کوئی ضرورت آن پڑے یاپاپاکو ممی سے کوئی کام ہو توننھے میاں پکڑے جاتے ہیں۔ 
‘‘ببلو!ذرااپنے پاپاسے کہوکہ فلاں چیز لانی ہے۔آفس سے ذراجلدی آجائیں گے۔ہمیں کہیں جاناہے۔ببلو!اپنے پاپاسے کہوناشتہ تیارہے۔پاپاسے پوچھوکہ رات کے کھانے میں کیارہے گا۔؟میں ذراپڑوس میں بڑی آپاکے گھرجارہی ہوں۔اپنے پاپاسے کہومیزپرکھانالگادیاہے،کھالیں گے۔’’وغیرہ وغیرہ۔پاپاکوممی سے کچھ کہناہے توببلوسے کہاجائے گا۔‘‘بیٹا!ہمارے شرٹ کی بٹن ٹوٹ گئی ہے،ممی سے کہوبٹن لگادیں۔شام کوذرادیرسے واپس آؤں گا،ممی کوبتادو۔ممی سے کہوکل صبح مجھے کہیں جاناہے،ناشتہ کرکے جاؤں گا۔’’وغیرہ وغیرہ۔ایسے ہرموقع پرببلومیاں کی حیثیت بہت بڑھ جاتی ہے۔والدین کے لیے وہ بہت زیادہ اہم ہوجاتے ہیں۔انھیں ضرورت سے زیادہ پیارکیاجانے لگتاہے۔اُن کی ہرفرمائش کوفوراََپوراکیاجاتاہے۔میاں،بیوی کے درمیان وہ رابطے کاواحدذریعہ ہوتے ہیں۔ببلومیاں کوبھی حیرت ہوتی ہے کہ آخرمعاملہ کیاہے کہ انھیں کبھی اُدھربھیجاجاتاہے اورکبھی اِدھر!وہ پیغام رسانی کاکام حسن وخوبی سے انجام دیتے رہتے ہیں۔اس درمیان ببلومیاں کی طبیعت خراب ہوجاتی ہے یاگھرمیں کوئی مہمان آجاتاہے یاکوئی غیرمعمولی واقعہ ہوجاتاہے تومیاں،بیوی کے درمیان کشیدگی خودبخودختم ہوجاتی ہے اورلگتاہی نہیں کہ ان میں اَن بن تھی۔ 
یہ گھریلوکشیدگی مہذّب اورتعلیم یافتہ گھرانوں کی ہے۔لیکن جب یہی کشیدگی ناخواندہ یانیم خواندہ گھرانوں میں پیداہوتی ہے توآخری تان گالی گلوج اورمارپیٹ پرٹوٹتی ہے۔کشیدگی اورتناؤکے درمیان اگرفریقین میں کوئی بیمارپڑجاتاہے یاکوئی بچہ علیل ہوجاتاہے یاگھرمیں کوئی غیرمعمولی واقعہ پیش آجاتاہے توگھرکی فضارفتہ رفتہ معمول پرآجاتی ہے۔پھروہی روزوشب پھروہی زندگی۔کبھی کبھی تھوڑی سی گھریلوکشیدگی کھٹّے میٹھے لمحوں کااحساس دلاتی ہے۔میاں بیوی کے تعلق کومستحکم بھی کرتی ہے اورپیارومحبت میں اضافے کاسبب بھی ہوتی ہے۔ازدواجی زندگی میں مزید خوش گواریت پیداہوتی ہے۔لیکن جب یہی کشیدگی تسلسل اورتواتراختیارکرلیتی ہے توفریقین کے آپسی اختلافات اورکشیدگی کے مضراورمنفی اثرات سب سے زیادہ بچوں پر پڑتے ہیں۔گھریلوکشیدگی سے گھرکی فضامیں ہروقت جو ایک تناؤ،سنسنی خیزخاموشی،اُداسی اورمتوقع مہابھارت کی سی کیفیت ہوتی ہے،وہ بچوں کی ذہنی وجسمانی نشوونماکے لیے زہرِقاتل ہوتی ہے۔ 
گھریلوکشیدگی کے اس ماحول میں بچے ہراساں،خاموش،اداس،غم زدہ اورمتفکررہتے ہیں۔ہمہ وقت اُن پرخوف ودہشت اورایک طرح کی بے چارگی و محرومی اورمایوسی طاری رہتی ہے۔والدین کے درمیان متوقع مہابھارت کی وجہ سے معصوم بچے ہروقت خائف ،گم سم اورخاموش رہتے ہیں۔چونکہ بچوں کواپنے والدین سے وہ پیار،وہ محبتیں اورشفقتیں نہیں مل پاتیں جن کے وہ مطلوب،متلاشی اورتمنّائی ہوتے ہیں اورجو ان کی ضرورت اوران کا حق ہیں۔والدین کی بے توجہی کے سبب اُن میں متعددنفسیاتی امراض پیداہوجاتے ہیں۔ہروقت چہلیں کرنا،کھیناکودنا،ہنسناہنسانابچوں کی فطرت ہوتی ہے لیکن جب فضااورماحول ناخوش گوارہوتے ہیں توبچوں کی ذہنی و فطری قوت اچھی طرح بیدارنہیں ہوپاتی۔ان میں اضافہ نہیں ہوپاتا۔صلاحیتوں کے سوتے خشک ہونے لگتے ہیں۔گھریلوکشیدگی کے درمیان خوف ودہشت،اُداسی اورخاموشی کی حالت میں پرورش پانے والے بچے ذہنی ونفسیاتی اورجسمانی امراض کی وجہ سے کبھی کوئی بڑاکارنامہ انجام نہیں دے پاتے۔وہ بزدل اورڈرپوک ہوجاتے ہیں ۔مایوسی انہیں اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔اُن میں احساسِ کمتری کے جذبات شدّت کے ساتھ عودکرآتے ہیں۔اُن کے افعال اورفیصلے جذباتی ہوتے ہیں۔والدین کی توجہ سے محروم بچے ایک طرح سے ذہنی طورپرناکارہ ہوتے ہیں اوراحساسِ محرومی اُ ن کی پوری زندگی کو سانحاتی بنادیتاہے۔وہ بڑے ہوکر ایک ناکام زندگی جیتے ہیں۔ 
نفسیات کے ماہرین کامتفقہ فیصلہ ہے کہ ایسے کشیدہ اورناخوش گوارماحول میں پرورش پانے والے بچے زندگی میں کبھی کوئی کارنامہ انجام نہیں دے سکتے۔ 
بچوں کی جسمانی وذہنی نشوونمامیں خوش گوارگھریلوفضابہت زیادہ معاون ومددگارہوتی ہے۔اس لیے جن گھروں میں فضاکسی بھی وجہ سے کشیدہ اورمکدّرہوان گھروں کے افرادکی بڑی ذمّہ داری ہے کہ وہ نئی نسل پررحم کریں۔خاندان کی فلاح وبہبوداوربہتری کے لیے مصالحت اوردرگزرکاراستہ اختیارکریں۔بچو ں کے ساتھ شفقت اورمحبت سے پیش آئیں۔نئی نسل کوتباہ وبرباد ہونے سے بچائیں
۔ موڈکتنابھی خراب کیوں نہ ہومگرجب گھرمیں داخل ہوں تومسکراتے ہوئے چہرے کے ساتھ داخل ہوں۔اپنے بچوں کے ساتھ کچھ وقت ضرورگزاریں۔اسکول کاہوم ورک دیکھیں۔تعلیم کے معاملے میں اُن کاحوصلہ بڑھائیں۔بچوں کی ضرورتوں کاپوراخیال رکھیں۔انھیں محسوس نہ ہونے دیں کہ اُن سے غفلت برتی جارہی ہے یااُنھیں نظراندازکیاجارہاہے۔اس حقیقت کوکبھی فراموش نہ کریں کہ گھریلوماحول ہی انسان کی کردارسازی کرتاہے۔اچھایابُرابناتاہے۔اپنے بچوں کوکامیاب دیکھناچاہتے ہیں تواُن کی رہنمائی کریں اور اُن کے ساتھ پوراپوراتعاون کریں۔ 
٭٭ 

 انس مسرؔورانصاری 
 
 قومی اردوتحریک فاؤنڈیشن 
 سکراول،اردوبازار،ٹانڈہ۔امبیڈکرنگر۲۲۴۱۹۰۔ 
(یو،پی) 
 

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...