Powered By Blogger

منگل, اگست 01, 2023

حضرت مولانا محمد ولی رحمانی ؒکی سیاسی زندگی ___✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

حضرت مولانا محمد ولی رحمانی ؒکی سیاسی زندگی  ___
Urudduinyanews72
✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ ورکن آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ ( 9431003131)

امیر شریعت مفکر اسلام مولانا محمد ولی رحمانی ؒ (ولادت 5؍جون 1943ء وفات 3؍اپریل 2021 ء ) امیر شریعت رابع مولانا سید شاہ منت اللہ رحمانی ؒ (1991ء ۔ 1912ء )بن قطب عالم حضرت مولانا محمد علی مونگیری ؒ کی شخصیت ہمہ جہت اور خدمات کے اعتبار سے متنوع تھی ،ان کی خدمات کا بڑا میدان ملی اور سیاسی تھا ،وہ ملی کاموں کو آگے بڑھانے اور مقاصد تک پہونچانے کے لئے سیاست کا سہارا لیتے تھے ،ان کے ہاتھ میں ٹیڑھا میڑھا ڈنڈا ہوتا تھا ،جب سیدھے سے کام نہیں نکلتا تو وہ ٹیرھے میڑھے ڈنڈے کا استعمال کر کے بھی کام نکلوانے کی صلاحیت رکھتے تھے ،رائٹ ٹو ایجو کیشن کے مسئلے پر وہ مرکزی وزیر قانون کپل سبل سے بھڑ گئے تھے ،اور بالآخر کپل سبل کو گھٹنے ٹیکنے پڑے اور مکاتب، گروکل اور پاٹھ شالوں کو اس سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ،اور مسلمانوں کے بنیادی تعلیمی ڈھانچے کا تحفظ ممکن ہو سکا ۔
مولانا محمد ولی رحمانی ؒ کو سیاست اپنے نامور والد سے ورثہ میں ملی تھی ،ان کے والد امیر شریعت رابع انڈپنڈنٹ پارٹی کے ٹکٹ پر کامیاب ہو کر اسمبلی پہونچے تھے ،انگریزوں کے عہد حکومت میں مسلم لیگ اور کانگریس کی رسہ کشی کے درمیان ایک نئی پارٹی سے کھڑے ہو کر اسمبلی پہونچنا معمولی کام نہیں تھا ،مولانا منت اللہ رحمانی ؒ نے اس غیر معمولی کام کو کر دکھایا ،اس زمانہ میں خانقاہ رحمانی مونگیر مجاہدین آزادی کا مرکز بنا ہوا تھا اور ہینڈ بل ،پمفلٹ وغیرہ کی طباعت کے لیے وہاں ایک چھوٹی مشین ہوا کرتی تھی ،سیاسی لوگوں کی مسلسل آمد و رفت کی وجہ سے خانقاہ میں پروان چڑھ رہے اس بچے کے ذہن و دماغ میں بھی سیاسی رنگ جا گزیں ہوتا رہا ،آزادی کے وقت امیر شریعت سابع کی عمر صرف چار سال تھی ،یہ عمر شعور کی نہیں ہوتی ،لیکن اللہ رب العزت نے جو ہمیں حواس خمسہ ظاہرہ اور حواس خمسہ باطنہ دیا ہے وہ کسی بھی عمر میں ماحول کے اثرات کو قبول کرنے کی پوزیشن میں ہوتا ہے ،آزادی کے بعد بھی نقل مکانی اور قتل و غارت گری کا جو سلسلہ شروع ہوا ،اس نے اس بچے کے ذہن و شعور کو متأثر کیا ،اوراس نے اپنے والد کی سیاسی جد و جہد اور ملی مسائل کے لئے ان کے طریقۂ کار کو قریب سے سمجھا ،دیکھا اور سیکھا ،مولانا نے محسوس کیا کہ جمہوری ملک میں باعزت زندگی گزارنے کا طریقہ سیاست کی گلیاروں سے ہو کر گذرتا ہے ،وہاں رہ کر اپنے اثر و رسوخ سے ملت کے بہت سارے مسائل حل ہو سکتے ہیں اور حل کئے جا سکتے ہیں،چنانچہ سیاسی میدان میں اپنے قدم جمانے کے لئے وہ کانگریس پارٹی سے منسلک ہو گئے اور اس پلیٹ فارم سے پوری حساسیت اور سیاسی شعور کے ساتھ کام کرنے لگے ،سیاست میں مضبوط حصہ داری اور سرگرم رہنے کی وجہ سے کانگریس کے لیڈران ان کی بڑی قدر کرتے تھے ۔
ایمرجنسی کے رست و خیز سے پہلے 2؍جولائی 1973 ء کو عبدالغفور صاحب کانگریس پارٹی کی طرف سے بہار کے وزیر اعلیٰ بنے،ان کی نگاہ اس بانکے سجیلے جوان پر ٹک گئی ،جس نے سیاست کی خار دار وادیوں میں اپنی ایک شناخت بنا لی تھی ،انہوں نے گورنر کوٹے سے امیر شریعت سابع ؒ کو پہلی بار ودھان پریشد پہونچا دیا ، رام چندر دھون دیبا بھنڈارے 4؍فروری 1973 ء کو بہار کے آٹھویں گورنر بن کر آئے تھے ،انہوں نے وزیر اعلیٰ کی سفارش کو قبول کر لیا ،اور مولانا کو 8؍ مئی 1974ء کوایم ال سی نامزد کر دیا ، اس کے بعد بہار کی سیاست میں بھونچال آیا ،ایمرجنسی کے اثرات پڑے ،1977 ء کے انتخاب میں مرکز میں اندرا گاندھی کی حکومت ختم ہوئی ، راج نرائن نے انہیں رائے بریلی سے شکست فاش دی ،جے پرکاش نرائن کنگ میکر بنے،بہار کی عبدالغفور حکومت بھی جے پی اندولن کی بھینٹ چڑھ گئی ،مرکزی حکومت نے صدر راج لگا دیا ،یہ سب ہوتا رہا ،لیکن مولانا نے 6؍مئی 1980ء تک اپنی میقات مکمل کر لی ،اس دوران آپ نے مختلف برسوں میں وزیر اعلیٰ کے طور پرجگن ناتھ مشرا کے دو میقات کو دیکھا ،1977ء کے انتخاب میں جنتا پارٹی برسر اقتدار آئی تو کرپوری ٹھاکر اور ان کے بعد رام سندر داس نے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی ،آپ کا تعلق چونکہ کانگریس پارٹی سے تھا ،بلکہ کہنا چاہئے کہ جب کانگریس تقسیم ہوئی اور اندرا گاندھی کی قیادت والی پارٹی کو کانگریس آئی کا نام دیا گیا تو مولانا محمد ولی رحمانی صاحب کانگریس آئی خیمے میں چلے گئے ،جگن ناتھ مشرا کے وزیر اعلیٰ کی تیسری میقات 14؍اگست 1983ء کو ختم ہوئی ،اور چندر شیکھر سنگھ جو خود بھی ایم ایل سی رہے تھے ،وزیر اعلیٰ کی کرسی پر 14؍اگست 1983ء کو قابض ہوئے تو انہوں نے دوسری بار مولانامحمد ولی رحمانی کو باضابطہ انتخاب کے ذریعے ودھان پریشد تک پہونچا یا ،یہ میقات 6؍مئی 1990ء کو اختتام پذیر ہوئی ،اور 7؍مئی 1990ء کو آپ سہ بارہ ایم ایل سی چن لئے گئے ،اور 6؍مئی 1996ء تک ایم ایل سی رہے ،اس پوری مدت میں آپ نے کئی وزراء اعلی کا دور دیکھا،چندر شیکھر کے بعد علی الترتیب بندیشوری دوبے ،بھگوت جھا آزاد ،ستندر نرائن سنگھ ،جگن ناتھ مشرا اور لالو پرشاد یادو کے دس سالہ دور اقتدارمیں سیاسی اقدار کو بدلتے دیکھا ،لالو پرشاد یادو 10؍مارچ1990ء کو وزیر اعلیٰ بنے تھے،اور دوسری میقات میں 25؍جولائی 1997ء تک بر سر اقتدار رہے ،اس کے بعد وزیر اعلیٰ کی کرسی لالو پرشاد یادو کے آنگن میں چلی گئی اور رابری دیوی وزیر اعلیٰ بنیں ،یہیں سے سیاست میں لالو ازم کا دور شروع ہوا ،جس کا مطلب یہ ہے کہ کرسی تو بیوی کے پاس ہوتی ہے ،استعمال اس کاشوہر کرتا ہے ،لالو ازم کی وجہ سے ہی بیوی مکھیا ،میئر ،ڈپٹی میئر ،سرپنچ وغیرہ ہوتی ہے اور سارا کام اس کا شوہر کرتا ہے،بلکہ سماج میں بیوی کو کم شوہر کو اس منصب کے حوالہ سے زیادہ جانا جاتا ہے ،کیوں کہ بیوی تو نام کی ہوتی ہے ،خواتین کے لئے محفوظ سیٹوں کی مجبوری ہوتی ہے ،جیت کر تو وہ شوہر کے بل پر ہی آتی ہے ۔اس لئے کرسی آنگن میں ہوتی ہے ،اور اقتدار سارا دروازہ پر شوہر کی شکل میں ہوا کرتا ہے ۔
مولانامحمد ولی رحمانی کے ایم ایل سی کی مدت لالو پرشاد کے وزیر اعلیٰ رہتے ہوئے ختم ہو گئی ،اس کے بعد سے کانگریس برسراقتدار نہیں آئی اور مولانا اس کے بعد ایم ایل سی نہیں منتخب ہوئے ،اپنے ایم ایل سی کے عہد میں دو مرتبہ انہیں ودھان پریشد کے نائب صدر (ڈپٹی چیئرمین) بننے کا بھی موقع ملا،لیکن یہ انتہائی قلیل مدت کے لئے تھا ،پہلی بار وہ 29 ؍ جنوری سے 30؍جولائی 1985ء تک صرف چھ ماہ اور دوسری بار 23؍جنوری 1990ء سے 6؍مئی 1990ء تک تین ماہ سے کچھ زیادہ دن تک ودھان پریشد کے نائب صدر کی حیثیت سے کام کیا ۔
ایم ایل سی کی تیسری میقات ختم ہونے کے بعد مولانا محمد ولی رحمانی صاحب نے اپنے کو سرگرم عملی سیاست سے دور کر لیا،لیکن ایک طویل عرصہ تک سرگرم سیاسی زندگی میں انہوں نے بہت سارے اتار چڑھاؤ دیکھے ،خود بھی نشیب و فراز سے گزرے ،اس کی وجہ سے ان کی پکڑ سیاست دانوں پر آخر تک باقی رہی ،وہ ایک ماہر سیاست داں کی طرح جانتے تھے کہ سیاسی بساط پر کس ’’مہرے ‘‘کو کیسے پیٹاجاتا ہے ،اور کس طرح مہرے سے بساط پر’’ شاہ‘‘ کو اس طرح گھیرا جا سکتا ہے کہ ’’بادشاہ‘‘ کے’’ شہ‘‘ سے نکلنے والے ارد گرد کے تمام قریبی خانے مخالف مہروں کی زد پر ہوں اور کوئی صورت ’’بادشاہ‘‘ کے لئے ’’شہ ‘‘سے نکلنے کی باقی نہ رہے تو’’ بادشاہ‘‘ کی’’ شہ‘‘ مات ہو جائے گی ،انہیں خوب معلوم تھا کہ’’ بادشاہ‘‘ کو براہ راست نہیں ماراجا سکتا ،انہیں بساط کے سارے سولہ مہروں ایک بادشاہ ،ایک وزیر ،دو فیلے،دو گھوڑے ،دو رخ اور پیادوں کا استعمال خوب آتا تھا ،کس ’’پیادے‘‘ کو کب کس کام پر لگا دینا ہے اور اس سے کیا نتیجہ بر آمد ہوگا وہ اپنی سیاسی بصیرت سے تاڑ لیتے تھے اور اس کا استعمال وہ بڑی فن کاری کے ساتھ کیا کرتے تھے اور کبھی ناکام نہیں ہوتے تھے ،بلکہ کبھی کبھی تو وہ بعض مہرے کو اس طرح استعمال کر لیتے تھے کہ ’’بادشاہ‘‘  ’’وزیر‘‘ سے مات کھا جاتا تھا ،اور ’’پیدل‘‘ ’’ فیل‘‘ کو رگڑ دیا کرتا تھا ،یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی ،فلسفہ کی زبان میں کہیں توکہنا چاہیے کہ وہ ’’سیاست مدن‘‘ کے جملہ اقسام اور اس کے طریقہ ٔ کار سے واقف تھے ،اور موقع دیکھ کر سیاسی ؛بلکہ غیر سیاسی معاملات میں بھی اس کا استعمال فنی مہارت کے ساتھ کیا کرتے تھے،اس مہارت کی وجہ سے غیر سیاسی میدان میں بھی ان کی عظمت کا ڈنکا بجتا تھا اور ماہر سیاست داں بھی ان سے مشورے لیا کرتے تھے ۔ وہ بے باک اور جری تھے ،سیاسی اور ملی مسائل ومعاملات پر جس جرأ ت اظہار کے وہ مالک تھے وہ خالص سیاسی لوگوں میں تو مفقود ہے ہی ،دوسرے شعبۂ حیات سے منسلک لوگوں میں بھی اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی ،انہوں نے بابری مسجد انہدام کے بعد برپا ہونے والے فساد پر ایک انٹرویو میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ممبئی بم دھماکہ نے فساد کی اس نئی لہر کو قابو میں کیا ،ان سے جب پوچھا گیا کہ کیا اس میں پاکستان کا ہاتھ ہے تو فرمایا کہ’’ اگرہم 1971ء میں مشرقی پاکستان میں کاروائی کر سکتے ہیں تو یہ ناممکن نہیں کہ ممبئی حادثہ میں پاکستان کا ہاتھ ہو،دوسروں کے گھروں میں تاک جھانک کرنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کے آنگن پر بھی نگاہ جمائی جا سکتی ہے ‘‘۔
ان کے جرأت اظہار کا ایک واقعہ وہ بھی ہے ،جب انہوں نے 23؍نومبر 2012ء کو مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ پٹنہ کے صدسالہ اجلاس میں وزیر اعلیٰ بہار کو کھری کھری سنائی تھی اور وزیر اعلیٰ منہ دیکھتے رہ گئے تھے ،اس بے باکی کا چرچا کافی عرصے تک سیاسی گلیاروں میں رہا،وزیر اعلیٰ کو مدرسہ شمس الہدیٰ کے لئے اس موقع سے جن ترقیاتی منصوبوں کا اعلان کرنے والے تھے،اس سے باز رہے اور خبر گرم تھی کہ مولانا محمد قاسم بھاگلپوری رحمۃ اللہ علیہ کو جو ان دنوں مدرسہ کے پرنسپل تھے ،سبکدوشی کے بعد دو سال کی مزید مدت کار فراہم کرائی جائے گی وہ بھی نہیں ہوا۔
بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی ؛بلکہ 15؍ اپریل 2018ء کو تاریخی ’’دین بچاؤ دیش بچاؤ ‘‘کانفرنس بھی حضرت رحمہ اللہ کی زیر صدارت ہوا ،وزیر اعلیٰ نے اس کانفرنس کے اثرات کو سبوتاز کر نے کا کام کیا، جتنی بڑی بھیڑ جمع ہوئی تھی اور جو پیغام مسلمانوں کو دیا گیا تھا اس پر شکوک و شبہات کی ایسی لکیر وزیر اعلیٰ نے کھینچی جس کو مٹانے کی کوئی صورت باقی نہیں رہی اور جس کی تلافی لاکھ وضاحت کے بعد بھی نہیں ہو سکی ۔
بھاجپا کی گونگی ،بہری سرکار میں بھی مولانا نے ملی مسائل کو حل کرانے کے لئے بڑی جد و جہد کی ،امارت شرعیہ ،مسلم پرسنل لا بورڈاور خانقاہ رحمانی( جس کے وہ علی الترتیب امیر شریعت ،جنرل سکریٹری اور سجادہ نشین تھے) کی افرادی قوت کو بھی کام پر لگایا ،سی اے اے ،این آر سی کے مسئلے کو پہلے سے بھانپ لیا ،تین طلاق کے لئے خواتین کو سڑکوں پر لائے اور دستخطی مہم چلوائی،بابری مسجد مقدمہ کی کامیاب پیروی میں لگے رہے ،لیکن تقدیر کا لکھا پورا ہوا ، سی اے اے ،این آر سی قانون بن گیا،اب اس کے لئے ضابطہ بنانے کی مدت میں تیسری بار توسیع ہوئی ہے ،تین طلاق کو عدالت نے غیر قانونی اور قابل سزا جرم سقرار دے دیا اور بابری مسجد سارے دلائل حق میں ہونے کے باوجود ہاتھ سے نکل گئی اور وہ جو شاعر نے کہا ہے نا   ؎
بدلتی ہے جب ظالم کی نیت 
نہیں کام آتی دلیل اور حجت
وہی ہوا ،اس طرح مولانا کی آخری زندگی متواتر ان المناک حادثوں کی وجہ سے انتہائی بے چینی اور کرب میں گزری ،بے چینی ملت کی پریشانی اور کرب آنے والے ہندوستان کے نئے خد و خال کی وجہ سے تھی ،جس میں ہندتوا آگے بڑھتا جا رہا تھا،مسلمانوں کا موب لنچنگ ہو رہا تھا اور کوئی طریقۂ کار سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ سیاسی گلیاروں سے اٹھ رہے اس طوفان بلاخیز کو کس طرح روکا جا ئے ،صحیح اور سچی بات یہ ہے کہ مولانا دل کے مریض تھے ،اس کے باوجود ۔ع
 مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا

اتوار, جولائی 30, 2023

UCC: یکساں سول کوڈ پر ملے ایک کروڑ سے زیادہ تجاویز، وزیر قانون نے کہا-'اے آئی سے کی جائے گی چھٹنی'

UCC: یکساں سول کوڈ پر ملے ایک کروڑ سے زیادہ تجاویز، وزیر قانون نے کہا-'اے آئی سے کی جائے گی چھٹنی'

Urudduinyanews72

22ویں لاء کمیشن کو یکساں سول کوڈ (یو سی سی) پر ایک کروڑ سے زیادہ تجاویز موصول ہوئی ہیں۔ ریاستی وزیر قانون ارجن رام میگھوال نے ہفتہ کو کہا کہ آخری دن تک کمیشن کو یو سی سی پر ایک کروڑ سے زیادہ تجاویز موصول ہوئی ہیں۔ کمیشن اب ان تجاویز کا مطالعہ کرے گا جس کے بعد اگلا قدم اٹھایا جائے گا۔ میگھوال نے کہا، حکومت ملک کے ہر شخص کی تجویز کو سننے کے لیے تیار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تجاویز قبول کرنے کی معیاد کو اسی وجہ سے 28 جولائی تک بڑھایا گیا تھا۔ حالانکہ، اب کمیشن اسے اور آگے نہیں بڑھانا چاہتا ہے۔ شروعات میں تجاویز دینے کی آخری تاریخ 14 جولائی رکھی گی تھی، لیکن، لوگوں کا زبردست ردعمل دیکھتے ہوئے اسے 28 جولائی تک بڑھایا گیا ہے۔ 277 رپورٹ کمیشن نے دیں حکومت ہند کے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے قانون کمیشن کی تشکیل کی گئی ہے تاکہ ایک مقررہ حوالہ مدت کے ساتھ قانون کے شعبے میں تحقیق کی جاسکے۔ اپنے ٹرمز آف ریفرنس کے مطابق کمیشن حکومت کو سفارشات (رپورٹ کی شکل میں) دیتا ہے۔ کمیشن نے قانونی امور کے محکمے، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے حوالے سے مختلف موضوعات پر غور کیا اور 277 رپورٹیں پیش کیں۔ یہ ملک کے قوانین کا فکر انگیز اور تنقیدی جائزہ فراہم کرتا ہے۔

تخلیقی تجاویز پر کریں گے غور

ایک اندازے کے مطابق، سب سے زیادہ تجاویز مسلمانوں کی طرف سے یو سی سی کو نہیں لانے کو لے کر دئیے گئے ہیں۔ حالانکہ، ایسے تجاویز کو آرٹیفیشل انتلیجنس (اے آئی) کی مدد سے چھانٹ کر الگ کردیا جائے گا اور تخلیقی تجاویز پر غور کیا جائے گا۔ موضوع کی مطابقت اور اہمیت کو دیکھتے ہوئے اور عدالت کے احکامات کو مدنظر رکھتے ہوئے 22ویں لاء کمیشن نے اس پر نئے سرے سے غور کرنا مناسب سمجھا ہے۔

ہفتہ, جولائی 29, 2023

جواہر نوودیہ ودیالیہ كی چھٹویں جماعت میں داخلے كے لیے فارم بھرنا شروع ہو چکا ہے ۔

جواہر نوودیہ ودیالیہ كی چھٹویں جماعت میں داخلے كے لیے فارم بھرنا شروع ہو چکا ہے ۔
اردودنیانیوز۷۲ 
فارم بھرنےکی آخری تاریخ 10؍اگست 2023 ہے۔
آپ جانتے ہوں گے كہ یہ بھارت كے ٹاپ موسٹ گورنمنٹ ریذیڈینشل اسکولز میں سے ایک ہے۔
اس کی برانچ ہر ضلعے میں ہوتی ہے۔ اِس اسکول میں چھٹویں جماعت تا 12ویں جماعت تک ایجوکیشن بالکل فری ہے۔
نوودیہ ودیالیہ کے الومنائی کی تعداد 17‬لاکھ سے زیادہ ہے، ایک اندازے كے مطابق آج تک 2500 ؍سیول سروینٹ سینٹرز میں اور 10،000 ؍سے زیادہ اسٹیٹ گورنمنٹ میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
ایڈمیشن ٹیسٹ پانچویں جماعت كے طلبہ دے سکتے ہیں، یہ ٹیسٹ 22 لینگویجز میں ہوتا ہے، جس میں اردو بھی شامل ہے۔
افسوس کی بات یہ ہے كہ اردو اسکول كے اسٹوڈنٹ اِس امتحان میں نہیں بیٹھتے۔ 
ہیڈ ماسٹرس، ٹیچرز ؛ اسٹوڈنٹس اور ان کے پیر ینٹس کو اِس اسکول كے فائدے معلوم ہونا چاہیے۔ جب كہ اِس اسکول میں پڑھنے كے بہت فائدے ہیں۔ ان اسکولز میں لڑکیوں کا الگ انتظام ہوتا ہے۔ یہ بچیوں كے لیے کافی محفوظ اسکول ہے۔ دیہات كے بچوں كے لیے یہ اسکول بہت شاندار ہے۔
ان اسکولز میں ایڈمیشن كے لیے اسکولز ، پیرینٹس، این جی او، مختلف جماعتیں ، اسٹوڈنٹ آرْگْنائِیزیشن، سوشل ایکٹیوسٹ ، امامِ مساجد اور پولیٹیکل لوگوں کا دلچسپی لینا ضروری ہے۔ ہرکوئی اپنے نام سے سوشل میڈیا میں اِس اسکول میں داخلہ فارم بھرنے کی اپیل کرے۔ جیسے ہَم لوگ عید کی مبارک باد دیتے ہیں۔
ہر اردو اسکول میں تیسری جماعت سے اِس امتحان کی تیاری کرائی جائے۔ جیسا کہ دوسرے میڈیم كے اسکولز کرتے ہیں۔
اردو ٹیچرز ایسوسی ایشن اور تعلیمی بیداری مہم اِس میں بہت بڑا رول ادا کر سکتی ہیں۔ ہماری ان سے درخواست ہے كہ وہ اپنی طرف سے اپیل جاری کریں۔
اِس امتحان کی کوئی فیس نہیں ہوتی ہے ، فارم آن لائن بھرا جاتاہے۔
ہر ذمے دار شخص سے درخواست ہے كہ آنے والے 15 ؍دنوں تک اِس كے اشتہار کو اپنے اسٹیٹس پر رکھیں۔
5ویں کلاس کے ہر والدین، ٹیچرز اور ہیڈماسٹرس سے گزارش ہے کہ خود خصوصی دلچسپی لےکر اِس امتحان میں بچوں کو ضرور بیٹھائیں۔ اِس میسیج کو پورے ملک میں فارورڈ کریں۔

جمعہ, جولائی 28, 2023

بہار: گوپال گنج میں ہائی ٹینشن تار کی زد میں آیا محرم جلوس، 11 افراد جھلسے، 4 کی حالت سنگین

بہار: گوپال گنج میں ہائی ٹینشن تار کی زد میں آیا محرم جلوس، 11 افراد جھلسے، 4 کی حالت سنگین

اردودنیانیوز۷۲ 

بہار کے گوپال گنج ضلع واقع اچاکا گاؤں علاقہ میں جمعہ کے روز محرم کی نویں تاریخ کو نکالے جا رہے جلوس کے دوران بڑا حادثہ ہوا۔ جلوس کے ساتھ چل رہے تعزیہ کے وہاں ہائی ٹینشن تار کی زد میں آ جانے سے جلوس میں شامل کم از کم 11 افراد جھلس گئے۔ ان میں سے 4 کی حالت سنگین بتائی جا رہی ہے۔ سبھی زخمیوں کو علاج کے لیے اسپتال میں داخل کرایا گیا ہے۔گوپال گنج پولیس کے مطابق جمعہ کو تعزیہ جلوس میں ہرپور صفی ٹولہ گاؤں کے کئی نوجوان ہاتھوں میں لاٹھی، ڈنڈے، درخت کی ٹہنی اور ہرے بانس کو لے کر شامل ہوئے۔ دھرم چک گاؤں کی طرف جلوس ملان کے لیے جا رہا تھا۔ بتایا جا رہا ہے کہ اس دوران نوجوان جیسے ہی دھرم چک گاؤں کی طرف بڑھے، تبھی اوپر سے گزر رہے 11 ہزار کے وی اے بجلی کے تار کے رابطے میں تعزیہ آ گیا۔ اس سے 10 سے زیادہ نوجوان اچانک بیہوش ہو کر سڑک پر گر گئے اور زخمی ہو گئےاس واقعہ کے بعد علاقہ میں افرا تفری کی حالت پیدا ہو گئی۔ سبھی زخمیوں کو آناً فاناً میں علاج کے لیے صدر اسپتال بھیجا گیا۔ حادثے کی خبر پا کر ضلع مجسٹریٹ ڈاکٹر نول کشور چودھری اور پولیس سپرنٹنڈنٹ سورن پربھات صدر اسپتال پہنچے۔ افسران نے متاثرین کے علاج کے بارے میں ڈاکٹروں سے جانکاری لی۔ جھلسے ہوئے لوگوں سے بھی حادثہ کے بارے میں معلومات حاصل کی ضلع مجسٹریٹ نے اس واقعہ کے تعلق سے بتایا کہ محرم کا جلوس نکالنے کی اطلاع انتظامیہ کو نہیں دی گئی تھی، جس وجہ سے بجلی کی فراہمی نہیں کاٹی گئی تھی۔ انھوں نے کہا کہ سبھی زخمیوں کو علاج کے لیے صدر اسپتال بھیجا گیا ہے۔ زخمیوں کی حالت معمول پر ہے۔ سبھی زخمی خطرے سے باہر ہیں۔ ڈاکٹروں کو بہتر علاج کی ہدایت دے دی گئی ہے۔

Muharram 2023: یوم عاشورہ کی فضیلت و اہمیت

Muharram 2023: یوم عاشورہ کی فضیلت و اہمیت

اردودنیانیوز۷۲ 

عاشورہ، جسے یوم عاشورہ بھی کہا جاتا ہے، عاشورہ اسلامی کیلنڈر کا پہلا مہینہ محرم کی دسویں تاریخ کومنا یا جاتا ہے۔ یہ لفظ عربی زبان کے لفظ دس نمبر سے ماخوذ ہے۔ عاشورہ کا دن اسلام کی تاریخ میں ایک خاص اہمیت کا حامل ہے اور دنیا بھر میں اسے مختلف طریقوں سے منایا جاتا ہے۔ روایتی طور پر محرم ان چار مقدس مہینوں میں سے ایک ہے جس میں لڑائی کی اجازت نہیں ہے۔ 680 عیسوی میں دس محرم کی تاریخ کو عراق کے کربلا میں پیغمبر اسلامﷺ کے نواسے امام حسینؓ کی شہادت ہوئی تھی،اسی لئے ہر سال دس محرم الحرام کو مسلمان حضرت امام حسینؓ کے تئیں اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔

معرکہ کربلا


عاشورہ کے دن کا سب سے یادگار واقعہ جنگ کے دوران امام حسینؓ اور تقریباً 70 افراد کی شہادت ہے۔ کربلا کی جنگ یزید اول کی فوج اور امام حسین کی قیادت میں ایک چھوٹی فوج کے درمیان لڑی گئی۔ یہ جنگ 10 اکتوبر 680 کو ہوئی جو ہجری کیلنڈر کے مطابق 61 ہجری میں 10 محرم ہے۔


تاریخی جنگ سے پہلے امام حسین علیہ السلام دشمنوں کے محاصرے میں تھے۔ انہوں نے امام حسینؓ کے کیمپ کے اردگرد پانی کے تمام ذرائع پر قبضہ کر لیا اور انہیں پانی سے محروم کر دیا۔ جب انہوں نے ہتھیار نہیں ڈالے تو امام اور ان کے ساتھیوں کو تین دن تک پانی اور غذا سے محروم رکھا گیا اور پھر دشمنوں کی ایک بڑی فوج نے ان پر حملہ کیا۔ انتہائی بھوکے اور پیاسے ہونے کے باوجود انہوں نے پوری قوت سے جنگ لڑی اور اس جنگ میں امام حسین اور ان کے تین ماہ کے بچے سمیت بہت سے لوگ جام شہادت نوش کر گئے۔ اس جنگ میں بہت سے لوگوں نے اسلام کی سر بلندی اوراعلاء کلمتہ اللہ کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔

بھارت ایکسپریس۔


بھارت ایکسپریس۔


بھارت ایکسپریس۔


بھارت ایکسپریس۔


بھارت ایکسپریس۔


بھارت ایکسپریس۔


بھارت ایکسپریس۔


بھارت ایکسپریس۔


بھارت ایکسپریس۔


بھارت ایکسپریس 

جمعرات, جولائی 27, 2023

مدارس اسلامیہ اور عصری تقاضے، ایک مطالعہ۔✍️✍️✍️ محمد ضیاء العظیم قاسمی ،برانچ اونر ضیائے حق فاؤنڈیشن پٹنہ

مدارس اسلامیہ اور عصری تقاضے، ایک مطالعہ۔
اردودنیانیوز۷۲ 
✍️✍️✍️ محمد ضیاء العظیم قاسمی ،برانچ اونر ضیائے حق فاؤنڈیشن پٹنہ
موبائل نمبر 7909098319
مدارس اسلامیہ اور عصری تقاضے ڈاکٹر محمد حفظ الرحمن کی ایک شاہکار تصنیف ہے جو اردو ڈائریکٹوریٹ کی اشاعتی امداد سے شائع کی گئی ہے ۔
کتاب دیکھ کر ہی مصنف محترم کی کاوش اور محنت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔
دو سو صفحات پر مشتمل اس کتاب کی کمپوزنگ نورالدین محمد قاسمی نے کی، اس کی طباعت سن 2021 میں ہوئی، تین سو روپے کی یہ کتاب مرکز المعارف حضرت بشارت کریم سیتا مڑھی بہار، اور مدرسہ بحر العلوم مظفر پور بہار سے حاصل کی جا سکتی ہے ۔
مصنف نے کتاب دو حصوں میں تقسیم کی ہے ،
حصہ اول (نصاب تعلیم) جس میں پانچ عناوین ہیں،
فہرست عناوین حصہ اول 
1  موجودہ علمی تحدیاں اور مدارس اسلامیہ
2  مشترکہ تعلیمی لائحہ
3  تخصص فی الاساسیہ
4 تخصص فی الإقتصاد
5  تخصص فی علم الاجتماع

حصہ دوم میں (مشورے اور گزارشیں) گیارہ عناوین ہیں، 

فہرست عناوین حصہ دوم 
1  انگریزی کے اساتذہ کی قلت کا مسئلہ
2  فارسی کتب سے استفادہ میں مشکلات
3   انگریزی داں علماء اور مدارس ومساجد
4  نصاب میں تبدیلی کے مثبت اثرات
5   اتحاد ملت اور مدارس اسلامیہ
6    ہماری ترجیحات میں تبدیلی ضروری
7   مدارس اسلامیہ اور عصری تعلیم
8    اسلامی اقامت خانہ کا قیام
9    دینی وأخلاقی تربیت
10  مدارس اور مسجد کی نام گزاری
11    اختتامیہ

مصنف نے کتاب کا انتساب اپنے والدین کے نام کیا ہے ۔
کتاب کی تقریظ مشہور ومعروف اور مقبول عالم دین مولانا احمد بیگ ندوی، سابق استاذ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ ،اور ماہر تعلیم مولانا بدیع الزماں ندوی قاسمی بانی و مہتم جامعہ فاطمہ للبنات مظفر پور،بہار نے لکھی ہے، جس میں مصنف کے طرز تحریر، اسلوب تحریر، اور خاصیت تحریر کا بہترین جائزہ لیتے ہوئے مثبت تاثرات سے نوازتے ہوئے ان موضوعات پر اپنے اطمنان کا اظہار کیا ہے ۔
بعدہ سطور اولین میں مصنف محترم نے ہندوستان کی قدیم تاریخ (1857) میں ہندوستانی تہذیب وثقافت کے ساتھ ساتھ تعلیم پر اس کے مرتب ہونے والے اثرات کا تذکرہ کیا ہے،
نیز کتاب میں شامل مضامین، وجہ تالیف وتصنیف، اور ان تمام دوست واحباب، خویش واقارب کا شکریہ ادا کیا ہے جنہوں نے اس تصنیفی سفر میں ان کی حوصلہ افزائی کی ہے ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ آخری عنوان اختتامیہ میں مجموعی طور پر کتاب کے تمام مضامین کا خلاصہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے، انہوں نے مدارس اسلامیہ کی اہمیت و افادیت اور موجودہ دور میں اس کی ضرورت و مقاصد کے سلسلے میں بڑی خوبصورتی کے ساتھ دلچسپ پیرائے میں مدلل بیان کرکے اس تصنیف کو با مقصد بنانے کی بھر پور سعی کی ہے ۔
یقیناً انسانوں کی ترقی وکامیابی تعلیم میں پوشیدہ ہے، تعلیم وہ زیور ہے جو طرز زندگی، اصول بندگی، اور سلیقۂ زیست سے متعارف کراتا ہے ۔
دنیا کے تمام علوم وفنون کی اصل اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو وہ قرآن مجید کی تعلیمات اور اس کے مفاہیم ہیں، اللہ رب العزت نے اس کے نزول کے آغاز ہی میں تعلیم کی ترغیب دلائی ہے، اور تعلیم کا مقصد صرف یہ ہے کہ معرفت الہی پیدا ہو جائے، تعلیم خواہ جو بھی ہو لیکن اس کے حصول کا مقصد معرفت الہی ہو یہی تقاضۂ تعلیم ہے ۔سیدنا ابوالبشر آدم علیہ السلام کو اشرف المخلوقات بناتے ہوئے فرشتوں کو سجدے کا حکم دیا، اس کا پس منظر بھی تعلیم ہی ہے ۔ "مدارس اسلامیہ اور عصری تقاضے"اس تصنیف میں موصوف محترم نے مدارس اسلامیہ کی تعلیمات کے ساتھ ساتھ ان کے تعلیمی نصاب پر بھی گفتگو کی ہے، اور ساتھ یہ مشورہ بھی دیا ہے کہ مدارس اسلامیہ کے نصاب میں عصری تقاضوں کے پیش نظر ترمیم واضافہ کی اشد ضرورت ہے اور یقیناً آپ نے جن پہلوؤں کی نشاندہی کی ہیں ان پر اہل مدارس کو غور وفکر کے ساتھ ساتھ مستقل اور مستقبل کے لئے لائحۂ عمل تیار کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ مدارس اسلامیہ کے طلبہ وطالبات دنیاوی معلومات کی نا واقفیت کی بنا پر احساس کمتری کا شکار نہ رہیں ۔
 عام طور پر مدارس اسلامیہ میں طلبہ وطالبات کے لیے جن علوم دینیہ کو نصاب میں شامل کیا جاتا ہے ان میں شعبۂ حفظ و قرأت،دینیات ،عالمیت کورس کے دوران قرآن مجید، تفسیر قرآن، احادیث، فقہ، اصول فقہ، منطق فلسفہ، تاریخ وسیرت، عربی، اردو، فارسی زبان وادب وغیرہ ہے، جبکہ چند مدارس نے عصری بنیادی تعلیم کا بھی نظم ونسق کیا ہے ،ابتدائی انگریزی، ہندی، اور حساب وغیرہ کی بھی تعلیم دے رہے ہیں جو کہ ایک اچھی پہل اور شروعات ہے،
لیکن یہ نصاب تعلیم اور نظام تعلیم موجودہ دور کے لئے ناکافی ہے، بلکہ اس میں ترمیم واضافہ کی ضرورت ہے، ان سب باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے مدلل اورمثبت انداز میں ایک لائحۂ عمل تیار کیا جانا چاہیے ۔
کتاب کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں جس سے کتاب کے مضامین ومفاہیم اور مقاصد با آسانی سمجھے جا سکتے ہیں ۔۔۔
اقتباس ۔۔۔۔  "میڈیکل کالج اور مینیجمینٹ کالج میں ملکی قانون کا کچھ حصہ پڑھایا جاتا ہے،لیکن اس کی تدریس کے لئے وہی حصے منتخب کئے جاتے ہیں جو ان حضرات کے کیریئر میں معاون ہو سکتے ہیں، کیونکہ قانون کو درس میں شامل کرنے کا مقصد یہاں عدالتوں کے لئے وکلاء اور ججز فراہم کرنا نہیں بلکہ قانون سے ناواقفیت ان کے اپنے میدان میں جن نقصانات کا باعث ہو سکتی ہے ان سے بچانا ہوتا ہے"
پس اسی مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے مشترکہ تعلیمی لائحہ میں ایک ایسی کتاب تصنیف کرکے نصاب میں شامل کیا جانا چاہئے جو اس ضرورت کو پوری کر سکے۔
اس کتاب میں آئین ہند کے چند اہم ابواب جیسے بنیادی حقوق (fundamental rights)، بنیادی فرائض (fundamental duties)، رہنما اصول (directive principles) اور کچھ اہم دفعات، اس کے علاوہ سول کوڈ اور کرمنل کوڈ کا بنیادی فرق، پرسنل لاء اور سول کوڈ کی قانونی حیثیت، وقف ایکٹ اور اوقاف مینیجمینٹ کا قانونی و انتظامی طریقۂ کار، پرائیویٹ ڈیفینس کی اہمیت اور قانونی حدود وغیرہ اجمالی طور پر شامل ہوں۔ اسی کے ساتھ یہ ضروری ہوگا کہ سول پروسیجر اور کرمنل پروسیجر کی مکمل معلومات انہیں فراہم کیا جائے اور ایف آئی آر اور استغاثہ کی عملی مشق کرا دی جائے، تاکہ فارغین مدارس  امت کے تحفظ کا کام بہتر طور پر ادا کر سکیں اور ہر سطح پر اوقاف کی حفاظت کرنے اور انھیں نفع بخش بنانے کا کام منظم طور پر انجام پانے لگے۔
تجربہ کار قانون دانوں کی نگرانی میں ایسی کتاب تیار کی جانی چاہئے اور پھر بدلتے ہوئے وقت کے ساتھ اس کی تجدید بھی ہوتی رہے، تاکہ قانون میں آئی ترمیم اسے بے فائدہ نہ کردے۔۔۔
مزید کتاب کے مضامین کو سمجھنے کے لئے کتاب کا مطالعہ ضروری ہے، اہل علم ودانشوران  سے ہماری گزارش ہے کہ اس کتاب کا مطالعہ کرکے مدارس اسلامیہ کے تئیں جن پہلوؤں پر نشاندہی کی گئی ہیں ان پر توجہ دے کر مدارس اسلامیہ کی تعلیم کو مضبوط ومستحکم بنانے کی کوشش کی جائے ۔
ہم اپنی جانب سے اور ضیائے حق فاؤنڈیشن کی جانب سے مصنف کی اس کاوش پر انہیں مباکباد پیش کرتے ہیں اور ان کے حق میں دعا گو ہیں کہ اللہ ان کی اس تصنیف کو قبول فرمائے، آمین ثم آمین

محرم الحرام __اسلامی ہجری سال کا پہلا مہینہ✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

محرم الحرام __اسلامی ہجری سال کا پہلا مہینہ
اردودنیانیوز۷۲ 
✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ(9431003131)
1444ھ گذرگیا اور ہم 1445ھ میں داخل ہوگیے، یعنی نئے سال کا سورج ہماری زندگی کے مہہ وسال سے ایک سال اور کم ہوگیا ہے ، ہم موت سے اور قریب ہو گیے ، انسان بھی کتنا نادان ہے وہ بڑھتی عمر کا جشن مناتا ہے، مبارک بادپیش کرتا ہے ، قبول کرتا ہے اور بھول جاتا ہے کہ ہماری عمر جس قدر بڑھتی ہے ، موت اور قبر کی منزل قریب ہوتی رہتی ہے اور بالآخر وقت موعود آجاتا ہے اور آدمی قبر کی آغوش میں جا سوتا ہے۔ جو لوگ صاحب نظر ہیں اور جن کے ذہن میں فکر آخرت رچی بسی ہوئی ہے، وہ گذرے ہوئے سال سے سبق لیتے ہیں ، اعمال کا محاسبہ کرتے ہیں، نئے سال کا استقبال تجدید عہد سے کرتے ہیں کہ آئندہ ہماری زندگی رب مانی گذرے گی ، من مانی ہم نہیں کریں گے ، اس عہد پر قائم رہ کر جو زندگی وہ گذارتے ہیں وہ رب کی خوش نودی کا سبب بنتا ہے اور اس کے نتیجے میں بندہ جنت کا مستحق ہوتا ہے۔
 نئے سال کی آمد پر ہم لوگ نہ محاسبہ کرتے ہیں اور نہ ہی تجدید عہد ، بلکہ ہم میں سے بیش تر کو تو یاد بھی نہیں رہتاکہ کب ہم نئے سال میں داخل ہو گیے، عیسوی کلینڈر سب کو یادہے، بچے بچے کی زبان پر ہے، انگریزی مہینے فرفر یاد ہیں ، چھوٹے چھوٹے بچے سے جب چاہیے سن لیجئے؛ لیکن اسلامی ہجری سال ، جو اسلام کی شوکت کا مظہر ہے، اس کا نہ سال ہمیں یاد رہتا ہے اور نہ مہینے ، عورتوں نے اپنی ضرورتوں کے لئے کچھ یاد رکھا ہے، لیکن اصلی نام انہیں بھی یاد نہیں بھلا ،بڑے پیر اور ترتیزی ، شب برأت، خالی، عید ، بقرعید کے ناموں سے محرم صفر ، ربیع الاول ، ربیع الآخر، جمادی الاولیٰ ، جمادی الآخر، رجب ، شعبان، رمضان ، شوال ذیقعدہ اور ذی الحجہ جو اسلامی مہینوں کے اصلی نام ہیں ، ان کو کیا نسبت ہو سکتی ہے ، ہماری نئی نسل اور بڑے بوڑھے کو عام طور پر یا تو یہ نام یاد نہیں ہیں اور اگر ہیں بھی تو ترتیب سے نہیں ، اس لیے ہمیں اسلامی مہینوں کے نام ترتیب سے خود بھی یاد رکھنا چاہیے اور اپنے بچوں کو بھی یاد کرانا چاہیے، یاد رکھنے کی سب سے بہتر شکل یہ ہے کہ اپنے خطوط اور دوسری تحریروں میں اسلامی کلینڈر کا استعمال کیا جائے۔پروگرام اور تقریبات کی تاریخوں میں بھی اس کا استعمال کیا جائے ، کیونکہ بعض اکابر اسے شعار اسلام قرار دیتے ہیں اور شعار کے تحفظ کے لیے اقدام دوسری عبادتوں کی طرح ایک عبادت ہے۔
 ہجری سال کی تعیین سے پہلے، سال کی پہچان کسی بڑے واقعے سے کی جاتی تھی۔ جیسے قبل مسیح ،عام الفیل ، عام ولادت نبوی وغیرہ، یہ سلسلہ حضرت ابو بکر صدیق کے وقت تک جاری تھا ، حضرت عمرفاروق  نے اپنے عہد خلافت میں مجلس شوریٰ میں یہ معاملہ رکھا کہ مسلمانوں کے پاس اپنا ایک کلینڈر ہونا چاہیے۔ چنانچہ مشورہ سے یہ بات طے پائی کہ اسلامی کلینڈر کا آغاز ہجرت کے واقعہ سے ہو، چنانچہ سال کا شمار اسی سال سے کیاجانے لگا، البتہ ہجرت کا واقعہ ربیع الاول میں پیش آیا تھا ،لیکن سال کا آغاز محرم الحرام سے کیا گیا ، کیونکہ یہ سال کا پہلا مہینہ زمانہ جاہلیت میں بھی تھا۔اس طرح اسلامی ہجری سال کا آغاز محرم الحرام سے ہوتا ہے۔
 محرم الحرام ان چا ر مہینوں میں سے ایک ہے ، جس کا زمانہ جاہلیت میں بھی احترام کیا جاتا تھا، اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا کہ مہینوں کا شمار اللہ کے نزدیک بارہ ہیں اور یہ اسی دن سے ہیں، جس دن اللہ رب ا لعزت نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا ، ان میں چار مہینے خاص ادب کے ہیں ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان چار مہینوں کی تفصیل رجب ، ذیقعدہ ، ذی الحجہ اور محرم بیان کی ہے ، پھر حضرت ابو ذر غفاری ؓکی ایک روایت کے مطابق اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سوال کے جواب میں فرمایا کہ تمام مہینوں میں افضل ترین اللہ کا وہ مہینہ ہے جس کو تم محرم کہتے ہو ، یہ روایت سنن کبریٰ کی ہے ، مسلم شریف میں ایک حدیث مذکور ہے کہ رمضان کے بعد سب سے افضل روزے ماہ محرم کے ہیں ، اس ماہ کی اللہ کی جانب نسبت اور اسے اشہر حرم میں شامل کرنا اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اس مہینے کی فضیلت شہادت حسین کی وجہ سے نہیں ، بلکہ بہت پہلے سے ہے۔ 
 اسی مہینے کی دس تاریخ کو یوم عاشوراء کہا جاتا ہے ، رمضان المبارک کے روزے کی فرضیت کے قبل اس دن کا روزہ فرض تھا ، بخاری شریف کی ایک روایت کے مطابق قریش بھی زمانۂ جاہلیت میں عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے، خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس روزہ کا اہتمام فرماتے تھے، یہودیوں کے یہاں اس دن کی خاص اہمیت ہے ، کیوں کہ اسی دن بنی اسرائیل کو فرعون سے نجات ملی تھی، حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ ہجرت کرکے تشریف لے گیے تو یہودیوں کو یوم عاشورا کا روزہ رکھتے دیکھا ، معلوم ہوا کہ یہودی فرعون سے نجات کی خوشی میں یہ روزہ رکھتے ہیں ، آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ہم یہودیوں سے زیادہ اس کے حقدار ہیں کہ روزہ رکھیں ، لیکن اس میں یہودیوں کی مشابہت ہے ، اس لیے فرمایا کہ تم عاشورا کا روزہ رکھو اور یہود کی مخالفت کرو ، اس طرح کہ عاشورا سے پہلے یا بعد ایک روزہ اور رکھو۔ علامہ عینی کے مطابق اسی دن حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی ،حضرت یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ سے اور حضرت یوسف علیہ السلام کنویں سے باہر آئے، حضرت یعقوب علیہ السلام کی بینائی اسی دن واپس ہوئی ، حضرت داؤد علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام دنیا میں تشریف لائے، حضرت ایوب علیہ السلام کو مہلک بیماری سے نجات ہوئی، حضرت سلیمان علیہ السلام کو خصوصی حکومت ملی ، اور ہمارے آقا مولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی دن ’’ غفر لہ ما تقدم من ذنبہ ‘‘کے ذریعہ مغفرت کا پروانہ عطا کیا گیا۔ اس طرح دیکھیں تو یہ سارے واقعات مسرت وخوشی کے ہیں اور اس دن کی عظمت وجلالت کو واضح کرتے ہیں،اس لیے اس مہینے کو منحوس سمجھنا ، اوراس ماہ میں شادی بیاہ سے گریز کرنا نا واقفیت کی دلیل ہے اور حدیث میں ہے کہ بد شگونی کوئی چیز نہیں ہے۔ 
یقینا اس دن حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی اہل خاندان کے ساتھ شہادت تاریخ کا بڑاا لم ناک، کرب ناک اور افسوس ناک واقعہ ہے، جس نے اسلامی تاریخ پر بڑے اثرات ڈالے ہیں، اس کے باوجود ہم اس دن کو بْرا بھلا نہیں کہہ سکتے اور نہ ہی ماتم کر سکتے ہیں، اس لیے کہ ہمارا عقیدہ ہے حضرت حسین  اور ان کے خانوادے اللہ کی راہ میں شہید ہوئے ، حق کی سر بلندی کے لیے شہید ہوئے اور قرآن کریم میں ان حضرات کے بارے میں ارشاد ہے کہ جو اللہ کے راستے میں قتل کردیے گئے انہیں مردہ مت کہو ، بلکہ وہ زندہ ہیں، البتہ تم ان کی زندگی کو سمجھ نہیں سکتے ، قرآن انہیں زندہ قرار دیتا ہے ، اور ظاہر ہے ہمیں تومْردوں پر بھی ماتم کرنے ، گریباں چاک کرنے ، سینہ پیٹنے اور زور زور سے آواز لگا کر رونے سے منع کیا گیاہے، پھر جو زندہ ہیں، ان کے ماتم کی اجازت کس طور دی جا سکتی ہے۔ ایک شاعر نے کہا ہے 
روئیں وہ، جو قائل ہیں ممات شہداء کے ہم زندہ جاوید کا ماتم نہیں کرتے
اس دن حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی یاد میں تعزیے نکالے جاتے ہیں، تعزیہ نکالنے کی اجازت تو شیعوں کو چھوڑ کر کسی کے یہاں نہیں ہے ، پھر جس طرح تعزیہ کے ساتھ نعرے لگائے جاتے ہی یاعلی، یا حسین  یہ تو ان حضرات کے نام کی توہین لگتی ہے ، حضرت علی ، کے نام کے ساتھ کرم اللہ وجہہ اور حضرت حسین کے نام کے ساتھ رضی اللہ عنہ لگانا عظمت صحابہ کا تقاضہ اور داماد رسول اور نواسہ رسول کے احترام کا ایک طریقہ ہے۔ لیکن جلوس میں اس کی پرواہ کس کو ہوتی ہے ، اس طرح ان حضرات کا نام ٹیڑھا میڑھا کرکے لیتے ہیں کہ ہمارے باپ کا نا م اس طرح بگاڑ کرکوئی لے تو جھگڑا رکھا ہوا ہے ، بے غیرتی اور بے حمیتی کی انتہا یہ ہے کہ اسے کار ثواب سمجھا جا رہا ہے ، دیکھا یہ گیا ہے کہ اس موقع سے جلوس کے ساتھ بعض جگہوں پر رقاصائیں رقص کرتی ہوئی چلتی ہیں، عیش ونشاط اور بزم طرب ومسرت کے سارے سامان کے ساتھ حضرت حسین کی شہادت کا غم منایا جاتا ہے، اس موقع سے شریعت کے اصول واحکام کی جتنی دھجیاں اڑائی جا سکتی ہیں، سب کی موجودگی غیروں کے مذاق اڑانے کا سبب بنتی ہے ، اور ہمیں اس کا ذرا بھی احساس وادراک نہیں ہوتا۔
جلوس کے معاملہ میں ہمیں ایک دوسرے طریقہ سے بھی غور کرنے کی ضرورت ہے ، تاریخ کے دریچوں سے دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ حضرت حسین رضی اللہ علیہ کی شہادت کے بعد اس خانوادہ میں بیمار حضرت زین العابدین اور خواتین کے علاوہ کوئی نہیں بچا تھا ،یہ ایک لٹا ہوا قافلہ تھا ، جس پریزیدی افواج نے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے تھے، ان کے پاس جلوس نکالنے کے لیے کچھ بھی نہیں بچا تھا، تیر ،بھالے ، نیزے اورعَلم تو یزیدی افواج کے پاس تھے، حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا سر نیزے پر تھا اوریزیدی بزعم خود اپنی فتح وکامرانی کاجلوس لیکر یزیدکے دربار کی طرف روانہ ہوئے تھے، ہمارے یہاں جلوس میں جو کروفراور شان وشوکت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے ، یہ کس کی نقل کی جا رہی ہے؟ ذرا سوچئے کھلے ذہن سے سوچیے تو معلوم ہوگا کہ ہم کسی اور کی نقل کر رہے ہیں، حسینی قافلہ کی تو اس دن یہ شان تھی ہی نہیں، اس لیے مسلمانوں کو ایسی کسی بھی حرکت سے پر ہیز کرنا چاہیے ، ایسے جلوس میں نہ خود شامل ہوں اور نہ اپنے بچوں کو اس میں جانے کی اجازت دیں۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...