Powered By Blogger

اتوار, اگست 06, 2023

نکالیں سیکڑوں نہریں کہ پانی کچھ تو کم ہوگا مگر پھر بھی مرےدریاکی طغیانی نہیں جا تی انس مسرورانصاری * دارالتحریر* قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن(رجسٹرڈ) اردو بازار، ٹانڈہ۔ امبیڈکر نگر (ہو،پی)

   ۔۔۔۔کڑ و ا شر بت ۔۔۔۔۔۔۔۔ 
      * انس مسرورانصاری
         ایک عالمی سروے کےمطابق گزشتہ پانچ سالوں میں دوسرے مذاہب کے تیرہ کروڑافراد نےمذہب اسلام کوقبول کیا۔ان میں ہرقوم ہرطبقہ ہر فرقہ اور فکر و خیال کےافراد شامل ہیں۔اعلا درجہ کے تعلیم یافتہ افرادکےعلاوہ پسماندہ،ناخواندہ۔آدی واسی حلقہ بگوش اسلام ہورہے ہیں۔اخبارات اور سوشل میڈیا کے مطابق گزشتہ دنوں شہرمرادآباد(یو،پی)میں پچاس دلتوں نے اسلام قبول کرنے کا اعلان کیاجن کوکلمہءطیبہ پڑھتے ہوئے ایک ویڈیو میں دکھایا گیا ہے۔(ایسی خبروں کومیڈیا والےظاہرنہیں کرتے) 
       دنیامیں تیزی کےساتھ اسلام پھیل رہاہے۔ایسا معلوم ہوتا ہےکہ بہت زیادہ عرصہ نہیں گزرےگاکہ اسلام دنیا کا سب سےزیادہ مقبول عام مذہب ہوجائےگا۔اس کی بنیادی وجہ اسلام کی اپنی کشش،اس کا نظام حیات وکائنات اوراس کے دشمنوں کی طرف سے پھیلائی جانےوالی غلط فہمیاں اور نفرت انگیزیاں ہیں۔قرآن کریم کے نسخوں کی بےحرمتی اوراس کوجلانا۔پیغمبراسلام کی شان میں گستاخیاں اورمسلمانوں کے خلاف انتہائی ظالمانہ شرانگیزیاں۔ایسے معاملات ہیں جو صالح ذہن وفکر کےعناصر اورغیرمتعصب،انصاف پسندافرادکو سوچنےپر مجبور کرتے ہیں کہ آخر اسلام میں ایساکیا ہےجس کے خلاف اس قدرشورشرابےاور ہنگامےاٹھائے جارہےہیں۔؟اس مقام پر انھیں اسلام اور پیغمبراسلام کےبارےمیں مطالعہ کی ضرورت پیش آتی ہے۔اورجب حقیقت کاسامنا ہوتا ہےتووہ بےساختہ پکار اٹھتےہیں۔لا الہ الاﷲ محمد الرسول اﷲ۔۔اسلام ایک ایسانظام سیاست و معیشت پیش کرتاہےجس کی کوئی مثال نظرنہیں آتی۔اس پرآشوب زمانہ میں صرف اسلام ہی انسان کےدکھوں اور پریشانیوں کا حل ہے

    وہ دن قریب ہے جب انڈیا میں اسلام اورمسلمانوں کے خلاف منو وادیوں کی ساری نفرت انگیزیاں،شر پسندیاں دھری کی دھری رہ جائیں گی۔ ہندو رہنماؤں کو یورپ سے سبق سیکھناچاہیے۔جہاں اسلام اتنی سرعت سے پھیل رہا ہے کہ اس کے دشمن اورحاسدین بوکھلاکررہ گئیے ہیں۔ان کی عقلیں سلب ہوگئی ہیں۔ یہی حال انڈیا میں ہونے کےآثارمو جود ہیں۔بس مسلمان اپنی بیداری کا ثبوت فراہم کریں اور سارے مسلکی اختلافات کو پس پشت ڈال دیں۔اسلام کو اپنے کرداروعمل سےظاہرکریں۔اس کے سواامن و عافیت کا کوئی اور دوسرا راستہ نہیں۔یہ مسلمانوں کی ذمہ داری بھی ہےاور فرض بھی۔ورنہ وہ خدا ورسول کے مجرم ہوں گے۔خدا کے رسول ﷺ نے یہی کیاتھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کوکردارو عمل کی بنیادپرکھڑاکیا۔عام اعلان حق سےپہلےآپ نے اپنے کردار وعمل سے اسلام کوظاہرکیا۔پھر بعدمیں اعلان حق فرمایااور لوگوں کواس کی دعوت دی۔مسلمانوں کو بھی یہی کرناہوگا۔اسلام کواپنےکرداروعل سے ظاہرکریں۔ 
     جہاں تک مسلم لڑکیوں کےارتدادکامعاملہ ہے،وہ یک طرفہ سچ نہیں ہے۔ سچ یہ ہےکہ یہ ایک ڈرامہ ہےجو مسلمانوں کو ہراساں اور پریشان کرنے کےلیےکھیلاجا رہاہے۔ہندو لڑکیوں کو مسلم لڑکیاں بناکرارتدادکافتنہ اٹھانے والےیہ نہیں جانتے کہ اس کا ردعمل خودانھیں کے خلاف اوراسلام کےلیےموافق وسازگار ہو کررہےگا۔یادرکھئے۔ہرایکشن کاایک ری ایکشن ہے۔ہر عمل کاایک ردعمل ہے۔ 
       آج بےشمار ہندو خواتین نقاب لگاکرمسلم عورتوں کے لباس میں اﷲ اوراس کے رسول کے نام پرمسلم گھروں میں جاکربھیک مانگ رہی ہیں۔میری نظرمیں ایسی درجنوں خواتین ہیں جن کاپیشہ ہی نقاب لگاکر بھیک مانگنا ہے۔
       مانتا ہوں کہ ارتداد کافتنہ موجود ہے۔ لیکن اس کی ذ مہ داری مسلم نوجوانوں پر آتی ہے۔ وہ اگراپنی لالچی اور حریص ذہنیت سے باز آ جائیں تو بازی پلٹ سکتی ہے۔ارتدادکےطوفان کوروکنےکےلیےمعاشرتی اصلاح اور خود اپنی کردار سازی کی ضرورت ہے۔۔مسلم بچیوں کوگمراہ کرنےکےلیےہندوتنظیموں کا لاکھوں روپیہ خرچ کرنا۔نوکری اور فلیٹ کی گارنٹی۔ لیکن افسوس کہ یہ ہندو فرقہ پرست تنظیموں کےغیردانش مند افراد نہیں جانتے کہ وہ کن ہاتھوں کی کٹھ پتلیاں ہیں۔ اپنے سیاسی مقاصد کےلیے مذہب کے نام پر گمراہ کرنے والے ان کے رہنماؤں میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جن کی بیٹیاں،بھتیجیاں اور بہنیں مسلمانوں کے گھروں میں خوش حال ازدواجی زندگی بسر کر رہی ہیں اور ان کے سرپرستوں کو کوئی اعتراض نہیں۔ ہسٹری اٹھاکر دیکھ لیجئے۔مجھے نام لینے کی ضرورت
 نھیں
  موجودہ حالات میں مسلمانوں کےلیے گمراہ کن ہندو شدت پسندوں کی سرگرمیاں ایک بڑی وارننگ اور انتباہ ہیں۔اب مسلمانوں کوبیدارہوجاناچاہئے۔
     آج کتنے ہی ہندو بھائی منتظر ہیں کہ مسلم سماج انھیں قبول کرے تو وہ اسلام قبول کرلیں۔مگر شاید ابھی وہ وقت نہیں آیا۔ 
     ہمارے قصبہ کےکئی ہندو، مسلمان ہوئے۔ ہندو رہنماؤں نے انھیں طرح طرح کےلالچ دیئے۔ ڈرایا،دھمکا یا۔یہاں تک کہ انھیں جیل تک کاٹنی پڑی ۔ قسم قسم کی تکلیفیں اٹھائیں لیکن ہندو دھرم میں واپس نہ گئے۔وہ آج بھی معمولی مزدورہیں۔اس کااجرتو اللہ ہی انھیں دےگاجن مشکل حالات میں وہ اسلام کے دامن سےلپٹےرہے۔ لیکن مسلم سماج نے انھیں قبول نہ کیا۔کوئی مسلم خاندان انھیں اوران کے بچوں کو شادی کےلیےنہ لڑکا دینےکےلیےتیارہےاورنہ لڑکی۔ دور دراز کے علاقوں میں ان کی شادیاں ہوتی ہیں۔ پھربھی وہ اسلام پر قائم ہیں۔ یقینی طور پر وہ ہم سے بہتر مسلمان ہیں۔ہمارا قصبہ مسلم باہلی چھہتر یعنی مسلم اکثریتی علاقہ ہے۔ کپڑے کی صنعت کے لیے بہت مشہور ہے۔ شاید ہی کوئی گلی ایسی ہوجس میں لکھ پتی اور کروڑپتی لوگ آبادنہ ہوں۔ یہ تجارت پیشہ افرادہیں مگران میں کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں جوان (اصل) مومنوں کی معیشت کوبہتربناسکے۔ وہ آج بھی مزدورہیں۔ ان کے بچے بھی مزدوری کرتےہیں۔جس قوم کا یہ حال ہو وہ بھلا کس طرح فلاح پاسکتی ہے۔ 
      مسلمانوں کابکھراہوامسموم معاشرہ کسی نوارد مسلمان کو خود میں ضم کرلینے کی صلاحیت سے محروم ہوچکا ہے۔وہ بھول گیا کہ جس رسول پر اپنی جان فداکرنےکاجھوٹادعوااورپروپیگنڈہ کرتاہے،اسی نبی ﷺ نےباربارفرمایاکہ ۔۔۔ مسلمان، مسلمان کابھائی ہے۔اس کے لیے وہی کچھ پسند کرے جو وہ خود اپنے لیے پسندکرتاہے۔۔۔۔ اسےنقصان نہ پہنچائے۔۔۔۔اس سےخیر خواہی کا معاملہ کرے۔۔۔۔،، 
       اس سے پہلے کہ ہم اقوم عالم کو اسلام کاپیغام دیں،ہمیں خود اس کے پیغام پر عمل کرنا ہوگا۔ہمیں اپنے کردار وعمل سے ثابت کرنا ہوگا کہ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کابھائی ہےاور اپنے بھائی کےلیے وہی کچھ پسند کرتاہے جو وہ خود اپنے لیے پسند کرتاہے۔یہودیوں میں ایک روایت مشہورہےکہ جب فجر کی نماز کےلیے مسجدیں جمعہ کی نماز کی طرح بھرنےلگیں توسمجھ لو کہ یہودیت کا خاتمہ ہوچکا۔اس وقت ساری دنیا پر اسلام اورمسلمانوں کی حکمرانی ہو جائے گی۔،، 
      جس روز ایسا ہو گیا۔ وہ اسلامی انقلاب کاپہلا دن ہوگا۔تب کوئی مرتدنہ ہوگا۔کسی غیر مسلم کو اسلام قبول کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہ ہوگی۔ وہ سب
 
   کچھ چھوڑچھاڑکراسلام کے دامن سے لپٹ جائے گا۔اسے اٹھارہ کروڑ دیوی دیوتاؤں کی ضرورت نہ ہوگی۔ 
     ہمیں مرتد بچیوں کو گالیاں دینےاوربرابھلاکہنےسے پہلے اپنےلالچی،بےغیرت اور حریص بچوں کو گالیاں دیناچاہئیےاوراگرایمانی غیرت ہو تو خوداپنے آپ کو بھی گالیاں دےلیں۔اورخودہی کو برابھلاکہیں۔ 
       مرتد ہوجانے والی بچیوں کی فکر نہ کیجئے بلکہ اپنے بچوں کے لالچ اور ذہنی دیوالیہ پن کی فکرکیجئے۔ اپنی معاشرتی خرابیوں کے تدارک پرنگاہ کیجئے۔اپنی کوتاہیوں کو چھپانےکےلیےکالجوں اور یونیورسٹیوں کوبدنام نہ کیجئے۔۔
       تاریخ بتاتی ہےکہ جب بھی اسلام کےخلاف فتنے کھڑےکیےگئیے،اسےاورزیادہ ترقی اور عروج حاصل ہوا ہے۔#
        اسلام کو فطرت نے کچھ ایسی لچک دی ہے
        جتنا ہی دباؤ گے، ا تنا ہی یہ ا بھر ے گا

     نکالیں سیکڑوں نہریں کہ پانی کچھ تو کم ہوگا
      مگر پھر بھی مرےدریاکی طغیانی نہیں جا تی 
            انس مسرورانصاری
                            * دارالتحریر*
          قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن(رجسٹرڈ) 
         اردو بازار، ٹانڈہ۔ امبیڈکر نگر (ہو،پی)
                   رابطہ/9453347784/

جمعہ, اگست 04, 2023

شادی کا فلسفہ اور مقصد ✍️✍️✍️✍️ مولانامحمد قمر الزماں ندوی

شادی کا فلسفہ اور مقصد 
Urduduniyanews72
✍️✍️✍️✍️ مولانامحمد قمر الزماں ندوی

   معاشرتی زندگی کی بنیاد نکاح ہے،یہ کام شریعت اسلامی میں بہت ہی پسندیدہ اور عند اللّٰہ مستحسن ہے کہ کوئی مسلمان مرد کسی مسلمان عورت سے شریعت کے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق ازدواجی تعلق قائم کرکے اس کے ساتھ اپنی پوری زندگی خوشی خوشی عفت و عصمت اور پاکدامنی کے ساتھ گزارے ۔اسلام میں نکاح جائز ہی نہیں بلکہ مستحسن ہے، اور رہبانیت یعنی بلا شادی زندگی گزارنا مذموم ہے،نکاح تمام نبیوں کی سنت ہے ،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ،،ولقد ارسلنا رسلنا من قبلک و جعلنا لھم ازواجا و ذریتہ ،، (سورہ رعد) اور ہم نے یقینا آپ سے پہلے بہت سے رسول بھیجے اور ہم نے ان کو بیویاں اور بچے دیے،، ۔۔۔
 حضرت ابن عباس رض سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،،پانچ چیزیں انبیاء کرام کی سنتوں میں سے ہیں حیاء،بردباری وتمحل ،حجامت،خوشبو،اور نکاح ۔۔۔مجمع الزوائد باب الحث علی النکاح ۔۔
  صالح اور نیک کار بندوں نے نیک و صالح بیوی اور اولاد کے لیے دعا کی ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ،،ربنا ھب لنا من ازواجنا و ذریاتنا قرت اعین ،،سورہ فرقان ۔۔
اے ہمارے پروردگار ہم کو ہماری بیویوں اور ہماری اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک یعنی راحت عطا فرما ۔۔۔
   شادی شدہ ایک ایسے سکون و اطمینان اور محبت و الفت سے ہمکنار ہوتا ہے، جو کسی اور ذریعہ سے میسر نہیں ہوسکتا ۔۔قرآن مجید میں متعدد آیات میں اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔
   نکاح ایک ایسی دولت اور نعمت ہے بلکہ یہ وہ عبادت ہے، جس کے ذریعہ انسان کو سکون واطمینان اور صحت و عافیت نصیب ہوتی ہے ،اس کے اندر ایثار و قربانی محبت و الفت ،اجتماعی زندگی گزارنے اور مل جل کر رہنے کا جذبہ اور سلیقہ پروان چڑھتا ہے،نکاح کے بے شمار فائدے ہیں ،ایک مومن کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ اس کے ذریعہ اس کا نصف ایمان مکمل ہوجاتا ہے اور ایمان ایسی بیش قیمت دولت ہے جس کا دنیا میں کوئی عوض اور بدلہ نہیں ہوسکتا، اس کا بدلہ خدا کی خوشنودی اور جنت ہے ۔
    نکاح شریعت اسلامی کی نظر میں عبادت بھی ہے اور ایک معاہدہ اور پیکٹ بھی، لیکن بدقسمتی سے اکثر لوگ نکاح کو عبادت نہیں سمجھتے، اس کو محض ایک معاہدہ ،رسم اور پیکٹ سمجھتے ہیں ،جبکہ نکاح عقد اور معاہدہ کے ساتھ ایک اہم  عبادت بھی ہے ،نکاح کی مجلس میں شرکت کرنے والا ،عقد کرانے والا ،گواہ بننے والا ،ایجاب و قبول کرانے والا ،اور اس مسنون اور مبارک مجلس میں شرکت کرنے والے کا مقام نفلی عبادت کرنے والے سے بڑھ کر ہے ۔
   بقول حضرت علی میاں ندوی رح ،، عام عبادت نماز ،روزہ حج اور زکوٰۃ جز وقتی عبادت ہے ،جس وقت یہ عبادت آپ انجام دیتے ہیں اس وقت آپ کو اس کا ثواب ملتا ہے، پھر دوبارہ جب انجام دیں گے تب ملے گا ،لیکن نکاح ایک کل وقتی یعنی پوری زندگی عبادت ہے، اس کے ثواب کا سلسلہ منقطع نہیں ہوتا، کبھی رکتا اور ختم نہیں ہوتا، آخری سانس تک میاں بیوی کو ایک دوسرے کو دیکھنے پر ،ایک دوسرے کی خدمت کرنے پر ،ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے پر ،میاں بیوی کے باہمی حقوق ادا کرنے پر، ایک دوسرے کی ضرورت پوری کرنے پر ملتے رہتا ہے ،اور اجر و ثواب کا یہ سلسلہ شریکین کے درمیان تاحیات جاری رہتا ہے۔۔۔۔
  الغرض نکاح یہ ایک عظیم عبادت اور مضبوط معاہدہ ہے، جو تمام نبیوں کی سنت اور طریقہ ہے، اس کے ذریعہ انسان زنا اور دیگر فواحش و منکرات سے محفوظ ہوجاتا ہے اور مختلف قسم کی برائیوں اور تفکرات و تصورات سے آزاد ہوجاتا ہے،اسی کے ساتھ محبت و الفت سکون واطمینان ،راحت و آرام ایثار و قربانی اور نسل انسانی کی افزائش و فروغ کے وہ نمایاں فوائد ہیں ،جن کا حصول دیگر ذرائع سے ممکن نہیں، اس لیے حکم شریعت ہے کہ جو صاحب استطاعت و وسعت ہوں وہ جلد اس مبارک عمل کو انجام دیں اور اس میں تاخیر سے گریز کریں ۔اس کے ساتھ ہی نکاح کی  حمکت ،مصحلت ،اغراض و مقاصد ،فوائد اور اس کا فلسفہ شریعت میں کیا ہے؟ وہ بھی ہمارے پیش نظر رہے تاکہ اس کی روشنی میں ہم ازدواجی زندگی کو زیادہ سے زیادہ خوشگوار بنا سکیں اور نکاح کے بعد زندگی کے کسی موڑ پر تلخی اور ناخوشگواری پیدا نہ ہوسکے اور محبت و الفت اور رآفت و رحمت کی زندگی ہمیں نصیب ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہم یہاں 
امام الہند مولانا "ابوالکلام آزاد " کا ایک خط نقل کرتے ہیں، جو انہوں نے ایک عزیز کو شادی کے موقع پر لکھا تھا، جس میں شادی کے فلسفہ پر اسلامی نقطہ نظر سے مدبرانہ اور فاضلانہ طور پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ ۔ ۔
ملاحظہ فرمائیں :
عزیزی! تمھارا خط پڑھ کر مجھے خوشی ہوئی،تعلیم کی تکمیل کے بعد اب تمہیں زندگی کی وہ منزل پیش آ گئی ہے جہاں سے انسان کی شخصی ذمہ داریوں کا ایک نیا دور شروع ہوتا ہے یعنی تمھاری شادی ہو رہی ہے میرے لیے ممکن نہیں کہ اس موقع پر شریک ہو سکوں  لیکن یقین کرو کہ میری دل کی دعائیں تمھارے ساتھ ہیں اپنی جگہ اپنی دعائیں تمھارے پاس بھیج رہا ہوں۔
اللہ تعالی اس تقریب کو برکت وسعادت کا موجب بنائے اور تمھاری یہ نئی زندگی ہر اعتبار سے کامیاب ہو۔
میں اس موقع پر تمھیں یاد دلاؤں گا کہ بحثیت مسلمان تمھیں چاہیے۔۔۔ازدواجی زندگی یعنی شادی کی زندگی کا وہ تصور اپنے
سامنے رکھو جو قرآن حکیم نے دنیا کے سامنے پیش کیا ہے
وَ مِنۡ اٰیٰتِہٖۤ  اَنۡ خَلَقَ لَکُمۡ مِّنۡ اَنۡفُسِکُمۡ اَزۡوَاجًا لِّتَسۡکُنُوۡۤا اِلَیۡہَا وَ جَعَلَ بَیۡنَکُمۡ  مَّوَدَّۃً  وَّ رَحۡمَۃً ؕ اِنَّ  فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ  لِّقَوۡمٍ  یَّتَفَکَّرُوۡنَ (21)الروم
خدا کی حکمت کی نشانیوں میں ایک نشانی یہ ہے کہ اس نے تمھارے لیے تم ہی میں سے جوڑے پیدا کر دیے ہیں یعنی مرد کے لیے عورت اور عورت کےلیے مرد لیکن خدا نے ایسا کیوں کیا؟
اس لیے کہ تمھاری زندگی میں تین چیزیں پیدا ہو جائیں جن تین چیزوں کے بغیر تم ایک مطمئن اور خوش حال زندگی حاصل نہیں کر سکتے وہ تین چیزیں یہ ہیں : سکون مودت رحمت لتسکنو الیھا وجعل بینکم مودۃ و رحمۃ ۔
"سکون"عربی زبان میں ٹھراؤ اور جماؤ کو کہتے ہیں مطلب یہ ہوا کہ تمھاری زندگی میں ایسا ٹھراؤ اور جماؤ پیدا ہو جائے کہ زندگی کی پریشانیاں اور بے چینیاں اسے ہلا نہ سکیں۔
"مودت" سے مقصود محبت ہے قرآن کہتا ہے کہ ازدواجی زندگی کی تمام تر بنیاد محبت پر ہے شوہر بیوی سے اور بیوی شوہر سے اس لیے رشتہ جوڑتی ہے  تا کہ ان کی ملی جلی زندگی کی ساری تاریکیاں محبت کی روشنی سے منور ہو جائیں ۔
لیکن محبت کا یہ رشتہ پائیدار نہیں ہو سکتا اگر رحمت کا سورج ہمارے دلوں پر نہ چمکے رحمت سے مراد یہ ہے کہ شوہر اور بیوی نہ صرف ایک دوسرے سے محبت کریں بلکہ ہمیشہ ایک دوسرے کی غلطیاں اور خطائیں بخش دیں  اور ایک دوسرے کی کمزوریاں نظراننداز کرنے کےلیے اپنے دلوں کو تیار رکھیں
"رحمت کا جذبہ خود غرضانہ محبت کو فیاضانہ محبت کی شکل دیتا ہے" ایک خود غرضانہ محبت کرنے والا صرف اپنی ہی ہستی کو سامنے رکھتا ہے لیکن رحیمانہ محبت کرنے والا اپنی ہستی کو بھول جاتا ہے اور دوسرے کی ہستی کو مقدم رکھتا ہے ۔ رحمت ہمیشہ اس سے تقاضا کرے گی کہ دوسرے کی کمزوریوں پر رحم کرے غلطیاں، خطائیں بخش دے ۔ غصہ ، غضب اور انتقام کی پرچھائیاں بھی اپنے دل پر نہ پڑنے دے۔
                  (ابوالکلام آزاد)  

               * دارالتحریر*   

  قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن (رجسٹرڈ) 
ترسیل۔۔۔ انس مسرورانصاری
رابطہ/9453347784/

جمعرات, اگست 03, 2023

مولانا مطلوب الرحمن مکیاوی بڑے عالم اور نامور خطیبِ تھے _مفتی محمد ثناءالہدی قاسمی

مولانا مطلوب الرحمن مکیاوی بڑے عالم اور نامور
Urudduinyanews72
 خطیبِ تھے _مفتی محمد ثناءالہدی قاسمی
   پٹنہ 3 اگست(پریس ریلیز)
   مولانا مطلوب الرحمن مکیاوی کا قریب 3بجے شام پٹنہ کے آیی جی ایم ایس میں انتقال ہو گیا ۔وہ کیی دنوں سے بسلسلہ علاج پٹنہ کے آی جی ایم ایس ہوسپٹل میں داخل تھے۔ان کے انتقال پر ملک کے معروف عالم دین وفاق المدارس الاسلامیہ کے ناظم و رکن آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ حضرت مولانا مفتی محمد ثناءالہدی قاسمی نے گہرے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے نمایندہ سے ٹیلو فونک گفتگو میں فرمایا کہ مولانا مطلوب الرحمٰن مکیا وی بڑے عالم اور مشہور خطیب تھے ۔ایک زمانہ تک درس وتدریس سے وابستہ رہے۔
پھر اپنے ہی گاؤں مکیا میں مدرسہ مصباح العلوم قائم کیا اور مدرسہ کی باگ ڈور خود ہی سنبھالے ہوئے تھے، 
اور پورے ملک میں اپنی تقریروں کے ذریعہ اصلاح معاشرہ کا بڑا کام کیا لوگ ان کی تقریروں کے گرویدہ تھے چار چار گھنٹے مسلسل اور بے تکان بولتے تھے۔اپنی طاقت لسانی سے مجمع کو اس قدر مسحور کر دیتے تھے کہ کوءی اپنی جگہ سے ہلتا نہیں تھا اللّٰہ تعالیٰ نے مولانا مرحوم کو خطابت کا عظیم ملکہ عطا فرمایا تھا مولانا سے آخری ملاقات شعبان میں سیتامرھی کے جلسے میں ہویی تھی۔مفتی محمد ثناءالہدی قاسمی نے مرحوم کے لیے مغفرت اور پسماندگان کے لیے صبر جمیل کی دعا کے ساتھ تعزیت مسنونہ پیش کی ہے۔

پیاری زبان اردو: تعارف وتبصرہ**ڈاکٹر نورالسلام ندوی

*پیاری زبان اردو: تعارف وتبصرہ*
Urudduinyanews72
*ڈاکٹر نورالسلام ندوی*

ہمارے یہاں زمانہ قدیم سے یہ دستور رہا ہے کہ جب بچے پہلے پہل مکتب میں داخل ہوتے ہیں تو اسے اپنی مادری زبان اردو سکھانے کے لیے ”قاعدہ بغدادی“ اور پھر ”اردو کا قاعدہ “تھما دیا جاتا ہے، بلاشبہ یہ کتابیں بڑی مفید ثابت ہوئی ہیں، لیکن اس دور جدید میں جہاں بچے ایک ہی ساتھ اردو، ہندی، انگریزی اور دوسرے سبجکٹ پڑھنا شروع کر دیتے ہیں اور ہندی و انگریزی میں جدید عصری تقاضوں سے ہم آہنگ مختلف رنگوں، شکلوں اور تصویروں سے مزین کتابیں ان کے ہاتھوں میں ہوتی ہیں تو بچوں کا میلان و رجحان ان کی طرف زیادہ ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں انہیں بچوں کے ہاتھ میں جب روایتی انداز کی اردو کی کتابیں پہنچتی ہیں تو ان کے دل و دماغ کو پوری طرح اپیل نہیں کر پاتی ہیں، اسی ضرورت کے پیش نظر بچوں کے رجحان و میلان اور جدید عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کتابوں کی تالیف کا عمل شروع ہو چکا ہے۔زیر تبصرہ کتاب پیاری زبان اردو (تین جلدوں میں) اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
کتاب کے مصنف مولانا حامد حسین ندوی نے اپنے طویل تدریسی تجربات، علمی صلاحیت،ذاتی محنت اور انتہائی غور و فکر کو بروئے کار لاتے ہوئے کتاب کی ترتیب میں ایسے دلچسپ طریقے اختیار کیے ہیں کہ پڑھنے اور سیکھنے کا ابتدائی عمل چھوٹے بچوں کے لیے نہایت ہی آسان ہو جاتا ہے اور بچوں کے دل کے سادہ تختی پر بے غبار حروف کی طرح اترتا چلا جاتا ہے۔
تدریس کا یہ جدید اصول بھی بہت کامیاب رہا ہے کہ تصویروں سے لفظ اور لفظ سے حروف کی پہچان کرائی جائے، موصوف نے اس طریقہ کو اختیار تو ضرور کیا ہے مگر اس میں جدت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے، مثال کے طور پر حصہ اول میں تصاویر کے بجائے حروف کی شکلوں کو نمایاں اور جاذب نظر بنایا گیا ہے تاکہ بچوں کے ذہن پر چیزوں کی تصاویر کے بجائے حروف کی شکل منقش ہو، اسی طرح حروف کے تلفظ کی مناسبت سے تصاویر کا انتخاب کیا گیا ہے۔ جیسے الف سے املی کے بجائے انار، ب(بے) سے بٹن کے بجائے بیلٹ اور ج (جیم) سے جہاز کے بجائے جیپ بلوانے کی مشق کرائی گئی ہے، ترتیب وار حروف تہجی بصورت نظم اور بے ترتیب حروف تہجی کی مشق کراتے ہوئے بغیر نقطے والے حروف، ایک نقطے والے حروف، دو نقطے والے حروف، تین نقطے والے حروف اور ”ط“ کی علامت والے حروف کی شناخت کرائی گئی ہے تاکہ نقطوں کے فرق سے بننے والے حروف کی شناخت واضح اور ذہن نشےں ہوجائے، پھرمرکب حروف کی مشق کرائی گئی ہے۔
دوسرے حصے میں حروف تہجی کو خاص درجہ بندی کے ساتھ سجایا گیا ہے، دو حرفی مشکل الفاظ اور حرکات والے حروف کو بغیر ہجے رواں پڑھانے کی مشق کرائی گئی ہے، پھر مد والے حروف کی شناخت کرائی گئی ہے، جیسے آم، آگ، بتدریج سہل سے مشکل کی طرف سبق کو لے جایا گیا ہے، تاکہ طلباءکو آسانی ہو۔ چھوٹے چھوٹے خوبصورت جملے بچوں کے ذوق اور پسند کے مطابق ہیں، ادب و تہذیب اور اخلاق و عادت پر اچھے اثرات ڈالتے ہیں۔بچوں کے ذوق اور دلچسپی کو برقرار رکھنے کے لئے حروف کے اعتبار سے شعری پیرائے میں ایسے خوبصورت جملےدیئے گئے ہیں جوپڑھنے میں پُر لطف معلوم ہوتے ہیں ۔ مثلاً: ۱ سے انڈا ، ب سے بیل — آؤ پڑھ کر کھیلیں کھیل
پ سے پیڑا ، ت سے تیل—جو نہیں پڑھتے ہوتے فیل
تیسرے حصے میں پیش،جزم، الٹا پیش،تشدید، نون غنہ والے الفاظ کی پہچان کرائی گئی ہے، پھر جملوں کو رواں پڑھانے کی مشق کرائی گئی ہے، اس حصے میں سہ حرفی، چہار حرفی الفاظ اورجملوں کو رواں پڑھانے کی مشق کرائی گئی ہے، جیسے اونٹ عرب کا جہاز ہے، آنکھ کی ٹھنڈک نماز ہے، یہ حصہ 46 صفحات پر مشتمل ہے، اس میں بچوں کے لیے حمد، نعت اور نظمیں ہیں، جو نہایت آسان اور سہل زبان میں ہے، بچوں کو یاد کرنا اوررٹنا آسان ہے،حمد ملاحظہ کیجئے:
کون ہے مالک کون ہے آقا
کون ہے حاکم کون ہے راجا
بولو بچو! اللہ اللہ
کس نے دیے ہیں اماں ابا
کس نے دیا ہے کھانا کپڑا
بولو بچو !اللہ اللہ
کس نے سورج چاند بنایا
کس نے زمین سے غلہ اگایا
بولو بچو !اللہ اللہ
کتاب بچوں کو ذہن میں رکھ کرمرتب کی گئی ہے، اور سکھانےکے لیے مختلف تکنیک کا استعمال کیا گیا ہے۔ تصاویر کی مدد سے حروف کی شناخت،حروف تہجی، نقطوں کی پہچان، مخلوط حروف،حروف کے جوڑ کی شکلیں، اعراب کے ساتھ استعمال ہونے والے حروف، الفاظ، جملے وغیرہ کی مشق کرائی گئی ہے، پہلے تمام حروف کی شناخت کرائی گئی ہے، دو حرفی، سہ حرفی اور چہارحرفی لفظ بتائے گئے ہیں، کوئی حرف شروع میں کیسے آتا ہے، درمیان میں اس کی شکل کیا ہوتی ہے اور آخر میں اس کی صورت و شناخت کیا ہوتی ہے، اس کو خوبصورتی کے ساتھ بتایا گیا ہے۔ تینوں حصوں میں تکرار گرچہ بہت ہے لیکن اس کا ایک فائدہ بچوں کو یہ ہوگا کہ حروف کی شناخت آسانی سے ہو جائے گی۔
اساتذہ کے لیے اردو پڑھانے، حروف تہجی سکھانے اور مشق کرانے کے طریقوں سے متعلق ہدایات نہیں دیے گئے ہیں، جن سے طلبہ و اساتذہ کو پریشانی ہو سکتی ہے۔ کتاب چھوٹے بچوں کے لیے لکھی گئی ہے، لیکن کس عمر کے بچوں کے لیے لکھی گئی ہے، اس کی وضاحت مصنف یا پبلشر کی جانب سے نہیں کی گئی ہے، اسی طرح سن اشاعت بھی درج نہیں ہے۔
مولانا حامد حسین ندوی ایک لانبے عرصے سے بچوں کی تربیت و تدریس کا مشکل کام انجام دے رہے ہیں، بچوں کی نفسیات میلانات، رجحانات اذواق اور مزاج سے خوب واقف ہیں، شاید یہی وجہ ہے کہ ننھے منے بچوں کے لیے یہ ایسی کتابیں تالیف کرتے رہتے ہیں جو بچوں کے ذوق و شوق اور دلچسپی کے مطابق ہوں ساتھ ہی جدید عصری تقاضوں سے ہم آہنگ بھی۔ اس سے قبل ان کی دو کتابیں” نگار قلم“ اور ”نقوش قلم“ (تین جلدوں میں) شائع ہو کر مقبول ہو چکی ہیں، یہ دونوں کتابیں بہار کے کئی اسکولوں کے نصاب میں شامل ہو چکی ہیں۔ موصوف پٹنہ کے مشہور ”الحرا پبلک اسکول“ شریف کالونی، پٹنہ میں تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں، عربی دینیات اور اردو تینوں سبجیکٹ آپ کے ذمہ ہیں۔ ان کا ایک اہم کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے عربی، دینیات اور اردو کے نصاب اور سوالات کے پیٹرن کو دور جدید سے ہم آہنگ کرتے ہوئے نئے انداز میں تیار کیا ہے، صوبہ بہار کی سطح پر خواندگی مہم کے تحت ”آدری“ اور بہار ایجوکیشن پروجیکٹ کے ذریعے تیار کی جانے والی نصابی کتابوں کی ترتیب و پیشکش میں بھی آپ کا اہم رول رہا ہے۔ مختلف ٹیچرس ورکشاپ میں تدریس اور طریقے تدریس پر اظہار خیال کے لیے مدعو کیے جاتے رہے ہیں۔ بہار اردو اکادمی کے زیر اہتمام اردو لرننگ کورس میں داخلہ لینے والے غیر اردوداں افراد کو 15 دنوں میں اردو زبان سکھانے کا کامیاب تجربہ بھی حاصل ہے۔ چنانچہ آپ کی اس خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے بہار اردو اکادمی نے اعزاز و انعام سے سرفراز کیا ہے۔
مولانا حامد حسین ندوی کو اپنی مادری زبان اردو سے جذباتی لگاؤ اور دلچسپی ہے، اس کا بین ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے بچوں کو اردو پڑھانے اور سکھانے کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی ہے۔ وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب کہ اردو زبان سے لوگوں کی دلچسپی افسوسناک حد تک کم ہوتی جا رہی ہے، یہ نہایت جرات مندی اور نیک بختی کا کام ہے، اس کے لیے موصوف بلا شبہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔
”پیاری زبان اردو“کاپہلا حصہ 30 صفحات پر مشتمل ہے، اس کی قیمت 60 روپیہ ہے، دوسرا حصہ 38 صفحات پر مشتمل ہے، اس کی قیمت 120 روپیہ ہے، اور تیسرا حصہ 48 صفحات پر مشتمل ہے اس کی قیمت 210 روپیہ ہے،ملٹی کلر میں کتاب کی طباعت اور پرنٹنگ نہایت معیاری، عمدہ اور خوبصورت ہے۔ کتاب کے ناشر ڈیفوڈل لیسنس پبلکیشنز، نئی دہلی ہیں، پٹنہ، لکھنو، ممبئی اور بنگلور سے کتاب حاصل کی جاسکتی ہے،یا مصنف کے موبائل نمبر 7870396757 پر رابطہ کیا جا سکتا ہے، امید ہے کہ بہار کے مکاتب و مدارس اور اسکول کے ذمہ داران اس کتاب کو کورس میں شامل کر کے مصنف کی حوصلہ افزائی کریں گے۔

*Dr Noorus Salam Nadvi*
Vill+Post Jamalpur
Via Biraul, Dist Darbhanga
Bihar,Pin Code 847203
Mobile NO 9504275151

منگل, اگست 01, 2023

حضرت مولانا محمد ولی رحمانی ؒکی سیاسی زندگی ___✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

حضرت مولانا محمد ولی رحمانی ؒکی سیاسی زندگی  ___
Urudduinyanews72
✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ ورکن آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ ( 9431003131)

امیر شریعت مفکر اسلام مولانا محمد ولی رحمانی ؒ (ولادت 5؍جون 1943ء وفات 3؍اپریل 2021 ء ) امیر شریعت رابع مولانا سید شاہ منت اللہ رحمانی ؒ (1991ء ۔ 1912ء )بن قطب عالم حضرت مولانا محمد علی مونگیری ؒ کی شخصیت ہمہ جہت اور خدمات کے اعتبار سے متنوع تھی ،ان کی خدمات کا بڑا میدان ملی اور سیاسی تھا ،وہ ملی کاموں کو آگے بڑھانے اور مقاصد تک پہونچانے کے لئے سیاست کا سہارا لیتے تھے ،ان کے ہاتھ میں ٹیڑھا میڑھا ڈنڈا ہوتا تھا ،جب سیدھے سے کام نہیں نکلتا تو وہ ٹیرھے میڑھے ڈنڈے کا استعمال کر کے بھی کام نکلوانے کی صلاحیت رکھتے تھے ،رائٹ ٹو ایجو کیشن کے مسئلے پر وہ مرکزی وزیر قانون کپل سبل سے بھڑ گئے تھے ،اور بالآخر کپل سبل کو گھٹنے ٹیکنے پڑے اور مکاتب، گروکل اور پاٹھ شالوں کو اس سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ،اور مسلمانوں کے بنیادی تعلیمی ڈھانچے کا تحفظ ممکن ہو سکا ۔
مولانا محمد ولی رحمانی ؒ کو سیاست اپنے نامور والد سے ورثہ میں ملی تھی ،ان کے والد امیر شریعت رابع انڈپنڈنٹ پارٹی کے ٹکٹ پر کامیاب ہو کر اسمبلی پہونچے تھے ،انگریزوں کے عہد حکومت میں مسلم لیگ اور کانگریس کی رسہ کشی کے درمیان ایک نئی پارٹی سے کھڑے ہو کر اسمبلی پہونچنا معمولی کام نہیں تھا ،مولانا منت اللہ رحمانی ؒ نے اس غیر معمولی کام کو کر دکھایا ،اس زمانہ میں خانقاہ رحمانی مونگیر مجاہدین آزادی کا مرکز بنا ہوا تھا اور ہینڈ بل ،پمفلٹ وغیرہ کی طباعت کے لیے وہاں ایک چھوٹی مشین ہوا کرتی تھی ،سیاسی لوگوں کی مسلسل آمد و رفت کی وجہ سے خانقاہ میں پروان چڑھ رہے اس بچے کے ذہن و دماغ میں بھی سیاسی رنگ جا گزیں ہوتا رہا ،آزادی کے وقت امیر شریعت سابع کی عمر صرف چار سال تھی ،یہ عمر شعور کی نہیں ہوتی ،لیکن اللہ رب العزت نے جو ہمیں حواس خمسہ ظاہرہ اور حواس خمسہ باطنہ دیا ہے وہ کسی بھی عمر میں ماحول کے اثرات کو قبول کرنے کی پوزیشن میں ہوتا ہے ،آزادی کے بعد بھی نقل مکانی اور قتل و غارت گری کا جو سلسلہ شروع ہوا ،اس نے اس بچے کے ذہن و شعور کو متأثر کیا ،اوراس نے اپنے والد کی سیاسی جد و جہد اور ملی مسائل کے لئے ان کے طریقۂ کار کو قریب سے سمجھا ،دیکھا اور سیکھا ،مولانا نے محسوس کیا کہ جمہوری ملک میں باعزت زندگی گزارنے کا طریقہ سیاست کی گلیاروں سے ہو کر گذرتا ہے ،وہاں رہ کر اپنے اثر و رسوخ سے ملت کے بہت سارے مسائل حل ہو سکتے ہیں اور حل کئے جا سکتے ہیں،چنانچہ سیاسی میدان میں اپنے قدم جمانے کے لئے وہ کانگریس پارٹی سے منسلک ہو گئے اور اس پلیٹ فارم سے پوری حساسیت اور سیاسی شعور کے ساتھ کام کرنے لگے ،سیاست میں مضبوط حصہ داری اور سرگرم رہنے کی وجہ سے کانگریس کے لیڈران ان کی بڑی قدر کرتے تھے ۔
ایمرجنسی کے رست و خیز سے پہلے 2؍جولائی 1973 ء کو عبدالغفور صاحب کانگریس پارٹی کی طرف سے بہار کے وزیر اعلیٰ بنے،ان کی نگاہ اس بانکے سجیلے جوان پر ٹک گئی ،جس نے سیاست کی خار دار وادیوں میں اپنی ایک شناخت بنا لی تھی ،انہوں نے گورنر کوٹے سے امیر شریعت سابع ؒ کو پہلی بار ودھان پریشد پہونچا دیا ، رام چندر دھون دیبا بھنڈارے 4؍فروری 1973 ء کو بہار کے آٹھویں گورنر بن کر آئے تھے ،انہوں نے وزیر اعلیٰ کی سفارش کو قبول کر لیا ،اور مولانا کو 8؍ مئی 1974ء کوایم ال سی نامزد کر دیا ، اس کے بعد بہار کی سیاست میں بھونچال آیا ،ایمرجنسی کے اثرات پڑے ،1977 ء کے انتخاب میں مرکز میں اندرا گاندھی کی حکومت ختم ہوئی ، راج نرائن نے انہیں رائے بریلی سے شکست فاش دی ،جے پرکاش نرائن کنگ میکر بنے،بہار کی عبدالغفور حکومت بھی جے پی اندولن کی بھینٹ چڑھ گئی ،مرکزی حکومت نے صدر راج لگا دیا ،یہ سب ہوتا رہا ،لیکن مولانا نے 6؍مئی 1980ء تک اپنی میقات مکمل کر لی ،اس دوران آپ نے مختلف برسوں میں وزیر اعلیٰ کے طور پرجگن ناتھ مشرا کے دو میقات کو دیکھا ،1977ء کے انتخاب میں جنتا پارٹی برسر اقتدار آئی تو کرپوری ٹھاکر اور ان کے بعد رام سندر داس نے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی ،آپ کا تعلق چونکہ کانگریس پارٹی سے تھا ،بلکہ کہنا چاہئے کہ جب کانگریس تقسیم ہوئی اور اندرا گاندھی کی قیادت والی پارٹی کو کانگریس آئی کا نام دیا گیا تو مولانا محمد ولی رحمانی صاحب کانگریس آئی خیمے میں چلے گئے ،جگن ناتھ مشرا کے وزیر اعلیٰ کی تیسری میقات 14؍اگست 1983ء کو ختم ہوئی ،اور چندر شیکھر سنگھ جو خود بھی ایم ایل سی رہے تھے ،وزیر اعلیٰ کی کرسی پر 14؍اگست 1983ء کو قابض ہوئے تو انہوں نے دوسری بار مولانامحمد ولی رحمانی کو باضابطہ انتخاب کے ذریعے ودھان پریشد تک پہونچا یا ،یہ میقات 6؍مئی 1990ء کو اختتام پذیر ہوئی ،اور 7؍مئی 1990ء کو آپ سہ بارہ ایم ایل سی چن لئے گئے ،اور 6؍مئی 1996ء تک ایم ایل سی رہے ،اس پوری مدت میں آپ نے کئی وزراء اعلی کا دور دیکھا،چندر شیکھر کے بعد علی الترتیب بندیشوری دوبے ،بھگوت جھا آزاد ،ستندر نرائن سنگھ ،جگن ناتھ مشرا اور لالو پرشاد یادو کے دس سالہ دور اقتدارمیں سیاسی اقدار کو بدلتے دیکھا ،لالو پرشاد یادو 10؍مارچ1990ء کو وزیر اعلیٰ بنے تھے،اور دوسری میقات میں 25؍جولائی 1997ء تک بر سر اقتدار رہے ،اس کے بعد وزیر اعلیٰ کی کرسی لالو پرشاد یادو کے آنگن میں چلی گئی اور رابری دیوی وزیر اعلیٰ بنیں ،یہیں سے سیاست میں لالو ازم کا دور شروع ہوا ،جس کا مطلب یہ ہے کہ کرسی تو بیوی کے پاس ہوتی ہے ،استعمال اس کاشوہر کرتا ہے ،لالو ازم کی وجہ سے ہی بیوی مکھیا ،میئر ،ڈپٹی میئر ،سرپنچ وغیرہ ہوتی ہے اور سارا کام اس کا شوہر کرتا ہے،بلکہ سماج میں بیوی کو کم شوہر کو اس منصب کے حوالہ سے زیادہ جانا جاتا ہے ،کیوں کہ بیوی تو نام کی ہوتی ہے ،خواتین کے لئے محفوظ سیٹوں کی مجبوری ہوتی ہے ،جیت کر تو وہ شوہر کے بل پر ہی آتی ہے ۔اس لئے کرسی آنگن میں ہوتی ہے ،اور اقتدار سارا دروازہ پر شوہر کی شکل میں ہوا کرتا ہے ۔
مولانامحمد ولی رحمانی کے ایم ایل سی کی مدت لالو پرشاد کے وزیر اعلیٰ رہتے ہوئے ختم ہو گئی ،اس کے بعد سے کانگریس برسراقتدار نہیں آئی اور مولانا اس کے بعد ایم ایل سی نہیں منتخب ہوئے ،اپنے ایم ایل سی کے عہد میں دو مرتبہ انہیں ودھان پریشد کے نائب صدر (ڈپٹی چیئرمین) بننے کا بھی موقع ملا،لیکن یہ انتہائی قلیل مدت کے لئے تھا ،پہلی بار وہ 29 ؍ جنوری سے 30؍جولائی 1985ء تک صرف چھ ماہ اور دوسری بار 23؍جنوری 1990ء سے 6؍مئی 1990ء تک تین ماہ سے کچھ زیادہ دن تک ودھان پریشد کے نائب صدر کی حیثیت سے کام کیا ۔
ایم ایل سی کی تیسری میقات ختم ہونے کے بعد مولانا محمد ولی رحمانی صاحب نے اپنے کو سرگرم عملی سیاست سے دور کر لیا،لیکن ایک طویل عرصہ تک سرگرم سیاسی زندگی میں انہوں نے بہت سارے اتار چڑھاؤ دیکھے ،خود بھی نشیب و فراز سے گزرے ،اس کی وجہ سے ان کی پکڑ سیاست دانوں پر آخر تک باقی رہی ،وہ ایک ماہر سیاست داں کی طرح جانتے تھے کہ سیاسی بساط پر کس ’’مہرے ‘‘کو کیسے پیٹاجاتا ہے ،اور کس طرح مہرے سے بساط پر’’ شاہ‘‘ کو اس طرح گھیرا جا سکتا ہے کہ ’’بادشاہ‘‘ کے’’ شہ‘‘ سے نکلنے والے ارد گرد کے تمام قریبی خانے مخالف مہروں کی زد پر ہوں اور کوئی صورت ’’بادشاہ‘‘ کے لئے ’’شہ ‘‘سے نکلنے کی باقی نہ رہے تو’’ بادشاہ‘‘ کی’’ شہ‘‘ مات ہو جائے گی ،انہیں خوب معلوم تھا کہ’’ بادشاہ‘‘ کو براہ راست نہیں ماراجا سکتا ،انہیں بساط کے سارے سولہ مہروں ایک بادشاہ ،ایک وزیر ،دو فیلے،دو گھوڑے ،دو رخ اور پیادوں کا استعمال خوب آتا تھا ،کس ’’پیادے‘‘ کو کب کس کام پر لگا دینا ہے اور اس سے کیا نتیجہ بر آمد ہوگا وہ اپنی سیاسی بصیرت سے تاڑ لیتے تھے اور اس کا استعمال وہ بڑی فن کاری کے ساتھ کیا کرتے تھے اور کبھی ناکام نہیں ہوتے تھے ،بلکہ کبھی کبھی تو وہ بعض مہرے کو اس طرح استعمال کر لیتے تھے کہ ’’بادشاہ‘‘  ’’وزیر‘‘ سے مات کھا جاتا تھا ،اور ’’پیدل‘‘ ’’ فیل‘‘ کو رگڑ دیا کرتا تھا ،یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی ،فلسفہ کی زبان میں کہیں توکہنا چاہیے کہ وہ ’’سیاست مدن‘‘ کے جملہ اقسام اور اس کے طریقہ ٔ کار سے واقف تھے ،اور موقع دیکھ کر سیاسی ؛بلکہ غیر سیاسی معاملات میں بھی اس کا استعمال فنی مہارت کے ساتھ کیا کرتے تھے،اس مہارت کی وجہ سے غیر سیاسی میدان میں بھی ان کی عظمت کا ڈنکا بجتا تھا اور ماہر سیاست داں بھی ان سے مشورے لیا کرتے تھے ۔ وہ بے باک اور جری تھے ،سیاسی اور ملی مسائل ومعاملات پر جس جرأ ت اظہار کے وہ مالک تھے وہ خالص سیاسی لوگوں میں تو مفقود ہے ہی ،دوسرے شعبۂ حیات سے منسلک لوگوں میں بھی اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی ،انہوں نے بابری مسجد انہدام کے بعد برپا ہونے والے فساد پر ایک انٹرویو میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ممبئی بم دھماکہ نے فساد کی اس نئی لہر کو قابو میں کیا ،ان سے جب پوچھا گیا کہ کیا اس میں پاکستان کا ہاتھ ہے تو فرمایا کہ’’ اگرہم 1971ء میں مشرقی پاکستان میں کاروائی کر سکتے ہیں تو یہ ناممکن نہیں کہ ممبئی حادثہ میں پاکستان کا ہاتھ ہو،دوسروں کے گھروں میں تاک جھانک کرنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کے آنگن پر بھی نگاہ جمائی جا سکتی ہے ‘‘۔
ان کے جرأت اظہار کا ایک واقعہ وہ بھی ہے ،جب انہوں نے 23؍نومبر 2012ء کو مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ پٹنہ کے صدسالہ اجلاس میں وزیر اعلیٰ بہار کو کھری کھری سنائی تھی اور وزیر اعلیٰ منہ دیکھتے رہ گئے تھے ،اس بے باکی کا چرچا کافی عرصے تک سیاسی گلیاروں میں رہا،وزیر اعلیٰ کو مدرسہ شمس الہدیٰ کے لئے اس موقع سے جن ترقیاتی منصوبوں کا اعلان کرنے والے تھے،اس سے باز رہے اور خبر گرم تھی کہ مولانا محمد قاسم بھاگلپوری رحمۃ اللہ علیہ کو جو ان دنوں مدرسہ کے پرنسپل تھے ،سبکدوشی کے بعد دو سال کی مزید مدت کار فراہم کرائی جائے گی وہ بھی نہیں ہوا۔
بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی ؛بلکہ 15؍ اپریل 2018ء کو تاریخی ’’دین بچاؤ دیش بچاؤ ‘‘کانفرنس بھی حضرت رحمہ اللہ کی زیر صدارت ہوا ،وزیر اعلیٰ نے اس کانفرنس کے اثرات کو سبوتاز کر نے کا کام کیا، جتنی بڑی بھیڑ جمع ہوئی تھی اور جو پیغام مسلمانوں کو دیا گیا تھا اس پر شکوک و شبہات کی ایسی لکیر وزیر اعلیٰ نے کھینچی جس کو مٹانے کی کوئی صورت باقی نہیں رہی اور جس کی تلافی لاکھ وضاحت کے بعد بھی نہیں ہو سکی ۔
بھاجپا کی گونگی ،بہری سرکار میں بھی مولانا نے ملی مسائل کو حل کرانے کے لئے بڑی جد و جہد کی ،امارت شرعیہ ،مسلم پرسنل لا بورڈاور خانقاہ رحمانی( جس کے وہ علی الترتیب امیر شریعت ،جنرل سکریٹری اور سجادہ نشین تھے) کی افرادی قوت کو بھی کام پر لگایا ،سی اے اے ،این آر سی کے مسئلے کو پہلے سے بھانپ لیا ،تین طلاق کے لئے خواتین کو سڑکوں پر لائے اور دستخطی مہم چلوائی،بابری مسجد مقدمہ کی کامیاب پیروی میں لگے رہے ،لیکن تقدیر کا لکھا پورا ہوا ، سی اے اے ،این آر سی قانون بن گیا،اب اس کے لئے ضابطہ بنانے کی مدت میں تیسری بار توسیع ہوئی ہے ،تین طلاق کو عدالت نے غیر قانونی اور قابل سزا جرم سقرار دے دیا اور بابری مسجد سارے دلائل حق میں ہونے کے باوجود ہاتھ سے نکل گئی اور وہ جو شاعر نے کہا ہے نا   ؎
بدلتی ہے جب ظالم کی نیت 
نہیں کام آتی دلیل اور حجت
وہی ہوا ،اس طرح مولانا کی آخری زندگی متواتر ان المناک حادثوں کی وجہ سے انتہائی بے چینی اور کرب میں گزری ،بے چینی ملت کی پریشانی اور کرب آنے والے ہندوستان کے نئے خد و خال کی وجہ سے تھی ،جس میں ہندتوا آگے بڑھتا جا رہا تھا،مسلمانوں کا موب لنچنگ ہو رہا تھا اور کوئی طریقۂ کار سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ سیاسی گلیاروں سے اٹھ رہے اس طوفان بلاخیز کو کس طرح روکا جا ئے ،صحیح اور سچی بات یہ ہے کہ مولانا دل کے مریض تھے ،اس کے باوجود ۔ع
 مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا

اتوار, جولائی 30, 2023

UCC: یکساں سول کوڈ پر ملے ایک کروڑ سے زیادہ تجاویز، وزیر قانون نے کہا-'اے آئی سے کی جائے گی چھٹنی'

UCC: یکساں سول کوڈ پر ملے ایک کروڑ سے زیادہ تجاویز، وزیر قانون نے کہا-'اے آئی سے کی جائے گی چھٹنی'

Urudduinyanews72

22ویں لاء کمیشن کو یکساں سول کوڈ (یو سی سی) پر ایک کروڑ سے زیادہ تجاویز موصول ہوئی ہیں۔ ریاستی وزیر قانون ارجن رام میگھوال نے ہفتہ کو کہا کہ آخری دن تک کمیشن کو یو سی سی پر ایک کروڑ سے زیادہ تجاویز موصول ہوئی ہیں۔ کمیشن اب ان تجاویز کا مطالعہ کرے گا جس کے بعد اگلا قدم اٹھایا جائے گا۔ میگھوال نے کہا، حکومت ملک کے ہر شخص کی تجویز کو سننے کے لیے تیار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تجاویز قبول کرنے کی معیاد کو اسی وجہ سے 28 جولائی تک بڑھایا گیا تھا۔ حالانکہ، اب کمیشن اسے اور آگے نہیں بڑھانا چاہتا ہے۔ شروعات میں تجاویز دینے کی آخری تاریخ 14 جولائی رکھی گی تھی، لیکن، لوگوں کا زبردست ردعمل دیکھتے ہوئے اسے 28 جولائی تک بڑھایا گیا ہے۔ 277 رپورٹ کمیشن نے دیں حکومت ہند کے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے قانون کمیشن کی تشکیل کی گئی ہے تاکہ ایک مقررہ حوالہ مدت کے ساتھ قانون کے شعبے میں تحقیق کی جاسکے۔ اپنے ٹرمز آف ریفرنس کے مطابق کمیشن حکومت کو سفارشات (رپورٹ کی شکل میں) دیتا ہے۔ کمیشن نے قانونی امور کے محکمے، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے حوالے سے مختلف موضوعات پر غور کیا اور 277 رپورٹیں پیش کیں۔ یہ ملک کے قوانین کا فکر انگیز اور تنقیدی جائزہ فراہم کرتا ہے۔

تخلیقی تجاویز پر کریں گے غور

ایک اندازے کے مطابق، سب سے زیادہ تجاویز مسلمانوں کی طرف سے یو سی سی کو نہیں لانے کو لے کر دئیے گئے ہیں۔ حالانکہ، ایسے تجاویز کو آرٹیفیشل انتلیجنس (اے آئی) کی مدد سے چھانٹ کر الگ کردیا جائے گا اور تخلیقی تجاویز پر غور کیا جائے گا۔ موضوع کی مطابقت اور اہمیت کو دیکھتے ہوئے اور عدالت کے احکامات کو مدنظر رکھتے ہوئے 22ویں لاء کمیشن نے اس پر نئے سرے سے غور کرنا مناسب سمجھا ہے۔

ہفتہ, جولائی 29, 2023

جواہر نوودیہ ودیالیہ كی چھٹویں جماعت میں داخلے كے لیے فارم بھرنا شروع ہو چکا ہے ۔

جواہر نوودیہ ودیالیہ كی چھٹویں جماعت میں داخلے كے لیے فارم بھرنا شروع ہو چکا ہے ۔
اردودنیانیوز۷۲ 
فارم بھرنےکی آخری تاریخ 10؍اگست 2023 ہے۔
آپ جانتے ہوں گے كہ یہ بھارت كے ٹاپ موسٹ گورنمنٹ ریذیڈینشل اسکولز میں سے ایک ہے۔
اس کی برانچ ہر ضلعے میں ہوتی ہے۔ اِس اسکول میں چھٹویں جماعت تا 12ویں جماعت تک ایجوکیشن بالکل فری ہے۔
نوودیہ ودیالیہ کے الومنائی کی تعداد 17‬لاکھ سے زیادہ ہے، ایک اندازے كے مطابق آج تک 2500 ؍سیول سروینٹ سینٹرز میں اور 10،000 ؍سے زیادہ اسٹیٹ گورنمنٹ میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
ایڈمیشن ٹیسٹ پانچویں جماعت كے طلبہ دے سکتے ہیں، یہ ٹیسٹ 22 لینگویجز میں ہوتا ہے، جس میں اردو بھی شامل ہے۔
افسوس کی بات یہ ہے كہ اردو اسکول كے اسٹوڈنٹ اِس امتحان میں نہیں بیٹھتے۔ 
ہیڈ ماسٹرس، ٹیچرز ؛ اسٹوڈنٹس اور ان کے پیر ینٹس کو اِس اسکول كے فائدے معلوم ہونا چاہیے۔ جب كہ اِس اسکول میں پڑھنے كے بہت فائدے ہیں۔ ان اسکولز میں لڑکیوں کا الگ انتظام ہوتا ہے۔ یہ بچیوں كے لیے کافی محفوظ اسکول ہے۔ دیہات كے بچوں كے لیے یہ اسکول بہت شاندار ہے۔
ان اسکولز میں ایڈمیشن كے لیے اسکولز ، پیرینٹس، این جی او، مختلف جماعتیں ، اسٹوڈنٹ آرْگْنائِیزیشن، سوشل ایکٹیوسٹ ، امامِ مساجد اور پولیٹیکل لوگوں کا دلچسپی لینا ضروری ہے۔ ہرکوئی اپنے نام سے سوشل میڈیا میں اِس اسکول میں داخلہ فارم بھرنے کی اپیل کرے۔ جیسے ہَم لوگ عید کی مبارک باد دیتے ہیں۔
ہر اردو اسکول میں تیسری جماعت سے اِس امتحان کی تیاری کرائی جائے۔ جیسا کہ دوسرے میڈیم كے اسکولز کرتے ہیں۔
اردو ٹیچرز ایسوسی ایشن اور تعلیمی بیداری مہم اِس میں بہت بڑا رول ادا کر سکتی ہیں۔ ہماری ان سے درخواست ہے كہ وہ اپنی طرف سے اپیل جاری کریں۔
اِس امتحان کی کوئی فیس نہیں ہوتی ہے ، فارم آن لائن بھرا جاتاہے۔
ہر ذمے دار شخص سے درخواست ہے كہ آنے والے 15 ؍دنوں تک اِس كے اشتہار کو اپنے اسٹیٹس پر رکھیں۔
5ویں کلاس کے ہر والدین، ٹیچرز اور ہیڈماسٹرس سے گزارش ہے کہ خود خصوصی دلچسپی لےکر اِس امتحان میں بچوں کو ضرور بیٹھائیں۔ اِس میسیج کو پورے ملک میں فارورڈ کریں۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...