Powered By Blogger

جمعرات, ستمبر 07, 2023

سی بی آئی کے التوا شدہ مقدمات

سی بی آئی کے التوا شدہ مقدمات
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
سنٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (CBI) ملک کا باوقار ادارہ سمجھاجاتارہاہے، اس کا کام جرائم اوربدعنوانی کی تحقیق اور ملزمین کے خلاف مقدمات کرکے اسے سزا دلانا ہے، اس کی اپنی عدالت ہے، پہلے وہاں سے فیصلہ ہوتا ہے اور پھر ہندوستان کی مروجہ عدالت میں نچلی سطح سے اوپر تک اس کے خلاف اپیل کی جاسکتی ہے، سی بی آئی بھی عدالت کے فیصلے کو اوپری عدالت میں چیلنج کرسکتی ہے اور کرتی رہی ہے، حال ہی میں آپ نے سنا ہوگا کہ سی بی آئی، لالو جی کی ضمانت رد کرانے کے لئے سپریم کورٹ گئی ہے۔
سی بی آئی کی تحقیق اور عدالت میں مقدمات کے حوالہ سے سنٹرل ویجی لینس کمیشن (CVC) کی رپورٹ کے مطابق سی بی آئی کے ذریعہ بدعنوانی کے 6841مقدمات ملک کی مختلف عدالتوں میں زیر غور ہیں، تفصیلات کے مطابق 313مقدمات 20سال، 2039مقدمات 15سال، 2324مقدمات 5سے 10سال اور 842سے زیادہ مقدمات 3سے 5سال سے عدالتوں میں زیر التوا ہیں یہ رپورٹ 31دسمبر 2022ء تک کی ہے۔ اس کے علاوہ ملک کی مختلف عدالتوں میں فیصلہ پر نظرثانی اور اپیلیں اس کے علاوہ ہیں۔ 12408 مقدمات وہ ہیں جو ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ میں نظرثانی کی منتظر ہیں، ایسے مقدمات کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ 417وہ مقدمات ہیں جو 20سال سے زائد سے زیر التوا ہیں، 688اپیلیں نظرثانی کی پندرہ سالوں سے منتظر ہیں، 2314معاملات10سال، 4005مقدمات پانچ سے دس سال اور 2881مقدمات دو سے پانچ سال اور 2103مقدمات دوسال سے کم عرصہ سے نظرثانی کی فہرست میں ہیں، ساٹھ معاملات وہ ہیں، جن کی گزشتہ تین سالوں سے اب تک جانچ بھی شروع نہیں ہوسکی ہے، جو مقدمات زیر التوا ہیں ان میں گروپ اے کے افسران کے خلاف 52اور گروپ بی اور سی کے انیس(19) مقدمات کی تحقیقات التواء میں ہیں۔ 2022ء میں سی بی آئی نے جو مقدمات درج کیے ان کی تعداد 946ہے، جن میں 829عام اور 117 ابتدائی جانچ سے متعلق ہے، ان میں سے 30مقدمات ریاستی حکومتوں کے اور 107مقدمات مختلف عدالتوں کے فیصلے کے نتیجے میں سی بی آئی کے پاس آئے ہیں۔ 
ان اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے یہاں جرائم کی تحقیق اور سزا دلانے کا عمل کس قدر سست ہے، کہا جاتا ہے کہ انصاف میں تاخیر کا عمل خود بے انصافی ہے۔ یقینا اس سست رفتاری کی ایک بڑی وجہ سی بی آئی کے پاس کام کا زیادہ بوجھ اور عملے کی کمی ہے، یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے، جس کو دور نہیں کیا جاسکتاہے۔ اپنے مخالفین کو غلط طور پر پریشان کرنا اگر حکمراں طبقہ چھوڑ دے تو کام کا بوجھ سی بی آئی پر کم ہوجائے گا اور عملے کی تعداد بڑھاکر کام میں تیزی لائی جاسکتی ہے۔ اس سے مجرمین کو سزا بھی جلد ملے گی اور سی بی آئی کی کارکردگی پر مختلف موقعوں سے جو سوالات اٹھتے رہے ہیں اس میں کمی بھی آئے گی۔

بدھ, ستمبر 06, 2023

یک طرفہ بلڈوزر کاروائی___
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
 ہریانہ کے نوح میں شوبھا یاترا کے دوران ہوئے پر تشدد واقعات اور فرقہ وارانہ فسادات نے ریاست کے لا اینڈ آرڈر کی چولیں ہلا کر رکھ دیں، اس سے زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ اس واقعہ کے بعد وہاں کی بی جے پی سرکار اپنی ناکامی پر پردہ ڈالنے کے لئے یک طرفہ طور پر کاروائی کرتے ہوئے بلڈوزر کے ذریعہ بے قصور لوگوں اور غریب مسلمانوں کے بیشتر مکانات، دوکانوں اور کاروباری اداروں کو منہدم کرنا شروع کر دیا، اور دلیل یہ دی گئی کہ یہ انہدامی کاروائی نا جائز تعمیرات کی بنیاد پر کی جا رہی ہے، آخر حکومت اتنے دنوں سے کیا کر رہی تھی کہ برسوں سے آباد آشیانے کو اب اجاڑ نے کے لئے کمربستہ ہو گئی، ہاں جب پانی سر سے اونچا ہو گیا  اور شاہ راہ کے قریب واقع سینکڑوں دکانوں اور مکانوں کو زمیں بوس کر دیا گیاتو پنجاب ہریانہ ہائی کورٹ نے اس معاملہ پر از خود نوٹس لیتے ہوئے توڑ پھوڑ کی کاروائی پر روک لگادی اور حکومت سے اب تک منہدم کئے گئے مکانات ودوکانوں کی فہرست طلب کی مگر یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا جن لوگوں کے مکانات گرائے گئے، حکومت اس کی از سر نو تعمیر کرائے گی یا اس کا معقول معاوضہ دے گی، یا یوپی اور مدھیہ پردیش کی حکومتوں کی طرح عدالتی پھٹکار سن کر خاموش ہو جائے گی، کیونکہ ہریانہ کی کھٹر سرکار نے جو انہدامی کاروائی کی ہے اس میں ایسے لوگوں کے بھی مکانات ہیں جن کا اس واقعہ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، فلہراگاؤں جو جنگل میں پہاڑوں کے دامن میں واقع ہے، وہاں کے غریب مسلمانوں کی پوری بستی کو اجاڑ دیا، جہاں کے لوگوں نے تنکا تنکا جمع کرکے آشیانہ تیار کیا تھا، یک لخت بلڈوزر نے سب کو کنکڑ، پتھر اور ملبے میں تبدیل کردیا، انہیں حالات کے پس منظر میں مشور شاعر بشیر بدر نے کہا تھا کہ
لوگ ٹوٹ جاتے ہیں ایک گھر بنانے میں
تم ترس نہیں کھاتے بستیاں جلانے میں
ہر دھڑکتے پتھر کو لوگ دل سمجھتے ہیں
عمریں بیت جاتی ہیں دل کو دل بنانے میں
افسوس اس بات پر بھی ہے کہ اتنے بڑے اقدام سے پہلے حکومت کسی کو نوٹس تک جاری نہیں کرتی، بلکہ اس کو جہاں جہاں مسلم آبادی نظر آئی اجاڑ تی چلی گئی اور بے قصوروں کو مجرم بتا کر دھڑ پکڑ کرتی رہی ہے، جس کی وجہ سے مسلمان خوف ودہشت کے ماحول میں زندگی گزار رہے ہیں اور جہاں تہاں پناہ لینے پر مجبور ہیں، دوسری طرف اس فساد کے کلیدی مجرم شر پسند بلا روک ٹوک کے دندناتے پھر رہے ہیں، بلکہ انتظامیہ اور پولیس کی موجودگی میں مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیزی اورنعرے بازی کرتے نظر آ رہے ہیں، انصاف کے اس دوہرے پیمانے نے ملک کے عوام کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ نفرت کی سیاست کرنے اور مذہب کا استحصال کرنے والوں نے ملک کو کہاں پہونچا دیا ہے، اگر ملک کا سنجیدہ اور امن پسند طبقہ اس کے خلاف آواز بلند نہیں کرتا تو نفرت کی آگ اور اس کی چنگاری سے کسی کا گھر محفوظ نہیں رہے گا، کیوں کہ یہ سب کچھ 2024ء کے عام انتخابات کے لئے ریہرسل کیا جا رہا ہے، اس کے لئے ہوشیار رہئے، بیدار رہئے اور نفرت کی سیاست کرنے والوں کو کیفر کردار تک پہونچانے کی سعی مسلسل کیجئے۔

منگل, ستمبر 05, 2023

تسمیہ جونیئر ہائی اسکول میں یوم اساتذہ منایا گیا
Urduduniyanews72 
 ہندوستان میں ہر سال ۵ ستمبر کو یوم اساتذہ منایا جاتا ہے یہ ملک کے پہلے نائب صدر ڈاکٹر رادھا کرشنن کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ اس مو موقع پر تسمیہ جو نئیر ہائی اسکول میں بھی ڈاکٹر رادھا کرشنن کا یوم پیدائش دھوم دھام سے منایا گیا سبھی طالب علموں نے رنگا رنگ پروگرام پیش کیئے ۔ پروگرام کی شروعات سورہ فاتحہ کی تلاوت سے کی گئی۔ درجہ کی سائرہ اور حمیرہ نے ڈاکٹر رادھا کرشنن کی زندگی پر روشنی ڈالی، درجہ کی نویا اور شفاہ نے ڈاکٹر سرد پلی رادھا کرشنن کی زندگی پر روشنی ڈالی اور انکے کاموں کو سراہا، درجہ ۵ کی عالیہ اور عائشہ نے بھی ڈاکٹر رادھا کرشنن کے بارے میں سبھی طالب علموں کو آگاہ کرایا اسکے بعد درجہ کی نبیہ ذکر امنتشا، اقراہ عافیہ نے ایک گانا پیش کیا اور کبھی ٹیچرس کو مبارک بادی آخر میں پرنسپل صاحب نے سبھی کا شکریہ داد کیا اور بھی ٹیچرس کو یوم اساتذہ کی مبارک باد پیش کی۔ اس موقع پر اسکول کی جانب سے بھی ٹیچرس کو تحائف سے نوازا گیا۔

ہفتہ, ستمبر 02, 2023

چندریان-۳
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
بالآخر 23؍اگست 2023ء کو چھ بج کر چار منٹ پر ہندوستان کے چاند پر پہونچ جانے کی دیرینہ خواہش پوری ہوئی اور ہمارے سائنس دانوں نے ایک طویل خواب کو سچ کر دکھایا ، امریکہ، روس اور چین کے بعد چاند کی سطح پر سافٹ لینڈنگ حاصل کرنے والا ہندوستان چوتھا اور چاند کے قطب جنوبی پر اترنے والا ہندوستان پہلا ملک بن گیاہے’’چندریان-۲ ‘‘اور روس کے ’’لونا ۲۵‘‘کے ناکام ہونے کے بعد چندریان-۳ پوری دنیا کی امیدوں کا مرکز بن گیا تھا، جب تک سلامتی کے ساتھ لینڈ نہیں کیا، ہندوستان کے ہر شہری کی سانسیں رک سی گئی تھیں، لکھنؤ میں خبر ہے کہ گذشتہ روز سلامتی سے لینڈ کرنے کے لئے نماز پڑھ کر دعا بھی مانگی گئی اور اس پر سوشل میڈیا میں اچھی خاصی لے دے مچی اور کئی نے اسے’’ سیاسی نماز‘‘ سے تعبیر کیا، بات اس قدر بڑھی کہ جن صاحب نے اس نماز کا چرچا میڈیا پر کیا تھا، انہوں نے گیارہ بجے شب اس کی تاویل بلکہ تردید کرنی شروع کردی، صورت حال جو بھی ہو واقعہ یہی ہے کہ اس مشن کی کامیابی کے لئے سارے ہندوستان کے لوگ اپنے اپنے مذہب کے مطابق دعائیں مانگ رہے تھے کہ ہمارے ہندوستانی سائنس دانوں کی محنت بار آور ہو۔
14جولائی 2023ء کو آندھرا پردیش واقع شری ہری کوٹہ کے دھون ایپس سنٹر سے چندریان -۳ کو اسرو(ہندوستانی خلائی تحقیقی مرکز) نے خلا میں بھیجنے میں کامیابی حاصل کی تھی، 15جولائی کو زمین سے اوپر لے جانے والے عمل کو پورا کیا گیا اور اس نے 37080کلومیٹر فی سکنڈ کے حساب سے زمین کے مدار میں گھومنا شروع کردیا، یکم اگست کو زمین کے مدار سے نکال کر اسے چاند کے مدار میں پہونچانے میں سائنس دانوں نے کامیابی حاصل کی، 9؍اگست کو وہ تیسرے مرحلہ کو مکمل کرکے پانچ ہزارکلو میٹر والے مرحلہ میں داخل ہوگیا، 16؍اگست کو یہ چاند کے قریب پہونچ گیا اور اس کی دوری صرف سو کلو میٹر رہ گئی، 23؍اگست کو شام کے پونے چھ بجے سے فیصلہ کن مرحلہ شروع ہواجس میں چندریان کی رفتار کو 1680 میٹر فی سکنڈ سے گھٹاکر دو میٹر فی سکنڈ کیا گیا، پھر وہ چاند سے صرف سو میٹر اوپر رہ گیا اور لینڈ روکرم نے اترنے کی مخصوص جگہ کی تلاشی میں کامیابی حاصل کی اور لینڈ میوڈل کے چاروں پاؤں چاند کی سطح پر جم گئے، سافٹ لینڈگ کے بعد لینڈروکرم نے پہلاپیغام ارسال کیاکہ ’’ہم منزل پر پہونچ گئیاور ہندوستانی بھی‘‘ اور کچھ ہی گھنٹے بعد جب چاندپر گردو غبار چھٹاتو ’’روبر پرگان ‘‘نے کام شروع کردیا،چودہ دنوں تک اِسرو کے سائنس دانوںکے ذریعہ بھیجے گئے احکام کے مطابق کام کرے گاروبر میں لگے لیزر کے ذریعہ چاند کی سطح کا مطالعہ کرے گا،وہاں موجود معدنیات اور گہرے گڈھے میں چھپے برف کی تلاش کرے گا،روبر سے نکلنے والی ایک چیز رمھیاہے،یہ چاند کی سطح پر ماحولیات اور زلزلہ سے متعلق تفصیلات جٹائے گاچندریا ن۔۳ کا وزن ۳۹۰۰ کلو گرام ہے،اس کی تیاری میں چھ ارب روپے صرف ہوئے ہیں،اس میں موجود چاند گاڑی کانام اسرو کے بانی وکرم سے منسوب کیا گیا ہے،اس گاڑی کا وزن ۱۵۰۰؍کلو گرام ہے۔
اس پورے پروگرام میں سافٹ لینڈنگ کی بڑی اہمیت تھی، سافٹ لینڈنگ کا مطلب 6000کلو میٹر فی گھنٹے کی رفتار کو کنٹرول کرکے رفتار کو صفر پر لانا ہے، اس دوران لینڈر وکرم خود کو نوے ڈگری پر لاکر چاند کی سطح پر اترنے میں کامیاب ہوا، وہ منظر بڑا دلکش تھا جب سائنس دانوں نے چندریان-۳ کی رفتار کو کنٹرول کرنے کے بعدلینڈنگ کے لئے سیدھا کردیا، یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ خلا میں سب سے پہلی اڑان چاند پر پہونچنے کے لئے امریکہ کے اپولو-۱۱ نے بھری تھی، چاند کی سطح پر قدم رکھنے والے پہلے لوگوں میں نیل آرم اسٹرانگ اور ایڈون بج ایلڈرین جونیر تھا، جس نے اپولو-۱۱ کی کامیاب اڑان کے نتیجے میں 21؍جولائی 1969ء کو چاند تک پہونچنے میں کامیابی حاصل کی تھی، یہ ایک بڑی کامیابی تھی، جس نے تاریخ رچائی تھی، پھر دوسرے ملکوں کے لئے چاند کے سفر کی راہ ہموار ہوئی۔
ہندوستان کے ذریعہ خلا میں بغیر کسی انسان کے چاند پر پہونچنے والے چندریان نے 22؍اکتوبر 2008ء کو شری ہری کوٹہ کے ستیش دھون سکنڈ پیڈ سے 6.22اڑان بھری تھی، اسے چاند کے مدار میں پہونچنے میں پندرہ دن لگے تھے، 14؍نومبر 2008ء کو صبح آٹھ بجکر آٹھ منٹ پر قطب جنوبی کے قریب شیکلٹن گرسٹر کے قریب وہ ٹکرا گیا، 25منٹ کے اس سفر میں چندریان-اے نے چاند کی متعدد تصویریں لیں اور انہیں خلائی جہاز میں بھیجنے کا کام کیا، اس کا وزن لانچ کے وقت 1130کلو گرام تھا، اس مہم پر کل 386کڑور روپے خرچ ہواتھا،چندریان ۔۱ نے مختصر وقت میں سائنس دانوں کو بتایا کہ چاند کی سطح پر پانی کا مالیکولز موجود ہے،اور وہاں دن کے وقت ایک خاص ماحول رہتا ہے،اس اطلاع نے سائنس دانوں کے اندر وہاں انسانوں کے رہنے اور بسنے کے امکانات و روشن کیا ۔
اس کے بعد بھارت نے چندریان-۲، 22؍جولائی 2019ء کو چاند پر بھیجا، اس مصنوعی خلائی سیارہ کی بڑی خصوصیت یہ تھی کہ اس کاٹونار آبریٹری، لینڈر اور گاڑی سب ہندوستان ہی میں تیار کیا گیا تھا، اس خلائی سفر کا مقصد چاند پر پانی کی تلاش تھا، یہ چندریان لیڈنگ کے دوران اسرو سے رابطہ منقطع ہونے کے سبب ناکام ہوگیاتھا،گو اس کا آر میٹر آج بھی چاند کے مدار میں موجود ہے اور چندریان۔۳ کے آبر میٹر سے اس کا رابطہ قائم ہو گیا ہے،،چندریان ۔۲ کے ناکام ہونے کے بعد ہمارے سائنس دانوں نے چندریان-۳ میں کافی احتیاط برتی اور اس کے نتیجہ میں آج ہمیں یہ دن دیکھنا نصیب ہوا کہ ہندوستان چاند کی قطب جنوبی پر اترنے والا پہلا ملک بن گیا ہے۔
 یہاں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ اللہ رب العزت نے آسمان اور زمین جو کچھ ان کے درمیان ہے اسے انسانوںکی خدمت پر مامور کر رکھا ہے، ہم اس سے کس قدر نفع حاصل کرسکتے ہیں، اپنے علم کے محدود ہونے کی وجہ سے دھیرے دھیرے ہم وہاں تک پہونچ پا رہے، سورۃ الجاثیہ آیت ۱۳ میں اللہ رب العزت نے واضح کردیاہے کہ اس نے آسمان و زمین کی تمام چیزوں کو تمہارے لئے تابع کردیا ہے، جو لوگ غور کریںگے وہ اس میں بہت ساری نشانیاں پالیں گے، اس لئے چندریان-۳ کی کامیابی کو اسی پس منظر میں دیکھنا چاہیے، چاند تو پھر بھی برودت لیے ہوئے ہے، اللہ کے اس فرمان کی روشنی میں تو انسان کا نظام شمسی تک پہونچنا بھی ناممکنات میں سے نہیں ہے، صرف اس کی حرارت کو کنٹرول کرنے والا آلہ خلائی سیارہ میں لگانا ہوگا، انسان نے سورج کی حرارت کو جذب کرنے کا فارمولہ ایجاد کرلیا ہے، سولر لائٹ کا سارا نظام اسی کے تحت ہے تو ایسا کوئی آلہ ایجاد کرنا دشوار نہیں ہے جو سورج کی شعاعوں سے روبوٹ کو متاثر نہ ہونے دے؛ کیوں کہ اب خلائی سیارہ کاکنٹرول زمین سے ہوتا ہے اور کام سارا روبوٹ ہی کررہے ہیں،باخبر ذرائع کے مطابق اسرو اس پر تیزی سے کام کر رہاہے۔
اس بڑی حصول یابی پر یقینا ہندوستانی خلائی مشن اسرو کے سائنس داں مبارک باد کے مستحق ہیں، چندریان ۔۲ کی ناکامی کے بعد اسرو کے صدر ایس سومناتھ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑے تھے،چندریان ۔۳ کی سافٹ لینڈنگ سے انہیںایسی کامیابی ملی ہے کہ پورا ملک ان کی کار کردگی کا معترف اور دنیا ان کو مبارکباد ی دیتے نہیں تھک رہی ہے،شکریہ ایس سومناتھ ،شکریہ اِسرو جنہوں نے ناکامی سے مایوسی کے بجائے حوصلہ مندی کا سبق لیا اور ہندوستان کے لئے یہ دن دیکھنا نصیب ہوا۔

بدھ, اگست 30, 2023

عصر حاضر میں مدارس میں

عصر حاضر میں مدارس میں تدریس ___غور و فکر کے چند گوشے
اردودنیانیوز۷۲ 
✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ ورکن آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ (9431003131)

مدارس اسلامیہ کی خدمات تعلیم و تربیت کے حوالہ سے بڑی وقیع رہی ہیں ، مدرسہ کی چٹائی پر بیٹھ کر اجرت نہیں ، اجر خداوندی کے حصول کی نیت سے تعلیم و تدریس میں ہمارے اساتذہ نے جو وقت لگا یا اور جو رجال کار تیار کیے وہ تاریخ کا روشن باب ہے ، ان اساتذہ نے اپنے اساتذہ سے کسب فیض کیا، درس و تدریس کے رموز سیکھے اور اگلی نسلوں تک منتقل کرنے کا کام کیا، ان کے فیض یافتہ طلبہ نے علم و فن کے میدان میں جو انقلاب برپا کیا، اس کی نظیر دیگر علوم و فنون کے لوگوں میں نہیں ملتی ، حالانکہ دیگر علوم و فنون کے اساتذہ نے بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کی اور تربیت یافتہ اساتذہ سے انہوں نے تعلیم پائی ، مدارس اسلامیہ کے اساتذہ کے لیے تدریسی ٹریننگ اور تربیت کا با قاعدہ اداراتی شکل میں کبھی کوئی نظام نہیں رہا ، ا ن کی تدریسی تربیت “تکرار” کے ذریعہ ماضی میں ہوا کرتی تھی اور آج بھی یہی سلسلہ جاری ہے ، یہاں “تکرار” جھگڑے کے معنی میں نہیں ہے ، بلکہ اساتذہ نے جو کچھ پڑھایا ، اس کو طلبہ کے سامنے اسی طرح دہرانا جیسے استاذ نے اسے پڑھایا، مدارس اسلامیہ میں تکرار کہلاتا ہے۔ طلبہ اس تکرار سے سبق کو سمجھانے کی تربیت پالیتے تھے ، بعض ایسے تکرار کرا نے والے ہوتے تھے جو ہو بہو اساتذہ کی نقل اتارا کرتے تھے۔ان کے تکرار پر استاذ کو اتنا اعتماد ہوتا تھا کہ غیر حاضر طلبہ کو اس شاگرد کے تکرار میں بیٹھنے کا مشورہ دیا کر تے تھے،بعد کے دنوں میں بعض مدارس میں معین المدرس کے نام سے فارغ ہونے والے با صلاحیت طلبہ کو دو سال کے لیے رکھا جا نے لگا۔ تاکہ متعلقہ مدرسہ میں اس طرح اساتذہ کی کمی پوری کی جا سکے اور اس طالب علم کو پڑھانے کی عملی مشق ہو جائے۔تھیوری کے طور پر اصول تعلیم مدارس میں پڑھانے کا نظام نہیں رہا،سارا زور عملی تعلیم پر ہوا کرتا تھااور اسے کافی سمجھا جا تا تھا۔
لیکن اب تعلیم و تربیت ایک فن ہے ، اور ہر دم تدریس کے خوب سے خوب تر طریقوں کی تلاش کی جا رہی ہے ، ایسے میں اب مدارس میں تدریس کی تربیت کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے ، اور قدیم طریقہ تدریس کے ساتھ جدید طریقۂ تعلیم کی شمولیت بھی مفید معلوم ہو تی ہے۔اس افادیت کے حصول کے لیے ہمیں از سر نو اپنے تدریسی نظام کا جائزہ لے کر اساتذہ کی تربیت کا بھی ایک نظام بنانا چاہئے ، عصری درسگاہوں کی طرح مدارس کے لیے بھی تدریسی تربیتی ادارے ہو نے چاہئے، جب مضمون نگاری ، تحقیق و تنقید ، فقہی بصیرت اور فتویٰ نویسی کی مشق کے لیے بہت سے ادارے کھلے ہوئے ہیں تو تدریس کے فن میں مہارت اور اچھا استاذ بننے کے لیے بھی ادارے کھولنےکی ضرور ت محسوس ہوتی ہے۔کیوں کہ اب بہت کچھ ماضی کی بہ نسبت بدل چکا ہے۔
ماضی میں جو طریقہ رہا ہے ، اس میں بغیر مطالعہ کےپڑھانے کو ناجائز سمجھا جا تا تھا، کوئی استاد بغیر مطالعہ کے لڑکے کو پڑھاتا نہیں تھا، اگر اس نے رات مطالعہ نہیں کیا تو صبح میں وہ پیچھے کا آموختہ ہی
 دہرادیتا تھا، یہ بات ہمارے یہاں اب کم نہیں، ختم ہو تی جا رہی ہے۔
مطالعہ کے بعد طریقۂ تدریس میں ایک دوسری اہم چیز ہے جسے ہم لیسن پلان (Lesson Plan)یعنی منصوبۂ تدریس کہتے ہیں ، لیسن پلان کا مطلب ہے کہ آپ کلاس میں بچوں کو کیسے پڑھائیں گے ، آپ یہ طے کریں گے کہ آج بچے کو کتنا ڈوز (Dose) ہمیں دینا ہے، آج کے سبق میں بچے کو ہمیں کیا بتانا ہے اور کیا نہیں بتانا ہے، آپ نے شروحات دیکھ لی، حواشی دیکھ لیا ، بین السطور پڑھ لیا، اب آپ چاہتے ہیں کہ یہ سارا کچھ بچوں میں منتقل کر دیں، بچے کا ذہن ابھی اس لائق نہیں ہے کہ وہ آپ کے سارے مطالعے کو برداشت کرے، ہمارے ایک دوست کہا کرتے تھے، کہ بعض اساتذہ اپنے مطالعہ کی قے کرتے ہیں“قے” کی تعبیر ہے تو قبیح ،لیکن عملاً ہوتا یہی ہے، آپ دیکھیں کہ بچے کو جو کچھ ہم بتا رہے ہیں وہ کتنا فولو( Follow) کر رہا ہے اور کتنا اس کو سمجھ رہا ہے تلخیص پڑھاتے وقت آپ نے مختصر المعانی پوری پڑھادی، اس سے بچے کو فائدہ نہیں پہونچے گا۔
 تدریس میں عملی مشق اور مشاہدات کی بڑی اہمیتِ ہے۔مدارس میں یہ طریقہ مفقود ہوتا جارہا ہے۔پہلے کی طرح اب بھی قطب تارہ،صبح صادق،فیئ اصلی، مثل اول ،مثل ثانی ،شفق ابیض ،شفق احمر،صبح صادق ،صبح کاذب وغیرہ کو عملی طور پر طلبہ کو دکھانے،سمجھانے اور مشا ہدہ کرانے کی ضرورت ہے۔بڑے مدرسوں میں بھی یہ طریقہ ان دنوں مفقود ہے۔اسی طرح ہمارے لیے یہ بہت آسان ہے کہ جب طالب علم کو سامان ڈھونے کے لیے مارکیٹ لے جائیں تو صرف جھولا نہ ڈھلوائیں بلکہ خرید و فروخت کرتے وقت بیوع کی بحثیں آسانی سے عملی مشق کے ذریعہ ہم بچوں کوسمجھا سکتے ہیں۔بایٔع،مشتری،ایجاب،قبول،مبیع،ثمن، قیمت،اقالہ،خیار شرط ،خیار رویت،خیار عیب جیسے مسائل طالب علم جھولا ڈھو تے ڈھو تے سیکھ جائے گا۔ضرورت صرف توجہ کی ہے۔ 
 تدریس میں پلاننگ کی بھی بڑی اہمیتِ ہے۔ ہمیں پلانگ کرنی چاہیے کہ 45 منٹ کی گھنٹی ہے، اس گھنٹی میں ہمیں کتنا پڑھانا ہے اور کیا کیا پڑھانا ہے؟ ہمیں کتنی دیر بچوں سے سوالات کرنے ہیں؟ کتنی دیر میں عبارتیں صحیح کروا دینی ہیں اور ترجمہ کر کے مطلب کتنا بیان کر دینا ہے، اگر یہ تیاری رات میں ہی آپ نے کر لی تو کبھی ایسا نہیں ہوگا کہ استاد باہر کھڑا ہے ،گھنٹی لگ گئی ہے اورآپ کا سبق ختم ہونے کو ہی نہیں آتا۔
 بچوں کو مارنے ڈانٹنے کے مزاج کو بھی ختم کرنے کی ضرورت ہے، آپ نے اسے ڈانٹ کر کہا تجھےکچھ نہیں آتا ،کم بخت اتنا بڑا ہو گیا!آپ کی اس ڈانٹ نے اس کے ذہن کے سارے دروازے بند کر دیے، آپ یہ مت دیکھئے کہ بچے نے سبق یاد نہیں کیا، آپ یہ دیکھیے کہ اس بچے نے کیوں سبق یاد نہیں کیا ؟ آخر اس کے اسباب کیا ہیں ؟ جس کی وجہ سے بچہ سبق یاد نہیں کر سکا ، آپ جب اسباب پر غور کریں گے، تو ایسا ہوسکتا ہے کہ رات اس کی طبیعت خراب ہوگئی ہو، ایسا ممکن ہے کہ اس کے باپ آگئے ہوں اور وہ اپنے باپ سے بات کرنے میں لگارہ گیا ہو، ایسا بھی ممکن ہے کہ سبق کو اس نے سمجھا ہی نہ ہو، یااس نے سبق کو سمجھا تو لیکن اپنے مافی الضمیر کو ادا نہیں کر پا رہا ہے، کچھ بھی وجہ ہو سکتی ہے۔
 ایک آدمی نورانی قاعدہ پڑھارہا ہے، نورانی قاعدہ میں بچے نے قل لِلّٰہ صحیح نہیں پڑھا، اب استاد نے اسے دو طمانچہ مارا اور کہا کہ بھاگ یہاں سے، کمبخت تم کو کچھ نہیں آتا ، اس صورت میں یا تو کل سے وہ بچہ نہیں آئے گا ، یا آئے گا تو کسی سے رٹوا کر آئے گا ، جس کی بنا پر اس کو آئے گا کچھ نہیں، رٹّو ہو کر رہ جائے گا، بچے کی اس غلطی پر آپ کا ذہن فورا ًکام کرنا چاہئے کہ غلطی کہاں ہو رہی ہے؟ آپ جب اس کا تجزیہ کریں گے تو آپ کو پتہ چلے گا کہ وہ تشدید کے عمل کو نہیں جان رہا ہے، وہ پورے لام کو پہچا نتا ہے، آدھے لام کو نہیں پہچانتا ہے، زیر زبر میں غلطی کر رہا ہے، اب آپ نے اس کو پکڑ لیا کہ یہ بچہ فلاں جگہ غلطی کر رہا ہے، پانچ منٹ اس کمی کو دور کرنے کے لئے الگ سے کلاس کے بعد آپ نے اس بچہ کو دے دیا تو دوسرے دن سے وہ دوسرے بچوں کے ساتھ شریک ہو جائے گا، سبق بھی اس کو یاد ہوگا، وہ شوق سے آئے گا بھی ، پڑھے گا بھی۔اور اگر آپ نے اس کو ڈانٹ کے بھگا دیا تو رٹ کر کے آئے گا ، یا آنا چھوڑ دیگا، پڑھائی چھوڑ دیگا۔ 
 اسی طرح آپ حساب پڑھا رہے ہیں، حساب پڑھانے میں 25 سے45 کو آپ نے ضرب کرنے کو کہا ، بچے نے ضرب میں غلطی کر دی، آپ کا کام یہ نہیں ہے کہ اس کو مار کے بھگا دیجئے ، آپ کا کام یہ ہے کہ آپ یہ دیکھئے کہ اس بچے نے غلطی کہاں پر کی ، ایسا ممکن ہے کہ اس کا پہاڑا صحیح نہیں ہے، ایسا ممکن ہے کہ گنتی اس کی صحیح نہیں ہے، ایسا ممکن ہے کہ عدد لکھنے میں اس نے غلطی کر دی، ایسا ممکن ہے کہ عدد کی قیمت کا اس کو پتہ نہیں ہے۔ اس طریقے کو جب آپ اپنا لیں گے، بچہ شوق سے پڑھنے آئے گا اور خوش خوش درسگاہ میں شریک ہوگا۔ 
 خواجہ غلام السیدین نے زبر دست بات لکھی ہے کہ اچھے استاد کا کمال ہے کہ وہ اپنے شعور و آگہی میں بچے کو شریک کر لے ، آپ نے جو کچھ پڑھا ہے آپ کے پاس جو کچھ سرمایہ ہے یہ آپ کا کمال نہیں ہے، یہ آپ کے استاد کا کمال ہے کہ انہوں نے اس علم کو آپ کے اندر منتقل کر دیا
جو استاد کے پاس تھا،اب اگر ہماری صلاحیت ہمارے بچوں میں ، ہمارے طلبہ میں نہیں منتقل ہو رہی ہے تو اس کامطلب یہ ہے کہ ہم اچھے استاد نہیں ہیں ، اچھا استاد وہ ہے جو اپنے شعور ، اپنی آگہی اور اپنے علم کو ٹرانسفر Transfer کرنے کی اچھی صلاحیت رکھتا ہو۔ اور کبھی طلبہ سےمایوس نہ ہو۔
یقینا بعض بچے ایسے ہوتے ہیں کہ جن سے ہمیں بہت پریشانی ہوتی ہے ، وہ کچھ کر کےہی نہیں دیتے، یہاں پر ہمیں ڈاکٹر ذاکر حسین کی یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ جب ساری دنیا کسی سے مایوس ہو جاتی ہے ،تب بھی دو ذات ایسی ہوتی ہے جو مایوس نہیں ہوتی ، ایک اس کی ماں اور دوسرا اچھا استاد، اس لیے اگر اچھا استاذ بننا ہے تو طلبہ سے مایوس مت ہوئیے، طریقہ تدریس میں یکسانیت لائیے، اگر طریقہ تدریس میں یکسانیت آئے گی، تو نصاب میں یکسانیت کا فائدہ زیادہ مؤثر انداز میں سامنے آئے گا اور یہ سلسلہ آگے بڑھے گا۔ 
اساتذہ کو کبھی کبھی بڑے مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، طلبہ کی شرار تیں بھی سہنی پڑتی ہیں، مدارس میں تو کم ہوتا ہے اسکول اور کالجیز میں بہت زیادہ ہوتا ہے، لیکن بہت منفی باتوں سے مثبت باتوں کو اخذ کر لینا یہ استاذ کا بڑا کام ہے۔ ایک استاد کو کلاس روم میں آنا تھا، پہلا دن تھا لڑکوں نے سوچا کہ آج اگر ہم ان پر حاوی ہو گئے تو پورے سال ہم ان پر حاوی رہیں گے، اور اگر آج استاد حاوی ہو گئے تو معاملہ ہمارا دب جائے گا ،لڑکوں نے سوچا کہ آج پہلے ہی دن ان کو ایسا سبق دینا ہے کہ یہ ہمیشہ ٹھیک ٹھاک رہیں، سمجھ لیں کہ یہ لڑ کے بہت شریر ہیں، طلبہ نے ایک ترکیب نکالی کہ کلاس کے گیٹ پر تیل گرادیں گے کہ آتے ہی ان کا پاؤں پھسلے اور گریں ، ہم لوگ خوب ہنسیں گے، استاذڈیمولائز ہو جائیں گے ، نروس ہو جائیں گے، چنانچہ ایسا ہی کیا، استاد کلاس روم میں آرہے تھے، اس بیچارے کو کیا پتہ کہ کیا قیامت آنے والی ہے ، جیسے ہی داخل ہوئے جوتا پھسلا اور دھڑام سے نیچے، استاد فورا کھڑے ہوئے ، اور کہا کہ پیارے بچو! آج کا پہلا سبق یہ ہے کہ زندگی میں گرنے کے بڑے مواقع آتے ہیں ،عقلمند اور ہوشیار وہ ہے، جو گر کر فوراً سنبھل جائے ،تم نے دیکھا، میں کس طرح سنبھل گیا، آپ سوچئے کتنی منفی بات ہے، ہم آپ ہوتے تو پہلے تحقیق شروع ہوتی کہ کس نے ایسا کیا اس کے بعد چھڑی آتی اور پتہ نہیں کتنی کر چیاں بدن پر توڑ دی جاتیں، لیکن اس استاد نے انتہائی خراب بات کو ایسا مثبت رنگ دیا کہ لڑکوں کو ایک سبق مل گیا۔ آپ کلاس روم میں جا رہے ہیں لڑ کا شور کر رہا ہے ، آپ کی طبیعت اتنی مکدر ہو گئی کہ سبق ہی نہیں چل رہا ہے، آپ اس کو اس طرح خوشگوار ماحول میں تبدیل کر دیں کہ بچہ محسوس کرنے لگے کہ ہم کو ایسا کرنا چاہئے اور ایسا نہیں کرنا چاہئے۔یاد رکھیئے عصری تعلیمی اداروں اور مدارس کے اساتذہ میں فرق ہے ، مدارس کے اساتذہ دراصل کا رنبوت میں لگے ہوئے ہیں اور وارث انبیاء ہونے کی وجہ سے ان کی ذمہ داریاں دوسرے اساتذہ سے کچھ زیادہ بڑھی ہوئی ہیں، تدریسی زندگی میں یہ احساس ہمارے اندر وہ سب کچھ کر گذرنے کا جذبہ پیدا کرتا ہے، جس سے ہماری زندگی اخلاق حمیدہ سے مزین اور ہمارے طلبہ تعلیم وتربیت کے مختلف مراحل سے گذر کر علوم وفنون میں مہارت اور نفس کو رذائل سے پاک کر کے اچھا مؤمن اور اچھا انسان بن سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ مفکر اسلام حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی نے مدارس دینیہ کو انسانیت سازی کا کارخانہ قرار دیا ہے، جہاں انسان ڈھالے جاتے ہیں اور جس سے پوری دنیا میں اخلاق و کردار کی پاکیزگی، قول وعمل میں تازگی اور ظلم وستم کے بازار میں محبت واخوت ، مروت و ہمدردی کی نورانی چادر تنی ہوتی ہے، ظاہر ہے یہ کام آسان نہیں ہے، اس کام کے لئے اپنے کو تپانا اور کئی دفعہ مٹانا پڑتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اساتذہ کے اندر مختلف ذہنی سطح کے طلبہ کے مابین اپنے علم کوٹرانسفر کرنے کی اچھی صلاحیت ہر حال میں موجود ہو۔ 
یہ صلاحیت کبھی تو وہبی ہوتی ہے اور کبھی کسبی ، وہبی صلاحیتوں کا ذکر نہیں کروں گا اس لئے کہ وہ خدا داد بلاکسب ہوتی ہیں، لیکن بیشتر حالات میں ہمارے اندر صلاحیت خدا کے فضل اور محنت سے پیدا ہوتی ہے، اسلئے ”من جد وجد“ کہا گیا ہے۔یہ محنت اور جد جہد کتابوں کے عمیق مطالعے اور اساتذہ کے تجربات سے بڑی حد تک فائد ہ اٹھانے میں مضمر ہے۔ کتابوں کے مطالعہ کی اہمیت، تجربات سے استفادہ اور تدریس کے طریقے کار پر اکابر کی مفید تحریروں کا مطالعہ بھی اساتذہ کے لیے فائدہ مند ہو گا۔
ہر بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو اس کا دل و دماغ سفید کاغذ کی طرح ہوتا ہے، اس کاغذ پر مختلف نقوش بنانے اور سب کچھ سکھانے کی ذمہ داری گھر ، ماحول اور خاندان کی ہوتی ہے اس طرح دیکھا جائے تو گھر ماحول، اور خاندان، بچہ کا پہلا اسکول ہوتا ہے ، اور اس میں کارفرما عوامل اس کے پہلے استاد، پھر جب بچہ بڑا ہوتا ہے تو اسے فطری طور پر بہت کچھ جاننے کی خواہش ہوتی ہے، اور بہت کچھ سکھانا گھر ، ماحول اور خاندان کے بس کا نہیں ہوتا، اس لئے اسے کسی ادارہ کا سہارا لینا ہوتا ہے ادارہ میں جن کے ذریعہ وہ علم حاصل کرتا اور سیکھتا ہے اسے اصطلاح میں استاد کہتے ہیں۔استاد کے کام کی نوعیت بڑی عجیب و غریب ہوتی ہے، اس اعتبار سے اس کا کام آسان ہوتا ہے کہ اس کے اوقات عام طور پر مختصر ہوتے ہیں ، دوسرے کاروباری اور پیشہ ور لوگوں کی طرح اسے سال کے اڑتالیس یا پچاس ہفتے صبح سے شام تک کام میں جٹار ہنا نہیں پڑتا، لیکن دوسری طرف اس کا کام دشوار اس طرح ہوتا ہے کہ اسے ہر معیار کے بچوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور اس کے لئے اسے بڑے دشور ار مراحل طے کرنے پڑتے ہیں۔ استاذ کو اس جان گسل مراحل سے گزرنے میں جو چیز اس کی مدد کرتی ہے وہ ہےدوسروں کو کچھ سکھانے کا احساس، طلبہ جب اساتذہ کے پاس آتے ہیں تو انکی دماغی نشونما ادھوری ، عام معلومات ناقص ، اور فکری صلاحیتیں نیم بیدار ہوتی ہیں ؛استاد اپنی معقول تدریس کے ذریعہ ان طلبہ کو نہ صرف نئے نئے حقائق سے روشناش کراتا ہے ، بلکہ ان کی سادہ لوحی کو شعور کی پختگی میں بدلتا ہے اور ان میں سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت بھی پیدا کرتا ہے، استاد کو یہ سب کر کے کچھ ایسا اطمینان قلب حاصل ہوتا ہے ، جیسا کسی مصور کو رنگوں کی مدد سے سادہ کینوس پر ایک اچھوتی تصویر بنا کر ہوتا ہے یا ایک طبیب کو اپنی بہترین تشخیص کی بدولت یہ دیکھ کر ہوتا ہے کہ زیر علاج مریض کی ڈوبتی ہوئی نبض میں زندگی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ظاہر ہے یہ مسرت ہر ایک استاد کے حصہ میں نہیں آسکتی ، اس مسرت کے حصول کے خاطر استاد کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے مضمون کو خوب اچھی طرح جانتا ہو، اس لئے یہ کہنا بجا ہی ہے کہ سیکھنا اور سکھانا لازم و ملزوم ہیں، ہر اچھا استاد ہر سال ہر مہینے ؛ بلکہ اگر ممکن ہو تو ہر ہفتے کچھ نہ کچھ نئی باتیں ضرور سیکھتا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم سب ہر وقت ندرت اور جدت کا سرچشمہ نہیں بن سکتے لیکن ایک استاد کو اپنے مضامین میں اتنا باذوق ضرور ہونا چاہئے کہ وہ ان پر طلبہ سے دلچسپی کے ساتھ گفتگو کر سکے، اگر ایسا نہیں ہوتا تو طلبہ ذوق وشوق کے باوجود اس مضمون میں ترقی نہیں کر سکیں گے اس لئے ایک استاذ کو اپنے مضمون کی دلچسپی اور قدر و قیمت میں وہی یقین رکھنا چاہئے جو ایک ڈاکٹر تندرستی میں رکھتا ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ استاذ مضامین کا انتخاب بہت احتیاط اور ہوشیاری سے کرے، اور تعلیمی پیشہ اختیار کرنے سے پہلے ہی سوچ سمجھ کر اپنے مضمون منتخب کرے، اس کے ساتھ ساتھ اسے طلبہ سے ایک قسم کی رغبت ہو وہ طلبہ کو اپنے لئے بوجھ نہ سمجھے ، اس کے سوالوں سے نہ گھبرائے ، بلکہ ان سے محبت کرے، خود کو انکا مد مقابل نہ سمجھے، کوئی بات اس انداز میں نہ کہے جو کسی کو بری لگے ، اس طرح استاذ بڑی حد تک اداروں میں جاری طلبہ کی سرکشانہ روش سے محفوظ رہ سکے گا۔اچھے استاد کو ایک دلچسپ انسان اور بذلہ سنج ہونا چاہئے تعلیم اس طرح دینی چاہئےکہ رٹی رٹائی باتوں کے دہرانے کے بجائے اپنی بصیرت افروز باتوں کے ذریعہ ان کے ذہنوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دے ،وہ اگر سوالات کریں تو انکو معقول جواب دیا جائے تا کہ ان کے ذہنوں میں کوئی نئی بات سمجھنے میں الجھن نہ ہو۔ استاد کا حافظہ قوی ہونا چاہئے ، کمزور حافظہ کا استاد مضحکہ خیز بھی ہوتا ہے، اور خطرناک بھی، دوسری چیز قوت ارادی ہے، اچھے استاد کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ اس کے ارادے بالکل اٹل ہوں۔تعلیم کے لئے استاذ کو تین مراحل سے گزرنا ہوتا ہے اول یہ کہ اپنے مضمون کو خوب اچھی طرح تیار کرے، دوم یہ کہ طلبہ کے سامنے اچھی طرح بیان کر سکے اور انہیں ذہن نشیں کرا سکے سوم یہ کہ یہ اطمینان کرلے کہ جو اس نے پڑھایا ہے اسے طلبہ نے اچھی طرح یاد کر لیا ہے۔ استاد کو اپنے طرز عمل سے ثابت کرنا چاہئے کہ وہ ایک ہمدرد دوست اور مشکلات کودور کرنے والا ساتھی ہے اور مدرسہ کی زندگی طلبہ اور استاد کے مابین مہرومحبت اور شرکت عمل کی زندگی ہے۔یہ سب چیزیں ایک استاذ کے اندر موجود ہونی چاہئیں ، لیکن صرف نصاب کی کتابوں سے یہ چیزیں حاصل نہیں ہو سکتیں ، ان میں سے بیشتر کا تعلق عملی تربیت سے ہے ، اس لیے ایک ایسے مستقل نظام کا ہونا بہت ضروری ہے ، جو مدارس میں تدریس کے لیے تیار کی جارہی اساتذہ کی اگلی کھیپ کو ان بنیادوں پر تیار کر سکے۔

پیر, اگست 28, 2023

ہمایوں اقبال ندوی نائب صدر، جمعیت علماء ارریہ وجنرل سکریٹری، تنظیم أبناء ندوہ پورنیہ کمشنری

عربوں کی قیمت اسرائیل کی نظر میں!
Urduduniyanews72 
 اسرائیلی وزیراتمار بن گویر کا کہنا ہےکہ ؛ "عربوں کی زندگی سے زیادہ اہم یہودیوں کا حق ہے،میرا جینے کا حق فلسطینیوں کی زندگی سے پہلے آتا ہے، یہ میرا حق ہے،میری بیوی کا حق ہے،میرے بچوں کا یہ حق ہے"
مذکورہ بیان سے عربوں اور مسلمانوں کےخون کی اسرائیلی حکومت کی نظر میں کیا قیمت ہے ؟یہ بات واضح ہوجاتی ہے،اورساتھ ہی عربوں کےقتل عام کا ایک جواز بھی پیش کیا گیا ہے، یہ محض ایک بیان نہیں ہے بلکہ ایک پروگرام ہےجس پر کام شروع ہے۔آج اسی لئے اسرائیلی حکومت اپنے عام شہریوں کو بھی مسلح کررہی ہے، اب صرف اسرائیلی فوج کے ہاتھوں ہی نہیں بلکہ غیر قانونی یہودی آبادکاروں کے ہاتھوں بھی  مسلمانوں کا قتل عام شروع ہوگیاہے،ابھی تازہ خبر کے مطابق فلسطینی کسانوں پرحملے یہودی آبادکاروں کے ذریعہ ہی کئے گئے ہیں، ماہی گیروں پر بلاجواز گولیاں برسائی گئی ہیں،اس وقت قابض اسرائیلی فوجی اور عام صہیونی شہری شانہ بشانہ عرب مسلمانوں کو نشانہ بنارہے ہیں، یہ نہایت تشویشناک بات ہے، ابھی چند مہینوں میں ڈیڑھ سو سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں،گزشتہ جمعہ کو نماز کے لئے آنے والے نہتے نمازیوں پر بھی بیت المقدس میں حملہ ہوا ہے،  یہ آئےدن اسرائیلی حکومت اور قوم یہود کا شیوہ بن گیا ہے، معصوم بچوں اور خواتین پر بھی حملہ سے دریغ نہیں کیا جاتا ہے،یہ بہت ہی شرمناک ہے۔
کچھ قانونی ماہرین آواز اٹھارہے ہیں، اور یہ کہ رہے ہیں کہ اسرائیلی حکومت کا یہ رویہ بین الاقوامی قوانین کے خلاف ہے۔مگران کی آواز صدا بصحرا ثابت ہورہی ہے،صحیح بات یہ ہے کہ کسی قانون کی یہودیوں کے نزدیک ویسے بھی کوئی حیثیت نہیں ہوتی ہے۔
 ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی سے دریافت فرمایا کہ تمہاری شریعت میں زنا کی سزا صرف درہ مارنا ہے؟ اس نے کہا نہیں بلکہ سنگسار کرنا ہے لیکن ہمارے شرفاء میں زنا کی کثرت ہوگئی اور جب کوئی شریف اس جرم میں پکڑا جاتا تو ہم اس کو چھوڑ دیتے تھے۔البتہ عام آدمیوں کو یہ سزا دیتے تھے، بالآخر یہ قرار پایا کہ سنگسار کرنے کی سزا درہ سے بدل دی جائے،(مسلم) اس طرح انہوں نے قانون شریعت  کا بھی مذاق بنایاہے۔
نبی وقت حضرت موسی علیہ السلام نے ایک موقع پرجب  بنی اسرائیل سے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کا حکم فرمایا،،تو وہ کہنے لگے؛تم مع اپنے خدا کے جاؤ اور لڑو،ہم یہاں بیٹھے رہیں گے، (مائدہ ) یہ کہ کر یہودیوں نےاپنے نبی اور خدا کے حکم کو جھٹلایا ہے اور اس کا تمسخر اڑایا ہے،
اس شتر بے مہار قوم کے نزدیک بین الاقوامی قانون کی کیا حیثیت ہے؟ مذکورہ واقعات سے  خوب اندازہ ہوجاتا ہے۔نافرمانی اور اس قوم کی سرشت میں داخل ہے، قانون شکنی ان کی فطرت ثانیہ بنی ہوئی ہے،  انہی وجوہات کی بنا پر خدا کے غضب اور لعنت کےیہ سزاوار ہوئے ہیں، جو نعمتیں ان کو دی گئی تھیں، اور جو فضیلتیں ان کو حاصل تھیں وہ چھین لی گئی ہیں۔ نبیوں کا سلسلہ جو قوم بنی اسرائیل میں تھا، وہ بنی اسماعیل کی طرف منتقل ہوگیا اور خدا کے آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم بنی اسماعیل میں پیدا ہوئے ہیں، اہل عرب یہ دراصل حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد واحفاد ہیں، یہی چیز یہود کے لئے سب سے زیادہ تکلیف کا سامان ہے،اور عرب دشمنی کی بڑی وجہ بھی یہی ہے،
 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یہودیوں کا یہ معمول تھا کہ جب وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے تو بجائے" السلام علیك" کے "السام علیك" کہتے تھے، جس کے معنی یہ ہیں کہ تم کو موت آئے،ایک دفعہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا بھی موجود تھیں، انہوں نے سنا تو ان کو سخت غصہ آیااور بے اختیار بول اٹھیں کہ کم بختو! تم کو موت آئے،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نرمی سے کام لو،حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے کہا، آپ نے کچھ سنا بھی کہ لوگوں نے کیا کہا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کہ ہاں، لیکن اتنا کافی ہے کہ میں علیك کردیاہے (بخاری )
آج عرب ممالک ان صہیونیوں سے اور قابض اسرائیلی حکومت سے دوستی گانٹھنے میں لگے ہیں، ٹرمپ حکومت کے خاتمے کے بعد اس عنوان پر خاموشی ضرور ہے،مگر اپنے وقتی اور معاشی مفاد کو دیکھتے ہوئے اسرائیل سےاب بھی کچھ ہاتھ ملنے کو بے قرارہیں،آج یہ بات مذکورہ اسرائیلی وزیراتمار بن گویر کے بیان واضح ہوگیا ہے کہ ان کی نظر میں اپنے مفاد کے لئے عربوں کا خون حلال ہے،عرب ممالک کے لئے ہوش کے ناخن لینے کا موجودہ وقت تقاضہ کرتاہے۔

ہمایوں اقبال ندوی 
نائب صدر، جمعیت علماء ارریہ 
وجنرل سکریٹری، تنظیم أبناء ندوہ پورنیہ کمشنری

اتوار, اگست 27, 2023

شاہ ولی اللہ انسٹی ٹیو ٹ نئی دہلی کے زیر اہتمام انجمن اسلام ممبئی میں فکر ولی اللٰہی پر ایک باوقار مذاکرہ اور مشاہیرعلماء و دانشوران ملت کا اظہار خیال مولانا مفتی عطاءالرحمٰن قاسمی


شاہ ولی اللہ انسٹی ٹیو ٹ نئی دہلی کے زیر اہتمام انجمن اسلام ممبئی میں فکر ولی اللٰہی پر ایک باوقار مذاکرہ اور مشاہیرعلماء و دانشوران ملت کا اظہار خیال
اردودنیانیوز۷۲ 
 مولانا مفتی عطاءالرحمٰن قاسمی
   آج ۲۵ اگست ممبئی، شیخ الاسلام حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی بلا شبہ ایک پر آشوب دور اور زوال پذیر عہد کی پیداوار ہیں لیکن ان کے لو ح و قلم و سوچ و فکر پر زوال و انحطاط کے اثرات محسوس نہیں ہو تے ہیں انہوں نے عدل اجتماعی کے قیام اور تکثیری معاشرہ میں مذہبی رواداری کے فروغ و ترویج،مسلکی وسماجی اختلافات ونزاعات اور ملی فرقہ بندیوںکو ختم کرانے پر بڑا زور دیاہے اور وہ اتحاد امت کے استعارہ وعلامت تھے اور ہر مکتبہ فکر میں یکساں طور پر مقبول تھے انہوں نے اسلام کو ایک نظام کی حیثیت سے امت کے سامنے پیش کیا ہے ان خیالات کا اظہار معروف عالم دین مولانا مفتی عطاءالرحمٰن قاسمی چیئر مین شاہ ولی اللہ انسٹی ٹیوٹ نے شاہ ولی اللہ انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی کے زیر اہتمام انجمن اسلام ممبئی میں منعقد فکر ولی اللٰہی پر ایک باوقار مذاکرہ میں کیا ہے جس کی صدارت مشہور ماہر تعلیم اور متعدد قومی وملی اداروں کے سربراہ وروح رواں ڈاکٹر ظہیر قاضی صدر انجمن اسلام ممبئی نے کی ہے ،جبکہ نظامت کی ذمہ داری نبھاتے ہوئےمعیشت اکیڈمی کے ڈائرکٹر دانش ریا ض نے شاہ ولی اللہ انسٹی ٹیوٹ کے علمی وتحقیقی کاموں کا بھر پور تعارف کرایا اور اسے ایک ملی تحریک و دینی دعوت قرار دیا ہے۔
مر کزی جمعیت اہل حدیث ہندکے امیر مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی نے اپنے افتتاحی کلمات میں کہاکہ مفتی عطاءالرحمٰن قاسمی نے شاہ ولی اللہ انسٹی ٹیو ٹ کی جانب سے ۴۲سے زیادہ قرآن و حدیث ،تاریخ و ثقا فت ،اوقاف و آثار اور مغل فرامین کے مو ضوعات پر معرکۃ الآراء کتابیں شائع کر نے اور در جنو ں قومی وبین الاقوامی سیمینار کے انعقاد کرانےکے با وجود ایک عرصہ دراز تک شاہ ولی اللہ انسٹی ٹیوٹ کے موجودہ دفتر کو چھپا ئے رکھا اور جب حال میں میں نے اسے دیکھا اور مفتی صاحب نے بڑی مشکل سے مجھے دفتر دیکھ لایا تو حیرت و استعجاب کی انتہا ہوگئی کہ ایک چھو ٹی مسجد کے ایک کو نے میں واقع ایک ڈیڑھ کمرے میں اور وہ بھی تن تنہا اتنا بڑا تاریخ ساز اور عہد ساز کا م کیا جاتا رہاہے، مفتی صا حب کی کتاب ’’دہلی کی تاریخی مساجد‘‘ اور’’پنجاب وہریانہ کی تاریخی مساجد ‘‘،دہلی اور پنجاب کی مختلف سرکاری عدالتوںمیںبطور ثبوت وشہادت پیش ہوتی رہی ہیںاور مجھے یقین ہے کہ آئندہ بھی بطور دستاویز ودلائل پیش ہوتی رہی رہیںگی، انکی کتاب ’’ہندومندر اوراورنگزیب عالم گیر کے فرامین‘‘ تو موجودہ دور تعصب وتنگ نظری میں غلط سوچ کو بدلنے والی اور تاریخ و ثقافت اور مذہبی رواداری وروایت کو صحیح روپ دینے والی نادر و نایاب کتاب ہے۔
جناب مشتاق انتولے نائب صدر انجمن اسلام نے بھی انتو لے مر حوم کی طرح والہانہ انداز میں شاعر مشرق علامہ اقبال کے اشعار کے حوا لے سے فکر ولی اللٰہی پر روشنی ڈالی اور انسٹی ٹیوٹ کے کاموں کو سراہا ، ریاض یونیورسٹی سعودی عربیہ کے استا د حدیث ڈاکٹر عبدالرحمٰن الفریوائی نے حضرت شاہ صاحب کی شخصیت اور انکی وسیع خدمات کا ذکر کیا اور مولانا قاسمی کے کاموں کا بھی اعتراف کیا دارالعلوم ندوۃ العلما ءلکھنو کے فرزند ارجمند اور مرد دردمند مولانا ابو ظفر حسان ندوی نے خانوادہ ولی اللٰہی کے مجاہدانہ کار ناموں اورانکے زہدو ورع اور تقوی و طہارت کا ذکر اپنی نم آنکھوں سے کیا اور اہل محفل کو اشکبار اورنمناک کیا، علماء کونسل مہاراشٹر ا کے صدر مولانا محمود دریا آبادی نے کہا کہ مفتی عطاءالر حمٰن قاسمی اپنی ذات میں دراصل ایک انجمن اور ایک تحریک ہیں اور شاہ ولی اللہ انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی کے ذریعہ تحریک ولی اللٰہی کو آگے بڑہارہےہیںاور سماج میں فکری وعلمی اور تعلیمی بیداری پیدا کر نے کی جد جہد کر رہے ہیں، آخر میں صدر اجلاس ڈاکٹر ظہیر قاضی صدر انجمن اسلام ممبئی نےاپنےکلیدی خطبہء صدارت میں کہاکہ آج حضرت شاہ صاحب کی شخصیت کے تعلق سے میر ے لیے کچھ ایسے گو شے سامنے آئے ہیں جن سے میں یقینا اب تک لاعلم تھا اور انکی تعلیمات اور افکار ونظریات کی اشا عت وقت کی اہم ضرورت اور عہد کا تقاضاہے ڈاکٹر صا حب اپنی غیر معمولی مصروفیات اور انجمن بورڈ کی متعدد اہم میٹنگوں کے باوجو د اول تا آخر تقریب میں موجود رہے اور اپنے خطاب میں بڑے فکر انگیز اور حو صلہ افزا کلمات کہا اور انسٹی ٹیوٹ کے حوالے سے کہ اعلان کیا کہ انجمن اسلام اب تک چندہ لیتی رہی ہے کبھی کسی کو چندہ نہیں دیا ہے لیکن اس موقع پر انسٹی ٹیو ٹ کے علمی کاموں کی اہمیت کے پیش نظر دولاکھ روپئے کا اعلان کرتا ہوں اورنومبر میں بڑے پیمانے پر انجمن اسلام اور جامع مسجد میں پروگرام کئے جائیں گے اور مفتی اشفاق قاضی اور مولانا محموددریا آبادی سے مدد لی جائے گی جو بڑے با آثر
لوگ ہیں اسکےبعد عروس البلاد ممبئی کے صا حب نظر مفتی اور فقیہ مولانا مفتی عزیز الرحمٰن فتحپوری نے اپنے جامع بیان میں کہاکہ مولانا مفتی عطاءالرحمٰن قاسمی نے مجھےاسوقت یاد کیاہے جبکہ سارے اکابر دنیا سےجاچکے ہیں اور آپ کی پرسوز دعا پر اس تقریب سعید کا اختتام ہوا اور مولانا منظر احسن سلفی نے مہمانوں کے لیے کلمات تشکر ادا کیا اور ڈاکٹر صاحب کا شکریہ ادا کیا اور یہ مذاکرہ انجمن اسلام کے تعاون واشتراک سے ہوا تھا اور انجمن کی جانب سے بڑا پر تکلف عصرانہ کانظم کیا گیاتھا اور عصرانہ میں مشتاق انتولے صاحب مو جود تھے، جس کے لئے انسٹی ٹیوٹ انکا بھی شکر گزار ہے، اس مذاکرہ کے قابل شرکاء میں پروفیسر محمد طاہر علیگ سابق پرنسپل انجمن اسلام کا لج، پروفیسر شکیل الرحمٰن، عظمی ناہید،سلمان غازی، مولانا مستقیم مکی ، مفتی اشفاق قاضی،حافظ اقبال چونے والا،سلمان ملا،اختر رنگوں والا، فواد،اے ایم پاٹکا، فرید شیخ، ڈاکٹر عظیم الدین سعود ملک جاوید عالم شیج، محمود بن منظر سلفی،مفتی رشید اسعد ندوی اور مولانا محمود فیضی وغیرہ تھے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...