Powered By Blogger

پیر, اکتوبر 02, 2023

مفتی ثناء الہدی

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی: زندگی کا سفر
Urduduniyanews72 
غالب شمس قاسمی دربھنگوی، نظرا محمد آباد دربھنگہ ۔
 سرزمین بہارعلم کی بستی اورادب کا گہوارہ رہی ہے، یہاں جابجا بزرگان دین کی قبریں ماضی کا پتہ دے رہی ہیں، ماضی کی شخصیتیں اگر بے نظیرتھیں، توزمانہء حال میں بھی گوہرنایاب موجود ہیں،ویشالی ضلع کے حسن پور گنگھٹی سے تعلق رکھنے والے حضرت  مولانا مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی  دامت برکاتہ العالیہ کی شخصیت محتاجِ تعارف نہیں ، آپ کی  ذات ہمہ گیراورآپ کی خدمات ہمہ جہت ہیں،آپ فی الحال امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ کے نائب ناظم، امارت شرعیہ کے ترجمان ہفت روزہ نقیب کے مدیر اعلیٰ،وفاق المدارس الاسلامیہ بہار کے ناظم،آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اورآل انڈیا ملی کونسل کے رکن تاسیسی ہیں، اسی طرح آپ معہد العلوم الاسلامیہ چک چمیلی( سرائے ویشالی)کے بانی مبانی بھی ہیں ہے،اعتراف خدمات میں آپ کو کئی سرکاری اعزاز سے نوازا جاچکا ہے ۔
 
مختصر حالات زندگی          
ولادت
آپ  کی ولادت 17/ نومبر 1958ء ( بہ مطابق 5/جمادی الاولی 1378ھ) بروز پیر محمد نور الہدیٰ کے یہاں حسن پور گنگھٹی موجودہ ضلع ویشالی میں ہوئی۔ ابتداء میں آپ کا نام شمیم الہدیٰ رکھا گیا، لیکن والد گرامی نے بعد میں ثناء الہدیٰ کردیا۔
 شجرۂ نسب
 محمد ثناء الہدیٰ ابن محمد نور الہدیٰ بن منشی علی حسن بن رجب علی بن سخاوت علی۔  
خاندان
آپ کے گاؤں میں گرچہ جہالت عام تھی، لیکن آپ کا خاندان مذہبی و عصری تعلیم سے آراستہ تھا، ہدی فیملی،تہذیب و شائستگی کے لئے علاقے بھر میں مشہور تھی، ان کے والد  محترم ماسٹر محمد نور الہدیٰ ڈبل ایم اے تھے،ایم اے فارسی میں بہار یونیورسٹی کے وہ  ٹاپر تھے، آپ کے دادا منشی علی حسن اچھے خوش نویس تھے ،اور انہیں گلستان و بوستان کے اکثر حصے زبانی یاد تھے۔

رسم بسم اللہ 
پانچ سال کی عمر میں آپ کی پھوپھو راشدہ خاتون نے رسم بسم اللّٰہ ادا کرائی، ناظرہ قرآن، اردو کا قاعدہ۔ پہلی، دوسری، تیسری،( مولانا محمد اسماعیل خان صاحب میرٹھی کی کتاب کا پورا سیٹ )اور فارسی کی پہلی، دوسری، انگریزی کی پہلی کنگ ریڈر، پہاڑہ اور جوڑ گھٹاؤ سب کی تعلیم پھوپھو کے پاس ہی ہوئی، بچپن ان ہی کے زیر تربیت گزرا، گھر کا ماحول علمی تھا، اسی لئے ابتداء ہی سے دین و ادب کا چسکا لگ گیا۔ 
اسکول کی تعلیم 
گھریلو تعلیم کے بعد 1966ء میں بکساما مڈل اسکول میں تیسرے درجے میں داخلہ کرایا گیا،یہاں انھوں نے پانچویں درجے تک تعلیم پائی، اسکول کے اساتذہ میں جگ لال جی، اور ماسٹر ہارون قابل ذکر ہیں۔ 

مدرسہ میں داخلہ 
1970ء میں مدرسہ احمدیہ ابابکر پور ویشالی میں درجۂ حفظ میں داخل ہوئے، قاری عتیق الرحمان صاحب کے پاس حفظ شروع کیا، ایک سال بعد مدرسہ احمدیہ چھوڑ کر گاؤں کے مکتب مدرسہ ملیہ میں پڑھنا شروع کیا۔یہاں ان کے حفظ کے استاد حافظ محمد مستقیم جتوارپوری تھے،جو اس گاؤں میں مکتب کے معلم تھے۔ 

مئو کا سفر
 1972ء میں دار العلوم مئو میں داخلہ کرایا گیا، دوسرے سال1973 کے آخر میں حفظ کی تکمیل ہوئی، فارسی اور عربی اول و دوم کی کتابیں دار العلوم مئو میں ہی پڑھیں، پھر عربی سوم میں مفتاح العلوم مئو میں داخلہ لیا۔ آپ نے حفص کی تکمیل قاری عبد المنان صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی درسگاہ میں یہیں سے کی،اس وقت مئو میں شیخ القراء قاری ریاست علی، مولانا عبد اللطیف نعمانی، اور ابو المآثر حبیب الرحمن اعظمی رحمھم اللّٰہ جیسے اکابر علماء موجود تھے۔ اگلے سال دوبارہ دار العلوم مئو میں داخلہ لیا، اور عربی چہارم پڑھا، اسی سال قاری ظفر الاسلام صاحب سے قرأت سبعہ کی بھی تکمیل کرلی۔
 
 سرزمین دیوبند میں 
               تکمیل تعلیم کی غرض سے 1978ء میں دار العلوم دیوبند کے لئے رخت سفر باندھا، پنجم عربی میں داخلہ لیا، دار العلوم دیوبند میں آپ  کی شخصیت و صلاحیت کو چار چاند لگ گئے، دیوبند کی علمی و ادبی فضا سے خوب استفادہ کیا، تحریر و تقریر میں جلا پیدا ہوئی، جمیعت الطلباء کے سکریٹری بنے، سجاد لائبریری کے لئے زمین خریدی،انقلاب کے زمانے میں آپ  وہاں کے طالب علم تھے، آپ نے ان احوال کو ذاتی ڈائری میں لکھا، جو ترجمان دیوبند کے خاص نمبر"وحید الزماں کیرانوی نمبر" کی زینت بنی، 1982ء میں دار العلوم دیوبند سے فراغت ہوئی، دورۂ حدیث میں آپ  تیسری پوزیشن سے کامیاب ہوئے ۔
                 82/1983ء میں دارالعلوم ہی سے افتاء کیا، حضرت مفتی محمود حسن گنگوہی علیہ الرحمہ سے رسم المفتی پڑھی،  حضرت مفتی نظام الدین اعظمی  سے فتویٰ نویسی کی مشق کی، اور  در مختار کے اسباق حضرت مفتی ظفیر الدین مفتاحی سے متعلق رہے،مفتی کفیل الرحمٰن نشاط عثمانی بھی کبھی کبھی مشق و تمرین کرایا کرتے تھے، اس زمانے میں وہ وہاں نقل فتاویٰ پر مامور تھے، جب حضرت مفتی نظام الدین اعظمی شروع سال میں حج کو گئے ، تو  حضرت مفتی سعید احمد پالنپوری نور اللہ مرقدہ نے چند دن افتاء کی کتابیں پڑھائیں،حضرت مفتی صاحب کی رائے یہ تھی کہ "فتاویٰ رشیدیہ کی زبان فتوی کی ہے، اس لیے  طلباء کو یہ کتاب  زیر مطالعہ رکھنا چاہیے، انہوں نے طلبہ پر واضح کیا کہ مفتی کے لیے ضروری ہے کہ اس کا دستخط بالکل واضح ہو، اس لیے کہ فتوی پر اعتماد مفتی کے نام کی وجہ سے ہوتا ہے، دو سطروں کے بیچ میں فاصلہ نہیں چھوڑنا  چاہیے، کہ کوئی عبارت بڑھا دے، اور تحریر ایسی گنجلک ہونی چاہیے کہ بیچ میں کچھ لکھنے کی گنجائش باقی نہ رہے"، 
آپ نے  دار العلوم  میں قاری محمد طیب قاسمی ؒ سے حجۃ اللّٰہ البالغہ،  مولانا محمد سالم قاسمیؒ سے  شرح عقائد نسفی ، مولانا عبد الخالق مدراسی سے متنبی ، مولانا بدر الحسن قاسمی  سے مقامات حریری،  مولانا خالد بلیاوی سے ملا حسن ،مولانا ریاست علی ظفر بجنوریؒ سے ہدایہ اولین، مولانا زبیر صاحبؒ سے میبذی، علامہ قمر الدین احمد گورکھپوری سے بیضاوی اور مولانا معراج الحق  صاحبؒ سے ہدایہ آخرین پڑھی،
دورۂ حدیث  ہی کے سال قضیۂ دار العلوم پیش آیا،کیمپ کے دنوں میں اسباق تقریباً پانچ مہینے تک زیادہ تر حضرت مفتی سعید احمد پالنپوریؒ سے متعلق رہے، اسی لئے آپ کی صحاح ستہ کے کئی اساتذہ  ہیں، اور ایک ایک کتاب کئی حصوں میں پڑھائی گئی تھی، جیسے کہ صحیح بخاری حضرت قاری  محمد طیب صاحب نور اللہ مرقدہ نے شروع کرائی، نصف اول کے ابتدائی حصے  حضرت مولانا مفتی سعید احمد پالنپوریؒ نے  پڑھائے، اس کے آگے مولانا نصیر احمد خانؒ نے پڑھایا، صحیح البخاری ثانی کے بھی بعض اجزاء کیمپ کے زمانے میں مفتی سعید احمد صاحبؒ پڑھا رہے تھے، دوبارہ دار العلوم کھلنے کے بعد مولانا نصیر احمد خان صاحبؒ نے مکمل کرائی۔اسی طرح  صحیح مسلم (ابتدائی حصہ) مفتی سعید احمد پالنپوریؒ پڑھا رہے تھے ،  
جامع ترمذی( از اول تا آخر)  مفتی سعید احمد پالن پوریؒ کے زیر درس رہی،
سنن ابو داؤد  مولانا خورشید احمد دیوبندی سے اور سنن نسائی مولانا  حسین احمد بہاری  جیسے جلیل القدر اساتذہ سے پڑھیں۔ 

عصری درسگاہوں سے استفادہ 
آپ نے عصری درسگاہوں سے خوب استفادہ کیا، آپ نے اتنی زیادہ ڈگریاں حاصل کر رکھی ہیں کہ بقول محمد فیاض قاسمی کے۔۔۔ کے" آپ نے حافظ، قاری، فاضل، مفتی، ادیب، ایم اے اور بی اے جیسی اتنی ڈگریاں حاصل کر رکھی ہیں، کہ ہمارے جیسا لاغر جسم والا ان ڈگریوں تلے دب جاتا، مگر یہ بآسانی اٹھائے ہوئے ہیں، لیکن سادگی کا اس قدر حملہ ہے، کہ کوئی سرسری دیکھنے والا صرف ایک ملاجی سمجھے، یا بہت مہربانی کرے تو میٹرک پاس گردان لے".
آپ نے فراغت کے ساتھ ہی پرائیویٹ سے میٹرک کا امتحان دیا، بعدہ بہار یونیورسٹی مظفر پور میں بی اے آنرز فارسی میں یونیورسٹی ٹاپ کیا،اور پہلی پوزیشن پائی،فارسی سے ہی ایم اے کیا،  اور پوری یونیورسٹی میں دوسری پوزیشن پائی، پی ایچ ڈی کا مقالہ بھی لکھ چکے تھے،  پروفیسر متین احمد صاحب بہار یونیورسٹی گائیڈ تھے، ان کے انتقال کی وجہ سے سے ڈاکٹر بنتے بنتے رہ گئے ۔اسی طرح بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ سے پانچ مضمون میں فاضل کیا، جامعہ اردو علی گڑھ سے ادیب کامل کیا، جامعہ دینیات سے فاضل دینیات اور عربک پرشین بورڈ الہ آباد سے بھی فاضل کی سند لی۔، 
عملی خدمات ۔
آپ نے فراغت کے بعد ٹیچرٹریننگ کیا،لیکن والد محترم کے مشورے سے تدریسی زندگی کا آغاز مدرسے سے کیا، چنانچہ 83 ء میں دار العلوم بربٹہ سمستی پور ( ملحق بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ)  میں پرائیویٹ طور پر درس و تدریس کی خدمت سے وابستہ ہوگئے،  یہاں قدوری،نور الایضاح،اورفارسی کی پہلی  آپ کے درس میں شامل رہی،  اس وقت آپ کی تنخواہ صرف تین سو روپے تھی۔، 
          یکم مئی 84ء مادرعلمی مدرسہ احمدیہ ابا بکر پورویشالی میں خدمت تدریس پر مامور ہوئے۔  1990ء میں آپ کو بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ نے ڈیپوٹیشن پرآپ کوبہارمدرسہ بورڈ کی تاریخ مرتب کرنے کے لئے بلالیا، یہاں آپ 1994 تک رہے، پروجیکٹ کی تکمیل کے بعد مدرسہ احمدیہ  میں  دوبارہ درس وتدریس  میں لگ گئے، آپ نے مدرسے کے درجۂ حفظ کو سدھارنے اور علمی ڈگر پر لانے کی کوشش کی، اسی کے ساتھ قدوری، ابو داؤد شریف اور آثار السنن جیسی کتابیں آپ کے زیر درس رہیں۔ 
 امارت شرعیہ سے وابستگی
    29 /اکتوبر 1995ء میں آپ کو امارت شرعیہ بہار و اڑیسہ کے مجلس ارباب حل و عقد کا رکن منتخب کیا گیا.
                         مئی  2003 ء میں  امیر شریعت سادس مولانا نظام الدین  صاحب کی ایماء پر بطور نائب ناظم امارت تشریف لائے،مارچ 2015ء سے امارت شرعیہ کے ترجمان ہفت روزہ نقیب کا اداریہ( اس کے مدیر جناب عبد الرافع کے صاحب فراش ہوجانے کی وجہ سے)لکھنا شروع کردیا تھا، البتہ دسمبر 2015 ء میں ایڈیٹرعبد الرافع کے انتقال پر ملال کے بعد آپ کو مستقل طور پر نقیب کی ادارت سونپ دی گئی ،اور تا حال امارت شرعیہ کے نائب ناظم، وفاق المدارس الاسلامیہ کے ناظم اور ہفت روزہ نقیب کے مدیر کی حیثیت سےخدمات انجام دے رہے ہیں۔ 
 
  آل انڈیا ملی ملی کونسل 
  فقیہ اسلام حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ کی جوہر شناس نگاہ نے اس گوہر بے بہا کو پہچان لیا، چنانچہ قاضی صاحب نے کئی اہم ذمہ داریاں آپ کے سپرد کیں، آپ ملی کونسل کی پہلی میقات (سن 1992ء)میں بمقام میسورمعاون سیکرٹری بنے، اور دوسری میقات ( سن 1995)میں بہار میں رابندر ناتھ ٹیگور ہال میں سکریٹری بنائے گئے اور سن 2002 میں باضابطہ سکریٹری بنے،
  مسلم پرسنل لا بورڈ 
بورڈ کے ارکان مجلسِ تاسیسی نے مونگیر میں منعقدہ اجلاس 2مارچ 2003ء میں آپ کو بورڈ کا معزز رکن منتخب کیا۔  
شعر و ادب
مفتی صاحب کو شعر ، نظم اور  غزل سے بھی بڑی مناسبت تھی،  ضیاء اور عاصی تخلص اختیار فرماتے تھے، اسی طرح 1976ء سے 83 ء تک ثناء نوری، ضیاء رحمانی، بدر عالم طیبی جیسے فرضی نام سے افسانے لکھا کرتے تھے، فراغت کے بعد یہ سلسلہ پوری طرح سے بند کردیا۔  

قلمی خدمات ۔
آپ کی قلمی و ادبی خدمات کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ بہار کے بڑے بڑے ادیبوں نے آپ پر قلم فرسائی کی ہے،  ادبی و قلمی خدمات کے اعتراف میں انجمن ترقی اردو ویشالی نے سیمینار بعنوان" مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی شخصیت اور خدمات" کیا، جو کتابی شکل میں موجود ہے۔ 
آپ نے  زندگی، سیاست اور سیادت ہر ایک پر خوب لکھا ہے ۔ بقول انوار الحسن وسطوی
   " حقیقت میں مفتی صاحب نہ نرے مولوی ہیں اور نہ خالی خولی ادیب بلکہ ایک کثیر الجہات شخصیت ہیں۔ یہ ان کی گوناگوں دلچسپیوں اور ان کی وسعت نظری کا کمال ہے کہ انھوں نے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے جس کسی شخص میں بھی کوئی خوبی دیکھی تو اس کے قائل ہوئے اور اس شخصیت کو اپنی تحریر کا موضوع بنایا۔ مفتی صاحب انسانوں میں خامیاں نہیں ڈھونڈ تے، خوبیاں تلاش کرتے ہیں۔ خود بھی ان خوبیوں سے متاثر ہوتے ہیں اور مسلسل دوسروں کو بھی ان کی ترغیب دیتے ہیں"
یوں تو آپ دار العلوم مئو اور دار العلوم دیوبند دونوں جگہ تحریری و تقریری شعبوں میں حصہ لیتے رہے، البتہ جداری پرچوں سے کتابی تصنیف تک کا سفر  دار العلوم دیوبند کے  دور طالب علمی میں ہی  طے کیا، عربی ششم میں آپ کی سب سے پہلی کتاب "فضلاء دار العلوم دیوبند اور ان کی قرآنی خدمات" منظر عام پر آگئی تھی، جس میں پیش لفظ  مولانا ریاست علی ظفر بجنوری، اور مقدمہ مولانا انظر شاہ کشمیری رحمھما اللّٰہ نے لکھا ہے۔
اس کے بعد پے بہ پے ساڑھے چار درجن سے زائد کتابیں مختلف موضوعات پر منظر عام پر آچکی ہیں، جن کی فہرست درج ذیل ہے۔
  شرح حدیث پر:
تفہیم السنن شرح آثار السنن جلد اول (1996)
تفہیم السنن شرح آثار السنن جلد دوم (ء1998)
فن فقہ پر
(3) نئے مسائل کے شرعی احکام جلد اول(2014ء)
(4) نئے مسائل کے شرعی احکام جلد دوم (2018ء)
(5) حضرت فاطمہ کے جہیز کی حقیقت (1986ء)
(6) المسائل المستجدہ فی ضوء القرآن و السنۃ ( عربی ترجمہ؛ نئے مسائل کے شرعی احکام)
      اسلامیات
(7) المنہج السلیم الی دعوۃ اللہ العظیم (عربی ترجمہ: دین کی دعوت کا آسان طریقہ)
(8) دین کی دعوت کا آسان کا طریقہ (1986ء)
(9) اذان مجاہد ( قاضی مجاہد الاسلام قاسمی کی تقریر کا مجموعہ) (2007ء)
(10) دعا عبادت بھی -حل مشکلات بھی (2017ء)
(11) عمرہ حج و زیارت - سفر محبت و عبادت (2009ء)
(12) اچھا سماج بنائیے (2013ء)
(13) اصلاح کی فکر کیجیئے ( 2010ء)
(14) حرف حرف زندگی ( 2018ء)
(15) اتحاد امت اور اختلاف رائے - اصول و آداب ( 2016ء)
      
      تعلیم و تدریس
(16) تعلیم ترقی کی شاہ کلید (2015ء)
(17) مدارس اسلامیہ میں منصب تدریس اور طریقہ تدریس (2014)
(18) عصر حاضر میں مسلمانوں کا نظام تعلیم- تجزیہ مسائل و حل۔ ( 1992ء) ہمہ گیر تعلیمی مہم میں شامل نصابی کتاب
(19) آو ہم پڑھیں ( 2009ء)
(20) خاصیات ابواب ( 1987ء)
   
   ترتیب و تدوین
(21) نامے میرے نام  (جلد اول ) (مفتی صاحب کے نام لکھے گئے خطوط کا مجموعہ (2016ء)
(22) نامے میرے نام (جلد دوم ) زیر طباعت
(23) دیوان عبد اللطیف اوج (2015ء)
(24) دیوان سراج سلطانپوری (زیر طباعت)
(25) میری سنو ( مولانا نبی اختر مظاہری کا مجموعۂ کلام) [2012ء]
(26) گلدستۂ شادمانی( سہروں کا مجموعہ)[ 1990]
(27) حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی۔تھانوی اور مولانا عبد العزیز بسنتی کے علمی مراسلے ( 2016ء)
(28) ام شمیم جرنلسٹ ۔حیات و خدمات  (1989)
(29) قومی یک جہتی ( 1990)

ادبیات - ( تاریخ و تحقیق و تنقید)
(30) نقد معتبر (2009ء)
(31) حرف آگہی (2015ء)
(32) تذکرہ مسلم مشاہیر ویشالی (2001ء)
(33) فضلائے دارالعلوم اور ان کی قرآنی خدمات ( 1980)
(34) حرف تازہ_ غزلوں کا مجموعہ ۔ ( غیر مطبوعہ)
(35) یہ سفر قبول کرلے (2020ء)
(36) بہار مدرسہ بورڈ_ تاریخ و تجزیہ ( 1992)
(37) آوازہ لفظ وبیاں (2021ء)

خاکہ
(38) یادوں کے چراغ جلد اول (2009ء)
(39) ہادوں کے چراغ جلد دوم  ( 2017ھ)
(40) یادوں کے چراغ جلد سوم  ( 2022ء)
(41) یادوں کے چراغ جلد چہارم ( 2022ء )
(42) یادوں کے چراغ جلد پنجم ( غیر مطبوعہ )
(43) دکھتی رگیں ( افسانوں کا مجموعہ) [ غیر مطبوعہ]
(44) آدھی ملاقات ( مفتی صاحب کے مکاتیب کا مجموعہ)  [ 2022ء]
(45) سی اے اے، این آر سی، اور این پی آر - حقائق، اندیشے، مضمرات ۔( 2020ء)
(46) کورونا مسائل، مصائب اور مشکلات
(47) نقطۂ نظر ( 2020ء)
(48) زاویہ نظر (2022)
(49) تماشا مرے آگے (2022ء)
(50) تذکرہ مسلم مشاہیر بہار
(51) مکاتیب شاہ علی منعمی کا تنقیدی و تجزیاتی مطالعہ ( پی ایچ ڈی کے لئے لکھا گیا تحقیقی مقالہ،غیر مطبوعہ )

آپ پر لکھی گئی کتابیں
(1)مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی شخصیت اور خدمات( ڈاکٹر مشتاق احمد مشتاق )
(2) مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی اور ان کی ادبی خدمات ( یہ ڈاکٹر راحت حسین  کے پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے، جو کتابی صورت میں شائع ہے)
(3) مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی شعراء کرام کی نظر میں۔
  (مرتب: عبد الرحیم استاذ معھد العلوم الاسلامیہ چک چمیلی سرائے ویشالی)

آپ پر لکھے گئے مضامین جو دوسری کتابوں میں شامل ہوئے۔
(1) باتیں میر کارواں کی (عارف اقبال دربھنگوی)
(2) ہندوستان کے قائدین (شمیم اختر)
(3) بہار کی بہار (مولانا وصی احمد شمسی)
(4) ضلع اردو نامہ 2022/23 (مرتب: آفتاب عالم)

ایوارڈ:
قومی ایوارڈ برائے اساتذہ۔ ( تعلیمی میدان میں قابلِ ذکر خدمات کے اعتراف میں یوم اساتذہ پربدست صدر جمہوریہ ہند کشوری رمن نارائن (5 ستمبر 2000ء)
شمس الہدیٰ ایوارڈ ۔ بدست اس وقت کے  وزیر تعلیم حکومت بہار ،جے پرکاش نارائن یادو ۔ (4اکتوبر 1997ء) 
بہار اردو اکیڈمی ایوارڈ۔ 2017ء میں آپ کی کتاب "تعلیم: ترقی کی شاہ کلید" کے منظور ہونے پر.
توصیفی سند ( بہار مدرسہ بورڈ " تاریخ و تجزیہ" کی تصنیف پر چیرمین مدرسہ بورڈ محمد سہراب نے بتاریخ 20 اپریل 1995ء میں توصیفی سند عطا کی، اور فرمایا کہ " اگر بورڈ کے دائرۂ اختیار میں پی ایچ ڈی یا کامل کی ڈگری تفویض کرنا ہوتا، تو بورڈ انہیں اس علمی کام پر مذکورہ ڈگری ایوارڈ کرتا۔" 
اس کے علاوہ سیکنڑوں سرکاری و غیر سرکاری ایوارڈ اور اعزازات سے آپ نوازے گئے۔
بیعت و خلافت 
     حضرت مولانا حکیم محمد اسلام انصاری میرٹھ خلیفۂ اجل حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب کے دست گرفتہ ہیں ۔آپ کے صلاح و تقویٰ کو دیکھ کر 1425 ھ مطابق 2005ء میں حضرت مولانا حکیم محمد اسلام انصاری نے آپ کو اجازت و خلافت عنایت فرمائی، اور ایک خط  بھیجا" جس میں کچھ یوں رقم طراز ہوئے کہ " الحمداللہ حق تعالیٰ نے آپ کو فطری طور پر قلب کی صلاحیتیں عطا فرمائی ہیں، اور بعض دفعہ فطری صلاحیت اکتسابی صلاحیت سے بڑھ جاتی ہے۔ سو الحمد للّٰہ  یہ صلاحیت ... عطیۂ حق سے موجود ہے، اسلئے مناسب ہے کہ آپ اپنی صلاحیتوں سے دوسروں کو بھی بہرہ ور فرمائیں، اور مخلوق کی دینی اور اخلاقی تربیت کی طرف توجہ فرمائیں ۔ جو بھی طالب صادق آئے اُسے توبہ  کرادیا کریں۔ کبائر و صغائر سے توبہ اور توحید ورسالت اور بنیادی عقائد کا اقرار لے لیا کریں،
بہرحال طالبین کو محروم نہ فرمائیں، میں اس کی آپ کو اجازت دیتا ہوں ۔ حق تعالٰی اکابر مشائخ  کی راہ پر چلائے، اور بر و تقوی کی توفیق دے۔ آمین"     
حج
   آپ کو چار مرتبہ سفرحج کی سعادت نصیب ہوئی، پہلی مرتبہ 1989 ء مطابق 1409ھ میں حاجی شفیع الرحمٰن صاحب گولڈن ہائیڈ ایجینسی کولکاتہ کے صرفہ سے حج پر گئے،  مفتی صاحب نے ان کے لڑکے کو حفظ  کرایا تھا، اور یہ خدمت انہوں نے فی سبیل اللہ مجانا کی تھی، حالانکہ حاجی صاحب نے پیسہ  کی پیشکش کی، تو آپ نے کہا: کہ" میں قرآن پڑھانے پر اجرت نہیں لیتا ہوں "  
شفیع  الرحمٰن صاحب نے  پوچھا  کہ اگر انعام دوں تو لیں گے ؟! تو آپ نے فرمایا کہ بالکل ، اس پر انہوں نے کہا کہ میں آپ کو ایسا انعام دوں گا کہ زندگی بھر یاد رکھیں گے، اور پھر انہوں نے آپ کو انعام کے طور پر تحفۂ حج دیا، بلکہ مفتی صاحب کے مشورے سے وہ بھی اپنے اہلیہ کے ساتھ آپ کی معیت میں حج پر گئے۔
دوسرا حج 2002ء میں ۔
2012ء میں  تیسری مرتبہ سعودی حکمران شاہ عبداللہ کی دعوت پر ضیوف الحرمین الشریفین کی حیثیت سے سفر حج بیت اللہ کا شرف حاصل کیا۔
 چوتھی مرتبہ 2019ء میں خاندان کے پانچ افراد کے ساتھ ( جن میں مفتی صاحب کی اہلیہ اور ان کے بڑے صاحبزادے مولانا محمد نظر الہدیٰ قاسمی شامل تھے)حج کے مبارک سفر پر روانہ ہوئے،اور مناسک حج ادا کئے۔
 2015ء میں شاہ سلمان کی دعوت پر آپ غسل کعبہ کی تقریب کے موقع سے عمرہ کی سعادت حاصل کی، اس سفر میں مولانا محمد قاسم مظفر پوری بھی شریک سفر تھے۔

شادی
آپ کی شادی اپنے ماموں کی لڑکی عشرت پروین  بنت محمد عمر آزاد مرحوم سے بہ مقام شاہ میاں رہوا ڈاک خانہ، سہتھا ضلع ویشالی 5  اگست 1983 ء میں فراغت کے فوراً بعد ہوگئی تھی

اولاد و احفاد
آپ کی کل نو اولادیں ہوئیں، جن میں  پانچ لڑکے ہیں، ایک لڑکا محمد نصر الہدیٰ  ولادت کے چند ماہ بعد ہی چل بسا۔ بقیہ چار حی القائم ہیں ۔
(1) محمد نظر الہدیٰ ( دارالعلوم دیوبند سے فارغ التحصیل ہیں، چچازاد بہن ناز افزاء بنت محمد ضیاء الہدی ضیاء سے نکاح ہوا، ایک لڑکا، محمد الہدیٰ صغر سنی میں ہی چل بسا، چار لڑکی خنساء ہدی، حفصہ ہدی، فاطمہ ہدی،اور زینب ہدی حی القائم ہیں۔)
(2) محمد ظفر الہدیٰ ( دار العلوم دیوبند سے فارغ التحصیل ۔ چک حبیب اللہ میں مسرت جہاں بنت مولانا عبد الحنان مرحوم سے عقد نکاح ہوا، ایک لڑکا قاسم الہدیٰ ہے)
(3) محمد فخر الہدیٰ ( سول انجینئر ہیں)کی شادی قاری بلال الدین صاحب امام جامع مسجد موتی ہاری کی صاحب زادی "ذکری"سے ہے،
 (4) محمد نصر الہدیٰ ( بچپن میں وفات)
  (5) محمد ثمر الہدیٰ  (  انجینئرہیں )ایم ٹیک کے بعد حیدرآباد سے پی ایچ ڈی کررہے ہیں۔ 
   چار لڑکیاں بھی ہیں
   (6) رضیہ عشرت ( ان کی شادی  مولانا محمد سراج الہدی ندوی ازہری سے ہوئی، انہیں دو لڑکی سعیدہ سراج اور عائشہ سراج ہیں، اور تین لڑکے  یحییٰ سراج  صہیب سراج، خبیب سراج ہیں، یحییٰ سراج کم عمری میں ہی فوت ہوگئے۔)
 (7) غازیہ عشرت (  شادی ضیاء الحق نعمانی مقام نستہ ناصر گنج سے ہوئی، ایک لڑکا ارقم ضیاء تھا،جو کینسر کے موذی مرض میں کم عمری میں ہی چل بسا، تین لڑکی  ہانیہ ضیاء  آیبہ ضیاءاور ہادیہ ضیاء ہیں۔)
  (8) شاذیہ عشرت (  شوہر: ڈاکٹر اشتیاق احمد قاسمی مقام چندیہہ وایا اورائی، ضلع مظفر پور ہیں،ان کو ایک لڑکی منیبہ ہے )
   (9) ناصیہ عشرت۔ ( جامعہ ملیہ اسلامیہ میں بی اے کی طالبہ ہیں۔
    بھائی بہن میں سب سے بڑی رضیہ عشرت ہیں۔
آپ کے کل چھ  نواسیاں دو نواسےچار  پوتیاں اور ایک پوتا سے بھرا پرا خاندان ہے۔
 میرے ذاتی تأثرات
شعور کی سیڑھی چڑھ رہا تھا، تب کئی نام ذہن ودماغ میں گھومتے تھے، انہی میں سے ایک نام مفتی صاحب مد ظلہ العالی کا تھا، سجاد لائبریری میں آپ کی اکثر کتابیں موجود تھیں،اسی لئے تحریروں کے ذریعے آپ سے ملاقات ہوتی رہی، اخبار میں بھی اکثر آپ کے مضامین دل کشا پڑھتا، تین سال پہلے 2020ء میں آپ امارت کے وفد میں شامل ہوکرہمارےعلاقے میں آئے، ہمارے گھر آپ  قدم رنجا ہوئے، میرے لئے زندگی کی سب سے بڑی آرزو کی تکمیل ہورہی تھی،گھر میں خوب سارے پکوان بنے، دسترخوان لگا،آپ نے دولقمہ کھا کر سلاد پر اکتفا کیا،اس کے بعد آپ آرام کرنے کے لئے لیٹے، تومیں نے اپنی سعادت سمجھ کر آپ کے پیر دبائے، حضرت بڑے آدمی ہیں،علم کے سمندر ہیں،ہم جیسے کہاں ذہن میں رہتے،امسال التدریب فی القضاء میں داخل ہوا،مفتی صاحب کو اپنا مضمون دیا،اورآپ نے نقیب میں اسے شائع بھی کردیا، میرے لئے یہ بڑی خوش نصیبی کی بات تھی، حضرت کی یہ صفت خورد نوازی سے میں سب سے زیادہ متأثر ہوا،مفتی صاحب طلباء کی حد سے زیادہ حوصلہ افزائی فرماتے ہیں،کہتے ہیں "کوئی ماں کے پیٹ سے بڑا بن کرنہیں آتا ہے، انہی سیڑھیوں پر گرتے پڑتے اپنا مقام پالیتا ہے،مفتی صاحب سے دن بہ دن تعلق پروان چڑھتے رہے،ذاتی طور پرمجھے اشکال تھا، کہ اس دور قحط الرجال میں رجال ساز افراد کی کمی ہے، قاضی مجاہد الاسلام قاسمی جیسی مردم ساز شخصیت اب نہیں ملتی، لیکن آپ کودیکھ کر،سن کر ذرا تشفی ہوئی،ہمارے ایک درسی ساتھی اپنی کتاب ہدیہ میں پیش کرنے گئے، تو صرف ان کی حوصلہ افزائی کے لئے آپ نے وہ کتاب پڑھی، اور اس پر شاندار تبصرہ بھی نقیب میں لکھا،اور شائع بھی ہوا۔، 
پھرمفتی صاحب کے سامنے ویکیپیڈیا اردو پر آپ کے حالات اپلوڈ کرنے کا عزم ظاہر کیا، تومفتی صاحب نے خاموش حامی بھرلی ،اورآپ نے طالب علمی کے واقعات سنائے، حالاں کہ مفتی صاحب کی خدمات کے اعتراف میں بہار کے نامور قلمکاروں نے اتنا شاندار و جامع لکھا،اور ایسے ایسے جملے استعمال کئے ہیں کہ ہم جیسے وہاں تک پہنچ ہی نہیں سکتے، خیرسے: مفتی صاحب سادگی کے پیکراورانتہائی متواضع ہیں،ان کو پڑھ سن کر جوعکس ذہن میں بسا تھا ،آپ بالکل اس کے برعکس ہیں، آپ کے کمرے میں جانا ہوا،بڑی بےتکلفی سے ناشتہ پیش کردیا، طالب علمی کے زمانے میں ڈائریاں لکھتے تھے ، یا جو تحریریں تھیں، وہ سب آپ نے اب تک محفوظ رکھے ہیں، کمروں میں کتاب ہے، دھول ہے، کچھ چیزیں یہاں وہاں پھیلی ہوئی ہیں،  میں نے اب تک اتنی بڑی شخصیت کو اس انداز اور اس سادگی میں نہیں دیکھا، ظاہری زیبائش سے بے نیاز،بناوٹ سے کوسوں دور ہیں، بزرگوں کے بارے میں جو پڑھا تھا، آپ اس کے پرتو ہیں، یا شاید امارت اور بہار کی مٹی میں ہی اللہ نے تواضع، سادگی، تصنع سے نفرت، اور بے باکی رکھی ہے، 
بہر کیف: آپ کی موجودگی ہمارے لئے بلکہ برصغیر کے لئے کسی نعمت سے کم نہیں، کچھ لوگ مرنے کے بعد ان پر رونا روتے ہیں، لیکن زندہ شخصیات سے استفادہ کرنے کا نہیں سوچتے، حضرت کی شخصیت گزرے لوگوں کی نشانی ہے، اکابر علماء کی پرچھائی ہے، آپ کی ذات بے بہا سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے، اللہ آپ کے سایہ عاطفت کو تادیر قائم رکھے۔
مقصد تخلیق پر نظر ___
Urduduniyanews72 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
ہر انسان اپنی ضروریات کے اعتبار سے تگ ودو میں لگا ہوا ہے، اسلام میں چوں کہ رہبانیت نہیں ہے اس لیے جائز حدود وقیود میں کی جانے والی سر گرمی کوبُرا کہنے کا کوئی جواز نہیں ہے ، لیکن کیا ہم جن کاموں میں صبح وشام لگے رہتے ہیں اور جن مشاغل میں رات ودن گذاردیتے ہیں، یہی زندگی کا مقصد ہے ؟ اگر اسی کو مقصد قرار دیا جائے تو معاشی تگ ودو تو پرندے ، چرندے اور جانوربھی کیا کرتے ہیں ، بلکہ وہ اس اعتبار سے ہم سے ممتاز ہیں کہ وہ دن بھر کھا پی کر رات کو سوجاتے ہیں، انہیں اللہ کے نظام رزق رسانی پر اتنا اور ایسا اعتماد ہے کہ کل کے لیے وہ کچھ نہیں رکھتے، ان کے گھونسلے اور گھروں میں کل کے لیے کوئی چیز محفوظ نہیں ہوتی، انہیں یقین ہوتا ہے کہ صبح، بھوکے پیٹ ہوگی ، لیکن اللہ بھوکے پیٹ سلائے گا نہیں ، لیکن انسان میں یہ کیفیت نہیں پائی جاتی وہ برسوں نہیں ، کئی پشتوں کے لمبے سامان راحت ومعیشت جمع کرنے کی دھن میں اپنی پوری زندگی گذار دیتا ہے اور مرتے وقت خالی ہاتھ دنیا سے چلا جاتا ہے ، اس نے جائز نا جائز طریقے پر جو دولت جمع کی تھی وہ یہیں کی یہیں رہ جاتی ہے ، لے بھی کیسے جائے، کفن میں کوئی جیب نہیں ہوا کرتی ۔
 اسی لیے اللہ رب العزت نے صاف صاف اعلان کیا کہ تمہارا اصل کام معاشی تگ ودونہیں ہے، یہ کام توہم نے اپنے ذمہ لے رکھا ہے اگر تم نے تقویٰ کے ساتھ زندگی گذاری تو رزق ہم اس طرح دیں گے جس کا تمہیں وہم وگمان بھی نہیں ہے ، اللہ رب العزت نے واضح کر دیا کہ تمہاری تخلیق صرف میں نے اپنی عبادت کے لیے کی ہے ، آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ، دنیا تمہارے لیے پید اکی گئی ہے اور تم آخرت کے لیے پیدا کیے گیے ہو، اس کا تقاضہ ہے کہ ہم اپنے سارے کام کے ساتھ مقصد تخلیق کو نہ بھولیں، ہر حال میں اللہ کی عبادت اور فکر آخرت کو زندگی کا اصل کام سمجھیں۔
 اس کو ایک مثال سے سمجھیے، موبائل آج کل ہر کس وناکس کے ہاتھ میں ہے، موبائل والے نے اللہ کی عطا کردہ عقل وخرد کا استعمال کرکے قسم قسم کے موبائل ایجاد کئے، دن بدن اس کے فنکشن اور قوت کار میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے، ایک موبائل اپنے اندر پوری دنیا رکھے ہوا ہے، آپ اس کی ساری صلاحیتوں سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں، لیکن آپ دوسرے کوئی بھی کام موبائل پر کر رہے ہوتے ہیں، کوئی مضمون کمپوز کر رہے ہیں، کسی کو اس ام اس (پیغام) بھیج رہے ہیں ، کوئی ویڈیو دیکھ رہے ہیں، کلکولیٹر پر حساب کر رہے ہیں، جیسے ہی فون آیا آپ دیکھیں گے کہ موبائل کی وہ صلاحیت وقتی طور پر رک جاتی ہے ، ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ موبائل کا اصل کام فون کرنا اور ریسیو کرنا ہے ، دوسرے سارے کام وقتی اور ضرورت کے اعتبارسے ہیں۔
یہ کیسی عجیب بات ہے کہ بے جان موبائل تو اس طرح اپنے مقصد تخلیق کا خیال رکھے اور ہم انسان جو اللہ کی سب سے بہتر مخلوق ہیں، صورتاً اور سیرتاً بھی ، اور جس کو اللہ تعالیٰ نے مکرم بنایا وہ اس حقیقت سے غافل رہے اور بھول جائے کہ اللہ نے اسے اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے اور وہی اس کا اصل کام ہے ، اگر انسان اس بات کو سمجھ لے تو وہ سارے کام اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضیات کے مطابق کرنا شروع کر دے گا اور بازار کی رونق، دوکان کی چکا چوند اور گاہکوں کی بھیڑ اسے اذان کے بعد مسجد جانے سے نہیں روکے گی ، اسے پورے طور پر اس کا خیال رہے گا کہ جب اذان ہوجاتی ہے تو سارے دروازے چاہے وہ گھر کے ہوں یا دوکان کے، بند ہوجاتے ہیں اور صرف ایک دروازہ کھلا رہتا ہے اور وہ ہے مسجد کا دروازہ۔ وہ دروازہ جہاںسے بندہ کبھی مایوس نہیں لوٹتا، آرزوئیں، تمنائیں، مرادیں لے کر جاتا ہے، اور جھولی بھرکر واپس آتا ہے،اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا کہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جنہیں تجارت کی مصروفیات اور کاروبار اللہ کے ذکر نماز وزکوٰة کی ادائیگی سے غافل نہیں کرتی، ایک اور جگہ ارشاد فرمایا کہ ان کے اموال واولاد اللہ کے ذکر میں حائل نہیں ہوتے، اللہ نے خود ہی اعلان کر رکھا ہے ، مجھ سے مانگو میں تمہیں دوں گا ، میں تمہاری شہ رگ سے بھی قریب ہوں، تمہاری ضرورتوں کے بارے میں ہم سے زیادہ کون جان سکتا ہے، بندہ کی اس سپردگی کے نتیجے میں وہ اللہ کا ہوجاتا ہے اور اللہ بندے کا اور اللہ جس کا ہوجائے اس کی تمام ضرورتیں پوری ہوتی رہتی ہیں۔

اتوار, اکتوبر 01, 2023

مدرسہ ضیاء العلوم

مدرسہ ضیاء العلوم (ضیائے حق فاؤنڈیشن) میں سوچھ بھارت ابھیان کے تحت صفائی مہم کا انعقاد
اردودنیانیوز۷۲ 
پھلواری شریف پٹنہ مورخہ 01/ اکتوبر 2023 (پریس ریلیز) مدرسہ ضیاء العلو (ضیائے حق فاؤنڈیشن) میں سوچھ بھارت ابھیان کے تحت صفائی مہم کا انعقاد کیا گیا، جس میں مدرسہ ضیاء العلوم کے چند طلبہ وطالبات نے صفائی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، اور ایک دنیا کو ایک مثبت پیغام دیا کہ انسان کی زندگی، صحت وتندرستی کا دارومدار صاف ستھرے رہنے پر ہے، اس موقع پر مدرسہ ضیاء العلوم کے اساتذہ نے بچوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے انہیں صاف ستھرے رہنے اور معاشرے کو صاف ستھرے رکھنے کی تلقین کی، اس موقع پر ضیائے حق فاؤنڈیشن کی چئیر پرسن ڈاکٹر صالحہ صدیقی نے بھی طلبہ وطالبات کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ان کی روشن مستقبل کے لئے دعا دیں،
مزید ڈاکٹر صالحہ نے یہ کہا کہ اسلام بھی ہمیں صاف ستھرے رہ کر زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھاتا ہے، قرآن واحادیث میں کثرت سے اس بات کی تلقین کی گئی ہے کہ تم اپنا ظاہر وباطن صاف ستھرا رکھو،
واضح رہے کہ ضیائے حق فاؤنڈیشن ایک بین الاقوامی ٹرسٹ ہے، جو اپنی خدمات کی بنا پر محتاج تعارف نہیں ہے، قلیل مدت میں اس نے کارہائے نمایاں انجام دیا ہے ۔

جمعہ, ستمبر 29, 2023

سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم

سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام دراصل قرآنی پیغام ہے:
Urduduniyanews72 
 محمد ضیاء العظیم قاسمی ۔
ضیائے حق فاؤنڈیشن کی جانب سے مدرسہ ضیاء العلوم میں سیرت النبی پروگرام کا انعقاد 

پھلواری شریف پٹنہ مورخہ 29/ستمبر 2023 (پریس ریلیز:محمد ضیاء العظیم ) مدرسہ ضیاء العلوم پھلواری شریف پٹنہ میں ربیع الاول کی مناسبت سے سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک خوبصورت پروگرام کا انعقاد کیا گیا، جس میں مدرسہ کے طلبہ وطالبات نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور پوری دلچسپی کے ساتھ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے حالات پر بڑے خوبصورت اور دلچسپ انداز میں اپنا اظہار خیال پیش کیا، 
پروگرام کا آغاز محمد ضیاء العظیم کی تلاوت قرآن پاک سے ہوا، قاری ابوالحسن اور عفان ضیاء نے نعت پاک پیش کیا۔
جن طلبہ وطالبات نے سیرت النبی پر تقاریر پیش کیں ان میں میراب راشد، عبد الرافع، عبدالنافع، مکرم شاہد، محمد شاہد، حذیفہ بن عرشی، علقمہ بن عرشی،تمیم شمس ،حمزہ اخلاق، نائرہ اخلاق، کا نام مذکور ہے، 
آخر میں محمد ضیاء العظیم ڈائریکٹر مدرسہ ضیاء العلوم نے سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنا اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ربیع الاول وہ بابرکت،اور تاریخی ماہ ہے جس میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت با سعادت ہوئی، اور اسی ماہ میں آپ وصال فرمائے، یقیناً آپ امام الانبیاء ہیں، اور سیدنا ابو البشر آدم علیہ السلام سے لے کر عیسی علیہ السلام تک دراصل آپ علیہ السلام کی آمد کے لئے ایک ماحول بنایا گیا تھا کہ آخر میں سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائیں گے اور ان کے آفاقی پیغامات دراصل حتمی پیغامات ہوں گے،اور یہی وہ پیغامات ہیں جن پر چل کر دنیا وآخرت کی کامیابیاں پنہاں ہیں، سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام در اصل قرآنی پیغام ہے، قرآنی تفسیر ہے، قرآنی احکام ہے، کیوں کہ رب کائنات نے واضح طور پر ارشاد فرمایا کہ :
قُلۡ اِنۡ كُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوۡنِىۡ يُحۡبِبۡكُمُ اللّٰهُ وَيَغۡفِرۡ لَـكُمۡ ذُنُوۡبَكُمۡؕ‌ وَاللّٰهُ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ
ترجمہ:

آپ کہیے اگر تم اللہ سے محبت کے دعویدار ہو تو میری پیروی کرو ‘ اللہ تمہیں اپنا محبوب بنا لے گا اور تمہارے گناہوں کو بخش دے گا اور اللہ بہت بخشنے والا نہایت رحم فرمانے والا ہے۔ 
ایک موقع پر ارشاد فرمایا،،، " وَ مَا یَنۡطِقُ عَنِ الۡہَوٰی ؕ﴿۳﴾ اِنۡ ہُوَ اِلَّا وَحۡیٌ یُّوۡحٰی ۙ﴿۴﴾ سورہ النجم 
ترجمہ ُ: " وہ اپنی خواہش سے نہیں بولتے ، یہ تو ایک وحی ہے جو اس پر نازل کی جاتی ہے" 

اس موقع پر ضیائے حق فاؤنڈیشن کی چئیر پرسن،ماہر اقبالیات ڈاکٹر صالحہ صدیقی اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو سمستی پور کالج نے تمام بچوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ان کے اچھے مستقبل کے لئے دعائیں دیں، فاؤنڈیشن کے برانچ اونر پٹنہ وڈائریکٹر مدرسہ ضیاء العلوم نے دعا کے ساتھ اس پروگرام کے اختتام کا اعلان کیا ۔
واضح رہے کہ ضیائے حق فاؤنڈیشن کی بنیاد انسانی فلاح وترقی، سماجی خدمات، غرباء وفقراء اور ضرورتمندوں کی امداد، طبی سہولیات کی فراہمی، تعلیمی اداروں کا قیام، اردو ہندی زبان وادب کی ترویج وترقی، نئے پرانے شعراء وادباء کو پلیٹ فارم مہیا کرانا وغیرہ ہیں، فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام صوبہ بہار کے دارالسلطنت شہر پٹنہ کے پھلواری شریف  میں ضیائے حق فاؤنڈیشن کا برانچ اور ایک مدرسہ کاقیام ،، مدرسہ ضیاء العلوم،،عمل میں آیا ہے، جہاں کثیر تعداد میں طلبہ وطالبات دینی علوم کے ساتھ ساتھ ابتدائی عصری علوم حاصل کر رہے ہیں ۔

بدھ, ستمبر 27, 2023

تسمیہ جونیئر ہائی اسکول

تسمیہ جونیئر ہائی اسکول میں سیرت نبی پر نعتیہ مقابلہ منعقد کیا گیا
Urduduniyanews72 
 اسلامی کیلنڈر میں ربیع الاول کا مہینہ مسلمانوں کے نزدیک خاص اہمیت رکھتا ہے۔ اس مبارک مہینے میں ہمارے پیارے پیارنبی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہِ وسلّم  اس دنیا میں تشریف لائے ہیں۱۲ ربیع الاول ہمارے پیارےنبی کی پیدائش کا دن ہے اور حضور پر
درودوسلام کا نظرانہ پیش کیا جاتا ہے۔
 ہمارے اسکول تسمیہ جونئیر ہائی اسکول میں بھی ۱۲ ربیع الاول کو ایک نعتیہ مقابلہ منعقد کیا گیا جس میں اسکول کے بچوں نے بہت جوش و خروش کے ساتھ حصہ لیا پروگرام میں حصہ لینے والے بچوں کے نام درج ذیل ہیں۔ درجہ۴ سے زویا، جو بیر یاء زین زویا عباسی، علمان عظیم سمارا، عبد الصمد، زویا قریشی، شفاء درجہ ۵ کے شفاء ، آمنہ، عائشہ، عالیہ شہزیل نبیہ، ضیاء درجہ۶ جی سے اقرا ،منتشا ، نبیہ، ارم ، حفصہ، ضیاء، نمراء علماء ، درجہ ۷جی  سے رافعہ، زویا زنیرا ،عمرہ ،سدرہ، ، گل افشان، درجہ ۸ جی سے سارا ، سعدیه، زویا، اقراء، زنیرا، وجیبه،سنا،شبینہ، درجہ۷ کے بی سے ریان، عمار، وارث کلیم، درجہ ۳ سے فاطمہ نے اپنے پیاری پیاری آوازوں میں نعتیہ کلام پیش کیا۔ پروگرام کی صدارت اسکول مینجرسید اعجاز صاحب نے کی ہمارے اسکول کے پرنسپل جاوید مظہر کی زیرنگرانی اسپورٹ کلب کی سر براہ لائقہ عثمانی سیدہ عباس، امرین اور محمد شوکت سر کی کاوشوں سے پروگرام کامیاب رہا دیگر تسمیہ اسٹاف نے بھی بھر پور تعاون کیا۔
 پروگرام کے اختتام پر جاوید مظہر پرنسپل تسمیہ جونیئر ہائی اسکول نے بچوں کو پیارے نبی کی سیرت کے بارے میں بتایا انھوں نے کہا ہمیں پیارے نبی کے بتائے ہوئے راستے پر چلنا چاہیے انکے اخلاق کو اپنی زندگی میں اپنانا چاہیے اگر ہم ان کی سنتوں پر چل کر زندگی گزاریں گے تو ہمیشہ کامیابی ہمارا مقدر ہو گی سید اعجاز احمد نے بھی پیارے نبی کے بارے میں بچوں کو بتایا اور پیارے نبی کی زندگی پر روشنی ڈالی۔ اول ، دوم اور سوم آنے والے طلبہ کو انعامات سے نوازا گیا۔اوّل رہی درجہ ۸ کی شبینہ،دوم رہی درجہ۶سے یوسرا،سوم رہی درجہ ۸ سے سنا کو انعامات سے نوازا گیا۔

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

درس رحمت دینے والے نبی رحمت 
Urduduniyanews72 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ
ربیع الاول کا مہینہ اس عظیم رسول ونبی کی ولادت با سعادت کے حوالہ سے جانا اور پہچانا جاتا ہے جس سے بہتر انسان اس روئے زمین پر نہیں آیا ،ہمارا ایمان تمام انبیاءورسل پر ہے اور ہم سب کی عظمت وفضیلت کے قائل ہیں ،یہ ہمارے ایمان مفصل اور ایمان مجمل کا حصہ ہے ،لیکن اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسولوں میں بعض کو بعض پر فضیلت دی اور ہمارے آقا ومولیٰ فخر موجودات،سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام انبیاءکا سرداراورسیدالمرسلین والاولین والآخرین بنایا ،آپ کے اوپر سلسلہ ¿ نبوت کا خاتمہ فرمایا،معراج کی رات مسجد اقصیٰ میں انبیاءکی امامت کرائی؛ تاکہ سب انبیاءپر آپ کی فضیلت پورے طور پر کھل کر سامنے آجائے ،ایسی فضیلت کہ انبیاءبھی اس امت میں آنے کی تمنا کرنے لگیں ،آپ کو یہ فضیلت بھی عطا ہو ئی کہ سارے جہاں کا رسول بنا کر آپ کو بھیجا گیا ،قرآن کریم جیسی رحمت وہدایت والی کتاب آپ کو دی گئی،آپ ﷺ سے پہلے جتنے انبیاءورسل آئے سب مخصوص علاقے مخصوص زمانے اور بعض مخصوص قبائل کے لئے تھے ،اللہ رب العزت نے اپنے محبوب کو اعلان کرنے کے لئے فرمایا: کہہ دیجئے اے لوگو! میں تمام لوگوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں ،آپ کی شان میں یہ بھی ارشاد ہوا کہ آپ سارے جہاں کیلئے رحمت بنا کر بھیجے گئے ،سارے جہاں میں انسان وجن ہی نہیں، شجرو حجر، نباتات وجمادات،حیوانات اور تمام بری وبحری مخلوقات بھی شامل ہیں ،اس کامطلب یہ ہے کہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم سب کیلئے رحمت ہیں ،اور آپ کی رحمت سب کو محیط ہے۔
رحمت کی اس عمومیت کااندازہ اس بات سے لگا یا جا سکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے ہر طرف ظلم وجور کا بازار گرم تھا، انسان انسان کے خون کا پیاسا تھا ،قبیلے آپس میں دست وگریباں تھے،عربی عجمی اور کالے گورے کے نام پرخود ساختہ برتری کے پیمانے وضع کر لئے گئے تھے ،اس کی وجہ سے انسانوں میں طبقاتی جنگ نے عروج پکڑ لیا تھا،حق وہ سمجھا جاتا تھا جواس قبیلے کے کسی فرد کے ذریعہ صادرہوا ہو،خواہ وہ ظلم وستم کے زمرے میں کیوں نہ آتا ہو،برائیاں عام تھیں اور اخلاق حسنہ کا وجود کم ترہوگیا تھا،عورتوں کے اوپر ہر طرح کا ظلم کیا جاتا تھا ،بلکہ بہت سارے قبائل میںلڑکیوں کو زندہ درگور کرنے کا رواج تھا،ہنستی کھیلتی زندگی کو زندہ مٹی میں دفن کر دینا انسانی شقاوت وبدبختی کی انتہا تھی،لڑائیاں ہوتیں توانسانوں کے ساتھ پورے علاقہ کو تاراج کردیا جاتا ،شریف انسان غلامی کی زنجیروں میں جکڑ دیے جاتے،اور بالکل وہ منظر ہوتا جس کا نقشہ قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے کھینچاہے کہ جب شاہان وقت کسی آبادی پر غلبہ حاصل کرتے ہیں تو آبادی میں فسادو بگاڑ پیدا کرتے ہیںاوروہاں کے شرفاءکو ذلیل ورسواکر کے چھوڑتے ہیں، ان لڑائیوں میں جانور،درخت ،کھیت کھلیان اور فصلوں کو بھی تباہی کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔
ان حالات میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں تشریف لائے،چالیس سال تک اپنی پاکبازی، کردار کی بلندی، امانت ودیانت کی رفعت کانمونہ اس طرح پیش کیا کہ مخالفین بھی آپ کو صادق اور امین کہا کرتے، آپ کی بے داغ جوانی اور اعلی اخلاقی کردارکی شہادت دیتے،وہ ایمان اور کلمہ کے مسئلہ پر مذبذب رہے،کیونکہ اس کلمہ کے اقرار سے ان کی ریاست اور چودھراہٹ کو خطرہ محسوس ہوتا تھا؛ لیکن کبھی کسی نے ان کے کردار پر انگلیاں نہیں اٹھائیں۔چالیس سال بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان نبوت کیا ،مخالفین کے سب وشتم اور نازیبا حرکات کو سنااور سہا، یہ رحمت ہی کی ایک قسم ہے کہ آپ نے قدرت کے باوجود اور بارگاہ الٰہی سے مقبولیت کے یقین کے باوجود ان کے لئے کبھی بد دعانہیں کی ،حد یہ ہے کہ طائف کی گلیوں میں جب پائے مبارک لہو لہان ہوئے ،موزے خون سے بھر گئے ،اوباشوں نے آپ کو پتھر مارا ،اس وقت بھی آپ نے ان کے لئے دعائیں کیں ،اے اللہ اس قوم کو ہدایت دے، وہ مجھے نہیں جانتی اور اس توقع کا اظہار کیا کہ شاید اس قوم سے کوئی فرد دین رحمت میں داخل ہو جائے ،جنگ کے بعد قیدی مسجد کے ستون سے بندھے ہوئے ہیں،بندش کی سختی کی وجہ سے قیدی کراہ رہے ہیں، آپ کی آنکھوں سے نیند غائب ہے،جب تک بندش ڈھیلی نہیں کی گئی آپ کو سکون نہیں ملا۔
فتح مکہ کے موقع سے سارے دشمن سامنے تھے ،عرب روایات کے مطابق انہیں قتل بھی کیا جاسکتا تھا اور غلام بھی بنایا جا سکتا تھا ،لیکن رحمت للعالمین نے اپنی شان رحمت کا مظاہرہ کیا اوراعلان کردیا کہ آج تم لوگوں سے کوئی داروگیر اور مو ¿اخذہ نہیں، تم سب لوگ آزادہو، اتناہی نہیں حضرت ابو سفیانؓ جو اسوقت تک ایمان نہیں لائے تھے، ان کے گھر میں داخل ہونے والے کو بھی امان دے دیا، ہندہ؛ جس نے حضرت حمزہ کا مثلہ کروایاتھا ان کے کان ناک کٹوائے تھے، کلیجی گردہ کو کچا چبا کر اپنی قسم پوری کی تھی، آپ کی شان رحمت نے اس کو اپنے جلو میں لے لیا، کیا شان رحمت تھی آپ کی،کوئی دوسرا ہوتا تو چن چن کر بدلہ لیتا کہ یہی زمانے کی روش رہی ہے ،آپ نے سب کو معاف کر کے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ اسلام دین رحمت ہے ،یہاں امن ہے شانتی ہے،سکھ ہے، چین ہے اور دشمنوں کو بھی معاف کرنے کا وہ جذبہ ہے جو کسی اور مذہب میں نہیں پایا جاتا ۔
انسانوں میں غلاموں اور باندیوں کی زندگی اجیرن تھی، وہ جسم وجثہ کے اعتبار سے انسان تھے ،لیکن ان کی زندگی جانوروں سے بد تر تھی، ان کی اپنی کو ئی زندگی نہیں تھی وہ آقاہی کے لئے جیتے اور مرتے تھے ،پوری وفا داری اور خدمت کے باوجود انہیں ظلم وستم کاسامنا تھا ،آقا صلی اللہ علیہ وسلم ان کے لئے بھی رحمت ثابت ہوئے،آپ نے مختلف طریقوں سے لوگوں کو غلامی کی زنجیروں سے نکالنے کا کام کیا ،کبھی فدیہ کے طور پر لکھانے پڑھانے کاکام لے کر، کبھی قسم ،ظہار وغیرہ کے کفارہ میں آزاد کرنے کا حکم دے کر ،عمومی حکم یہ دیا کہ غلاموں کا خیال رکھو ،جو خود کھاﺅ اسے کھلاﺅ،اوراسے ایسا ہی پہناﺅ جیسا تم پہنتے ہو،اس سے طاقت سے زیادہ کام نہ لو ،آپ نے حضرت زیدؓ کے ساتھ حسن سلوک کرکے دکھلایا ،جس کے نتیجہ میں حضرت زید ؓ نے اپنے والدین کے ساتھ جانے کی بہ نسبت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں رہنا پسند کیا۔
عورتوں پر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت سایہ فگن ہوئی تو حکم دیا کہ عورتوں سے بہتر سلوک کرو،وہ تمہارے ماتحت اور تمہارے حکم کی پابند ہیں ،تم دونوں پر ایک دوسرے کے حقوق ہیں، کسی کے حق کی ادائیگی میں کوتاہی نہ کی جائے،اور حسن سلوک کے ساتھ ان سے پیش آﺅ،اگر تم امساک بالمعروف نہ کر سکو تو ان کے ساتھ حسن سلوک کرکے چھوڑ دو،تاکہ وہ اپنی زندگی اپنے انداز میں جی سکیں یا دوسری شادی کر کے نئے سفر کا آغاز کر سکیں ،زمانہ ¿ جاہلیت میں بیوہ عورت منحوس سمجھی جاتی تھی ،آپ نے حضرت عائشہ ؓ کے علاوہ بیوہ اور مطلقہ عورتوں کو اپنے نکاح میں لے کر امت کو پیغام دیا کہ بیوہ اور مطلقہ عورتیں منحوس نہیں ہیں ،شوہر کے مر جانے اور بعض دفعہ نباہ نہ ہونے سے طلاق پڑ جائے تو ان کی دلجوئی ،خبر گیری کی جتنی شکلیں ممکن ہیں، اختیار کی جائیں اور انہیں بے سہارا نہ چھوڑا جائے۔
آپ نے بچوں پر رحم کرنے کا بھی حکم دیا ،ان کی اچھی تعلیم وتربیت پرجنت کی بشارت دی ،ان کا نفقہ باپ کے سر رکھا، تاکہ انہیںبال مزدوری سے بچایا جائے،اور ان کے بچپن کی حفاظت کی جاسکے ،ان کے اچھے نام رکھنے کی تلقین کی اور بچوں کو بے سہارا چھوڑنے کو پسند نہیں فرمایا ۔انہیں جینے کا حق دیا اور ان کو روزی میں تنگی کے خوف سے ہلاک کرنے سے منع فرمایا۔
یتیموں کی کفالت کو کار ثواب قرار دیا اور فرمایا کہ میں اور یتیموں کی کفالت کرنے والا ہاتھ کی دو متصل انگلیوں کی طرح قیامت میںساتھ ہوں گے،خود آپ نے یتامیٰ کی سر پرستی کی اور عید کے دن ایک روتے بچے کو گلے لگا کر ہمیں سبق دیا کہ ان کی کفالت کی فکر کرو ،ان کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھو ،یہ ہاتھ رکھنا قیامت میں تمہیں کام آئے گا ۔
آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت جب جانوروں کی طرف متوجہ ہوئی تو بلا وجہ انہیں ہلاک کرنے سے منع کیا، اگرگوشت کھانے کے لئے انہیں ذبح کرنا ہے توایسا طریقہ اپناﺅ کہ اسے کم از کم تکلیف ہو،اگر جانور نقل وحمل کے لئے رکھے گئے ہوںتو اس پر اسکی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ لادو،ایک اونٹ کی بلبلاہٹ سن کر آپ سمجھ گئے کہ اس کامالک اس پر زیادتی کرتا ہے ،اونٹ کے مالک انصاری صحابی کو بلا کر فرمایا کہ اللہ رب العزت نے ان جانوروں کو تمہارا محکوم بنایا ہے؛اس لئے ان جانوروں پر رحم کرو،نہ توا نہیں بھوکا رکھو ،اور نہ ہی ان کی طاقت سے زیادہ کام لو،ایک بار حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے چڑیا کے دو بچوں کو پکڑ لیا ،چڑیا چِلّانے لگی ،آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ان بچوں کو ان کی جگہ پر رکھ آو ¿،آپ نے ارشاد فرمایا کہ ایک فاحشہ نے اپنے موزہ میں بھر کر کتے کو پانی پلایا تواس کی بخشش ہو گئی،اور ایک عورت نے بلِّی کو باندھ کر رکھا ، کھاناپینا نہیں دیا ،بالآخر وہ مر گئی تواس عورت کو اسکی وجہ سے اسے جہنم کا مستحق قرار دیا گیا ،یہ واقعات بتاتے ہیں کہ جانوروں پرآپ کی شفقت و رحمت کس قدر تھی ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جائے گا ،تم زمین والوں پر رحم کروآسمان والا تم پر رحم کرے گا ۔درختوں کو بلا ضرورت کاٹنے اور جنگ کے موقع سے انہیں برباد کرنے سے بھی منع کیا گیا ،کیونکہ یہ ہمارے لئے ماحول کے تحفظ کا بڑاذریعہ ہیں ،فرمایا گیا کہ اگر قیامت قائم ہو جائے اور تمہارے پاس اتنی مہلت ہو کہ تم ایک پودا لگا سکتے ہو تو لگا دو ،پھلدار درخت لگانے والوں کی اہمیت بیان کرتے ہوئے ارشاد ہو اکہ جس درخت کے پھل سے انسانوں نے اور پتوںسے جانوروں نے فائدہ اٹھایا تو یہ صدقہ ہے ،اور ایسی تمام کوشش جس سے ماحول خراب ہو، فضائی آلودگی پیدا ہو” فساد فی الارض “کے قبیل سے ہے۔ماحولیات کے تحفظ اور ہر قسم کے جاندار کے لئے پانی کی اہمیت ظاہر ہے،حکم دیا گیا کہ اسے ناپاک نہ کرو ،پینے اور دوسری ضرورتوں کے لئے اسے پاک وصاف رکھو ،پانی میں پیشاب نہ کرو، سو کر اٹھو تو بغیر ہاتھ دھوئے پانی کے برتن میں ہاتھ مت ڈالو ،پانی پیتے وقت برتن میں سانس مت لو ،مشکیزے ،گھڑے اور پانی کے برتن کو ڈھانک کر رکھو،یہ ہدایات ہر اعتبار سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شفقت ورحمت کا مظہر ہیں،رحمة للعالمین ہونے کا سب سے بڑا مظاہرہ قیامت کے دن ہوگا، جب سارے انبیاءکرام بخشش کے لیے سفارش اور شفاعت سے انکار کردیں گے ، سارے انسان پریشان ہوں گے، ہر آدمی اپنے گناہوں کے بقدر پیسنے میں ڈوبا ہوگا، نفسی نفسی کا عالم ہوگا، نہ بیٹا باپ کا ہوگا، نہ بیوی شوہر کی ہوگی، ہر آدمی سراسیمہ اور حواس باختہ ہوگا، ایسے میں آقا صلی اللہ علیہ وسلم امت کی شفاعت کے لیے بار گاہ الٰہی میں سر بسجود ہوں گے اور وہ سب کچھ مانگیں گے جو اللہ رب العزت ذہن ودل میں ڈالیں گے اور پھر خوش خبری سنائی جائے گی کہ گناہگاروں کو بخش دیا گیا اور جس شخص کے دل میں رائی کے برابر بھی ایمان ہوگا وہ اس شفاعت سے سوئے جنت روانہ ہو سکے گا، اس طرح آپ کی رحمت سے اللہ کی مخلوق دنیا میں بھی مستفیض ہو رہی ہے اور آخرت میں بھی شفاعت کام آئے گی۔

پیر, ستمبر 25, 2023

پروفیسر نجم الہدیٰ __ہم تجھے بھلا نہ پائیں گے
  مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی 
Urduduniyanews72 
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ 
علم وعمل ، صلاحیت وصالحیت ، تواضع وانکساری، خوش خلقی وسادگی ، ذہانت وطباعی، حاضر دماغی وحاضرجوابی، خود داری ومتانت، محبت رسول، خشیت خدا وندی اور حضرت ابو ہریرہؓ کی کنیت کی وجہ ظاہری کے ساتھ گداز جسم ، کشادہ پیشانی ، آنکھیں بڑی ، چشمے سے سجی، ناک کھڑی ، گیسو کا نوں کا بوسہ لیتے ہوئے ، متبسّم چہرے پر خوبصورت شرعی ڈاڑھی، رنگ گندمی مائل بہ سر خی ، پاؤں میں موزے پر خوبصورت جوتے، پینٹ شرٹ یا شروانی ، کرتا ، پائجامہ ، ٹوپی یہ حلیۂ ظاہری اوراوصاف باطنی کسی آرٹسٹ، مصور اور مجسمہ ساز کو دیدیجئے جو تصویر ابھرے ، جو مرقع بنے اورجو پیکر ڈھل کر آئے اس کو سامنے رکھیے تو آپ بے اختیار پکار اٹھیں گے کہ یہ تو ہم سب کی محبوب شخصیت ، استاذ ، شاعر، ادیب اور نقاد پروفیسر نجم الہدیٰ کی تصویر، مرقع اور مجسمہ ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ اس دور میں جب اعلیٰ اخلاقی اقدار کو شکست وریخت کا سامنا ہے ، آدمی کی بد اعمالیوں کی وجہ سے انسانیت خطرے میں ہے، پروفیسر نجم الہدیٰ کی شخصیت اس پرانی وضع کی یاد دلاتی تھی ، جس میں خلوص ومحبت کی فراوانی تھی اور جن کو دیکھ کر انسانیت پر اعتماد قائم ہوتا تھا اور احساس ہوتا تھا کہ   ؎
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں 
پروفیسر نجم الہدیٰ (ولادت۲؍ اگست ۱۹۳۷ء) بن نور الہدیٰ ضبطؔ بن صاحب رضا بن محمد حسین نے اپنے نانا خان بہادر محمد جان صاحب ایڈوکیٹ کے گھر موتی ہاری میں آکھیں کھولیں ، ان کی ولادت سے قبل کئی بھائی صغرسنی میں دنیا سے جا چکے تھے ، اس لیے فطری طور پر نجم الہدیٰ کی پرورش انتہائی ناز ونعم میں ہوئی ، رسم بسم اللہ والدہ نے ادا کرائی اور قاعدہ بغدادی انہیں سے پڑھا ، ابتدائی تعلیم کے لیے جن اساتذہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا ان میں محمد ہاشم اور حافظ امین الدین کے نام قابل ذکر ہیں ، انگریزی کی تعلیم کا آغاز والد محترم نور الہدیٰ ضبطؔسے کیا ، اور زبان کا درک وشعور ماسٹر عبد الباری اور ماسٹر اسرار الحق صاحب کی توجہ سے حاصل ہوا ، ہائی اسکول کی تعلیم شروع تو عابدہ ہائی اسکول مظفر پور میں ہوئی، لیکن والد کے بسلسلۂ ملازمت تبادلہ کی وجہ سے میٹرک کا امتحان ضلع اسکول بھا گل پور سے پاس کیا ، ۱۹۵۴ء میں انٹر ٹی،ان بی کالج بھاگلپور اور ۱۹۵۶ء میں ال، اس کالج مظفر پور سے بی ۔ اے آنرس اردو میں کیا اور دوسری پوزیشن حاصل کی ، میرے والد محترم ماسٹرمحمد نور الہدیٰ یہیں ان کے رفیق درس رہے ،جس کا ذکر انہوں نے اپنے مضمون ’’مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی ۔بڑے عالم ، بڑے ادیب ‘‘ میں کیا ہے ، رفاقت کی یہ یادیں آج بھی پروفیسر صاحب کے ذہن میں تازہ تھیں اور اس حیثیت سے مجھے عزیز رکھتے ہی نہیں، لکھتے بھی تھے۔ 
ایم اے کی تعلیم کے لیے وہ پٹنہ منتقل ہو گیے، ۱۹۵۸ء میںا نہوںنے پٹنہ یونیورسٹی سے ام ، اے کیا اور یونیورسٹی میں تیسری پوزیشن حاصل کی ، کلیم عاجز اور مظفر اقبال یہاں ان کے ہم درس تھے دونوں نے علی الترتیب پہلی دوسری پوزیشن پر قبضہ کر لیا ، بعد میں انہوںنے بہار یونیورسٹی سے ام اے فارسی ۱۹۴۱ء میں کیا اور گولڈ مڈلسٹ قرار پائے، ۱۹۷۱ء میں اسی یونیوسٹی سے ال، ال، بی کیا اور ۱۹۷۳ء میں پروفیسر اختر قادری کی زیر نگرانی ’’اردو مثنویوں میں کردار نگاری‘‘کے موضوع پر اپنا تحقیقی مقالہ مکمل کرکے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔
تلاش معاش میں وہ مختلف جگہ کے چکر کاٹتے رہے ، بالآخر قرعۂ فال ۱۹۶۱ء میں ملت کالج دربھنگہ کے نام نکلااور وجہ ظاہر پروفیسر اجتبیٰ رضوی کے اس شرط کی تکمیل ٹھہری کہ’’ تم فارسی میں فرسٹ کلاس فرسٹ لے کر آؤ اور اردو فارسی کے لکچرر بن جاؤ‘‘، نجم الہدیٰ صاحب نے یہ کر دکھایا اور ان کی ملازمت پکی ہو گئی ، کالج میں تدریس کے علاوہ یہاں وہ صحافت سے بھی وابستہ ہوئے اور قومی تنظیم دربھنگہ کی ادارت کے فرائض انجام دیتے رہے ، ۱۹۶۲ء میںبہار پبلک سروس کمیشن کے ذریعہ ال، اس کالج مظفر پور میں لکچررکی حیثیت سے تشریف لائے، ۱۹۷۲ء میں لکچرر سے ریڈر کے عہدہ پر ترقی ہوئی، ۱۹۷۷ء میں انہوں نے کالج سے طویل فرصت لے لی اور مدراس یونیورسٹی کا رخ کیا، یہاں شعبہ عربی ، فارسی اردو میں ریڈر کی حیثیت سے کام سنبھالا، بعد میں صدر شعبہ ہو گیے اور اس شعبہ کو علمی دنیا میں اعتبار واعتماد بخشا ، بارہ سال تک مستقل یہاں مقیم رہے ، یہ دور پروفیسر نجم الہدیٰ صاحب کی شخصیت کی تشکیل میں بڑا اہم ہے ، توانائی ، فرصت وفراغت کا صحیح اور بھرپور مصرف لے کر انہوںنے علمی اکتسابات ، تنقیدی مقالات اور انجمن ترقی اردو کی خدمات کے ذریعہ علمی دنیا میں اپنا مقام بنا لیا ، یہی وجہ ہے کہ ۲۴؍ نومبر ۱۹۸۸ء کو جب اپنی فرصت کی تکمیل کے بعد وہ مدراس سے روانہ ہوئے تو ان کی جدائی پر سارا شہرہی نہیں ؛پورا تامل ناڈوسوگوار تھا 
یکم دسمبر ۱۹۸۸ء کو پروفیسر صاحب نے بہار یونیورسٹی میں شعبۂ اردو جوائن کر لیا ، بعد میں وہ اس شعبہ کے صدر قرار پائے، ۳۱؍ اگست ۱۹۹۸ء کو وہ ڈین فیکلٹی آف ہیومنٹیز کی حیثیت سے سبکدوش ہوگیے ، اس دوران انہوں نے بہت نشیب وفراز دیکھے ، بعض معاملات میں عدالتوں کے چکر بھی لگانے پڑے ، ان کی تقویم حیات میں ۵؍ دسمبر ۱۹۵۵ اور ۲۱؍ فروری۱۹۷۲ء کا دن انتہائی غم ناک ہے جب ان کی والدہ اور والد نے اس دنیا سے رخت سفر باندھا ، خوشی کے ایام بھی بہت آئے ، لیکن ۱۹۷۱ء کا سال اس اعتبار سے مسرت آگیں کہ اسی سال جناب عبد المغنی صدیقی (م۲۶؍ جولائی ۲۰۰۱ء) ساکن ابا بکر پور کواہی ویشالی کی صاحب زادی ماجدہ صدیقی سے رشتۂ ازدواج میںمنسلک ہوئے ، یہ شادی اصطلاحی طور پر ثمر آور تو نہیں ہو سکی لیکن اس رشتہ سے ان کی زندگی میں محبت والفت کے نئے باب کھلے ، سکون وطمانینت نے خیمے ڈالے ،جس کی وجہ سے علمی کاموں کے کرنے کی فضا برابر ہموار رہی۔
ضابطہ میں پروفیسر صاحب سبکدوش ہوگیے تھے ، لیکن ایمان والا کبھی سبکدوش نہیں ہوتا ، وہ صاحب عشق ہوتا ہے ، اور مکتب عشق میں کبھی چھٹی نہیں ہوتی؛ بلکہ جو سبق یاد کرتا ہے اس کی مشغولیت اور بڑھ جاتی ہے ، پروفیسر صاحب بھی مشغول تھے، ان کے تخلیقی سوتے خشک نہیں ہوئے تھے ؛بلکہ پہلے سے کہیں زیادہ تیزی سے رواں تھے ، ادب اور تنقید نگاری کے ساتھ ذکر وفکر کا اضافہ ہو گیا تھا جو کسی نہ کسی شکل میں زندگی کے ہر دور میں ان سے لگا رہا تھا۔ ذکر کے ساتھ تصوف کے مراحل طے ہو رہے تھے اور اب صورت حال یہ تھی کہ ؎
تم میرے پاس ہوتے ہو گویا 
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا 
اور پروفیسر صاحب ، بزبان حال یہ کہتے رہتے تھے کہ ؎ 
ہر تمنا دل سے رخصت ہو گئی 
اب تو آجا اب تو خلوت ہو گئی
ادب شاعری اور تنقید کے حوالے سے پروفیسر صاحب کی خدمات کا دائرہ وسیع بھی تھا اور عمیق بھی ، شاعری انہوںنے دور طالب علمی سے شروع کیا تھا، خاموشی سے لکھتے رہتے تھے، اصلاح لینے کا شوق نہیں تھا ، تلمیذ الرحمن بن کر ہی رہنا چاہتے تھے ، لیکن والد گرامی قدر جو خود بھی شاعر تھے ، انہیں بھنک لگ گئی ، خود اصلاح کرنے لگے اور چھپوا نے کا کام بھی اپنے ذمہ لے لیا ، اس طرح پروفیسر صاحب کی تخلیقات منظر عام پر آنے لگیں ، حمد ، نعت، غزلیں ، نظمیں سبھی صنف میں انہوں نے طبع آزمائی کی ، لیکن ان کا کوئی مجموعۂ کلام اب تک سامنے نہیں آسکا ہے ، رسائل میں بکھرے ان قیمتی سرمایوں پر نقادوں کی نظریں بھی کم پڑیں ، اس لیے ان کی شاعری کے قدروں کی تعیین ہنوز نہیں ہو سکی ہے ، ڈاکٹر ثریا جہاں نے اپنے پی اچ ڈی کے مقالے میں ان اشعار کو جمع کرنے کی جو کوشش کی ہے وہ قابل قدر ہے، ظاہر ہے یہ کل سرمایہ نہیں ہے ، لیکن جتنا کچھ جمع ہو گیا ہے ؛ اس پر نظر ثانی اور ترتیب کی تبدیلی کے ساتھ شائع کر دیا جائے تو یہ بھی بڑا کام ہوگا اور ادبی سرمایہ میں قیمتی اضافہ بھی۔
جو شعری سرمایہ سامنے آیا ہے ،اس کے بارے میں بس اتنا سمجھ لیجیے کہ پروفیسر صاحب کی شاعری میں فرد کی ذاتی زندگی غالب ہے، غم والم کی وہ کیفیت جس سے انسانوں کو ذاتی زندگی میں سامنا کرنا پڑتا ہے ، چاہے وہ محبوب شخصیتوں کی جدائی کا غم ہو ، یا عشق ومحبت میں ناکامی کا ، زندگی کی شاہ راہ پر بے وفائی کے صدمے ہوں ، یا ملازمت ومنصب کی کش مکش ، سبھی کی نمایاں جھلک ان کی شاعری میں ملتی ہے ، لیکن یہ داستان رقم کرتے وقت انہیں اپنی عزت نفس کا بھی خیال رہتا ہے اور محبوب کی عزت وناموس کا بھی ، اس لیے ان کے یہاں چاک گریباں اور دامن تار تار کرنے کی نوبت کبھی نہیں آتی ، الفاظ اتنے جنچے تُلے ہوتے ہیں کہ واردات قلبی اور کیفیات باطنی کے اظہار میں کمی نہیں رہ جاتی ؛ لیکن ہر حال میں ان کا محبوب مستور رہتا ہے ، کھل کر سامنے نہیں آتا ، اس کے سراپا پر ایک چلمن ہوتا ہے اور قاری کو لگتا ہے کہ پروفیسر صاحب کا محبوب چلمن سے لگا بیٹھا ہے ، تصورات کی دنیا میں ہم اپنے اپنے طور پر اس کا سراپا کھینچ سکتے ہیں ، لیکن پروفیسر صاحب اس کا سراپا کھینچ کر اسے سر عام بر ہنہ اور رسوا نہیں کرنا چاہتے ، یہ ان کی خرابی نہیں ، فن کی تکنیک ہے ، ان کی پر اثر خاموشی بھی افشاء راز کا کام کرتی ہے اور یہ خاموشی’’گفتنی‘‘ اور بے زبانی ’’زبان‘‘ بن جاتی ہے پروفیسر نجم الہدیٰ کی شاعری میں فن کاری ، جمالیاتی شعور اور تجربے کی پختگی کا احساس ہوتا ہے ۔ ان کی حمد میںجو خیالات ہیں اور نعتوں میں جو فکر ہے ، وہ ان کی اسلامی بصیرت ،رموز کائنات میں غیر معمولی غور وفکر کا نتیجہ ہے ، قرآن نے آفاق وانفس میں غور وفکر کی جو دعوت دی ہے ، اس کو پروفیسر صاحب نے برتا ہے اور اس برتنے کے نتیجے میں جہاں تک پہونچے وہ اشعار میںڈھل گیے ہیں ۔ اظہار عبدیت اور بندگی کا ایسا حسین انداز کم شاعروں کے یہاں ملتا ہے ۔ وہ جب نعت رسول لکھتے ہیں تو انہیں نبوت کے مقام عالی کا پورا پورا خیال رہتا ہے ، وہ نبوت کے سرے الوہیت سے نہیں ملاتے ، بلکہ دونوں کے مدارج کا خیال رکھتے ہیں ، نعت نگاری میں یہ پل صراط سے گذر نے جیسا عمل ہے ، بعض اشعار کو نظر انداز کیجیے تو معلوم ہوگا کہ پروفیسر نجم الہدیٰ نے یہ مشکل کام آسان کر دکھایا ہے ۔ 
پروفیسر نجم الہدیٰ کی شہرت ومقبولیت کا آفتاب شاعری سے نہیں ، تنقید نگاری سے چمکا ، فن تنقید اور تنقیدی مضامین (مطبوعہ۱۹۶۶) مسائل ومباحث ، کردار اور کردار نگاری اور بہت سارے دوسرے مقالے مثلا غالب کا فن ، فکر اقبال کا محور ۔ آفاقیت وعصریت کے تناظر میں ، انیسؔ کا اسلوب وآہنگ ، اقبال۔ بانگ درا کے آئینے میں ، ان کی تنقیدی بصیرت اور عملی تنقید کی آئینہ دار ہیں ، وہ اپنی بات عالمانہ سنجیدگی سے اٹھاتے تھے اور علمی وقار کے ساتھ اختتام کو پہونچاتے تھے ، پوری زندگی کسی خاص نظر یے صفت تحریک اور گروہ بندی سے دور رہنے او ر عدم وابستگی کی وجہ سے قاری پر ان کے خلوص کا گہرا اثر پڑتا تھا ، ان کی تخلیقات پروپیگنڈے کی صفت سے خالی ہے ، جو وہ محسوس کرتے تھے اپنے مخصوص انداز میں قلم بند کر تے تھے ، نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا۔
ایسے با فیض، با وقار اور محبوب شخص کا دنیا سے چلا جانا علمی اور ادبی میدان کا بڑا خلا ہے اور یہ ہم سب کے لئے محرومی کی بات ہے، اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے، اور۲۴؍ستمبر ۲۰۲۳ء بروز اتوار بوقت ساڑھے نو بجے شب اپنے مکان واقع چندوارہ مظفر پور میں ان کے رشتہ داروں، شاگردوں اور متوسلین کو صبر جمیل دے۔ آمین یا رب العالمین

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...