Powered By Blogger

جمعہ, اکتوبر 13, 2023

جی ۲۰ کا نفرس کے اصل ہیرو

جی-20 کانفرنس کے اصل ہیرو ____
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی 
ہندوستان نے اصولی طور پر جی-20 کانفرنس کا کامیاب انعقاد کیا، دعوتیں ہوئیں، بیانات آئے، تقریریں کی گئیں، کروڑوں روپے ملک کے اس کانفرنس پر خرچ ہوئے، افریقن یونین کواس گروپ میں مستقل رکن کی حیثیت سے شامل کرنے پر کامیابی ملی، اس طرح اب جی20، جی 21 ہو گیا ہے، اس کانفرنس کی سب سے اہم بات یہ رہی کہ مشترکہ اعلانیہ کو پہلے دن اتفاق رائے سے منظور کر لیا گیا، اس سے ہندوستان کی تصویر ممبر ممالک کے درمیان اچھی رہی، اس کانفرنس کے انعقاد کے لیے پرگتی میدان نئی دہلی میں بھارت منڈپم کے نام سے دیدہ زیب اور خوبصورت جلسہ گاہ بنایا گیا تھا، ہندوستان جی – 20 کا صدر تھا، یہ صدارت ہر سال بدلتی رہتی ہے، ہندوستان کی صدارت کا سال نومبر میں مکمل ہوجائے گا، اس لیے وزیر اعظم نریندر مودی نے اگلے سال کی صدارت برازیل کے سپرد کر دی اور اس طرح یہ کانفرنس پورے تزک واحتشام کے ساتھ اختتام پذیر ہوا، روس اور چین کے صدور کی کمی کھٹکی ضرور، لیکن اعلامیہ سب کی پسند قرار پایا، اس میں ماحولیات، انسان، خوش حالی اور امن پر زور دیا گیا ہے، اس کو چست درست انداز میں زمین پر اتارنے کے لیے وزیر اعظم نے جی-20 کے سربراہوں کو سب کا ساتھ سب کا وکاس سب کا پریاس اور سب کا وشواش حاصل کرنے کی ضرورت پر زور دیا، انہوں نے کہا کہ اس وقت کا سب سے بڑا بحران اعتماد کی کمی ہے، جسے جنگ نے پریشان کن بنا دیا ہے، ہمیں باہمی اعتماد کی کمی کے اس بحران کو بہر حال ختم کرنا ہوگا، وزیر اعظم نے ایک زمین، ایک خاندان اور ایک مستقبل کو سامنے رکھ کر کام کرنے کی ضرورت بھی بتائی۔
کانفرنس کے ظاہری چکا چوند پر سب کی نظر رہی، لیکن اعلانیہ پر اتفاق رائے بنانے میں شیرپا امیتابھ کانت نے اہم کردار ادا کیا، پردے کے پیچھے چل رہے ملکوں کے نمائندوں کے ساتھ انہوں نے لگاتار دو سو گھنٹے تبادلہ خیال جاری رکھا، تین سو بیٹھکیں، دو دو ملکوں کےساتھ الگ الگ کی گئیں، اعلانیہ کا پندرہ مسودہ تیار کیا گیا، سب سے زیادہ دشوار مرحلہ روس یوکرین جنگ سے متعلق تھا، جس میں مغربی ممالک کا رویہ روس کے خلاف تھا، بات کسی نتیجے تک نہیں پہونچ پا رہی تھی، ایسے میں ڈوبھال اس گفتگو میں شامل ہوئے اور مسودہ پر اتفاق رائے بن سکا، اعلانیہ میں روس کا ذکر کیے بغیر یوکرین میں جنگ کا تذکرہ کیا گیا، اور صرف یہ کہہ کر بات ختم کر دی گئی کہ اختلافات اور جنگ سے دنیا پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں، سینتیس(37) صفحات پر مشتمل دہلی اعلانیہ میں 4 بار یوکرین جنگ کا ذکر آیا ہے۔ اس طرح پچاسی(85) پیراگراف پر مشتمل اس مسودہ کو آخری شکل دی جا سکی۔
یہ ناممکن کو ممکن بنانے کا عمل جی -20 شیرپا امیتابھ کانت، جوائنٹ سکریٹری گمبھیر اور کے ناگ راج نائیڈو کی مشترکہ جد وجہد کے سر جاتا ہے، این ایس اے اجیت ڈوبھال کی محنت بھی رنگ لائی، اس لیے جی -20 کے اصل ہیرو یہی ہیں، جنہوں نے ہندوستان کو دنیا کے سامنے سرخ رو کیا ہے، ان کے تذکرے کہیں گم ہو گیے، اخبارات اور ٹی وی چینلوں نے بھی ان پر توجہ نہیں دی، سچ ہے مینار کی اونچائی سب کو نظر آتی ہے، لیکن مینار جن بنیادوں پر کھڑی ہوتی ہے وہ کسی کو نظر نہیں آتی۔مینار کو بلند کرنے کے لیے کچھ اینٹوں کو زمین میں دفن ہونا پڑتا ہے، جی -20میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔

محبت رسول کے تقاضے

محبت رسول کے تقاضے
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ 
=======================================
یہ ربیع الاول کا مہینہ ہے، یہی وہ مہینہ ہے جس میں رحمۃ للعالمین ، شفیع المذنبین، محبوب رب العالمین ، ضعیفوں کے ماویٰ، یتیموں کے ملجا،مظلوموں کے خیر خواہ ، وجہ تخلیق کائنات اور حقوق انسانی ، سماجی مساوات، تحفظ ماحولیات کے سب سے بڑے داعی تشریف لائے،یہ مژدہ تھا دکھی انسانیت کے لئے ،ابررحمت تھا، کائنات کے لئے ، تمہید تھی خدا ئے واحد کی پرستش کی، اس لئے مسلمان اس مہینے میں مسرت کے اظہار کے لئے مختلف جگہوں پر ذکر نبی کی مجلسیں منعقد کرتے ہیں ، اور اپنی محبت وعقیدت کا اظہار کرتے ہیں ، بارہ ربیع الاول گذرااور پھر عام لوگ بھول جاتے ہیں کہ اظہار محبت وعقیدت کے تقاضے کچھ اور ہیں،سیرت پاک کا مطالبہ ہم سے کچھ اور بھی ہے ، اور وہ یہ ہے کہ ہم اپنی زندگی کو اسوہ ٔ رسول کے مطابق بنائیں ، اللہ سے محبت کا تقاضہ اور آپ کی حیات مبارکہ کو نمونۂ عمل بنانے کا خلاصہ بھی یہی ہے ، لیکن آج صورت حال بہت عجیب ہے ، واقعہ یہ ہے کہ ہماری واقفیت سیرت پاک سے بہت کم ہے، مدارس کے علماء ، طلبہ کی بات نہیں ، عام مسلمانوں کی بات ہے ، اس موقع سے اگر ہم جائزہ لیں تومعلوم ہوگا کہ نماز میں درود وسلام اور مجلس میلاد میں درود وشریف پڑھنے کے علاوہ پورے سال ہم نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنے کا اہتمام نہیں کیا ، حالانکہ درود شریف پڑھنے کاحکم تو قرآن کریم میں مذکور ہے کہ اللہ رحمت بھیجتے ہیں، اس کے فرشتے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھتے ہیں، اے ایمان والو تم بھی درودوسلام پڑھو ، اس حکم کی بنا پر جتنا اہتمام درود شریف کا کرناچاہئے اور ہر دن کرنا چاہئے ،اس کا کوئی حصہ ہماری زندگی میں نہیں پایاجاتا ، ہر آدمی اپنے گریباں میں منہ ڈال کر دیکھے کہ اس نے پورے سال کتنی بار درود شریف پڑھا ، لطیفہ یہ ہے کہ درود شریف پڑھنے کا اہتمام نہیں ہے ، لیکن درود شریف پڑھنے کے طریقے پر جھگڑے ہورہے ہیں ، یہی حال سیرت پاک سے ہماری واقفیت کا ہے، اس معاملے میں ہماری معلومات سطحی ، ناقص اور نامکمل ہے ، کیوں کہ ہم نے سیرت النبی پر باقاعدہ کسی کتاب کا مطالعہ نہیں کیا ، ہمارے بچے جس اسکول اور کنونٹ میں پڑھتے ہیں وہاں مطالعۂ سیرت کا کوئی موقع نہیں ہے ، اس لئے اگر کوئی بچہ ناواقف ہے تو غلطی اس کی نہیں ہے، ہماری ہے کہ ہم نے اسے سیرت کے مطالعہ کا موقع نہیں دیا، ہم نے بہت سارے موضوعا ت پر مقابلے کے لئے اسے تیار کیا ،لیکن تاریخ اسلام اور سیرت پاک کی واقفیت اس کے پاس واجبی بھی نہیں ہے ، دن رات ہم پتہ نہیں کس کس سے چاٹنگ کرتے رہتے ہیں ، سوشل سائٹس کے ذریعہ کتناساراوقت غیر ضروری، بلکہ نامناسب مکالموں میں گذار دیتے ہیں ، کیسی کیسی تصویریں لوگوں کو بھیجتے رہتے ہیں؛لیکن کیا ہم نے یہ سوچا اور اس کی کوشش کی کہ اس سہولت کو ہم سیرت پاک کے واقعات کو عام کرنے کے لئے استعمال کریں گے ، چندا حادیث کا انتخاب کرکے اپنے کسی دوست کو کبھی بھیجا کہ یہ دیکھو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے کہ اچھا انسان وہ ہے جو لوگوں کے لئے نفع بخش ہو، اپنے بھائی کی مدد کرو چاہے ظالم ہویا مظلوم ، ظالم کی مدد یہ ہے کہ اسے ظلم سے روک دو ، مظلوم کی مدد یہ ہے کہ اس کا حق دلا کر دم لو ، یا پھر یہ حدیث پاک کہ تم میں اچھا وہ ہے، جو اپنے اہل و عیال کے لئے اچھا ہواورمیں اپنے اہل و عیال کے لئے تم میںسب سے بہتر ہوں ،ساری مخلوق اللہ کا کنبہ ہے اور اللہ کے نزدیک سب سے محبوب وہ ہے جو اس کے کنبے کے ساتھ بہتر سلوک کرے ، جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہے اللہ اس کی مدد میں رہے گا ، جو شخص دوسرے کے ساتھ رحم کا برتائو نہیں کرتا ، اللہ بھی اس پر رحم نہیں کرتا ، وہ شخص جنت میں نہیں جائے گا، جس کا پڑوسی اس کی ایذا سے محفوظ نہ ہو ، حلال کمائی کی تلاش بھی ایک اہم فریضہ ہے ، بے بنیاد باتوں پر کان نہ لگائو ، دوسروں کے عیب نہ تلاشو ، آپس میں بعض نہ رکھو، آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو ، جنت ماں کے قدموں تلے ہے ۔ اس قسم کی کتنی احادیث ذخیرہ میں مل جائیں گی، اگرآپ نے پانچ پانچ لوگوں تک ان احادیث کو پہونچانے کا اہتمام کرلیااوراس میں اپنے غیر مسلم بھائیوں کو بھی شریک کرلیا تو سوچئے کتنا بڑاعلمی انقلاب آجائے گا اور کس قدر غلط فہمیاں دور ہوںگی، اس لئے طے کیجئے کہ ہرروز درود شریف کا ور د کثرت سے کریں گے ، اس ماہ مبارک میں سیرت پر کم از کم ایک کتاب کا مکمل مطالعہ کریں گے ، جو پڑھنا نہیں جانتے ہیں، انہیں پڑھ کر سنائیں گے ،اس کے لئے آپ ’’رحمت عالم، سیرت النبی ،سیرت المصطفی ، اصح السیر ، نبی رحمت ، سیرت ابن اسحاق، الرحیق المختوم ، سیر ت بن ہشام ، سیر ت حلبیہ وغیرہ کا انتخاب کرسکتے ہیں ،طے کیجئے کہ سوشل سائنٹس کا پورے مہینہ روزانہ سیرت پاک اور تعلیمات نبوی کو عام کرنے کے لئے استعمال کریں گے ، روزانہ اس کا م کے لئے اپنے دوستوں کو، متعلقین کواورگروپ کے شرکاء کو میسج بھیجاکریں گے ، ائمہ کرام جمعہ کے خطبوں میں سیرت نبوی کی عصر حاضر میں معنویت کے حوالہ سے مصلیان کے سامنے تقریر کریں گے اور انہیںعمل پر ابھاریںگے ، جو لوگ اخبارات ورسائل کے مدیران ہیں وہ اس مہم کو انجام دینے میں اپنی پوری حصہ داری نبھائیں گے، روزانہ سیرت پاک کے کسی گوشے پر معیاری اور معلوماتی مضامین شائع کریں گے ، ہرعلاقہ میں سیرت پاک کو عام کرنے کے لئے چھوٹے بڑے جلسے کریں گے اوراس میں غیرمسلم بھائیوں کو بھی شریک کریں گے جو سلجھے ہوئے لوگ ہیںاور غیرمسلموں میںجن کی معلومات سطحی نہیں ہے، انہیں بولنے کے لئے مدعو کریں گے، ہندی زبان میںاسلامک لٹریچر خصوصا سیر ت پاک پر کتابیں لوگوں تک پہونچائیں گے ؛تاکہ صحیح معلومات لوگوں تک پہنچ سکے۔ہم انہیں بتائیں گے کہ جان و مال ، عزت و آبرو اور عورتوں کے حقوق کے تحفظ کا جیسا انتظام آپ کی تعلیمات میں ہے اور پرامن بقا ء باہم کے جو اصول آپ نے دیئے ہیں،اس کی نظیر کسی اور مذہب میں نہیں ملتی۔ اسکول و مدارس کنونٹ میں سیرت کوئز کے مقابلے منعقد کریں گے تاکہ اس حوالے سے بچوںکی واقفیت سیر ت پاک سے ہوجائے ،ان کی حوصلہ افزائی کے لئے تشجیعی انعامات دیں گے، ان مقابلوں میں دوسرے اسکول اور اداروں کے بچوں کو بھی شریک کیا جاسکتا ہے ، مذہب کی بھی کوئی قید نہیں رکھی جائے ،اسٹیکر اور چھوٹے چھوٹے پمفلٹ چھپوا کر تقسیم کرنے کاعمل بھی مفید ثابت ہوسکتا ہے ، ہم کن کن ناموں پر ہفتہ وار تحریک چلاتے ہیں سیرت پاک پر ماہانہ تحریک چلایئے اور گھر گھر پیغام پہونچایئے، بغیر جانے ہوئے عمل کرنا کسی طرح ممکن نہیں ، پہلے جانئے پھراپنی زندگی کو سیرت رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ڈھالئے  یہ مسلمانوں کاشرعی، ایمانی، دینی اور مذہبی تقاضہ ہے ۔

جمعرات, اکتوبر 12, 2023

قرضوں کا بوجھ __مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

قرضوں کا بوجھ __
Urduduniyanews72 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
ہندوستان دن بدن قرضوں کے بوجھ تلے دبتا جا رہا ہے، ایک رپورٹ کے مطابق مارچ 2023تک غیر ملکی قرضے 624بلین ڈالتر تک پہونچ گیے تھے جو مالی سال21-22کے مقابل 5.6بلین ڈالر کا اضافہ درج کیا گیا ہے، اس طرح ہر نو مولود جو ہندوستان میں آ رہا ہے، وہ چھیالیس ہزار روپے اپنے اوپر قرض لے کر ہی پیدا ہو رہ اہے، قرضوں کی شرح سود میں عالمی طور پر اضافہ ہوا ہے، ظاہر ہے ہندوستان بھی اسی دنیا میں ہے، اس لیے اب اسے شرح سود 5.2فی صد بڑھ گئی ہے، جو قرض کی ادائیگی 21-22میں 41.6بلین ڈالر تھی وہ 22-23میں 49.6بلین ڈالر ہو گئی ہے، اس اضافی بوجھ کا ہندوستانی معیشت پر گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں، اس کی وجہ سے فلاحی اسکیموں میں کٹوتی کی جا رہی ہے اور اس کی وجہ سے ملک کی شرح نمو میں سستی کا رجحان پایا جا رہا ہے، یہ چیزیں ہماری وزیر خزانہ سیتارمن کی نگاہوں میں ہے تو ضرور ، لیکن وہ اس کی ان دیکھی کر رہی ہیں، وہ یہ کہہ کر عوام کو تسلی دے رہی ہیں کہ غیر ملکی قرضوں میں قلیل مدتی قرضے کم اور طویل المیعاد قرضے زیادہ ہیں، طویل المیعاد ہونے کی وجہ سے ان قرضوں کے اثرات ہمارے اوپر نہیں پڑ رہے ہیں، وہ اس بات کو مانتی ہیں کہ غیر ملکی قرضوں کے مقابلے ہمارے پاس زر مبادلہ کے ذخائر صرف بانوے فی صد ہیں۔
 اگر قرض کا بوجھ اسی طرح بڑھتا رہا اور زر مبادلہ کے ذخائر کم ہوتے رہے تو ہندوستان کو سری لنکا اور پاکستان کی طرح عالمی برادری سے کشکول گدائی لے کر امداد کی اپیل کرنی ہوگی، وہ دن ہندوستان کی تاریخ کا سیاہ دن ہوگا اور ملکی وقار کی ایسی تیسی ہو کر رہ جائے گی اللہ وہ دن نہ لائے اس کی دعا ہم سب کو کرنی چاہیے۔

بدھ, اکتوبر 11, 2023

انڈیا، بھارت اور ہندوستان ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

انڈیا، بھارت اور ہندوستان ___
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
 یہ بات سب پر عیاں ہے کہ بھاجپا، آر ایس ایس کی سیاسی شاخ ہے، اور اس کے سر براہ موہن بھاگوت کے فرمان ہی نہیں چشم وابرو کے اشارے پر یہاں کی حکومت چل رہی ہے، چند روز قبل موہن بھاگوت نے ایک تقریر میں ملک کا نام انڈیا کے بجائے بھارت لکھنے کو کہا تھا، چنانچہ اس حکم کی تعمیل کرتے ہوئے حکومت نے جی 20 کانفرنس کے موقع سے اس کا استعمال شروع کر دیا، صدر جمہوریہ دروپدی مرمو کی طرف سے جو دعوت نامہ عشائیہ کا تقسیم ہوا، اس میں پریسڈنٹ آف بھارت اور وزیر اعظم کو پرائم منسٹر آف بھارت لکھا گیا، وزیر اعظم کے سامنے بھی کانفرنس کے موقع سے ڈائس پر بھارت لکھا ہوا تھا، ظاہر ہے غیر ملکی مہمانوں کو اس سے کیا لینا دینا تھا کہ آپ اپنے ملک کا نام انڈیا رکھتے ہیں یا بھارت، چنانچہ انہوں نے اس تبدیلی کا نوٹس نہیں لیا، بعض مہمانوں نے اپنی تقریر میں انڈیا ہی استعمال کیا، کیوں کہ پوری دنیا بھارت کو انڈیا ہی کے نام سے جانتی ہے۔
 وزیر اعظم نے اپنی اکثریت کے بل پر بغیر کسی دستوری ترمیم کے انڈیا کو بھارت کر دیا،  انڈیا کو بھارت بنانے میں آر ایس ایس کے سر براہ کے فرمان کی تعمیل کے ساتھ حزب مخالف کے اتحاد”انڈیا“ سے بھی خوف کی جھلک ملتی ہے، حالاں کہ انڈیا جو ملک کا نام ہے وہ مکمل ہے، مخفف نہیں، حزب مخالف کے اتحاد کے لیے انڈیا کا نام مخفف ہے، لمبی عبارت کا، یہ الگ بات ہے کہ مخفف کی طرح کوئی لکھتا نہیں ہے۔
 اب مرکزی حکومت اس بل کو پہلے کابینہ میں پیش کرکے منظوری لے گی اور پھر اسے دستور کی دفعہ 1 میں ترمیم کے طور پر پارلیامنٹ اور راجیہ سبھا میں پیش کرے گی، اکثریت کے بل پر اس کی منظوری دشوار نہیں ہے اور جب یہ صدر جمہوریہ کے پاس جائے گا تو وہ اس پر دستخط کرنے میں دیر نہیں لگائیں گی اور انڈیا بھارت بن جائے گا جو عملاًپہلے ہی بنا دیا گیا ہے۔
 اس تبدیلی کا بڑا اثر سرکاری خزانے پر پڑے گا، اور کھربوں روپے اس تبدیلی کے کام پر لگانے ہوں گے، سب سے پہلے تو تمام نوٹوں اور سکوں کو بدلنا ہوگا، جس پر رزرو بینک آف انڈیا لکھا ہوا ہے، یعنی ابھی ہم پہلے نوٹ بندی اور دو ہزار روپے کے نوٹوں کے چلن بند ہونے سے اُبھرے بھی نہیں تھے کہ ایک اور نوٹ بندی کا خطرہ ہمارے سروں پر منڈلانے لگا ہے۔
 ہندوستان کی تمام عدالتوں میں انڈیا ہی استعمال ہوتا ہے، چیف جسٹس آف انڈیا کہا جاتا ہے، اس کے لیے تمام کاغذات اور عمارتوں پر انڈیا کے بجائے بھارت لکھنا ہوگا، پوری دنیا میں ہمارے سفارت خانے انڈین ایمبسی سے معروف ہیں، وہاں کی عمارتوں اور فائلوں پر بھی بھارت ہی لکھنا ہوگا، اسی طرح ہندوستان کے سارے ویب سائٹسGov.in.کے نام سے ہی ہیں، اس کو بھی تبدیل کرنا ہوگا۔ اتنی بڑی تبدیلی کے لیے ملک کی عوام کا جو روپیہ خرچ ہوگا وہ اپنی جگہ، مہینوں ملک کی بڑی افرادی قوت کو ان تبدیلیوں کو زمین پر اتارنے میں لگا نا ہوگا، اور پورے عوام کی توجہ غریبی اور بے روزگاری سے ہٹ کر انڈیا کو بھارت بنانے میں لگی رہے گی۔ چندر یان -3، آدتیہ ایل-1کے ساتھ حکمراں طبقہ اسے بھی مودی حکومت کی بڑی کارکردگی قرار دے گا اور ملک کی عوام اس کے جھانسے میں آکر اپنی ترجیحات بھول چکی ہوگی۔
انڈیا کا ایک نام ہند اور ہندوستان بھی مستعمل ہے، عربی میں اسے ہند اور اردو میں ہندوستان لکھا جاتا رہا ہے، اقبال کی مایہ ناز نظم ”سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا“ آؤٹ آف ڈیٹ از کار رفتہ ہو جائے گا، اس نظم کی شیرینی جس قدر ہندوستان کے لفظ میں ہے کوئی اور اس کا بدل ہوہی نہیں سکتا، بھارت کے بجائے ہندوستان بھارت کے مقابل زیادہ بہتر تھا کیوں کہ اس لفظ سے ”ہندو استھان“ ہونے کی مہک آتی ہے، لیکن یہ لفظ اردو میں مستعمل ہے اس لیے اس کی معنویت کی طرف حکمراں طبقہ کا ذہن منتقل ہی نہیں ہو سکتا، اسے تو رام کے بھائی بھرت کی نسبت سے بھارت ہی اچھا معلوم ہورہا ہے، متنبی عربی کا مشہور شاعر ہے، اسے جب ہندوستانی تلوار کی تعریف کرنی تھی تو سیف ہندی کہاتھا۔
 اب ایسا بھی نہیں ہے کہ ہندوستان کا نام پہلی بار بدلا جا رہا ہے، ہندوستان کا قدیم نام ”جمبودیپ“ ہے یہ نام ویدوں میں مذکور ہے، اور یہاں جامن زیادہ پائے جانے کی وجہ سے یہ نام مروج تھا، اس کے بعد اسے بھارتا دیشم (بھارت دیش) کہا جانے لگا، یہ نام راجا بھرت کی مناسب سے دیا گیا، پھر کئی مراحل میں ہندوستان ہند، ہند ودیش، آریہ ورت اور انگریزوں نے اسے انڈیا کا نام دیا، اور اب یہ بھارت بن گیاہے۔

منگل, اکتوبر 10, 2023

رمیش بِدھوری کی بے ہودگی

رمیش بِدھوری کی بے ہودگی
Urduduniyanews72 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ 
=======================================
 ہندوستان میں پارلیامنٹ اور راجیہ سبھا وہ جگہ ہے جہاں کچھ بھی بے ہودگی کر لیجئے، بول دیجئے، دستور کی دفعہ (2) 105 کے تحت ہندوستان کی عدالت میں کوئی مقدمہ نہیں چل سکتا، ان بے ہودگیوں پر قابو پانے کے لیے سارا اختیار دفعہ 380کے تحت اسپیکر کے پاس ہے، وہ کبھی مارشل کے ذریعہ ارکان کو پارلیامنٹ سے باہر کرتے ہیں کبھی معطل کرتے ہیں،کبھی اس کی رکنیت ختم کر دیتے ہیں، کبھی اجلاس کی کاروائی روک دیتے ہیں اور کبھی اگلے دن اور اگلی تاریخ تک اجلاس ملتوی کر دیتے ہیں، اسپیکر کی حیثیت غیر جانبدار کی ہوا کرتی ہے، وہ پارٹی کی جانب سے رکن ہونے کیے باوجود اسپیکر بننے کے بعد پارٹی سے اوپر اٹھ جاتا ہے، لیکن جس طرح بھاجپا حکومت میں دوسرے کاموں میں شفافیت نہیں ہے، جمہوری اقدار دن بدن رو بہ زوال ہے، ملک فاشسزم کی طرف بڑھ رہا ہے ، اس کے اثرات پارلیمان پر بھی پڑ رہے ہیں، اسپیکر فیصلہ لینے میں پارٹی تحفظ کا خیال رکھ رہے ہیں، جو غیر آئینی بھی ہے اور غیر اخلاقی بھی ۔
 ایوان کی نئی عمارت میں چوتھے دن بھاجپا ارکان رمیش بِدھوری نے اس قدر بد زبانی اور بے ہودگی کی، جس کی کوئی نظیر پارلیامنٹ کی تاریخ میں نہیں ملتی، اس نے ایوان میں بہوجن سماج پارٹی کے رکن کنور دانش علی (جو امروہہ سے رکن پارلیمان ہیں) کو دہشت گرد ، کٹوا، ملا اور بھردا تک کہہ ڈالا ، بِدھوڑی کے بغل میں بیٹھے سابق وزیر صحت ہرش وردھن اور سابق وزیر قانون روی شنکر ہنس ہنس کر اس کا حوصلہ بڑھا رہے تھے۔ اور اس حوصلہ افزائی کے نتیجے میں بِدھوری نے اس واقعہ پر سات ٹوئٹ کیا اور کسی میں اس نے معافی نہیں مانگی، وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے اس واقعہ پر افسوس کا اظہار کیا ، لیکن معافی کے الفاظ ان کے پاس بھی نہیں تھے، سوشل میڈیا پر جب یہ ویڈیو وائرل ہوا تو تمام سیاسی پارٹیوں نے اس کے خلاف احتجاج کیا اور اسپیکر سے سخت کاروائی کی مانگ کی، جس کے نتیجے میں کاروائی سے وہ الفاظ ہٹا دیے گیے، اسپیکر نے بِدھوری کو سخت تنبیہ کیا، بھاجپا نے پارٹی سطح پر اس کو وجہ بتاؤ نوٹس جاری کرکے پندرہ دن میں جواب مانگا، لیکن اس کو پارلیمان کے لیے نا اہل قرار نہیں دیا گیا، اس کی معطلی نہیں ہوئی، جو اسپیکر اوم پرکاش برلا کو پہلے مرحلہ میں کرنا چاہیے تھا، اس سے کہیںچھوٹی چھوٹی باتوں پر وہ ارکان کو باہر کا راستہ دکھاتے رہے ہیں، لیکن کیا کیجئے گا دونوں بھاجپا کے ہیں،اس لیے آقا کے چشم وابر و کے بغیر وہ سخت کاروائی نہیں کر سکتے، یہ روز روشن کی طرح عیاں حقیقت ہے، آپ کو یاد ہوگا کہ راہل گاندھی پر کاروائی میں کس قدر عجلت برتی گئی تھی، بِدھوری کا یہ معاملہ اس قدر سنگین ہے کہ فوری طور پر اس کی رکنیت منسوخ کرنی چاہیے، لیکن سیاں بھئے کوتوال اب ڈر کاہے کا‘‘ والا معاملہ ہے، اس کے بر عکس کنور دانش علی کے خلاف بھاجپا کے بے لگام لوگ الزامات لگا رہے ہیں اور گودی میڈیا حسب سابق بھاجپا کے لوگوں کے سُر میں سُر ملانے کا کام کررہا ہے، پارلیامنٹ کی بحثیں عوامی طور پر بھی نشر ہوتی ہیں، ان الزامات کا جھوٹ ہونا سورج کی طرح روشن ہے، جو الزامات لگائے جا رہے ہیں، ان میں مودی کے خلاف غیر مہذب لفظ کا استعمال پارلیامنٹ میں رننگ کمنٹری کرنے اور بدھوری کو اُکسانے کی بات کہی جا رہی ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ اس گھیرا بندی میں کنور دانش کو ہی زد میں لے لیا جائے، مودی ہے تو کچھ بھی ہو سکتا ہے کا نعرہ اندھ بھگت یوں ہی نہیں لگایا کرتے ہیں، خبر یہ بھی ہے کہ کنور دانش علی کو جان سے مارنے کی دھمکیاں مل رہی ہیں ایسے میں کنور دانش علی کے اس بیان کو غلط نہیں کہا جا سکتا کہ ایک لنچنگ ان کا پارلیامنٹ میں ہوا اور دوسرا لنچنگ سڑکوں پر ہوجائے گا، واقعہ یہ ہے کہ اسپیکر کو اس معاملہ میں جس قدر جلدممکن کاروائی کرنی چاہیے تھی، وہ دِکھ نہیں رہی ہے،کوئی تو ہے اس پردۂ زنگاری میں جس نے اسپیکر کو بھی بے دست وپا کر رکھا ہے۔

پیر, اکتوبر 09, 2023

دوستانہ

دوستانہ____
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
 ہماری زندگی میں رشتوں کی بڑی اہمیت ہے، کچھ رشتے خونی ہوتے ہیں، پھر ان کی شاخین پھیلتی جا تی ہیں، یہ رشتے قدرتی طور پر بنتے ہیں، ہمارے اختیار میں یہ بات نہیں ہوتی کہ ہم ان کو چنیں، وہ خود بخود قدرت کی طرف سے منتخب ہوا کرتے ہیں، ان میں مزاجی ہم آہنگی نہ ہو تو بھی انہیں ایڈجسٹ کرکے چلنا پڑتا ہے، ورنہ خاندان اور رشتے ٹوٹ جاتے ہیں اورایک ایسی دشمنی کا آغاز ہوتا ہے جو خاندان کے افراد کو برباد کر کے رکھ دیتا ہے۔
 سماجی زندگی گذارنے کے لیے ہمارے پاس ایک اور رشتہ مختلف لوگوں سے ہماری پسند کے مطابق بنتا ہے، اسے ہم دوستانہ اور یارانہ سے تعبیر کرتے ہیں، یہ دوستانہ بنتا کیسے ہے، اس میں مضبوطی کس طرح آتی ہے اور یہ ٹوٹ کس طرح جاتا ہے؟ا ن امور پر لوگوں کی رائے جاننے کے لیے ریسرچ فرم فیشرمینس، فرینڈ نے دو ہزار لوگوں سے رابطہ کیا، آکسفورڈ یونیورسٹی کے ڈاکٹر رابن ڈنبرنے اس کا تجزیہ کیا تو حیرت انگیز نتائج سامنے آئے،ا ن کے تجزیہ کے مطابق اگر آپ کو جگری دوست بنانا ہے توتین تین گھنٹے کی گیارہ ملاقاتیں ضروری ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ کم وبیش چونتیس گھنٹے مختلف روز وشب میں آپ کو اس شخص کے ساتھ گذارنے ضروری ہوں گے، دوستوں کی لمبی قطار میں زیادہ سے زیادہ پانچ دوست ہی قلبی دوست آپ کے ہو سکتے ہیں، ایسی دوستی کی عمر انتیس سال ہو سکتی ہے، اگر آپ اپنے دوست کو مناسب وقت نہیں دے پاتے ہیں تو دوریاں بڑھ سکتی ہیں اور دوستی کا خاتمہ بھی ہو سکتا ہے۔
دوستی کے حوالہ سے کچھ اور سوالات بھی ذہن میں گردش کرتے رہتے ہیں، اور وہ یہ کہ دوستی کے لیے سب سے زیادہ ضروری کیا چیز ہے؟ سب اچھے دوست کہاں بنتے ہیں، دوستی اور یاری ٹوٹنے کی کیا وجہ ہوا کرتی ہے؟
ان سوالوں کا جواب بھی آکسفورڈ یونیورسٹی کے ڈاکٹر رابن نے تلاش لیا ہے۔ ان کے مطابق اکسٹھ (61)فی صد لوگوں کا ماننا ہے کہ اچھے دوست کی سب سے بڑی خصوصیت اس کے اندر انسانیت نوازی کا جوہرہونا ہے، جب کہ چوالیس (44)فیصد لوگوں کے نزدیک ذہنی ہم آہنگی ہونی ضروری ہے، یہ ہم آہنگی مذہبی اور سیاسی نظریات میں ہونی چاہیے، اچھے دوست وہی ہیں جو مشکل وقت میں کام آئیں، جو ایسے وقت میں دور ہوجائیں وہ دوست بنائے رکھنے کے قابل نہیں ہیں، دوستی کے لیے بھروسہ مند ہونا بھی انتہائی ضروری ہے، دوست بنانے کے لیے سب سے اچھی جگہ وہ ہے جہاں انسان کام سے لگا ہوتا ہے، اس لیے کہ وہاں زیادہ وقت گذرتا ہے اور ایک دوسرے کے تعاون کی ضرورت بھی ہوتی ہے، جس سے ہمدردی پیدا ہوتی ہے اور دل مدد کرنے والے کی طرف مائل ہوتا ہے۔
یہ کوئی نئی تحقیق نہیں ہے، ہمارے یہاں تو بہت پہلے سے کہا جاتا رہا ہے کہ”دوست آن باشد کہ گیردد ست دوست در پریشاں حالی ودر ماندگی“، اسلام میں اچھے دوست کے بارے میں کہا گیا کہ جو مخلص، ہمدرد اور اسلام کی طرف راغب کرنے والا ہو، تو اگر آپ بھی کسی سے دوستی کرنا چاہتے ہیں تو صرف اللہ کے لیے کیجئے محبت بھی اللہ کے لیے اور بغض بھی اللہ کے لیے، محبت کا یہ انداز اب عنقا ہوتا جا رہا 
ہے، لیکن یہی اسلام کو مطلوب ہے۔

مولانا آفتاب عالم مفتاحی کی زندگی نئی نسل کے لئے مشعل راہ ۔شمشاد رحمانی

مولانا آفتاب عالم مفتاحی کی زندگی نئی نسل کے لئے مشعل راہ ۔شمشاد رحمانی
Urduduniyanews72 
’آفتاب جو غروب ہو گیا ‘کے اجرا کی تقریب سے شفیع مشہدی،امتیاز احمد کریمی اور توقیر عالم سمیت کئی دانشوروں کا خطاب
پٹنہ (پریس ریلیز)نور اردو لائبریری حسن پور گنگھٹی،ویشالی کے زیر اہتمام اتوار کو بہار اردو اکاڈمی کے کانفرنس ہال میں مولانا آفتاب عالم مفتاحی کی شخصیت اور خدمات کے موضوع پرمفتی محمد ثناء الہدی قاسمی کی مرتب کردہ کتاب آفتاب جو غروب ہو گیا کا اجرا عمل میں آیا۔تقریب کی صدارت امارت شرعیہ بہار اڈیشہ جھارکھنڈ کے نائب امیر شریعت حضرت مولانا شمشاد رحمانی قاسمی نے کی اور نظامت کا فریضہ سینیئر صحافی ڈاکٹر ریحان غنی نے انجام دیا ۔اس موقع پر اردو مشاورتی کمیٹی کے سابق چیر مین شفیع مشہدی نے کلیدی خطبہ دیا۔اپنی صدارتی تقریر میں مولانا شمشاد رحمانی نے کہا کہ مولانا آفتاب عالم مفتاحی کی زندگی نئی نسل کے لئے مشعل راہ  اور نمونہ ہے ۔انہوں نے کہا کہ جب انتقال کے بعدکسی کے تذکرے ہوتے ہیں تواسے قبر تک ثواب ملتا ہے۔مولانا شمشاد رحمانی نے کہا کہ کسی کام کو منصہ شہود پر لانا وہی جانتے ہیں جو ا س راہ کے مسافر رہ چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کی تقریبات ، شخصیات کو زندہ رکھنے کا ذریع ہیں۔ انہوں نے تقریب کے انعقاد کے لیے نور اردو لائبریری کے عہدیداروں اور اراکین کا شکریہ ادا کیا۔ اپنے کلیدی خطبہ میں جناب شفیع مشہدی نے کہا کہ یہ ہر لحاظ سے بہترین کتاب ہے اس کا مطالعہ ہر کسی کو کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ جو قومیں اپنے اسلاف کو فراموش کر دیتی ہیں زمانہ انہیں بھی فراموش کر دیتا ہے۔ شفیع مشہدی نے کہا کہ مولانا آفتاب عالم مفتاحی اپنی تحریروں اور عمل میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ بہار پبلک سروس کمیشن کے رکن امتیاز احمد کریمی نے کہا کہ ویشالی کی سرزمین ایسی ہے جہاں علم و ادب چراغ ہمیشہ روشن رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آٖفتاب عالم صاحب کو اس لیے یاد کیا جا رہا ہے کہ وہ علم والے تھے۔ اس لیے نئی نسل کو علم والا بنانے کی ضرورت ہے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ پیسوں سے ڈگری حاصل کی جا سکتی ہے علم نہیں حاصل کیا جا سکتا۔ آنے والی نسلوں کی تعلی کا نظم کرنا ہماری ذمہ داری ہے اگر ہمارے بچے مقابلہ جاتی امتحان میں کامیاب نہیں ہو رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ محنت نہیں کر رہے ہیں۔ امتیاز احمد کریمی نے کتابوں سے رغبت پیدا کرنے اور اپنے گھروں کو لائبریری بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔صاحب کتاب مفتی محمد ثنا ء الہدیٰ قاسمی نے تفصیل سے بتایا کہ انہوں نے اپنے استاذ مولانا آفتاب عالم کے تعلق سے کس طرح کتاب ترتیب دی اور ان کے صاحب زادے محمد احمد نے انہیں اس کام میں کس طرح مدد کیا۔اس موقع پر مولانا آفتاب عالم کے لائق و فائق فرزند محمد احمد نے بھی اپنے خیالا ت کا اظہار کیا ۔ اس دوران وہ اپنے والد کے حالت زندگی بیان کرتے وقت بے انتہا جذباتی ہوگئے اور ہال میں موجود تمام لوگوں کی آنکھیں بھی نم ہوگئیں۔ اس موقع پر محمد احمد کی صاحبزادی ڈاکٹر شائستہ آفتاب نے یہ اعلان کیا کہ وہ اپنے دادا علیہ رحمہ کی شخسیت اور خدمات کے موضوع پر ترتیب دی گئی کتاب آفتاب جو غروب ہوگیا کا دوسرا ایڈیشین ترمیم و اضافہ کے ساتھ جلد شائع کرائیں گی۔مولانا مظہر الحق عربی فارسی یونیورسیٹی سابق پرو وائس چانسلر پروفیسر محمد توقیر عالم نے کہا کہ مولانا آفتاب عالم صاحب بہت علمی صلاحیت کے مالک تھے ۔ نئی نسل کو ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرنی چاہیے۔انہوں نے اس بات پر افسوس ظاہر کیا کہ اسکول و کالج میں پہلے ہی سے تعلیم کا ماحول نہیں تھا اب مدارس سے بھی تعلیم کا ماحول ختم ہوتا جا رہا ہے۔رسم اجراء کی تقریب سے سابق صدر مدرس مدرسہ احمدیہ ابابکر پور ویشالی مولانامظاہر عالم قمر ، کاروان ادب ، ویشالی کے جنرل سکریٹری انوار الحسن وسطوی، بہار اردو اکادمی کے نائب صدر ڈاکٹر عبدالواحد انصاری، اردو کانسل ہند کے ناظم اعلیٰ ڈاکٹر اسلم جاوداں، ڈاکٹر عارف حسن وسطوی، قمر اعظم صدیقی نے بھی مقالے پڑھے اور اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اس موقع پر شکیل سہسرامی نے منظوم خراج عقیدت پیش کیا ۔تقریب کا آغاز مولانا مفتی محمد ظفر الہدیٰ قاسمی کی تلاوت کلام پاک سے ہوا۔اس موقع پر بارگاہ رسالت ماب میں حافظ مزمل اور مولانا نظرالہدیٰ قاسمی نے نعت کا نظرانہ پیش کیا۔ اس کے بعد مولانا نظرالہدیٰ نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا۔ تقریب میں ماڈرن ویلفیر اکیڈمی کے ڈائرکٹر اور عالم دین مولانا محمد مکرم حسین ندوی، ڈاکٹر آصف سلیم ، اردو ایکشن کمیٹی کے سکریٹری ڈاکٹر انوار الہدیٰ، مظہر عالم مخدومی، سید مصباح الدین احمد, نواب عتیق الزماں، ضیاء الحسن ،نصرالدین بلخی ،ساجد پرویز،حاجی پور سے کلیم اشرف،عظیم الدین انصاری ، مولانا آفتاب عالم مفتاحی کے خاندان کے افراد اور کافی تعداد میں اہل ذوق حضرات موجو د تھے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...