Powered By Blogger

پیر, اکتوبر 16, 2023

انس مسرورانصاری

فلسطین کی جنگِ آزادی اور 
           اردودنیانیوز۷۲
        مسلم ممالک کارول 

 * انس مسرورانصاری

     تاریخ کامطالعہ بتاتاہے کہ دنیامیں جہاں کہیں بھی آزادی کی تحریک اٹھی ہے،وہ بے حساب جانی ومالی قربانیوں کے بعدآخرکارکامیاب ہوکررہی۔مجھے کامل یقین ہےکہ اسرائیل سے جنگِ آزادی کی فلسطینی تحریک بھی ایک نہ ایک روز بہرحال کامیاب ہوکررہےگی اور فلسطین ایک آزاد ملک کی حثیت سےترقی کرےگا۔ان شاء ﷲ۔ تاخیرخواہ کتنی ہی کیوں نہ ہو۔ ہرطرح کی قربانیاں خواہ کتنی ہی کیوں نہ دینی پڑیں مگر آزادی حاصل ہوکررہےگی۔ 
       وحشی یورپ کو اپنی دائمی بھوک مٹانے کے لیے مسلمانوں کےخون اور گوشت کی ضرورت ہے۔جسے وہ گاہے گاہے مختلف مسلم ممالک سے حاصل کرتارہتاہے۔یورپ ایک ایسا عفریت بن چکاہے جو ایک ایک کرکےمسلم ممالک کو ہڑپ کرنے کاناپاک ارادہ رکھتاہے۔فلسطین اب اس کا ٹارگٹ ہے۔ وہ اسرائیل کے ذریعے پورے فلسطین کواپنے قبضے میں رکھناچاہتاہے۔ 
    جب سے یہ جنگ شروع ہوئی ہے،انڈین گودی میڈیاکی بن پڑی ہے۔جھوٹوں کےبادشاہ نرہندر مودی کےچیلےحماس کو دہشت گردکہنےسےنھیں تھکتے۔لیکن وہ یہ نھیں بتاتےکہ یہ دہشت گردی آئی کہاں سے۔؟حماس گروپ جو فلسطین کی آزادی کےلیے۔۔طوفان الاقصی مشن۔۔کے تحت مظلوم فلسطینی عوام کی آزادی کےلیےلڑرہاہےتواس میں دہشت گردی کہاں سےآگئی۔؟کیا آزادی کی جدوجہد دہشت گردی ہے۔؟
 حماس فلسطین سے الگ کوئی تنظیم نھیں ہے۔وہ اسی کا حصہ ہے۔جبکہ گودی میڈیا حماس کو فلسطین سے الگ دہشت گردتنظیم بتاتاہےتاکہ دنیامظلوم فلسطینیوں سےہمدردی تورکھے لیکن حماس سےنفرت بھی کرے۔ گزشتہ جنگوں کوعرب اسرائیل جنگ کانام دیاجاتارہاہے۔لیکن موجودہ جنگ فلسطین اور اسرائیل جنگ ہے۔ اس جنگ نے یہ ثابت کردیا کہ متحدہ عرب امارات اوردیگر مسلم ممالک جس میں ترکی بھی شامل ہے،محض گفتارکےغازی ہیں۔ ان کاکرداریہودنوازہے۔فلسطینیوں کو جان لیناچاہئےکہ وہ بےسہارا ہیں اورانھیں اپنےہی محدود وسائل سےاسرائیل سےاپنےملک  کوآزادکراناہوگا۔ دنیا کے سارے مسلمانوں اورسیکولرانصاف پسند جماعتوں کی تائید اور دعائیں انھیں ہمیشہ حاصل رہیں گی۔جو جنگ حماس لڑرہاہےوہ صرف فلسطین کی آزادی کی جنگ نہیں ہے بلکہ صلیبی جنگوں کے طویل سلسلہ کی  ایک کڑی ہے۔مسلم ممالک پرقابض ہونا اورمسلمانوں کو نیست ونابودکرنایورپی صلیبیوں کا اولیں منصوبہ ہے۔اسرائیل توایک مہرہ ہے۔آج میری اور کل تیری باری۔۔والا معاملہ ہے۔ اس صورتِ حال میں کہ جب سارا یورپ فلسطین پر ٹوٹ پڑاہے،شریعتِ اسلامیہ عامتہ المومنین سے جہاد کا مطالبہ کرتی ہے۔
کاش مسلم ممالک اس حقیقت کو سمجھ اور قبول کرلیتے۔کیا عربوں کے دماغ میں اتنی سی بات نھیں آتی کہ۔۔ تیل ختم اور کھیل ختم۔۔اس جنگ نے یہ بھی ثابت کردیاکہ سائنس اور ٹیکنالوجی کےبغیرعربوں کی اوقات دو کوڑی کی ہے۔اسی لیے وہ اسرائیل سے خوفزدہ ہیں۔
    دنیابھرکےمسلمانوں سے اپیل ہےکہ وہ اس جہادمیں شریک ہوں اور جس قدر بھی ممکن ہو، فلسطینی مسلمانوں کی ہرطرح مددکریں۔ ان کی فتح ونصرت کےلیے رب تبارک وتعالی کی بارگاہ میں گریہ کےساتھ خلوص دل سے دعائیں مانگیں۔ اسرائیل کے خلاف کم سے کم اپنا احتجاج ضرور درج کرائیں۔    وماتوفیقی اللہ باللہ۔۔۔ 

 کثرت کےاعتبارسےیوں توخطیرہے
پھربھی نگاہِ دہرمیں بےحدحقیرہے

قرآن بھی خدابھی رسولِ کریم بھی
کل کائنات اس کی ہےلیکن فقیرہے

75/سال سےبتایااورپڑھاجاتارہاہےکہ فلسطین پر یہودیوں کا قبضہ ہے۔باقی سارے مسلم ممالک آزادہیں۔ لیکن اب پتاچلاکہ صرف فلسطینی آزادہیں۔ باقی سارے مسلم ملکوں پر یہودیوں کا قبضہ ہے۔۔
    
   * انس مسرورانصاری

  قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن (انڈیا)

ہفتہ, اکتوبر 14, 2023

اسپتال سے جیل تک ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ

اسپتال سے جیل تک ___
Urduduniyanews72 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ 
=======================================
 ڈاکٹر کفیل خان بن شکیل خان (م3؍ مارچ 2003) ساکن محلہ بسنت پور ، گورکھپورگذشتہ پانچ سالوں سے سر خیوں میں رہے ہیں، 10؍ اگست 2017ء کی وہ بھیانک رات جس میں گورکھپور اسپتال میں آکسیجن کی سپلائی رک جانے کی وجہ سے ترسٹھ(63) بچوں اور اٹھارہ(18) بالغوں کو اپنی جان گنوانی پڑی ، یہ انتہائی المناک طبی حادثہ تھا، ڈاکٹر کفیل خان کو مریضوں کی جان بچانے کی جد وجہد کایہ صلہ ملا کہ وہ پہلے معطل کیے گیے، پھر بر طرف ہوئے اور آٹھ ماہ کی طویل قید انہیں نصیب ہوئی ،ا نہوں نے اپنی یاد داشت انگریزی میں The Gorakhpur Hospital Tragedyکے نام سے لکھی تھی ، اردو داں حلقہ کو اس کے ترجمہ کا انتظار تھا، چنانچہ اس کتاب کا انتہائی رواں ترجمہ امام محمدشعیب وارم فاطمہ نے کیا، نظر ثانی کا کام محمد علیم اللہ اور گلزار صحرائی کے حصہ میں آیا، فاروس میڈیا اینڈ پبلشنگ پرائیوٹ لمیٹڈD-84، ابو الفضل انکلیو-۱، جامعہ نگر نئی دہلی سے یہ کتاب طبع ہوئی ہے ، تین سو بارہ صفحات کی اس کتاب کی قیمت تین سو پچھہتر(375) روپے ہے جو معیاری کاغذ وطباعت اور کارڈ بورڈ پر شاندار اور دیدہ زیب ٹائٹل کے لیے ٹھیک ہی ہے ، ملنے کا پتہ الگ سے کہیں درج نہیں ہے ، اس کا مطلب ہے کہ ناشر کے یہاں سے ہی دستیاب ہو سکتی ہے ۔
کتاب کا انتساب ان معصوم بچوں کے نام ہے جو بی آر ڈی میڈیکل کالج گورکھپور میں اگست 2017ء میں اپنی زندگی کی جنگ ہار گیے اور ان بہادر والدین کے نام ہے ، جنہوں نے غموں کے لا متناہی سلسلے کو برداشت کیا اور  بے انتہا تلخیاں جھیلیں اور آج بھی انصاف کے منتظرہیں، اس کے بعد کتاب میں مذکور تمام افراد کا تعارف کرایا گیا ہے، سانحہ سے متعلق تاریخ وار واقعات کو یک جا قلم بند کیا گیا ہے مصنف کے قلم سے کتاب کا مقدمہ ہے جو ایک خواب اور ایک ڈراؤنا خواب کے عنوان سے ہے ، مصنف نے اس اہم اور قیمتی کتاب پر کسی کاپیش لفظ وغیرہ نہیں لکھوایا ہے ، جس کا آج کل فیشن سا چل پڑا ہے اور اتنی تحریریں کتاب کی تعریف میں مختلف عنوانات سے دوسروں سے لکھوائی جاتی ہیں کہ اس کا حجم کتاب کے ایک تہائی صفحات پر چلا جاتا ہے، ڈاکٹر کفیل خان کو اپنی تحریر پر اعتماد ہے ،ا س لیے اپنی تحریر کو باوزن بنانے کے لیے وہ کسی اور کی تحریر کا سہارا نہیں لیتے، مقدمہ کی آخری ان سطروں کو کو پڑھ کر ہم اس کتاب کے مصنف کے سوز دروں تک پہونچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ لکھتے ہیں:
’’میرے وہم وگمان میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ آنے والے سال میں میرے خلاف نفرت اور انتقام کی آگ بھڑکائی جائے گی، میں گورکھپور میں ہی پلا  بڑھا تھا، مگر مجھے اس کا بالکل اندازہ نہیں تھا کہ یہ شہر میرے لیے ایک میدان جنگ بن جائے گا، جس میں خود مجھے اپنی زندگی اور بقا کی جنگ لڑنی پڑے گی۔ میری یہ کتاب اسی کی داستان ہے‘‘۔ اس داستان کا آغاز 8؍اگست 2017ء سے ہوتا ہے اور 3؍ فروری 2022ء تک کی داستان قلم بند کرنے کے بعد مصنف کا قلم خاموش ہوجاتا ہے ۔‘‘
 کتاب چار حصوں پر مشتمل ہے، پہلا حصہ فرض، دوسرا حصہ قید، تیسرا حصہ تلاش اور چوتھا حصہ عزم وارادہ کا بیانیہ ہے، ہرحصہ کے اندر کئی کئی باب ہیں، جو بات کو زیادہ واضح کرنے میں ممد ومعاون ہے، اس طرح پوری کتاب بائیس(22) ابواب تک پہونچ گئی ہے ۔اس کے بعدکتاب کا خاتمہ ہے ، جس میں ایک ڈاکٹر اور ایک شہری ، شکر گذاری ذرائع پر تبصرے اختصارات اور تصویروں کا البم شامل کیا گیا ہے ۔
 پوری کتاب ایک المیہ داستان ہے ، جس میں جذبات کی شدت ، احساس ذمہ داری ، کچھ کر گذرنے کی جرأت، حالات سے مردانہ وار مقابلہ کی خواہش کی موجیں ابلتی نظر آتی ہیں، حالات کے مد وجزر ، میں جرم بے گناہی کی سزا کاٹ رہا اس کتاب کا مصنف قارئین سے بھر پور ہمدردی بٹورتا ہے، یہ ہمدردی مصنوعی اور دکھاوے کی نہیں، بلکہ حقیقتاً ہم یہ محسو س کرتے ہیں کہ ایک شخص کو غلط بھٹی میں تپا یا جا رہا ہے۔
 کتاب کے بڑے حصہ سے میڈیا کے ذریعہ کفیل خان کو بدنام کرنے اور جھوٹے افسانے گڑھنے کا بھی پتہ چلتا ہے ، ان عہدوں سے ان کے استعفیٰ کے چرچے بھی خوب کیے گیے جس پر کفیل خان کبھی تھے ہی نہیں، یہ سب ایک سازش کا حصہ تھا، شروع میں ان کے کام کو سراہا گیا ، ان کے کام کو ایک ہیرو کی طرح پیش کیا گیا، لیکن جب گندی سیاست کی شعلہ باری ہوئی تو کفیل خان کا سب کچھ جل کر خاکستر ہو چکا تھا، ان میں ان کے وہ زریں خواب بھی تھے جو انہوں نے شعبۂ اطفال کی ترقی کے لیے سجوئے تھے، وہ فطری محبت بھی تھی ، جو بچوں سے ان کو تھی ، اور قوم کے لیے کچھ کر گذر نے کا جذبہ بھی تھا، جو ان کو خاندان کی طرف سے ورثہ میں ملا تھا، وہ گنگا جمنی تہذیب کو گلے لگانے کے قائل تھے، جسے نفرت کی آندھیوں نے کہیں دور جا پھینکا تھا۔ 
اس کتاب کے مطالعہ سے ہم ہندوستانی جیلوں میں قید لوگوں کے مصائب او ر پریشانیوں کو محسوس کر سکتے ہیں، جیلر کا رویہ قیدیوں کے ساتھ کیسا ہوتا ہے اور خود ایک قیدی دوسرے قیدی کے ساتھ کیسا سلوک کرتا ہے، انسانیت کی دبی چنگاری کبھی یہاں بھی کام کرجاتی ہے ۔
 اس کتاب کا مطالعہ اس لیے بھی مفید ہے کہ کس طرح لوگوں کو پھنسا یا جاتا ہے ، کیسے کیسے جال بچھائے جاتے ہیں، جب جال میں کوئی پھنس جاتا ہے اس کی تڑپ کیا ہوتی ہے اور اس کے بند کس طرح کسے جاتے ہیں، اور ظلم وجور کی بھٹی میں کس طرح گرمایا اور جلایا جاتا ہے ، پڑھیے ایک کہانی جو صداقت پر مبنی ہے، ایک داستان جو دھیرے دھیرے دراز ہو جاتی ہے، ایک ناول جس کا ہر کردار ہمیں متوجہ کرتا ہے، اور بتاتا ہے کہ نا انصافی اس دنیا کی حقیقت ہے ، اور ہمیں خواہی نخواہی اس نا انصافی کا سامنا کر نا پڑتا ہے، یہاں عہدے منصب، جواہر اور سیم وزر سے فیصلے متاثر ہوتے ہیں اور انصاف کی دیوی جو دیو مالائی روایتوں کے مطابق اندھی ہے ، اس کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوتی ہے ، اس کے پلڑے میں کوئی بھی دولت مند سیم وزر رکھ کر دوسرے پلڑے کو جھکا دیتا ہے ، دیوی دیکھتی نہیں ہے اسے پتہ ہی نہیں چلتا کہ کب جرم بے گناہی کا پلڑا جھک گیا اورکب معصوم خطا لائق سزا قرار پاگئے، پڑھئے اور اس کتاب کو ضرور پڑھیے، یہ ایک آئینہ ہے ہمارے سماج کا آئینہ اس میں اپنی شکل بھی نظر آنے لگے تو مت گھبرائیے، یاد رکھیے۔ 
سچ بات مان لیجئے چہرے پر دھول ہے         
الزام آئینوں پر لگانا فضول ہے (انجم رہبر)

تحفظ شریعت وویلفیئر سوسائٹی انڈیا کے زیر اہتمام گیارہواں ٹائم لنک پر عالمی مشاعرہ

تحفظ شریعت وویلفیئر سوسائٹی انڈیا کے زیر اہتمام گیارہواں ٹائم لنک پر عالمی مشاعرہ 
اردودنیانیوز۷۲ 
تحفظ شریعت وویلفیئر سوسائٹی جوکی ہاٹ ارریہ بہار کے بینر تلے گزشتہ (13/10/2023) شب ایک نعتیہ مشاعرہ کا انعقاد کیا گیا, جس کی صدارت ادارہ کے روح رواں
الحمد للہ تحفظ شریعت و ویلفیئر سوسائٹی جوکی ہاٹ ارریہ کے بینر تلے آج کا گیارہواں عالمی نعتیہ مشاعرہ   آن لائن پروگرام شروع ہے۔ ، 
زیر صدارت تنویر پھول امریکہ 
ڈاکٹر زبیر فاروق دبئی  محسن رضی علوی امریکہ 
 نظامت کی اہم ترین ذمہ داری حضرت مولانا شاہد سنگاپوری انڈیا بحسن وخوبی انجام دیا, مجلس کا آغاز نے تلاوت کلام اللہ شریف سے ہوا, جبکہ ابتدائ
تلاوت قرآن کریم کے لئے قاری محمد شہزاد رحمانی صاحب انڈیا 
نعت پاک کے لئے 
دانش خوشحال صاحب انڈیا 
اردو ادب کے درخشندہ ستارے
سرفراز بزمی فلاحی انڈیا 
مختار تلہری بریلی انڈیا 
مظفر نایاب دوحہ قطر 
خمار دہلوی انڈیا 
رئیس اعظم حیدری انڈیا 
رشید شیخ شکاگو 
عامر اعظمی متحدہ عرب امارات ڈاکٹر سید مظفر باسط علیگ انڈیا 
فیض جلیل قرشی کینیڈا 
فیاضاحمدراہی انڈیا 
قاری محمد انوار الحق صاحب مقیم حال بنگلور  
 مضمون عبد السلام عادل ندوی انڈیا 
 خطبئہ استقبالیہ عبد الوارث مظاہری انڈیا 
کلمہ تشکر محبوب رحمانی انڈیا 
محمد اعظم حسن مہتمم مدرسہ سراج العلوم نعمانیہ ہریا بارا ارریہ   
جناب سرفراز غزالی صاحب 
جناب فہیم صاحب دھنبادی 
حافظ انتظار احمد سدھارتھ نگر 
مولانا ازہر راہی صاحب قاسمی مقیم حال دہلی
قاری محمد کوثر آفاق صدیقی صاحب ارریہ و مہتمم مدرسہ حسینہ فیض العلوم ضلع سنگاریڈی 
جناب قاری انور غفاری صاحب حیدرآباد
جناب افروز انجم صاحب اڑیسہ کو دعوت دی جائے
جناب حافظ و ڈاکٹر محمد کمال الدین صاحب
مولانامظفر حسين المظاهري
مقيم حال جدة سعودي عربيه
کے نام قابل ذکر ہے-- ہم جملہ شرکائے پروگرام کا تہہ دل سے شکر گزار ہیں کہ اپنا قیمتی وقت دے کر اراکین تحفظ شریعت وویلفیئر کی ہمت افزائ فرمائ اور آئندہ بھی کسی طرح کے پروگرام میں شرکت کرکے حوصلہ افزائ فرمائیں گے یہی امید ہے -- ساتھ ہی ہماری آواز جہاں تک پہنچے لبیک کہیں گے-- 
واضح ہو کہ 8/30 بجے شب سے شروع ہونے والا یہ پروگرام دیر رات 11 :30بجے صدر مجلس کی دعاء پر اور شکریہ کے ساتھ اختتام ہوا
اس پروگرام کے انتظام قاری محبوب عالم رحمانی تھے

جمعہ, اکتوبر 13, 2023

جی ۲۰ کا نفرس کے اصل ہیرو

جی-20 کانفرنس کے اصل ہیرو ____
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی 
ہندوستان نے اصولی طور پر جی-20 کانفرنس کا کامیاب انعقاد کیا، دعوتیں ہوئیں، بیانات آئے، تقریریں کی گئیں، کروڑوں روپے ملک کے اس کانفرنس پر خرچ ہوئے، افریقن یونین کواس گروپ میں مستقل رکن کی حیثیت سے شامل کرنے پر کامیابی ملی، اس طرح اب جی20، جی 21 ہو گیا ہے، اس کانفرنس کی سب سے اہم بات یہ رہی کہ مشترکہ اعلانیہ کو پہلے دن اتفاق رائے سے منظور کر لیا گیا، اس سے ہندوستان کی تصویر ممبر ممالک کے درمیان اچھی رہی، اس کانفرنس کے انعقاد کے لیے پرگتی میدان نئی دہلی میں بھارت منڈپم کے نام سے دیدہ زیب اور خوبصورت جلسہ گاہ بنایا گیا تھا، ہندوستان جی – 20 کا صدر تھا، یہ صدارت ہر سال بدلتی رہتی ہے، ہندوستان کی صدارت کا سال نومبر میں مکمل ہوجائے گا، اس لیے وزیر اعظم نریندر مودی نے اگلے سال کی صدارت برازیل کے سپرد کر دی اور اس طرح یہ کانفرنس پورے تزک واحتشام کے ساتھ اختتام پذیر ہوا، روس اور چین کے صدور کی کمی کھٹکی ضرور، لیکن اعلامیہ سب کی پسند قرار پایا، اس میں ماحولیات، انسان، خوش حالی اور امن پر زور دیا گیا ہے، اس کو چست درست انداز میں زمین پر اتارنے کے لیے وزیر اعظم نے جی-20 کے سربراہوں کو سب کا ساتھ سب کا وکاس سب کا پریاس اور سب کا وشواش حاصل کرنے کی ضرورت پر زور دیا، انہوں نے کہا کہ اس وقت کا سب سے بڑا بحران اعتماد کی کمی ہے، جسے جنگ نے پریشان کن بنا دیا ہے، ہمیں باہمی اعتماد کی کمی کے اس بحران کو بہر حال ختم کرنا ہوگا، وزیر اعظم نے ایک زمین، ایک خاندان اور ایک مستقبل کو سامنے رکھ کر کام کرنے کی ضرورت بھی بتائی۔
کانفرنس کے ظاہری چکا چوند پر سب کی نظر رہی، لیکن اعلانیہ پر اتفاق رائے بنانے میں شیرپا امیتابھ کانت نے اہم کردار ادا کیا، پردے کے پیچھے چل رہے ملکوں کے نمائندوں کے ساتھ انہوں نے لگاتار دو سو گھنٹے تبادلہ خیال جاری رکھا، تین سو بیٹھکیں، دو دو ملکوں کےساتھ الگ الگ کی گئیں، اعلانیہ کا پندرہ مسودہ تیار کیا گیا، سب سے زیادہ دشوار مرحلہ روس یوکرین جنگ سے متعلق تھا، جس میں مغربی ممالک کا رویہ روس کے خلاف تھا، بات کسی نتیجے تک نہیں پہونچ پا رہی تھی، ایسے میں ڈوبھال اس گفتگو میں شامل ہوئے اور مسودہ پر اتفاق رائے بن سکا، اعلانیہ میں روس کا ذکر کیے بغیر یوکرین میں جنگ کا تذکرہ کیا گیا، اور صرف یہ کہہ کر بات ختم کر دی گئی کہ اختلافات اور جنگ سے دنیا پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں، سینتیس(37) صفحات پر مشتمل دہلی اعلانیہ میں 4 بار یوکرین جنگ کا ذکر آیا ہے۔ اس طرح پچاسی(85) پیراگراف پر مشتمل اس مسودہ کو آخری شکل دی جا سکی۔
یہ ناممکن کو ممکن بنانے کا عمل جی -20 شیرپا امیتابھ کانت، جوائنٹ سکریٹری گمبھیر اور کے ناگ راج نائیڈو کی مشترکہ جد وجہد کے سر جاتا ہے، این ایس اے اجیت ڈوبھال کی محنت بھی رنگ لائی، اس لیے جی -20 کے اصل ہیرو یہی ہیں، جنہوں نے ہندوستان کو دنیا کے سامنے سرخ رو کیا ہے، ان کے تذکرے کہیں گم ہو گیے، اخبارات اور ٹی وی چینلوں نے بھی ان پر توجہ نہیں دی، سچ ہے مینار کی اونچائی سب کو نظر آتی ہے، لیکن مینار جن بنیادوں پر کھڑی ہوتی ہے وہ کسی کو نظر نہیں آتی۔مینار کو بلند کرنے کے لیے کچھ اینٹوں کو زمین میں دفن ہونا پڑتا ہے، جی -20میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔

محبت رسول کے تقاضے

محبت رسول کے تقاضے
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ 
=======================================
یہ ربیع الاول کا مہینہ ہے، یہی وہ مہینہ ہے جس میں رحمۃ للعالمین ، شفیع المذنبین، محبوب رب العالمین ، ضعیفوں کے ماویٰ، یتیموں کے ملجا،مظلوموں کے خیر خواہ ، وجہ تخلیق کائنات اور حقوق انسانی ، سماجی مساوات، تحفظ ماحولیات کے سب سے بڑے داعی تشریف لائے،یہ مژدہ تھا دکھی انسانیت کے لئے ،ابررحمت تھا، کائنات کے لئے ، تمہید تھی خدا ئے واحد کی پرستش کی، اس لئے مسلمان اس مہینے میں مسرت کے اظہار کے لئے مختلف جگہوں پر ذکر نبی کی مجلسیں منعقد کرتے ہیں ، اور اپنی محبت وعقیدت کا اظہار کرتے ہیں ، بارہ ربیع الاول گذرااور پھر عام لوگ بھول جاتے ہیں کہ اظہار محبت وعقیدت کے تقاضے کچھ اور ہیں،سیرت پاک کا مطالبہ ہم سے کچھ اور بھی ہے ، اور وہ یہ ہے کہ ہم اپنی زندگی کو اسوہ ٔ رسول کے مطابق بنائیں ، اللہ سے محبت کا تقاضہ اور آپ کی حیات مبارکہ کو نمونۂ عمل بنانے کا خلاصہ بھی یہی ہے ، لیکن آج صورت حال بہت عجیب ہے ، واقعہ یہ ہے کہ ہماری واقفیت سیرت پاک سے بہت کم ہے، مدارس کے علماء ، طلبہ کی بات نہیں ، عام مسلمانوں کی بات ہے ، اس موقع سے اگر ہم جائزہ لیں تومعلوم ہوگا کہ نماز میں درود وسلام اور مجلس میلاد میں درود وشریف پڑھنے کے علاوہ پورے سال ہم نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنے کا اہتمام نہیں کیا ، حالانکہ درود شریف پڑھنے کاحکم تو قرآن کریم میں مذکور ہے کہ اللہ رحمت بھیجتے ہیں، اس کے فرشتے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھتے ہیں، اے ایمان والو تم بھی درودوسلام پڑھو ، اس حکم کی بنا پر جتنا اہتمام درود شریف کا کرناچاہئے اور ہر دن کرنا چاہئے ،اس کا کوئی حصہ ہماری زندگی میں نہیں پایاجاتا ، ہر آدمی اپنے گریباں میں منہ ڈال کر دیکھے کہ اس نے پورے سال کتنی بار درود شریف پڑھا ، لطیفہ یہ ہے کہ درود شریف پڑھنے کا اہتمام نہیں ہے ، لیکن درود شریف پڑھنے کے طریقے پر جھگڑے ہورہے ہیں ، یہی حال سیرت پاک سے ہماری واقفیت کا ہے، اس معاملے میں ہماری معلومات سطحی ، ناقص اور نامکمل ہے ، کیوں کہ ہم نے سیرت النبی پر باقاعدہ کسی کتاب کا مطالعہ نہیں کیا ، ہمارے بچے جس اسکول اور کنونٹ میں پڑھتے ہیں وہاں مطالعۂ سیرت کا کوئی موقع نہیں ہے ، اس لئے اگر کوئی بچہ ناواقف ہے تو غلطی اس کی نہیں ہے، ہماری ہے کہ ہم نے اسے سیرت کے مطالعہ کا موقع نہیں دیا، ہم نے بہت سارے موضوعا ت پر مقابلے کے لئے اسے تیار کیا ،لیکن تاریخ اسلام اور سیرت پاک کی واقفیت اس کے پاس واجبی بھی نہیں ہے ، دن رات ہم پتہ نہیں کس کس سے چاٹنگ کرتے رہتے ہیں ، سوشل سائٹس کے ذریعہ کتناساراوقت غیر ضروری، بلکہ نامناسب مکالموں میں گذار دیتے ہیں ، کیسی کیسی تصویریں لوگوں کو بھیجتے رہتے ہیں؛لیکن کیا ہم نے یہ سوچا اور اس کی کوشش کی کہ اس سہولت کو ہم سیرت پاک کے واقعات کو عام کرنے کے لئے استعمال کریں گے ، چندا حادیث کا انتخاب کرکے اپنے کسی دوست کو کبھی بھیجا کہ یہ دیکھو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے کہ اچھا انسان وہ ہے جو لوگوں کے لئے نفع بخش ہو، اپنے بھائی کی مدد کرو چاہے ظالم ہویا مظلوم ، ظالم کی مدد یہ ہے کہ اسے ظلم سے روک دو ، مظلوم کی مدد یہ ہے کہ اس کا حق دلا کر دم لو ، یا پھر یہ حدیث پاک کہ تم میں اچھا وہ ہے، جو اپنے اہل و عیال کے لئے اچھا ہواورمیں اپنے اہل و عیال کے لئے تم میںسب سے بہتر ہوں ،ساری مخلوق اللہ کا کنبہ ہے اور اللہ کے نزدیک سب سے محبوب وہ ہے جو اس کے کنبے کے ساتھ بہتر سلوک کرے ، جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہے اللہ اس کی مدد میں رہے گا ، جو شخص دوسرے کے ساتھ رحم کا برتائو نہیں کرتا ، اللہ بھی اس پر رحم نہیں کرتا ، وہ شخص جنت میں نہیں جائے گا، جس کا پڑوسی اس کی ایذا سے محفوظ نہ ہو ، حلال کمائی کی تلاش بھی ایک اہم فریضہ ہے ، بے بنیاد باتوں پر کان نہ لگائو ، دوسروں کے عیب نہ تلاشو ، آپس میں بعض نہ رکھو، آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو ، جنت ماں کے قدموں تلے ہے ۔ اس قسم کی کتنی احادیث ذخیرہ میں مل جائیں گی، اگرآپ نے پانچ پانچ لوگوں تک ان احادیث کو پہونچانے کا اہتمام کرلیااوراس میں اپنے غیر مسلم بھائیوں کو بھی شریک کرلیا تو سوچئے کتنا بڑاعلمی انقلاب آجائے گا اور کس قدر غلط فہمیاں دور ہوںگی، اس لئے طے کیجئے کہ ہرروز درود شریف کا ور د کثرت سے کریں گے ، اس ماہ مبارک میں سیرت پر کم از کم ایک کتاب کا مکمل مطالعہ کریں گے ، جو پڑھنا نہیں جانتے ہیں، انہیں پڑھ کر سنائیں گے ،اس کے لئے آپ ’’رحمت عالم، سیرت النبی ،سیرت المصطفی ، اصح السیر ، نبی رحمت ، سیرت ابن اسحاق، الرحیق المختوم ، سیر ت بن ہشام ، سیر ت حلبیہ وغیرہ کا انتخاب کرسکتے ہیں ،طے کیجئے کہ سوشل سائنٹس کا پورے مہینہ روزانہ سیرت پاک اور تعلیمات نبوی کو عام کرنے کے لئے استعمال کریں گے ، روزانہ اس کا م کے لئے اپنے دوستوں کو، متعلقین کواورگروپ کے شرکاء کو میسج بھیجاکریں گے ، ائمہ کرام جمعہ کے خطبوں میں سیرت نبوی کی عصر حاضر میں معنویت کے حوالہ سے مصلیان کے سامنے تقریر کریں گے اور انہیںعمل پر ابھاریںگے ، جو لوگ اخبارات ورسائل کے مدیران ہیں وہ اس مہم کو انجام دینے میں اپنی پوری حصہ داری نبھائیں گے، روزانہ سیرت پاک کے کسی گوشے پر معیاری اور معلوماتی مضامین شائع کریں گے ، ہرعلاقہ میں سیرت پاک کو عام کرنے کے لئے چھوٹے بڑے جلسے کریں گے اوراس میں غیرمسلم بھائیوں کو بھی شریک کریں گے جو سلجھے ہوئے لوگ ہیںاور غیرمسلموں میںجن کی معلومات سطحی نہیں ہے، انہیں بولنے کے لئے مدعو کریں گے، ہندی زبان میںاسلامک لٹریچر خصوصا سیر ت پاک پر کتابیں لوگوں تک پہونچائیں گے ؛تاکہ صحیح معلومات لوگوں تک پہنچ سکے۔ہم انہیں بتائیں گے کہ جان و مال ، عزت و آبرو اور عورتوں کے حقوق کے تحفظ کا جیسا انتظام آپ کی تعلیمات میں ہے اور پرامن بقا ء باہم کے جو اصول آپ نے دیئے ہیں،اس کی نظیر کسی اور مذہب میں نہیں ملتی۔ اسکول و مدارس کنونٹ میں سیرت کوئز کے مقابلے منعقد کریں گے تاکہ اس حوالے سے بچوںکی واقفیت سیر ت پاک سے ہوجائے ،ان کی حوصلہ افزائی کے لئے تشجیعی انعامات دیں گے، ان مقابلوں میں دوسرے اسکول اور اداروں کے بچوں کو بھی شریک کیا جاسکتا ہے ، مذہب کی بھی کوئی قید نہیں رکھی جائے ،اسٹیکر اور چھوٹے چھوٹے پمفلٹ چھپوا کر تقسیم کرنے کاعمل بھی مفید ثابت ہوسکتا ہے ، ہم کن کن ناموں پر ہفتہ وار تحریک چلاتے ہیں سیرت پاک پر ماہانہ تحریک چلایئے اور گھر گھر پیغام پہونچایئے، بغیر جانے ہوئے عمل کرنا کسی طرح ممکن نہیں ، پہلے جانئے پھراپنی زندگی کو سیرت رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ڈھالئے  یہ مسلمانوں کاشرعی، ایمانی، دینی اور مذہبی تقاضہ ہے ۔

جمعرات, اکتوبر 12, 2023

قرضوں کا بوجھ __مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

قرضوں کا بوجھ __
Urduduniyanews72 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
ہندوستان دن بدن قرضوں کے بوجھ تلے دبتا جا رہا ہے، ایک رپورٹ کے مطابق مارچ 2023تک غیر ملکی قرضے 624بلین ڈالتر تک پہونچ گیے تھے جو مالی سال21-22کے مقابل 5.6بلین ڈالر کا اضافہ درج کیا گیا ہے، اس طرح ہر نو مولود جو ہندوستان میں آ رہا ہے، وہ چھیالیس ہزار روپے اپنے اوپر قرض لے کر ہی پیدا ہو رہ اہے، قرضوں کی شرح سود میں عالمی طور پر اضافہ ہوا ہے، ظاہر ہے ہندوستان بھی اسی دنیا میں ہے، اس لیے اب اسے شرح سود 5.2فی صد بڑھ گئی ہے، جو قرض کی ادائیگی 21-22میں 41.6بلین ڈالر تھی وہ 22-23میں 49.6بلین ڈالر ہو گئی ہے، اس اضافی بوجھ کا ہندوستانی معیشت پر گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں، اس کی وجہ سے فلاحی اسکیموں میں کٹوتی کی جا رہی ہے اور اس کی وجہ سے ملک کی شرح نمو میں سستی کا رجحان پایا جا رہا ہے، یہ چیزیں ہماری وزیر خزانہ سیتارمن کی نگاہوں میں ہے تو ضرور ، لیکن وہ اس کی ان دیکھی کر رہی ہیں، وہ یہ کہہ کر عوام کو تسلی دے رہی ہیں کہ غیر ملکی قرضوں میں قلیل مدتی قرضے کم اور طویل المیعاد قرضے زیادہ ہیں، طویل المیعاد ہونے کی وجہ سے ان قرضوں کے اثرات ہمارے اوپر نہیں پڑ رہے ہیں، وہ اس بات کو مانتی ہیں کہ غیر ملکی قرضوں کے مقابلے ہمارے پاس زر مبادلہ کے ذخائر صرف بانوے فی صد ہیں۔
 اگر قرض کا بوجھ اسی طرح بڑھتا رہا اور زر مبادلہ کے ذخائر کم ہوتے رہے تو ہندوستان کو سری لنکا اور پاکستان کی طرح عالمی برادری سے کشکول گدائی لے کر امداد کی اپیل کرنی ہوگی، وہ دن ہندوستان کی تاریخ کا سیاہ دن ہوگا اور ملکی وقار کی ایسی تیسی ہو کر رہ جائے گی اللہ وہ دن نہ لائے اس کی دعا ہم سب کو کرنی چاہیے۔

بدھ, اکتوبر 11, 2023

انڈیا، بھارت اور ہندوستان ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

انڈیا، بھارت اور ہندوستان ___
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
 یہ بات سب پر عیاں ہے کہ بھاجپا، آر ایس ایس کی سیاسی شاخ ہے، اور اس کے سر براہ موہن بھاگوت کے فرمان ہی نہیں چشم وابرو کے اشارے پر یہاں کی حکومت چل رہی ہے، چند روز قبل موہن بھاگوت نے ایک تقریر میں ملک کا نام انڈیا کے بجائے بھارت لکھنے کو کہا تھا، چنانچہ اس حکم کی تعمیل کرتے ہوئے حکومت نے جی 20 کانفرنس کے موقع سے اس کا استعمال شروع کر دیا، صدر جمہوریہ دروپدی مرمو کی طرف سے جو دعوت نامہ عشائیہ کا تقسیم ہوا، اس میں پریسڈنٹ آف بھارت اور وزیر اعظم کو پرائم منسٹر آف بھارت لکھا گیا، وزیر اعظم کے سامنے بھی کانفرنس کے موقع سے ڈائس پر بھارت لکھا ہوا تھا، ظاہر ہے غیر ملکی مہمانوں کو اس سے کیا لینا دینا تھا کہ آپ اپنے ملک کا نام انڈیا رکھتے ہیں یا بھارت، چنانچہ انہوں نے اس تبدیلی کا نوٹس نہیں لیا، بعض مہمانوں نے اپنی تقریر میں انڈیا ہی استعمال کیا، کیوں کہ پوری دنیا بھارت کو انڈیا ہی کے نام سے جانتی ہے۔
 وزیر اعظم نے اپنی اکثریت کے بل پر بغیر کسی دستوری ترمیم کے انڈیا کو بھارت کر دیا،  انڈیا کو بھارت بنانے میں آر ایس ایس کے سر براہ کے فرمان کی تعمیل کے ساتھ حزب مخالف کے اتحاد”انڈیا“ سے بھی خوف کی جھلک ملتی ہے، حالاں کہ انڈیا جو ملک کا نام ہے وہ مکمل ہے، مخفف نہیں، حزب مخالف کے اتحاد کے لیے انڈیا کا نام مخفف ہے، لمبی عبارت کا، یہ الگ بات ہے کہ مخفف کی طرح کوئی لکھتا نہیں ہے۔
 اب مرکزی حکومت اس بل کو پہلے کابینہ میں پیش کرکے منظوری لے گی اور پھر اسے دستور کی دفعہ 1 میں ترمیم کے طور پر پارلیامنٹ اور راجیہ سبھا میں پیش کرے گی، اکثریت کے بل پر اس کی منظوری دشوار نہیں ہے اور جب یہ صدر جمہوریہ کے پاس جائے گا تو وہ اس پر دستخط کرنے میں دیر نہیں لگائیں گی اور انڈیا بھارت بن جائے گا جو عملاًپہلے ہی بنا دیا گیا ہے۔
 اس تبدیلی کا بڑا اثر سرکاری خزانے پر پڑے گا، اور کھربوں روپے اس تبدیلی کے کام پر لگانے ہوں گے، سب سے پہلے تو تمام نوٹوں اور سکوں کو بدلنا ہوگا، جس پر رزرو بینک آف انڈیا لکھا ہوا ہے، یعنی ابھی ہم پہلے نوٹ بندی اور دو ہزار روپے کے نوٹوں کے چلن بند ہونے سے اُبھرے بھی نہیں تھے کہ ایک اور نوٹ بندی کا خطرہ ہمارے سروں پر منڈلانے لگا ہے۔
 ہندوستان کی تمام عدالتوں میں انڈیا ہی استعمال ہوتا ہے، چیف جسٹس آف انڈیا کہا جاتا ہے، اس کے لیے تمام کاغذات اور عمارتوں پر انڈیا کے بجائے بھارت لکھنا ہوگا، پوری دنیا میں ہمارے سفارت خانے انڈین ایمبسی سے معروف ہیں، وہاں کی عمارتوں اور فائلوں پر بھی بھارت ہی لکھنا ہوگا، اسی طرح ہندوستان کے سارے ویب سائٹسGov.in.کے نام سے ہی ہیں، اس کو بھی تبدیل کرنا ہوگا۔ اتنی بڑی تبدیلی کے لیے ملک کی عوام کا جو روپیہ خرچ ہوگا وہ اپنی جگہ، مہینوں ملک کی بڑی افرادی قوت کو ان تبدیلیوں کو زمین پر اتارنے میں لگا نا ہوگا، اور پورے عوام کی توجہ غریبی اور بے روزگاری سے ہٹ کر انڈیا کو بھارت بنانے میں لگی رہے گی۔ چندر یان -3، آدتیہ ایل-1کے ساتھ حکمراں طبقہ اسے بھی مودی حکومت کی بڑی کارکردگی قرار دے گا اور ملک کی عوام اس کے جھانسے میں آکر اپنی ترجیحات بھول چکی ہوگی۔
انڈیا کا ایک نام ہند اور ہندوستان بھی مستعمل ہے، عربی میں اسے ہند اور اردو میں ہندوستان لکھا جاتا رہا ہے، اقبال کی مایہ ناز نظم ”سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا“ آؤٹ آف ڈیٹ از کار رفتہ ہو جائے گا، اس نظم کی شیرینی جس قدر ہندوستان کے لفظ میں ہے کوئی اور اس کا بدل ہوہی نہیں سکتا، بھارت کے بجائے ہندوستان بھارت کے مقابل زیادہ بہتر تھا کیوں کہ اس لفظ سے ”ہندو استھان“ ہونے کی مہک آتی ہے، لیکن یہ لفظ اردو میں مستعمل ہے اس لیے اس کی معنویت کی طرف حکمراں طبقہ کا ذہن منتقل ہی نہیں ہو سکتا، اسے تو رام کے بھائی بھرت کی نسبت سے بھارت ہی اچھا معلوم ہورہا ہے، متنبی عربی کا مشہور شاعر ہے، اسے جب ہندوستانی تلوار کی تعریف کرنی تھی تو سیف ہندی کہاتھا۔
 اب ایسا بھی نہیں ہے کہ ہندوستان کا نام پہلی بار بدلا جا رہا ہے، ہندوستان کا قدیم نام ”جمبودیپ“ ہے یہ نام ویدوں میں مذکور ہے، اور یہاں جامن زیادہ پائے جانے کی وجہ سے یہ نام مروج تھا، اس کے بعد اسے بھارتا دیشم (بھارت دیش) کہا جانے لگا، یہ نام راجا بھرت کی مناسب سے دیا گیا، پھر کئی مراحل میں ہندوستان ہند، ہند ودیش، آریہ ورت اور انگریزوں نے اسے انڈیا کا نام دیا، اور اب یہ بھارت بن گیاہے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...