Powered By Blogger

جمعرات, اکتوبر 19, 2023

ڈاکٹر عبد العزیز سلفی

ڈاکٹر عبد العزیزسلفی ؒ  ___
اردودنیانیوز۷۲

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ 
=======================================
 جمعیت اہل حدیث ہند کے نائب امیر، دا رالعلوم احمدیہ سلفیہ دربھنگہ کے ناظم اعلیٰ، سلفیہ ہائی اسکول ، سلفیہ یونانی میڈیکل کالج، ملت شفاخانہ امام باڑی دربھنگہ کے منتظم وسکریٹری، شفیع مسلم ہائی اسکول کی مجلس منتظمہ اوردار العلوم ندوۃ العلماء کی مجلس عاملہ کے رکن، انجمن نادیۃ الاصلاح کے سابق لائبریرین، مسلم انجمن تعلیم کے سابق خزانچی جناب ڈاکٹر عبد الحفیظ سلفی کا 12؍ ستمبر 2023ء روز منگل بوقت 10؍ بجے دن  دربھنگہ میں انتقال ہو گیا، ان کی عمر تقریبا پچاسی سال تھی، جنازہ کی نمازبعد نماز مغرب قبیل عشاء مولانا خورشید مدنی سلفی کی امامت میں ادا کی گئی، تدفین چک زہرہ قبرستان میں عمل میں آئی، پس ماندگان میں اہلیہ، دو فرزند انجینئر سید اسماعیل خرم، ڈاکٹر سید یوسف فیصل، ایک صاحب زادی عائشہ فرحین اور ایک بھائی ڈاکٹر سید عبد الحکیم سلفی کو چھوڑا، اس طرح ملت ایک بڑے دانشور، ملی کاموں میں سر گرم اور با فیض شخصیت سے محروم ہو گئی۔ سدا رہے نام اللہ کا۔
 مولانا ڈاکٹر عبد العزیز سلفی بن ڈاکٹر عبد الحفیظ سلفی (م 1988) بن ڈاکٹر سید فرید رحمہم اللہ نے 10؍ جنوری 1948ء کو دانا پور پٹنہ میں آنکھیں کھولیں، چھ سال کی عمر میں دا رالعلوم احمدیہ سلفیہ میں فارسی دوم کی جماعت میں داخلہ ہوا اور 1955ء میں یہاں سے سند فراغ حاصل کیا، فارسی کی ابتدائی تعلیم آپ نے اپنے والد بزرگوار سے حاصل کی، اس کے بعد جن اساتذہ کے سامنے آپ نے زانوے تلمذ تہہ کیا ان میں مولانا عبد الرحمن پرواز اصلاحی، مولانا نذیر احمد املوی، مولانا فضل الرحمن اعظمی، مولانا عبد الرحمن سلفی، مولانا ظہور رحمانی، مولانا ادریس آزاد رحمانی، مولانا عبد الجبار کھنڈیلوی، مولانا عبید الرحمن عاقل رحمانی کے نام خاص طور سے قابل ذکر ہیں، یہاں دوران تعلیم آپ کافی سر گرم رہے، بیت بازی، مختلف نوعیت کے انعامی مقابلے اور مشاعروں کا انعقاد کرایا، قلمی رسالہ ’’شگوفہ‘‘ اور ’’منادی‘‘ کے نام سے نکالا،اس طرح آپ طلبہ واساتذہ کی توجہ کا مرکز بنے رہے۔
 مدرسہ کی تعلیم کی تکمیل کے بعد شفیع مسلم ہائی اسکول کے دسویں کلاس میں داخلہ لیا اور 1975ء میں سائنس لے کر میٹرک کا امتحان پاس کیا، اس کے بعد سی ایم کالج دربھنگہ میں آئی ایس سی میں داخلہ لیا، لیکن 1961ء میں مسلم یونیورسٹی علی گڈھ چلے گیے اور بی ایس سی تک کی تعلیم وہیں پائی، نالندہ میڈیکل کالج پٹنہ میں داخلہ 1970ء میں ہوا اور یہیں سے 1976ء میں ایم بی بی ایس کیا، اسکول کے اساتذہ میں جناب محمد محسن (بی اے) ماسٹر مطیع الرحمن صاحب جن سے ڈاکٹر صاحب نے انگریزی جغرافیہ اور حساب، ماسٹر جمیل احمد صاحب جن سے سائنس اور بشیر احمد شاداں فاروقی سے سماجیات کی تعلیم کے لیے زانوئے تلمذ تہہ کیا، ان حضرات نے ڈاکٹر صاحب کے علمی وادبی ذوق کو پروان چڑھایا، علی گڈھ کے دوران قیام ان کے استاذ ڈاکٹر اخلاق الرحمن قدوائی سابق گورنر بہار اور ہریانہ رہے، میڈیکل کالج کے اساتذہ کا مجھے علم نہیں ہو سکا۔
 ایم بی بی ایس سے فراغت کے ایک سال قبل 1975ء میں رخسانہ خاتون بنت قاضی سید حسن شیر گھاٹی گیا کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے ، اللہ رب العزت نے اس رشتہ میں برکت عطا فرمائی اور دو لڑکے، ایک لڑکی کے ساتھ پوتے ، پوتیاں نواسے اور نواسیوں سے بھرا پُرا گھر موجود ہے۔
 ڈاکٹر صاحب سے میری ملاقات کئی تھی، لیکن گہرے مراسم نہیں تھے، ان کی بہ نسبت ان کے چھوٹے بھائی ڈاکٹر عبد الحلیم سلفی سے میرے مراسم مضبوط تھے،ا س کی خاص وجہ یہ تھی کہ جب آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے ریاستی سطح پر اصلاح معاشرہ کمیٹی کی توسیع کی تو بہار کو دو حصوں میں تقسیم کرکے جنوبی بہار کا کنوینر مولانا انیس الرحمن قاسمی سابق ناظم امارت شرعیہ اور شمالی بہار کا کنوینر ڈاکٹر عبد الحلیم سلفی کو بنایا تھا اورمجھے شمالی بہار کا جوائنٹ کنوینر بنایا گیا تھا، اس حوالہ سے میرا آنا جانا کئی بار دربھنگہ ہوا اور ڈاکٹر عبد الحلیم سلفی ؒ کے ساتھ ان کے گھر حاضری ہوتی تھی، ڈاکٹر عبد العزیز صاحب سے وہیں ملاقات ہوتی رہی، اس زمانہ میں بھی ڈاکٹر صاحب پر ضعف کا غلبہ تھا، بلکہ جسم میں رعشہ تھا، اس کے باوجود جب بھی ملے پورے اخلاق سے ملے، ضیافت کا اہتمام کیا، ان سے مل کر یہ محسوس نہیں ہوتا تھا کہ ہم کسی خاص مسک کے قائد سے مل رہے ہیں، اپنے مسلک پر مضبوطی سے قائم رہنے؛ بلکہ بڑی حد تک اس کی ترویج واشاعت کے لیے کوشاں ہونے کے باوجود دوسرے مسلک کا وہ احترام کرتے تھے اور ملت کے کاموں کو آگے بڑھانے کے لیے سب کے ساتھ مل کر کام کرنے کے عادی تھے، مزاج میں سنجیدگی کے باوجود گفتگو مؤثر اور دلآویز کیا کرتے تھے، پہلی ملاقات میں کوئی ان سے متاثر نہیں ہوتا تھا، لیکن جیسے جیسے قربت بڑھتی ، تعلقات میں اضافہ ہوتا، آدمی ان کا گرویدہ ہوتا تھا، اسی گرویدگی کی وجہ سے ان کے گرد ایسے لوگ جمع ہو گیے تھے، جنہوں نے ان کے دادا اور والد کے قائم کردہ اداروں کو اضمحلال اور تنازل کے اس دور میں پورے وقار ، معیار، اعتبار اور اعتماد کے ساتھ چلایا اور آج بھی وہ تمام تعلیمی ادارے تیزی سے ترقی کی طرف گامزن ہیں، ڈاکٹر صاحب کی ایک بڑی خصوصیت عہدوں سے اجتناب تھا، کئی موقعوں پر انہوں نے عہدوں کے قبول کرنے سے انکار کیا،حالاں کہ وہ بغیر طلب آ رہے تھے اور بغیر طلب عہدوں پر اللہ کی نصرت بھی آیا کرتی ہے، اس کے باوجود عہدے ان کی طرف کھینچے آرہے تھے، نوجوانوں کو جمعیت اہل حدیث بہار سے جوڑنے کے لیے جمعیت شبان اہل حدیث کا قیام 1973ء میں مظفر پور اجلاس میں ہوا تو اس کی دستور سازی کے لیے جو سہ رکنی کمیٹی بنائی گئی اس میں جعفر زید سلفی ، بدر عظیم آبادی کے ساتھ ڈاکٹر صاحب بھی شریک تھے، وہ ایک زمانہ تک جمعیت اہل حدیث بہار کے خازن بھی رہے۔ 1998ء میں دار العلوم احمدیہ سلفیہ کے ناظم منتخب ہوئے اور آخری سانس تک اس ذمہ داری کو نبھایا، ان کی تحریریں کتابی شکل میں میرے سامنے نہیں ہیں، لیکن بعض موقعوں سے ان کے مضامین دار العلوم احمدیہ سلفیہ کے ترجمان الھدیٰ میں شائع ہوا کرتے تھے، بعض شمارے میں اداریے بھی ان کے قلم سے ہیں۔
 ڈاکٹر صاحب کو اسٹیج سے تقریر کرتے ہوئے بھی میں نے نہ کبھی دیکھا ،نہ سنا ، میں نے جس دور میں دیکھا، اس میں وہ ضعف قویٰ کے شکار تھے اور گفتگو بھی کم کیا کرتے تھے، ان کو دیکھ کر مجھے ہمیشہ حکیم عبد الحمید مرحوم کی قبر کا وہ کتبہ یاد آتا تھا جس میں ان کے ملفوظ نقل کیے گیے ہیں، وہ کہا کرتے تھے کہ ابو الکلام ، ابو اللسان، ابو البیان تو بہت لوگ ہیں، میں تو ابو العمل بننا چاہتا ہوں، چنانچہ ہمدرد یونیورسٹی اورہمدرد کی دوائیاں ان کے اسی ابو العمل ہونے کی گواہ ہیں، ڈاکٹر عبد العزیز صاحب بھی ابو العمل تھے، انہوں نے اپنی زندگی گفتار کے غازی کے بجائے عملی مجاہد کے طور پر گذارا، تبھی وہ اتنے بڑے بڑے تعلیمی اداروں کی ذمہ داری ادا کرنے میں کامیاب ہوئے، بلا شبہ ان کی پوری زندگی، دعوتی، ملی اور تعلیمی تھی اور انہوںنے ہر محاذ پر کام کو آگے بڑھا کر ہم سب کو کام کرنیکا سلیقہ بتانے گیے، اللہ تعالیٰ ڈاکٹر صاحب کی خدمات کو قبول فرمائے اور زندگی بھر کی جد وجہد کا بہترین بدلہ عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین وصلی اللہ علی النبی الکریم

پیر, اکتوبر 16, 2023

بہار میں ڈینگو کا قہر

بہار میں ڈینگو کا قہر  ___
Urduduinyanews72
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ 
=======================================
 بہار میں ڈینگو کے مریضوں کی تعداد دن بدن بڑھتی جا رہی ہے، اعداد وشمار کے مطابق چھ ہزار لوگ اب تک ڈینگو سے متاثر ہو چکے ہیں، اگست اور ستمبر میں یہ تعداد تیزی سے بڑھی ہے ، اگست میں 231مریض پائے گیے تھے، جبکہ صرف ستمبر میں 5730لوگ اس مرض کے شکار ہوئے۔ آخری سترہ دنوں میں یہ تعداد تیزی سے بڑھی ہے ، ماضی کی طرف نگاہ دوڑائیں تو 2019میں 6667لوگ اس مرض میں مبتلا ہوئے تھے، امسال اب تک اس مرض سے پندرہ لوگ اپنی جان گنوا چکے ہیں۔ ڈینگو کی علامتوں میں سے تیز بخار ،سر اور جسم کے دوسرے حصوں میں درد ، قے ومتلی ، آنکھوں میں درد ، جوڑوں مین سوجن ، چمڑے پر دھبہ پایا جانا اور زیادہ خطرناک مرحلہ میں پہونچنے پر ناک اور منہہ سے خون کا آنا شامل ہے، اس مرض سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر انتہائی ضروری ہیں۔
حکومت بہار اس سلسلے میں گیس کے ذریعہ مچھروں کو ختم کرنے کی مہم چلا رہی ہے، اس کام میں عوام کو بھی اپنی حصہ داری نبھانی چاہیے۔ مچھروں سے حفاظت کے لیے مچھر دانی یا آل آؤٹ وغیرہ کا استعمال کریں۔پورے آستین والے کپڑے پہنیں ، کولر کے پانی کو ایک سے دو روز کے اندر تبدیلی کریں، اگر گھرکے ارد گرد پانی جمع ہو تو اس میں مٹی کا تیل ڈالیں اورکوشش کریں کہ پانی جمع نہ ہواور آخری حد تک اس مرض سے محفوظ رہنے اور رکھنے کے جو طریقے ڈاکٹروں کی جانب سے سُجھائے جا رہے ہیں، اس پر عمل کر لیا جائے، کھانے پینے میں احتیاط برتی جائے، کافی پینے سے گریز کیا جائے، پھلوں کا رس پینا ، پپیتا کا پتہ اور کے وی پھل پلیٹ لیٹ بڑھانے میں انتہائی مفید ہے ، سبزیوں میں پالک ،کدو، گاجر، بند گوبھی چقندر کا استعمال بھی مرض کو تیزی سے کم کرتا ہے اور پلیٹ لیٹ کی مقدار بڑھا تا ہے، ڈینگو میں ناریل پانی اور الکٹرول پاؤڈر کے استعمال سے جسم کے درجۂ حرارت میں کمی واقع ہوتی ہے، مصالحہ دار چیزوں کا ستعمال ایسیڈیٹی اور السر پیدا کرسکتا ہے، اس لیے اس سے گریز کریں، آرام فرمائیں، صحت کے ساتھ رہیںاور دوسروں کے لیے صحت مند رہنے کا ماحول بنائیں۔

انس مسرورانصاری

فلسطین کی جنگِ آزادی اور 
           اردودنیانیوز۷۲
        مسلم ممالک کارول 

 * انس مسرورانصاری

     تاریخ کامطالعہ بتاتاہے کہ دنیامیں جہاں کہیں بھی آزادی کی تحریک اٹھی ہے،وہ بے حساب جانی ومالی قربانیوں کے بعدآخرکارکامیاب ہوکررہی۔مجھے کامل یقین ہےکہ اسرائیل سے جنگِ آزادی کی فلسطینی تحریک بھی ایک نہ ایک روز بہرحال کامیاب ہوکررہےگی اور فلسطین ایک آزاد ملک کی حثیت سےترقی کرےگا۔ان شاء ﷲ۔ تاخیرخواہ کتنی ہی کیوں نہ ہو۔ ہرطرح کی قربانیاں خواہ کتنی ہی کیوں نہ دینی پڑیں مگر آزادی حاصل ہوکررہےگی۔ 
       وحشی یورپ کو اپنی دائمی بھوک مٹانے کے لیے مسلمانوں کےخون اور گوشت کی ضرورت ہے۔جسے وہ گاہے گاہے مختلف مسلم ممالک سے حاصل کرتارہتاہے۔یورپ ایک ایسا عفریت بن چکاہے جو ایک ایک کرکےمسلم ممالک کو ہڑپ کرنے کاناپاک ارادہ رکھتاہے۔فلسطین اب اس کا ٹارگٹ ہے۔ وہ اسرائیل کے ذریعے پورے فلسطین کواپنے قبضے میں رکھناچاہتاہے۔ 
    جب سے یہ جنگ شروع ہوئی ہے،انڈین گودی میڈیاکی بن پڑی ہے۔جھوٹوں کےبادشاہ نرہندر مودی کےچیلےحماس کو دہشت گردکہنےسےنھیں تھکتے۔لیکن وہ یہ نھیں بتاتےکہ یہ دہشت گردی آئی کہاں سے۔؟حماس گروپ جو فلسطین کی آزادی کےلیے۔۔طوفان الاقصی مشن۔۔کے تحت مظلوم فلسطینی عوام کی آزادی کےلیےلڑرہاہےتواس میں دہشت گردی کہاں سےآگئی۔؟کیا آزادی کی جدوجہد دہشت گردی ہے۔؟
 حماس فلسطین سے الگ کوئی تنظیم نھیں ہے۔وہ اسی کا حصہ ہے۔جبکہ گودی میڈیا حماس کو فلسطین سے الگ دہشت گردتنظیم بتاتاہےتاکہ دنیامظلوم فلسطینیوں سےہمدردی تورکھے لیکن حماس سےنفرت بھی کرے۔ گزشتہ جنگوں کوعرب اسرائیل جنگ کانام دیاجاتارہاہے۔لیکن موجودہ جنگ فلسطین اور اسرائیل جنگ ہے۔ اس جنگ نے یہ ثابت کردیا کہ متحدہ عرب امارات اوردیگر مسلم ممالک جس میں ترکی بھی شامل ہے،محض گفتارکےغازی ہیں۔ ان کاکرداریہودنوازہے۔فلسطینیوں کو جان لیناچاہئےکہ وہ بےسہارا ہیں اورانھیں اپنےہی محدود وسائل سےاسرائیل سےاپنےملک  کوآزادکراناہوگا۔ دنیا کے سارے مسلمانوں اورسیکولرانصاف پسند جماعتوں کی تائید اور دعائیں انھیں ہمیشہ حاصل رہیں گی۔جو جنگ حماس لڑرہاہےوہ صرف فلسطین کی آزادی کی جنگ نہیں ہے بلکہ صلیبی جنگوں کے طویل سلسلہ کی  ایک کڑی ہے۔مسلم ممالک پرقابض ہونا اورمسلمانوں کو نیست ونابودکرنایورپی صلیبیوں کا اولیں منصوبہ ہے۔اسرائیل توایک مہرہ ہے۔آج میری اور کل تیری باری۔۔والا معاملہ ہے۔ اس صورتِ حال میں کہ جب سارا یورپ فلسطین پر ٹوٹ پڑاہے،شریعتِ اسلامیہ عامتہ المومنین سے جہاد کا مطالبہ کرتی ہے۔
کاش مسلم ممالک اس حقیقت کو سمجھ اور قبول کرلیتے۔کیا عربوں کے دماغ میں اتنی سی بات نھیں آتی کہ۔۔ تیل ختم اور کھیل ختم۔۔اس جنگ نے یہ بھی ثابت کردیاکہ سائنس اور ٹیکنالوجی کےبغیرعربوں کی اوقات دو کوڑی کی ہے۔اسی لیے وہ اسرائیل سے خوفزدہ ہیں۔
    دنیابھرکےمسلمانوں سے اپیل ہےکہ وہ اس جہادمیں شریک ہوں اور جس قدر بھی ممکن ہو، فلسطینی مسلمانوں کی ہرطرح مددکریں۔ ان کی فتح ونصرت کےلیے رب تبارک وتعالی کی بارگاہ میں گریہ کےساتھ خلوص دل سے دعائیں مانگیں۔ اسرائیل کے خلاف کم سے کم اپنا احتجاج ضرور درج کرائیں۔    وماتوفیقی اللہ باللہ۔۔۔ 

 کثرت کےاعتبارسےیوں توخطیرہے
پھربھی نگاہِ دہرمیں بےحدحقیرہے

قرآن بھی خدابھی رسولِ کریم بھی
کل کائنات اس کی ہےلیکن فقیرہے

75/سال سےبتایااورپڑھاجاتارہاہےکہ فلسطین پر یہودیوں کا قبضہ ہے۔باقی سارے مسلم ممالک آزادہیں۔ لیکن اب پتاچلاکہ صرف فلسطینی آزادہیں۔ باقی سارے مسلم ملکوں پر یہودیوں کا قبضہ ہے۔۔
    
   * انس مسرورانصاری

  قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن (انڈیا)

ہفتہ, اکتوبر 14, 2023

اسپتال سے جیل تک ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ

اسپتال سے جیل تک ___
Urduduniyanews72 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ 
=======================================
 ڈاکٹر کفیل خان بن شکیل خان (م3؍ مارچ 2003) ساکن محلہ بسنت پور ، گورکھپورگذشتہ پانچ سالوں سے سر خیوں میں رہے ہیں، 10؍ اگست 2017ء کی وہ بھیانک رات جس میں گورکھپور اسپتال میں آکسیجن کی سپلائی رک جانے کی وجہ سے ترسٹھ(63) بچوں اور اٹھارہ(18) بالغوں کو اپنی جان گنوانی پڑی ، یہ انتہائی المناک طبی حادثہ تھا، ڈاکٹر کفیل خان کو مریضوں کی جان بچانے کی جد وجہد کایہ صلہ ملا کہ وہ پہلے معطل کیے گیے، پھر بر طرف ہوئے اور آٹھ ماہ کی طویل قید انہیں نصیب ہوئی ،ا نہوں نے اپنی یاد داشت انگریزی میں The Gorakhpur Hospital Tragedyکے نام سے لکھی تھی ، اردو داں حلقہ کو اس کے ترجمہ کا انتظار تھا، چنانچہ اس کتاب کا انتہائی رواں ترجمہ امام محمدشعیب وارم فاطمہ نے کیا، نظر ثانی کا کام محمد علیم اللہ اور گلزار صحرائی کے حصہ میں آیا، فاروس میڈیا اینڈ پبلشنگ پرائیوٹ لمیٹڈD-84، ابو الفضل انکلیو-۱، جامعہ نگر نئی دہلی سے یہ کتاب طبع ہوئی ہے ، تین سو بارہ صفحات کی اس کتاب کی قیمت تین سو پچھہتر(375) روپے ہے جو معیاری کاغذ وطباعت اور کارڈ بورڈ پر شاندار اور دیدہ زیب ٹائٹل کے لیے ٹھیک ہی ہے ، ملنے کا پتہ الگ سے کہیں درج نہیں ہے ، اس کا مطلب ہے کہ ناشر کے یہاں سے ہی دستیاب ہو سکتی ہے ۔
کتاب کا انتساب ان معصوم بچوں کے نام ہے جو بی آر ڈی میڈیکل کالج گورکھپور میں اگست 2017ء میں اپنی زندگی کی جنگ ہار گیے اور ان بہادر والدین کے نام ہے ، جنہوں نے غموں کے لا متناہی سلسلے کو برداشت کیا اور  بے انتہا تلخیاں جھیلیں اور آج بھی انصاف کے منتظرہیں، اس کے بعد کتاب میں مذکور تمام افراد کا تعارف کرایا گیا ہے، سانحہ سے متعلق تاریخ وار واقعات کو یک جا قلم بند کیا گیا ہے مصنف کے قلم سے کتاب کا مقدمہ ہے جو ایک خواب اور ایک ڈراؤنا خواب کے عنوان سے ہے ، مصنف نے اس اہم اور قیمتی کتاب پر کسی کاپیش لفظ وغیرہ نہیں لکھوایا ہے ، جس کا آج کل فیشن سا چل پڑا ہے اور اتنی تحریریں کتاب کی تعریف میں مختلف عنوانات سے دوسروں سے لکھوائی جاتی ہیں کہ اس کا حجم کتاب کے ایک تہائی صفحات پر چلا جاتا ہے، ڈاکٹر کفیل خان کو اپنی تحریر پر اعتماد ہے ،ا س لیے اپنی تحریر کو باوزن بنانے کے لیے وہ کسی اور کی تحریر کا سہارا نہیں لیتے، مقدمہ کی آخری ان سطروں کو کو پڑھ کر ہم اس کتاب کے مصنف کے سوز دروں تک پہونچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ لکھتے ہیں:
’’میرے وہم وگمان میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ آنے والے سال میں میرے خلاف نفرت اور انتقام کی آگ بھڑکائی جائے گی، میں گورکھپور میں ہی پلا  بڑھا تھا، مگر مجھے اس کا بالکل اندازہ نہیں تھا کہ یہ شہر میرے لیے ایک میدان جنگ بن جائے گا، جس میں خود مجھے اپنی زندگی اور بقا کی جنگ لڑنی پڑے گی۔ میری یہ کتاب اسی کی داستان ہے‘‘۔ اس داستان کا آغاز 8؍اگست 2017ء سے ہوتا ہے اور 3؍ فروری 2022ء تک کی داستان قلم بند کرنے کے بعد مصنف کا قلم خاموش ہوجاتا ہے ۔‘‘
 کتاب چار حصوں پر مشتمل ہے، پہلا حصہ فرض، دوسرا حصہ قید، تیسرا حصہ تلاش اور چوتھا حصہ عزم وارادہ کا بیانیہ ہے، ہرحصہ کے اندر کئی کئی باب ہیں، جو بات کو زیادہ واضح کرنے میں ممد ومعاون ہے، اس طرح پوری کتاب بائیس(22) ابواب تک پہونچ گئی ہے ۔اس کے بعدکتاب کا خاتمہ ہے ، جس میں ایک ڈاکٹر اور ایک شہری ، شکر گذاری ذرائع پر تبصرے اختصارات اور تصویروں کا البم شامل کیا گیا ہے ۔
 پوری کتاب ایک المیہ داستان ہے ، جس میں جذبات کی شدت ، احساس ذمہ داری ، کچھ کر گذرنے کی جرأت، حالات سے مردانہ وار مقابلہ کی خواہش کی موجیں ابلتی نظر آتی ہیں، حالات کے مد وجزر ، میں جرم بے گناہی کی سزا کاٹ رہا اس کتاب کا مصنف قارئین سے بھر پور ہمدردی بٹورتا ہے، یہ ہمدردی مصنوعی اور دکھاوے کی نہیں، بلکہ حقیقتاً ہم یہ محسو س کرتے ہیں کہ ایک شخص کو غلط بھٹی میں تپا یا جا رہا ہے۔
 کتاب کے بڑے حصہ سے میڈیا کے ذریعہ کفیل خان کو بدنام کرنے اور جھوٹے افسانے گڑھنے کا بھی پتہ چلتا ہے ، ان عہدوں سے ان کے استعفیٰ کے چرچے بھی خوب کیے گیے جس پر کفیل خان کبھی تھے ہی نہیں، یہ سب ایک سازش کا حصہ تھا، شروع میں ان کے کام کو سراہا گیا ، ان کے کام کو ایک ہیرو کی طرح پیش کیا گیا، لیکن جب گندی سیاست کی شعلہ باری ہوئی تو کفیل خان کا سب کچھ جل کر خاکستر ہو چکا تھا، ان میں ان کے وہ زریں خواب بھی تھے جو انہوں نے شعبۂ اطفال کی ترقی کے لیے سجوئے تھے، وہ فطری محبت بھی تھی ، جو بچوں سے ان کو تھی ، اور قوم کے لیے کچھ کر گذر نے کا جذبہ بھی تھا، جو ان کو خاندان کی طرف سے ورثہ میں ملا تھا، وہ گنگا جمنی تہذیب کو گلے لگانے کے قائل تھے، جسے نفرت کی آندھیوں نے کہیں دور جا پھینکا تھا۔ 
اس کتاب کے مطالعہ سے ہم ہندوستانی جیلوں میں قید لوگوں کے مصائب او ر پریشانیوں کو محسوس کر سکتے ہیں، جیلر کا رویہ قیدیوں کے ساتھ کیسا ہوتا ہے اور خود ایک قیدی دوسرے قیدی کے ساتھ کیسا سلوک کرتا ہے، انسانیت کی دبی چنگاری کبھی یہاں بھی کام کرجاتی ہے ۔
 اس کتاب کا مطالعہ اس لیے بھی مفید ہے کہ کس طرح لوگوں کو پھنسا یا جاتا ہے ، کیسے کیسے جال بچھائے جاتے ہیں، جب جال میں کوئی پھنس جاتا ہے اس کی تڑپ کیا ہوتی ہے اور اس کے بند کس طرح کسے جاتے ہیں، اور ظلم وجور کی بھٹی میں کس طرح گرمایا اور جلایا جاتا ہے ، پڑھیے ایک کہانی جو صداقت پر مبنی ہے، ایک داستان جو دھیرے دھیرے دراز ہو جاتی ہے، ایک ناول جس کا ہر کردار ہمیں متوجہ کرتا ہے، اور بتاتا ہے کہ نا انصافی اس دنیا کی حقیقت ہے ، اور ہمیں خواہی نخواہی اس نا انصافی کا سامنا کر نا پڑتا ہے، یہاں عہدے منصب، جواہر اور سیم وزر سے فیصلے متاثر ہوتے ہیں اور انصاف کی دیوی جو دیو مالائی روایتوں کے مطابق اندھی ہے ، اس کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوتی ہے ، اس کے پلڑے میں کوئی بھی دولت مند سیم وزر رکھ کر دوسرے پلڑے کو جھکا دیتا ہے ، دیوی دیکھتی نہیں ہے اسے پتہ ہی نہیں چلتا کہ کب جرم بے گناہی کا پلڑا جھک گیا اورکب معصوم خطا لائق سزا قرار پاگئے، پڑھئے اور اس کتاب کو ضرور پڑھیے، یہ ایک آئینہ ہے ہمارے سماج کا آئینہ اس میں اپنی شکل بھی نظر آنے لگے تو مت گھبرائیے، یاد رکھیے۔ 
سچ بات مان لیجئے چہرے پر دھول ہے         
الزام آئینوں پر لگانا فضول ہے (انجم رہبر)

تحفظ شریعت وویلفیئر سوسائٹی انڈیا کے زیر اہتمام گیارہواں ٹائم لنک پر عالمی مشاعرہ

تحفظ شریعت وویلفیئر سوسائٹی انڈیا کے زیر اہتمام گیارہواں ٹائم لنک پر عالمی مشاعرہ 
اردودنیانیوز۷۲ 
تحفظ شریعت وویلفیئر سوسائٹی جوکی ہاٹ ارریہ بہار کے بینر تلے گزشتہ (13/10/2023) شب ایک نعتیہ مشاعرہ کا انعقاد کیا گیا, جس کی صدارت ادارہ کے روح رواں
الحمد للہ تحفظ شریعت و ویلفیئر سوسائٹی جوکی ہاٹ ارریہ کے بینر تلے آج کا گیارہواں عالمی نعتیہ مشاعرہ   آن لائن پروگرام شروع ہے۔ ، 
زیر صدارت تنویر پھول امریکہ 
ڈاکٹر زبیر فاروق دبئی  محسن رضی علوی امریکہ 
 نظامت کی اہم ترین ذمہ داری حضرت مولانا شاہد سنگاپوری انڈیا بحسن وخوبی انجام دیا, مجلس کا آغاز نے تلاوت کلام اللہ شریف سے ہوا, جبکہ ابتدائ
تلاوت قرآن کریم کے لئے قاری محمد شہزاد رحمانی صاحب انڈیا 
نعت پاک کے لئے 
دانش خوشحال صاحب انڈیا 
اردو ادب کے درخشندہ ستارے
سرفراز بزمی فلاحی انڈیا 
مختار تلہری بریلی انڈیا 
مظفر نایاب دوحہ قطر 
خمار دہلوی انڈیا 
رئیس اعظم حیدری انڈیا 
رشید شیخ شکاگو 
عامر اعظمی متحدہ عرب امارات ڈاکٹر سید مظفر باسط علیگ انڈیا 
فیض جلیل قرشی کینیڈا 
فیاضاحمدراہی انڈیا 
قاری محمد انوار الحق صاحب مقیم حال بنگلور  
 مضمون عبد السلام عادل ندوی انڈیا 
 خطبئہ استقبالیہ عبد الوارث مظاہری انڈیا 
کلمہ تشکر محبوب رحمانی انڈیا 
محمد اعظم حسن مہتمم مدرسہ سراج العلوم نعمانیہ ہریا بارا ارریہ   
جناب سرفراز غزالی صاحب 
جناب فہیم صاحب دھنبادی 
حافظ انتظار احمد سدھارتھ نگر 
مولانا ازہر راہی صاحب قاسمی مقیم حال دہلی
قاری محمد کوثر آفاق صدیقی صاحب ارریہ و مہتمم مدرسہ حسینہ فیض العلوم ضلع سنگاریڈی 
جناب قاری انور غفاری صاحب حیدرآباد
جناب افروز انجم صاحب اڑیسہ کو دعوت دی جائے
جناب حافظ و ڈاکٹر محمد کمال الدین صاحب
مولانامظفر حسين المظاهري
مقيم حال جدة سعودي عربيه
کے نام قابل ذکر ہے-- ہم جملہ شرکائے پروگرام کا تہہ دل سے شکر گزار ہیں کہ اپنا قیمتی وقت دے کر اراکین تحفظ شریعت وویلفیئر کی ہمت افزائ فرمائ اور آئندہ بھی کسی طرح کے پروگرام میں شرکت کرکے حوصلہ افزائ فرمائیں گے یہی امید ہے -- ساتھ ہی ہماری آواز جہاں تک پہنچے لبیک کہیں گے-- 
واضح ہو کہ 8/30 بجے شب سے شروع ہونے والا یہ پروگرام دیر رات 11 :30بجے صدر مجلس کی دعاء پر اور شکریہ کے ساتھ اختتام ہوا
اس پروگرام کے انتظام قاری محبوب عالم رحمانی تھے

جمعہ, اکتوبر 13, 2023

جی ۲۰ کا نفرس کے اصل ہیرو

جی-20 کانفرنس کے اصل ہیرو ____
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی 
ہندوستان نے اصولی طور پر جی-20 کانفرنس کا کامیاب انعقاد کیا، دعوتیں ہوئیں، بیانات آئے، تقریریں کی گئیں، کروڑوں روپے ملک کے اس کانفرنس پر خرچ ہوئے، افریقن یونین کواس گروپ میں مستقل رکن کی حیثیت سے شامل کرنے پر کامیابی ملی، اس طرح اب جی20، جی 21 ہو گیا ہے، اس کانفرنس کی سب سے اہم بات یہ رہی کہ مشترکہ اعلانیہ کو پہلے دن اتفاق رائے سے منظور کر لیا گیا، اس سے ہندوستان کی تصویر ممبر ممالک کے درمیان اچھی رہی، اس کانفرنس کے انعقاد کے لیے پرگتی میدان نئی دہلی میں بھارت منڈپم کے نام سے دیدہ زیب اور خوبصورت جلسہ گاہ بنایا گیا تھا، ہندوستان جی – 20 کا صدر تھا، یہ صدارت ہر سال بدلتی رہتی ہے، ہندوستان کی صدارت کا سال نومبر میں مکمل ہوجائے گا، اس لیے وزیر اعظم نریندر مودی نے اگلے سال کی صدارت برازیل کے سپرد کر دی اور اس طرح یہ کانفرنس پورے تزک واحتشام کے ساتھ اختتام پذیر ہوا، روس اور چین کے صدور کی کمی کھٹکی ضرور، لیکن اعلامیہ سب کی پسند قرار پایا، اس میں ماحولیات، انسان، خوش حالی اور امن پر زور دیا گیا ہے، اس کو چست درست انداز میں زمین پر اتارنے کے لیے وزیر اعظم نے جی-20 کے سربراہوں کو سب کا ساتھ سب کا وکاس سب کا پریاس اور سب کا وشواش حاصل کرنے کی ضرورت پر زور دیا، انہوں نے کہا کہ اس وقت کا سب سے بڑا بحران اعتماد کی کمی ہے، جسے جنگ نے پریشان کن بنا دیا ہے، ہمیں باہمی اعتماد کی کمی کے اس بحران کو بہر حال ختم کرنا ہوگا، وزیر اعظم نے ایک زمین، ایک خاندان اور ایک مستقبل کو سامنے رکھ کر کام کرنے کی ضرورت بھی بتائی۔
کانفرنس کے ظاہری چکا چوند پر سب کی نظر رہی، لیکن اعلانیہ پر اتفاق رائے بنانے میں شیرپا امیتابھ کانت نے اہم کردار ادا کیا، پردے کے پیچھے چل رہے ملکوں کے نمائندوں کے ساتھ انہوں نے لگاتار دو سو گھنٹے تبادلہ خیال جاری رکھا، تین سو بیٹھکیں، دو دو ملکوں کےساتھ الگ الگ کی گئیں، اعلانیہ کا پندرہ مسودہ تیار کیا گیا، سب سے زیادہ دشوار مرحلہ روس یوکرین جنگ سے متعلق تھا، جس میں مغربی ممالک کا رویہ روس کے خلاف تھا، بات کسی نتیجے تک نہیں پہونچ پا رہی تھی، ایسے میں ڈوبھال اس گفتگو میں شامل ہوئے اور مسودہ پر اتفاق رائے بن سکا، اعلانیہ میں روس کا ذکر کیے بغیر یوکرین میں جنگ کا تذکرہ کیا گیا، اور صرف یہ کہہ کر بات ختم کر دی گئی کہ اختلافات اور جنگ سے دنیا پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں، سینتیس(37) صفحات پر مشتمل دہلی اعلانیہ میں 4 بار یوکرین جنگ کا ذکر آیا ہے۔ اس طرح پچاسی(85) پیراگراف پر مشتمل اس مسودہ کو آخری شکل دی جا سکی۔
یہ ناممکن کو ممکن بنانے کا عمل جی -20 شیرپا امیتابھ کانت، جوائنٹ سکریٹری گمبھیر اور کے ناگ راج نائیڈو کی مشترکہ جد وجہد کے سر جاتا ہے، این ایس اے اجیت ڈوبھال کی محنت بھی رنگ لائی، اس لیے جی -20 کے اصل ہیرو یہی ہیں، جنہوں نے ہندوستان کو دنیا کے سامنے سرخ رو کیا ہے، ان کے تذکرے کہیں گم ہو گیے، اخبارات اور ٹی وی چینلوں نے بھی ان پر توجہ نہیں دی، سچ ہے مینار کی اونچائی سب کو نظر آتی ہے، لیکن مینار جن بنیادوں پر کھڑی ہوتی ہے وہ کسی کو نظر نہیں آتی۔مینار کو بلند کرنے کے لیے کچھ اینٹوں کو زمین میں دفن ہونا پڑتا ہے، جی -20میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔

محبت رسول کے تقاضے

محبت رسول کے تقاضے
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ 
=======================================
یہ ربیع الاول کا مہینہ ہے، یہی وہ مہینہ ہے جس میں رحمۃ للعالمین ، شفیع المذنبین، محبوب رب العالمین ، ضعیفوں کے ماویٰ، یتیموں کے ملجا،مظلوموں کے خیر خواہ ، وجہ تخلیق کائنات اور حقوق انسانی ، سماجی مساوات، تحفظ ماحولیات کے سب سے بڑے داعی تشریف لائے،یہ مژدہ تھا دکھی انسانیت کے لئے ،ابررحمت تھا، کائنات کے لئے ، تمہید تھی خدا ئے واحد کی پرستش کی، اس لئے مسلمان اس مہینے میں مسرت کے اظہار کے لئے مختلف جگہوں پر ذکر نبی کی مجلسیں منعقد کرتے ہیں ، اور اپنی محبت وعقیدت کا اظہار کرتے ہیں ، بارہ ربیع الاول گذرااور پھر عام لوگ بھول جاتے ہیں کہ اظہار محبت وعقیدت کے تقاضے کچھ اور ہیں،سیرت پاک کا مطالبہ ہم سے کچھ اور بھی ہے ، اور وہ یہ ہے کہ ہم اپنی زندگی کو اسوہ ٔ رسول کے مطابق بنائیں ، اللہ سے محبت کا تقاضہ اور آپ کی حیات مبارکہ کو نمونۂ عمل بنانے کا خلاصہ بھی یہی ہے ، لیکن آج صورت حال بہت عجیب ہے ، واقعہ یہ ہے کہ ہماری واقفیت سیرت پاک سے بہت کم ہے، مدارس کے علماء ، طلبہ کی بات نہیں ، عام مسلمانوں کی بات ہے ، اس موقع سے اگر ہم جائزہ لیں تومعلوم ہوگا کہ نماز میں درود وسلام اور مجلس میلاد میں درود وشریف پڑھنے کے علاوہ پورے سال ہم نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنے کا اہتمام نہیں کیا ، حالانکہ درود شریف پڑھنے کاحکم تو قرآن کریم میں مذکور ہے کہ اللہ رحمت بھیجتے ہیں، اس کے فرشتے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھتے ہیں، اے ایمان والو تم بھی درودوسلام پڑھو ، اس حکم کی بنا پر جتنا اہتمام درود شریف کا کرناچاہئے اور ہر دن کرنا چاہئے ،اس کا کوئی حصہ ہماری زندگی میں نہیں پایاجاتا ، ہر آدمی اپنے گریباں میں منہ ڈال کر دیکھے کہ اس نے پورے سال کتنی بار درود شریف پڑھا ، لطیفہ یہ ہے کہ درود شریف پڑھنے کا اہتمام نہیں ہے ، لیکن درود شریف پڑھنے کے طریقے پر جھگڑے ہورہے ہیں ، یہی حال سیرت پاک سے ہماری واقفیت کا ہے، اس معاملے میں ہماری معلومات سطحی ، ناقص اور نامکمل ہے ، کیوں کہ ہم نے سیرت النبی پر باقاعدہ کسی کتاب کا مطالعہ نہیں کیا ، ہمارے بچے جس اسکول اور کنونٹ میں پڑھتے ہیں وہاں مطالعۂ سیرت کا کوئی موقع نہیں ہے ، اس لئے اگر کوئی بچہ ناواقف ہے تو غلطی اس کی نہیں ہے، ہماری ہے کہ ہم نے اسے سیرت کے مطالعہ کا موقع نہیں دیا، ہم نے بہت سارے موضوعا ت پر مقابلے کے لئے اسے تیار کیا ،لیکن تاریخ اسلام اور سیرت پاک کی واقفیت اس کے پاس واجبی بھی نہیں ہے ، دن رات ہم پتہ نہیں کس کس سے چاٹنگ کرتے رہتے ہیں ، سوشل سائٹس کے ذریعہ کتناساراوقت غیر ضروری، بلکہ نامناسب مکالموں میں گذار دیتے ہیں ، کیسی کیسی تصویریں لوگوں کو بھیجتے رہتے ہیں؛لیکن کیا ہم نے یہ سوچا اور اس کی کوشش کی کہ اس سہولت کو ہم سیرت پاک کے واقعات کو عام کرنے کے لئے استعمال کریں گے ، چندا حادیث کا انتخاب کرکے اپنے کسی دوست کو کبھی بھیجا کہ یہ دیکھو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے کہ اچھا انسان وہ ہے جو لوگوں کے لئے نفع بخش ہو، اپنے بھائی کی مدد کرو چاہے ظالم ہویا مظلوم ، ظالم کی مدد یہ ہے کہ اسے ظلم سے روک دو ، مظلوم کی مدد یہ ہے کہ اس کا حق دلا کر دم لو ، یا پھر یہ حدیث پاک کہ تم میں اچھا وہ ہے، جو اپنے اہل و عیال کے لئے اچھا ہواورمیں اپنے اہل و عیال کے لئے تم میںسب سے بہتر ہوں ،ساری مخلوق اللہ کا کنبہ ہے اور اللہ کے نزدیک سب سے محبوب وہ ہے جو اس کے کنبے کے ساتھ بہتر سلوک کرے ، جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہے اللہ اس کی مدد میں رہے گا ، جو شخص دوسرے کے ساتھ رحم کا برتائو نہیں کرتا ، اللہ بھی اس پر رحم نہیں کرتا ، وہ شخص جنت میں نہیں جائے گا، جس کا پڑوسی اس کی ایذا سے محفوظ نہ ہو ، حلال کمائی کی تلاش بھی ایک اہم فریضہ ہے ، بے بنیاد باتوں پر کان نہ لگائو ، دوسروں کے عیب نہ تلاشو ، آپس میں بعض نہ رکھو، آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو ، جنت ماں کے قدموں تلے ہے ۔ اس قسم کی کتنی احادیث ذخیرہ میں مل جائیں گی، اگرآپ نے پانچ پانچ لوگوں تک ان احادیث کو پہونچانے کا اہتمام کرلیااوراس میں اپنے غیر مسلم بھائیوں کو بھی شریک کرلیا تو سوچئے کتنا بڑاعلمی انقلاب آجائے گا اور کس قدر غلط فہمیاں دور ہوںگی، اس لئے طے کیجئے کہ ہرروز درود شریف کا ور د کثرت سے کریں گے ، اس ماہ مبارک میں سیرت پر کم از کم ایک کتاب کا مکمل مطالعہ کریں گے ، جو پڑھنا نہیں جانتے ہیں، انہیں پڑھ کر سنائیں گے ،اس کے لئے آپ ’’رحمت عالم، سیرت النبی ،سیرت المصطفی ، اصح السیر ، نبی رحمت ، سیرت ابن اسحاق، الرحیق المختوم ، سیر ت بن ہشام ، سیر ت حلبیہ وغیرہ کا انتخاب کرسکتے ہیں ،طے کیجئے کہ سوشل سائنٹس کا پورے مہینہ روزانہ سیرت پاک اور تعلیمات نبوی کو عام کرنے کے لئے استعمال کریں گے ، روزانہ اس کا م کے لئے اپنے دوستوں کو، متعلقین کواورگروپ کے شرکاء کو میسج بھیجاکریں گے ، ائمہ کرام جمعہ کے خطبوں میں سیرت نبوی کی عصر حاضر میں معنویت کے حوالہ سے مصلیان کے سامنے تقریر کریں گے اور انہیںعمل پر ابھاریںگے ، جو لوگ اخبارات ورسائل کے مدیران ہیں وہ اس مہم کو انجام دینے میں اپنی پوری حصہ داری نبھائیں گے، روزانہ سیرت پاک کے کسی گوشے پر معیاری اور معلوماتی مضامین شائع کریں گے ، ہرعلاقہ میں سیرت پاک کو عام کرنے کے لئے چھوٹے بڑے جلسے کریں گے اوراس میں غیرمسلم بھائیوں کو بھی شریک کریں گے جو سلجھے ہوئے لوگ ہیںاور غیرمسلموں میںجن کی معلومات سطحی نہیں ہے، انہیں بولنے کے لئے مدعو کریں گے، ہندی زبان میںاسلامک لٹریچر خصوصا سیر ت پاک پر کتابیں لوگوں تک پہونچائیں گے ؛تاکہ صحیح معلومات لوگوں تک پہنچ سکے۔ہم انہیں بتائیں گے کہ جان و مال ، عزت و آبرو اور عورتوں کے حقوق کے تحفظ کا جیسا انتظام آپ کی تعلیمات میں ہے اور پرامن بقا ء باہم کے جو اصول آپ نے دیئے ہیں،اس کی نظیر کسی اور مذہب میں نہیں ملتی۔ اسکول و مدارس کنونٹ میں سیرت کوئز کے مقابلے منعقد کریں گے تاکہ اس حوالے سے بچوںکی واقفیت سیر ت پاک سے ہوجائے ،ان کی حوصلہ افزائی کے لئے تشجیعی انعامات دیں گے، ان مقابلوں میں دوسرے اسکول اور اداروں کے بچوں کو بھی شریک کیا جاسکتا ہے ، مذہب کی بھی کوئی قید نہیں رکھی جائے ،اسٹیکر اور چھوٹے چھوٹے پمفلٹ چھپوا کر تقسیم کرنے کاعمل بھی مفید ثابت ہوسکتا ہے ، ہم کن کن ناموں پر ہفتہ وار تحریک چلاتے ہیں سیرت پاک پر ماہانہ تحریک چلایئے اور گھر گھر پیغام پہونچایئے، بغیر جانے ہوئے عمل کرنا کسی طرح ممکن نہیں ، پہلے جانئے پھراپنی زندگی کو سیرت رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ڈھالئے  یہ مسلمانوں کاشرعی، ایمانی، دینی اور مذہبی تقاضہ ہے ۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...