Powered By Blogger

پیر, نومبر 27, 2023

سرنگ میں پھنسی زندگی

سرنگ میں پھنسی زندگی
Urduduniyanews72 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ 
دور تک پہاڑوں کا سلسلہ پھیلا ہوا ہو تو ایک علاقہ سے دوسرے علاقہ اور دوسرے میں جانے کے لیے پہاڑ کے اندر سے سُرنگ بنائی جاتی ہے، یہ طریقہ ملک وبیرون ملک میں کثرت سے رائج ہے اس کی وجہ سے آمد ورفت میں سہولتیں بھی ہوتی ہیں اور پہاڑ کاٹ کر سڑک بنانے کے مشکل کام سے بھی بچنا ممکن ہوجاتاہے، ان آسانیوں کے ساتھ قدرت کی نوازشات سے چھیڑ چھاڑ کے بھیانک نتائج بھی سامنے آتے ہیں اور کبھی کبھی جان کے لالے پڑ جاتے ہیں، اتراکھنڈ میں ۲۱/ نومبر کی صبح ایسا ہی ایک واقعہ سلکیا را اترا کھنڈ میں پیش آیا، سرنگ کا ایک حصہ دھنس گیا اور اکتالیس مزدور اس میں پھنس کر رہ گیے، خوش قسمتی یہ رہی کہ تودے ان کے اوپر نہیں گرے، ورنہ سرنگ ہی ان کی قبربن جاتی، سرنگ کا جو حصۃ گرا وہ ساٹھ میٹر تھا، اور جہاں پر یہ مزدور کام کر رہے تھے وہ دو سو پچاس میٹر کی جگہ محفوظ رہ گئی، اور اللہ رب العزت نے ان کی زندگی کی حفاظت فرمائی اورظاہرا اس کی شکل یہ بنی کہ سرنگ کے اندر پانی دستیاب تھا اور بجلی بھی کام کر رہی تھی، پانی کی نالی سے خشک غذاؤں کے پہونچانے کا انتظام ہو سکا، فکر بچاؤ کی کی جانے لگی، ہندوستانی ہر مشین ناکام ہو گئی تو باہر سے مشین منگوائی گئیں، تب یہ ممکن ہو سکا کہ گیارہ دن بعد ان کی تصویریں سامنے آئیں اور انہیں گرم کھانا کھچڑی کی شکل میں فراہم کرایا جا سکا، اور فون کا تار بھی چھ انچ کے قطر سے گذار کر ان کے خاندان والوں سے بات کرادی گئی، خاندان والے قدرے مطمئن ہوئے، ہو سکتا ہے جس وقت یہ سطریں آپ تک پہونچیں گی مزدور باہر آچکے ہوں گے،لیکن گیارہ بارہ دن کی مدت جس لمبے، تنگ قبر نما سرنگ میں انہیں گذارنی پڑی  وہ کس قدر اذیت ناک، خوف ناک، ذہنی تناؤ اور سردی کے یخ بستہ موسم میں کس طرح گذرا ہوگا، اس کا تصور کرکے ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔
 اترا کھنڈ کے پہاڑوں کا سلسلہ وسیع ہے،ا ن میں بعضے قدیم ہیں اور بعضے ابھی تشکیلی دور سے گذر رہے ہیں، آخر الذکر کے چٹانوں میں وہ صلایت نہیں ہے جو دوسرے قدیم پہاڑی سلسلوں میں ہے، اس لیے جب یہاں پہاڑوں میں کھدائی ہوتی ہے تو وہ مسلسل ضرب اور سوراخ کرنے والے آلات اور دھماکہ دار اشیاء کو برداشت نہیں کر پاتے، ان حالات میں کبھی زمین دھنس جاتی ہے اور کبھی تودے اوپر سے نیچے گر کر مصیبتیں کھڑی کر دیتے ہیں، ایسے میں تھوڑی سی انسانی غلطی سے بڑے حادثات وقوع پذیر ہوجاتے ہیں، اس لیے سروے کنندگان کو اس کا خیال رکھنا ضروری تھا کہ پہاڑ کا یہ حصۃ تشکیلی دور سے گذر رہا ہے اس لیے وہ سرنگ کے کام کو بر داشت نہیں کر سکے گا،خصوصا اس صورت میں جب کہ ابھی جنوری میں ہی اتراکھنڈ کے جوشی مٹھ میں دڑاڑیں غیر معمولی کوہ کنی کی وجہ سے ہی پیدا ہوئی تھیں اور بہت سارے لوگ علاقہ سے نقل مکانی پر مجبور ہو گیے تھے، ایسے میں سخت احتیاط کی ضرورتھی۔
ہم بار بار اس بات کو لکھتے رہے ہیں کہ زمین کا سارا فساد ونگاڑ چاہے فضائی آلودگی ہو یا بالائی سطح پر گلیشیر کے پگھلنے سے دریاؤں کی سطح آب میں اضافہ یا معاملہ،موسمیاتی تبدیلی کا ہو یہ سب کچھ آرام وآسائش کے نام پر قدرتی وسائل کے تباہ کرنے کی وجہ سے ہے، اگرہم اب بھی نہ جاگے تو……

اتوار, نومبر 26, 2023

مشہور ولی اللٰہی فکر عالم دین حضرت مولانا نور الحسن راشد کاندھلوی کی


مشہور ولی اللٰہی فکر عالم دین حضرت مولانا نور الحسن راشد کاندھلوی کی
Urduduniyanews72 
شاہ ولی اللہ انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی کے دفترکاکا نگر میں آمد
۲۵نومبر ۲۰۲۳ء نئی دہلی،میری معلومات کے مطابق حضرت امام شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کی شخصیت اور انکی تحقیقی و تصنیفی خدمات پر ابتدا سےاب تک جماعتی حیثیت سے نہیں بلکہ انفرادی حیثیت سے زیادہ معتبر و مستند کام ہوتا رہا ہے ،انہوں نے اس سلسلہ میں مختلف اکابر امت کی جانب سے کیے گئےولی اللٰہی اشاعتی کاموں کاذکر کیااورفرمایا کہ شاہ ولی اللہ انسٹی ٹیوٹ کی تحقیقاتی و اشاعتی کاموں کو دیکھ کر مجھے خوشی ہوتی ہے،اللہ تعالی شاہ ولی اللہ انسٹی ٹیوٹ کے جملہ علمی و تحقیقی اور تعمیری منصوبوں و پروجیکٹوں کو پایہء تکمیل تک پہنچائے،ان خیالات کا اظہار مشہور ولی اللٰہی فکر عالم دین حضرت مولانا نور الحسن راشد کاندھلوی صاحب نے شاہ ولی اللہ انسٹی ٹیوٹ کے دفتر واقع کاکا نگر نئی دہلی میں کیا ہے ۔ایک ڈیڑھ گھنٹے تک حضرت مولانا نور الحسن راشد کاندھلوی اورمولانا مفتی عطاء الرحمٰن قاسمی نے شاہ ولی للہ محدث دہلوی کے تجدیدی افکار و نظریات اور ان کے فطری رجحانات و میلانات پر باہم تبادلہ خیال کیا۔
حضرت مولانا کاندھلوی نے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ کی تصنیفات و تالیفات کی تاریخ تصنیف بالخصوص انفاس العارفین کی تصنیف پر فاضلانہ و عالمانہ گفتگوکی اورفرمایا کہ یہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ کی بالکل ابتدائی تصنیف ہےجس میں ان کے باکمال بزرگوں کے اقوال و حالات درج ہیںلیکن اس میں حضرت شاہ صاحب کی کوئی ذاتی رائے شامل نہیں ہے اور ان کا وصیت نامہ بھی ان کے سفر حجاز سے قبل کا مرتب کردہ وصیت نامہ ہے جو خالص عقیدہ توحید اور اسلامی تعلیمات پر مشتمل ہےاوررسوم و بدعات کے سراسرخلاف ہے۔وہی اصلاً ان کے اساسی و بنیادی فکر و فلسفہ کا محور و مرکز ہے۔
آخر میں شاہ ولی اللہ انسٹی ٹیوٹ کے چیئر مین مولانا مفتی عطاء الرحمٰن قاسمی نے حضرت مولانا نور الحسن راشد کاندھلوی کی خدمت میںشاہ ولی اللہ انسٹی ٹیوٹ کی نئی مطبوعات پیش کیں اور شاہ ولی اللہ انسٹی ٹیوٹ کے زیر غور علمی و تعمیری منصوبوں کی تکمیل کے لیے دعا کی درخواست کی اور حضرت مولانا نے پرسوز دعا فرمائی اوراس وفد میںپروفیسر فیضان عارش جامعہ ملیہ اسلامیہ،جناب سیف علوی خدائی خدمت گار اورمولانا محمد ارشد وغیرہ تھے۔

فوٹو: دائیں سے سیف علوی ، مولانا مفتی عطاء الرحمن قاسمی، مولانا نورالحسن راشد کاندھلوی، پروفیسر فیضان عارش اور مولوی محمد ارشد

جارہ کردہ
شاہ ولی اللہ انسٹی ٹیوٹ 

تسمیہ جونیئر ہائی اسکول میں میڈیکل سروس سوسائٹی

تسمیہ جونیئر ہائی اسکول میں میڈیکل سروس سوسائٹی اور الشفاء ملٹی اسپینٹی ہاسپٹل نئی دلی کے تعاون سے بچوں کا مفت ہیلتھ چیک اپ کیمپ کا انعقاد
Urduduniyanews72 
۲۶ نومبر ۲۰۲۳ ہیلتھ چیکپ آرگنا ئز آرتھو پیڈک سرجن ڈاکٹر ایم فاروق ( سابق ایچ او ڈی ایمس ، نئی دہلی ) کے مطابق جسمانی نشونما لمبائی یا اونچائی اور وزن اور جسم کے اعضاء کی بڑھوتری سے ہے ڈاکٹر کے مطابق بچے اپنی عمر کے اور بچوں سے الگ تندرست بچوں کے موازنہ میں کیسے بڑھ رہے ہیں اور بچوں کے قد کے موازنہ میں وزن بڑھنے کو مانیٹر کرتے ہیں۔ پیدائش سے لے کر دو سال کی عمر تک ڈاکٹر ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن دنیا کی صحت تنظیم کاری کو ماپنے کا اضافی چارٹ کا استعمال کر کے سب ہی اضافی پیرا میٹر کی ایک چارٹ میں رکارڈ کرتے ہے۔ دو سال کی عمر کے بعد ڈاکٹر بیماری کنٹرول اور روک تھام مرکز کا ترقی چارٹ کا استعمال کر کے کمیوں کو قلم بند کرتے ہیں۔

بچوں کی جسمانی ، ذہنی اور جذباتی صلاحتیں زیادہ نشونما پاتی ہیں۔ تسمیہ جونئیر ہائی اسکول میں ایشفا پلٹی اسپیشلٹی ہاسپٹل نے میڈیکل سروس سوسائٹی کے تعاون سے تسمیہ جوئیر ہائی اسکول میں مفت ہیلتھ چیک اپ کیمپ لگایا گیا۔ اس موقع پر اسکول کے صدر ڈاکٹر سید فاروق (صدر تسمیہ آل انڈیا ایجوکیشنل اینڈ سوشل ویلفیئر سوسائٹی نئی دہلی ) نے اپنے سو فیصد تعاون کرتے ہوئے میڈیکل ٹیم ڈاکٹر ایم فاروق ہڈیوں کے امراض کے ماہرین) ڈاکٹر ایم عبد الستار ( میڈیکل سپرنٹنڈنٹ الشفاء ہاسپٹل نئی دہلی) ڈاکٹر متین پرویز سینٹر بچوں کے اسپٹلسٹ ، ڈاکٹر عابد کریم بچوں کے اسپیشٹ ، ڈاکٹر صادقہ سہیل عورتوں کے امراض کی ماہرین، ڈاکٹر فاطمہ ایم دھانچی عورتوں کے امراض کے ماہرین، ڈاکٹر فراز السلام طبیب دانت کے ڈاکٹر محمد حارث، ڈاکٹر بھوا مقتل بین اومیش بھائی ( دانت کے ڈاکٹر ) کا استقبال

پھولوں کا گلدستہ اور یادگار نشان پیش کر کے کیا اس کے بعد ڈاکٹروں کی ٹیم نے بچوں کی پرکھ کی اور بچوں سے متعلق جان کاری مشترکہ کی ۔ خصوصی مہمان ڈاکٹر عبدالستار نے بتایا اسے ۱۳ سال کی عمر کے بیچ کی جسمانی، ذہنی، جذباتی صلاحیتوں میں زیادہ ترقی ہوتی ہے۔ بچوں کی اضافہ لڑکھڑانے سے لے کر دوڑنے کودنے اور جمع ہو کر کھیل کھیلنے میں آگے بڑھتا ہے یہ ترقی الگ الگ بچوں میں کافی الگ الگ ہوتی ہے ڈاکٹر متین پرویز نے کہا بچوں کی بڑھوتری کے لئے صحیح غذا لینی ضروری ہے انھوں نے بچوں کو اچھی غذا دینے کے لئے حوصلہ افزائی کی۔ ڈاکٹر عابد کریم دینی محرک کی کمی اضافہ کو ہلکا کر سکتی ہے ساتھ ہی بہرا پن اور زبانی اضافہ کو کم کرتی ہے۔ ڈاکٹر صادقہ سہیل نے بتایا کہ بچوں کو محفوظ اور تندرست محسوس کرنا چاہیے ان کی زندگی اور رہنے کی بنیادی ضرورتیں پوری ہونی چاہئیے ۔ کھانا، کپڑے اور تندرستی کی دیکھ بھال اور کسی نقصان سے حفاظت وغیرہ ۔ ڈاکٹر فاطمہ ایم دنچی نے انفکشن سے روک تھام کے لئے صفائی پر دھیان دینے پر زورد یا ڈاکٹر فراز السلام نے بچوں کی آنکھوں کی صحت مند رہنے کے لئے وٹامن آنے کے بارے میں جانکاری دے۔ ڈاکٹر بھوا متیل بین اومیش بھائی نے بچوں کو دانتوں سے متعلق صفائی و پریشانیوں کے بارے میں جانکاری دی۔ ڈاکٹر محمد حارث نے دانتوں کے امراض کے بارے میں اور صفائی کے بارے میں تفصیل سے بتایا ڈاکٹر سید فاروق نے والدین کو صفائی کی عادت کے بارے میں اور اچھا کھانا بچوں کو مہیا کرانے پر زور دیا۔ اسکول کے مینیجر سید اعجاز احمد نے پروگرام کی صحیح طریقہ سے چلانے اور کامیاب بنانے میں اپنا تعاون پیش کیا اسکول کے پرنسپل جناب جاوید مظہر نے
 سب کا شکر یہ ادا کیا۔

ہفتہ, نومبر 25, 2023

اک پھول سے آجاتی ہے ویرانےرونقہلکاساتبسٌم بھی مری جان بہت ہے

***** کچھ تبسٌم ز یرِ لب(17)*****
Urduduniyanews72 
                     * انس مسرورانصاری

                        * بس میں بے بسی*


اک پھول سے آجاتی ہے ویرانےرونق
ہلکاساتبسٌم بھی مری جان بہت ہے

    بس میں بے بسی وہی جانے جس نے ہماری طرح بس میں بے بسی کودیکھااورجھیلاہو۔ریلوے اسٹیشن کی بھیڑبھاڑسےہمیں بڑی الرجی ہے۔لگتا ہے جیسے قیامت سے پہلے قیامت کےمیدان میں انٹری ہوگئی ہو۔ہرطرف بھاگم بھاگ۔دوڑدھوپ۔ دھکم پیل۔کولھوسےکولھوکا چھلنا۔سینےسےسینہ کاچسپاں ہونا۔ایک جیب کا مال دوسرے کی جیب میں پہنچنا۔اورکبھی کبھی کسی خاتون کاچانٹاکسی شریف نوجوان کے گال پر پڑنا۔۔۔وغیرہ،وغیرہ۔خدا کی پناہ۔۔۔۔۔۔اس لیے ریل گاڑی کے بجائےبس میں سفر ہمیں بہت مرغوب ہے۔لیکن بس کا وہ سفرہرگزنھیں جس کی داستانِ دل خراش وجگرخروش کاسناناہمیں مطلوب ہے۔
        بڑی اورچھوٹی گاڑیوں کےڈرائیوروں اورکنڈکٹر وں میں جویک جہتی ویکتائی اور بھائی چارہ ہےاس کی مثال کو ہم تلاش کرنےنکلےتوسخت مایوسی اورپشیمانی ہوئی کہ وہ بے مثال ہے۔
       ہماری بس آگےہی آگے بھاگتی جارہی تھی اور منزل قریب تھی۔ یعنی۔۔دوچارہاتھ جب کہ لبِ بام رہ گیا،، سامنےسےآنےوالی بس نے ہمارےبس ڈرائیورکواشارہ کیا۔دونوں بسیں پہلوبہ پہلوکھڑی ہوگئیں۔پتاچلاکہ آگے آر،ٹی،یو،نےروڈکوبلاک کررکھاہے۔گاڑیوں کی چیکنگ ہورہی ہے۔شایدآر،ٹی،یوکی بیوی نےپھرکوئی نئی فرمائش کردی ہوگی۔ ہماری بس کا ڈرائیور بہت چالاک تھا۔اور ڈرئیور تو چالاک ہوتے ہی ہیں۔چنانچہ اس نے کچھ دورجاکر۔۔بائی پاس،کی طرف گاڑی کوموڑدیا۔چیکنگ افسرکی دلی آرزوکوتوڑدیا۔بائی پاس صرف سرجری ہی نھیں ہوتی بلکہ بائی پاس بہت کچھ ہوتاہے۔مثلاً ہمارا یہ بائی پاس سفر۔۔!بائی پاس سفرکی ایک خاص بات یہ بھی ہےکہ وہ کبھی کبھی جہنٌم کے دہانےتک پہنچادیتاہے۔
     کہتےہیں کہ ہماراملک ہندوستان گاؤں میں بستاہے۔ہمارا بائی پاس بھی گاؤں سےہوکرگزرتاتھا۔ہم نے سوچا کہ چلوآج اصل ہندوستان کو دیکھتے ہیں۔ ہماری بس تھوڑی دور چلی ہوگی کہ محسوس ہواکہ ہم جہنٌم کے راستےپرسفرکررہےہیں۔ سڑکیں کیاتھیں، محبوب کی الجھی ہوئی خم دار زلفِ گرہ گیرتھیں۔ بس کبھی دائیں کروٹ لینا چاہتی کبھی بائیں کروٹ۔نتیجے میں بس کےاندرسواریوں کی حالت دگرگوں تھی۔ایک بار بس اپنےبائیں پہلو پراس طرح جھکی کہ دوسری طرف کی سواریاں ہمای طرف لڑھک آئیں اور وہ مثل صادق ہوئی کہ۔۔من توشدم تومن شدی من تن شدم توجاں شدی،،بس کےاندر مختلف آوازیں گونجنے لگیں۔ 
              ۔۔ارے!ارے،خدا کی پناہ!بھیاجی،ذرا آہستہ چلاؤ۔مانا کہ یہ کوئی ٹٹوتوہےنھیں،بس ہے۔لیکن بس چلارہےہوکہ راکٹ۔خدارا ذرا عقل سے بھی تھوڑاکام لےلیاکرو۔علامہ اقبال نے یہ تو نھیں کہا تھا کہ ہمیشہ عقل کو بے لگام گھوڑی کی طرح کھولےرکھو۔انھوں نے تودوٹوک لفظوں میں صاف ہی صاف کہاتھا۔! 
            ہرچند سا تھ سا تھ ر ہے پا سبانِ  عقل 
         لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑدے
     پتانھیں اقبال نے پاسبان کوچھوڑنےکےلیےکہاتھایا عقل کو۔؟لیکن آپ ڈرائیور حضرات ہیں کہ دونوں کو گھاس چرنے کےلیےبالکل ہی کھلےچھوڑرکھاہے۔للٌہ ذرا عقل کے ناخن ہی لےلومیاں۔کیوں ننھی منی جانوں کے پیچھے ہاتھ دھوکرپڑگئےہو۔؟اگرآپ لوگوں کو اپنی جان کی پرواہ نھیں ہےتونہ سہی مگرخداکےواسطےدوسروں کی جان ہی کا خیال کرو۔شاید دوسروں کو اپنی جان عزیز ہو۔؟اف،خدایا،توبہ توبہ۔یہ بریک لگارہےہویاآسمان سےدھکٌےدےرہےہو۔؟ﷲ رحم کرے۔توبہ،استغفرﷲ۔ارے باباہم توپہلےہی سنگل پسلی کےہیں۔کیااسےبھی توڑدو گے۔کیوں ہماری ہڈیوں کا سرمہ بنانےپرتلےہو۔؟سرمےہی کاشوق ہےتوہزارپتےہم سےلو۔ہرطرح کےسرمےکانام بھی لکھوالو۔بریلی کےبازارکاجھمکاہی نھیں،وہاں کا سرمہ بھی تو بہت مشہور ہے،، 
          ۔۔اف،آہ،یاﷲتوبہ۔استغفرﷲ۔۔استغفرﷲ۔الہٰی خیر۔۔۔۔خداراخداراکچھ تورحم کھاؤ۔ابھی ہماراارادہ کچھ سال اورجینےکاہے۔ابھی ہم نے بہاریں ہی کتنی دیکھی ہیں۔کل ملاکر صرف باسٹھ سال۔!ابھی تو بہت کچھ دیکھناباقی ہے،، 
       ۔۔ ارےارےبھیاجی!بس کوروک لو۔ہمیں اترناہے۔باقاعدہ اترتولینےدو۔ابھی ایک پاؤں زمین پرسیدھےرکھا نھیں ہے۔دوسراپاؤں بس کےاندر ہی ہےکہ آپ حضرات بس چلادیتےہیں۔بنادیکھےبھالےکہ بس سےکون کامیابی کے ساتھ فاتح بن کراترسکاہےاورکون بس کےنیچےآکر عدم آبادبلاٹکٹ ہی چلاگیا۔مگر کون کہاں جاتاہے،آپ کی بلاسے۔کوئی جئے،کوئی مرے،بھلا آپ کوکیافکر۔!بس میں ایسی بےبسی۔ﷲ کی پناہ۔کسی مسافرکوخبرنھیں کہ آمدہ ساعت فنا کی ہےیابقاکی!،، 
     ۔۔ ارےﷲکےبندے!بس کوپوری طرح روک تولو۔مجھے اترناہےبھائی۔سنگل پسلی کامسافرہوں۔مگران باتوں سے بھلا آپ کوکیاغرض۔؟خیر خیر۔۔۔ خدا آپ لوگوں کو نیکی کی ہدایت اور توفیق عطا فرمائے۔آمین۔۔ثمٌہ آمین۔۔،، 
         بس کےاندرکی افراتفری کایہ سلسلہ قریب ایک گھنٹہ تک جاری رہا۔کئ مسافروں کی پتلون گیلی ہوئی۔ کئی سرایک دوسرےسےباربارٹکرائے۔کئی بارمسافرایک دوسرے کی آغوش میں آئے۔کئی بار ہم مسافرانِ بس ایک دوسرےسےبغلگیرہوئےمگر کسی نےبرانھیں مانا۔جب بس پچ روڈ(پکی سڑک)پرآئی تب مسافروں کی جان میں جان آئی۔*****
                          *انس مسرورانصاری
              قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن (انڈیا) 
                            /9453347784/

جمعرات, نومبر 23, 2023

چغل خوری- دخولِ جنت سے محرومی کا سبب

چغل خوری- دخولِ جنت سے محرومی کا سبب
Urduduniyanews72 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ

سماجی برائیوں میں ایک بڑی بُرائی چغل خوری ہے، شریعت کی نظر میں یہ گناہ کبیرہ ہے، اسے عربی میں ھمزہ، قتات اور نمیمہ نیز چغل خور کو ہماز اور نمام کہتے ہیں، کسی کی بات اس شخص کو یاجماعت کو نقصان پہونچانے، فساد وبگاڑ پیدا کرنے کی غرض سے دوسروں تک پہونچانا چغل خوری ہے، امام نووی نے شرح مسلم میں یہی تعریف کی ہے، قرآن کریم میں ایسے لوگوں کو ھماز کہا گیا ہے، اللہ رب العزت نے ایسے لوگوں کے بارے میں سورۃھمزۃ اتاری ہے، احیاء العلوم (۳/۲۹۱) میں امام غزالی نے بھی ھمزہ کے معنی چغل خور ذکر کیا ہے، حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے ھُمَزَۃ اور لُمَزَۃ  کا ترجمہ طعنہ دینے اور عیب چننے والے سے کیا ہے، حضرت مفتی محمد شفیع صاحبؒ نے اس آیت کے معارف ومسائل میں لکھا ہے کہ ھُمَزَۃ اور لُمَزَۃ چند معانی کے لئے استعمال ہوئے ہیں، اکثر مفسرین نے جس کو اختیار کیا ہے وہ یہ ہے کہ ھُمَزَۃ  کے معنیٰ غیبت یعنی کسی کے پیٹھ پیچھے اس کے عیوب کا تذکرہ کرنا ہے، چغلی میں بھی عموماً پیٹھ پیچھے عیوب کا تذکرہ ہوتا ہے، اس لئے کئی مفسرین نے ھُمِزۃ کا ترجمہ چغل خوری سے کیا ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ چغل خور جنت میں نہیں داخل ہوگا(بخاری شریف:۴/۵۱۱، حدیث نمبر۶۰۶) مسند احمد کی ایک روایت ہے کہ انتہائی بدترین لوگ وہ ہیں جو چغلی کھاتے ہیں اور دوستوں میں جدائی کراتے ہیں،الترغیب والترہیب (۳/۵۲۳، حدیث نمبر:۰۱) میں چغل خور اور پاکباز لوگوں پر عیب لگانے والے کا حشر کتوں کی شکل میں ہونے کی بات بھی کہی گئی ہے۔
غیبت اور نمیمہ بعض اعتبار سے متحد المعنی ہیں اور بعض اعتبار سے مغائر، حافظ ابن حجرؒ نے ترجیح، مغایرت کو دیا ہے اور منطقی اصطلاح میں دونوں میں نسبت عموم وخصوص من وجہ کی بیان کی ہے، ان کے نزدیک کسی کے شخصی احوال کو فساد وبگاڑ پیدا کرنے کی نیت سے بغیر اس کی رضامندی کے ذکر کرنا چغل خوری ہے، جس کے بارے میں بات کہی جارہی ہے اس کا اس بات سے باخبر ہونا ضروری نہیں ہے اور غیبت پیٹھ پیچھے کسی کے عیب کو بیان کرنا ہے، جس کے بیان میں اس شخص کی رضامندی شامل نہیں ہوتی، معلوم ہوا کہ چغل خوری میں فساد پھیلانے کا ارادہ ہوتا ہے، جبکہ غیبت میں ایسی کوئی قید نہیں ہوا کرتی غیبت میں جس کے بارے میں کیا جارہا ہے، اس کی غیبوبت بھی ضروری ہے (فتح الباری شرح صحیح البخاری)حضرت سلیمان بن داؤد نے اپنے بیٹے کو یہ نصیحت کی کہ بیٹا چغلی سے بچ کر رہنا، اس کی کاٹ تلوار سے بھی تیز ہے“ (روضۃ العقلاء، ص:۶۷۱)
غیبت اور چغل خوری میں نقطہئ اشتراک یہ بھی ہے کہ چغل خور اور غیبت کرنے والے جو بات دوسروں تک پہونچاتے ہیں، یہ اگر واقعتا اس شخص میں موجود ہے تو یہ غیبت اور چغل خوری کے ذیل میں آئے گا اور اگر اس شخص میں موجود نہیں ہے تو یہ تہمت کہلائے گا اور شریعت میں تہمت لگانے والوں کی سزا اسّی کوڑے مقرر کی گئی ہے۔
اللہ رب العزت نے سورہ قلم میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے شخص کی بات ماننے سے روکا ہے جو بہت قسمیں کھانے والا ہو، بے وقعت، طعنہ دینے والا ہو، چغلیاں لگاتا پھرتا ہو، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے چغل خوروں کے بارے میں صاف صاف ارشاد فرمایا کہ چغل خور جنت میں داخل نہیں ہوگا، یہ روایت بخاری، مسلم اور الترغیب والترہیب میں مذکور ہے، ایک طویل حدیث میں مذکور ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا گذر قبرستان سے ہوا، آپؐ نے دو قبر کی طرف اشارہ کرکے فرمایا کہ ان دونوں کو عذاب ہو رہا ہے، ایک کو اس لئے عذاب ہورہا ہے کہ وہ پیشاب کے چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا اور دوسرے کو اس لئے کہ وہ اپنی زبان سے لوگوں کو تکلیف پہونچاتا تھا اور لوگوں کے درمیان چغلیاں کھاتا پھرتا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ وعید بھی بیان کی کہ حسد کرنے والا، چغلی کھانے والا اور کاہن مجھ میں سے نہیں ہے، حضرت کعبؓ سے ایک روایت مروی ہے، جس میں انہوں نے بنی اسرائیل کا واقعہ نقل کیا ہے کہ قحط کے زمانہ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کئی بار بارش کی دعا کی، لیکن دعا قبول نہیں کی، اللہ رب العزت نے حضرت موسیٰؑ کو وحی کیا کہ جب تک تمہارے درمیان چغل خور موجود ہے اور مسلسل چغلی کیے جارہا ہے، اس وقت تک تمہاری دعا قبول نہیں ہوگی، اللہ نے اس شخص کا نام نہیں بتایا، لیکن سب نے مل کر توبہ کیا، پھر دعا قبول ہوئی، معلوم ہوا کہ چغل خوری ایسی خراب چیز ہے کہ دعا کی قبولیت میں بھی یہ مانع بن جاتی ہے، بعض بزرگوں نے لکھا ہے کہ چغل خور کا عمل شیطان کے عمل سے زیادہ نقصان پہونچانے والا ہے، اس لئے کہ شیطان بدعملی کا خیال دلوں میں ڈالتا ہے، جب کہ چغل خور آمنے سامنے پوری جرأت کے ساتھ اس عمل کا ارتکاب کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ چغل خوری کی حرمت اور اس کے گناہ کبیرہ ہونے پر علماء امت کا اجماع ہے۔
چغل خوری میں متعلقہ شخص کی بُرائی ضرر پہونچانے کی نیت سے ہوا کرتی ہے، چغلی کرنے والے، جس سے وہ چغلی کر رہا ہے، اپنے تئیں عقیدت ومحبت کا اظہار اور قربت کے حصول کے لئے ایسا کیا کرتا ہے، وہ اپنے مخدوم کے مقابل اس کو کمتر ثابت کرنا چاہتا ہے، بعض لوگوں کو اس قبیح عمل کے ارتکاب سے حظ نفس ہوتا ہے اور اسے یک گونہ مسرت ہوتی ہے، بعض لوگوں کا مقصود اس سے دو خاندان کو آپس میں لڑا دینا، میاں بیوی کو جھگڑوں کے لائن پر ڈال دینا ہوا کرتا ہے، ایسا شخص دو رخا ہوتا ہے، ہر ایک کے پاس دوسرے کو خوش کرنے کے لئے لگا بجھا کرتا ہے اور لڑائی کی آگ بھڑکا کر ہی دم لیتا ہے۔
میں نے چغل خوری کی نحوست کا کھلی آنکھوں مشاہدہ کیا ہے، ایک صاحب استاذ سے زیادہ قریب تھے، چنانچہ وہ دوسرے استاذ کی شکایت ان سے کیا کرتے تھے، وہ اپنے محبوب استاذ کی برتری کو اس عمل سے ثابت کرتے رہتے تھے، ہمارے درسی ساتھی تھے، صلاحیت بھی اوسط تھی، یہ عمل ان کا فراغت تک جاری رہا، جب تدریسی میدان میں داخل ہوئے تو عربی کی ابتدائی کتابوں کی تدریس بھی ان کے بس کی نہیں رہی، حالاں کہ اس قدر استعداد تو ضرور تھی کہ وسطیٰ درجات کی کتابیں وہ پڑھا سکتے تھے، لیکن چغل خوری کے اس مذموم عمل نے ان کی تدریسی خدمات میں رکاوٹ ڈالی، مواقع بہت ملے، لیکن ہرجگہ ناکامی رہی، بالآخر وہ اپنے خاندانی پیشہ کپڑا بننے میں لگ گئے اور یہی ان کا ذریعہ معاش قرار پایا۔
اور یہ واقعہ تو آپ سب نے سن ہی رکھا ہوگا کہ ایک شخص نے ایک ایسے غلام کو خرید لیا، جس کی عادت چغل خوری کی تھی، اس نے پہلے اس کی بیوی سے کہا کہ تمہارا شوہر دوسرا نکاح کرنا چاہتا ہے، بیوی بہت گھبرائی، اس نے غلام سے کہا کہ کوئی ترکیب بتاؤ، اس نے جھٹ یہ تجویز رکھ دی کہ اپنے شوہر کی داڑھی کے چند بال استرے سے مونڈ کر لاؤ، میں اس پر ترکیب کردوں گا، شوہر کے دل سے نکاح کا خیال ہی جاتا رہے گا، پھر غلام اس کے شوہر کے پاس گیا اور کہا کہ تمہاری بیوی تمہارے علاوہ کسی کو چاہتی ہے، آج رات اس کا ارادہ تمہیں ذبح کرنے کا ہے، وہ رات کو استرہ لے کر اس کام کے لئے تمہارے پاس جائے گی، تاکہ وہ تمہاری موت کے بعد اپنے محبوب سے نکاح کرسکے، شوہر نے اس کی بات کو سچ مان لیا، رات کو سونے کا بہانہ کرکے لیٹا رہا، عورت داڑھی کے بال مونڈنے استرہ لے کر پہونچی تو اسے پورا یقین ہوگیا اور اس نے اسی استرے سے بیوی کو ذبح کردیا، بیوی کے خاندان والوں نے شوہر کو قتل کردیا، دیکھا آپ نے، چغل خوری کی اس لعنت نے کس طرح خاندان کو تباہ کردیا۔
یہاں پر یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی آپ سے چغلی کرے تو آپ کو کیا کرنا چاہئے؟ علامہ ذہبی نے الکبائر میں لکھا ہے کہ ایسے لوگوں کی بات پر یقین نہ کیا جائے، اس لئے کہ چغل خور اس گناہ کبیرہ کی وجہ سے فاسق ہوجاتا ہے اور فاسق کی گواہی کسی شخص کے حق میں مقبول نہیں ہوا کرتی، چغل خور کو شرعی انداز میں تنبیہ کی جائے اور اسے بتایا جائے کہ یہ عمل جنت میں دخول سے محرومی کا بڑا سبب ہے، اپنی ذات کی حد تک اسے یہ بھی کرنا چاہئے کہ وہ متعلقہ شخص سے بدگمان نہ ہو اور نہ ہی چغل خور کی بتائی ہوئی باتوں کی تحقیق میں پڑے اور نہ ہی اسے دوسروں سے نقل کرے، اس لیے کہ جہاں اس نے دوسروں سے اسے نقل کیا وہ خود بھی چغل خور کے زمرے میں آجائے گا۔
اس لئے ہرمسلمان کو چغل خوری سے بچنا چاہئے، تاکہ سماج اور خاندان میں فتنہ وفساد برپا نہ ہو اور اب تک جو بے راہ روی ہوتی رہی اس کے لئے توبہ واستغفار کرنا چاہئے اور اگر چغل خوری کے نتیجے میں سماج یاخاندان کو کسی ضرر کا سامنا کرنا پڑا ہو تو اس کی تلافی کی عملی شکلوں پر بھی غور کرنا چاہئے اور آئندہ پورے طورپر اس سے احتراز کا عزم بالجزم کرنا چاہئے۔

منگل, نومبر 21, 2023

مفتی ہمایوں اقبال ندوی نائب صدر، جمعیت علماء ارریہ وجنرل سکریٹری، تنظیم أبناء ندوہ پورنیہ کمشنری

زعفرانی فکر زیادہ خطرناک ہے
Urduduniyanews72 
"پورے ملک کو زعفرانی رنگ میں رنگ دینے کی کوشش ہورہی ہے"یہ بیان وزیر اعلی بنگال کی طرف سے آیا ہے،ان کی شکایت یہ ہےکہ "اب کرکٹ کھلاڑی زعفرانی رنگ کی جرسیوں میں پریکٹس کرتے ہیں، میٹرو اسٹیشنوں کو زعفرانی رنگ دیا گیا ہے یہ ناقابل قبول ہے"۔خیر یہ تو زعفرانی رنگ کی بات ہے،آگے بڑھئیے اور دوسری خبربھی پڑھئیے جواتر پردیش کی راجدھانی لکھنو سے مل رہی ہے کہ حلال سرٹیفکیٹ دینے والی تنظیموں کےخلاف مقدمہ درج کرکے کاروائی بھی شروع کردی گئی ہے، یہ زعفرانی فکر ہےجو زعفرانی رنگ سے زیادہ ہمارے لئےخطرناک ہے۔
  ملک میں جب سے ایک خاص نظریہ کی حکومت قائم ہوئی ہےمسلسل اس کی کوشش ہورہی ہے کہ مسلمانوں سے اس کا دین ومذہب چھین لیاجائے۔اس کے لیے ہر حربہ آزمایا جارہا ہے،جن چیزوں کو اسلام نے ختم کیا تھا،اب وہ چیزیں اسلام کو نقصان پہونچانے کے لئے ملک میں منظم طور پرپھیلائی جارہی ہیں۔ توہم پرستی، جادو ٹوٹکے، تعویذ گنڈہے، جھاڑپھونک اور منتر کواسی لئےخوب فروغ دیا جارہا ہے۔ دراصل ان کے ذریعہ ایک صاحب ایمان کو کفر وشرک میں مبتلا کرنے کی خطرناک سازش ہے۔
آج باباوں کواس مشن  کی تکمیل کے لئے ملک بھر میں پھیلادیا گیا ہے،ملک  میں ایک معروف ومشہور سادھو ہےجسے آج کل خوب پرموٹ کیاجارہاہے،تخت وتاج اوران کے دربار کو دیکھ کر  بادشاہ ہونے کا احساس ہوتاہے۔ بڑے بڑے لوگوں کی اس کے دربار میں غلامانہ حاضری ہوتی ہے، آن کیمرہ وہ دعوٰی کرتاہےکہ وہ غیب کی باتوں  کو جانتا ہے،پورے ملک میں اسے خوب نشر کیا جارہا ہے۔کچھ بھولے بھالے مسلمانوں کو بھی وہاں تک پہونچاکر اور دربار میں حاضر کروا کر اس کی خوب تشہیر کی جارہی ہے، اس کا مقصد ایمان وعقیدہ کو ضائع کرنا ہے، یہ اسلام ومسلمان پر ایک بڑا فکری حملہ ہے۔
افسوس صد افسوس کی بات تو یہ بھی ہے یہ چیزیں کسی نہ کسی درجہ میں مسلم سماج میں بھی گھس آئی ہیں، حالیہ کچھ سالوں سے اس کا خوب رواج ہوگیا ہے۔سوشل میڈیا پر باضابطہ اشتہار دیکر اس کی گارنٹی لی جاتی ہے کہ کام نہیں ہوا تو پیسے واپس، ابھی اس تعلق سے ایک قتل کا منحوس واقعہ بھی رونما ہوا ہے، مقتول نے تعویذ کے بدلے کچھ رقم حاصل کی تھی اور متعینہ وقت میں کام ہوجانےکی گارنٹی بھی لی تھی، بروقت کام نہیں ہوا تو تیز دھار دار ہتھیار سے موصوف کا ہی کام تمام کردیا گیا، قاتل ومقتول دونوں صاحب ایمان ہیں اور کلمہ گو مسلمان ہیں، زعفرانی فکر اس درجہ میں فی الوقت کام کرنے لگی ہے کہ انسان کی جان وایمان دونوں خطرے میں ہے،بروقت علماء کرام اور دانشوران قوم وملت نے اس پر قذغن نہیں لگایا تو اس کے نتائج بھیانک رونما ہوسکتے ہیں۔اس وقت اس عنوان پر مضبوط تحریک چلانے کی ضرورت ہے۔
عام طور پر لوگ جھاڑ پھونک کا سہارا لینے لگے ہیں،کسی کا کوئی سامان چوری ہوگیا تو تلاش سامان کی نہیں ہوتی ہے بلکہ اس شخص کو ڈھونڈا جاتا ہے جو چور کا نام و پتہ بتادے،انہیں" ٹھکوا "کہا جاتا یے،اس کے چکر میں بھاری رقم خرچ ہوجاتی ہےمگرحاصل کچھ بھی نہیں ہوتا ہے۔ پہلے عرب میں اس قسم کے لوگ ہوتےجو سامان کا پتہ بتاتے،اہل عرب انہیں عراف کہتے تھے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کام سےمنع فرمایا ہے، کاہن وعراف کے پاس جانے والے سے اپنی برات کا اعلان بھی آپ صلی علیہ وسلم نے کردیا ہے۔فرمایا
؛ کہ جو کسی کاہن کے پاس جاکر اس کی باتوں کو سچ سمجھے وہ محمد پر جو اترا ہے اس سے انکار کرتا ہے۔ حدیث شریف میں ہے؛جو کوئی کسی مال کا پتہ پوچھنے کے لیے کسی عراف کے پاس جائے گا اس کی اس کی چالیس دن کی نماز قبول نہیں ہوگی( مشکوة)
آج کوئی آدمی سنگین قسم کی بیماری مبتلا ہےاور وہ جلد رو بہ صحت نہیں ہوتا ہے تو کسی عامل کے تلاش شروع ہوجاتی ہےاور بآسانی وہ دستیاب بھی ہوجاتے ہیں، ہر آنے والے سے وہ یہی کہتا ہے  کہ اس پرخطرناک قسم کا جادو ہے۔جھاڑ پھونک شروع ہوجاتی ہے،اور عجیب وغریب چیزوں کی خواہش وفرمائش کی جاتی ہے، یہاں صریح طور پر غیر خدا کا نام لیا جاتا ہے اور شرکیہ کلمات تک ادا کئے جاتے ہیں، خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور مسلم سماج کو گمرہی کے دہانے میں جھونک دیتے ہیں۔حدیث شریف میں ایک صحابی کا واقعہ موجود ہے انہوں نے ایک بیمار پاگل پر سورہ فاتحہ پڑھ کر دم کیا تھا، اور وہ ٹھیک ہوگیا، انہوں نے اکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے واقعہ عرض کیا، فرمایا کہ، میری عمر کی قسم ہر جھاڑ پھونک باطل ہےلیکن تم نےسچی جھاڑ پھونک سے روزی کھانی، حدیث شریف میں واضح انداز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرما دیا ہے کہ؛بے شک جھاڑ پھونک، گنڈے اور میاں بیوی کے چھڑانے کے تعویذ شرک ہیں، (ابوداؤد )



مفتی ہمایوں اقبال ندوی 
نائب صدر، جمعیت علماء ارریہ 
وجنرل سکریٹری، تنظیم أبناء ندوہ پورنیہ کمشنری

*امیر شریعت سادس کی زندگی ہندوستان کی ملی،دینی،فکری تاریخ کا ایک اہم باب.**عبدالواحد ندوی*

*امیر شریعت حضرت مولانا سید نظام الدینؒ کی حیات وخدمات پر سیمینارکے سلسلہ میں اہم نشست .*
Urduduniyanews72 
*امیر شریعت سادس کی زندگی ہندوستان کی ملی،دینی،فکری تاریخ کا ایک اہم باب.*
*عبدالواحد ندوی*
پٹنہ20/نومبر(نمائندہ)
 امارت شرعیہ بہار،اڈیشہ وجھارکھنڈ کے چھٹے امیرشریعت،سینکڑوں دینی وملی اداروں کے سرپرست،آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری، دارالعلوم دیوبند ودارالعلوم ندوۃ العلماء کے رکن شوریٰ ورکن مجلس انتظامی،نسلوں کے مربی،علماء ودانشوروں کے رہنما،رمزگاہ سیاست کے شناورحضرت مولانا سید نظام الدین صاحب رحمۃاللہ علیہ کی علمی،دینی روحانی، فکری، ملی وسیاسی زندگی ہندوستان کی ملی تاریخ کا ایک اہم باب ہے،اُن کی زندگی ایک عہد کی داستان ہے،ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس تاریخی امانت کو آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ کردیں؛تاکہ آنے والی نسلیں اس سے روشنی کشید کر اپنی زندگی کی شمع روشن کرسکیں۔ان خیالات کا اظہار مولانا سید نظام الدین فاؤنڈیشن پٹنہ کے چیئرمین، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن،جامعۃ المومنات پٹنہ وجامعہ اسلامیہ گھوری گھاٹ کے ناظم معروف عالم دین حضرت مولانا عبدالواحد ندوی نے جامعۃ المومنات پھلواری شریف پٹنہ کے کانفرس ہال میں منعقد ایک خصوصی نشست میں کیا۔موصوف حضرت امیرشریعت سادس ؒپر ہونے والے سیمینار کے سلسلہ میں منعقدایک اہم نشست میں گفتگو کررہے تھے۔مولانا نے سیمینار کی ضرورت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ حضرت کی زندگی پر سیمینار نہ صرف حضرت کی زندگی کے مختلف گوشوں کو آشکار کرے گا؛بلکہ یہ سیمینار ہندوستان اوربطور خاص بہار کی ملی تاریخ کی ترتیب کی طرف پہلا قدم ہوگا۔انہوں نے مزید فرمایاکہ آل انڈیا مسلم پرسنل بورڈ کے سابق صدر حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندویؒ،مولانا سید محمد واضح رشید ندویؒ اور حضرت مولانا محمد قاسم صاحب مظفر پوری ؒ سمیت ملک کے متعدد اکابر علماباربار حضرت کی زندگی پر سیمینار کرانے کا مشورہ دیتے رہے؛تاہم اس سلسلہ میں پیش رفت نہ ہوسکی؛لیکن جب اکابر کا اصرار بڑھتا رہا تو اب سیمینار کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اورآج اسی سلسلہ میں غور وفکر اورلائحہ عمل تیار کرنے کے لیے آپ حضرات کو زحمت دی گئی ہے۔میٹنگ میں شریک امارت شرعیہ کے قائم مقام ناظم مولانا محمد شبلی قاسمی نے کہا کہ امارت شرعیہ کی ہراینٹ حضرت کی خدمات کی گواہ ہے، امارت شرعیہ کی تاریخ حضرت کے بغیر اَدھوری ہے،حضرت پر سیمینار وقت کی ضرورت تھی اورحضرت مولانا عبدالواحد صاحب قابل مبارک باد ہیں کہ انہوں نے اس ضرورت کی تکمیل کے لیے قدم اٹھایا،امارت شرعیہ کا پورا تعاون سیمینار کو حاصل رہے گا۔امارت شرعیہ کے چیف قاضی شریعت مولانا محمد انظارعالم قاسمی نے کہاکہ حضرت کے وسیع تجربہ کو نئی نسل کے سامنے پیش کرنا اس لیے بھی ضروری ہے؛تاکہ ہماری نسل اس چراغ سے اپنا دِیا جلاسکے،امارت شرعیہ آپ کے ساتھ ہے۔المعہد العالی للتدریب فی القضاء والافتاء کے سکریٹری مولانا عبدالباسط ندوی نے کہاکہ حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب ؒ نے  اپنی پوری زندگی امارت شرعیہ اورفکر امارت شرعیہ کے لیے وقف کردی تھی،انہوں نے حضرت مولاناقاضی مجاہدالاسلام قاسمی کے ساتھ مل کر امارت شرعیہ کو عالمی شہرت اوروقار بخشا۔ان کی زندگی کی تگ ودو کا ماحصل امارت شرعیہ اورفکر امارت شرعیہ تھا اورمختلف تنظیمیں اسی امارت کے بطن سے پیدا ہوئیں،وہ ملی کاموں کے لیے وقت کے پابند نہیں تھے، وہ ہرگھڑی ملت کے لیے فکر مند رہتے اوران کا دل ہرپل امت کے لیے تڑپتا رہتا تھا،یہ سیمینار یقینا ہونا چاہیے،اس سیمینار سے نئی فکر جنم لے گی اورامت کے کام کے لیے بہت سے نوجوان علما کھڑے ہوں گے۔آل انڈیا ملی کونسل بہار کے جوائنٹ جنرل سکریٹری مولانا ابوالکلام شمسی نے سیمینار کی تائید کرتے ہوئے کہاکہ حضرت رحمۃاللہ علیہ کی ذات ایک انجمن تھی،وہ مردم شناس تھے،عزم کے پختہ اورہمت کے پہاڑ تھے،ان کی شخصیت پورے ملک کے لیے نقطۂ  اتحاد تھی،اس لیے سیمینار میں ملک کی تمام تنظیموں اورتمام مکاتب فکر کی نمائندگی ہونی چاہیے،ان شاء اللہ ہم سب اس سیمینار کے لیے جو بن پڑے گا کریں گے۔جب کہ مولانا محمد نافع عارفی کارگزار جنرل سکریٹری آل انڈیا ملی کونسل نے کہاکہ حضرت امیر شریعت سادس کی زندگی ہندوستان کی دینی وملی تاریخ کا ایک سنہرا باب ہے، اس کا ہرورق روشن اورہرسطر درخشاں ہے،ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس داستان علم وفضل اوران کی ملی خدمات کی تاریخ کوآنے والی نسلوں کے لیے محفوظ کردیں،ان شاء اللہ آل انڈیا ملی کونسل اس سیمینار کے لیے ہرطرح کا تعاون کرے گی۔ نظامیہ طبیہ کالج گیا کے صدر ڈاکٹر حامد حسین نے سیمینار کے انعقاد کے فیصلے پر دلی خوشی کا اظہار کیا ہے اور اس کی وقت کی اہم ضرورت بتاتے ہوئے اس کے کامیاب انعقاد میں ہر طرح کے تعاون کی یقین دہانی کرائی۔اس اہم نشست میں جناب انجینئر اعجاز حال مقیم سعودی عرب،مولانا ضیاء عظیم،جناب نیاز نذر فاطمی،مولانا صادق قاسمی،مفتی شاہ نوازعالم صاحب،مولانا ساجد رحمانی، انجینئر محمدعمیروغیرہ نے بھی قیمتی مشورے دیے۔
 جن دانشوران اور علماء نے بذریعہ فون یا میسج اپنی تائید و تعاون اور سیمینار کے انعقاد کی خبر پر مسرت کا اظہار کیا ان میں سر فہرست حضرت مولانا انیس الرحمن قاسمی قومی نائب صدرآل انڈیا ملی کونسل، مولانا مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ، مولانا بدراحمد مجیبی صدر جمعیۃ علماء بہار،مولانا سید مشہوداحمد قادری پرنسپل مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ،مولانامفتی سعیدالرحمن  قاسمی صدرمفتی امارت شرعیہ،مفتی وصی احمد قاسمی نائب قاضی شریعت امارت شرعیہ، مولانا مفتی سہراب ندوی نائب ناظم امارت شرعیہ،مولانا رضوان احمد ندوی معاون مدیر ہفتہ وار نقیب، مولانا مفتی نذرتوحید مظاہری مہتمم جامعہ رشید العلوم چتراو صدر آل انڈیا ملی کونسل جھارکھنڈ، مولانا شاہد ناصری الحنفی صدر ادارہ دعوۃ السنۃ مہاراشٹر،حضرت مولانا مفتی جنید عالم ندوی صدر معہد الدراسات العلیا،مولانا مفتی سہیل احمد قاسمی صدر الحمد خدمت خلق، مفتی عمر عابدین قاسمی مدنی المہعد العالی حیدرآباد، مولانا ڈاکٹر محمد عالم قاسمی ، مولانا رضوان احمد اصلاحی امیر جماعت اسلامی بہار،مولانا شہزاد اکرام ندوی،ناءب ناظم جامعۃ البنات رشیدیہ گیا، ایڈوکیٹ جاویداقبال،مولانا خالد حسین نیموی بیگو سرائے،جناب عارف اقبال،مولانا گوہر قاسمی، مولانا مفتی نوشاد قاسمی چمپارن،جناب فیروز صدیقی دہلی، جناب نجم الحسن نجمی چیئرمین نجم فاؤنڈیشن پھلواری شریف، مولانا مسرورعالم قاسمی مدرسہ ایجوکیشن بورڈ،مولانا رحمت اللہ ندوی سمستی پور،مولانا سید محمد عادل فریدی سکریٹری ابو الکلام ریسرچ فاؤنڈیشن پٹنہ، مولانا سجاد ندوی وغیرہ کے نام شامل ہیں۔سیمینار کی حتمی تاریخ کا اعلان اگلی نشست کے بعد کیا جائے گا۔جب کہ تیاریوں کے سلسلہ میں خبریں وقتافوقتا دی جاتی رہیں گی ۔

*سمینار کے سلسلہ میں رابطہ کا نمر یہ ہے۔*
6201652058 E-mail nizamuddinfoundation2018@gmail.com

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...