Powered By Blogger

ہفتہ, دسمبر 02, 2023

مجاہد آزادی -شفیع داؤودی

مجاہد آزادی -شفیع داؤودی
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ 

اوسط قد، گورا رنگ، گورا بدن، اونچی پیشانی، گھنی داڑھی، سر پر جناح کیپ، خوش طبع، خوش مزاج مسکراہٹ بر لب یہ تھے مشہور مجاہد آزادی جو اپنے عالمانہ وضع قطع، مولو یا نہ رکھ رکھاؤ کی وجہ سے عوام و خواص میں مولانا محمد شفیع داؤدی اور حسن نظامی کی نظر میں ”مولا نا ہنس مکھ“ تھے شفیع واؤ دی 27 اکتوبر 1875ء مطابق 26 رمضان 1219 (کار تک 1383 فصلی بروز بدھ ویشالی ضلع (سابق مظفر پور) کے داؤ دنگر میں محمد حسن کے گھر پیدا ہوئے، بارہ سال کی عمر میں والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا جس نے انہیں حساس بنا دیا، میٹرک چھپرہ ضلع اسکول سے کرنے کے بعد، بی، اے، بی ایل تک اپنی تعلیم جاری رکھی، لیکن ٹیوشن پڑھا کر، لیمپ پوسٹ کی دھندھلی روشنی میں پڑھ کر اور سخت مالی دشواریوں کا سامنا کر کے آگے بڑھتے رہے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے اندر مفلسوں کے لیے جذبۂ ہمدردی اور جبرو استحصال کے خلاف نبرد آزما ہونے کا حوصلہ پیدا ہو گیا تعلیم کے بعد وکالت کی طرف متوجہ ہوئے، مظفر پور میں پریکٹس اچھی چل رہی تھی کہ تحریک ترک موالات چھڑ گئی، مولانا شفیع داؤدی نے وکالت چھوڑ کر تحریک ترک موالات میں حصہ لینا شروع کیا،27ستمبر1912ء میں ایک سال بکسر جیل میں قید و بند کی صعوبتیں جھیلیں، جیل سے رہا ہونے کے بعد جون 1920ء میں وہ مظفر پور کانگریس کمیٹی کے پہلے صدر منتخب ہوئے اور 1927ء تک اس عہدہ پر فائز رہے، 7/ دسمبر 1920ء کو مہاتما گاندھی علی برادران کے ساتھ مظفر پور آئے اور مولانا داؤدی کے مکان پر ٹھہرے، اس وقت سے ان کا گھر جنگ آزادی کا مرکز ہو گیا، مولانا داؤدی ضلع کانگریس کے روح رواں بن گئے اور انہوں نے اپنی قیمتی زمین کا نگریس کے دفتر کے لیے پارٹی کو دے دی، گاندھی جی نے جب بدیسی کپڑوں کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا، اور بون فائر، Bon Fire کا سلسلہ شروع ہوا تو مولانا اپنی بیوی بچوں کے ساتھ گھر گھر سے بدیسی کپڑے لا کر نذر آتش کرنے میں لگ گئے۔ اکتوبر 1921ء میں آرہ میں بہار کانگریس کے میٹنگ کی صدارت کی اور پرنس آف ویلز کے ہندوستان آمد پر بائیکاٹ کا فیصلہ لیا، اسی سال وہ صوبائی کانگریس کے نائب صدر منتخب ہوئے، 30 ا کتوبر کو جنگ آزادی کے مرکز ہونے کی وجہ سے ان کے گھر پر چھاپا مارا گیا مسلسل 12 گھنٹے تلاشی کا کام جاری رہا، جس میں پولیس کو جنگ آزادی سے متعلق بہت سارے خطوط، سائیکلو اسٹائل مشین وغیرہ ملے، چنانچہ انہیں قید کر کے ہزاری باغ جیل بھیج دیا گیا، 1922ء میں وہ رہا کئے گئے اور کانگریس کے گیا اجلاس میں شریک ہوئے، کلکتہ کے اجلاس کو کامیاب کرنے میں بھی انہوں نے گاندھی جی کے دوش بدوش کام کیا1931ء میں دوسری گول میز کا نفرنس میں مولانا داؤدی نے گاندھی جی کے ساتھ شرکت کی، یہیں علامہ اقبال سے مولانا کی ملاقات ہوئی، جس کے نتیجے میں آل انڈیا مسلم کا نفرنس کا وجود ہوا اور جنرل سکریٹری کی حیثیت سے آپ نے اس کی قیادت سنبھالی 1935 کے قانون کی رو سے 1937ء میں جدا گانہ انتخاب کے اصول پر بہار میں انتخابات ہوئے تو مولانا داؤدی ابوالمحاسن مولانا محمد سجاد کی پارٹی کے امیدوار بدر الحسن وکیل سے انتخاب ہار گئے، جس سے ان کی طبیعت بجھ سی گئی 1924ء سے1934ء تک وہ سنٹرل لجسلیٹو اسمبلی دہلی کے ممبر رہے، 25 جنوری 1949ء کو رام باغ میں انتقال کیا۔
ہند و مسلم اختلاف اور ذات پات کی لعنت کے ہندوستانی سیاست میں داخل ہونے کی وجہ سے مولانا شفیع داؤدی نے آزادی کے قبل ہی اپنے کو سر گرم سیاست سے الگ کر لیا، ان پر مذہبی رنگ پورے طور پر چھا گیا، حسنین سید کی ملاقات سے وہ جماعت اسلامی کے قریب ہوئے اور اپنی زندگی کے آخری ایام تک سماج کی خدمت جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے کرتے رہے۔
مجاہدین آزادی میں وہ ڈاکٹر راجندر پرشاد اور مولانا مظہر الحق کے ساتھ صف اول کے لیڈر تھے ان میں قربانی کا جذبہ تھا، اور نام و نمود سے وہ دور بھاگتے تھے، اسی لیے 1920ء سے1947ء تک سرگرم رہنے والے اس مجاہد کو لوگوں نے بھلا دیا، جب کہ کے۔ کے۔ دتا نے اپنی کتاب ”بہار کی جنگ آزادی کی داستان“ کی پہلی جلد میں، انگریز مورخ ڈیوڈ، بیچ نے ”انڈین مسلم اینڈ دی ایمپاریل سسٹم اور کنٹرول“ میں انہیں ملک گیر حیثیت کا لیڈر تسلیم کیا ہے۔ ڈکشنری آف نیشنل لیڈرس میں بھی مولانا کا ذکر موجود ہے۔ جاوید اقبال نے ”زندہ رود“ میں بھی انہیں اچھے الفاظ میں یاد کیا ہے، لندن کی برٹش میوزیم لائبریری، کلکتہ کی رشل لائبریری اور دہلی کی نیشنل آرکائیوز میں مولانا سے متعلق تفصیلی مواد موجود ہے۔

جمعرات, نومبر 30, 2023

جھوٹی خبریں مفاسد و نقصانات

جھوٹی خبریں مفاسد و نقصانات
مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ
Urduduniyanews72@gmail.com 
معاشرہ اور سماج کو جن چیزوں سے بڑا نقصان پہونچتا رہا ہے ان میں ایک جھوٹی خبریں بنانا، اس کی تشہیر کرنا اور اس طرح پھیلا نا کہ وہ افواہ کا رخ اختیار کرلے، بھی ہے، اس سے سماج کو سخت نقصان پہونچتا ہے، اسی لیے شریعت نے اس پر زور دیا ہے کہ اگر تمہارے پاس کوئی شریر آدمی ایسی خبر لائے (جس میں کسی کی شکایت ہو) تو (بدون تحقیق کے اس پر عمل نہ کیا کرو،بلکہ اگر عمل کرنا مفقود ہو تو) خوب تحقیق کر لیا کرو، کبھی کسی قوم کو نادانی سے کوئی ضرر نہ پہونچا دو، پھر اپنے کیے پر پچھتانا پڑے۔ (سورۃ الحجرات: ۶، ترجمہ حضرت تھانوی)
اس آیت پر گفتگو کرتے ہوئے امام ابو بکر جصاص ؒ نے احکام القرآن میں لکھا ہے کہ کسی فاسق کی خبر کو قبول کرنا اور اس پر عمل در آمد اس وقت تک جائز نہیں ہے، جب تک کہ دوسرے ذرائع سے اس خبر کے صحیح اور سچی ہونے کی تصدیق نہ ہوجائے، اسی سلسلے میں آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی مشہور حدیث ہے کہ کسی آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنی بات کافی ہے کہ وہ جوکچھ سنے دوسرے سے بیان کردے۔ (رواہ المسلم فی المقدمہ) اور جھوٹو ں پر اللہ کی لعنت قرآن کریم میں مذکور ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ جھوٹ گناہوں کی طرف لے جاتا ہے اور گناہ جہنم کی طرف لے جاتا ہے۔ (متفق علیہ) یہ معاملہ اس قدر جھوٹ بولنا، جھوٹی گواہی دینا سب اس میں شامل ہے۔
غیر تو غیر مسلمان بھی ان احکام وہدایات پر آج عمل پیرا نہیں ہے، اسے جھوٹی خبریں پھیلانے میں مزہ آتا ہے، اس کی وجہ سے وہ خود تو لعنت میں مبتلا ہوتا ہی ہے، سماج اور معاشرے پر بھی اس کے انتہائی مضر اثرات پڑتے ہیں اور بسا اوقات یہ جھوٹی خبریں اور افواہ بڑے فتنہ، فساد، قتل اور غارت گری کا ذریعہ بن جاتا ہے، سوشل میڈیا کے اس دور میں جھوٹی خبریں آگ کی طرح پھیلتی ہیں اور بہت کچھ خاکستر کر دیتی ہیں، اسی لیے اب جہاں کہیں فتنہ وفساد ہوتا ہے پہلے مرحلہ میں حکومت نیٹ بند کر تی ہے، تاکہ غلط خبریں اور افواہ آگ پر گھی ڈالنے کا کام نہ کرے، حالاں کہ اس کا نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ صحیح خبریں لوگوں تک نہیں پہونچ پاتی ہیں، یہ عمل اس قدر مضر اور نقصان دہ ہے کہ اللہ رب العزت نے سورۃ الاحزاب آیت 60۔61میں فرمایا کہ ”اگر منافقین اور جن کے دلوں میں خرابی ہے اور وہ جو مدینہ میں ہیجان انگیز افواہیں پھیلانے والے ہیں اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو ہم ان کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے تمہیں اٹھ کھڑا کریں گے، پھر وہ اس شہر میں مشکل ہی سے ٹِک پائیں گے ان پر ہر طرف سے لعنت کی بوچھارہوگی۔“ جہاں کہیں ہوں گے پکڑے جائیں اور قتل کیے جائیں گے۔
مشہور یہ ہے کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے، وہ زیادہ دیر اور دور تک چل نہیں سکتا، لیکن ایک تازہ تحقیق کے نتیجے میں جو امریکہ کی مشہور یونیورسیٹی ایم آئی ٹی نے تیار کی ہے بتایا گیا ہے، جھوٹی خبریں اوراطلاعات سچ کے مقابل چھ گنا زیادہ رفتار سے پھیلتی ہیں۔ میسا چوسٹس انسٹی چیوٹ آف ٹکنالوجی (MIT)کی لیبارٹی برائے سوشل میشنز کے سر براہ ڈیپ رائے جواس تحقیق میں شامل تھے کا کہنا ہے کہ جھوٹ سچ کی بہ نسبت زیادہ تیزی سے پھیلتا ہے، سوا لاکھ سے زائد ایسے مضامین جو جھوٹ پر مشتمل تھے 2006سے 2016تک ٹوئٹ کیا گیا، صارفین نے اسے دوبارہ لاکھوں مرتبہ ٹوئٹ کر دیا، جب کہ سچائی اور حقیقت پر مبنی مضامین ومقالات کو پندرہ سو صارفین تک پہونچا نے میں ساٹھ گھنٹے لگے، جب کہ جھوٹی خبریں صرف دس گھنٹوں میں پندرہ سو صارفین تک پہونچ گئیں۔
 یہاں پر یہ سوال بہت اہم ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ جھوٹی خبروں کے پھیلنے کی رفتار تیز ہوجاتی ہے، اس کی وجہ  جھوٹی خبروں کے اندر پائی جانے والی سنسنی خیزی ہے، خلاف توقع واقعات کا مذکورہونا ہے، تجسس، سسپنس کی طرف انسانی فطرت جلد راغب ہوتی ہے اور وہ بلا سوچے سمجھے آج کے دور میں فارورڈ کی جاتی ہیں، جس کی وجہ سے جھوٹی خبریں تیز رفتار بن جاتی ہیں۔
 فرضی خبر کو من گڑھت، بناوٹی اور جھوٹی خبر بھی کہتے ہیں، اس کے لیے انگریزی میں Fake Newsکی اصطلاح مستعمل ہے، یہ پروپیگنڈہ اور زرد صحافت کے قبیل کی چیز ہے، جسے دانستہ غلط بیانی، مبالغہ آمیزی اور دروغ گوئی کے سہارے تیار کیا جاتا ہے۔ ان خبروں پر پابندی لگانے کی غرض سے مختلف ممالک میں قوانین موجود ہیں 2019میں سنگا پور میں جھوٹی خبریں پھیلانے والے کو دس سال کی سزا اور 738500ڈالرکا جرمانہ لگانے کا قانون بنا ہے، روس میں خصوصی طور سے یوکرین جنگ کے سلسلے میں جھوٹی خبریں پھیلانے والے کو دس سال کی سزا مقرر ہے اور اگر اس نے دانستہ ایسا کیا ہے تو سزا پندرہ سال تک کی ہو سکتی ہے، پاکستان میں جھوٹی خبریں پھیلانے پر پانچ سال کی سزا دی جاتی ہے اور گرفتاری غیر ضمانتی ہوا کرتی ہے۔ہندوستان میں مختلف دفعات کے تحت نقصانات کی بنیاد پر مقرر ہیں۔
 ایک اندازے کے مطابق دنیا میں جتنی من گھڑت خبریں شائع ہوتی ہیں، ان میں اٹھارہ فی صد حصہ داری ہندوستان کی ہے، بھاجپا کے دور حکومت میں اس میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے، یہاں حقیقت سے دور جملے پھینکے جاتے ہیں، وعدہ کیا جاتا ہے اور سیاسی پارٹیاں رائے دہندگان کو مخالف پارٹی سے دور اور اپنوں سے قریب کرنے کے لیے بھی اپنے آئی ٹی سیل سے جعلی خبروں کی ترسیل کرتی ہیں اور لوگوں میں بھرم پیدا کرنے کا کام کرتی ہیں، ہندوستان میں یہ عمل انتخاب کے موقع سے اور زیادہ ہوجاتا ہے ان دنوں کئی ریاستوں میں انتخابات ہیں، 2024میں عام انتخابات ہیں اس لیے جھوٹی خبریں بنانے والی کمپنیاں میدان میں آگئی ہیں، اور دھیرے دھیرے رفتار پکڑ رہی ہیں۔
اب ایسا بھی نہیں کہ سیاسی پارٹیوں کے علاوہ دوسرے لوگوں کی حصہ داری جھوٹی خبریں پھیلانے میں بالکل نہیں ہوتی، خوب ہوتی ہے، خاندان، ادارے، تنظیموں میں بھی اس کی خوب خوب کثرت ہوتی ہے، ایسا خاندان کو توڑنے، ادارے وتنظیموں کو کمزور کرنے کے لیے داخلی اور خارجی افراد کثرت سے کیا کرتے ہیں، تاکہ وہ ایک دوسرے کو نیچا دکھاسکیں اور اپنے لیے ترقی کے دروازے کھول سکیں، ابتدا میں لوگ اس بات پر زیادہ توجہ نہیں دیتے، لیکن اگر کسی خبر کو اس طرح پھیلا یا جائے کہ جھوٹی ہونے کے باوجود وہ تواتر تک پہونچ جائے تو کون اس پر اعتماد نہیں کرے گا، انگریزوں کا مشہور مقولہ ہے کہ جھوٹ کو اتنا پھیلاؤ اور اس قدر بولو کہ وہ سچ ثابت ہو جائے۔
 ہم لوگوں کے بچپن میں عورت کی ایک قسم ہوا کرتی تھی، جس کا کام ہی خاندان کو توڑنا، پڑوسی، پڑوسی میں دشمنی پیدا کرنا ہوتا تھا اسے ہم لوگ ”کُٹنی بُڑھیا“ کہا کرتے تھے، دو چار بار جب بُڑھیا اس کام میں کامیاب ہوجاتی تو اس کا چرچا ہوتا تھا اور دھیرے دھیرے لوگ یہ جان لیتے تھے کہ یہ سارا کیا دھرا اسی بڑھیا کا ہے، پھر جو ذلت ہوتی تھی، اس کا ذکر کرنا بے سود معلوم ہوتا ہے۔
 سوشل میڈیا اور نیٹ کے اس دور میں ”کُٹنی بُڑھیا“ کا وجود تو اب قصہئ پارینہ ہے، لیکن اس کی جگہ ”وھٹسپ اور سوشل یونیورسٹی“سے منسلک افراد نے لے لی ہے، وہ جھوٹی خبریں گڑھتے ہیں اورپورے اعتماد کے ساتھ سوشل میڈیا پر ڈال دیتے ہیں اور احباب بغیر سوچے سمجھے اور بغیر تحقیق کے اسے آگے بڑھاتے رہتے ہیں، اور صورت حال یہ ہو گئی ہے کہ کان اپنی جگہ سلامت ہے اسے کوئی دیکھنے کی زحمت نہیں کرتا، البتہ”کوا کان لے گیا“ کا پرچار ہوتا رہتا ہے اور بات کہاں سے کہاں پہونچ جاتی ہے۔ان جھوٹی خبریں پھیلانے والوں کا مبلغ علم بھی زیادہ تر موبائل سے کچھ لکھنے تک محدود ہوتا ہے، ان کے املے، جملے اسلوب، طرز تخاطب دیکھ کر سر پیٹ لینے کو جی چاہتا ہے، یہ جھوٹی خبریں بغیر تحقیق اور بلا سوچے سمجھے فارورڈ کی جاتی ہیں، اتنے ہی پر بس نہیں ہوتا بلکہ بہت سارے لوگ ان خبروں کو بعینہ نقل کرنے کے بجائے اس میں کچھ نمک مرچ کا اضافہ اپنی طرف سے کرکے مزید سنسنی خیز بناتا چلا جاتا ہے، ایسے میں جب خبر آخری شخص تک پہونچتی ہے تو اس میں جھوٹ کا کئی گنا اضافہ ہوچکا ہوتا ہے، اب معاملہ جھوٹ میں مبالغہ کا ہو جاتا ہے اور مبالغہ بھی ایسا کہ الامان والحفیظ۔ اس لیے ہمیں جھوٹی خبروں پر تحقیق کی ذمہ داری ادا کرنی چاہیے تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم کوئی اقدام کر 
بیٹھیں اور بعد میں ہمیں شرمندگی کا منہہ دیکھنا پڑے، اللہ ہم سب کو محفوظ رکھے۔

منگل, نومبر 28, 2023

اتر پردیش حکومت کی نئی چال

اتر پردیش حکومت کی نئی چال
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ

عرصہ سے عرب اور یورپین ممالک کے مسلمان غذائی اجناس واشیاء پر حلال سرٹیفکٹ اور حلال مارکہ دیکھ کر خریداری کیا کرتے ہیں، ہندوستان میں بھی یہاں کے صارفین کسی چیز کے استعمال سے قبل یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ وہ حلال ہے یا نہیں، ایسا مسلمان شرعی تقاضوں کی تکمیل کی غرض سے کرتے ہیں اور دوسرے صارفین کے ذہن میں یہ بات ملحوظ رہتی ہے کہ حلال سند یافتہ اشیاء یقینی طور پر دوسری مصنوعات سے پاکیزہ اور صفائی وستھرائی کے اعتار سے ممتاز ہوتے ہیں اور ان کے استعمال سے صحت پر بُرے اثرات کا امکان کم رہتاہے، اس طرح مصنوعات چاہے، مسلم کمپنی کی ہوں یا غیر مسلم کمپنی کے مصنوعات حلال سند یافتہ کا مارکیٹ دوسرے کی بہ نسبت ملک اور بیرون ملک  میں بڑھتا جا رہا تھا، با خبر ذرائع کے مطابق صرف اتر پردیش میں حلال سند یافتہ مصنوعات کی مارکیٹنگ تیس ہزار کروڑ روپے کی ہے، ہوٹلوں کی بات کریں تو یوپی میں حلال سرٹیفکٹ والے ہوٹل اور ریسٹیورینٹس کی تعداد چودہ سو ہے، آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن کے تحت سنتاون (57)مسلم ممالک میں مصنوعات کی فروختگی کے لیے حلال سرٹیفکٹ حاصل کرنا ضروری ہے، اسی لیے بابا رام دیو کی کمپنی ”پتنجلی“ کو بھی عرب ممالک میں اپنی آیورویدک دواؤں کی سپلائی کے لیے حلال سرٹیفکٹ لینا پڑا تھا۔
اتر پردیش کی یوگی حکومت نے حلال سند یافتہ اشیاء کو غیر قانونی قرار دے کر نفرت کا ایک اور بازار گرم کر دیا ہے اور تاثر یہ دیا جا رہا ہے کہ اس سے مسلم کمپنیوں اور حلال سند دینے والوں کا نقصان ہوگا اور ان کا روباریوں کے درمیان خصوصیت سے نفرت کی خلیج بڑھے گی جن کو حلال کی سند حاصل ہے اور جو اس سے الگ ہیں۔ اس کام کے لیے پہلے 17نومبر 2023کو موتی جھیل کالونی عیش باغ لکھنؤ کے رہنے والے شلیندر کمار شرما کو کھڑا کیا گیا اور حضرت گنج پولیس تھانے میں حلال سند جاری کرنے کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی گئی اور پولیس نے فوری طور پر اس پر دو مذہبی طبقات کے خلاف دشمنی کو فروغ دینے والی دفعہ153A، دھوکہ دہی کی دفعہ 420، جعلی دستاویز بنانے کی دفعہ 467، دھوکہ دہی کے لیے جعلی دستاویز کے استعمال کی دفعہ 471، غیر قانونی طور پر رقم وصولی کی دفعہ 384، مجرمانہ سازش کی دفعہ 120B، مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کی دفعہ298اور عوامی فساد بیانات کے ذریعہ پھیلانے کی دفعہ 505لگا کر اسے سنگین جرم بنا دیا، یہ ایف آئی آر جمعیت علماء ہند دہلی کی حلال ٹرسٹ، حلال کونسلنگ آف انڈیا، چننئی(مدراس) کی حلال انڈیا پرائیوٹ لمٹیڈ اور ممبئی مہاراشٹر کی جمعیت علماء کے ساتھ بعض نا معلوم افراد کو بھی شامل کیا گیاہے، جن کے بارے میں مدعی کی رائے ہے کہ وہ اس نام پر غلط طریقے سے رقم اُگاہی کا کام کرتے رہے ہیں۔
 ہمارے یہاں کی پولیس کا جو حال ہے وہ سب کو معلوم ہے کہ ایف آئی آر کس طرح برسوں سرد بستے میں پڑا رہتا ہے، لیکن جب کام حکومت کی منشاء پر ہو تو بلی تھیلے سے فورا باہر آجاتی ہے، اتنی عجلت کے باجود اتر پردیش حکومت نے عدالت کے فیصلے کا انتظار نہیں کیا، بلکہ وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے حکم پر فوڈ سیفٹی اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ کی ایڈیشنل چیف سکریٹری انشا سنگھ نے احکامات جاری کر کے تمام حلال سند یافتہ اشیاء کی تیاری، ذخیرہ اندوزی، خرید وفروخت پر پابندی لگادی ہے اور لکھنؤ کی دوکانوں پر چھاپہ ماری شروع ہو گئی ہے، خوردنی اشیاء کے ساتھ کاسمیٹک اور دوائیں بھی شامل ہیں، صرف ان مصنوعات کو علاحدہ رکھا گیا ہے جو حکومت دوسرے ملکوں کو بر آمد کرتی ہے۔
 ہندوستان میں 2008تک غذائی اجناس اور اس کے متعلقات کو قابو میں رکھنے کے لیے آٹھ الگ الگ قوانین تھے جو خوردونوش کی اشیاء کو کنٹرول کرتے تھے، ان قوانین کو منسوخ کرکے ان کی جگہ پر دو قانون بنائے گئے، ایک قانون کنسولٹیڈ فوڈ لاء اور دوسرا فوڈ سیفٹی اینڈ اسٹینڈ ر ڈرایکٹ2006کے نام سے جانا جاتا ہے،یہ فوڈ سیفٹی اینڈ اسٹینڈرڈ اتھارٹی آف انڈیا کے تحت کنٹرول کیا جاتا ہے، حکومت اتر پردیش نے فوڈ سیفٹی اینڈ اسٹینڈرڈز ایکٹ کے سیکشن 3(1) (A) ZF) (1)کے تحت یہ پابندیاں لگائی ہیں، حلال سرٹیفکٹ جاری کرنے والے اداروں پر سند فراہم کرنے کے نام پر خطیر رقم لینے اور ہر سال تجدید کے نام پر رقم اُگاہی کا بھی الزام ہے، ہو سکتا ہے کہ ہوائی کسی دشمن نے اڑائی ہوگی، حالاں کہ حلال سند فراہم کرنے کی توثیق مرکزی وزارت تجارت کے نوٹی فیکیشن 2022-23/25کے مطابق مرکزی حکومت کی نظر میں جائز ہے۔
 حلال سند فراہم کرنے والے اداروں نے اس فیصلے پر ضروری اقدامات کرنے کا اعلان کیا ہے،ہوسکتا ہے وہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں، لیکن جب تک فیصلہ آئے گا، ہندوستانی تجارت کو اس حوالہ سے غیر معمولی نقصان ہوگا، جو دوکاندار اسٹاک رکھے ہوئے تھے، ان میں سے کئی کی پونجی کے ڈوب جانے کا اندیشہ ہے، لیکن نفرت کی سیاست جو بھی کرادے، ہندوتوا کے اس دور میں تھوڑا ہے۔
یہاں ہمیں بہار اور یوپی حکومت کا فرق بھی سمجھ لینا چاہیے، بہار حکومت نے ”حرام“ پر پابندی لگائی ہے، آپ کو معلوم ہے کہ یہاں شراب بندی ہے، جب کہ یوپی میں ”حلال“ پر پابندی لگادی گئی ہے جو سماجی، اخلاقی اور قانونی طور پر غلط ہے، لیکن کیا کیجئے، جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے، پہلے گائے کا ذبیحہ،کھلی جگہ میں نماز کی پابندی لگائی گئی اور اب حلال کھانے سے بھی روکا جا رہا ہے، کہاں گئی جمہوریت کہاں گئے اس کے تقاضے، دستور میں دیے گیے بنیادی حقوق کی بالا دستی، سب کچھ دھیرے دھیرے ختم کیا رہا ہے اور ملک کو ایک ایسے اندھیرے میں لے جانے کی کوشش کی جا رہی ہے جس میں نہ تہذیبی اخلاق واقدار کا پاس ملحوظ رکھاجا رہا ہے اور نہ ہی دستور میں دیے گیے بنیادی حقوق کی رعایت کی جارہی ہے، یوگی من مانی کر رہا ہے اور مودی جی اس کی پشت پر مضبوطی سے کھڑے ہیں۔

پیر, نومبر 27, 2023

سرنگ میں پھنسی زندگی

سرنگ میں پھنسی زندگی
Urduduniyanews72 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ 
دور تک پہاڑوں کا سلسلہ پھیلا ہوا ہو تو ایک علاقہ سے دوسرے علاقہ اور دوسرے میں جانے کے لیے پہاڑ کے اندر سے سُرنگ بنائی جاتی ہے، یہ طریقہ ملک وبیرون ملک میں کثرت سے رائج ہے اس کی وجہ سے آمد ورفت میں سہولتیں بھی ہوتی ہیں اور پہاڑ کاٹ کر سڑک بنانے کے مشکل کام سے بھی بچنا ممکن ہوجاتاہے، ان آسانیوں کے ساتھ قدرت کی نوازشات سے چھیڑ چھاڑ کے بھیانک نتائج بھی سامنے آتے ہیں اور کبھی کبھی جان کے لالے پڑ جاتے ہیں، اتراکھنڈ میں ۲۱/ نومبر کی صبح ایسا ہی ایک واقعہ سلکیا را اترا کھنڈ میں پیش آیا، سرنگ کا ایک حصہ دھنس گیا اور اکتالیس مزدور اس میں پھنس کر رہ گیے، خوش قسمتی یہ رہی کہ تودے ان کے اوپر نہیں گرے، ورنہ سرنگ ہی ان کی قبربن جاتی، سرنگ کا جو حصۃ گرا وہ ساٹھ میٹر تھا، اور جہاں پر یہ مزدور کام کر رہے تھے وہ دو سو پچاس میٹر کی جگہ محفوظ رہ گئی، اور اللہ رب العزت نے ان کی زندگی کی حفاظت فرمائی اورظاہرا اس کی شکل یہ بنی کہ سرنگ کے اندر پانی دستیاب تھا اور بجلی بھی کام کر رہی تھی، پانی کی نالی سے خشک غذاؤں کے پہونچانے کا انتظام ہو سکا، فکر بچاؤ کی کی جانے لگی، ہندوستانی ہر مشین ناکام ہو گئی تو باہر سے مشین منگوائی گئیں، تب یہ ممکن ہو سکا کہ گیارہ دن بعد ان کی تصویریں سامنے آئیں اور انہیں گرم کھانا کھچڑی کی شکل میں فراہم کرایا جا سکا، اور فون کا تار بھی چھ انچ کے قطر سے گذار کر ان کے خاندان والوں سے بات کرادی گئی، خاندان والے قدرے مطمئن ہوئے، ہو سکتا ہے جس وقت یہ سطریں آپ تک پہونچیں گی مزدور باہر آچکے ہوں گے،لیکن گیارہ بارہ دن کی مدت جس لمبے، تنگ قبر نما سرنگ میں انہیں گذارنی پڑی  وہ کس قدر اذیت ناک، خوف ناک، ذہنی تناؤ اور سردی کے یخ بستہ موسم میں کس طرح گذرا ہوگا، اس کا تصور کرکے ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔
 اترا کھنڈ کے پہاڑوں کا سلسلہ وسیع ہے،ا ن میں بعضے قدیم ہیں اور بعضے ابھی تشکیلی دور سے گذر رہے ہیں، آخر الذکر کے چٹانوں میں وہ صلایت نہیں ہے جو دوسرے قدیم پہاڑی سلسلوں میں ہے، اس لیے جب یہاں پہاڑوں میں کھدائی ہوتی ہے تو وہ مسلسل ضرب اور سوراخ کرنے والے آلات اور دھماکہ دار اشیاء کو برداشت نہیں کر پاتے، ان حالات میں کبھی زمین دھنس جاتی ہے اور کبھی تودے اوپر سے نیچے گر کر مصیبتیں کھڑی کر دیتے ہیں، ایسے میں تھوڑی سی انسانی غلطی سے بڑے حادثات وقوع پذیر ہوجاتے ہیں، اس لیے سروے کنندگان کو اس کا خیال رکھنا ضروری تھا کہ پہاڑ کا یہ حصۃ تشکیلی دور سے گذر رہا ہے اس لیے وہ سرنگ کے کام کو بر داشت نہیں کر سکے گا،خصوصا اس صورت میں جب کہ ابھی جنوری میں ہی اتراکھنڈ کے جوشی مٹھ میں دڑاڑیں غیر معمولی کوہ کنی کی وجہ سے ہی پیدا ہوئی تھیں اور بہت سارے لوگ علاقہ سے نقل مکانی پر مجبور ہو گیے تھے، ایسے میں سخت احتیاط کی ضرورتھی۔
ہم بار بار اس بات کو لکھتے رہے ہیں کہ زمین کا سارا فساد ونگاڑ چاہے فضائی آلودگی ہو یا بالائی سطح پر گلیشیر کے پگھلنے سے دریاؤں کی سطح آب میں اضافہ یا معاملہ،موسمیاتی تبدیلی کا ہو یہ سب کچھ آرام وآسائش کے نام پر قدرتی وسائل کے تباہ کرنے کی وجہ سے ہے، اگرہم اب بھی نہ جاگے تو……

اتوار, نومبر 26, 2023

مشہور ولی اللٰہی فکر عالم دین حضرت مولانا نور الحسن راشد کاندھلوی کی


مشہور ولی اللٰہی فکر عالم دین حضرت مولانا نور الحسن راشد کاندھلوی کی
Urduduniyanews72 
شاہ ولی اللہ انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی کے دفترکاکا نگر میں آمد
۲۵نومبر ۲۰۲۳ء نئی دہلی،میری معلومات کے مطابق حضرت امام شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کی شخصیت اور انکی تحقیقی و تصنیفی خدمات پر ابتدا سےاب تک جماعتی حیثیت سے نہیں بلکہ انفرادی حیثیت سے زیادہ معتبر و مستند کام ہوتا رہا ہے ،انہوں نے اس سلسلہ میں مختلف اکابر امت کی جانب سے کیے گئےولی اللٰہی اشاعتی کاموں کاذکر کیااورفرمایا کہ شاہ ولی اللہ انسٹی ٹیوٹ کی تحقیقاتی و اشاعتی کاموں کو دیکھ کر مجھے خوشی ہوتی ہے،اللہ تعالی شاہ ولی اللہ انسٹی ٹیوٹ کے جملہ علمی و تحقیقی اور تعمیری منصوبوں و پروجیکٹوں کو پایہء تکمیل تک پہنچائے،ان خیالات کا اظہار مشہور ولی اللٰہی فکر عالم دین حضرت مولانا نور الحسن راشد کاندھلوی صاحب نے شاہ ولی اللہ انسٹی ٹیوٹ کے دفتر واقع کاکا نگر نئی دہلی میں کیا ہے ۔ایک ڈیڑھ گھنٹے تک حضرت مولانا نور الحسن راشد کاندھلوی اورمولانا مفتی عطاء الرحمٰن قاسمی نے شاہ ولی للہ محدث دہلوی کے تجدیدی افکار و نظریات اور ان کے فطری رجحانات و میلانات پر باہم تبادلہ خیال کیا۔
حضرت مولانا کاندھلوی نے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ کی تصنیفات و تالیفات کی تاریخ تصنیف بالخصوص انفاس العارفین کی تصنیف پر فاضلانہ و عالمانہ گفتگوکی اورفرمایا کہ یہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ کی بالکل ابتدائی تصنیف ہےجس میں ان کے باکمال بزرگوں کے اقوال و حالات درج ہیںلیکن اس میں حضرت شاہ صاحب کی کوئی ذاتی رائے شامل نہیں ہے اور ان کا وصیت نامہ بھی ان کے سفر حجاز سے قبل کا مرتب کردہ وصیت نامہ ہے جو خالص عقیدہ توحید اور اسلامی تعلیمات پر مشتمل ہےاوررسوم و بدعات کے سراسرخلاف ہے۔وہی اصلاً ان کے اساسی و بنیادی فکر و فلسفہ کا محور و مرکز ہے۔
آخر میں شاہ ولی اللہ انسٹی ٹیوٹ کے چیئر مین مولانا مفتی عطاء الرحمٰن قاسمی نے حضرت مولانا نور الحسن راشد کاندھلوی کی خدمت میںشاہ ولی اللہ انسٹی ٹیوٹ کی نئی مطبوعات پیش کیں اور شاہ ولی اللہ انسٹی ٹیوٹ کے زیر غور علمی و تعمیری منصوبوں کی تکمیل کے لیے دعا کی درخواست کی اور حضرت مولانا نے پرسوز دعا فرمائی اوراس وفد میںپروفیسر فیضان عارش جامعہ ملیہ اسلامیہ،جناب سیف علوی خدائی خدمت گار اورمولانا محمد ارشد وغیرہ تھے۔

فوٹو: دائیں سے سیف علوی ، مولانا مفتی عطاء الرحمن قاسمی، مولانا نورالحسن راشد کاندھلوی، پروفیسر فیضان عارش اور مولوی محمد ارشد

جارہ کردہ
شاہ ولی اللہ انسٹی ٹیوٹ 

تسمیہ جونیئر ہائی اسکول میں میڈیکل سروس سوسائٹی

تسمیہ جونیئر ہائی اسکول میں میڈیکل سروس سوسائٹی اور الشفاء ملٹی اسپینٹی ہاسپٹل نئی دلی کے تعاون سے بچوں کا مفت ہیلتھ چیک اپ کیمپ کا انعقاد
Urduduniyanews72 
۲۶ نومبر ۲۰۲۳ ہیلتھ چیکپ آرگنا ئز آرتھو پیڈک سرجن ڈاکٹر ایم فاروق ( سابق ایچ او ڈی ایمس ، نئی دہلی ) کے مطابق جسمانی نشونما لمبائی یا اونچائی اور وزن اور جسم کے اعضاء کی بڑھوتری سے ہے ڈاکٹر کے مطابق بچے اپنی عمر کے اور بچوں سے الگ تندرست بچوں کے موازنہ میں کیسے بڑھ رہے ہیں اور بچوں کے قد کے موازنہ میں وزن بڑھنے کو مانیٹر کرتے ہیں۔ پیدائش سے لے کر دو سال کی عمر تک ڈاکٹر ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن دنیا کی صحت تنظیم کاری کو ماپنے کا اضافی چارٹ کا استعمال کر کے سب ہی اضافی پیرا میٹر کی ایک چارٹ میں رکارڈ کرتے ہے۔ دو سال کی عمر کے بعد ڈاکٹر بیماری کنٹرول اور روک تھام مرکز کا ترقی چارٹ کا استعمال کر کے کمیوں کو قلم بند کرتے ہیں۔

بچوں کی جسمانی ، ذہنی اور جذباتی صلاحتیں زیادہ نشونما پاتی ہیں۔ تسمیہ جونئیر ہائی اسکول میں ایشفا پلٹی اسپیشلٹی ہاسپٹل نے میڈیکل سروس سوسائٹی کے تعاون سے تسمیہ جوئیر ہائی اسکول میں مفت ہیلتھ چیک اپ کیمپ لگایا گیا۔ اس موقع پر اسکول کے صدر ڈاکٹر سید فاروق (صدر تسمیہ آل انڈیا ایجوکیشنل اینڈ سوشل ویلفیئر سوسائٹی نئی دہلی ) نے اپنے سو فیصد تعاون کرتے ہوئے میڈیکل ٹیم ڈاکٹر ایم فاروق ہڈیوں کے امراض کے ماہرین) ڈاکٹر ایم عبد الستار ( میڈیکل سپرنٹنڈنٹ الشفاء ہاسپٹل نئی دہلی) ڈاکٹر متین پرویز سینٹر بچوں کے اسپٹلسٹ ، ڈاکٹر عابد کریم بچوں کے اسپیشٹ ، ڈاکٹر صادقہ سہیل عورتوں کے امراض کی ماہرین، ڈاکٹر فاطمہ ایم دھانچی عورتوں کے امراض کے ماہرین، ڈاکٹر فراز السلام طبیب دانت کے ڈاکٹر محمد حارث، ڈاکٹر بھوا مقتل بین اومیش بھائی ( دانت کے ڈاکٹر ) کا استقبال

پھولوں کا گلدستہ اور یادگار نشان پیش کر کے کیا اس کے بعد ڈاکٹروں کی ٹیم نے بچوں کی پرکھ کی اور بچوں سے متعلق جان کاری مشترکہ کی ۔ خصوصی مہمان ڈاکٹر عبدالستار نے بتایا اسے ۱۳ سال کی عمر کے بیچ کی جسمانی، ذہنی، جذباتی صلاحیتوں میں زیادہ ترقی ہوتی ہے۔ بچوں کی اضافہ لڑکھڑانے سے لے کر دوڑنے کودنے اور جمع ہو کر کھیل کھیلنے میں آگے بڑھتا ہے یہ ترقی الگ الگ بچوں میں کافی الگ الگ ہوتی ہے ڈاکٹر متین پرویز نے کہا بچوں کی بڑھوتری کے لئے صحیح غذا لینی ضروری ہے انھوں نے بچوں کو اچھی غذا دینے کے لئے حوصلہ افزائی کی۔ ڈاکٹر عابد کریم دینی محرک کی کمی اضافہ کو ہلکا کر سکتی ہے ساتھ ہی بہرا پن اور زبانی اضافہ کو کم کرتی ہے۔ ڈاکٹر صادقہ سہیل نے بتایا کہ بچوں کو محفوظ اور تندرست محسوس کرنا چاہیے ان کی زندگی اور رہنے کی بنیادی ضرورتیں پوری ہونی چاہئیے ۔ کھانا، کپڑے اور تندرستی کی دیکھ بھال اور کسی نقصان سے حفاظت وغیرہ ۔ ڈاکٹر فاطمہ ایم دنچی نے انفکشن سے روک تھام کے لئے صفائی پر دھیان دینے پر زورد یا ڈاکٹر فراز السلام نے بچوں کی آنکھوں کی صحت مند رہنے کے لئے وٹامن آنے کے بارے میں جانکاری دے۔ ڈاکٹر بھوا متیل بین اومیش بھائی نے بچوں کو دانتوں سے متعلق صفائی و پریشانیوں کے بارے میں جانکاری دی۔ ڈاکٹر محمد حارث نے دانتوں کے امراض کے بارے میں اور صفائی کے بارے میں تفصیل سے بتایا ڈاکٹر سید فاروق نے والدین کو صفائی کی عادت کے بارے میں اور اچھا کھانا بچوں کو مہیا کرانے پر زور دیا۔ اسکول کے مینیجر سید اعجاز احمد نے پروگرام کی صحیح طریقہ سے چلانے اور کامیاب بنانے میں اپنا تعاون پیش کیا اسکول کے پرنسپل جناب جاوید مظہر نے
 سب کا شکر یہ ادا کیا۔

ہفتہ, نومبر 25, 2023

اک پھول سے آجاتی ہے ویرانےرونقہلکاساتبسٌم بھی مری جان بہت ہے

***** کچھ تبسٌم ز یرِ لب(17)*****
Urduduniyanews72 
                     * انس مسرورانصاری

                        * بس میں بے بسی*


اک پھول سے آجاتی ہے ویرانےرونق
ہلکاساتبسٌم بھی مری جان بہت ہے

    بس میں بے بسی وہی جانے جس نے ہماری طرح بس میں بے بسی کودیکھااورجھیلاہو۔ریلوے اسٹیشن کی بھیڑبھاڑسےہمیں بڑی الرجی ہے۔لگتا ہے جیسے قیامت سے پہلے قیامت کےمیدان میں انٹری ہوگئی ہو۔ہرطرف بھاگم بھاگ۔دوڑدھوپ۔ دھکم پیل۔کولھوسےکولھوکا چھلنا۔سینےسےسینہ کاچسپاں ہونا۔ایک جیب کا مال دوسرے کی جیب میں پہنچنا۔اورکبھی کبھی کسی خاتون کاچانٹاکسی شریف نوجوان کے گال پر پڑنا۔۔۔وغیرہ،وغیرہ۔خدا کی پناہ۔۔۔۔۔۔اس لیے ریل گاڑی کے بجائےبس میں سفر ہمیں بہت مرغوب ہے۔لیکن بس کا وہ سفرہرگزنھیں جس کی داستانِ دل خراش وجگرخروش کاسناناہمیں مطلوب ہے۔
        بڑی اورچھوٹی گاڑیوں کےڈرائیوروں اورکنڈکٹر وں میں جویک جہتی ویکتائی اور بھائی چارہ ہےاس کی مثال کو ہم تلاش کرنےنکلےتوسخت مایوسی اورپشیمانی ہوئی کہ وہ بے مثال ہے۔
       ہماری بس آگےہی آگے بھاگتی جارہی تھی اور منزل قریب تھی۔ یعنی۔۔دوچارہاتھ جب کہ لبِ بام رہ گیا،، سامنےسےآنےوالی بس نے ہمارےبس ڈرائیورکواشارہ کیا۔دونوں بسیں پہلوبہ پہلوکھڑی ہوگئیں۔پتاچلاکہ آگے آر،ٹی،یو،نےروڈکوبلاک کررکھاہے۔گاڑیوں کی چیکنگ ہورہی ہے۔شایدآر،ٹی،یوکی بیوی نےپھرکوئی نئی فرمائش کردی ہوگی۔ ہماری بس کا ڈرائیور بہت چالاک تھا۔اور ڈرئیور تو چالاک ہوتے ہی ہیں۔چنانچہ اس نے کچھ دورجاکر۔۔بائی پاس،کی طرف گاڑی کوموڑدیا۔چیکنگ افسرکی دلی آرزوکوتوڑدیا۔بائی پاس صرف سرجری ہی نھیں ہوتی بلکہ بائی پاس بہت کچھ ہوتاہے۔مثلاً ہمارا یہ بائی پاس سفر۔۔!بائی پاس سفرکی ایک خاص بات یہ بھی ہےکہ وہ کبھی کبھی جہنٌم کے دہانےتک پہنچادیتاہے۔
     کہتےہیں کہ ہماراملک ہندوستان گاؤں میں بستاہے۔ہمارا بائی پاس بھی گاؤں سےہوکرگزرتاتھا۔ہم نے سوچا کہ چلوآج اصل ہندوستان کو دیکھتے ہیں۔ ہماری بس تھوڑی دور چلی ہوگی کہ محسوس ہواکہ ہم جہنٌم کے راستےپرسفرکررہےہیں۔ سڑکیں کیاتھیں، محبوب کی الجھی ہوئی خم دار زلفِ گرہ گیرتھیں۔ بس کبھی دائیں کروٹ لینا چاہتی کبھی بائیں کروٹ۔نتیجے میں بس کےاندرسواریوں کی حالت دگرگوں تھی۔ایک بار بس اپنےبائیں پہلو پراس طرح جھکی کہ دوسری طرف کی سواریاں ہمای طرف لڑھک آئیں اور وہ مثل صادق ہوئی کہ۔۔من توشدم تومن شدی من تن شدم توجاں شدی،،بس کےاندر مختلف آوازیں گونجنے لگیں۔ 
              ۔۔ارے!ارے،خدا کی پناہ!بھیاجی،ذرا آہستہ چلاؤ۔مانا کہ یہ کوئی ٹٹوتوہےنھیں،بس ہے۔لیکن بس چلارہےہوکہ راکٹ۔خدارا ذرا عقل سے بھی تھوڑاکام لےلیاکرو۔علامہ اقبال نے یہ تو نھیں کہا تھا کہ ہمیشہ عقل کو بے لگام گھوڑی کی طرح کھولےرکھو۔انھوں نے تودوٹوک لفظوں میں صاف ہی صاف کہاتھا۔! 
            ہرچند سا تھ سا تھ ر ہے پا سبانِ  عقل 
         لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑدے
     پتانھیں اقبال نے پاسبان کوچھوڑنےکےلیےکہاتھایا عقل کو۔؟لیکن آپ ڈرائیور حضرات ہیں کہ دونوں کو گھاس چرنے کےلیےبالکل ہی کھلےچھوڑرکھاہے۔للٌہ ذرا عقل کے ناخن ہی لےلومیاں۔کیوں ننھی منی جانوں کے پیچھے ہاتھ دھوکرپڑگئےہو۔؟اگرآپ لوگوں کو اپنی جان کی پرواہ نھیں ہےتونہ سہی مگرخداکےواسطےدوسروں کی جان ہی کا خیال کرو۔شاید دوسروں کو اپنی جان عزیز ہو۔؟اف،خدایا،توبہ توبہ۔یہ بریک لگارہےہویاآسمان سےدھکٌےدےرہےہو۔؟ﷲ رحم کرے۔توبہ،استغفرﷲ۔ارے باباہم توپہلےہی سنگل پسلی کےہیں۔کیااسےبھی توڑدو گے۔کیوں ہماری ہڈیوں کا سرمہ بنانےپرتلےہو۔؟سرمےہی کاشوق ہےتوہزارپتےہم سےلو۔ہرطرح کےسرمےکانام بھی لکھوالو۔بریلی کےبازارکاجھمکاہی نھیں،وہاں کا سرمہ بھی تو بہت مشہور ہے،، 
          ۔۔اف،آہ،یاﷲتوبہ۔استغفرﷲ۔۔استغفرﷲ۔الہٰی خیر۔۔۔۔خداراخداراکچھ تورحم کھاؤ۔ابھی ہماراارادہ کچھ سال اورجینےکاہے۔ابھی ہم نے بہاریں ہی کتنی دیکھی ہیں۔کل ملاکر صرف باسٹھ سال۔!ابھی تو بہت کچھ دیکھناباقی ہے،، 
       ۔۔ ارےارےبھیاجی!بس کوروک لو۔ہمیں اترناہے۔باقاعدہ اترتولینےدو۔ابھی ایک پاؤں زمین پرسیدھےرکھا نھیں ہے۔دوسراپاؤں بس کےاندر ہی ہےکہ آپ حضرات بس چلادیتےہیں۔بنادیکھےبھالےکہ بس سےکون کامیابی کے ساتھ فاتح بن کراترسکاہےاورکون بس کےنیچےآکر عدم آبادبلاٹکٹ ہی چلاگیا۔مگر کون کہاں جاتاہے،آپ کی بلاسے۔کوئی جئے،کوئی مرے،بھلا آپ کوکیافکر۔!بس میں ایسی بےبسی۔ﷲ کی پناہ۔کسی مسافرکوخبرنھیں کہ آمدہ ساعت فنا کی ہےیابقاکی!،، 
     ۔۔ ارےﷲکےبندے!بس کوپوری طرح روک تولو۔مجھے اترناہےبھائی۔سنگل پسلی کامسافرہوں۔مگران باتوں سے بھلا آپ کوکیاغرض۔؟خیر خیر۔۔۔ خدا آپ لوگوں کو نیکی کی ہدایت اور توفیق عطا فرمائے۔آمین۔۔ثمٌہ آمین۔۔،، 
         بس کےاندرکی افراتفری کایہ سلسلہ قریب ایک گھنٹہ تک جاری رہا۔کئ مسافروں کی پتلون گیلی ہوئی۔ کئی سرایک دوسرےسےباربارٹکرائے۔کئی بارمسافرایک دوسرے کی آغوش میں آئے۔کئی بار ہم مسافرانِ بس ایک دوسرےسےبغلگیرہوئےمگر کسی نےبرانھیں مانا۔جب بس پچ روڈ(پکی سڑک)پرآئی تب مسافروں کی جان میں جان آئی۔*****
                          *انس مسرورانصاری
              قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن (انڈیا) 
                            /9453347784/

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...