Powered By Blogger

ہفتہ, دسمبر 23, 2023

دفعہ 370 اور 35(A)کا خاتمہ

دفعہ 370 اور 35(A)کا خاتمہ
Urduduniyanews72 
مولانا مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلوار ی شریف، پٹنہ 
===========================================
پانچ اگست 2019کو مرکزی حکومت نے کشمیر میں صدر راج کے دوران دفعہ 370اور 35Aہٹانے کا فیصلہ کیا تھا، لداخ اور جموں کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کرکے اسے مرکز کے زیر انتظام کردیا تھا، اس سے وہاں کی عوام میں بے چینی تھی اور اس دفعہ کو رد کرنے کی قانونی حیثیت کو سماج کے مختلف طبقات نے چیلنج کیا تھا، مرکزی حکومت کے اس فیصلے کے خلاف 23درخواستیں عدالت میں د اخل کی گئی تھیں، سپریم کورٹ کی پانچ رکنی بینچ نے جس میں چیف جسٹس ڈی وائی چندر جوڑ، جسٹس سنجے کشن کنول، جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس سنجئے کھنہ شامل تھے،نے اگست 2023سے عرضیوں پر سماعت شروع کئے، سولہ(16)دن میں سماعت مکمل ہوگیا اورعدالت نے 5؍ستمبر 2023کو فیصلہ محفوظ رکھا تھا، 11؍ دسمبر کو عدالت عظمی نے اپنا فیصلہ سنایا اور مرکزی حکومت کے ذریعہ اس کے رد کرنے کو قانونی طور پر درست قرار دیا، اور ریاست کو تقسیم کرکے مرکز کے تحت قرار دینے والے فیصلہ کو بھی صحیح تسلیم کیا، عدالت کے جج صاحبان کا رجحان یہ رہا کہ دفعہ 370اس وقت کے اعتبار سے عارضی انتظام تھا، ریاست کشمیر کے ہندوستان سے انضمام کے بعد اس کی داخلی خود مختاری ختم ہو گئی اور جس طرح دوسری ریاستوں پر ہندوستان کا دستور نافذ ہوتا ہے ویسے ہی وہاں بھی ہوگا، اس طرح جموں کشمیر ریاست کو جو خصوصی درجہ حاصل تھا وہ ختم ہو گیا، ظاہر ہے اس فیصلے پر کشمیری قائدین کی طرف سے منفی تبصرے آنے تھے وہ آئے اور آ رہے ہیں، سب سے سخت لہجہ محبوبہ مفتی کا ہے، جنہوں نے کشمیر میں بھاجپا کی شراکت کے ساتھ حکومت کیا اور جب حکومت گر گئی تو ان کا لہجہ بدل گیا، کشمیری قائدین اپنی جد وجہد جاری رکھنے کی بات کہہ رہے ہیں اور وہ حالات سے مایوس بھی نہیں ہیں، یہ ایک اچھی بات ہے؛ لیکن اب اس دفعہ کی بحالی ممکن نہیں ہے، عدالت کے فیصلے کے مطابق اگر جلد ہی مکمل ریاست کا درجہ بحال ہوجاتا ہے اور اگلے سال 30؍ستمبر تک ریاستی انتخابات ہوجاتے ہیں تو بھی بڑا کام ہوجائے گا۔

بدھ, دسمبر 20, 2023

طنزیہ و مزاحیہ کہانی)

طنزیہ و مزاحیہ کہانی) 
Urduduniyanews72 

                 شہرکی سہولت۔۔۔گاؤں کا مسئلہ

                   ٭ انس مسرورانصاری

کہتے ہیں کہ ہماراملک بھارت گاؤں میں آبادہے۔جسے اصل بھارت کودیکھناہووہ گاؤں میں جاکردیکھے۔یہ الگ بات ہےکہ یہاں کی حکومت گاؤں سے زیادہ شہروں کوسجانےاورسنوارنے میں لگی رہتی ہے۔شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ شہرخوب صورت لگیں گےتوملک کی ترقی زیادہ روشن نظرآئےگی اور ہم بھارت کو‘‘شائننگ انڈیا’’کانام دے سکیں گے۔گاؤں گرام کی بات کیجیے توابھی ہمارے ملک میں ایسے بہت سارے گاؤں موجود ہیں جہاں بجلی نہیں پہنچ سکی ہے۔کھیتوں میں آب پاشی کی قدیم روایت ہے۔دریا،تالاب اورکوئیں سے پانی کی ضرورتیں پوری کی جاتی ہیں۔ہل بیل سے کھیتوں کی جوتائی بوائی ہوتی ہے۔یہ کہانی ایسے ہی ایک گاؤں کی ہے۔اس کےتین کردارہیں جوشہراورگاؤں کےفرق کو واضح کرتےہیں۔
        بدروکی شادی کوآٹھ ماہ ہوچکے تھے۔بیوی شہر کے قریب ایک گاؤں کی رہنے والی تھی۔چھوٹاقد،گہرا سانولارنگ،ایک آنکھ تھوڑی دبی ہوئی سی۔خاص بات یہ تھی کہ اُسے شہری طورطریقےآتے تھے۔میکپ وغیرہ خوب کرتی اوربدروکواچھی لگتی۔اس کانام ساونتی تھا۔بڑی تلاش کےباوجودجب اُس کے لیےکوئی معقول رشتہ نہ ملاتوماں باپ نے اُس کی شادی اس دوردراز گاؤں میں بدروکےساتھ کردی کہ بیٹی کوکب تک گھر میں بٹھائے رکھتے۔بدروشکل وصورت سے بدرونہ تھا۔بس نام اچھالگاتوماں باپ نے رکھ دیا۔دس بارہ سال کی عمرمیں اس کےماں باپ دونوں ایک وبائی بیماری میں چل بسےتھے۔بس ایک چھوٹابھائی تھاجس کانام چھو ٹوتھا۔بدرواپنے بھائی سے بہت محبت کرتاتھا۔جب اس کے ماں باپ مرےتووہ بہت چھوٹاتھا۔اسی نے اس کی پرورش کی۔اب وہ پانچ چھ سال کاہوگیاتھا۔کھیت کھلیان زیادہ نہ تھے لیکن بدرومحنتی بہت تھااورگھر گرہستی کواچھی طرح چلاناخوب جانتاتھا۔
       ایک دن وہ کھیتوں میں کام کررہاتھاکہ چھوٹو روتابسورتاہوااُس کے پاس پہنچا۔چھوٹےبھائی کو یوں روتادیکھ کربدرونے کدال زمین پررکھ دی اورچھوٹوکے پاس بیٹھ کراُس کےآنسوپونچھتے ہوئے بولا:               ‘
        ۔۔کیاہوارے۔؟کائےکامنھ ٹیڑھامیڑھاکیے ہےصبح صبح۔۔۔’’بھائی کاپیارپاکراُس کی ہچکی بندھ گئی۔
         ‘‘بھوجی نے ہم کومارا۔’’چھوٹونے فریادکی۔
‘‘بھوجی نے تیرے کومارا۔کائے کومارا۔؟جروربدماشی کی ہوگی۔’’
      ‘‘ناہیں بھیّا۔ہم نے میتھامیتھاکھانےکومانگا۔بس بھوجی نے ہم کومارا۔’’
       ‘‘اچھاہمرے ساتھ گھرچل ۔دیکھوں تواس نےکائے کومارا۔’’
      بڑابھائی کھیت کاکام چھوڑکرچھوٹے بھائی کو ساتھ لےکرگھرپہنچا۔چھوٹوکےگال پرتماچےکانشان دیکھ چکاتھااس لیے بیوی پرکافی غصہ آرہاتھا۔گھرمیں داخل ہوتےہی بڑےطیش میں ساونتی کے پاس پہنچا۔۔
      ‘‘کیوں ری حرام جادی ! تونے میرےچھوٹوکومارا۔؟
کائےکومارامیرےچھوٹوکو۔؟’’
        پتی کاغصّہ دیکھ کرپتنی کوبھی غصّہ آگیا۔بولی توکچھ نہیں البتہ سیدھےاپنےکمرےمیں گئی اورٹوتھ پیسٹ کاٹیوب اُٹھالائی۔
    ‘‘ساراجھگڑااسی گیلے منجن کاہے۔’’وہ غصّہ میں پھنکارتی ہوئی بولی۔‘‘چھوٹوکوپانچ بارٹوتھ پیسٹ دے چکی ہوں۔ہتھیلی پررکھتی ہوں توفوراََچاٹ جاتاہےاور پھرمانگتاہے۔بتاؤ کتنے روزچلے گایہ مہنگا ٹیوب۔؟میکے سے لائی ہوں ۔تم توزندگی بھرٹوتھ پیسٹ نہ لاتے۔’’
      ‘‘اری ذرامجھے بھی توچکھا۔دیکھوں بھلایہ ہےکیا  چیز۔؟’’
ساونتی نےکول گیٹ ٹوتھ پیسٹ ٹیوب سے نکال کر ذراساپتی کی ہتھیلی پربھی رکھ دیا۔پتی نے پہلے سونگھاتوخوشبواورٹھنڈک نےاُسے بہت متاثرکیا۔اُس نے ایک لمبی سانس لی اورپھرچکھاتوخوشبواور ٹھنڈک سےاُس کامنھ بھرگیا۔پتنی کےاستعمال میں رہنے والی کریم کوپہلی بارچکھاتھاورنہ وہ تو داتون کرتاتھا۔ پیکنگ، ٹیوب،اندرکی کریم سب کچھ سندراوراچھالگا۔اُس نے پتنی کی طرف بڑی تعریفی نظروں سےدیکھا لیکن پتنی کاچہرہ غصّہ اورخفگی سےلابھبھوکاہورہا
تھا۔وہ پاس میں کھڑےچھوٹوکی طرف مڑا ۔اس کے گال پرایک چانٹارسید کرتے ہوئے بولا۔
      ‘‘حرام جاداکہیں کا۔پانچ پانچ بارخالی خالی چٹ کرگیا۔ابےحرام خور!یہ بدماشی نہیں توکاتیری سراپھت ہے۔؟خالی خالی چاٹ گیا۔ابےروٹی سےکھاناتھانا۔اب آگے سے کبھی سوکھاسوکھابناروٹی کےکھایاتومارمارکرمرگا بنادوں گا۔جیسے زمیندارٹھاکرجی مجوروں کومرگا
 بناتےہیں۔۔پیٹھ پرما ٹی کےبڑے بڑے ڈھیلے رکھ دوں گا۔سمجھے۔ہاں،کان کھول کرسن لے چھوٹو!اب اپنی بھوجی سے مانگیوتوروٹی سےکھائیو۔ سمجھے۔’’بھائی کےکڑے تیوردیکھ کرچھوٹوبھاگ کھڑاہوا۔یہ ٹوتھ پیسٹ ساونتی اپنے میکےسے لائی تھی ۔وہ بدروکی طرح داتون نہیں کرتی تھی۔اُس کارنگ وروپ بہت اچھانہیں تھاتوکیاہوا۔تھی توشہرکے قریبی گاؤں کی رہنے والی۔وہ برس اورٹوتھ پیسٹ ہی استعمال کرتی تھی۔۔۔۔شہرکی سہولت گاؤں کامسئلہ بن گئی تھی۔٭٭
                
                     *انس مسرورانصاری
             قومی اُردوتحریک فاؤنڈیشن(انڈیا)
                     رابطہ//.9453347784//

پارلیامنٹ بھی غیر محفوظ

پارلیامنٹ بھی غیر محفوظ
اردودنیانیوز۷۲ 
مولانا مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی 
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلوار ی شریف، پٹنہ 
===========================================
 پارلیامنٹ پر حملے کی بائیسویں برسی 13؍دسمبر کو ایک بار پھر چند لوگوں نے پارلیامنٹ میں افرا تفری مچا کر یہ باور کرادیا کہ نئی پارلیامنٹ بھی غیر محفوظ ہے، جب پارلیامنٹ کی کارروائی چل رہی تھی تبھی سامعین گیلری سے دو جوان نیچے کود گیا اور اس نے بے ضرر قسم کے گیس چھوڑ کر ارکان پارلیمان کو حواس باختہ کر دیا، کچھ ممبروں کی مدد سے اسے دھر دبو چا گیا، پٹائی بھی ہوئی، پھر سیکوریٹی والوں کے حوالہ کر دیا گیا، دو لوگ پارلیامنٹ کے قریب ہی بھارت ماتا کی جے اور جے شری رام کے نعرے لگا رہے تھے، ان میں ایک خاتون تھی، جس کا نام نیلم تھا وہ مختلف نعروں کے ساتھ ایک نعرہ تانا شاہی نہیں چلے گی کا بھی لگا رہی تھی اوراپنی بے روزگاری کا رونا رو رہی تھی، اس واقعہ میں پولیس نے چھ لوگوں کو حراست میں لے لیا ہے، تحقیق جاری ہے، سبھی اکثریتی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، بھاجپا رکن پرتاپ مہرا کی تصدیق پر انہیں وزیٹر گیلری کا پاس جاری کیا گیا تھا، یہ بھارت ماتاکی جے اور جے شری رام کے نعرے لگا رہے تھے اس لیے میڈیا میں کسی نے بھی انہیں دہشت گرد قرار نہیں دیا، پارلیامنٹ کے تحفظ پر سوالات ضرور اٹھائے گئے؛ لیکن دہشت گردانہ حملہ کا جھوٹا پرپیگنڈہ نہیں کیا گیا، جن لوگوں نے یہ ہنگامہ برپا کیا، ان میں ساگر شرما لکھنؤ، منور نجن ڈی کرناٹک،نیلم حصار ہریانہ اور امول شنڈے مہاراشٹرا کا رہنے والا ہے، دو اور گرفتگان کی شناخت ابھی سامنے نہیں آئی ہے، ایک ملزم للت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا ہے۔
 ان لوگوں نے یہ تماشہ کیوں کیا، اس کا پتہ مکمل جانچ کے بعدہی سامنے آئے گا؛ لیکن یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ نہ تو ہماری پالیامنٹ محفوظ ہے اور نہ اس کے ارکان، جب ملک کے سب سے محفوظ علاقہ کا یہ حال ہے تو عوام کے تحفظ کا جو حال ہو سکتا ہے وہ اظہر من الشمس ہے، یہ ٹھیک ہے کہ وہ جو گیس فضا میں تحلیل کر رہے تھے وہ بے ضرر تھی، ذرا سوچیے اگر وہ گیس ضرر رساں ہوتی تو ہم ملک کے کتنے بڑے بڑے سیاسی قائدین کو کھو چکے ہوتے اور ملک کا کتنا بڑا نقصان ہوتا، اللہ کا فضل ہے کہ یہ سب محفوظ رہے، فضل یہ بھی ہے کہ ان میں کوئی مسلم نہیں ہے اور نہ ہی کسی مسلم ارکان کی سفارش پر انہیں پاس دیا گیا تھا، اگر ایسا ہوتا تو پارلیامنٹ کے باہر ایک دوسری جنگ ٹی وی چینلوں پر شروع ہوتی اور نفرت کی دکان سجانے کا ایک اور موقع فرقہ پرستوں کو مل جاتا۔

مہوا موئترا کا جرم

مہوا موئترا کا جرم 
اردودنیانیوز۷۲ 
مولانا مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلوار ی شریف، پٹنہ 
===========================================
ترنمول کانگریس کی مہوا موئترا سے پارلیامنٹ کی رکنیت چھین لی گئی ہے، ان پر الزام تھا کہ وہ روپے لے کر پارلیامنٹ میں سوالات اٹھاتی ہیں اور وہ بھی مودی جی کے محبوب اڈانی گروپ پر، جس الزام کے تحت انہیں نکالا گیا وہ الزام سپریم کورٹ کے ایک وکیل نے لگایا تھا جو مہوا موئترا کا سابق عاشق تھا، اس کا کہنا تھا کہ مہوا نے ہیرا نندان جواڈانی گروپ کا حریف ہے، اس سے روپے لے کر سوالات اٹھائے، اس کو بنیاد بنا کر بی جے پی کے ایم پی نشی کانت دوبے نے تحریری شکایت اسپیکر کو دی اورمقدمہ چل پڑا، پوچھ تاچھ کے لیے مہوا کو جانچ ایجنسی کے سامنے پیش ہونا پڑا اور اس سے جو سوالات کیے گیے وہ بالکل نجی قسم کے تھے،مثلا آپ رات میں فون پر کس سے بات کرتی ہیں، رات میں کہاں رہتی ہیں، اس قسم کے اول جلول سوال سے خفا ہو کر مہوا موئترا نے اس جانچ کا بائیکاٹ کیا اور اٹھ کر چلی آئیں، اس کے بعد سے ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ اخلاقیات کمیٹی انہیں معاف نہیں کرے گی اور ان کو رکنیت سے ہاتھ دھونا پڑے گا، چنانچہ ایسا ہی ہوا، اب مہوا موئترا سپریم کورٹ پہونچ گئی ہیں، دیکھنا ہے کہ انہیں وہاں سے بھی راحت ملتی ہے یا نہیں؟
اب یہ بات ڈھکی چھپی نہیں رہی ہے کہ مرکزی حکومت اس قسم کے اقدام انتقامی جذبہ سے کرتی ہے، دلیل یہ ہے کہ اسی قسم کے جرم میں بھاجپا کے ارکان ماخوذ نہیں ہوتے اور ان کی رکنیت نہیں جاتی ہے، مہوا کے خلاف تحریری شکایت درج کرانے والا ایم پی نشی کانت دوبے پر خود جعلی اسناد پر انتخاب لڑنے کا مقدمہ درج ہے، اس پر آج تک کوئی کارروائی نہیں ہوئی، رمیش بدھوری بھی پارلیامنٹ میں گالی بک کر رکنیت سے ہاتھ نہیں دھو سکا، البتہ راہل گاندھی زد میں آئے تو ان سے سب کچھ چھن لیا گیا، جنسی استحصال کے سنگین مجرم ایم پی برج موہن سنگھ پر بھی اب تک کوئی کاروائی نہیں ہوسکی؛ کیوں کہ وہ بھی منظورنظر ہیں۔
 مہوا موئترا کا ایوان میں رہنا اور ان کا بار بار اڈانی گروپ پر سوال اٹھانا اور وہ بھی پچاس کی تعداد میں، بھاجپا کی نظر میں غیر معمولی جرم تھا، اس لیے ان کو باہر کا راستہ دکھایا گیا، اگر مہوا موئترا مجرم تھیں تو اس پر پارلیامنٹ میں گفتگو ہونی چاہیے تھی، اخلاقیات کمیٹی میں اتنی اخلاقی حس تو ہونی ہی چاہیے تھی کہ انہیں اپنی صفائی میں کچھ کہنے کا موقع دیا جاتا، اسپیکر چاہتے تو تنبیہ اور ہلکی سرزنش سے بھی کام چلا سکتے تھے؛ لیکن یہ بات ان کے آقا کے چشم وابرو کے خلاف تھی، اس لیے اسپیکروہی کر سکتے تھے جو ان کی پارٹی چاہتی تھی، پہلے اسپیکر غیر جانبدار ہوتا تھا؛ لیکن اب وہ حق کے طرفدار نہیں پارٹی کے جانب دار ہوا کرتے ہیں، واقعات ومشاہدات سے اس کی تائید ہوتی ہے۔
 در اصل یہ طریقہ ہی غلط ہے کہ لاکھوں عوام کی رائے کی بنیاد پر جیت کر آنے والے ارکان کو چند لوگ مل کر پارلیامنٹ سے باہر کر دیں، جو پارلیامنٹ بھیج رہا ہے اسی کو واپس لینے کا بھی اختیار ہونا چاہیے، جن ارکان پر الزامات لگے اسے پھر عوام کی عدالت میں بھیج دینا چاہیے؛تاکہ وہ نوٹا کا استعمال کرکے اسے واپس لے، یہ جمہوری نقطہ نظر کے عین مطابق  ہوگا اور عوام کی آرا کی توہین بھی نہیں ہوگی، سرکار کو اس قسم کا قانون بنانا چاہیے، تاکہ ارکان کے ساتھ ہونے والی ظلم اور زیادتی، نیزبرخاستگی کے انتہائی عمل کو روکا جا سکے۔

پیر, دسمبر 18, 2023

تماشا میرے آگےڈاکٹر محمد توقیر عالم

تماشا میرے آگے
URDUDUNIYANEWS72 
ڈاکٹر محمد توقیر عالم 
 سابق صدر شعبہ اردو، بہار یونیورسیٹی، مظفر پور
 سابق پرووائس چانسلر مولانا مظہر الحق عربی وفارسی یونیورسیٹی، پٹنہ

========================================

میرے ہاتھوں میں اس وقت امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ کے نائب ناظم وہفتہ وار نقیب کے مدیر حضرت مولانا مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی مدظلہ کے مضامین کا مجموعہ ’’تماشہ میرے آگے‘‘ ہے ،یہ یقینا مفتی صاحب کا نہایت اہم علمی کارنامہ ہے، اس سے ان کے بلند قد وقامت کا بخوبی اندازہ بھی ہوتا ہے، مفتی صاحب اور ان کے اس کا رہائے گراں مایہ کی قدر کی جانی چاہیے کہ حضرت بھی وارث انبیاء میں سے ایک ہیں۔
 موجودہ وقت میں عام طور پر علماء کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ ان کا علم محدودہوتا ہے، ان کی سوچ سطحی ہوتی ہے، ان کی رائے نا قابل عمل ہوتی ہے، وہ کج فہم اور کوتاہ نظر ہوتے ہیں، ان کے اندر شعور وآگہی کا فقدان ہوتا ہے، سیاسی سوجھ بوجھ سے ان کا کوئی واسطہ نہیں ، ان کا کوئی وِژَن بھی نہیں ہوتا، اس طرح کی نہ جانے کتنی ہفوات وبکواس باتیں علماء کے بارے میں کہی جاتی ہیں، جسے میں علماء کی توہین اور ناقدری سمجھتا ہوں ۔ اس طرح کی ہفوات سے ہر ممکن اجتناب کی ضرورت ہے۔
 مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی صاحب سے میرے دیرینہ روابط رہے ہیں، وہ بے پناہ صلاحیتوں کے مالک ہیں، جید عالم دین کے ساتھ ساتھ عظیم اسکالر ، ادیب، صحافی اور بے باک قلم کار ہیں، ان کا قلم ہمیشہ رواں دواں رہتا ہے، وہ بہت بے باکی کے ساتھ لکھتے ہیں اور خوب لکھتے ہیں، ان کی تحریریں نہ صرف دینی، بلکہ ادبی ، ثقافتی، لسانی، سماجی اور سیاسی موضوعات کا احاطہ کرتی ہیں، ’’تماشہ میرے آگے‘‘ میں اسی طرح کے 130مضامین شامل ہیں،یہ مضامین امارت کے ترجمان ہفتہ وار ’’نقیب ‘‘ میں الگ الگ دنوں اور تاریخوں میں شائع ہو کر قارئین میں مقبول بھی ہو چکے ہیں، مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی صاحب نے اپنی تحریروں سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ علماء کے بارے میں جو عام نظریات قائم ہیں، جن کا سرسری طور پر سطور بالا میں ذکر کیا گیا ہے، وہ سراسر بے بنیاد اور باطل ہیں، انہوں نے یہ ثابت بھی کیا ہے کہ علماء تحریری اور تقریری دونوں طرح کی صلاحیتوں سے مالا مال ہوتے ہیں، ان میں وسعت نظری ہوتی ہے، وہ پل پل کے حالات وظروف سے واقف ہوتے ہیں، ان کی دور رس نگاہیں اپنے آس پاس جو کچھ مشاہدہ کرتی ہیں ان سے وہ اور متاثر ہوتے ہیں جو کچھ ان کے دلوں پر گزرتا ہے انہیں وہ الفاظ کا جامہ پہنا کر اخبارات ، رسائل وجرائد یا کتابوں کی شکل میں ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دیتے ہیں۔ گویا وہ فیض احمد فیض کے اس شعر پر یقین رکھتے ہیں:
ہم پرورش لوح وقلم کرتے رہیں گے  جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی صاحب کی نگاہ دور رس ہے اوروہ ملکی وقومی حالت سے بخوبی واقف رہتے ہیں، وہ اس بات سے بھی اچھی طرح آشنا ہیں کہ ہم جس عہد میں اپنی حیات مستعار کی سانسیں لے رہے ہیں وہ اگر چہ سیاسی ، سماجی، معاشی ، سائنسی، اور علمی میدان میں حد کمال پر پہنچ چکا ہے، مگر یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ اس ترقی پذیر عہد میں بھی دنیا امن ومان کے مسئلے سے دو چار ہے، یہاں امن وامان بہت حد تک نا پید ہو چکا ہے اور بد امنی کا بھوت ہر چہار سو دندنارہا ہے۔ انہیں اس بات کا بھی شدت سے احساس ہے کہ آج انسانی خون بہت ارزاں ہو چکا ہے، عوتوں کی عزتیں تار تار کی جا رہی ہیں،لوگوں کے مال وجائداد محفوظ نہیں ، مسلمان کو مذہبی، فکری یہاں تک کہ جانی ومالی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ہندوستان سمیت دنیا کے اکثر ممالک میں آج بھی رنگ ونسل ، ذات پات اور مذہب کے نام پر بد امنی پھیلائی جا رہی ہے، نیشنلزم، فاشزم، سوشلزم جیسے نظریات کے حاملین پائے جاتے ہیں، لیکن کسی کے بھی پاس عامۃ الناس کے بنیادی مسائل کا حل نہیں ہے۔ لیگ آف نیشنلزم اور اقوام متحدہ کے نام سے ادارے قائم ہیں مگر ان کے پاس بھی امن وامان کا مسئلہ جوں کا توں بر قرار ہے، آج بھی ہر چہار جانب ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس ‘‘ کا راج قائم ہے۔ مفتی صاحب کا اس بات پر کامل یقین ہے کہ ہم جس دنیا میں اپنی حیات مستعار گزار رہے ہیں اس کی حیثیت کچھ بھی نہیں۔ وہ چونکہ عالم دین ہیں، اس لیے اچھی طرح جانتے ہیں کہ قرآن کریم میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اس فانی دنیا کو کھیل کود اور تماشے سے تعبیر کیا ہے۔ سورۃ العنکبوت کی آیت نمبر 64میں وارد ہے کہ دنیا کی یہ زندگانی محض کھیل تماشا ہے، البتہ آخرت کے گھر کی زندگی ہی حقیقی زندگی ہے۔ مسند احمد میں روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ دنیا سے بھلا کیا ناطہ! میری اور دنیا کی مثال تو بس ایسی ہے جیسے کوئی مسافر کسی درخت کی چھاؤ میں گرمیوں کی کوئی دو پہر گزارنے بیٹھ جائے وہ کوئی پل آرام کرے گا اورپھر اٹھ کر چل دے گا۔ ترمذی میں سہل بن عبد اللہ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ یہ دنیا اللہ کی نگاہ میں مچھر کے پر برابر بھی وزن رکھتی تو کافر کو اس دنیا سے وہ پانی کا ایک گھونٹ بھی نصیب نہ ہونے دیتا، صحیح مسلم کی روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ دنیا آخرت کے مقابلے میں بس اتنی ہے جتنا کوئی شخص بھرے سمندر میں انگلی ڈال کر دیکھے کہ اس کی انگلی نے سمندر میں کیا کمی کی۔ تب آپ نے اپنی انگشت شہادت کی جانب اشارہ کیا۔ مفتی صاحب عصری علوم سے بھی بہت حد تک واقف ہیں، وہ معروف شاعر مرزا اسد اللہ خان غالب کی مشہور غزل سے بھی آشنا ہیں، جس میں انہوں نے اس دنیا کو بچوں کے کھیل یا کھلونے سے تعبیر کیا ہے اور کہا ہے کہ ان کے سامنے اس دنیا میں شبانہ روز کسی نہ کسی شکل میں تماشا ہوتا رہتا ہے۔انہوں نے اپنی کتاب کا نام غالب کے اس شعر سے مستعار لیا ہے:
بازیچہ اطفال ہے دنیا مرے آگے  ہوتا ہے شب وروز تماشا مرے آگے 
 مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی صاحب کی عالمی مرتبت نگاہ میں بھی مرزا اسد اللہ خان غالب کی طرح اس دنیا کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور یہاں جو کچھ بھی ملکی ، قومی وبین الاقوامی سطح پر انجام پذیر ہورہا ہے انہیں وہ بھی غالب کی طرح محض تماشہ سمجھ رہے ہیں، جس کایہ مجموعہ بہترین مظہر ہے۔ میں اس کی اشاعت پر مفتی صاحب کو صمیم قلب سے مبارک باد دیتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ رشحات ، تخلیقات ، تالیفات اور تصنیفات کا یہ سلسلہ آگے بھی جاری رہے گا۔

حالیہ انتخابی نتائج : منظر پس ِمنظر

حالیہ انتخابی نتائج : منظر پس ِمنظر
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ 
 پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخاب میں کانگریس کو کراری ہار کا سامنا کرنا پڑا ہے، ایک ریاست چھتیس گڈھ اس کے ہاتھ سے نکل گئی لیکن تلنگانہ اس کے حصہ میں آگیا، راجستھان والوں نے ہر پانچ سال پر حکومت بدلنے کی اپنی روایت کو قائم رکھا اور اقتدار بھاجپا کے سپرد کر دیا، مدھیہ پردیش پہلے سے اس کے قبضہ میں تھا، حکومت بر قرار رہی، میزورم میں وہاں کی عوام نے کانگریس، بھاجپا دونوں کو مسترد کر دیا اور ایک نئی پارٹی زیڈ پی ایم (زورم پویپلز مومنٹ) کو مکمل اکثریت کے ساتھ اقتدار سونپ دیا، کانگریس کی ہار اس قدر ذلت آمیز ہے کہ تلنگانہ کی جیت بھی مات ہو کر رہ گئی اور فتح کا جشن بھی تین ریاستوں کی ہار میں دب کر رہ گیا، ایکزٹ پول اور سیاسی تجزیہ نگار مدھیہ پردیش اور چھتیس گڈھ میں کانگریس کو اقتدار کے قریب بتا رہے تھے، لیکن ای وی ایم سے جو’’ جن‘‘ نکلا اس نے سب کو چونکا کر رکھ دیا، بی اس پی سپریمو مایا وتی نے اس نتیجے کو عجیب وغریب اور پر اسرار کہا ہے اور اس پر سنجیدگی سے سوچنے کی ضرور ت پر زور دیا ہے، انہوں نے کہا کہ پورے انتخاب کے دوران پارٹیوں کے ما بین کانٹے کی ٹکر تھی، لیکن نتائج بالکل اس کے بر عکس آئے، کانگریس نے بصد ادب واحترام عوام کی رائے کے سامنے سر جھکا دیا اور جن لوگوں نے انہیں ووٹ دیا اس کا شکریہ ادا کیا، اس کے علاوہ ان کے پاس کرنے کے لیے کچھ بچا ہی کیا تھا، وزیر اعلیٰ کا رسمی انتخاب بھی ہوگیاہے، کانگریس نے تلنگانہ میں پارٹی کے صدرریونت ریڈی کو وزیر اعلیٰ بنایا ہے، میزورم میں زیڈ پی ایم کے بانی ،سابق آئی پی اس اور سابق وزیر اعظم اندراگاندھی کی سیکوریٹی کے ذمہ دارلال دوہا ما بھی وزیر اعلیٰ بن چکے ہیں،بھاجپا کو تینوں ریاستوں میں وزیر اعلیٰ کے کئی کئی دعویدار ہونے کی وجہ سے انتخاب میں تھوڑی دشواری ضروری ہوئی، خاص کر راجستھان اور مدھیہ پردیش میں پارٹی ہائی کمان کو جمنااسٹک کرنی پڑی، لیکن نریندر مودی ، امیت شاہ اور جے پی نڈا بغاوت کو دبانے میں کامیاب ہو گیے، اور اب چھتیس گڈھ، مدھیہ پردیش اور راجستھان میں وزیر اعلیٰ کا انتخاب پارٹی ہائی کمان کی منشا کے مطابق ہو چکا ہے، راجستھان میں بھجن لال شرما ، چھتیس گڈھ میں وشنو دیو سہائے اور مدھیہ پردیش میں ڈاکٹر موہن یادو وزیر اعلیٰ ہوں گے۔ان کے انتخاب میں بھاجپا نے ذات پر مبنی سیاست کا بھی خاص خیال رکھا ہے، راجستھان میں برہمن وزیر اعلیٰ کے ساتھ دونائب وزیر اعلیٰ راجپوت اور دلت نیز اسپیکر سندھی سماج سے بنایا ہے، مدھیہ پردیش میں یادو کو کرسی دے کر بہار اور اتر پردیش کے یادو وں کو پیغام دیا گیا ہے کہ ہمارے یہاں تمہارے لیے بھی موقع ہے، چھتیس گڈھ میں بتیس (۳۲) فی صد آدی باسی ہیں اور وشنو دیو سہایے اسی زمرے سے آتے ہیں، تینوں نام چونکا نے والے ہیں، اور سب سے تعجب خیز راجستھان میں پہلی بار رکن اسمبلی بنے بھنجن لال شرما کا انتخاب ہے، جس سے بھاجپا نے اپنے نوجوان کارکنوں کو خاموش پیغا دیا ہے کہ میرے ساتھ لگے رہو، تمہارے لیے کرسی منتظر ہے۔
 راجستھان میں وجے راجے سندھیا اور مدھیہ پردیش کے شیو راج سنگھ چوہان، کو پارٹی نے حاشیہ پر ڈال دیا ہے، ان حضرات کی پارٹی توڑنے کی ساری کوششیں ناکام ہو چکی ہیں۔یہ صحیح ہے کہ دونوں سابق وزراء اعلیٰ اپنی اپنی ریاستوں میںانتہاء مضبوط تھے، وجے راجے سندھیا دو بار راجستھان کی وزیر اعلیٰ رہیں، اور شیو راج سنگھ چوہان چار بار مدھیہ پردیش میں وزیر اعلیٰ کی کرسی پر براجمان ہوئے، مگر بھاجپا کی اعلیٰ قیادت نے جب لال کرشن اڈوانی اور مرلی منوہر جوشی جیسے لوگوں کو ’’مارگ درشک‘‘ منڈی میں ڈال دیا اور یہ لوگ چوں نہ کر سکے تو ان کے مقابل ان دونوں کی بساط ہی کیا تھی۔
 وزیر اعظم نریندر مودی نے اس جیت کو 2024 کے انتخاب میں فتح کا اشارہ اور ہیٹ ٹرک قرار دیا ہے، پارلیامنٹ کے باہر سرمائی اجلاس کے پہلے دن اخباروالوں سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گذشتہ نو(9) سالوں میں حزب مخالف نے جو منفی ذہن بنایا ہے اس عادت کوان کو بدلنا چاہیے، اور شکست کا غصہ سدن میںنہیں نکالنا چاہیے، وزیر اعظم کا یہ کہنا ایک حد تک صحیح بھی ہے؛ لیکن پارلیامنٹ کو  یوپی اے کے دور اقتدار میں اس نہج پر کام کرنے کا طریقہ بھاجپا نے ہی سکھایاتھا، جو انہوں نے کانگریس کے دور اقتدار میں کیا، وہی حزب اختلاف والے پارلیامنٹ میں اب ان کی حکومت میں کر رہے ہیں، جیسی کرنی ویسی بھرنی، اب کس کی طاقت ہے کہ اس طریقہ کار کو بدلے، پارلیامنٹ میں حکمراں طبقہ ہمیشہ حزب مخالف کو دبانے میں لگا رہتا ہے، صحیح اور سچی باتیں بھی مان کر نہیں دیتا، اکثریت کے بَل پر بغیر بحث کے بِل کو قانون بنا لیتا ہے تو حزب مخالف کے پاس شور، ہنگامے، احتجاج، مظاہرہ کے علاوہ کرنے کو اور بچتا بھی کیا ہے۔
 جن تین ریاستوں میں کانگریس کی ہار ہوئی ہے، وہاں ووٹوں کے تناسب میں کوئی بڑا فرق نہیں ہے،صرف مدھیہ پردیش میں فرق کچھ زیادہ ہے، بقیہ ریاستوں میں معمولی فرق سے بھاجپا کامیاب ہوئی ہے، الیکشن کمیشن کے ویب سائٹ کے مطابق چارریاستوں میں کانگریس کو بھاجپا سے ساڑھے نو لاکھ ووٹ زیادہ ملے، اس کے باوجود اسے ہار کا سامنا کرنا پڑا،اس کی ایک بڑی وجہ کانگریس کے تجربہ کار لیڈروں میں بر تری کی لڑائی رہی، راہل، پرینکا اور ملکا ارجن کھرگے، جی جان سے کانگریس کو فتح دلانے کے لیے بھاگ دوڑ کر تے رہے، لیکن کمل ناتھ، اشوک گہلوت، سچن پائلٹ، بھپیش بگھیل، ٹی ایس سنگھ دیو، اپنی اپنی ڈفلی بجاتے رہے۔
یہ ایک اچھی بات ہے کہ پارٹی نے سونیا گاندھی کی قیادت میں شکست کے اسباب وعلل کا تجزیہ شروع کر دیا ہے، ’’منتھن‘‘ کا یہ عمل چلتا رہے گا، لیکن ’’منتھن‘‘ تو ہزیمت کے اسباب کی تلاش کا نام ہے۔’’منتھن‘‘ علاج کا نام نہیں ہے،  جب کہ شکست کے اسباب کا جائزہ لے کر ان اسباب کو دور کرنے کی سخت ضرورت ہے۔
 نتائج کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ تلنگانہ میں کانگریس کی جیت کے باوجود بھاجپا ایک(۱) سیٹ سے نو(۹) سیٹ پر پہونچ گئی ہے، یہاں کانگریس سے کوئی مسلم امید وار کامیاب نہیں ہوسکا، مشہور کرکٹر اور سابق کپتان اظہر الدین بھی اپنی سیٹ نہیں نکال سکے،اس کا مطلب یہ ہے کہ جنوبی ہند میں بھی ہندتوا نے اپنے پاؤں پھیلانے شروع کر دیے ہیں، ایم آئی ایم کے علاوہ کسی پارٹی سے بھی کوئی مسلمان جیت کر نہیں آسکا ہے،کانگریس کے سبھی چھ مسلم امیدوار اپنی جیت درج نہیں کراسکے، اس کا نقصان یہ ہوا کہ تلنگانہ حکومت میں کوئی مسلم چہرہ وزارت اور کابینہ میںنہیں آسکا،مدھیہ پردیش میں بھی دو ہی مسلمان آسکے۔ مسلمانوں میں انتشار کی وجہ سے یہ نوبت آئی، مسلم قائدین کو اس پہلو پر بھی غور کرنا چاہیے۔
انتخاب کے اس غیر متوقع نتیجہ کی وجہ سے عظیم اتحاد ’’انڈیا‘‘ کے مستقبل پر بھی سوالات کھڑے ہوگیے ہیں اس کو 6 دسمبر کی میٹنگ ملتوی کرنی پڑی ،نتیش بیمار پڑ گئے۔اکھلیش کو شرکت کے لیے فرصت نہیں تھی۔ممتا بنرجی کے رشتہ دار کی شادی تھی۔اب اگلی میٹنگ 17دسمبر کو ہونی ہے، لیکن پارٹیوں کے درمیان سرد مہری اس قدر ہے کہ مقابلہ کے پہلے ہی ’’انڈیا اتحاد‘‘ منتشر ہوتا نظر آ رہا ہے۔ اس شکست کے بعد کانگریس کی ہیکری تھوڑی کم ہوئی ہے۔اب شایدوہ زیادہ سیٹوں پر اپنے امیدوار کھڑے کرنے کا مطالبہ ترک کر کے آپسی تال میل بنانے میں کامیاب ہو جائے۔تبھی ’’انڈیا اتحاد‘‘ باقی رہ پائے گا،اگر ایسا ہوتا ہے تو2024میں پارلیمنٹ کا نقشہ بدل بھی سکتا ہے۔ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ کھیل اور سیاست کی دنیا میں کچھ بھی ناممکن نہیں ہے ۔

جمعرات, دسمبر 14, 2023

حاسدوں کے شر سے اللہ کی پناہ

حاسدوں کے شر سے اللہ کی پناہ
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناءالہدی قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ 

حسد کسی دوسرے کی نعمت وراحت، صلاحیت وصالحیت جاہ ومنصب ، مقبولیت اور شہرت کو دیکھ کر جلنا اور پھر اس کے زوال کا خواہش مند ہونا، بلکہ اس کے زوال کی ہر ممکن تدابیر اختیار کرنا حسد کہلاتا ہے، شریعت کی نظر میں یہ حرام اور گناہ کبیرہ ہے، اس کے بڑے مضر اثرات سامنے آتے ہیں، حسد کے گناہ کا صدور پہلی بار آسمان پر ہوا تھا، جب ابلیس نے حضرت آدم کو خلیفۃ اللہ قرار دینے سے حسد کیا اور اس گناہ کی وجہ سے  وہ راندہ درگاہ ہواتھا، دنیا میں سب سے پہلا واقعہ حضرت آدم علیہ السلام کے صاحب زادگان کے درمیان حسد کا ہوا،جس کے نتیجہ میں قابیل نے اپنے بھائی ہابیل کو قتل کیا، پھر یہ سلسلہ دراز ہوتا ہوا حضرت یوسف علیہ السلام تک پہونچا ان کے بھائیوں نے ان سے حسد کیا اور اس کے نتیجہ میں ان کو کنوئیں میں ڈال دیا تاکہ کم از کم وہ حضرت یعقوب علیہ السلام اور بھائیوں کی نظر سے اوجھل ہو جائیں، کوئی مسافر انہیں نکال کر کسی دوسری جگہ لے جائے، مکہ کے مشرکین کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے مرحلے میں رسول نہیں ماننے اور ایذا پہونچانے میں اسی حسد کا دخل تھا، تبھی تو وہ کہا کرتے تھے کہ اللہ کو رسول بنانے کے لیے (نعوذ باللہ ) کوئی اور نہیں ملا تھا، حضرت اسماعیل علیہ السلام کے خاندان سے آپ کا ہونا بھی حسد کا سبب تھا، کیوں کہ بنی اسرائیل میں جتنے نبی آئے وہ سب حضرت اسحاق علیہ السلام کی نسل سے تھے، یہودیوں میں آج تک جو نفرت مسلمانوں سے پائی جاتی ہے ان کے بہت سارے اسباب میں سے ایک حسد بھی ہے۔

حسد کرنے والوں کو پہلا نقصان تو خود ہی پہونچتا ہے کہ وہ دوسرے کی ترقیات کو دیکھ کر جلتا ، کڑھتا رہتا ہے، وہ خود کچھ نہیں کرتا، لیکن سامنے والے کے سلسلے میں زوال نعمت کا طلب گار ہوتا ہے، حسد کا نقصان جس سے حسد کیا جائے اس کو اس وقت پہونچتا ہے جب حاسد زوال نعمت کے لیے تدبیریں کر نے لگے، اسی لیے اللہ رب العزت نے سورہ فلق میں حاسدوں سے اس وقت  پناہ چاہنے کو کہا ، جب وہ حسد کرنے لگے۔

 حسد کرنے والا ہمیشہ اذیت میں مبتلا ہوتا ہے، میرے گاؤں میں میرے ہی ایک ہم عصر تھے جو مجھ سے بہت حسد کرتے تھے، میں جب کہیں تقریر کرتا تو وہ بے تحاشہ رونے لگتے ،میں نے ایک بار  ان سےپوچھا کہ آپ پر رقت اور گریہ کیوں طاری ہوتی ہے تو کہنے لگے کہ میں سوچتا ہوں تم مجھ سے ایک سال چھوٹے ہو اور اس قدر آگے بڑھ گیے اور میں کچھ نہیں کر پایا، میں نے کہا کہ میرے ساتھ چلتے تو کوئی مقام حاصل کر سکتے تھے، لیکن مھے دیکھ کر کڑھنے سے تو کچھ نہیں ہوگا، ان کا جسم اس جلن کی وجہ سےا نتہائی لا غر ہو گیا تھا، بعد میں دماغی توازن بھی جاتا رہا، اور بالآخر جلتے کڑھتے ہی وہ موت کی نیند سو گیے۔

 حسد میں زوال نعمت کی حاسد کس قدر تدبیریں کرتا ہے اس کا اندازہ آپ اس سے لگا سکتے ہیں کہ ایک آدمی اپنے پڑوسی کے لیے زوال نعمت کی دعا کرانے کسی بزرگ کے پاس پہونچ گیا، بزرگ نے فرمایا کہ میں کسی کے لیےزوال نعمت کی دعا تو نہیں کر سکتا، البتہ میں تمہاری ترقی کی دعا کر سکتا ہوں، حاسد نے کہا یہی صحیح، بزرگ نے کہا کہ دعا قبول ہونے پر تم جس سے حسد کرتے ہو اس کو تم سے دو گنا مل جائے گا، یہ بات حاسد کو انتہائی بری لگی ، بزرگ نے کہا بولو کیا کروں دعا کروں، کہنے لگا کہ دعا کر دیجئے کہ میری ایک آنکھ پھوٹ جائے تاکہ  اس کی دونوں آنکھیں چلی جائیں اور وہ پورا اندھا ہو کر کسی کام کا نہ رہے، میرے پاس ایک آنکھ بچے گی ، میں اسی سے کام چلا لوں گا۔

شریعت نے اسی لیے حسد کرنے سے منع کیا اور حاسدین سے اللہ کی پناہ چاہنے کی تلقین کی اور ارشاد فرمایا:أَمْ يَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلَىٰ مَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ (النساء54) لوگ دوسرے آدمیوں سےان چیزوں پر جلتے ہیں جو اللہ رب ا لعزت نے بطور فضل انہیں عطا کیا ہے، ابن ماجہ کی ایک روایت میں ہے کہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے، جس طرح آگ لکڑی کو جلا دیتی ہے، دیلمی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بھی نقل کیا ہے کہ جس طرح ایلوا شہد کو خراب اور برباد کر دیتا ہے ویسے ہی حسد ایمان کو فساد میں مبتلا کر دیتا ہے، طبرانی میں ہے کہ جب تک آپس میں لوگ حسد نہیں کریں گے خیر پر رہیں گے  اور فرمایا : حسد کرنے والا مجھ سے نہیں ہے۔ حاکم اور دیلمی نے یہ بھی نقل کیاہے کہ ابلیس اپنی ذریات کو انسان میں ظلم وحسد کی تلاش کا حکم دیتا ہے، اس لیے کہ یہ دونوں چیزیں انسان کو شرک تک پہونچا دیتی ہیں۔

اپنے بھائیوں کو پریشانی میں مبتلا دیکھ کر جو لوگ خوش ہوتے ہیں، وہ بھی حاسدین میں ہے،یہ بھی ہو سکتا ہےکہ اللہ تعالیٰ اس کے بھائی کو پریشانی اور مصیبت سے نجات دے کر اس کو اس مصیبت میں مبتلا کر دے ۔ ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے، حاسدین کو قیامت میں سخت ندامت اور شرمندگی کا سامنا کرنا ہوگا، کیوں کہ دوسروں کی دنیا پر حسد کرکے اس نے اپنی آخرت تباہ کرلی، کیوں کہ آخرت میں حاسد کی نیکیاں محسود کو دیدی جائیں گی، مکافات نہیں ہوگا تو محسود کا گناہ بھی حاسد کے سر ڈال دیا جائے گا۔ یعنی نیکی برباد ، گناہ لازم

بخاری ومسلم کی مشہور روایت ہے کہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک دوسرے سے دشمنی ، باہم حسد اور قطع تعلق نہ کرو، اللہ کے بندے بھائی بھائی بن جاؤ، آپس میں رابطہ بنا رہے ، اس کے لیے حکم ہوا کہ کسی مسلمان کے لیے تین دن سے زیادہ اپنے بھائی سے بات چیت بند رکھنا جائز نہیں ہے۔

 در اصل حسد کرنے والا اللہ کے فیصلے پر راضی نہیں ہوتا کیوں کہ اگر راضی ہوتا تو اپنے بھائی کو اللہ کی جانب سے دی جانے والی چیزپر راضی رہتا اور اس کے خلاف اس کے دل میں حسد پیدا نہیں ہوتا، آپ نے بار بار یہ بات سنی ہوگی کہ مولوی بہت اچھا کھاتا ہے، یہ کہنا بھی کم تنخواہ کے باوجود مولوی کی اچھی رہائش ، بود وباش سے حسد کی وجہ سے کیا جاتا ہے، ایسا کہنے والا اس بات کو بھول جاتا ہے کہ رزق کی تقسیم اللہ نے کی ہے ، کسی کے حصے میں کچھ رکھا اور کسی کے حصہ میں کچھ ، گویا ایسے جملے کہنے والا اللہ کی اس تقسیم سے نا خوش ہے، جو اللہ نے اپنے بندوں کے درمیان کی ہے، اسی لیے حضرت حسن بصری ؒ نے فرمایا کہ حسد نہ کیا کرو، اس لیے کہ تمہارے بھائی کو جو نعمتیں حاصل ہو ئی ہیں وہ اگر اللہ رب ا لعزت نے بطور انعام دیا ہے تو تمہیں اس شخص سے حسد کرنے کا جواز اس لیے نہیں ہے کہ وہ اللہ کی جانب سے انعام یافتہ ہے اور اگر اللہ نے اسے ابتلا وآزمائش کے طور پر یہ نعمتیں دی ہیں تو بھی حسد نہ کرو، اس لیے کہ اگر وہ اس ابتلا  وآزمائش سے اللہ کی مرضی کے مطابق نہیں نکلا تو جہنم اس کی منتظر ہے۔

 حسد ہی کی طرح ایک چیز رشک ، غبطہ اور منافست ہوا کرتی ہے، اس میں انسان دوسرے کی نعمت کا زوال نہیں چاہتا بلکہ اپنے اندر وہ چیزیں پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے ، یہ نا جائز اور حرام نہیں ہے، خیر کے کاموں میں مسابقت شرعی طور پر مطلوب ہے، اللہ رب العزت نے سورۃ مطففین کی آیت فلیتنافس المتنافسون میں یہی بات کہی ہے، فقہاء نے رشک اور منافست کے درجات فرض، واجب، مستحب اور جائز کے طور پر بیان کیے ہیں، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایسےلوگوں کے بارے میں جس نے قرآن کریم کے علم کے ساتھ حلال وحرام کو جانا اور اس پر عمل کیا اور دوسرے وہ جس کو اللہ نے مال دیا اور اسے اللہ کے راستے میں خرچ کیا، رشک کرنے کو درست قرار دیا ہے۔

 اس لیے حسد سے آخری حد تک گریز کرنا چاہیے اور اس سے بچنے کی شکل حضرت ابو درداء نے یہ بتائی ہے کہ موت کو کثرت سے یاد کیا جائے اور محسود کے بارے میں مدح وستائش کے الفاظ نقل کیے جائیں، دل سے کینہ کدورت، بغض وعداوت نکال دیا جائے ورنہ یہ جہنم تک پہونچا نے کا ذریعہ بن جائے گا، اور دنیاوی زندگی بھی جہنم بن جائے گی 

حسدجب کسی کے اندر پیدا ہوتا ہے تو وہ تنہا نہیں ہوتا اپنی ذریت کو بھی ساتھ لاتا ہے کہنا چاہیے کہ منکرات کی پوری فوج اس کے ساتھ ہوتی ہے۔جن میں سے ہر ایک تنہا جہنم رسید کر نے کے لیے کافی ہے۔مثلا حاسد کے دل میں محسدود کی جانب سے کینہ بھرا ہوتا ہے۔اور سب جانتے ہیں کہ کینہ کدورت کے ساتھ آدمی جنت میں نہیں جاسکتا ہے ۔اسی لیے اللہ رب العزت نے ایمان والوں سے کینہ رکھنے سے منع کیااور ایک صحابی کے بارے میں کینہ نہ رکھنے کی وجہ سے جننتی ہونے کا بار بار اعلان فرمایا۔حاسدین کے دلوں میں چھپے کینے بعض وعداوت کاذریعہ بھی بنتے ہیں۔یہ عداوت بڑھ کر محسود کو نقصان پہوںچانے کے کام آتے ہیں۔جیسے حضرت یوسف علیہ السلام کو ان کےبھاءیوں نے کنویں میں ڈال کر نقصان پہونچا نے کا ارادہ کیا ۔بات جب آگے بڑھتی ہے تو حاسد محسود کو قتل کرنے کی سوچتا ہے کبھی یہ کام وہ خود کر گذرتا ہے جیسا قابیل نے ہابیل کے ساتھ کیا۔اگر وہ خود اس پر قادر نہیں ہوتا تو دوسروں سے پیسے دے کر کراتا ہے جسے آج کی اصطلاح میں سپا ری دینا کہتے ہیں۔غرض حسد میں نقصان ہی نقصان ہے۔کاش مسلمان اس بات کو سمجھ پاتے

اللہ ہم سب کی حسد سے حفاظت فرمائے اس کے لیے ہمیں ہر دم اللہ کی پناہ چاہنی چاہیے۔جس کا طریقہ اللہ رب العزت نے خود ہی قرآن مجید میں سکھایا ہے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...