Powered By Blogger

منگل, دسمبر 26, 2023

خون عطیہ کرنے کے لئے لوگوں کو بیدار کرنے کی ضرورت ہے: ڈاکٹرس

سوسائٹی فرسٹ، دربھنگہ کی جانب سے ٹاؤن ہال دربھنگہ میں " خون عطیہ اعزازی تقریب  2023" منعقد ہوا 
اردودنیانیوز۷۲ 
 خون عطیہ کرنے سے جسم کو نقصان نہیں بلکہ فائیدہ ہوتا ہے: دانشوران 

خون عطیہ کرنے کے لئے لوگوں کو بیدار کرنے کی ضرورت ہے: ڈاکٹرس 

دربھنگہ ( عرفان احمد پیدل ) خون کا عطیہ انسانیت کے لیے صدقہ جاریہ ہے۔ اس کے لیے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ بیدار کرنے کی ضرورت ہے مزکورہ باتیں دربھنگہ میونسپل کارپوریشن کی میئر انجم آرا نے ٹاؤن ہال دربھنگہ میں سوسائٹی فرسٹ، دربھنگہ کے زیر اہتمام منعقد " خون عطیہ اعزازی تقریب میں اعزاز  2023‘‘ سے نوازا گیا اس تقریب کا افتتاح کرتے ہوئے کہیں۔ انہوں نے منتظمین کا شکریہ ادا کیا اور تمام خون عطیہ کرنے والوں کو مبارکباد دی اور کہا اپنے ملنے جلنے والوں سے کہیں کی آپ بھی اس میں حصہ لیں خون عطیہ کرنے سے نقصان نہیں بلکہ اس سے فائدہ ہی ہوتا ہے وہیں ڈپٹی میئر نازیہ حسن نے بطور مہمان خصوصی اپنے خطاب میں کہا کہ آج کا دن شاندار اور یادگار دن ہے۔اج جو بھی لوگ اس خون عطیہ کیمپ میں حصہ لیئے ہیں وہ سب کے سب ذات ب، مذاہب سے اوپر اٹھ کر مرد و خواتین اور نوجوان آپنا خون عطیہ کر رہے ہیں جو کہ ایک اچھے انسانیت کی عظیم علامت ہے۔ یہ بہت ہی نیک عمل ہے۔ خون کا عطیہ دینے سے بے پناہ راحت ملتی ہے۔ انہوں نے لوگوں سے اپیل کی کہ وہ خون کے عطیات کے لیے زیادہ سے زیادہ لوگ آگے آئیں مہمان خصوصی کے طور پر ماہر امراض اطفال ڈاکٹر اتسو راج نے کہا کہ خون کی کمی کی وجہ سے بڑی تعداد میں ماؤں اور بچوں کی اموات میں اضافہ ہوا ہے اگر ہم جیسے لوگ اس کو لیکر بیدار ہو گئے تو یقیناً اس میں دیکھنے کو مل سکتا ہے بلڈ بینک میں ہمیشہ زیادہ خون ہونا چاہیئے تاکہ لاوارث، دور دراز کے لوگوں اور غریب مریضوں کو بھی بلاتعطل خون مل سکے۔
ریڈ کراس سوسائٹی کے سکریٹری منموہن سراوگی نے آرگنائزنگ تنظیم کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ خون عطیہ کرنے والے عظیم ہیں۔ لوگوں کو خون کا عطیہ دینے کے لیے بیدار کرنے کی ضرورت ہےاور ساتھ ساتھ انہیں ترغیب دینے کی ضرورت ہے انہوں نے بتایا کہ دربھنگہ میں آئی بینک کام کر رہا ہے اس لیے مرنے والوں کے اہل خانہ کو بھی چاہیئے کہ وہ اپنی آنکھیں عطیہ کرنے کی کوشش کریں اور اس کے لئے لوگوں کو بیدار کریں عمار یاسر نے کہا کہ خون کا عطیہ دینے سے ہمیں عطیہ کرنے کا احساس ملتا ہے۔ اس سے ہماری انا بھی دور ہو جاتی ہے۔ ہمارے لیے معاشرے کو پہلے آنا چاہئیے ٹارگٹ انسٹی ٹیوٹ کے سونو نے کہا کہ خون دینے والوں کے چہروں پر خوشی ہے۔ وہ کسی ذات، مذہب، رنگ یا علاقے کے پابند نہیں ہیں۔
صدارتی خطاب میں متھلا یونیورسٹی کے سنسکرت کے پروفیسر ڈاکٹر آر این چورسیا نے کہا کہ خون کا عطیہ زندگی کا عطیہ اور ایک عظیم عطیہ ہے، جس سے حتمی سکون اور اندرونی خوشی ملتی ہے۔ یہ دکھی انسانیت کے تحفظ اور سماجی خدمت کا بہترین ذریعہ ہے۔ خون کا عطیہ کرنے سے کسی قسم کی کمزوری یا نقصان نہیں ہوتا بلکہ خون بننے کا عمل تیز ہوتا ہے اور کئی طرح کی بیماریوں کے مفت ٹیسٹ کیے جاتے ہیں۔ 18 سے 65 سال کی عمر کا کوئی بھی صحت مند شخص ہر تین سے چار ماہ بعد خون کا عطیہ دے سکتا ہے۔ خون کا ایک یونٹ عطیہ کرنے سے 3 سے 4 لوگوں کی جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔ خاص طور پر حادثے کا شکار ہونے والے، آپریشن کے مریض، ڈیلیوری کرنے والی خواتین، بلڈ کینسر کے مریض، تھیلیسیمیا کے مریض یا ہیموگلوبن کی کمی کے شکار افراد کو خون کی ضرورت ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ لیبارٹریوں میں مصنوعی طریقے سے خون نہیں بنایا جا سکتا اور نہ ہی جانوروں اور پرندوں کے خون سے انسانی جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔
پروقار تقریب میں 150 سے زائد خون عطیہ کرنے والوں کو سرٹیفکیٹس اور میمینٹو جیس اعزاز سے نوازا گیا جبکہ مہمانوں کا استقبال متھلا کی روایت کے مطابق پاگ ، چادر ، گلدستہ اور میمینٹو دیکر کیا گیا پروگرام میں گریس ہسپتال مدھوبنی کے ڈاکٹر اقبال حسن، ٹارگٹ انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر عامر حسن، ایڈوکیٹ محمد اشفاق، بلڈ ڈونیشن فار ہیومینٹی ممبر عبدالمالک، سوسائٹی فرسٹ ممبر ایم کے نذیر، محمد ریحان انصاری، عبدالمالک و  ماحولیات کے سنجئے کمار 21 بار بلڈ ڈونر دیویانگ بیدیا ناتھ کمار، 25 بار بلڈ ڈونر پرکاش جھا، محمد جاوید، بلڈ ڈونر آنند انکت، جئے پرکاش کمار ساہو، منوج کمار، مکیش کمار جھا اور پرناو کمار وغیرہ نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ .
مہمانوں کو خوش آمدید کہتے ہوئے سوسائٹی فرسٹ کے صدر اور پروگرام کوآرڈینیٹر نذیر الہدا نے تنظیم کے اغراض و مقاصد پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک تعلیمی اور سماجی تنظیم ہے جو خون کے عطیہ کیمپوں کے انعقاد کے ساتھ ساتھ خون کے عطیہ سے متعلق بیداری پروگراموں کا انعقاد کر خون کے عطیات دینے والوں کو بیدار کرتی ہے۔ 


فوٹو ۔۔۔ خون عطیہ کیمپ

پیر, دسمبر 25, 2023

رجوع الی اللہ

رجوع الی اللہ 
Urduduniyanews72 
مولانا مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلوار ی شریف، پٹنہ 
===========================================
انسان کا علم محدود ہے ، اسے اپنی تقدیر کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا ہے ، اور نہ ہی اللہ کی مشیت کے بارے میں وہ کچھ جانتا ہے ، ہمارا ایمان ویقین ہے کہ ہوتا وہی ہے جو خدا چاہتا ہے اور ہوگا وہی جو خدا چاہے گا ، پھر جو کچھ ہوا ، ہو رہاہے یا ہوگا وہ سب تقدیر کا حصہ ہے، تقدیر فردکی بھی ہوتی ہے اور قوموں کی بھی ، فیصلے اللہ کے انفرادی بھی ہوتے ہیں اور اجتماعی بھی، انفرادی گناہ کی سزا فرد کو اور اجتماعی گناہ کی سزا قوموں کو ملتی ہے، سزا ہی کی ایک قسم ایسے حکمرانوں کا تسلط ہے جو عوام وخواص کے لیے اذیت، مصائب اور تکلیف کا باعث ہوتے ہیں، گویا ہماری بد اعمالی کی وجہ سے ہمیں ان لوگوں کی ما تحتی میں ڈال دیا جاتا ہے، جو صرف ظلم وطغیان کی زبان جانتے ہیں اور جنہیں الطاف وکرم کی کوئی ادا نہیں آتی ۔ اعمالکم عمالکم کا یہی مطلب ہے ۔
 ایسے میں ظاہر ہے ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھا نہیں جا سکتا ، جتنی استطاعت ہو، اس کے بقدر تدبیریں کرنی چاہیے ، ظلم کو خاموشی سے سہنا ظلم کی توسیع واشاعت میں مدد کرنا ہے ، اس لیے ہر ممکن اس کو دور کرنے کی سوچنا چاہیے ، احتجاج ، دھرنے ،جلسے، جلوس ، مختلف تنظیموں سے اتحاد اور بلند وبالا ایوانوں تک اپنی بات پہونچا نے کے نت نئے طریقوں کی تلاش، یہ تدبیر کا ہی حصہ ہیں، اپنے مطالبات منوانے کا ذریعہ ہیں، احوال کو صحیح سمت اور رخ دینے کی جد وجہد ہے ،اس لیے ہر سطح پر اس کام کو کرنا چاہیے ، مل کر کرنا چاہیے، تحفظات اور ذاتی مفادات سے اوپر اٹھ کر کرنا چاہیے، اس کام کے لیے تعاون کا میدان وسیع ہے اور مشترکہ نکات پر ہر مذہب ، ہر مسلک اور ہر مکتب فکر کے لوگوں کو جوڑا جا سکتا ہے ، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے نفقۂ مطلقہ کے معاملے میں سب کو جوڑ کر تحریک چلائی تھی تو کامیابی قدم بوس ہوئی ، اسی نہج پر مفکر اسلام حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی ؒ کی قیادت میں ’’دین ودستور بچاؤ‘‘ تحریک زوروں پر چلی، اس کے بھی مفید اثرات سامنے آئے اور اقلیتوں کو اپنے دین اور دستور کے اعتبار سے اس وقت جن مسائل کا سامنا ہے ، اس سے باہر نکلنے کے مواقع پیدا ہوئے ۔
 اتحاد میں بڑی طاقت ہے بکھرے ہوئے تارے متحد ہوتے ہیں تو خورشید مبیں بننے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں؛ اس لیے ہمیں مختلف مذاہب ، مکاتب فکر اور مسالک کو متحد کرکے ایک لڑی میں پرونا چاہیے اور انہیں ٹوٹنے سے بچانا چاہیے، وقتی مصالح اور فروعی اختلافات کو نظر انداز کرکے ملک وملت کی سر بلندی دستور کی بقاوتحفظ کے لیے آگے آنا چاہیے ۔ 
 اس ساری جد وجہد میں ہمیں کامیابی ملے، اس کے لیے اللہ سے رجوع کرناانتہائی ضروری ہے ، فیصلے اللہ ہی کے چلتے ہیں اور لوگوں کے قلوب دوسری چیزوں کی طرح اسی کے دست قدرت میں ہیں، بندے کی نگاہ اسباب پر ہوتی ہے؛ کیونکہ اسے سبب اختیار کرنے کا مکلف بنایا گیا ہے، لیکن اللہ مسبب الاسباب ہے، قادر مطلق ہے، وہ اس پر قادر ہے کہ سارے احوال کے مخالف ہونے کے با وجود وہ اپنے ماننے والوں کو فوز وفلاح سے سر فراز فرما دے ، وہ چاہتا ہے تو اسباب دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں، آگ حضرت ابراہیمؑ پر ٹھنڈی ہو جاتی ہے، دریائے نیل حضرت موسیٰ ؑ اور نبی اسرائیلؑ کو راستہ دے دیتا ہے ، چھری حضرت اسماعیل کے حلقوم پر اُچٹ جاتی ہے اور ان کا بال بھی بیکا نہیں ہوتا ، بدر کے تین سو تیرہ مسلمان ہزار کفار پر بھاری پڑ جاتے ہیں، یہ سب رجوع الی اللہ کا ہی نتیجہ ہے ۔
 یاد ہوگا کہ بدر میں چھوٹی سی نفری کو میدان میں لے جا کر آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑا کر دیا اور پھر سجدے میں گر گئے ، مانگنے لگے ، مانگتے رہے ، روتے رہے ، گڑگڑا تے رہے اور بالآخر بدر میں فتح وکامرانی کا مژدہ اللہ رب العزت نے پہلے ہی سنا دیا ، اور مسلمان جماعتِ کثیر پر غالب آگیے ۔ اس لیے آج جن حالات سے ہم گذر رہے ہیں، اس میں مثبت تدبیروں کے ساتھ آہ سحر گاہی اور دعائے نیم شبی کی بھی ضرورت ہے ، جس میں مسلمان دن بدن پیچھے چلے جا رہے ہیں، ایک طبقے نے دعا کو دل کی تسلی کا ذریعہ کہہ کر اس کی نا قدری کی ہے اور دوسرا طبقہ اس ہتھیار کی کاٹ سے نا واقف ہے ، حالانکہ یہ مؤمن کا اصل ہتھیار ہے اور ایسا کار گر ہے کہ قضا وقدر کے فیصلے بھی اس سے بدل جا تے ہیں، اللہ رب العزت کا ارشاد ہے کہ تم مجھ سے مانگو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا ، دعا ؤں میں تضرع ہونا چاہیے، مانگنے کا سلیقہ ہونا چاہیے ، نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر درودوں کا التزام ہونا چاہیے۔ 
واقعہ یہ ہے کہ ہمیں مانگنے کا سلیقہ بھی نہیں آتا ، ہم جو مانگ رہے ہیں، اس کے بارے میں بھی نہیں جانتے کہ کیا مانگ رہے ہیں، ہم دعائیں پڑھتے ہیں، مانگتے نہیں ، پڑھنے کے اپنے فوائد ہیں، اس سے انکار نہیں ، بھلا دعائے ماثورہ یعنی قرآن واحادیث کی دعاؤں کے الفاظ میں جو نورانیت ہے ، جواثر ہے، اس سے کس کو انکار ہو سکتا ہے ، لیکن دعا کی قبولیت کے لیے دل کی کیفیت بھی مطلوب ہے ، تاکہ بندے کی عاجزی در ماندگی ، کسمپرسی بے کسی اور بے بسی کا اللہ کے سامنے اظہار ہو ، یہ اظہارِ عجز وبندگی اللہ کو بہت پسند ہے اور اس کو دیکھ کر رحمت خداوندی جوش میں آ جاتی ہے اور بندہ اپنے مقصود ومطلوب کو پا لیتا ہے ۔ 
حضرت ذو النون مصری ؒ کا مشہور واقعہ ہے کہ کسی نے ان سے اسم ذات دریافت کیا ، مشہور ہے کہ اسم ذات کے حوالے سے جو دعا کی جاتی ہے مقبول ہوتی ہے، حضرت ذو النون مصری ؒ نے اس شخص کو اسم ذات نہیں بتایا ، فرمایا : رات اندھیری ہو ، دریا میں طغیانی ہو ، موج بلا خیز ہو اور تمہاری کشتی بھنور میں پھنس کر ٹوٹ چکی ہو ، تم کشتی کے ایک تختے کو پکڑ کر اپنی زندگی کی بقا کی آخری لڑائی لڑ رہے ہو ، اس نا امیدی اور بے بسی کی حالت میں جس نام سے اللہ کو پکاروگے، وہی اسمِ ذات ہے، مطلب یہ ہے کہ کیفیت اصل ہے، جن حالات کا اوپر ذکر کیا گیا ، اس حالت میں اللہ سے مانگنے میں جو خشوع، خضوع، تضرع، الحاح ہوگا، اس کا تصور وہی شخص کر سکتا ہے، جس کو کبھی ان حالات سے سابقہ پڑا ہو ۔
 ایک صاحب نے اپنی آپ بیتی سنائی کہ افریقہ کے جنگلی علاقہ میں گاڑی کا تیل ختم ہو گیا ، پٹرول پمپ بیس کیلو میٹر دور اور جیب بھی پیسے سے خالی ، ہر دم جان کے جانے کا خطرہ ،فضائل اعمال میں سن رکھا تھا کہ ڈاکو نے ایک شخص کو گھیر لیا ، اس نے نماز کے لیے مہلت مانگی ، نماز کے لیے کھڑا ہوا اور قرأت ’’اَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاہُ‘‘ کی شروع کر دیا، اللہ نے ’رجال غیب‘‘ بھیج کر اس کی مدد کی اور ڈاکو مارا گیا ، پڑھا بھی تھا ، سنا بھی تھا، لیکن یقین ویسا نہیں تھا ، جیسا چاہیے تھا ، اب جو یہ موقع آیا تو دل کی کیفیت یقین کے مرحلے تک پہونچ گئی ، وضو، نماز کا موقع نہیں تھا ، آیت کریمہ کا ورد شروع کیا اور اللہ نے اس جنگل میں رات کی تاریکی میں ’’رجال‘‘ غیب بھیج دیا ، اس کی گاڑی وہ تیس کیلو میٹر کھینچ کر لے گیا، گاڑی پٹرول پمپ پر لگی تو ایک دوسرے نے تیل کے روپے پٹرول پمپ والے کے حوالے کر دیا ، خدائی نصرت اور الٰہی مدد اس طرح آتی ہے ، ضرورت ہے یقین کی اور اللہ کی نصرت پر بھروسے کی ، شاعر نے کہا ہے :
درِ کریم سے سائل کوکیا نہیں ملتا مانگنے کا جو طریقہ ہے اس طرح مانگو

اتوار, دسمبر 24, 2023

نظام زندگی کو درست کریں

نظام زندگی کو درست کریں
اردودنیانیوز۷۲ 
مولانا مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلوار ی شریف، پٹنہ 
===========================================
انسان علمی، سائنسی اور تحقیقی میدان میں آگے بڑھ رہا ہے اور اس نے اپنے علم وعمل سے تسخیر کائنات کے قرآنی نظریہ اور الٰہی فرمان کو سچ کر دکھایا ہے، لیکن اس کے بر عکس دین وشریعت سے دوری نے اس کی ذاتی زندگی کو اجیرن بنا رکھا ہے، خاندان ٹوٹ رہا ہے اور ذہنی سکون چھنتا جا رہا ہے، حالانکہ اللہ رب العزت نے انسانی زندگی میں مرد وعورت کے نکاحی رشتے کو مودت ومحبت اور پر سکون زندگی کا سبب قرار دیا تھا؛ لیکن ہماری بے عملی، بدعملی اور اس رشتے کے احترام کی لازمی اہمیت کے نظر انداز کرنے کی وجہ سے گھر میں سکون وطمانینت جیسی کوئی چیز باقی نہیں رہی، بیش تر گھروں میں خانگی زندگی کو آپسی جھگڑے اور غلط فہمیوں نے بر باد کر رکھا ہے، اس لیے گھر کے نظام کو درست کرنے کی ضرورت ہے، یہ درستگی گھر کو پر سکون بنا نے کے لیے اصول کے درجے میں ہے، ہماری خانگی زندگی کی بے ترتیبی کے اثرات بچوں کی ذہنی نشو ونما پر پڑتے ہیں، ہم نے بچوں کی تربیت کا کام اسکولوں اور کنونٹوں کے ذمہ کر دیا ہے، جہاں اعلیٰ اخلاقی اقدار کے فروغ کا کام تمام ہو چکا ہے، مادہ پرستی نے انہیں ایک صنعتی کار خانہ بنا دیا ہے جہاں نصاب پڑھا دیا جاتا ہے، اقدار نہیں پڑھائے جاتے،ایسے میں ہماری ذمہ داری کافی بڑھ گئی ہے، ہمیں اپنے گھر کے نظام کو چست درست رکھنا ہوگا، اور اس کے لیے ملکی قوانین وضوابط کی طرح کچھ اصولوں کو گھر میں رائج کر نا ہوگا، تاکہ ہماری خانگی زندگی اور گھر یلو نظام دوسروں کے لیے بھی اسوہ اور نمونہ بن سکے اور پر سکون ماحول میں بچے اچھی تربیت پا سکیں،سب سے پہلا کام یہ کرنا ہوگا کہ گھر کا ہر فرد نماز وقت پر ادا کرے،قرآن کریم کی تلاوت کا اہتمام کرے، نماز بندگی، عاجزی، در ماندگی، بے کسی اور بے بسی کے اظہار کا بڑا ذریعہ ہے، نماز کی پابندی سے تواضع اور انکساری پیدا ہوتی ہے اور اپنے کو بڑا سمجھنے کے بجائے اللہ کی بڑائی کا خیال ذہن ودماغ پر جمتا ہے، جو سار ے جھگڑوں کے ختم کرنے کا سبب بنتا ہے، اس لیے کہ جھگڑے اپنی بڑائی کے خیال سے ہی پیدا ہوتے ہیں۔گھر کا ہر فرد کسی نہ کسی درجہ میں اپنے مقام مرتبہ اور حیثیت کے اعتبار سے ’’انا‘‘ کا شکار ہوتا ہے اور اس انانیت کی وجہ سے وہ دوسرے لوگوں کو اپنے سے کم تر سمجھتا ہے، ان کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کرتا ہے، اس لیے معاملہ بگڑتا چلا جاتاہے، یہ بیماری نماز کے ذریعہ ہی ختم ہو سکتی ہے، ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ تواضع اختیار کریں، آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے تواضع کو رفع درجات کا سبب بتایا ہے۔ من تواضع للہ رفعہ اللہ۔
گھر کے ماحول کو خوشگوار بنانے کے لیے برائے مہربانی اور شکریہ کے کلمات کو رواج دینا چاہے اس سے ایک دوسرے کی وقعت دل میں بڑھتی ہے، آتے جاتے سلام کے الفاظ دل کے دروازے ایک دوسرے کے لیے کھولتے ہیں، یہ آداب ملاقات بھی ہے اور لوگوں کے لیے سلامتی کی دعا بھی، گھریلو مسائل جو بھی ہوں انہیں آپس میں ادب واحترام کے ساتھ ایک دوسرے کو منتقل کر نا چاہیے، مار پیٹ، گالی گلوج، لعن طعن سے بچنا چاہیے، عورتوں اور بچوں پر ہاتھ اٹھانا انتہائی غلط حرکت ہے، یہ ہمارے خاندان کے کمزور افراد ہوتے ہیں، اور کمزوروں پر ہاتھ اٹھانا انتہائی بزدلی کی بات ہے، تنبیہ کی گنجائش تو ہے؛ لیکن اس کا اسلوب بھی جارحانہ نہ ہو، اس لیے کہ یہی جارحیت خانگی زندگی کو جو الا مکھی اور آتش فشاں بنا دیتی ہے،خانگی نظام کو ٹھیک رکھنے میں ادب واحترام کے ساتھ خوش سلیقگی کا بھی بڑا عمل دخل ہوتا ہے،خوش سلیقگی یہ ہے کہ جب کوئی بات کرے تو توجہ سے سنی جائے، خواہ وہ بچہ ہی کیوں نہ ہو، اس سے اس کے اندر یہ احساس جاگے گا کہ میری بات توجہ سے سنی گئی اور اسے اہمیت دی گئی، اہمیت کا یہ احساس گھروں میں جو باغیانہ تیور نئی نسلوں میں پیدا ہو رہے ہیں، اسے ختم کر نے میں معاون ومدد گار ہوگا، یہ سلیقہ گھروں میں نظر بھی آئے، اس کا طریقہ یہ ہے کہ گھر کا ہر فرد اپنے ذمہ لازم کر لے کہ جو چیز جہاں سے اٹھائے گا، وہیں رکھے گا، دروازہ اور کھڑکی کھولا ہے تو ضرورت پوری ہونے کے بعد اسے بند بھی کرے گا، رات کو بارہ بجے کے بعد کوئی جاگا نہیں رہے گا، فضول گفتگو نہیں کرے گا، رات کے اس حصہ میں وہاٹس ایپ اور دوسرے سوشل میڈیا ذرائع کا استعمال بھی نہیں کرے گا، یہ پابندی آپسی مجلسی گفتگو کے وقت بھی جاری رہے گی۔

ہفتہ, دسمبر 23, 2023

نماز کی اہمیت اور ہمارے حالات

نماز کی اہمیت اور ہمارے حالات 
Urduduniyanews72 
🖋️ محمد فرمان الہدیٰ فرمان 

نماز دینِ اِسلام کی اہم تعلیمات میں سے ایک ہے اور اس کی اہمیت کو ہماری اسلامی تعلیمات کی روشنی میں نہایت بلند مقام دیا گیا ہے۔ نماز ایک انسان کی روحانیت کو بڑھانے اور اس کی معاشرتی زندگی کو بہتر بنانے کا ذریعہ ہے۔ نماز کفر اور ایمان کے درمیان ایک دیوار ہے ۔نماز اللہ سے قریب ہونے کا ذریعہ ہے ۔نماز مومن کی معراج ہے ۔نماز جنت کی کنجی ہے ۔ایمان کے بعد نماز ہی کا درجہ ہے اور قرآن کریم میں کئی جگہ نماز کی ادائیگی کا حکم آیا ہے۔ نماز کی اہمیت میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ اللہ کی عبادت کا ذریعہ ہے اور اس سے توحید (اللہ کی واحدنیت) کا اظہار ہوتا ہے۔ احادیث میں ہے کہ بے شک قیامت کے روز بندے کے اعمال میں سے سب سے پہلے نماز کا حساب ہوگا۔
روز محشر کہ جانگدازبود
اول پرسش نماز بود
پس اگر اس کی نمازٹھیک نکلی تو کامیاب رہا اور بامراد ہوگا اور اگر نماز خراب نکلی تو نقصان میں پڑے گا اور کامیابی سے محروم ہوگا۔ جہاں بھی اللہ نے نیک بندوں کا ذکر کیا ہے وہاں سب سے پہلے نماز کا ذکر ہے " میرے نیک بندے نماز پڑھتے نہیں نماز قائم کرتے ہیں" (اور کسی چیز کو قائم کرنا یہ ہے کہ اسے اس کا پورا حق دے دیا جائے) نماز کو نماز کا پورا حق دینے کا مطلب یہ ہے کہ نماز مقررہ اوقات میں ادا کیا جائے، نماز میں خشوع وخضوع پیدا کرنے کی کوشش کی جائے، نماز کو اطمینان سے ادا کیا جائے وغیرہ وغیرہ۔ نماز کی اہمیت میں یہ بھی شامل ہوتا ہے کہ انسان اپنی نیت کو صاف رکھے اور صرف اللہ کے لئے نماز قائم رکھے۔ نماز کے بہت سارے فوائد ہیں۔ جیسے:نماز کی پابندی روحانی تعزیت فراہم کرتی ہے اور انسان کو اللہ کے قریبی ہونے کا احساس دلاتی ہے۔ نماز کی پابندی سے انسان کو دنیا و آخرت دونوں میں کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ نماز کی پابندی انسان کو سادگی اور تواضع کی طرف لے جاتی ہے اور اسے دنیا کے فتنے، نفس کی اطاعت سے بچاتی ہے۔ نماز کی پابندی سے انسان کی دنیاوی زندگی میں سکون و اطمینان پیدا ہوتا ہے۔ نماز انسان کو دنیا کے تناؤ اور فشاروں سے دور رکھتی ہے اور دل کو امن و محبت کی طرف منتقل کرتی ہے۔ نماز کی پابندی انسان کو روحانی تربیت دیتی ہے اور ان کی نیک عادات کو بڑھاتی ہے. اس سے ان کی معاشرتی اخلاقی زندگی میں بہتری آتی ہے۔ نماز کی مداومت سے انسان کی ذہانت اور فہم میں افزائش ہوتی ہے، اور وہ زندگی کے مختلف پہلوؤں کو بہتری سے سمجھتا ہے۔  جہاں نماز پڑھنے والوں کے لئے بہت سی انعامات کی بشارت ہے، وہیں اس کو چھوڑنے، سستی برتنے، اس سے روگردانی کرنے والے کے لئے سزائیں اور وعیدیں بھی ہیں۔ جس میں سب سے بری سزا یہ ہے۔ نبی اکرم ﷺ  نے ارشاد فرمایا: "جو جان بوجھ کر ایک نماز چھوڑ تا ہے، اس کا نام جہنم کےاس دروازے پر لکھ دیا جاتا ہے جس سے وہ داخل ہوگا" دوسری سب سے بڑی سزا جو مجھے سمجھ آتی ہے وہ یہ ہے۔ "جس نے بغیر کسی عذر کے فرض نمازیں چھوڑ دی اس کا عمل ضائع ہوگیا" دو سزاؤں کا ذکر میں نے کیا ہے واللہ یہ دو سزاؤں کو لکھتے ہوۓ میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ میں حیران ہوں اتنی بڑی بڑی سزاؤں کے باوجود  ہم مسلمانوں کی صورتحال یہ ہے کے ہم محض حقیر دنیاوی و ذاتی مفادات کی خاطر نمازوں کو یا تو وقت پر ادا نہیں کرتے ہیں اور یا پھر مکمل طور پر اس کو ضائع کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اللہ نے ہمیں ۲۴ گھنٹا (24hrs) دیا ہے دن بھر میں ہمارے پاس ۱۴۴۰ منٹ (1440 minutes) ہوتے ہیں اور ایک نماز ادا کرنے میں ۱۵ (15) منٹ سے زیادہ نہیں لگتا ہے اگر ہم پانچ نمازوں کا حساب کریں تو ۷۵ منٹ (75 minutes) ہوتا ہے اور اگر فیصد (persentage %) میں دیکھا جائے تو ہمارے پاس جتنا وقت ہوتا ہے دن بھر میں اسکا صرف ۵.۲ فیصد ( 5.2%) وقت نماز میں لگتا ہے پھر بھی ہم نماز چھوڑ دیتے ہیں جبکہ ہم اپنے جاب، اپنے کاروبار وغیرہ  میں دن بھر کا ۴۰ سے ۵۰ فیصد (40to 50%) وقت لگا دیتے ہیں لیکن اللہ کے لئے (جس نے ہمیں زندگی دی جو ہمیں کھلا پلا رہا ہے جس نے ہمیں طرح طرح کی نعمتیں عطا فرمائی) ہمارے پاس وقت نہیں ہوتا 
بے شک ہم اپنے وقت کا ۴۰ سے ۵۰ فیصد (40to 50%) وقت اپنے جاب، کاروبار وغیرہ میں لگائیں یہ بھی ضروری ہے۔ لیکن اللہ کا حق بھی تو ادا کریں ۵.۲ فیصد (5.2%) وقت جو نماز میں لگتا ہے وہ  نماز میں بھی لگائیں۔ ابھی کچھ روز قبل کی بات ہے میں کلاس ختم کر کے آ رہا تھا ظہر کا وقت ہو چکا تھا تو میں میٹھن پورہ مسجدمیں نمازظہر  ادا کرنےکے لئےرکا۔ اس دن میں نے جو منظر دیکھا وہ واقعی قابلِ تعریف اور لائق تقلید تھا، ایک زوماٹو ڈیلیوری بوائے (zumato delevery boy) بالکل وقت پر مسجد میں داخل ہوا سامان ایک کونے میں رکھ کر انہوں نے وضو کیا اور با جماعت نمازِ ظُہر ادا کیا۔ میں حیران تھا کہ ہم کتنی آسانی سے یہ کہہ دیتے ہیں کے ہمیں وقت نہیں ملتا نماز کے لئے کیوں کہ ہم جاب، کاروبار وغیرہ میں مشغول رہتے ہیں۔ ہمیں سبق لینے کی ضرورت ہے ان سے، انہیں فوڈ ڈیلیور (food deliver) کرنا تھا پھر بھی انہوں نے نماز با جماعت ادا کیا پھر ہمارے پاس کون سی عذر ہے؟ افسوس صد افسوس اللہ کی دی ہوئ ہر چیز سے فائدہ اٹھاتے ہیں ۔اسی کا کھاتے ہیں اسی کا پیتے ہیں اسی کی دی ہوئ زمین پر چلتے ہیں لیکن اس کی یاد کے لئے ہمارے پاس وقت نہیں ہے 
اللہ  ہمیں ذوق و شوق کے ساتھ نماز ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائےاور ہمیں اپنے مقربین بندوں میں شامل فرماے
آمین یارب العالمین

اللہ اکبر: اللہ سب سے بڑا ہے

اللہ اکبر: اللہ سب سے بڑا ہے
Urduduniyanews72 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ

اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کی تخلیق مٹی سے کی، وہ مٹی جس کو جس قدر اوپر اچھال دیں، وہ زمین پر آکر ہی گرے گا، حضرت آدم علیہ السلام کے بعد بنی نوع انسان کے درمیان توالد وتناسل کا جو سلسلہ چلا اور چلتا آرہا ہے اور قیامت تک چلتا رہے گا، وہ ایک حقیر قطرہ ہے، جو ناپاک بھی ہے اور گھٹیا بھی، اس طرح انسان کی فطرت اور سرشت تو یہی ہے کہ وہ اپنے کو کسی حال میں بڑا نہ سمجھے اور ہر آن، ہرلمحہ اللہ کی بڑائی کا اقرار کرتا رہے، یہ بات اس کی عادت اور فطرت بن جائے اور شیطانی مکر ووساوس سے اس کی زندگی پاک رہے، اس کے لئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ہدایت دی کہ بچہ جب بیدا ہو تو اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کے کلمات کہے جائیں، تاکہ بچے کے دل کے سادے کاغذ پر اللہ کی بڑائی، رسول کی رسالت، نماز وفلاح وکامیابی کی اہمیت اور اللہ کے علاوہ کسی اور کے معبود نہ ہونے کا خیال ثبت ہوجائے، پھر جب بڑا ہو اور اذان کے کلمات سن شعور میں پہونچ کر سنے تو اللہ کی بڑائی اور اس کے معبود مسجود ہونے کے احساس کے ساتھ نماز کے لئے چل پڑے، اللہ سے فلاح وکامرانی طلب کرے اور اعلان کردے کہ اے اللہ! تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں تو ہی سب سے بڑا ہے، جماعت کے کھڑے ہونے کے لئے اقامت میں کہے جانے والے الفاظ اس احساس کو مضبوط اور ان امور پر شعور کو پختہ کرتے ہیں، اٹھتے بیٹھتے نماز میں اللہ اکبر کی تکرار اللہ کی بڑائی کے تصور کو قلب ودماغ میں راسخ کرتا ہے، عیدین کی نماز سے قبل تکبیر تشریق کا ورد، سماجی طورپر اللہ کے سب سے بڑے ہونے کا اعلان، جنازہ کی نماز میں چار تکبیر، دشمن کے چلے جانے  سے  خوش ہونے کے بجائے ذہن میں اللہ کی بڑائی کو راسخ کرنے کا ذریعہ اوراپنے سے بڑے قد وقامت والے جانور کے ذبح کے وقت بھی اللہ اپنی کابڑائی کا خیال بندوں کے دل ودماغ میں باقی رکھنا چاہتے ہیں، مبادا ایسا نہ ہو کہ اپنی بڑائی کا خیال آجائے اور جانور کا گوشت حرام ہوجائے، اس وقت بھی بسم اللہ اللہ اکبر پڑحنے کا حکم اسی وجہ سے ہے کہ تم طاقتور اور قوی نہیں ہو، طاقت ور اور قوی تو صرف اللہ رب العزت ہے اور وہی سب سے بڑا ہے۔اس یقین اور عقیدہ پر استقامت اس قدر ضروری ہے کہ اللہ رب العزت نے ہر اس چیز کو منع کردیا جس سے بڑے ہونے کا شائبہ بھی پیدا ہوتا ہو، اس بنیاد پر لوگوں سے بے رخی برتنے اور زمین پر اکڑ کر چلنے کو منع کیا گیا اور اعلان فرمادیا کہ اللہ تعالیٰ تکبر اور فخر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا (سورۃ لقمان:۸۱)
اپنے کو بڑا سمجھنا اس قدر قبیح ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ہرغرور وتکبر کرنے والے سے پناہ چاہی (سورۃ المومن:۷۲) اللہ رب العزت نے یہ بھی اعلان کیا کہ جو لوگ میری بندگی سے تکبر کرتے ہیں وہ جلد ہی رسوا وذلیل ہوکر جہنم میں داخل ہوں گے، یہاں پر ہمیں حضرت لقمان علیہ السلام کی وہ نصیحت بھی یاد رکھنی چاہئے جسے اللہ رب العزت نے سورۃ لقمان آیت نمبر اٹھارہ میں ذکر کیا ہے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ لوگوں سے تکبر کے ساتھ اپنا چہرہ مت پھیرنا اور زمین پر اکڑ کر مت چلنا، اللہ اکڑ کر چلنے والے متکبر کو پسند نہیں کرتا، اپنی رفتار معتدل رکھنا، آواز پست رکھنا، کیوں کہ تمام آوازوں میں سب سے بُری آواز گدھے کی ہے، اسی مفہوم کی ایک دوسری آیت سورۃ بنی اسرائیل میں ہے کہ زمین پر اتراتے ہوئے مت چلا کرو، اس لئے کہ تم اپنے اس عمل کی وجہ سے نہ تو پہاڑ کی بلندی تک پہونچ سکتے ہو اور نہ ہی زمین کو پھاڑ سکتے ہو، یہ کام تمہارے رب کے نزدیک ناپسندیدہ ہے۔
اونچی آواز سے بولنا، زمین پر اکڑ کر چلنا اورٹخنہ سے نیچے پاجامہ اور ازار کا رکھنا تکبر کی علامت کی وجہ سے ممنوعات میں داخل کیا گیا ہے، جہاں کبر نہیں پایا جائے وہاں زور سے بولنے کی اجازت دی گئی،اس فہرست میں صرف مظلوم آتا ہے، ورنہ اللہ کے نزدیک زور سے بولنا بھی ایک نا پسندیدہ عمل ہے
 تکبر کرنے والے کے لیے اللہ رب العزت نے مختلف قسم کے عذاب رکھے ہیں، ترمذی شریف کی ایک روایت میں ہے کہ قیامت کے دن تکبر کرنے والوں کو چھوٹی چیونٹیوں کی طرح شکل میں جمع کیا جائے گا، ذلت ورسوائی ان پر مسلط ہوگی، جہنم کی طرف ان کو لے جایا جائے گا، آگ ان کو گھیرلے گی اور جہنمیوں کا پیپ وغیرہ اسے پینے کو دیا جائے گا۔
 اسی طرح بخاری ومسلم کی ایک روایت میں ایک ایسے شخص کا واقعہ نقل کیا گیا ہے جو تکبر کی وجہ سے کپڑا گھسیٹ کر زمین پر چلتا تھا، اسے اللہ رب العزت نے زمین میں دھنسا دیا اور وہ مسلسل دھنستا چلا جا رہا ہے اور قیامت تک دھنستاہی رہے گا، ایک دوسری روایت میں چند لوگوں کے ساتھ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دوزخیوں کی فہرست میں متکبرین کو بھی شامل کیا ہے، ایک جگہ ارشاد فرمایا: حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کی روایت ہے کہ جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر کبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔
 تکبر نفس کا دھوکہ ہے جو انسان کو سرکشی اوردوسروں کو حقیر سمجھنے پر ابھارتا ہے اس کا یہ عمل اس قدر دراز ہوتا ہے کہ اس کا نام متکبرین میں لکھا جاتا ہے اور وہ جہنم کا مستحق ہوجاتا ہے، یہ سخت عذاب اس لیے ہے کہ تکبر اللہ کی چادر ہے، ساری بڑائی اور عظمتیں اسی کے لیے سزا وار ہیں، اب اگر کوئی اللہ کی چادر میں گھسنے کی کوشش کرے گا تو اللہ اس کو ذلیل وخوار اور رسوا دنیا میں کر دیں گے، اور آخرت میں جہنم کے بھڑکتے ہوئے شعلے اس کے منتظر ہیں۔
 اللہ ورسول کے ساتھ کبر تو یہ ہے کہ اللہ کی بندگی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سمع وطاعت سے جان بوجھ کر گریز اور سمعنا واطعنا کی جگہ بنی اسرائیل کی طرح سمعنا وعصینا کہے، یعنی سن تولیا، لیکن اس کے خلاف کریں گے، مان کر نہیں دیں گے، اس کے علاوہ کبر کی ایک شکل عہدے، منصب، دولت اور اثر ورسوخ پر بھی اترانا ہوا کرتا ہے اور اس اترانے کی بنیادی وجہ وہی عجب اور اپنے کو بڑا سمجھنا ہوتا ہے ایسے لوگوں کے پاس کبر دوڑ کر جاتا ہے اور وہ اپنے کو بڑا سمجھنے کے خبط میں مبتلا ہوجاتا ہے، اس کے چال، چلن بود وباش، نشست وبرخواست اور گفتگو تک میں کبر کے اثرات وافر مقدار میں پیدا ہو جاتے ہیں، اور وہ بھول جاتا ہے کہ تکبر نے عزازیل کو ذلیل ورسوا کر دیا اور لعنت کا طوق اس کے گلے میں پڑگیا۔اسے اپنے ”میں“ کی فکر ہوتی ہے، مجھ سے کیوں نہیں پوچھا گیا، میرا خیال کیوں نہیں رکھا گیا، میری رائے کیوں نہیں مانی گئی، یہ سب تکبر کے ہی مختلف مظاہر ہیں۔
تکبر سے ملتی جلتی ایک چیز عجب ہوتی ہے، تکبر میں اپنے کو بڑا دوسرے کو حقیر سمجھا جاتا ہے، عجب میں آدمی خود پسندی میں مبتلا ہوجاتاہے، اپنے کاموں کی خود تحسین کرتا ہے، پیٹھ تھپتھپاتا ہے، کہنا چاہیے کہ عجب، کبر سے الگ ہونے کے باوجود کبر کی پہلی منزل ہے، کیوں کہ خود پسندی خود ستائی کے بعد وہ مرحلہ آجاتا ہے، جس میں اپنا سب کچھ بڑھیا اور دوسرے کا کم تر نظر آنے لگتا ہے، یہی کبر ہے، حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نے لکھا ہے کہ تواضع اگر ریا اور دکھاوے کے لیے ہو تو وہ بھی کبر ہے، کیوں کہ وہ تواضع اس لیے اختیار کرتا ہے کہ دنیا اسے متواضع اور منکسر المزاج کہے، حالاں کہ وہ حقیقتا ایسا نہیں ہے، وہ بازی گروں کی طرح لوگوں کو دھوکہ دیتا ہے، اس کا یہ عمل کبر کے ساتھ دھوکہ دہی سے مل کر اور بھی قابل تعزیر وسزا ہوجاتا ہے، پروفیسر لطف الرحمن کا یہ شعر بے ساختہ قلم پر آگیا۔
عجب طرز انا ہے یہ خاکساری بھی

قریب سے جو دیکھا تو خدا نکلا
 یا پھر یہ شعر
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ

دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا
اس موقع سے سورۃ والنجم کی اس آیت (۲۳) کو ضرور یاد رکھنا چاہیے، جس میں اللہ رب العزت نے واضح طور پر ارشاد فرما دیا ہے کہ تم اپنے کو مقدس نہ سمجھا کرو، تقویٰ والوں کواللہ خوب جانتا ہے، سورۃ کہف میں ہے کہ وہ اس خیال میں ہیں کہ اچھا کام کر رہے ہیں۔
 تکبر کے اس مرض کا واحد علاج حقیقتا تواضع انکساری ہے جو صرف اللہ کے لیے کیا گیا ہو، آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔ من تواضع للہ رفعہ اللہ، جو اللہ کے لیے جھکا اللہ اس کے درجات بلند کرتے ہیں، یہاں ”للہ“ کا لفظ خاص طور سے قابل غور ہے کہ یہ تواضع اور انکساری صرف اللہ کے لیے ہوکسی اور کے ڈر اور خوف سے نہ ہو، دنیاوی افسران، حاکموں اور قائدین کے ڈر سے تواضع اختیار کرنا مفید مطلب نہیں اور نہ ہی اس سے کبر ختم ہوگا، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کا خلاصہ یہ ہے کہ تواضع، جھکنا، رفعت وبلندی کے حصول کا قدرتی اصول ہے، اونچی سڑک پر چڑھنے کے لیے کمر جھکا کر چڑھنا ضروری ہے، یہی حال پہاڑ پر چڑھنے والوں کا ہوتا ہے،سائیکل اوپر چڑھائی ہو تو جھک کر پیڈل مارنا ہوتا ہے اور نیچی سڑک پر آنا ہو، پہاڑ سے اتر نا ہو، سائکل کو ڈھلان میں لے جانا ہو تو غیر متوازن اور ان بیلنس ہونے کے خوف سے اکڑ کر اُترا جاتا ہے، پیڈل ماری جاتی ہے، اگر اترنے والا ایسا نہ کرے تو وہ غیر متوازن ہو کر کھائی میں جا گرے گا۔
ہم سب کو قدرت کے اس نظام کو سمجھنا چاہیے، اللہ کی بڑائی کے علاوہ اپنے نفس کی ساری برائیوں کو ختم کرنا ہوگا، اللہ کی بڑائی کا خیال بندوں کو آپس میں احترامِ آدمیت سکھاتا ہے اور وہ جان لیتا ہے کہ تمام انسان آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے بنائے گیے تھے، اللہ رب العزت ہم سب کو اس احساس کے ساتھ زندگی گذارنے کی توفیق دے کہ اللہ ہی سب سے بڑا ہے اور ہم سب اللہ کے بندے ہیں اور اللہ رب العزت کے نزدیک ہمارا شمار فقیروں اور محتاجوں میں ہے۔

عالم اسلام کے مشہور بزرگ

حضرت مولانا ابرار الحق صاحب حقی  ؒ
Urduduniyanews72 
مولانا مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلوار ی شریف، پٹنہ 
===========================================
 عالم اسلام کے مشہور بزرگ، روحانی پیشوا، داعی قرآن وسنت، حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کے سلسلۃ الذہب کی آخری کڑی بھی محی السنۃ حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب نے 9 ربیع الثانی 1426ھ کی شب 16مئی 2006ء کو تقریبا نو بجے ہر دوئی میں داعی اجل کو لبیک کہا، ان کی عمر نوے سال تھی، اس طرح تزکیہ وتربیت کے ایک عہد کا خاتمہ ہوگیا، ایک ایسا عہد جو سلوک و تصوف تعلیم و تربیت کے اعتبار سے زریں عہد تھا۔
حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب قدس سرہ سے میری پہلی ملاقات دور طالب علمی میں ہوئی تھی، ملاقات کیا؟ کہنا چاہئے کہ میں نے دیکھا تھا، مجلس میں بیٹھا تھا، میں ان دنوں دارالعلوم مئو کا طالب علم تھا مدرسہ بیت العلوم سرائے میر ضلع اعظم گڑھ میں جلسہ تھا، بڑے بڑے علماء اور اکابر کے آنے کی خبر تھی، یاد پڑتا ہے کہ مولانا نظیر عالم ندوی بن مولا نا سید محمد شمس الحق صاحب ؒ استاذ مدرسہ احمد یہ ابابکر پوران دنوں وہیں زیر تعلیم تھے، ان کے خطوط میرے پاس آتے رہتے تھے، اس لئے جلسہ کے بہانے مدرسہ بیت العلوم پہنچا، تقریر کیا ہوئی تھی؟ اب تو وہ یاد نہیں حضرت مولانا کے حوالہ سے بس اتنی سی بات یاد ہے کہ جب اذان کا وقت ہوا اور موذن نے اذان دی تو آپ بہت خفا ہوئے، ہم جیسوں کے لیے خفگی کی وجہ نا معلوم تھی، بعد میں لوگوں نے بتایا کہ حضرت کلمات اذان میں بے جا کھینچ تان کو پسند نہیں کرتے، بلکہ کھنچنے کی جو حد حروف مدہ اور غیر مدہ میں متعین ہے اس کی پابندی پر اصرار کرتے ہیں اور راگ سے جو اذان دی جاتی ہے اسے خلاف سنت قرار دیتے ہیں اور یہی خفگی کی وجہ ہے، ہندوستان کی جتنی مسجدوں میں اس وقت تک اذان سننے کا موقع ملا تھا اس میں ہر جگہ کھینچ تان کاہی طریقہ رائج تھا۔ اس لئے یہ بات عجیب وغریب لگی ہم نے حیرت کے کانوں سے سنا، اور دل پر ان کے متبع سنت کا ایک نقش قائم ہوا، حضرت کی بات عقلی اور نقلی طور بھی صحیح معلوم ہوئی۔
 پھر زمانہ گزر گیا، میں دارالعلوم دیوبند چلا گیا، پھر وہاں سے لوٹ کر درس و تدریس میں لگ گیا۔ حضرت کے خدام اور خلفاء سے ملاقاتیں ہوتی رہیں ان کی شفقت و محبت سے بہرہ ور رہا خصوصا حضرت مولانا عبد المنان صاحب بانی و ناظم مدرسہ امدادیہ اشرفیہ راجو پٹی ضلع سیتا مڑھی سے بار بار ملاقات رہی، اور ان کی توجہات نے دل و دماغ میں ایک مقام بنالیا۔
غالبا 1995ء میں میرا سفر عمرہ کا ہوا، حضرت بھی مکہ المکرمہ میں مقیم تھے، اور بعد نماز عصر مجلس لگا کرتی تھی۔ کئی روز حاضری ہوئی، چپکے سے پیچھے بیٹھ جاتا، گفتگو سنتا، دل و دماغ منور ہوتے اور خاموشی سے اٹھ کر چلا آتا، کبھی اپنے کو متعارف کرنے کا خیال نہیں آیا، بزرگوں کی مجلس میں بولنے کی عادت بھی نہیں رہی، اور نہ کبھی ضرورت محسوس ہوئی، سو ہر مجلس میں چپ چپ ساہی بیٹھا رہا کبھی لب کھولنے کی نوبت نہیں آئی۔
 حضرت سے آخری ملاقات ممبئی میں ہوئی تھی سلیم بھائی مرحوم اور اشفاق بھائی کی دعوت پر مکاتب کے جائزہ پروگرام میں شرکت کے لئے میری حاضری ہوئی تھی، میں ان دنوں مدرسہ احمد یہ ابا بکر پو ر ویشالی میں تھا اور وہیں سے جانا ہوا تھا۔ امارت شرعیہ کی نمائندگی مفتی سہیل احمد قاسمی کر رہے تھے، اس پورے پروگرام کا تاریخی لمحہ وہ تھا، جب حضرت مولانا وہیل چیئر پر خطاب کے لئے تشریف لائے طویل بیماری سے اٹھے تھے، اس لئے جسم پر فطری ضعف و نقاہت کا غلبہ تھا۔ اس کے باوجود آدھے گھنٹے سے زیادہ آپ نے خطاب کیا۔ قرآن کریم صحت کے ساتھ پڑھا اور پڑھایا جائے، اس کے وہ بڑے محرک اور داعی تھے، اسی نسبت سے تفصیلی خطاب ہوا، پوری تقریر تو یاد نہیں رہی، بس اتنا یاد ہے کہ حضرت نے بڑے سوز و کرب کے ساتھ ارشاد فرمایا کہ آج مدارس والے مالی بحران کا شکوہ کرتے ہیں، میرے پاس بھی بڑی تعداد میں ایسے لوگ آتے ہیں، جب بھی میرے سامنے یہ تذکرہ آتا ہے تو معا ًیہ خیال آتا ہے کہ وہاں قرآن کریم کی تعلیم صحت کے ساتھ نہیں ہو پارہی ہے، قرآن کریم پر محنت کیا جائے اور اسے صحت کے ساتھ پڑھایا جائے، اور پڑھا جائے تو ادارہ میں مالی بحران نہیں ہوسکتا، آپ نے فرمایا کہ برسوں میں نے اس کا تجربہ کیا ہے اور اس تجربہ کی بنیاد پر آپ کے سامنے بڑے اعتماد سے یہ کہہ رہا ہوں۔
 واقعہ یہ ہے کہ حضرت مولانا نے اسے اپنی زندگی کا مشن بنالیا تھا، آج نورانی قاعدہ کے ذریعہ تصحیح قرآن کی جو ملک گیر تحریک چل رہی ہے، اور جگہ جگہ مرکزی دفتر امارت شرعیہ کے ذریعہ جو کیمپ لگائے جا رہے ہیں اور جہاں کثیر تعداد میں معلمین تربیت کے لئے حاضر ہوتے ہیں، یہ سب اسی شمع فروزاں کی دین ہے، چراغ سے چراغ جلتے گئے، اور روشنی پھیلتی گئی، پہلے یہ حضرت مولانا کی آواز تھی، اور اب پورے ملک کے خدام قرآن کی آواز بن گئی ہے۔
 مولانا کو محی السنہ کہا جاتا ہے واقعہ یہ ہے کہ حضرت تھانوی کے مے خانہ کے اس درویش پر یہ لفظ سب سے زیادہ صادق آتا ہے، الفاظ کی معنویت صد فی صد دیکھنا ہو تو محی السنہ کی حیثیت سے حضرت کی ذات گرامی کو دیکھنا چاہئے، ہر کام میں سنت کا اس قدر اہتمام میری نگاہ میں کسی اورکے یہاں دیکھنے کو نہیں ملا۔ حضرت مولانا فطرتاً نفاست پسند تھے، یہ نفاست، لباس، وضع قطع، چال ڈھال ہی میں نہیں مسجد و مدرستہ کی تعمیرات تک میں نظر آتی ہے، وہ شعائر اسلام کو خوبصورت دیکھنا پسند کرتے تھے، علماء کی قدردانی ان کی فطرت تھی، ظاہری وضع قطع پر بھی خاصہ دھیان دیتے تھے، اصول کی شدت کیساتھ پابندی حضرت تھانوی کے یہاں سے ورثہ میں ملی تھی، پوری زندگی اسے برتتے رہے، اصول کی پابندی میں جو سہولت ہوتی ہے، اسے وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں، جنہوں نے اس کا مزہ چکھا ہے، کچھ لوگ اس شدت پسندی پراعتراض کیا کرتے ہیں لیکن جس نے اس کا مزہ ہی نہ چکھا ہو اس کی تعریف کیا، تنقید کیا؟ حضرت شاہ صاحب کی ایک بڑی خصوصیت وقت کی پابندی تھی، کس وقت کون سا کام کرنا ہے؟ کس سے ملنا ہے اور کب ملنا ہے، سارے اوقات منضبط تھے، اس پابندی سے وقت کی حفاظت ہوتی تھی، اور اسی وجہ سے ان کے وقت میں بڑی برکت تھی، وہ تواضع اور انکساری کے پتلا تھے، ان کے تقوی کی قسمیں کھائی جاتی تھیں، اور وہ مدح وذم سے بے نیاز اپنے کام میں مشغول رہتے تھے، انہیں نہ ستائش کی تمنا تھی نہ صلے کی پرواہ، انہوں نے خدا کی رضا کو اپنا مقصد بنالیا تھا اور یہ مقصد سارے امور پر حاوی ہو گیا تھا۔
بہر کیف ہر نفس کو آخر فنا ہے حضرت مولانا بھی چلے گئے، ہمارے لئے اتباع سنت، قرآن کریم صحت کے ساتھ پڑھنے پڑھانے کی تحریک چھوڑ گئے، ایک اور چیز جس پر حضرت شاہ صاحب زور دیتے تھے وہ نہی عن المنکر ہے، فرماتے تھے امر بالمعروف کی تحریک تو چل پڑی ہے تبلیغی جماعت اس کام کو اچھے سے کر رہی ہے ضرورت ہے کہ نہی عن المنکر کو بھی تحریکی طور پر شروع کیا جائے، اور منکرات سے بچنے کا مزاج بنایا جائے، اللہ کرے ہم ان کاموں کی طرف توجہ دے سکیں، یہی حضرت شاہ صاحب کو بہترین خراج عقیدت ہوگا۔

دفعہ 370 اور 35(A)کا خاتمہ

دفعہ 370 اور 35(A)کا خاتمہ
Urduduniyanews72 
مولانا مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلوار ی شریف، پٹنہ 
===========================================
پانچ اگست 2019کو مرکزی حکومت نے کشمیر میں صدر راج کے دوران دفعہ 370اور 35Aہٹانے کا فیصلہ کیا تھا، لداخ اور جموں کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کرکے اسے مرکز کے زیر انتظام کردیا تھا، اس سے وہاں کی عوام میں بے چینی تھی اور اس دفعہ کو رد کرنے کی قانونی حیثیت کو سماج کے مختلف طبقات نے چیلنج کیا تھا، مرکزی حکومت کے اس فیصلے کے خلاف 23درخواستیں عدالت میں د اخل کی گئی تھیں، سپریم کورٹ کی پانچ رکنی بینچ نے جس میں چیف جسٹس ڈی وائی چندر جوڑ، جسٹس سنجے کشن کنول، جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس سنجئے کھنہ شامل تھے،نے اگست 2023سے عرضیوں پر سماعت شروع کئے، سولہ(16)دن میں سماعت مکمل ہوگیا اورعدالت نے 5؍ستمبر 2023کو فیصلہ محفوظ رکھا تھا، 11؍ دسمبر کو عدالت عظمی نے اپنا فیصلہ سنایا اور مرکزی حکومت کے ذریعہ اس کے رد کرنے کو قانونی طور پر درست قرار دیا، اور ریاست کو تقسیم کرکے مرکز کے تحت قرار دینے والے فیصلہ کو بھی صحیح تسلیم کیا، عدالت کے جج صاحبان کا رجحان یہ رہا کہ دفعہ 370اس وقت کے اعتبار سے عارضی انتظام تھا، ریاست کشمیر کے ہندوستان سے انضمام کے بعد اس کی داخلی خود مختاری ختم ہو گئی اور جس طرح دوسری ریاستوں پر ہندوستان کا دستور نافذ ہوتا ہے ویسے ہی وہاں بھی ہوگا، اس طرح جموں کشمیر ریاست کو جو خصوصی درجہ حاصل تھا وہ ختم ہو گیا، ظاہر ہے اس فیصلے پر کشمیری قائدین کی طرف سے منفی تبصرے آنے تھے وہ آئے اور آ رہے ہیں، سب سے سخت لہجہ محبوبہ مفتی کا ہے، جنہوں نے کشمیر میں بھاجپا کی شراکت کے ساتھ حکومت کیا اور جب حکومت گر گئی تو ان کا لہجہ بدل گیا، کشمیری قائدین اپنی جد وجہد جاری رکھنے کی بات کہہ رہے ہیں اور وہ حالات سے مایوس بھی نہیں ہیں، یہ ایک اچھی بات ہے؛ لیکن اب اس دفعہ کی بحالی ممکن نہیں ہے، عدالت کے فیصلے کے مطابق اگر جلد ہی مکمل ریاست کا درجہ بحال ہوجاتا ہے اور اگلے سال 30؍ستمبر تک ریاستی انتخابات ہوجاتے ہیں تو بھی بڑا کام ہوجائے گا۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...