Powered By Blogger

جمعرات, جنوری 04, 2024

غیبت- ایک معاشرتی بیماری

غیبت- ایک معاشرتی بیماری
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ 

 جن گناہوں کے گناہ ہونے کا خیال بھی ہمارے دل ودماغ سے نکل گیا ہے، ان میں غیبت سر فہرست ہے، کسی ایسی  بات کو پیٹھ پیچھے بلا ضرورت بیان کرنا کہ اگر اس کے سامنے بیان کیا جائے تو اسے نا پسند ہو، غیبت کہلاتا ہے، اگر اس کے اندر وہ صفت نہ ہو اور بیان کیا جائے تو یہ تہمت ہے۔ قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے اپنے بھائی کی پیٹھ پیچھے برائی کرنے سے منع کیا ہے اور اس کی کراہت بیان کرنے کے لیے فرمایا کہ کیا تمہیں پسند ہے کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھاؤ، حالاں کہ تم لوگ اس کو پسند نہیں کرتے، اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ معاف کرنے والا مہربان ہے۔ (الحجرات: 12)  اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے غیبت کو زنا سے زیادہ بُرا عمل قرار دیا، کیوں کہ زنا کا گناہ تو بہ سے معاف ہوجاتا ہے، لیکن غیبت کا گناہ اس وقت تک معاف نہیں ہوتا، جب تک جس کی غیبت کیا ہے وہ معاف نہ کردے۔ (طبرانی وبیہقی) ایک موقع سے حضرت عائشہ ؓ نے حضرت صفیہ ؒ کو پست قد کہا تو آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم نے ایسی بات کہہ دی کہ اگر اس کو سمندر کے پانی میں ملا دیا جائے تو پورا پانی بدبودار ہوجائے۔ (ابوداؤد) مسند احمد کی ایک روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا گذر دو قبروں پر ہوا، فرمایا: ان قبر والوں کو عذاب ہو رہا ہے، ان میں سے ایک غیبت کرتا رہتا تھا اور دوسرا پیشاب کے چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا، ایک شخص کے بارے میں مذکور ہے کہ قیامت میں جب نامہئ اعمال کھولا جائے گا تو وہ اپنی نیکیوں کا اندراج اس میں نہیں پائے گا، دریافت کرنے پر اسے اللہ رب العزت کہیں گے کہ تو نے غیبت کرکے اسے ختم کر ڈالاتھا اور ظاہر ہے جب نیکیاں برباد ہو گئیں تو وہ جہنم کا مستحق قرار پائے گا، معراج کی رات حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا گذر ایک ایسے شخص پر ہوا جو مردار کھا رہا تھا، دریافت پر حضرت جبرئیل ؑ نے فرمایا کہ یہ غیبت کرکے لوگوں کا گوشت کھایا کرتا تھا، ایک موقع سے سخت بدبو آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ ان لوگوں کی طرف کی ہوا ہے جو مسلمانوں کی غیبت کرتے تھے۔
 واقعہ یہ ہے کہ آج ہماری کوئی مجلس غیبت سے خالی نہیں ہوتی، صبح صبح آنکھ ملتے ہوئے، چائے کی دوکان پر لوگ پہونچ جاتے ہیں، ایک پیالی چائے پیتے ہیں اور پورے محلے کی ٹوپی، پگڑی اچھال دیتے ہیں، ایک پیالی چائے پر مردار کھانے کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے، اور جب چار میں سے ایک چلاجاتا ہے تو تین مل کر اس کی برائی شروع کردیتا ہے کہ بڑا ہانک رہا تھا، لگتا ہے خود دودھ کا دھویا ہوا ہے، چائے خانہ پر لوگوں کے بارے میں ایسی ایسی باتیں کی جاتی ہیں جو غیبت سے بڑھ کر تہمت تک پہونچ جاتی ہیں، یہی حال گھروں میں عورتوں کا ہے، جہاں دو عورتیں جمع ہوئی، تیسری اور پاس پڑوس کی عورتوں کی بُرائی شروع ہوجاتی ہے، شیطان انسانوں کا کھلا دشمن ہے اس لیے وہ مجلس کو طویل کرتا رہتا ہے تاکہ دیر تک غیبت کا کام ہوتا رہے، اور نامہئ اعمال سیاہ ہوتے رہیں۔
 غیبت کا گناہ جس قدر شدید ہے اسی قدر اس کا سننا بھی گناہ ہے، غیبت کرنے سے کسی بھائی کو نہ روکے تو اللہ رب العزت اسے دنیا وآخرت میں ذلیل کردے گا، اور اگر اس نے غیبت سے روک دیا تو اللہ کی نصرت ومدد دونوں جہان میں اسے حاصل ہوگی، مسند احمد کی ایک روایت میں ہے کہ اگر کوئی شخص غیبت میں جو بُرائی بیان کی جا رہی ہے، اس کامسلمان بھائی ی طرف سے دفاع کرے اور جو عیب نکالا جا رہا ہے اس کی تردید کرے تو اللہ تعالیٰ اسے جہنم سے نجات دے دے گا۔
 غیبت کرنے میں انسان کو مزہ آتا ہے، لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ کھجور کی طرح ہے، حالاں کہ اس کے نقصانات شراب پینے سے زیادہ ہیں، صورت حال یہ ہے کہ ہر آدمی کو دوسرے کی بُرائی نظر آتی ہے اور وہ اس کو مزے لے لے کر بیان کرتا ہے، اور اپنے عیوب سے صرف نظر کرتا رہتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہؓ نے اس کو بیان کیا جو آج مثل اور کہاوت کی طرح معروف ہے کہ اپنے بھائی کی آنکھ کا تنکا تو نظر آتا ہے، لیکن اپنی آنکھ کی شہتیر کا اسے پتہ نہیں چلتا، خوب یاد رکھنا چاہیے کہ جب ہم ایک انگلی کسی کی طرف اٹھاتے ہیں تو بقیہ تین انگلیان اپنی طرف مڑی ہوتی ہیں، یہ بتانے کے لیے تم کیسے ہو؟ اگر آدمی کی نظر اپنے عیوب پر بھی رہے تو وہ دوسروں کی غیبت سے باز رہے گا، بہادر شاہ ظفر کا مشہور شعر ہے۔
نہ تھی حال کی جب ہمیں اپنے خبر رہے دیکھتے اوروں کے عیب وہنر
پڑی اپنی بُرائی پر جو نظر تو نگاہ میں کوئی بُرا نہ رہا
 حضرت ابن عباس ؓ کا مشہور قول ہے کہ جب تم اپنے مسلمان بھائی کے عیب بیان کرنے کا ارادہ کرو تو اپنے عیوب کو یاد کر لو، فقہاء نے یہ بھی لکھا ہے کہ جس طرح کسی انسان کی غیبت حرام ہے اسی طرح بچے اور مجنوں کی غیبت کرنا بھی گناہ کا کام ہے، بچوں کے سامنے غیبت کا بڑا نقصان یہ بھی ہے کہ وہ بھی اپنے گھر میں سن کر دوسروں کی بُرائی بیان کرنا شروع کر دے گا، اور غیبت میں مبتلا ہوجائے گا، جب کہ مجنوں تو اپنے دفاع پر بھی قادر نہیں ہے، اس کا گوشت کھانا بھلا کس طرح جائز ہو سکتا ہے، اسی طرح ذمی اور کافر کی غیبت بھی مکروہ ہے۔
 غیبت کا تعلق صرف زبان سے نہیں ہے،بلکہ اگر کسی نے حرکات وسکنات سے یا کسی کی نقل کرکے اس کی کمزوری اور بُرائی بیان کی تو وہ بھی غیبت ہے، امام غزالی ؒ نے اسے زبان والی غیبت سے بڑی غیبت قرار دیا ہے کیوں کہ دلوں کو مجروح کرنے میں یہ زبان سے زیادہ مؤثر ہے۔
 ایک سوال یہ بھی ہے کہ غیبت انسان کیوں کرتا ہے؟ اس کی مختلف وجوہات ہوتی ہیں، کبھی تو کینہ، کدورت اور غصہ کی آگ ٹھنڈی کرنے اور دل کی بھراس نکالنے کے لئے کینہ، غصہ اور نفرت ہے کی وجہ سے انسان بُرانی شروع کر دیتا ہے، اس طرح اس کے دل کو وقتی راحت مل جاتی ہے، لیکن اس کی وجہ سے جہنم کی آگ اس کا مقدر بن جاتی ہے، کبھی لا یعنی مجلسوں میں بیٹھ کر دوستوں کی ہم نوائی اور ہاں میں ہاں ملانے کی وجہ سے وہ نا دانستہ غیبت کا مرتکب ہوجاتا ہے، پھر بات ہاں، ہوں سے آگے بڑھتی ہے اور وہ بھی مجلس کے تقاضے کے طور پر برائیاں بیان کرنا شروع کر دیتا ہے اور آخرت کی تباہی کا سامان کر لیتا ہے، بعض لوگ اپنے بڑے کے سامنے بُرائی بیان کرکے اس کی سرخروئی کے حصول کی کوشش کرتے ہیں، مقصد اپنے بھائی کو نیچا اور چھوٹا دکھانا ہوتا ہے، ذہن کے کسی گوشے میں یہ بات بھی رہتی ہے کہ آقا کے سامنے بُرائی کرنے سے دوسرا حقیر ہوجائے گا اور میرا قد بڑا ہوجائے گا، پہلے لوگ اپنے کو بڑا کرنے کے لیے خود کو چھوٹی لکیر سے بڑا کر کے پیش کیا کرتے تھے، اب خود کو صلاحیت اور صالحیت میں بڑا بننے کے بجائے اپنے حریف کے قد کو غیبت کر کے چھوٹا کیا جاتاہے، مثال کے طور پر اس کی لکیر کو مٹا کر یعنی بعض بُرائیاں بیان کرکے چھوٹا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، کبھی اپنے کو پاک صاف قرار دینے کی غرض سے بُرائی دوسرے کے سر منڈھ دی جاتی ہے اور معاملہ غیبت سے آگے بڑھ کر تہمت تک جا پہونچتا ہے، کبھی حسد، استہزاء اورمذاق کی وجہ سے بھی غیبت کی جاتی ہے۔
 غیبت کا واحد علاج یہ ہے کہ اپنے عیوب پر نگاہ رہے، اور سوچتا رہے کہ میرے اندر تو خود ہی فلاں فلاں عیب ہے، دوسروں کے بارے میں ا ن عیوب کا تذکرہ کس طرح کروں، اس کے علاوہ اپنے مرے ہوئے بھائی کے گوشت کھانے کا تصور، اور دخول جہنم اور اعمال کے حبط کا استحضار بھی آدمی کو غیبت سے روکنے میں انتہائی مفید ہے، جس کی غیبت کرتا رہا ہے اس سے معافی بھی چاہنی چاہیے، کیوں کہ یہ حقوق العباد میں آتا ہے اور حقوق العباد کی معافی تلافی کے لیے صاحب حق کی معافی بھی ضروری ہے، اب اگر جس کی غیبت کرتا تھا وہ مر چکا ہے تو اس کے لیے دعاء مغفرت کرتا رہے، شاید اس کی تلافی کی اللہ کے یہاں کوئی شکل بن جائے۔
 غیبت کی بعض صورتیں گناہ نہیں، مثلا قاضی کے سامنے گواہی دیتے وقت، ظالم کو ظلم سے روکنے، مسلمانوں کو کسی کے شر سے بچانے، مشورہ لینے والوں کو صحیح مشورہ دینے کی غرض سے اگر اس کے احوال بیان کیے جائیں تو ایسی غیبت ممنوعات کے قبیل سے نہیں ہیں، اسی طرح اگر کسی کے عیب کا ذکر تعارف کے لیے کیا جائے اور تنقیص کا خیال دل میں بالکل نہ ہو تو اس قسم کا تعارف بھی غیبت کے زمرے میں نہیں آئے گا، جیسے اندھے کا تعارف ”اعمیٰ“، بہرے کا تعارف ”اصم“ اور گنجے کا تعارف ”اقرع“ سے کرانا غیبت نہیں ہے، بشرطیکہ یہ اوصاف اس کی تنقیص کے لیے نہ بیان کیے گیے ہوں۔
غیبت کی تباہ کاریاں بے شمار ہیں، اس کی وجہ سے جھگڑے ہوتے ہیں، خاندان ٹوٹتا ہے، اور اچھا پُر سکون ماحول برباد ہو کر رہ جاتا ہے، سارے دوستانہ تعلقات پر غیبت کی ضرب کاری لگتی ہے، اس لیے سماج سے اس معاشرتی بیماری کو ختم کرنا ضروری ہے، اسی میں دنیا وآخرت کی بھلائی ہے۔

بدھ, جنوری 03, 2024

ہمیں کیاہواتھا۔؟

(طنزومزاح) 
Urduduniyanews72 
                          ہمیں کیاہواتھا۔؟
     
           ٭ انس مسرورؔانصاری

مولوی قدرت اللہ جمالی واعظ کہنے کے ساتھ ہی شعر گوئی میں بھی دخل نامعقول رکھتے تھے۔غزل کہتےتو وہ ہزل ہوجاتی۔بزلہ سنجی اُن کی فطرت میں تھی۔حلقہءاحباب خاصاوسیع تھا۔ایک شب کی بات ہے کہ یاردوستوں کی محفل کے وہ دولھابنے بیٹھے دنیابھرکی باتوں سےلطف اندوزہورہےتھےاوراپنی گفت گوسےمحفل  کولالہ زاربنائے ہوئے تھے۔وہ یوں بھی رات کودیرگئے گھرلوٹتے تھے۔بیگم نے ہزاربارانھیں روکاٹوکالیکن‘‘چل اپنی راہ بھٹکنےدےنکتہ چینوں کو’’کے مصداق اُن کے معمولات میں کوئی فرق نھیں آیا۔ 
         اُس رات جب محفل برخاست ہوئی توگھڑی نے گیارہ بجے کااعلان کیا۔مولوی قدرت اللہ جمالی کو ‘‘گیارہ’’نےبری طرح چونکادیا۔وہ پریشان ہوگئے۔فرمانے لگے‘‘آج بیگم کی ڈانٹ سنے بغیرچارہ نھیں،دیکھتے ہی فرمائیں گی ۔‘‘سبحان اللہ !اس بڑھاپےمیں آدھی رات کی آوارہ گردی۔؟آپ باکل سٹھیاگئے ہیں۔’’اورپھرچالیس سالہ قدیم تکیہ کلام‘‘آخرآپ کوکب عقل آئےگی۔؟میں توعاجز آچکی ہوں۔اتنی اتنی دیرتک آخرآپ باہرکیاکرتے ہیں۔؟’’اِدھریہ معاملہ کہ‘‘خاموشی ہزاربلائیں ٹالتی ہے۔ ’’یارلوگوں نے قہقہہ لگایا۔مولوی صاحب نے چھڑی سنبھالی۔ناک پرعینک کودرست کیاجوباربارنیچے سرک آتی تھی۔ڈاڑھی پرہاتھ پھیرا،پیروں کے حوالے جوتے کیے اوردوستوں سے رخصت لی۔محلّہ قریب تھا۔چند گلیاں عبورکرتےہی اپنےپڑوس میں پہنچ گئے۔معلوم ہوا کہ اس طرف کی بجلی غائب ہے۔رات کافی اندھیری  تھی اورچشمہ تین نمبروالاتھا۔صورتِ حال دیکھ کر پریشان ہوگئے۔حالانکہ چندچھوٹی موٹی گلیاں اورپھر
اُن کےمکان تک پہنچانےوالی ایک تنگ اورسُرنگ جیسی گلی کامسئلہ تھا۔ٹارچ بھی نہیں تھی اورموبائیل گھر چھوڑ آئےتھے۔کیامعلوم تھاکہ واپسی پراندھیرے استقبال کریں گے۔ناچار،مرتےکیانہ کرتے۔اعوذباللہ اور بسم اللہ کے بعد سورہ یٰسین شریف کی تلاوت کے ساتھ چھڑی کےسہارےآگےبڑھناشروع کیا۔ہاتھ کوہاتھ نہیں دکھائی دے رہاتھا۔رہ رہ کے وقفہ وقفہ سے باآوازبلند کھانستےاورگلابھی صاف کرتےجارہےتھےکہ مبادااس اندھرے میں سامنے سےآنےوالا کوئی شخص ٹکراگیا توغضب ہوجائےگا۔اس لیےچھڑی کوزمین پرٹھونک ٹھونک کرچل رہےتھے،کیونکہ ایسے موقعوں پرعام طور سےیوں ہوتاہےکہ دوشخص آپس میں ٹکرانے کےبعد بجائےالگ الگ ہونےکےگھتّم گھتّاہوجاتےہیں۔ایک دوسرے  سے لپٹ جاتےہیں اورمثل صادق آتی ہےکہ ‘‘من توشدم تومن شدی من تن شدم توجاں شدی’’مولوی صاحب مرغّن غذاؤں کے استعمال کے باوجود کچھ زیادہ فربہ نہ تھےجیساکہ عام حالات میں ہوتاہے۔زیادہ دراز قد بھی نہ تھے۔سنگل پسلی کےآدمی تھے۔اس اندھیرے میں اگرکسی سےٹکراؤہوجائےتوخداہی حافظ وناصر ہے۔اسی لیے وہ چند سکنڈبعد مستقل مزاجی سے کھانسنے لگتے کہ سامنے سےآنے والا شخص جان لے کہ اُدھرسے بھی کوئی خراماں خراماں رواں دواں ہے۔اُن کویہ بھی خیال آیاکہ سامنے سے آنے والااگربہرہ اور سماعت سے محروم ہواتوپھرکیاہوگا۔؟اُن کی ساری حِسیں جاگ پڑی تھیں۔وہ آہستہ آہستہ چلتے ہوئے کسی ناخوش گوارواقعہ سے محفوظ اپنے مکان کی خاص گلی تک آگئے تھے۔ٹھہرکرچاروں طرف دیکھاتواندھیرا اورخاموشی کے سِواکچھ بھی دکھائی نہ دیا۔سامنے سفرکی آخری گلی تھی ۔ہرچند کہ وہ کمزوراورعمردراز ہوچکے تھے لیکن ڈراورخوف کے نام کی کوئی چیز اُن کے دل میں نہ تھی۔صرف ‘‘سانپ’’ ایک ایسی مخلوق ہے جس سے اُن کی جان جاتی تھی۔اورآخری گلی تک پہنچنے کے بعد پتانہیں کہاں سےاورکیسےاُن کے ذہن میں‘‘سانپ’’رینگ آیا۔اُس گلی میں بھی اندھیراکم نہ تھالیکن روز کئی بارکی آمدورفت کی وجہ سے اُنھیں کافی اندازہ تھا ۔وہ چھڑی کودائیں بائیں لہراتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھےکہ اچانک احساس ہواکہ کوئی نرم نرم چیز بارباراُن کے پیروں کوچھورہی ہے۔وہ سنّاٹے میں آگئے۔بدن کےسارےرونگٹےکھڑےہوگئے‘‘خداجانے کیاہے۔؟کہیں.....!،،اُن کے ذہن میں ‘‘سانپ’’پھنکاریں مارنے لگا۔سرسے پاؤں تک بید کی طرح لرزاٹھے۔ماتھے پرپسینہ آگیا۔اُسی وقت ایک چھچھوندرچنچناتی ہوئی اُن کے قریب سے بھاگی تو مولوی قدرت اللہ جمالی اُچھل پڑے۔چہرے کارنگ بدل گیا۔خیرخداخداکرکےاپنےقدموں کوپھرآگےبڑھایا۔پھرایسالگاکہ کوئی نرم نرم سی چیز پیروں سے لپٹنے کی کوشش کررہی ہے۔جلدی سے پاؤں جھٹک کراضطراری کیفیت میں کئی قدم آگےبڑھ گئے۔بدحواسی میں چھڑی ہاتھ سے چھوٹ گئی۔ہمّت کس کرپھرجوآگےبڑھےتواب کی دائیں پنڈلی میں کوئی چیز لپٹ گئی۔‘‘سانپ’’ذہن سےباہرآ گیااورمولوی قدرت اللہ ایک ہولناک چیخ مارکرگرےاوربے ہوش ہو گئے۔ 
         ْچیخ سن کرگلی کے سارے دروازے چندمنٹ میں کھل گئے۔لوگ باہر نکل پڑے۔‘‘کیا ہوا....کیاہوا......کون ہے۔؟......کیسی آوازتھی۔؟قریب قریب سب کے ہاتھوں میں ٹارچ،لاٹھی،ڈنڈے اورلوہے کی سریاں تھیں جوجس کے ہاتھ لگا،لے کرنکل پڑا۔گلی میں ٹارچ کی روشنی پھیلی تومعلوم ہواکہ یہ تواپنے مولوی قدرت اللہ ہیں۔لوگ ہاتھوں ہاتھ اُٹھاکراُن کوگھرلےگئے۔بسترپرلٹاکر پانی کےچھینٹے دیے گئے۔بارے چند منٹ بعدہی اُنھیں ہوش آگیا۔کچھ دیر تک لیمپ اورٹارچ کی روشنی میں لوگوں کےچہرے تکتے رہے۔پھراُنھیں ایک گلاس ٹھنڈا پانی پلایاگیاتب کہیں اُن کے حواس بجاہوئے۔حیرت سے پوچھا۔‘‘ 
            ‘‘ہمیں کیاہوگیاتھا۔؟’’
       پڑوسیوں کےجانے کےبعداُنھوں نے اپنے چھوٹے بیٹے سے پوچھاجوان کاسرسہلارہاتھا۔ اس نےکہا‘‘یہ توآپ ہی بتاسکیں گےکہ آپ کوکیاہواتھا۔آپ کی ہولناک چیخ اتنی تیزاورخطرناک تھی کہ ہم سب لوگ بلکہ سارامحلّہ سوتے میں اچھل پڑا۔پھرجب ہم صورتِ حال کاجائزہ لینے باہرنکلےتوگلی میں ایک طرف آپ کوبے ہوش پڑاپایا۔آپ کی چھڑی دورپڑی ہوئی تھی۔ایک پیر میں کمربندکا سِراجوپاجامہ کی موری کے اندرہی اندر سے باہرنکل آیاتھا،پیرمیں لپٹاہواتھا۔’’ 
       ‘‘خداکی پناہ۔!میں اندھیرے میں سمجھاکہ خدا نہ  خوستہ میرے پیرسےکوئی سانپ لپٹ گیاہے۰۰۰۰۰تووہ  میراریشمی کمربندتھا۔؟’’ 
       ‘‘جی ہاں’لیکن کیایہ ضروری ہے کہ ازاربنداتنا  لمباہوکہ کھلےبغیراندرہی اندرموری کے راستے باہرنکل کراُس کاسِراپنڈلی تک میں لپٹ جائے۔’’بیٹے نے کچھ خفگی اورکچھ طنزکے انداز میں کہا۔ 
        ‘‘نہیں ایسانہیں ہے،کمربندکی لمبائی اورچوڑائی وغیرہ کوئی شرعی مسئلہ نہیں ہے۔اب میں اپنے سارے کمربندچھوٹے کرالوں گا۔’’ 
                      ٭انس مسرورانصاری 
                  قومی اُردوتحریک فاؤنڈیشن
              سَکراول،اُردوبازار،ٹانڈہ۔امبیڈکرنگر۔ 
                         (یو،پی) 224190
                        رابطہ/9453347784/   
  ٭٭٭

ہفتہ, دسمبر 30, 2023

**** نیا سال ***** * انس مسرورانصاری

**** نیا سال *****
Urduduniyanews72 
             * انس مسرورانصاری

ظلماتِ فکر میں ہے  چر اغِ  طرب  کی  ضَو
کس  منھ سے ہم کہیں کہ  مبارک ہوسال نَو

پچھلےبرس بھی ہم نےدعاؤں کےساتھ ساتھ
تم  کو  مسر تو ں کی لکھی تھیں  بشا ر تیں

ایسی ہو رسم و راہ نئے روز و شب کے ساتھ
آ ئیں  نہ  یا د   پچھلے  بر س  کی  ر فا قتیں

پچھلےبرس بھی ہم نےدعاؤں کے ساتھ ساتھ
بھیجی تھیں صبح نَو کی گل افشاں مسرتیں

لیکن فسا د و جبر کی صورت میں سا ل بھر
آ ئی  ہیں خا ک و خو ن میں  ڈوبی قیامتیں

کس منھ سے  ہم کہیں کہ  مبارک ہو سال نَو
دہرائی جا ئیں  پھر و ہی خو نیں حکا یتیں؟ 

لوٹی ہے رہز نو ں  نے کچھ ا یسے دوکانِ د ل
زخمو ں سے چو ر چو ر ہیں سا ر ی محبتیں

ا ب  شو خ  چتو نو ں میں کہا ں مژدۂ  بہار
ا ب  خا ک ہو چکی ہیں  گلو ں کی لطا فتیں 

ا نسا نیت  ا د ا س  ہے  بیو ا ؤ ں  کی طر ح
ا ب چیتھڑ و ں میں لپٹی ہوئی ہیں شرافتیں 

یہ حا ل ہو تو  کو ن کہے  کس  سے د و ستو! 
جشنِ  طر ب  منا ؤ ،  مبا ر ک   ہو   سا لِ  نَو
                **

          *   انس مسرورانصاری

             قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن (انڈیا) 
           سکراول، اردو بازار، ٹانڈہ۔ امبیڈکر نگر۔ 
                            (یو، پی)224190

جمعرات, دسمبر 28, 2023

ریاکاری-آخرت میں اجر سے محرومی

ریاکاری-آخرت میں اجر سے محرومی
اردودنیانیوز۷۲ 
✍️مولانا مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلوار ی شریف، پٹنہ 
===========================================
اللہ کے نزدیک اعمال وعبادات وہی معتبر ہیں جو خالص رضاء الٰہی کے لئے انجام دیے گئے ہوں، اس کا مطلب ہے کہ اعمال پر نیتوں کے اثرات پڑتے ہیں، جو  اللہ کے لیے ہجرت کرتا ہے اس کی ہجرت مقبول اور جو کسی دوسری غرض مثلاً ’’شادی، بیاہ وغیرہ‘‘ کی وجہ سے نقل مکانی کرتا ہے تو اس کے ساتھ غرض کے اعتبار سے ہی معاملہ کیا جائے گا، مشہور حدیث ہے کہ اعمال کا مدار نیتوں پر ہے، ریاکاری میں عبادت اللہ کی رضاء کے لئے نہیں، بلکہ نمود ونمائش کے لئے ہوتی ہے، جو شریعت میں حرام اور شرک خفی کے قبیل سے ہے، شیخ سعدی نے ایک قصہ لکھا ہے کہ ایک شخص کی دعوت بادشاہ کے دربار میں ہوئی، وہاں سے لوٹنے کے بعد گھر آکر اس نے کھانا طلب کیا، اہل خانہ کو تعجب ہوا کہ ابھی تو آپ بادشاہ کی دعوت اُڑا کر آئے ہیں اور ابھی کھانا مانگ رہے ہیں، بیٹے نے صورت حال دریافت کی تو بتایا کہ وہاں میں نے کھانا تھوڑا کھایا اور عبادتیں زیادہ کیں، تاکہ بادشاہ متاثر ہوجائے، بیٹے نے برمحل، صحیح اور نیک مشورہ دیا کہ ابا جان! پھر تو آپ کو کھانے کے ساتھ نمازیں بھی لوٹانی چاہئے، مطلب یہ ہے کہ جس طرح وہاں کے کھانے سے دکھاوے کی وجہ سے بھوک نہیں مٹی، ویسے ہی دکھاوے کی وجہ سے نماز بھی نہیں ہوئی۔
قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے ان نمازیوں کے لئے جو دکھلاوے کے لیے نماز پڑھتے ہیں ’’ویل‘‘ کا ذکر کیا ہے (سورۃ الماعون) جس کے معنی کم از کم بڑی خرابی کے آتے ہیں، بعضوں نے ’’ویل‘‘ کو جہنم کا بدترین درجہ بھی قرار دیا ہے، ایک دوسری آیت میں فرمایا: ’’جب وہ لوگ نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو بہت ہی کاہلی کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں، صرف لوگوں کو دکھلاتے ہیں، اللہ کا ذکر مختصر کرتے ہیں‘‘(سورۃ النساء:۱۴۲) ایک جگہ فرمایا: اپنی خیرات کو اس شخص کی طرح برباد نہ کرو جو محض لوگوں کو دکھانے کی غرض سے خرچ کرتا ہے، دوسری طرف اللہ رب العزت نے ان لوگوں کے بارے میں جو اپنے رب سے ملنے کی توقع رکھتے ہیں، انہیں نیک کام کرنے اور اللہ کی بندگی میں کسی کو شریک نہ کرنے کا حکم دیا ہے، اللہ کی بندگی میں کسی کو شریک کرنا یہ شرک خفی ہے، مسند احمد کی ایک روایت میں ہے کہ جب قیامت کے دن جزا وسزا کے لئے دربار الٰہی لگا ہوگا تو اللہ ریاکاروں سے کہیںگے کہ تم انہیں کے پاس جاؤ، جن کو دکھانے کے لیے تم نے یہ اعمال کیے تھے، مسند احمد، ترمذی اور ابن ماجہ میں ریاکاروں کے لئے ایک دوسری حدیث بھی مذکور ہے کہ اللہ رب العزت کے یہاں قیامت کے دن جب تمام اولین وآخرین جمع ہوںگے تو ایک منادی آواز لگائے گا کہ جس نے کسی عمل میں دوسروں کو شریک کیا ہو وہ اپنا بدلہ ان سے ہی لے۔
حدیث میں شرک خفی کی یہی تعریف کی گئی ہے کہ کوئی آدمی عمل کرے اور کسی آدمی کے وہاں ہونے کی وجہ سے کرے، تاکہ وہ آدمی اس کے عمل کو دیکھ لے، مسند احمد، بیہقی، حاکم اور طبرانی میں تفصیل سے یہ بات موجود ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ذکر کیا ہے کہ جس نے دکھاوے کے لئے نماز، روزہ اور صدقہ خیرات کیا تو اس نے شرک کیا، اسی طرح نماز کو بنا سنوار کر اس لیے پڑھنا کہ لوگ اسے دیکھ رہے ہیں، شرک ہے۔
ریاکار چوں کہ اللہ اور بندے دونوں کو دھوکہ دیتا ہے، اس لیے اللہ رب العزت نے اس پر جنت حرام کی ہے، پہلے کو ریاکار جنت کے باغات ومحلات اور اس کی عنایتوں، نعمتوں کو دیکھایا جائے گا، پھر اسے جہنم میں داخل کیا جائے گا، طبرانی اور بیہقی میں اس موقع سے اللہ جو کچھ انہیں کہے گا اس کی بھی تفصیل سے موجود ہے، اللہ فرمائیںگے:
’’تم لوگوں کے دکھلاوے کے لیے اعمال کرتے تھے، تمہارے دل خلوص سے خالی ہوتے تھے، تم لوگوں سے ڈرتے تھے، مجھ سے نہیں ڈرتے تھے، لوگوں کی وجہ سے بُرے کاموں سے بچتے تھے، میری وجہ سے نہیں بچتے تھے، پس آج میں تم لوگوں کو عذاب چکھاؤںگا‘‘
حضرت عمرؓ کا یہ واقعہ مشہور ہے کہ انہوں نے نماز میں ایک شخص کو گردن جھکائے دیکھا تو فرمایا: خشوع گردنوں میں نہیں، خشوع تو دل میں ہے، اسی طرح ابوامامہ باہلیؒ نے ایک شخص کو مسجد میں روتے ہوئے پایا تو فرمایا کہ زاری کرنے والوں کی ایک تعداد ریاکاری میں مبتلا ہوتی ہے، ایک بڑے عالم سے جب انہیں دعا کرانے کے لئے کہا گیا تو فرمایا: دعا تو میں کراسکتا ہوں، لیکن ’’فنی دعا‘‘ مجھے نہیں آتی، یہ ’’فنی دعا‘‘ وہی ہے جو ریاکاری تک پہونچاتی ہے۔
ریاکاری کی بدترین قسم جو ہمارے درمیان رائج ہے، وہ یہ کہ خود تو عمل نہیں کرتا، دوسروں کے عمل کو اپنے نام سے پیش کرکے لوگوں سے واہ واہی لُوٹنا ہے، قرآن کریم میں ایسے ریاکاروں کا تذکرہ بھی موجود ہے کہ وہ جو لوگ ایسے کام پر تعریف چاہتے ہیں جو انہوں نے کیے ہی نہیں، اللہ رب العزت انہیں عذاب کا مژدہ سناتا ہے، ارشاد فرمایا: ’’ہرگز ان لوگوں کے بارے میں گمان نہ کرو جو اپنے اعمال پر تو خوش ہوتے ہی ہیں، اس بات کو بھی پسند کرتے ہیں کہ ان کی تعریف انکاموں کے لئے بھی کی جائے جو واقعتاً انہوں نے کیے ہی نہیں، ایسے لوگوں کو عذاب سے دور نہ سمجھو، ان کے لئے دردناک عذاب ہے‘‘ (سورۂ آل عمران:۱۸۸) دوسروں کے مضامین، تصانیف، ملی اور سماجی کاموں کو اپنا بنا کر اس طرح پیش کرنا جیسے وہ ان کی محنت سے وجود پذیر ہوئے اور لوگوں سے تعریفیں کروانا ریاکاری کی وہ قسم ہے جس کے لیے ’’بمفازۃ من العذاب‘‘ کا اعلان اللہ رب العزت نے کیا ہے۔ایسے لوگوں کو دنیامیں ہوسکتا ہے تعریف وتوصیف ملے اور ظاہری عز ومنصب میں اضافہ ہوجائے، لیکن بالآخر جب لوگ اس کی تہ تک پہونچتے ہیں تو عزت وشہرت کا پرندہ پرکٹے کی طرح زمین پر آکر گرتا ہے اور جہاں تک آخرت کا سوال ہے، ذلت ورسوائی اور جنت سے محرومی یقینی ہے، کیوںکہ اللہ کے کلمات میں تبدیلی نہیں ہوتی اور نہ ہی اللہ کا طریقہ بدلتا ہے۔
ریا کبھی ایمانیات میں ہوتا ہے اور کبھی عبادات میں، ایمانیات میں ریا کا مطلب دکھاوے کا ایمان ہے، قرآن کریم میں اس کا ذکر کرتے ہوئے اللہ رب العزت نے فرمایا کہ جب وہ ایمان والوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم بھی تمہاری طرح ایمان لائے اور جب کافروں (شیطانوں) سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں، یہ ریاکاری منافقت کے قبیل کی ہے اور ایسے لوگوں کو وہی سزا ملے گی جو منافقوں کے لئے متعین ہے، وہ جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں رکھے جائیںگے، اسی طرح عبادات میں ریا یہ ہے کہ جب لوگوں کے ساتھ ہو تو عبادت واذکار کا اہتمام کرے تاکہ لوگ اسے نمازی، متقی، عبادت گذار اور صائم سمجھے اور تنہائی میں ہو تو نمازیں چھوٹ رہی ہوں، اذکار کا خیال نہ آتا ہو، اسی طرح نوافل کا اہتمام مجمع میں کرے اور گھر میں نوافل ترک کردے یا پڑھے بھی تو ثواب کی نیت سے نہ پڑھے، عبادتوں میں ریا خشوع خضوع اور ارکان کو لوگوں کے دکھاوے کے لیے طویل طویل کرنا بھی ہے، ایسی عبادتیں قیامت کے دن منہ پر ماردی جائیںگی، حدیث میں ہے کہ جوشخص نماز کو لوگوں کو دکھانے کے لیے اچھی طرح پڑھے اور تنہائی میں نماز اچھی طرح نہ پڑھے تو یہ اللہ رب العزت کی توہین ہے، حضرت فضیل بن عیاض فرماتے ہیں کہ لوگوں کی وجہ سے عمل چھوڑنا ریا ہے اور لوگوں کی وجہ سے عمل کرنا شرک خفی ہے، حضرت علیؓ نے ریاکاروں کی تین علامتیں بتائی ہیں: تنہائی میں سست اور لوگوں کے درمیان ہو تو عبادت گذاروں میں چست دکھائی دے، جب لوگ اس کی تعریف کریں تو عمل میں زیادتی کردے اور شکایت ہونے لگے تو عمل میں کوتاہی کرنے لگے۔
اسی طرح اگر کسی کے دل میں اوراد واذکار، سنن ونوافل کی کثرت کی وجہ سے یہ خیال پیدا ہوکہ لوگ اسے سلام کریں، اعزاز واکرام، تعریف وتوصیف کریں، ضرورتوں کی تکمیل کے لئے آگے آئیں، معاملات میں اس کے بزرگ ہونے کا خیال رکھیں، اس کی تعظیم کے لیے کھڑے ہوجائیں تو ایسی عبادت بھی ریا کے زمرے میں شامل ہوگی۔
ریا کے دور کرنے کے لیے ہر کام اللہ کی رضا وخوشنودی کے لیے کرنا شرط ہے، کیوںکہ ہمیں حکم دیا گیا ہے اللہ کی عبادت کو اللہ ہی کے لیے خالص رکھیں‘‘ (البینۃ:۵) اخلاص عبادتوں کی روح ہے، اخلاص کے ساتھ کام کرنے والے کو مخلص کہتے ہیں، بعض اہل علم نے مخلص کی تعریف یہ بتائی ہے کہ جو اپنی نیکیوں اور اچھائیوں کو اسی طرح چھپائے جیسے اپنے عیوب، گناہ اور برائیوں کو چھپاتا ہے اور اس کی انتہا یہ ہے کہ کسی بھی کام پر لوگوں کی تعریف سے خودپسندی اور عجب ذہن ودماغ میں نہ پیدا ہو، پھر اس پر ثبات واستقامت کے لیے دعا بھی کرتے رہنا چاہیے کہ ساری توفیق اللہ ہی کی جانب سے ملاکرتی ہے۔

بدھ, دسمبر 27, 2023

قانون الہی پر انگشت نمائی

قانون الہی پر انگشت نمائی 

اردودنیانیوز۷۲ 
گزشتہ سے پیوستہ جمعہ کو بی جے پی کے ایک ایم پی نے راجیہ سبھا میں پھر یکساں سول کوڈ نافذ کرنے کی مانگ کی ہے، اور یہ کہاہےکہ"مسلم اور مسیحی برادریوں کی خواتین کو طلاق ،جائیداد اور گود لینے جیسے حقوق حاصل نہیں ہیں، طلاق کی صورت میں خواتین ہندو مذہب کے خواتین کی طرح مینٹنینس الاونس نہیں لے پاتی ہے،خاندانی جائیداد میں بھی انہیں برابر کا حق حاصل نہیں ہے"۔
افسوس کی بات یہ بھی ہے کہ راجیہ سبھا جیسی ملک کی با وقار مجلس میں یہ باتیں بغیر اسلامی معلومات کے  پیش کی جارہی ہیں,اور ہندو مذہب کو رول ماڈل بناکر پیش کیا جارہا ہے،جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مذہب اسلام دنیا کا وہ واحد مذہب ہے جو سب سے زیادہ خواتین کے حقوق کی ضمانت دیتا ہے،طلاق وراثت اوردیگر تمام معاملات میں بھی صنف نازک کے ساتھ مکمل انصاف کرتاہے۔
اسلام مذہب میں شادی مرد وعورت کے درمیان ایک پاک رشتہ اور رضامندی پر مبنی معاہدہ کا نام ہے،جب اس رشتہ میں تلخی پیدا ہوجائے اور اتنا تلخ ہوجائے کہ نباہ کی شکل نظر نہ آتی ہو تو اس معاہدہ کو خوبصورتی سے ختم کیا جاسکتا ہے۔میاں بیوی میں سے دونوں کو یہ حق حاصل ہے، شوہر کو اسی لئے طلاق کا حق دیا گیا ہے اور بیوی کی طرف سے معاہدہ نکاح کو ختم کرنے کی پیشکش کو خلع کہتے ہیں۔عورت اگر یہ چاہتی ہے کہ اسے بھی طلاق کا  حق حاصل ہو جیسا  ایک مرد کوحاصل ہے تو وہ نکاح کےوقت یہ شرط  بھی رکھ سکتی ہے ۔ شرعی اصطلاح میں اسے تفویض طلاق کہتے ہیں، اس کے ذریعہ وہ کسی بھی وقت خود پر طلاق واقع کرسکتی ہے،اس کےعلاوہ بھی ایک عورت کے لئے راستہ کھلا ہوا ہے، اگر کوئی مسلم  بہن اپنے شوہر کے ظلم وناانصافی سے پریشان ہے تو قاضی وقت کے ذریعہ اپنا نکاح منسوخ کراسکتی ہے۔مطلق یہ کہہ دینا کہ مسلم خواتین کو طلاق اور نکاح سے آزادی کا حق نہیں ہےیہ صحیح نہیں ہے۔
دوسری چیز طلاق کی صورت میں ایک مسلم خاتون کو عدت کا خرچ ازروئے شرع دینا واجب ہے، اگرمطلقہ  خاتون کی پرورش میں بچے ہیں تو اس کا مینٹینس الاونس بھی سابق شوہر کے ذمہ لازم ہے۔بچہ پل رہا ہے تو سات سال تک یہ خرچ مرد کوبرداشت کرنا ہوگا، اگر بچی ہے تو بلوغ تک خرچہ دینا ہوگا، اس دوران پرورش کی اجرت بھی مرد پر لازم ہوگی،یعنی اس مطلقہ کو اتنی مقدار میں اجرت دینی ہے جو اس کے اخراجات کے لئے کافی ہوں، یہ مینٹینس الاونس نہیں ہے تو اور کیا ہے؟

جہاں تک گود لینے کی بات ہے تومذہب اسلام میں اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے،اسلام سے پہلے عرب میں یہ مزاج تھا، اور خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ جو آپ کے غلام تھے، ان کے والد اور چچا ان کو لینے آئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اختیار دیا کہ وہ جاسکتے ہیں، مگر حضرت زید نے آپ کے پاس رہنا پسند کیا، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنا منھ بولا بیٹا بنالیا، اب لوگ انہیں زید بن حارثہ کی جگہ زید بن محمد کہنے لگے، قرآن کریم میں یہ حکم نازل ہوا:
اللہ تعالٰی نے تمہارے منہ بولے لے پالکوں کو تمہارا بیٹا نہیں بنادیا ہے،یہ محض تمہارے منہ کی باتیں ہیں، اللہ حق بات ارشاد فرماتے ہیں اور صحیح راستہ کی ہدایت کرتے ہیں، ان کو ان کے والد کی طرف منسوب کرکے پکارو، اللہ کے نزدیک یہی قرین انصاف ہے۔(سورہ احزاب،ھ)
قرآنی اس حکم کی روشنی میں اگر کوئی خاتون کسی بچہ کو گود لیتی ہے تو اس عمل  سےیہ بچہ اس کا نہیں ہوسکتا، پھر گود لینے کے حق کا سوال ہی قائم نہیں ہوتا ہے۔

آخری بات موصوف نے اسلام میں خاندانی جائیداد میں خواتین کے برابر حصہ پر بات کی ہے، اس کے لئے اسلامیات کا مطالعہ ضروری ہے۔والدین کے انتقال کی صورت میں ایک بیٹا کو دو بیٹیوں کا حصہ ازروئے شرع دیا گیا ہے۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ صنف نازک کو شریعت اسلامیہ نے کسی حال میں تنہا نہیں چھوڑا ہے۔ عورت اگر بیٹی ہےاور غیر شادی شدہ ہےتو اس کی پرورش، تعلیم وتربیت ودیگراخراجات کی ذمہ داری اس کے والد کی ہے۔ اس کی وفات کے بعد بھائی اس کا ذمہ دار اور کفیل ہو جاتا ہے ۔اور اگر یہ بھی نہ ہوں تو قریب ترین مرد شخص مثلا چچا وغیرہ اس کے کفیل اور جملہ اخراجات سے متعلق مسئول ہوتے ہیں۔میراث کے باب میں یہ ذمہ دار اشخاص عصبہ کہلاتے ہیں۔ وارثین کو ان کا متعین حصہ دینے کے بعد بچے ہوئے مال کا یہ حق دار ہوجاتے ہیں۔ یہ مرحوم کے قریب ترین مرد رشتہ دار ہوتے ہیں۔ بطور مثال مرنے والی کی ایک ہی بیٹی ہے اور باقی اولاد نہیں ہےاور مرحوم کے کچھ بھائی ہیں،اس صورت میں بیٹی کو پوری جائیداد کا نصف حصہ ملےگا ،بقیہ بچا ہوا ادھا مال بھائیوں میں تقسیم ہوگا۔اور یہ سبھی اس بچی کے گارجین اور ذمہ دار ہوگئے ہیں، اس کی کفالت اور تعلیم وتربیت کی ذمہ داری ان لوگوں پر عائد ہوتی ہے۔
 اسلامی شریعت میں صرف خاندانی جائیداد ہی تک خواتین کا حصہ محدود نہیں ہے، بلکہ ہر قسم کی جائیداد میں خواتین کو حصہ دیا گیا ہے۔میراث کے باب میں ایک عورت بیوی، ماں اور بہن کی حیثیت سے بھی حصہ پاتی ہے۔ بیٹے کی وفات کی صورت میں ماں اور باپ کو برابر حصہ ملتا ہے۔ یہاں ماں کو عورت ہونے کی وجہ سے کم یا باپ کو مرد ہونے کی وجہ سے زیادہ نہیں ملتا ہے۔ قران کریم کی سورہ: النساء "میں اللہ تعالی نے وارثین کے حصوں کو الگ الگ کر کے بتلا دیا ہے ،اور پھر یہ اعلان بھی فرمادیا ہے، یہ اللہ کے مقرر کردہ حصے ہیں ،ان کا پاس ولحاظ ازحد ضروری ہے ،ارشاد خداوندی ہے؛یہ سارے احکام اللہ کی حدیں ہیں، جو اللہ کی اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرے گا اللہ اس کو جنت میں داخل  فرمائے گا جس کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں، یہ ہمیشہ ہمیش ان میں ہی رہیں گے، یہ بڑی زبردست کامیابی ہے،اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اور اس کی حدود سے نکل جائے گا تو اس کو جہنم میں داخل کریں گے اور وہیں ہمیشہ ہمیش رہے گا اور اسے ایسی سزا ہوگی جس میں ذلت ہی ذلت ہے۔(سورةالنساء۔۱۴)
قرآن کریم مسلمانوں کے لئے خدا کی نازل کردہ قانون کی کتاب ہے۔یہ کوئی انسانی قانون سازی نہیں، جس طرح 1956ءمیں وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو کی سرپرستی  میں ہندو کوڈ بل کے ذریعے ہندو قانون وراثت کی قانون سازی ہوئی ہے۔ اس پر اسلامی قانون وراثت کا قیاس کرنا صحیح نہیں ہے،اسلامی قانون وراثت  درحقیقت یہ خدائی تقسیم اور قانون الہی  کا نام ہے،اس پر سوال قائم کرنا،یا اس کی تبدیلی کی بات کرنا دراصل خدا کے قانون پر انگشت نمائی کرنا ہے.نعوذ با الله من ذالك 

مفتی ہمایوں اقبال ندوی 
نائب صدر ،جمعیت علماء ارریہ 
وجنرل سکریٹری، تنظیم أبناء ندوہ پورنیہ کمشنری

منگل, دسمبر 26, 2023

مولانا محمداویس عالم قاسمی

مولانا محمداویس عالم قاسمی
Urduduniyanews72 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ

دین کے بڑے داعی اور استاذ درس وافتاء مدرسہ اصلاحیہ نام نگر نبٹولیہ دربھنگہ مولانا محمد ادیس عالم قاسمی (پی ایچ ڈی) بن ظاہر حسین بن محمد اکبر کا 16 شوال 1429 ھ مطابق 12 اکتوبر 2008 کو انتقال ہو گیا۔ اخبار میں دو ایک تعزیتی بیان آیا اور سطح آب خاموش ہو گیا، رسم دنیا بھی یہی ہے، اور کارگاہ حیات کا نظام ایسے ہی چلتا رہا ہے، جاننے والے جانتے ہیں کہ یہ ایک شخص کا اٹھ جانا نہیں، بڑے عالم دین، عظیم داعی بہترین استاذ، اچھے مفتی اور صاحب قلم کا اٹھ جانا ہے، ماتم شخص کا نہیں، ایسی شخصیت کا ہے جس نے حیات مستعار کے پچپن سال میں علاقہ میں شرک و بدعات سے اجتناب کی زبردست تحریک چلائی، تبلیغ کے کام کو گھر گھر اور گاؤں گاؤں لے گیا، تعلیم کی ترویج و اشاعت کے لیے کوشاں رہا، وسعت مطالعہ کے لیے آنکھوں کو پھوڑتا رہا، اور راتوں کی تاریکی میں اتنے آنسو بہائے کہ آنکھیں بے نور ہو گئیں، اور ایسی جگر کاوی کی کہ گردہ نے کام کرنا بند کر دیا، پہلے آل انڈیا میڈیکل انسٹی ٹیوٹ میں علاج چلا، پھر دربھنگہ لے آئے گئے، اور بی آرنرسنگ ہوم کے ایمرجنسی وارڈ میں جان جاں آفریں کے سپرد کیا، نماز جناز 13 شوال 1429ھ بعد نماز ظہر مولانا کے مخلص، وکیل اسد اللہ صاحب نے پڑھائی، اور سینکڑوں سوگوار لوگوں کی موجودگی میں اپنے آبائی گاؤں برہم پور میں سپرد خاک کئے گئے۔
نمونہئ سلف، پیکر صدق و صفاء سادہ لوح اور سادگی پسند مولا نا محمد اویس عالم قاسمی صاحب سے میری پہلی ملاقات پچیس سال قبل ہر پوربیشی، ضلع سیتامڑھی میں ہوئی تھی، نادر یہ لائبریری کا افتتاحی اجلاس تھا۔ مولانا محمد شعیب قاسمی کی دعوت اور مولانا عزیر قاسمی کے اصرار پر مدرسہ احمد یہ ابابکر پورویشالی سے میری حاضری ہوئی تھی، مولانا محمد شعیب صاحب جس انداز میں بحیثیت استادان کا تذکرہ کر رہے تھے، اس سے میں انہیں ایک معمر آدمی سمجھ رہا تھا، لیکن جب تشریف لائے تو جواں سال، چہرے پر سادگی کا نور، دل میں ایمان کا سرور، تقریر میں جلوہئ طور اور مزاج میں کبرور یا سے نفور کی عملی تصویر نظر آئے۔ پہلی ملاقات میں کم ہی لوگوں سے میرا گھلنا ملنا ہوتا ہے، اس لیے یہ ملاقات بھی رسمی سی رہی، ایک دوسرے کی مزاج پرسی، میدان کار سے واقفیت اور ٹوٹتے اقدار کے ماتم پر بات ختم ہوگئی اور صبح ہم دونوں نے اپنی راہ لی۔
 دوسری ملاقات امارت شرعیہ میں ہوئی، حضرت قاضی مجاہد الاسلام قاسمی نور اللہ مرقدہ نے بانیئ امارت شرعیہ ابوالمحاسن مولانا محمد سجاد کی حیات و خدمات پر سمینار کا فیصلہ کیا اس کام کے لیے انہیں دو ایسے آدمی کی تلاش تھی جس کے اندر تلاش و جستجو کا مادہ ہو اور لکھنے پڑھنے کا شوق بھی، حضرت قاضی صاحب کی نظر انتخاب مولانا محمد اویس عالم قاسمی اور راقم الحروف (محمدثناء الہدی قاسمی) پر پڑی۔ چنانچہ ہم دونوں کی طلبی ہوئی،  ہم لوگ دفتر امارت شرعیہ میں پندرہ روز سمینار کی تیاری، مواد کی فراہمی، اور مولانا سجاد کے آثار کی تلاش و جستجو میں لگے رہے، پندرہ روز سے زائد کی فرصت ہم لوگوں کو مدرسہ سے نہ مل سکی، اس لیے یہ سلسلہ جاری نہ رہ سکا، بعد میں ضمان اللہ ندیم مرحوم نے پوری توجہ اور لگن سے اس کام کو ”آثار سجاد“ کے نام سے مکمل کیا اور ایک قیمتی کام سمینار کے بہانے سے ہو گیا۔ اس کے بعد مختلف موقعوں سے اصلاح معاشرہ کے جلسوں میں مولانا نے یاد کیا اور مولانا کے خلوص کی وجہ سے میں وقت نکالتا رہا، ان کے مدرسہ کے جلسوں میں بھی شرکت رہی، اور قرب و جوار میں بھی ان کی دعوت پر جانا ہوا، ہر ملاقات میں ان کی محبت میں اضافہ ہوتا رہا۔
 مولانا مرحوم نے اپنا تعلیمی سفر پرائمری اسکول برہم پورہ سے شروع کیا تھا، ماسٹر مقصود صاحب بونسی اور مولانا ظفر صاحب کمہرولی نے شاگردی کے آداب سکھائے اور دو سال میں حصول علم کا جذبہ پیدا کیا، تحتانیہ سوم میں وہ مدرسہ مال ٹولہ کشن گنج میں داخل ہوئے، 1969 ء میں مدرسہ الحسنہ حسن آباد پدم پور ضلع کشن گنج (قدیم پورنیہ) سے فوقانیہ کا امتحان پاس کیا، یہاں انہوں نے مولانا محمد عرفان مولا نا تجمل حسین، مولانا محمد اسرائیل مظفر پوری، مفتی محمد یوسف اور ماسٹر محمد شفیع صاحب کے آگے زانوئے تلمذ تہہ کیا، 1971ء میں مدرسہ فضل رحمانی بھلا ہی، سہرسہ سے مولوی، مدرسہ رحمانیہ افضلہ سوپول بیرول، دربھنگہ سے 1973ء میں عالم اور 1975ء میں فاضل کیا، کتا بیں نہیں پڑھیں، فن پڑھا، اور نامور اساتذہ سے پڑھا، حضرت مولانا محمد عثمانؒ، مولا نا شمس الہدیؒ، مولا نا محمد قاسمؒ مظفر پوری، مولا نا ہارون رشید،ؒ مولانا سعد اللہؒ، ماسٹر کمال صاحبؒ کی خصوصی توجہ سے ذرہ آفتاب بنا، پھر تاب و تب میں اضافہ کے لیے مولانا نے دارالعلوم دیو بند کا سفر کیا اور 1975 سے 1978 تک وہاں کے اکابر علماء ومحد ثین سے کسب فیض کیا دورہ حدیث اور تکمیل ادب وافتاء کی سند پائی۔ حضرت مولا نا شریف الحسنؒ، مفتی محمود حسن گنگوہیؒ، مفتی نظام الدینؒ، مفتی محمد ظفیر الدین مفتاحیؒ، مفتی احمد علی سعیدؒ، مولانا محمد حسین بہاریؒ، مولانا فخر الحسنؒ، مولانا معراج الحقؒ، مولانا نعیم احمدؒ، مولانا وحید الزماں کیرانویؒ، مولانا محمد سالم قاسمیؒ، مولانا محمد انظر شاہ کشمیریؒ، مولانا قمر الدینؒ، مولا نا ریاست علی بجنوریؒ، مولا نا عبدالخالق مدراسی، قاری عتیق الرحمن وغیرہ جیسے فاضل روزگار کی صحبت اور شاگردی نے ان کے اندر نکھار پیدا کیا، بہار یونیورسٹی سے اردو فارسی میں ایم اے اور پٹنہ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کرنے کے بعد انہوں نے درس و تدریس کا کام شروع کیا، درس گاہ عالیہ شریف مراد آباد، مدرسہ تا را پور گجرات اور جامعہ رحمانی مونگیر میں تدریس کے فرائض انجام دینے کے بعد مدرسہ اصلاحیہ نام نگر نبٹولیہ آگئے۔ اور زندگی کے قیمتی پچیس سال یہیں درس و تدریس افتاء نویسی و دعوت و تبلیغ میں گزارا۔
درس و تدریس کے ساتھ مولانا کو اللہ تعالیٰ نے قلم کی دولت سے بھی نوازا تھا، تذکر ہ حضرت مولا نا محمد عثمانؒ سابق شیخ الحدیث مدرسہ رحمانیہ سوپول، طہارت و نماز کے تفصیلی مسائل، حج وعمرہ کا شرعی طریقہ عشرہ وزکوٰۃ کے مسائل وغیر و کتابیں ان کی طبع ہو کر مقبول عام ہو چکی ہیں۔ جبکہ شرح شمائل ترمذی، سوانح حضرت مولانا بشارت کریمؒ غیر مطبوعہ مسودے کی شکل میں موجود ہے، مضامین و مقالات اس کے علاوہ ہیں، عمر کم پائی اور کام بڑاہو گیا، اللہ سے دعا ہے کہ وہ ان کی مغفرت فرمائے، درجات بلند کرے، پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ پانچ لڑکی اور تین لڑکے ہیں۔ اللہ ان سب کا حامی و ناصر ہے۔ مفتی محمد ظفیر الدین مفتاحی صاحب ؒ مفتی دارالعلوم دیو بند نے اپنی تعزیتی تقریر میں بجا فر مایا کہ مرحوم کے باقی ماندہ اور ادھورے کاموں کو انجام تک پہنچانا اور ان کے بال بچوں کے لیے خورد و نوش کا انتظام، ہم سب کا فریضہ ہے اور یہی مرحوم کے لیے بہترین خراج عقیدت بھی ہے۔

خون عطیہ کرنے کے لئے لوگوں کو بیدار کرنے کی ضرورت ہے: ڈاکٹرس

سوسائٹی فرسٹ، دربھنگہ کی جانب سے ٹاؤن ہال دربھنگہ میں " خون عطیہ اعزازی تقریب  2023" منعقد ہوا 
اردودنیانیوز۷۲ 
 خون عطیہ کرنے سے جسم کو نقصان نہیں بلکہ فائیدہ ہوتا ہے: دانشوران 

خون عطیہ کرنے کے لئے لوگوں کو بیدار کرنے کی ضرورت ہے: ڈاکٹرس 

دربھنگہ ( عرفان احمد پیدل ) خون کا عطیہ انسانیت کے لیے صدقہ جاریہ ہے۔ اس کے لیے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ بیدار کرنے کی ضرورت ہے مزکورہ باتیں دربھنگہ میونسپل کارپوریشن کی میئر انجم آرا نے ٹاؤن ہال دربھنگہ میں سوسائٹی فرسٹ، دربھنگہ کے زیر اہتمام منعقد " خون عطیہ اعزازی تقریب میں اعزاز  2023‘‘ سے نوازا گیا اس تقریب کا افتتاح کرتے ہوئے کہیں۔ انہوں نے منتظمین کا شکریہ ادا کیا اور تمام خون عطیہ کرنے والوں کو مبارکباد دی اور کہا اپنے ملنے جلنے والوں سے کہیں کی آپ بھی اس میں حصہ لیں خون عطیہ کرنے سے نقصان نہیں بلکہ اس سے فائدہ ہی ہوتا ہے وہیں ڈپٹی میئر نازیہ حسن نے بطور مہمان خصوصی اپنے خطاب میں کہا کہ آج کا دن شاندار اور یادگار دن ہے۔اج جو بھی لوگ اس خون عطیہ کیمپ میں حصہ لیئے ہیں وہ سب کے سب ذات ب، مذاہب سے اوپر اٹھ کر مرد و خواتین اور نوجوان آپنا خون عطیہ کر رہے ہیں جو کہ ایک اچھے انسانیت کی عظیم علامت ہے۔ یہ بہت ہی نیک عمل ہے۔ خون کا عطیہ دینے سے بے پناہ راحت ملتی ہے۔ انہوں نے لوگوں سے اپیل کی کہ وہ خون کے عطیات کے لیے زیادہ سے زیادہ لوگ آگے آئیں مہمان خصوصی کے طور پر ماہر امراض اطفال ڈاکٹر اتسو راج نے کہا کہ خون کی کمی کی وجہ سے بڑی تعداد میں ماؤں اور بچوں کی اموات میں اضافہ ہوا ہے اگر ہم جیسے لوگ اس کو لیکر بیدار ہو گئے تو یقیناً اس میں دیکھنے کو مل سکتا ہے بلڈ بینک میں ہمیشہ زیادہ خون ہونا چاہیئے تاکہ لاوارث، دور دراز کے لوگوں اور غریب مریضوں کو بھی بلاتعطل خون مل سکے۔
ریڈ کراس سوسائٹی کے سکریٹری منموہن سراوگی نے آرگنائزنگ تنظیم کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ خون عطیہ کرنے والے عظیم ہیں۔ لوگوں کو خون کا عطیہ دینے کے لیے بیدار کرنے کی ضرورت ہےاور ساتھ ساتھ انہیں ترغیب دینے کی ضرورت ہے انہوں نے بتایا کہ دربھنگہ میں آئی بینک کام کر رہا ہے اس لیے مرنے والوں کے اہل خانہ کو بھی چاہیئے کہ وہ اپنی آنکھیں عطیہ کرنے کی کوشش کریں اور اس کے لئے لوگوں کو بیدار کریں عمار یاسر نے کہا کہ خون کا عطیہ دینے سے ہمیں عطیہ کرنے کا احساس ملتا ہے۔ اس سے ہماری انا بھی دور ہو جاتی ہے۔ ہمارے لیے معاشرے کو پہلے آنا چاہئیے ٹارگٹ انسٹی ٹیوٹ کے سونو نے کہا کہ خون دینے والوں کے چہروں پر خوشی ہے۔ وہ کسی ذات، مذہب، رنگ یا علاقے کے پابند نہیں ہیں۔
صدارتی خطاب میں متھلا یونیورسٹی کے سنسکرت کے پروفیسر ڈاکٹر آر این چورسیا نے کہا کہ خون کا عطیہ زندگی کا عطیہ اور ایک عظیم عطیہ ہے، جس سے حتمی سکون اور اندرونی خوشی ملتی ہے۔ یہ دکھی انسانیت کے تحفظ اور سماجی خدمت کا بہترین ذریعہ ہے۔ خون کا عطیہ کرنے سے کسی قسم کی کمزوری یا نقصان نہیں ہوتا بلکہ خون بننے کا عمل تیز ہوتا ہے اور کئی طرح کی بیماریوں کے مفت ٹیسٹ کیے جاتے ہیں۔ 18 سے 65 سال کی عمر کا کوئی بھی صحت مند شخص ہر تین سے چار ماہ بعد خون کا عطیہ دے سکتا ہے۔ خون کا ایک یونٹ عطیہ کرنے سے 3 سے 4 لوگوں کی جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔ خاص طور پر حادثے کا شکار ہونے والے، آپریشن کے مریض، ڈیلیوری کرنے والی خواتین، بلڈ کینسر کے مریض، تھیلیسیمیا کے مریض یا ہیموگلوبن کی کمی کے شکار افراد کو خون کی ضرورت ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ لیبارٹریوں میں مصنوعی طریقے سے خون نہیں بنایا جا سکتا اور نہ ہی جانوروں اور پرندوں کے خون سے انسانی جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔
پروقار تقریب میں 150 سے زائد خون عطیہ کرنے والوں کو سرٹیفکیٹس اور میمینٹو جیس اعزاز سے نوازا گیا جبکہ مہمانوں کا استقبال متھلا کی روایت کے مطابق پاگ ، چادر ، گلدستہ اور میمینٹو دیکر کیا گیا پروگرام میں گریس ہسپتال مدھوبنی کے ڈاکٹر اقبال حسن، ٹارگٹ انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر عامر حسن، ایڈوکیٹ محمد اشفاق، بلڈ ڈونیشن فار ہیومینٹی ممبر عبدالمالک، سوسائٹی فرسٹ ممبر ایم کے نذیر، محمد ریحان انصاری، عبدالمالک و  ماحولیات کے سنجئے کمار 21 بار بلڈ ڈونر دیویانگ بیدیا ناتھ کمار، 25 بار بلڈ ڈونر پرکاش جھا، محمد جاوید، بلڈ ڈونر آنند انکت، جئے پرکاش کمار ساہو، منوج کمار، مکیش کمار جھا اور پرناو کمار وغیرہ نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ .
مہمانوں کو خوش آمدید کہتے ہوئے سوسائٹی فرسٹ کے صدر اور پروگرام کوآرڈینیٹر نذیر الہدا نے تنظیم کے اغراض و مقاصد پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک تعلیمی اور سماجی تنظیم ہے جو خون کے عطیہ کیمپوں کے انعقاد کے ساتھ ساتھ خون کے عطیہ سے متعلق بیداری پروگراموں کا انعقاد کر خون کے عطیات دینے والوں کو بیدار کرتی ہے۔ 


فوٹو ۔۔۔ خون عطیہ کیمپ

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...