Powered By Blogger

اتوار, جنوری 28, 2024

مالدیپ اور ہندوستان کے بگڑتے تعلقات

مالدیپ اور ہندوستان کے بگڑتے تعلقات
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ
==============================
بحر ہند میں جمہوریہ مالدیپ گیارہ سو برانوے (1192)جزائر پر مشتمل ایک چھوٹا سا ملک ہے جن میں دو سو جزیروں پر انسانی آبادی پائی جاتی ہے، یہ ہندوستان کے جزائر لکشدیپ کے جنوب اور سری لنکا سے سات سو کلو میٹر (435میل)جنوب مغرب میں واقع ہے، یہاں کا دار الحکومت مالے ہے جہاں ملک کی مجموعی آبادی کے اسی فیصد لوگ بود وباش اختیار کیے ہوئے ہیں، یہاں کی سرکاری زبان ’’دیویہی‘‘ ہے گیارہ نومبر1968اس کا یوم تاسیس ہے، بعضوں نے 26جولائی 1965بھی لکھا ہے ، یہاں کے سر براہ ان دنوں محمد معیز ہیں، جو 17نومبر 2023کو منتخب ہو کر بر سر اقتدار آئے ہیں۔ ہندوستان سے مالدیپ کا رشتہ بہت قدیم ہے، البتہ یہاںکے حکمرانوں میں بعض چین نواز بھی ہوا کیے ہیں، محمد معیز کے بارے میں کہا جا تا ہے کہ وہ چین نواز ہیں، اسی لیے سابقہ حکمرانوں کے بر عکس انہوں نے منتخب ہونے کے بعد ہندوستان کے بجائے پہلے چین جانے کا فیصلہ لیا اور وہاں سے آکر جو بیان دیا ہے وہ بہت معنی خیز ہے، انہوں نے کہا کہ ہم چھوٹے ضروری ہیں، لیکن کسی کے دباؤ میں رہنے والے نہیں ہیں، اور ہمیں کوئی دھمکا نہیں سکتا، یہ بیان انہوں نے اس پس منظر میں دیا ہے کہ ان کے تین وزراء نے وزیر اعظم نریندر مودی کے بارے میں کچھ ایسا تبصرہ کیا تھا ، جسے ہندوستان نے ہتک آمیز قرار دیا تھا، محمد معیز نے ان تینوں وزراء پر کاروائی کرتے ہوئے انہیں کابینہ سے نکال دیا جو ایک بڑا قدم تھا، لیکن ہندوستان اس سے مطمئن نہیں ہے اور اپنی بے اطمینانی کا اظہار مختلف طریقوں سے کرتا رہا ہے، اس کی وجہ سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہو گئی ہے، یہ کشیدگی دونوں ملکوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے، تازہ خبر کے مطابق مالدیپ نے ان اٹھاسی(88) فوجیوں کو ملک چھوڑ دینے کو کہا ہے جو برسوں سے وہاں تعینات ہیں۔
 ہندوستان سے مالدیپ کا رشتہ ملک کے تحفظ، فوجی تربیت ، تجارت ، سیاحت، صحت وتعلیم کے حوالہ سے مضبوط رہا ہے، 1988سے ہی ہندوستان مالدیپ کو تحفظ کے نقطہ نظر سے تعاون دیتا رہا ہے، اپریل 2016میں ایک معاہدہ مالدیپ اور ہندوستان کے درمیان ’’ایکشن پلان فارڈیفنس‘‘ کے نام سے ہوا تھا ، جس کے مطابق ہندوستان مالدیپ کو ستر فی صد تعاون دینے کا پابند ہے، گذشتہ دس سالوں میں ہندوستان نے ایم این ڈی ایف (MNDF)کے پندرہ سوارکان کو فوجی تربیت دینے کا کام کیا ہے، ہندوستانی بحریہ فضائی نگرانی کے لیے بھی مالدیپ کو تعاون دیتی رہی ہے۔
 معاشی اعتبار سے دیکھیں تو مالدیپ چاول، گیہوں ، چینی، آلو، پیاز اور تعمیراتی سامانوں کے لیے ہندوستان پر منحصر ہے، مودی دور حکومت میں مالدیپ سے تجارت میں تین گنا اضافہ ہوا ہے، تجارتی نقطہ نظر سے اسٹیٹ بینک آف انڈیامالیات کی فراہمی میں تیسرا بڑا معاون مالدیپ کا ہے، ہندوستان نے مالدیپ کو چار سو کروڑ روپے بطور تعاون مالی سال 2022-2023میں دیا ہے ۔
مالدیپ کی معیشت کا بڑا انحصار سیاحت پر ہے، وہاں کی گھریلو آمدنی کا ایک تہائی حصہ سیاحت سے فراہم ہوتا ہے، وہاں اوسطا ہر سال اٹھارہ لاکھ سے زیادہ سیاح آتے ہیں، جن میں بڑی تعداد ہندوستانیوں کی ہوتی ہے۔ 2023میں جتنے سیاح مالدیپ آئے ان میں بارہ فیصد ہندوستانی تھے۔
اسی طرح وہاں تعلیم اور صحت کے ادارے کے فروغ میں بھی ہندوستان کی اہم حصہ داری رہی ہے، ہندوستان نے وہاں اندرا گاندھی میموریل اسپتال کو جدید ٹکنالوجی سے آراستہ کرنے کے لیے باون (52)کروڑ روپے دیے اور ایک سو پچاس سے زائد اسپتالوں کے لیے جو مختلف جزیروں پر واقع ہیں رقومات فراہم کی ہیں، مالدیپ کے اساتذہ کو تربیت دینے کے لیے ہندوستان نے وہاں ووکیشنل تربیت کے مراکز قائم کیے اور اطلاع کے مطابق دو ہزار سے زائد لوگوں کو تربیت دینے کا کام کیا ہے، اس کے علاوہ مختلف میدانوں میں فنی تربیت دینے کے لیے ہندوستان اپنے یہاں بھی مالدیپ سے لوگوں کو بلاتا رہا ہے، اسی وجہ سے مالدیپ کے حکمراں ہندوستان سے تعلقات استوار رکھنے میں سبقت لے جاتے رہے ہیں، محمد معز نے انتخاب ہی اس منشور پر لڑا تھا کہ وہ ہندوستان پر انحصار کو کم کریں گے، چنانچہ انہوں نے آتے ہی یہ کام شروع کر دیا ہے۔انہوں نے ہندوستان کے بجائے چین پر انحصار کو بڑھاوا دیا ہے، چین نے وہاں پہلے سے ہی ایک ارب پینتیس کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے، جس کا بڑا حصہ قرض کی شکل میں ہے اور واقعہ یہ ہے کہ مالدیپ کی زمین کے بڑے حصہ پر مختلف سرمایہ کاری کے نام پرچین نے قبضہ کر رکھا ہے، اگر مالدیپ کا انحصار چین پر بڑھتا ہے تو علاقہ میں چین کے اثرات میں اضافہ ہوگا، جوہندوستان کے حق میں نہیں ہے، مالدیپ کی کمزوری یہ ہے کہ وہ ایک چھوٹا ملک ہے اور اپنی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے اسے ہند وچین میں ایک کو چننا ضروری ہے، یہ افسوسناک ہے کہ موجودہ حکمراں محمد معز نے چین کو چن لیا ہے۔

ہفتہ, جنوری 27, 2024

صحرائے جنوں" اور احمد معراج ۔۔✍️انور آفاقی دربھنگا

صحرائے جنوں" اور احمد معراج ۔۔
Urduduniyanews72 
✍️انور آفاقی دربھنگا (9931016273)
دبستانِ عظیم اباد میں جب شعر و ادب کی بہار چھائی ہوئی تھی تو اس کے ساتھ اسی زمانے میں دوسرے کئی اضلاع بھی اس بہار کی خوشبوؤں سے فیض یاب ہونے لگے تھے ان اضلاع میں سے ضلع سارن کے شہر چھپرہ میں بھی شعر و سخن کی فضا پھولنے پھلنے لگی تھی۔ شہر چھپرہ جس کی خاک سے نشتر چھپروی ، عبد الطیف شؔفا چھپروی، اسمعیل خاں جوؔش چھپروی،  محمد حنیؔف چھپروی، اجتبی حسین رضوی اور دوسرے کئی شعراء اٹھے اور شعر و ادب کی دنیا پہ چھا گئے اور بڑا نام پیدا کیا ۔ چھپرہ میں شاعری کی فضا سازگار ہوتی رہی اور اس کی خمیر سے شعرا و ادبا پیدا ہوتے رہے ۔  اسی خمیر سے اٹھنے والے ایک خوش مزاج ،خوش گلو اور خوش اخلاق و اعتبار  نوجوان  شاعر کا نام ڈاکٹر احمد معراج ہے جن کا وطن ثانی عشق و محبت کی سرزمین، ٹیگور و نذر الاسلام کا وطن اور رضا علی وحؔشت ، علقمہ شبلی کا مسکن شہرِ نشاط یعنی کالکوتہ ہے ۔
احمد معراج الدین خان ابن عبداللہ خان و نجمہ بیگم نے چھپرہ بہار کے ایک موضع ارنا میں 7 جنوری 1986 ( بہ اعتبار تعلیمی سند )میں آنکھیں کھولیں۔ شعر و ادب کی دنیا میں اپنے قلمی نام احمد معراج سے مشہور ہوئے ۔ بچپن ہی سے کلکتہ جیسے دلربا شہر میں پروان چڑھنے والے اور وکٹوریہ میموریل گارڈن ، آٹرم گھاٹ کی صبح و شام کی فضا میں سانس لینے والے احمد معراج کی ابتدائی تعلیم  مدرسہ حنفیہ رضویہ سے شروع ہوئی مولانا ازاد کالج کولکاتا  سے گریجویٹ ہوئے ۔ایم۔ اے اور بی۔ ایڈ کی ڈگریاں مولانا ازاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدراباد سے پائیں ۔ بی ۔پی۔ ایڈ ناگپور یونیورسٹی ناگپور سے مکمل کیا ۔ ساتھ ہی وہ للت نارائن متھلا یونیورسٹی دربھنگہ سے ڈاکٹریٹ کے سند یافتہ بھی ہیں ۔ جب شاعری کی ابتدا کی تو اپنی پہلی غزل پر معتبر شاعر بازغ بہاری سے اصلاحِ سخن لی پھر ان کی وفات کے بعد مستقل طور پر اپنا کلام معروف و مشہور شاعر حلیم صابر کو دکھانے لگے ۔  حلیم صابر نے احمد معراج کی فنی صلاحیت کو نکھارا اور اب احمد معراج نے اپنے پہلے مجموعہ کلام" صحرائے جنوں" ( مطبوعہ 2022) کے ساتھ شاعری کی دنیا میں اپنی شناخت کرائی ہے۔
 احمد معراج جتنے ہینڈسم ہیں وہ اتنی ہی خوبصورت شاعری بھی کرتے ہیں ۔ وہ مشاعرے میں اپنا کلام ترنم سے سنا تے ہیں اور  سامعین سے داد و تحسین پاتے ہیں ۔ اس کم عمری ہی میں کئی اعزازات و انعامات سے نوازے جاچکے ہیں ۔ صرف کولکاتا ہی نہیں بلکہ پورے ہندوستان کے مشاعرے میں مدعو کیے جاتے ہیں۔

ڈاکٹر احمد معراج کا اولین مجموعہ کلام "صحرائے جنوں" میری نگاہوں کے سامنے ہے اور ابھی زیر مطالعہ ہے۔ یہ کتاب مجھے بدست ڈاکٹر منصور خوشتر،  چند دنوں قبل موصول ہوئی تھی۔ میں اس خوبصورت تحفہ کے لیے ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور صحرائے جنوں کے لیے نیک تمنائیں پیش کرتے ہوئے دعا کرتا ہوں کہ صحرائے جنوں اپنی مقبولیت کی تمام بلندیوں کو چھو لے ۔ اللہ ان کو نئی توانائی اور فکری جولانی عطا کرے اور ان کا دوسرا مجموعہ کلام بھی جلد ہی قارئیں ادب کے ہاتھوں میں ہو۔ امین۔
پیش نظر کتاب کل 174 صفحات پر محیط ایک دیدہ زیب مجموعہ کلام ہے جسے عرشیہ پبلی کیشنز دہلی نے بڑے اہتمام سے چھاپا ہے ۔ اس کتاب کو موصوف نے اپنی "امی جان" کے نام منسوب کیا ہے ساتھ ہی ایک صفحہ اپنے مادرِ  علمی "مولانا آزاد کالج کلکتہ" کے نام بھی کیا ہے۔ یہ وہی کالج ہے جہاں سے انہوں نے علم حاصل کرکے اپنے باطن کو روشن کیا ، شعور کے راستے طئے کئے اور منزل کی طرف گامزن ہوئے۔ بعد کے
 دو صفحات پر ان کا تعارف و کوائف ہے جس سے ان کے بارے میں قارئین کو بہت سی ضروری معلومات حاصل ہو جائیں گی ۔ فہرست پانچ صفحات پر مشتمل ہیں ۔ 
سب سے پہلے احمد معراج  "اپنی بات "کے صفحہ پر  اپنی دلی کیفیات و احساسات کا اظہار کچھ یوں کرتے ہیں۔۔۔۔ ۔۔۔
     " قدرت نے مجھے بے حد حساس طبیعت عطا کی ہے ۔ یہی سبب ہے کہ زمانے کے تغیرات مجھے حد درجہ متاثر کرتے ہیں اور میں اضطرابی کیفیت سے دوچار ہو جاتا ہوں ۔ یقینا اس کی آہٹ آپ بھی میری شاعری میں محسوس کریں گے ۔ قدروں کا زوال میرے لیے ایک بڑا سانحہ ہے ۔میری نظریں ایسے صالح سماج کو ڈھونڈتی ہیں جس میں انسانیت کی خوشبو فضاؤں میں رچی بسی ہو"۔
سچی بات تو یہ ہے کہ کوئی بھی شاعر/ فنکار پہلے حساس ہوتا ہے تب ہی اس کی نگاہوں کے سامنے ہونے والے واقعات اس کے قلب پر مرتسم ہوتے ہیں  اسے جھنجوڑتے ہیں تڑپاتے ہیں رلاتے ہیں اور تب ایک شاعر/فنکار اپنا قلم اٹھاتا ہے اور اپنے قلبی کیفیات و تجربات کو صفحہءِ قرطاس  پر بکھیر کر سکون پاتا ہے۔  اور عام انسان اس شاعر کی تخلیق میں اپنے دکھ درد کی تصویر دیکھتا ہے ۔ شاعر کی آواز اس کی اپنی آواز لگتی ہے اور تب جا کر وہ شاعر وہ فنکار عوامی سطح پر مرکز نگاہ بنتا ہے ۔ پکاسو  اپنے احساس و جذبات کو پینٹنگ میں پیش کر کے ایک بڑا فنکار بن کر ابھرتا ہے ساحر لدھیانوی" چکلہ "جیسی نظم لکھ کر تہلکہ مچا دیتا ہے اور یہ کہہ کر ؂
 کہاں ہیں کہاں ہیں محافظ خودی کے
 ثنا خوانِ  تقدیس   مشرق   کہاں ہیں
لوگوں کی نگاہوں کا مرکز بن جاتا ہے ، اور شاعر جمالی
جیسا شاعر یہ شعر ؂ 
ائے  پڑوسی یہ جو بچہ  ہے ترے نیزے پر
تیرا  ببلو اسے کل ڈھونڈ کے روئے گا بہت
سنا کر سامعین کو سکتے میں ڈال دیتا ہے اور ڈاکٹر احمد معراج محنت کشوں کے دکھ اور درد کو اپنا دکھ درد سمجھ کر جب یہ شعر کہتا ہے اور مشاعرے میں سناتا ہے   ؂
دھوپ سر  پر  مرے  مشقت  کی
 شاخ محنت پہ پھل رہا ہوں میں
تو قارئین و سامعین کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے میں کامیاب ہوجاتا ہے ۔
اس کے بعد 26 صفحات پر  ڈاکٹر احمد معراج کی  شخصیت اور فنِ شاعری پر ڈاکٹر نسیم احمد نسیم بتیا، بہار ، ممتاز ناقد ڈاکٹر حقانی القاسمی دہلی ، ایم۔ نصر اللہ نصر کولکاتا ،اور ڈاکٹر خان محمد رضوان دہلی نے عمدہ تاثراتی مضامین قلمبند کئے ہیں جن کے مطالعے سے قارئین کو یک گونہ مسرت اور آحمد معراج کی شاعری کے کینوس کی وسعت کا اندازہ ہوگا ۔
سب سے پہلے کتاب کے گرد پوش کے اندرونی حصے پر معروف صحافی شاعر ادیب ناقد ف۔ س۔ اعجاز  کی تحریر پر نظر پڑتی ہے وہ اپنی رائے دیتے ہوئے رقم طراز ہیں:
" احمد معراج کی شاعری کی موجودہ پرواز سے ان کی دلی کیفیات کی سمتیں اور تہیں واضح ہوتی ہیں ۔ حیات و موت کے فلسفہ میں ان کی دلچسپی نے ان کی غزلوں کی زبان کو ایک خاص صفائی اور پاکیزگی عطا کر دی ہے"۔
ڈاکٹر احمد معراج کی شاعری اور شخصیت پر گفتگو کرتے ہوئے ہمارے معروف و مقبول ادبا و شعرا نے کیا کچھ تحریر کیا ہے ، مناسب لگتا ہے کہ ان کے کچھ  اقتباسات بھی آپ قارئین کی بصارتوں کے حوالے کرتا چلوں۔ معروف ادیب و شاعر  ڈاکٹر نسیم احمد نسیم ، احمد معراج کی شعری کائنات ، زبان اور طرز بیان پر اپنی رائے دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
"احمد معراج کی زبان شستہ شگفتہ اور سلیس ہے۔ اس لیے ان کے یہاں خیال الجھے ہوئے اور گنجلک نہیں ہیں۔
 وہ بہت روانی اور برجستگی کے ساتھ جو کچھ کہنا چاہتے ہیں کہہ جاتے ہیں ۔ میری دانست میں یہ کسی بھی شاعر کی سب سے بڑی خصوصیت تصور کی جانی چاہیے"۔
ان کے بعد اردو دنیا کے نہایت معتبر اور ممتاز ناقد و صحافی حقانی القاسمی( نئی دہلی) کا عمدہ مضمون "سخنِ آسماں کا نیا ستارہ "پڑھنے کو میسر ہے ۔ موصوف، ڈاکٹر احمد معراج کے بارے میں بہت واضح اور کھلے دل سے ان کی شعری صلاحیت و استعداد پر اپنی رائے اور پسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
" احمد معراج کی شاعری حادثات حیات ، زندگی کے تضادات وہ تموجات  ، انتشار و آویزش کی تعبیر بھی ہے اور عصری کرب و کشمکش کا بیانیہ بھی ۔ ان کی شاعری کا روح اور روحانیت عشق اور رومانیت سے بھی گہرا رشتہ ہے ۔ اس میں تزکیہ نفس ، تطہیر باطن کے ساتھ ساتھ ، جمالیاتی اور جذباتی تسکین کا عنصر بھی ہے"۔
احمد معراج کی شخصیت اور فن سے متعلق معروف شاعر و ادیب  ایم ۔نصراللہ نصر ( ہورہ مغربی بنگال) فرماتے ہیں:
        "ڈاکٹر احمد معراج نہایت ہی مخلص اور سلیقہ مند انسان ہیں ۔ درد مند دل رکھتے ہیں ۔ طبیعت میں شگفتگی اور شادابی ہمیشہ قائم رہتی ہے ۔ آج وہ اس مقام پر پہنچ چکے ہیں جہاں سے ان کا شعری و ادبی قد کہسار کے درمیان سے نکلتے ہوئے سورج کی مانند صاف دکھائی پڑتا ہے"۔
آخر میں مشہور و معروف ادیب و شاعر  ڈاکٹر خان محمد رضوان(دہلی ) کچھ اس انداز میں  خامہ فرسائی کرتے ہیں:
" ڈاکٹر احمد معراج کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے اپنے آپ پر کسی بھی تحریک یا رویے کی فکری میلان کو حاوی نہیں ہونے دیا بلکہ ان افکار و خیالات پر خود کو حاوی رکھا ۔ یہی سبب ہے کہ وہ اپنی مثبت فکر اور متنوع خیالات سے پرورش لوح و قلم کر رہے ہیں "۔
اس مجموعہ کلام میں صفحہ 42 سے 165 تک صرف غزلیں ہی غزلیں ہیں جنکی تعداد 80 ہے ۔ اس کے ساتھ 48 متفرق اشعار بھی اس مجموعہ کلام کی زینت بنے  ہیں ۔ یہاں ایک بات واضح کرتا چلوں کہ احمد معراج نے صرف غزلیں ہی نہیں کہی ہیں بلکہ شاعری کے دوسرے اصناف پر بھی ان کو دسترس حاصل ہے۔ وہ خوب صورت نثر بھی لکھتے ہیں ۔ ان کے تحریر کردہ 
مضامین و مقالے رسائل و جرائد کے ساتھ اخبارات 
میں شائع ہوتے رہتے ہیں ۔ 
انکی دو کتابیں  "آنکھوں دیکھی:تجزیہ " اور "گلستانِ
وارث(تحقیق و تدوین )"  منظر عام پر آچکی ہیں ۔
جب ہم احمد معراج کی شاعری پر غور کرتے ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنی کم عمری ہی سے
 اطراف و اکناف کا مشاہدہ بہت گہری نگاہ سے کیا 
ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا عکس ان کے اشعار میں جا بجا نظر اتا ہے ۔ شاعر نے زندگی کو بہت قریب سے دیکھا ہے حالات اور روز بروز ہونے والے واقعات اس کے ذہن کو نہ صرف متاثر کرتے ہیں بلکہ جھنجھوڑتے بھی ہیں ۔  شاعر کا مشاہدہ جس قدر گہرا ہوگا اس کی شاعری میں اس کی تصویر کشی بھی اتنی ہی پُر کشش ہوگی ۔ زمانے کے نشب و فراز اور حالات نے ان کو ایک درد مند انسان بنا دیا ہے۔ لہذا ان کی شاعری میں انسان کی زبوں حالی ، مجبوری اور لاچاری 
کا عکس اور عصری حیثیت بھی نظر اتی ہے ۔ ان کے کچھ اشعار دیکھیں:
بے گھری اوڑھے ہوئے رہتے ہیں فٹ پاتھ پہ جو
 ان   کے  رہنے  کے  لیے کاش   کوئی  گھر   ہوتا

یوں   مفادات   کے   زینے   پہ  اگر  چڑھتا  رہا
 سب کی نظروں ہی سے ایک روز اتر جاؤں گا 

جب بھی روتا ہوں اکیلے میں سکون پاتا ہوں 
میرا   غم    بانٹنے   والی   مری   تنہائی  ہے
 
مت سمجھیے کہ وہ پرانی ہے
 عہد  رفتہ کی جو  نشانی ہے 

موت مارے گی کیا اسے مؔعراج 
زندگی   نے  جس کو  مارا  ہے 

نئی  تہذیب  کی  دیکھی  یہ  نئی   عریانی 
خوش لباسی میں بدن حسن کا عریاں نکلا 

ائینہ  دیکھنے  کی  عادت   نے
 مجھ کو سچ بولنا سکھایا ہے

یہ سچ ہے کہ بعض شعراء کی طرح احمد معراج نے بھی کچھ الفاظ کو اپنی شاعری میں خصوصیت کے  ساتھ برتا ہے۔ حقانی القاسمی کی باریک بیں نگاہ 
اس طرح کے الفاظ پر پڑی تو وہ کہہ اٹھے :
" احمد معراج کی کچھ پسندیدہ لفظیات بھی ہیں۔ جن سے ان کے ذہنی اور جذباتی سمتوں کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے ۔ خواب ، یاد  ، تنہائی ، اشک  ، غم ، زندگی اور چراغ ان کے مخصوص الفاظ ہیں"۔
مجموعہ کلام کا مطالعہ کرتے ہوئے جب میں( راقم الحروف) نے غور کیا تو ان الفاظ جن کی نشاندہی حقانی صاحب نے کی ہے ۔ ان کے ساتھ "عشق" اور" گھر" دو  مزید  ایسے  الفاظ ملتے ہیں جو تواتر سے ان کے کلام میں بکھرے نظر اتے ہیں ۔ چنانچہ لفظ" عشق" کوئی 17 مرتبہ ان کے اشعار میں ملتے ہیں جبکہ لفظ "گھر" سب سے زیادہ یعنی 26 بار ائے ہیں  ۔
عشق و محبت کی لو ، اللہ نے انسان کے دل اور اس کی فطرت میں اسے خلق کرتے ہوئے روشن کر دی تھی۔ جب تک انسان کے اندر دل دھڑکتا رہے گا عشق کی لو روشن رہے گی ۔ انسان کے دل میں عشق و محبت کی یہ "لو " اگر روشن  نہیں رہے گی تو پھر انسان ایک روبوٹ بن کر رہ جائے گا ۔  عشق کے حوالے سے چند اشعار بطور خاص آپ قارعین کی بصارتوں کی نذر کرتا چلوں ۔ پڑھیے اور لطف اٹھائیے ۔

وہاں عشق  نے ہم کو  پہنچا دیا
 جہاں تک ہماری رسائی نہیں ہے

 عشق   کو   چاہیے  نظر   ایسی 
حسن چلمن سے بھی دکھائی دے

 حسن کی کائنات عشق میں ضم
 ایسی  پیش   نظر   مثال   کہاں

 چہرہءِ  عشق  کو  بارہا
 انسوؤں سے نکھارا گیا

 ہے   معؔراج  اگر   عشق  سچا  تمہارا
 تو خاموش کیوں ہو زمانے کے ڈر سے

 عشق کو عشق کی معراج نہ حاصل ہوتی
 مرحلے  عشق  کے مؔعراج  جو  آساں ہوتے

اب آئیے لفظ" گھر" کی طرف ۔ گھر ہر انسان کی بنیادی ضرورت ہوتی ہے ۔ یہ گھر ہی ہے جہاں دنیا کے سارے مصائب، الجھنوں اور پریشانیوں سے نبرد آزما ہونے کے بعد تھکا ہارا انسان جب گھر لوٹتا ہے تو اس کو آرام و سکون میسر ہوتا ہے۔ مگر وہ لوگ جو اپنی اس بنیادی ضرورت سے بھی محروم ہیں  یا وہ گھر جہاں رہ کر بھی سکون نام کی چیز انہیں نہیں ملتی ۔ پھر ایسے حالات و واقعات سے جب ایک شاعر روبرو ہوتا ہے تو پھر گھر اس شاعر کے یہاں کس طرح ایک اہم موضوع بن کر اس کی شاعری میں ابھر اتا ہے ۔ اس کی جھلک احمد معراج کے مجموعہ کلام "صحرائے جنوں" میں نظر آتی ہے ۔چند اشعار ملاحظہ فرمائیں اور شاعر کی ذہنی پرواز کا اندازہ کریں ۔۔۔۔۔۔۔

ہوتا مٹی کا مکاں پھوس کا چھپر ہوتا 
سر جھپانے کے لیے اپنا کوئی گھر ہوتا 

جس  میں  رہتا ہوں  میں وہ  گھر  تو میرا ہے
 لیکن کاش رہنے کے لئےگھر کی طرح گھر ہوتا 

بے گھری اوڑھے ہوئے رہتے ہیں فٹ پاتھ پہ جو
 ان   کے  رہنے  کے  لیے کاش   کوئی  گھر   ہوتا

 اگر ہو دیوار  و  در سلامت تو گھر سلامت
 ہو گھر کی بنیاد گر سلامت تو گھر سلامت

ہے گھر کی رونق تو بال بچوں کے شور و غل سے
 ہوں  جن  کے  نور  نظر  سلامت  تو گھر سلامت 

یوں ہمیں جہد مسلسل نے سفر میں رکھا 
مدتوں  بعد  کبھی  لوٹ  کے  ہم  گھر ائے

 شب  نوردی میں مجھے ہوش کہاں رہتا ہے
 لوٹ کر گھر کی طرف وقت سحر جاؤں گا

 بوڑھی انکھوں میں نور بھر آیا 
بعد  مدت کے  میں  جو  گھر آیا

احمد معراج نے زندگی کو اپنی نگاہوں سے کس زاویہ سے کیسے دیکھا  اور اپنے احساسات کو اشعار میں کس طرح پیرویا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں ۔

بے    وقار     زندگی   با   وقار   زندگی
 دونوں صورتوں میں ہے برقرار زندگی

زندگی کو زندگی  دے گئی فریب جب
 کس پہ اب کرے  بھلا  اعتبار  زندگی

 تیرہ شبی میں ان کو ہوئی زندگی عطا
 سورج کے ڈوبتے ہی ستارے چمک اٹھے
 
میرے  اندر  شعور  جاگ اٹھا
زندگی میں فریب کھانے سے

 میرا   سرمایہءِ   زندگی
 دولت فکر و فن اور میں

 زندگی  مل  گئی  چراغوں کو
 ایک سورج کے ڈوب جانے سے

 اس دعا کے ساتھ مجھے اجازت دیں کہ رب کریم
 احمد معراج کی زندگی کو خوشیوں سے بھر دے اور وہ گلستانِ شعر و ادب کو اپنی تخلیقات  سے سجاتے سنوارتے رہیں ۔۔۔۔۔۔۔ آمین ۔

جمعہ, جنوری 26, 2024

جمہوری اقدارکی حفاظت __

جمہوری اقدارکی حفاظت __
Urduduniyanews72 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی 
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ
==============================
ہر سال کی طرح امسال بھی جشن منایا جائے گا ، ہندوستان کی تہذیبی وثقافتی جھانکیاں پیش کی جائیں گی ، دفاعی میدان اور اسلحوں کی دوڑ میں ہماری جو حصولیابیاں ہیں، اس کا مظاہرہ کیا جائے گا، شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کیا جائے گا ، پورا ملک جشن میں ڈوب جائے گا ، ترنگے جھنڈوں کے ساتھ مدرسوں ، اسکولوں اور اداروں میں رنگا رنگ تقریب ہوگی ، طلبہ وطالبات کو انعامات سے نوازا جائے گا ، سیاسی حضرات کی جانب سے ہندوستان کے مجاہدین آزادی کا گن گان کیا جائے گا ، اور لمبے چوڑے بیانات اور وعدوں کے ذریعہ سیدھے سادے عوام کو لبھانے کی کوشش کی جائے گی او رایسا پہلی بار نہیں ہوگا ، ہر سال ایسا ہی ہوتا ہے 26 جنوری گذرا اور ہم سب یہ بھول جاتے ہیں کہ جمہوریت کے لفظی نعروں کی کوئی حقیقت نہیں ہے ، اصل ہے جمہوری اقدار کا تحفظ؛ جس سے ملک دور سے دور ہوتا جا رہا ہے، ہم نے جمہوریت کا مطلب صرف عوام کی حکومت ، عوام کے لیے عوام کے ذریعہ سمجھ لیا ہے اور ہر پانچ سال پر انتخابات میں سارے حربے استعمال کرکے حکومت پر جو قبضہ کیا جاتا ہے ، اسے ہم جمہوری طریقہ کار سے تعبیر کرتے ہیں اور خوب خوش ہوتے ہیں کہ ہمارا ملک جمہوری اعتبار سے مضبوط ہے، یہاں عوامی حکومت ہے اور اس قدر مضبوط ہے کہ پڑوسی ملکوں کی طرح یہاں مار شل لا لگانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی اور ملک تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔
یقینا ترقی کر رہا ہے ، آزادی سے قبل جن گھروں میں سائیکل دستیاب نہیں تھی، آج موٹر سائیکل اس گھر میں موجود ہے اور بعض گھروں میں تو ہر آدمی کے لیے موٹر سائیکل دستیاب ہے، چار چکے کی بھی کمی نہیں ہے، کھانے کے لیے آزادی سے قبل عموما عام لوگوں کے لیے باجرہ ، جوار اور جوہی مہیا تھا ، گیہوں کی روٹی شاید باید گھروں میں ہر روز مہیا ہو پاتی تھی، دھوتی اور کپڑے بھی پورے طور پر فراہم نہیں تھے، زمینداروں کے ظلم وستم نے عام لوگوں کا جینا دو بھر کر دیا تھا ، بعض حرکات تو انسانیت کو ذلیل کرنے والی ہوتی تھیں، جو تے پہن کر ان کے دروازے سے گذرا نہیں جا سکتا تھا ، سواری پر بیٹھ کر کوئی گذر جائے تو قیامت آجاتی تھی ، لوگ بندھوا مزدوروں کی طرح ان کے یہاں کام کرتے اور کرتے کرتے مر جاتے تھے، یہ معاملہ نسل در نسل چلتا تھا ، ایسے لوگوں کی اپنی مرضی نہیں ہوا کرتی تھی ، سارا کچھ مالک کی مرضی کے تابع ہوتا تھا ، تھوڑی سی غلطی اور چوک پر چمڑی ادھیڑ دی جاتی تھی ، اور عفو ودر گذر ، رحم وکرم کا خانہ خالی رہتا تھا ، انسانیت سسک رہی تھی ، کسان خود کشی کر لیا کرتے تھے، پوس کی رات او رجاڑے کی یخ بستہ سردی میں کھیتوں کی رکھوالی کرتے کرتے عمر گذر جاتی تھی۔
ملک آزاد ہوا ، زمینداری ختم ہوئی، جمہوری دستور نافذ ہوا تو ملک کے عوام نے اطمینان کا سانس لیا او ربہت کچھ منظر بدلا ، انسانی قدروں کی پامالی پر روک لگی ، بندھوا مزدوری کا رواج ختم تو نہیں ہو سکا ، کم ضرور ہوا، کھیت کسانوں کا ہو گیا، ان کی بھی خود کشی کے واقعات سامنے آنے کے با وجود حالات پہلے سے اچھے ضرور ہیں۔
 اس جمہوری نظام کی وجہ سے حکومتیں بدلتی رہی ہیں، الگ الگ منشور اور مینو فیسٹو پر کام شروع ہوا ، جو حکومت آئی اس نے اپنے نظریات ملک پر تھوپنے کی کوشش کی ، اس کے نتیجے میں بھی بہت کچھ بدلا اور بدلتا چلا گیا ، کسی نے گھوم کر دیکھنے کی کوشش نہیں کی کہ سلطانی ٔجمہور میں، جمہوری اقدار کا جنازہ کس طرح نکلا اور نکلتا چلا گیا ، سیاسی پارٹیوں کو حکومت عزیز تھی ، جہاں سے ملے اور جس طرح ملے اور جتنے اقدار کو دفن کرکے ملے۔ سوا نہیں جمہوری اقدار کے تحفظ کی فکر کبھی نہیں ہوئی۔
 اس صورت حال نے جمہوری اقدار کو پامال کیا ، جمہوریت میں صرف حکومت کاہی عوامی ہونا ضروری نہیں ہے ، عوام کی خواہشات ، امنگیں ، ان کے حقوق کا تحفظ ، مذہب پر چلنے کی آزادی سب کا خیال رکھنا ضروری ہے، بد قسمتی سے بی جے پی کی مرکزی حکومت نے ہر سطح پر ان اقدار کو تہس نہس کر کے رکھ دیا ہے، مہنگائی بڑھتی جا رہی ہے ، گو رکچھا، لو جہاد، مندر تعمیر اور اب اس کے افتاح کے نام پر رواداری کا ماحول گذشتہ سالوں میں تیزی سے ختم ہوا ہے، نوٹ بندی اور جی ایس ٹی نے عوامی زندگی کو اس قدر متاثر کیا ہے کہ چھوٹے کاروباری تجارت کے اعتبار سے ختم ہو چکے ہیں،طویل عرصہ گذر جانے کے بعد بھی اب تک وہ اپنے کاروبا ر کو پھر سے کھڑانہیں کر پائے ہیں۔ گاندھی جی اس ملک میں عدم تشدد اور اہنسا کی علامت کے طور پر مختلف جگہوں پر تصویری شکل میں موجود تھے، انہیں بھی دیش نکالا دینے کی تیاری زوروں پر چل رہی ہے ، کئی جگہ سے انہیں ہٹایا جا چکا ہے اور روپے پر بھی کتنے دن نظر آئیں گے، کہنا مشکل ہے، نسلی اور مذہبی بنیادوں پر ملکی باشندوں کو عصبیت کا سامنا ہے اور جان بوجھ کر دلتوں ، مسلمانوں اور لسانی اقلیتوں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے ، بحالیوں میں اور اعلیٰ عہدوں پر تقرریوں میں بھی سرکار سینئرٹی کو نظر انداز کرکے پرانے لوگوں کی حوصلہ شکنی کر رہی ہے ، 
 یہ مکمل حالات نہیں ، حالات کا ہلکا سا اشاریہ ہے ، اس کو پھیلا یا جائے تو بات دیر تک چلے گی اور دور تک جائے گی، کہنا صرف یہ ہے کہ ملک میں جس طرح جمہور ی اقدار پامال ہو رہے ہیں اور کسی کو اس کی فکر نہیں ہے، ایسے میں جشن جمہوریت محض ایک رسم ہے ؛ چونکہ یہ رسم ملکی دستور سے محبت کی علامت سمجھا جاتا رہا ہے، اس لیے ہر سطح پر اس جشن کا اہتمام کرنا چاہیے اور پورے جوش وخروش کے ساتھ کرنا چاہیے ، لیکن یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ جمہوری اقدار کے تحفظ کی ضرورت پہلے سے آج کہیں زیادہ ہے، ملک کے سیاسی رہنماؤں کو اس کے لیے اقدام کرنا چاہیے ، یہ ملک سے محبت اور وفاداری کا تقاضہ بھی ہے اور جمہوری دستور کے تحفظ ؛بلکہ مجاہدین آزادی کو خراج عقیدت پیش کرنے کا بہترین طریقہ بھی۔
 چلے چلو کہ ابھی وہ منزل نہیں آئی

بدھ, جنوری 24, 2024

بلقیس بانو کو انصاف ___

بلقیس بانو کو انصاف ___
Urduduniyanews72 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ 
=====================
عدالت عظمیٰ (سپریم کورٹ) نے گجرات سرکار کے ذریعہ بلقیس بانو کے مجرمین کی رہائی کے حکم کو رد کرکے بتا دیا ہے کہ گجرات سرکار کو یہ حق نہیں تھا کہ وہ ان گیارہ مجرمین کی رہائی کا حکم جاری کرے، جنہوں نے 3؍ مارچ 2002ء کو بلقیس بانو کی اجتماعی عصمت دری کی تھی ، اس کے خاندان کے سات افراد کو قتل کر دیا تھا،جس میں بلقیس بانو کی تین سالہ بیٹی بھی شامل تھی ، خود 21؍ سال کی بلقیس بانو پانچ ماہ کی حاملہ تھی، یہ ایسا درد ناک واقعہ تھا جو گجرات فساد میں نسل کشی کا عنوان بن گیا تھا، 2004ء میں ملزمین گرفتار کیے گیے ، 2008ء میں خصوصی عدالت نے گیارہ مجرمین کو عمر قید کی سزا سنائی، مئی 2017ء میں بمبئی ہائی کورٹ نے اس فیصلہ کو بر قرار رکھا، 15؍ اگست 2022ء کو گجرات سرکار نے معافی دے کر ان مجرموں کو رہا کر دیا، 8؍ جنوری 2023ء کو سپریم کورٹ نے گجرات سرکار کے فیصلے کو رد کرکے دو ہفتہ کے اندر مجرمین کو خود سپردگی کا حکم دیا ہے، پورے ملک نے اس فیصلہ کا خیر مقدم کیا ہے اور اسے حق وانصاف کی جیت قرار دیا ہے ۔
اس مقدمہ کا فیصلہ کرتے ہوئے جسٹس بی وی ناگر تھنا اور اُجل بھوئیاں نے گجرات حکومت کو سخت پھٹکار لگائی کہ اس نے اپنے دائرہ اختیار سے تجاوز کرکے یہ فیصلہ لیا، اسے اس طرح کا حکم صادر کرنے کا اختیار ہی نہیں تھا، اس قسم کا کوئی فیصلہ صرف گجرات حکومت لے سکتی تھی کیوں کہ اس کی سماعت مہاراشٹر ا میں ہوتی تھی اور وہی حکومت رہائی کا حکم دے سکتی تھی ، بینچ نے دفعہ ۳۲؍ کے تحت بلقیس بانو کی عرضی کو قابل سماعت قرار دیا اور دفعہ 432؍ کی تشریح کے ضمن میں یہ ثابت کیا کہ گجرات حکومت کا یہ فیصلہ قابل اعتراض اور قانونی تقاضوں کے خلاف تھا، جسٹس بی وی ناگرتھنا نے مشہور فلسفی افلاطون کا یہ قول نقل کیا کہ ’’منصف کی حیثیت ڈاکٹر کی ہوتی ہے جو مریضوں کی صحت یابی کے لیے کڑوی دوائیں تجویز کرتا ہے۔‘‘
بلقیس بانو کے ہونٹوں پر کوئی ڈیڑھ سال بعد مسکراہٹ نظر آئی ، انہوں نے خود بھی اقرار کیا کہ ڈیڑھ سال کے بعد میں مسکرائی ہوں، جب سے مجرمین کو رہا کیا گیا تھا میں انتہائی کرب میں تھی، مجھے پھر سے ان مجرمین کی جانب سے خطرہ لاحق ہو گیا تھا، کیوں کہ کسی بھی مرحلہ میں مجھے حکومت کی جانب سے تحفظ فراہم نہیں کیا گیا، اور رہائی کے بعد ان کے حوصلے اس قدر بڑھ گیے تھے کہ وہ پھر سے کسی اور حد تک جا سکتے تھے، ان کے دو بارہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے جانے کے حکم سے مجھے انتہائی اطمینان اور سکون ملا ہے، اور یقین ہو گیا کہ انصاف ابھی زندہ ہے۔بلقیس بانو نے ان تمام لوگوں کا بھی شکریہ ادا کیا ہے، جو ان کی پشت پر مضبوطی سے کھڑے رہے اور ان کا حوصلہ بڑھایا، ان لوگوں میں خواتین بھی ہیں اور مرد بھی، یہ تعداد ہزاروں تک پہونچتی ہے، معلوم ہوا کہ فیصلہ یقینا ہمارے بس میں نہیں ہوتا لیکن مظلوموں کا ساتھ دے کر اسے کیفر کردار تک پہونچانے میں معاون تو بن ہی سکتے ہیں۔

منگل, جنوری 23, 2024

تکان نا آشنا عبقری شخصیت

تکان نا آشنا عبقری شخصیت
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ 

مولانا مفتی ابو ابراہیم مشیر عالم قاسمی دار العلوم الاسلامیہ امارت شرعیہ میں استاذ حدیث ہیں، ان کا درس طلبہ میں مقبول ہے، ہم لوگ انہیں ایک مدرس کی حیثیت سے ہی جانتے پہچانتے رہے ہیں، لیکن دار العلوم الاسلامیہ کے سابق سکریٹری مولانا سہیل احمد ندوی ؒ نے تصنیف وتالیف کی ان کی خفیہ صلاحیت کو ہمارے سامنے ا ٓشکاراکیا، وہ ایک بار مولانا کو اپنے ساتھ لے کر آئے اور فرمایا کہ یہ میرے پر دادا مشہور مجاہد آزادی شیخ عدالت حسین بگہی پر کام کر رہے ہیں، اس تحقیق میں آپ ان کی مدد کردیں، مجھے وقتی طور پر اس موضوع پر حوالہ جاتی کتب کا جوعلم تھا، انہیں بتایا، خود مولانا سہیل احمد ندوی ؒ نے اپنے کاغذات کے ذخیرے کوالٹا پلٹا، علاقہ کے اہل علم اور مؤرخین سے چمپارن کی تاریخ کے بہت سے اوراق گم گشتہ کو ڈھونڈھا اور مولانا کے حوالہ کیا، مولانامشیر عالم اپنی تدریسی مصروفیات کے ساتھ اس کام کو انجام دے رہے تھے اور مولاناسہیل احمد ندوی مرحوم بھی انتہائی خوش تھے کہ برسوں بعد اللہ رب العزت نے اس کام کی توفیق عطا فرمائی اس کام کے لیے مولانا مشیر عالم صاحب کے وہ ممنون بھی تھے اور مشکور بھی۔
 ابھی شیخ عدالت حسین پر کتاب کی تکمیل نہیں ہو سکی تھی کہ اچانک مولانا سہیل احمد ندوی ؒ کی زندگی کا آخری ورق پلٹ گیا، وہ اڈیشہ کے سفر پر یوسی سی کی مخالفت میں دورے پر تھے کہ ظہر کی نماز کی سنت پڑھتے ہوئے سجدہ کی حالت میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے، حادثہ اس قدر اچانک آیا کہ لوگ حیرت زدہ رہ گیے اور کہنے لگے ”تم جیسے گیے ویسے بھی ہے جاتا کوئی“ غم واندوہ کی کیفیت مولانا کے صاحب زادگان، اعزو اقربا کے ساتھ ان تمام اداروں کے افراد پربھی طاری تھی واقعہ یہی ہے کہ ان کی کمی دیر تک محسوس کی جاتی رہے گی۔
 مولانا کے انتقال کے بعد مولانا نے اپنے قلم کا رخ مولانا سہیل احمد ندوی ؒ کی حیات وخدمات کی طرف موڑ دیا، علاقہ کی سماجی، سیاسی اور جغرافیائی تاریخ تو وہ پہلے سے ہی شیخ عدالت حسین کے لیے لکھ چکے تھے، اب ساری توجہ مولانا کی زندگی کے مختلف گوشوں اور ان کی خدمات کی لانبی تاریخ کو صفحہئ قرطاس میں ثبت کرنے پر لگ گئی، جو مقدم تھے مؤخر ہو گیے اور جو جانے کے اعتبار سے مؤخر تھے وہ سر فہرست آگیے، مولانا مشیر عالم نے بڑی محنت سے مولانا کی حیات وخدمات کے نقوش کو قارئین کے سامنے پیش کرنے کا ارادہ کیا اور اللہ رب العزت نے اس میں انہیں کامیابی عطا فرمائی۔
 مولانا پر پہلا مضمون مشہور صحافی عارف اقبال نے اپنی کتاب”میر کارواں“ میں لکھا تھا، جس کا مواد اور ماخذ انہوں نے بالمشافہ ان سے انٹر ویو لے کر حاصل کیا تھا، مفتی نیر اسلام صاحب نے بھی مولانا کے اخلاق وعادات اوصاف وکمالات پر ایک طویل مضمون لکھا تھا، مولانا کے انتقال کے بعد تو مضامین، پیغامات اور تعزیتی بیانات کا طویل سلسلہ شروع ہوا، لیکن مولانا پر ان کے انتقال کے بعد پہلا باضابطہ مضمو ن میں نے نقیب میں لکھا، پھر جب حضرت امیر شریعت کے حکم پر نقیب کا خصوصی شمارہ مولانا مرحوم پر نکلا تو اس کے اداریہ میں بھی بہت سی باتیں میں نے ذکر کی تھیں، اور چوں کہ میرا مضمون ان کے انتقال کے معا بعد نقیب میں چھپ چکا تھا، اس لیے اس خصوصی شمارہ میں قصدا شامل نہیں کیا، نقیب کا یہ خصوصی شمارہ حصہ دوم کی حیثیت سے اس کتاب میں شامل ہے، مولانا مشیر عالم صاحب نے اسے شامل کتاب کرکے اس شمارہ کے مضامین کو حیات جاودانی بخشنے کا کام کیا ہے، ان مضامین سے مولانا کی ہمہ جہت شخصیت کے کئی اہم پہلو ہمارے سامنے آتے ہیں۔
 مولانا مشیر عالم صاحب کی اصل محنت پہلے حصہ میں ہے، انہوں نے مولانا کے آبائی وطن، بگہی، علاقہ دیوراج ضلع چمپارن کی تاریخ پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے اور انگریزی اردو میں معلوم تاریخ کے حوالہ سے چمپارن، دیوراج کی وجہ تسمیہ، اس کی تاریخی حیثیت، دیوراج کی خوش حالی، وہاں کے پیشہ، دیوراج کی تہذیبی وثقافتی اہمیت، وہاں کی تعلیمی شرح، کھیل کود کے احوال، سیاسی رجحانات، فرقہ وارانہ ہم آہنگی وغیرہ پر انگریزی کتابوں کے حوالوں سے اپنے مطالعہ کو پیش کیا ہے، یہ انتہائی اہم ہے اور وقیع بھی۔
اس سے فراغت کے بعد مولانا مشیر عالم نے مولانا کے خاندان اور اس خاندان کی دینی وملی خدمات کا جائزہ لیا ہے، مولانا کے سوانحی خاکے، ان کے انداز واطوار، دار العلوم الاسلامیہ کی سکریٹری شپ، امارت شرعیہ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیر ٹرسٹ کے حوالہ سے ان کی خدمات کا جامع تذکرہ مرتب کر دیا ہے، اس کے ذیل میں مولانا کی مادر علمی، اساتذہ، مولانا کی ظرافت، فکر امارت کی پاسبانی، کام کرنے کے طریقے کابھی بسیط تذکرہ موجود ہے، اس طرح مولانا کی وفات تجہیز وتکفین کے ذکر پر یہ کتاب اختتام پذیر ہوتی ہے۔
 مولانا کی خدمات کی جو مختلف جہتیں تھیں اس میں سے ایک بڑی جہت یہ تھی کہ وہ کاموں کے بوجھ سے نہ تو تھکتے تھے اور نہ ہی گھبراتے تھے،ا س کے لیے مولانا مشیر عالم صاحب نے تکان نا آشنا کا لفظ استعمال کیا ہے اور اسی کو کتاب کا سرنامہ اور عنوان قرار دیا ہے، جوان کے ذہن رسا اور تجزیاتی مطالعہ میں گہرائی اور گیرائی کی دلیل ہے، واقعتا مولانا کی شخصیت تکان نا آشنا تھی، اسی اعتبار سے ان کا شمار عبقری شخصیتوں میں کیا جا سکتا ہے۔
 اللہ تعالیٰ مولانا مشیر عالم کو جزاء خیر دے کہ انہوں نے ہم سب کی طرف سے فرض کفایہ ادا کر دیا، میں یہ بھی دعا کرتا ہوں کہ مولانا مرحوم کے پر دادا شیخ عدالت حسین صاحب کی سوانح بھی وہ مکمل کر دیں کیوں کہ یہ مولانا مرحوم کی خواہش تھی اور خواہش کو مرنے کے بعد وصیت کا درجہ مل جاتا ہے، اس لیے شیخ عدالت پر کتاب کی تکمیل ان کی صیت پوری کرنے جیسا عمل ہے، اللہ تعالیٰ مولاسہیل احمد ندوی رحمۃ اللہ علیہ کی مغفرت فرمائے، امارت کو ان کا نعم البدل دے اور مولانا مشیر عالم کو صحت عافیت کے ساتھ درازیئ عمر عطا فرمائے، تاکہ وہ ایسے ہی تاریخ وتحقیق کے کل گیسو سنوارتے رہیں، آمین یا رب العالمین

پیر, جنوری 22, 2024

منور رانا: آپ آسان سمجھتے ہیں منور ؔہونا

منور رانا:   آپ آسان سمجھتے ہیں منور ؔہوناUrduduniyanews72 
    ✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ (9431003131)

4؍ جنوری 2024ء بروز اتوار بوقت 11:30بجے شب ، شعور وآگہی کے پیکر، حساس ذہنوں کے با مقصد ترجمان ،ماں کے تقدس کو لفظوں میں نیا آب وتاب دینے والے اور ہجرت کے کرب وبلا کو الفاظ کے سانچے میں ڈھالنے والے اردو غزل ونظم کو نئی سمت اور جہت دینے والے ، عظیم شاعر ونثر نگار منور رانا نے اس دنیا سے منھ پھیر لیا ، وہ برسوں سے کینسر اور پھیپھڑے کے مرض میں مبتلا تھے، کورونانے انہیں مستقل مریض بنا دیا تھا، ان کا گردہ بھی متأثر تھا ، ڈائیلاسس پر زندگی گذر رہی تھی ،میدانتا ہوسپیٹل سے ایک ہفتہ قبل اس جی پی جی آئی سنجے گاندھی پوسٹ گریجویٹ انسٹی چیوٹ آف میڈیکل سائنس لکھنؤ منتقل کیا گیا تھا، پس ماندگان میں پانچ بیٹیاں سمیہ رانا، فوزیہ رانا ، عرشی رانا، عروصہ رانا ، ہبہ رانا اور ایک بیٹا تبریز رانا ہیں،نماز جنازہ دوسرے دن سوموارکو دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤمیں بعد نماز ظہر ندوۃ کے ناظر عام مولانا جعفر حسنی ندوی نے پڑھائی، دوسری نماز جنازہ عیش باغ قبرستان کی بڑی مسجد میں امام مسجد حافظ عبد المتین کی اقتدا میں ادا کی گئی اور وصیت کے مطابق عیش باغ چمن قبرستان لکھنؤ میں تدفین عمل میں آئی، جنازہ میں ندوۃ العلماء کے اساتذہ طلبہ شہر کے علماء اور ادبی شخصیات نے شرکت کی، مشہور شاعر نغمہ نگار اور راجیہ سبھا کے سابق رکن جاوید اختر بھی جنازہ میں پیش پیش تھے۔
 منور رانا بن انوار رانا بن سید صادق علی 26؍ نومبر 1952ء کو رائے بریلی میں پیدا ہوئے، ان کی والدہ کا نام عائشہ اور اہلیہ کا نام راعنا خاتون تھا، ان کا تعلیمی سفر شعیب اسکول اور گورنمنٹ انٹر کالج رائے بریلی ہوتا ہوا لکھنؤکے سینٹ جانسن ہائی اسکول تک پہونچا ، یہیں انہوں نے لکھنؤ کی سشتہ اور سائشتہ زبان کا استعمال کرنا سیکھا، ان کے والد کلکتہ میں تجارت سے لگے ہوئے تھے، چنانچہ انہوں نے 1968ءء میں کلکتہ کا سفر کیا اور ملا محمد جان ہائر سکنڈری اسکول سے ہائر سکنڈری اور امیش چندرا کالج سے بی کام کی ڈگری حاصل کی۔
منور رانا نے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے فلمی اداکاروں کے آواز کی نقالی شروع کی، شتروگھن سنہا کے ڈائیلاگ کی وہ اس طرح ہو بہو نقل اتارتے کہ لوگ انہیں ’’کلکتہ کا شتروگھن سنہا‘‘ کہنے لگے ، پھر انہوں نے مختلف قسم کے ثقافتی پروگرام میں جانا شروع کیا، وہ ناچ ، گانے، ڈی جے اور مشاعروں کی مجلسوں میں مختلف انداز میں اپنی حاضری درج کراتے ، کبھی نظامت کرکے، کبھی کسی اور کردار میں، انہوں نے 1971ء میں پہلا ڈرامہ ’’جے بنگلہ دیش‘‘ لکھا، اس کی ہدایت کاری بھی خود کی، یہ ڈرامہ کلکتہ کے ہومیوپیتھی کالج میں اسٹیج ہوا اور انعام کا مستحق قرار پایا،ا ٓغا حشر کاشمیری کے ڈرامہ ’’آنکھ کا نشہ‘‘ میں بینی پرشاد ورما کا مرکزی رول کیا، انہوں نے جوگندر کی ایک فلم گیتا اور قرآن کے لیے کہانی بھی لکھی، بد قسمتی سے یہ فلم نہیں بن سکی، جس نے ان کو فلمی دنیا سے شاعری کی طرف متوجہ کر دیا وہ کلکتہ کے مشہور شاعر پروفیسر اعزاز افضل کے حلقۂ تلامذہ میں شامل ہو گئے اور منور علی آتش کے نام سے شاعری کرنے لگے ، ان کی پہلی تخلیق سولہ سال کی عمر میں ملا محمدجان اسکول کے مجلہ میں دور طالب علمی میں چھپی تھی ، طویل وقفہ کے بعد 1972ء میں ان کی غزل ماہنامہ شہود کلکتہ میں چھپی، منور رانا نے بعد میں نازش پرتاب گڈھی اور راز الٰہ آبادی کی بھی شاگردی اختیار کی اور ان دونوں کے مشورے سے منور علی شاداں کے نام سے لکھنے لگے، پھر جب وہ والی آسی کے حلقۂ تلامذہ میں داخل ہوئے تو ان کے مشورہ سے اپنا تخلص 1977ء  میں بدل کر منور رانا کر دیا، رانا ان کا خاندانی لاحقہ بھی تھا، اس طرح آتش ، شاداں اور منور رانا تک کا ان کا سفر طے ہوا، وہ کلکتہ میں اپنے والد کے ٹرانسپورٹنگ کے کام سے معاش کے حصول کے ساتھ شاعر ی بھی کرتے رہے ، ان کی زندگی میں محبوباؤں اورمعشوقہ کا بھی گذر ہوا، لیکن جلد ہی وہ رومانیت سے لوٹ آئے اور عصری حسیت سے بھر پور شاعری کرنے لگے، مشاعروں میں ان کی پوچھ ہونے لگی اور ان کا معاوضہ بھی بڑھتا چلا گیا، انہوں نے ایک ایسے دور میں اردو مشاعروں میں اپنی پہچان بنا ئی جب گویے اور لہک لہک کر پڑھنے والے شاعر اور شاعرات کی پوچھ زیادہ تھی ، وہ تحت اللفظ پڑھا کرتے اور راحت اندوری کی طرح ایکٹنگ بھی نہیں کرتے تھے، اس کے باوجود ان کی شاعری کے رنگ وآہنگ ،الفاظ کے بر محل استعمال کی وجہ سے وہ مشاعروں کی جان آن، بان ، شان بن جاتے۔
انہوں نے اردو شاعری میں ’’ماں‘‘ کے کردار کو زندہ جاوید کر دیا، عظمت ، تقدس، اولاد سے بے پناہ محبت ، وارفتگی اور اس جیسے کئی اوصاف کو انہوں نے اس قدر مہارت ، چابک دستی اور نئے نئے زاویے سے بیان کیا کہ ان کی شاعری کی یہ شناخت بن گئی ، ملک وبیرون ملک ’’ماں‘‘ کے تئیں ان کے جذبے کو لوگ سنا کرتے اور سر دھنتے،انہوں نے پاکستان کے ایک مشاعرہ کے لیے ’’مہاجر نامہ‘‘ لکھا، اس میں ہجرت کے کرب اور محرومی کا ذکر اس انداز میں کیا کہ وہ جگ بیتی بن گئی، بعد میں انہوں نے اس کے اشعار میں اضافہ کرکے پانچ سو اشعار پر پوری کتاب بنا دیا، ان دونوں کتابوں نے ان کی مقبولیت کے گراف کو آسمان تک پہونچا دیا۔
ان کے علاوہ ان کا پہلا شعری مجموعہ نیم کا پھول(1993ء) میں منظر عام پر آیا، ان کے کئی مجموعے کہوظل الٰہی سے (2000ء)، منور رانا کی سو غزلیں (2000ء)، گھراکیلا ہوگا(2000ء)، جنگلی پھول (2008ء) ، نئے موسم کے پھول (2008ء) ، کترن میرے خوابوں کی (2010ء) طبع ہو کر مقبول ہوئے ، ان کے ہندی شعری مجموعے غزل گاؤں (1981ء) ، پیپل چھاؤں (1984ء) ، مورپاؤں (1987ء)، سب اس کے لیے (1989ء) ، نیم کے پھول  (1991ء)، بدن سرائے (1996ء) ، گھر اکیلا ہوگا (2000ء) ، ماں (2005ء) ، پھر کبیر (2007ء)، سفید جنگلی کبوتر( 2005ء)، چہرے یاد رہتے ہیں (2008ء)، ڈھلان سے اترتے ہوئے اور پھنک تال مختلف نثری اصناف میں ان کی تصنیفات ہیں، ان کی ادبی، شعری اور نثری خدمات کے اعتراف میں ایک درجن سے زائد اعزازات وایوارڈ مختلف ادارے اور تنظیموں کی طرف سے ملے، ادب کا بڑا ایوارڈ ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ بھی 2014ء میں ان کی جھولی میں آگرا تھا، لیکن بعض ملکی وملی مسائل میں حکومت سے اختلاف کی وجہ سے دوسرے بہت سارے مصنفین کی طرح انہوں نے اس ایوارڈ کو پھر سے حکومت کی جھولی میں ڈال دیا، کیوں کہ وہ نفرت کی سودا گری اور ماب لنچنگ کے واقعات سے انتہائی افسردہ ہو گیے تھے اور اعلان کر دیاتھا کہ میں کوئی سرکاری ایوارڈ قبول نہیں کروں گا، جس کی وجہ سے انہیں اور ان کی لڑکیوں پر بھی ابتلاء وآزمائش کی گھڑی آئی، لیکن وہ صبر وثبات کے ساتھ اس آزمائش سے نکلنے میں کامیاب ہو گیے، انہوں نے کہا 
اگر دنگائیوں پر تیرا کوئی بس نہیں چلتا

تو پھر سن لے حکومت ہم تجھے نامرد کہتے ہیں
ایک آنسو بھی حکومت کے لیے خطرہ ہے

تم نے دیکھا نہیں آنکھوں کا سمندر ہونا
2017ء میں وہ کینسر کے موذی مرض میں مبتلا ہوئے ،جبڑے کا آپریشن بھی کرایا جرأت کے ساتھ اپنے مشاغل جاری رکھے، مشاعروں میں آنا جانا بھی رہا، بعد میں کورونا نے ان کے پھیپھڑے کو متأثر کر دیا، گردہ بھی ڈائیلاسس پر چلا گیا، وہ شوگر اور بلڈ پریشر کے بھی مریض تھے،اس طرح وہ مجموعۃ امراض بن گئے، عمرا کہتر سال کی ہو چکی تھی، امراض نے پیری میں جواں ہوکر دھیرے دھیرے انہیں قبر کی آغوش تک پہونچا دیا، منور رانا چلے گیے ، دوسرا منور رانا کا پیدا ہونا آسان نہیں ہے، انہوں نے خود ہی کہا تھا۔
بادشاہوں کو سکھایا ہے قلندر ہونا

آپ آساں سمجھتے ہیں منورؔ ہونا

 منور رانا کے بعض اشعار ضرب المثل بن گیے ہیں اور ہر پڑھے لکھے کی زبان پر ہیں، آپ بھی دیکھیے۔
تمہارے شہر میں سب میت کو کاندھا نہیں دیتے 

ہمارے گاؤں میں چھپر بھی سب مل کر اٹھاتے ہیں
کسی کو گھر ملا حصے میں یا کوئی دوکاں آئی

میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا میرے حصے میں ماں آئی
شاعری کچھ بھی رسوا نہیں ہونے دیتی

میں سیاست میں چلا جاؤں گا تو ننگا ہوجاؤں گا
جب تک ہے ڈور ہاتھ میں تب تک کا کھیل ہے 

دیکھی تو ہوں گی تم نے پتنگیں  کٹی ہوئی
سوجاتے ہیں فٹ پاتھ پر اخبار بچھا کر 

مزدور کبھی نیند کی گولی نہیں کھاتے 
روز وشب ہم کو بھی سمجھاتی ہے مٹی قبر کی 

خاک میں مل جائے گی تیری بھی ہستی ایک دن
شہرت ملی و اس نے بھی لہجہ بدل دیا

دولت نے کتنے لوگوں کا شجرہ بدل دیا

مولانا سید شاہ شرف عالم ندوی ؒ (یادوں کے چراغ)

مولانا سید شاہ شرف عالم ندوی ؒ (یادوں کے چراغ)
Urduduniyanews72 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ

امارت شرعیہ کی مجلس شوری کے رکن، نامور عالم دین خانقاہ پیر دمڑ یا خلیفہ باغ بھاگلپور کے سجادہ نشین سید علی احمد شاہ شرف عالم ندوی بن سید شاہ فخر عالم (م 1976) بن شاہ فتح عالم عرف منظور حسن (م1929) بن اسعد اللہ (1902) بن عنایت حسن (م1882) کا نواسی سال (ہجری تاریخ کے اعتبار سے) کی عمر میں 25 ربیع الثانی 1426ھ مطابق 3 جون 2005  بروز جمعہ سات بجے وصال ہو گیا ”انا لِلّٰہِ وانا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ“ شاہ صاحب کی ولادت 28 مارچ 1962ء کو اپنی نانی ہال لکھنؤ میں ہوئی، ابتدائی تعلیم اور قرآن کریم کا حفظ اپنے وطن بھاگلپور میں ہی کیا، پھر دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ تشریف لے گئے، اور علوم متداولہ کی تکمیل کے بعد سند فراغت پائی، قرآن کریم اچھا پڑھتے تھے، اس لیے 36 سال تک مسلسل رمضان میں خانقاہ کی مسجد میں قرآن کریم سنانے کی سعادت حاصل ہوئی اور امامت تو معذور ہونے کے پہلے تک کرتے رہے، 17مئی 1976 کو والد صاحب کے انتقال کے بعد سجادہ نشیں مقرر ہوئے اور تا عمر اس اہم منصب کے علمی، فکری اور روحانی تقاضوں کو پورا کرنے میں لگے رہے، بھاگل پور فساد کے موقع پر آپ نے اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کرتے ہوئے یکجہتی کی فضا پیدا کرنے میں مؤثر رول ادا کیا، آپ سینٹرل وقف کونسل، اور سنی وقف بورڈ بہار کے بھی برسوں تک ممبر رہے، اور اوقاف کی جائداد کی حفاظت اور اس کو نفع بخش بنانے میں اپنی حصہ داری نبھائی۔
شاہ صاحب سے میری پہلی ملاقات 1984 میں ہوئی تھی۔ جب میرا پہلی بارخانقاہ جاناہوا، ان دنوں میں خانوادہ پیردمڑ یا پر کام کر رہا تھا، اور اس خانقاہ کے مورث اعلیٰ مخدوم شاہ ارشد الدین عرف سید شاہ دانشمند (م 945) کے مزار حسن پورہ سیوان اور سید احمد عرف پیرد مڑیا (م972) حاجی پور نیز کمال الدین میرسید زین العابدین پیر دمڑ یا ثانی (م1024) کے مزار سے ہوتا ہوا بھاگل پور پہنچا تھا۔ مقصد اس خانقاہ اور خانوادہ سے متعلق مخطوطات اور مطبوعات کا مطالعہ کرنا تھا، جس کا بڑا ذخیرہ حضرت شاہ صاحب کے کتب خانہ میں موجود تھا، حاضری نیاز مندانہ نہیں، طالب علمانہ تھی، اور ایک ایسے شخص کی تھی جو بساط علم و ادب پر نو وارد تھا، جس کا نہ کوئی کارنامہ تھا، اور نہ ہی شہرت، اس کے با وجود اس پہلی ملاقات میں ایک طالب علم پر جو شفقت انھوں نے فرمائی اور جس طرح علمی تعاون کیا، اس کے اثرات اب تک دل و دماغ پر مسلط ہیں، میں نے اس ملاقات میں ان کی متانت و سنجیدگی، مریدین و متوسلین کی تربیت، تزکیہ اور اصلاح کے لیے ان کی فکرمندی کو قریب سے دیکھا، اور کافی متاثر ہوا، مریدوں سے تحائف کے قبول کرنے کا مزاج بھی نہیں تھا، کوئی پیش کرتا تو فرماتے کسی ضرورت مند کو دے دو۔ یہ استغناء اس خانقاہ کی وراثت ہے، بتایا جاتا ہے کہ خانقاہ پیرد مٹر یا کا نام دمڑ یا اسی مناسبت سے ہے کہ یہ حضرات نذرانہ کی بڑی بڑی رقموں میں سے دل رکھنے کے لیے ایک دمڑی قبول کیا کرتے تھے، دولت کے جمع کرنے کا مزاج نہ پہلے تھا اور نہ اب ہے۔
 دوسری ملاقات یتیم خانہ بھاگلپور کے جلسہ میں ہوئی، مولانا سید سلمان الحسینی صدر جمعیت شباب اسلام کی معیت میں یہ سفر ہوا تھا، خانقاہ ہی میں قیام رہا، ہر قسم کے آرام کا خیال خود بھی رکھا، اور اپنے صاحبزادہ مولانا شاہ حسن مانی کوبھی اس طرف متوجہ کرتے رہے، اس سفر میں مجھے جا گیر کی ان تمام دستاویزات کو دیکھنے کا موقع ملا، جو مغل بادشاہوں نے اس خانقاہ کی عظمت کے پیش نظر جاگیر کے وثیقہ کی شکل میں پیش کیا تھا، کئی سلاطین کے دستخط مجھے پہلی بار وہاں دیکھنے کو ملے، جائداد سے قطع نظر، خود ان قیمتی دستاویزات کی مالیت لاکھوں میں تھی، لیکن استغناء کا یہ عالم کہ ایک کپڑے کے ٹکڑے میں لپٹا ہوا رکھا ہے۔ کوئی اہتمام نہیں اور نہ ہی اس حوالہ سے خانقاہ کی عظمت کا کوئی بیان ہوتاہے، جیسے یہ کوئی قابل ذکر چیز ہے ہی نہیں۔
امارت شرعیہ سے شاہ صاحب کا بڑا مضبوط اور گہرا رشتہ تھا آپ ہمیشہ اس کے کاموں میں معین و مددگار رہتے، یہی وجہ ہے کہ انتقال کی خبر آنے پراس وقت کے امیر شریعت مولانا سید نظام الدینؒ کے حکم اور اس وقت کے ناظم امارت شرعیہ مولانا انیس الرحمن قاسمی کی ہدایت پر راقم الحروف (محمد ثناء الہدی قاسمی) اور مولا نا محمد سہیل اختر قاسمی موجودہ نائب قاضی امارت شرعیہ نے جنازہ میں شرکت کی، بعد نماز عشاء جنازہ کی نماز ہوئی، لوگوں کا جم غفیر تھا جو آخری دیدار، اور جنازہ کے لیے جمع تھا، خانقاہ کی مسجد کے صحن میں صفیں لگائی گئیں، مولانا شاہ حسن مانی ندوی کے حکم سے شاہ صاحب کے پوتے مولانا محمد حسن ندوی نے نماز جنازہ پڑھائی، اور نصف شب میں آفتاب علم وفن، سلوک و فضیلت و شرافت کو خانقاہ کے قبرستان میں مسجد سے متصل سپردخاک کر دیا گیا، اللہ رب العزت سے دعا ہے ان کی مغفرت فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل سے نوازے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...