Powered By Blogger

منگل, جنوری 30, 2024

علامہ محمد انور شاہ کشمیری اور عربی زبان وادب

علامہ محمد انور شاہ کشمیری اور عربی زبان وادب 
اردودنیانیوز۷۲ 
    ✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ
===============================
حضرت علامہ محمد انور شاہ کشمیری کا نام آتے ہی ان کی علمی عبقریت وعظمت ، احادیث پر ان کی خدمات ، تحقیق کے میدان میں ان کی بے مثال مساعی اور ان کے غیر معمولی حافظہ کے احوال وواقعات پڑھ اور سن کر دل ودماغ سر نگوں ہوجاتے ہیں، اور احساس ہوتاہے کہ دار العلوم دیو بند نے کیسی کیسی علمی شخصیات کو پیدا کیا اور انہوں نے کس قدر علمی ، ملی ، دینی کاموں میں جفا کشی کی اور کیسے کیسے گہر آبدار ہم پیچھے آنے والوں کے لیے چھوڑا، واقعہ یہ ہے کہ حضرت کشمیری ؒ کی ذات اقدس اپنے وقت میں مرجع علماء تھیں اور اب ان کی کتابیں مرجع کے طور پر استعمال ہو رہی ہیں، صحیح اور سچی بات یہ ہے کہ ان کی شخصیت کثیر الجہات تھی اور ان کے علم وتحقیق کا دائرہ تفسیر ، حدیث، فقہ ، عقائد ، تاریخ عربی ادب، لغت اور تصوف تک وسیع تھا، ہر صنف میں ان کی خدمات وقیع ہیں، اسی لیے پوری مسلم دنیا ان کی عظمت کے سامنے سرجھکاتی ہے ۔
 عربی زبان وادب میں بھی ان کی خدمات وقیع ہیں، ان کی اکثر بیشتر تصنیفات وتالیفات کی زبان عربی ہے، ان کی یہ خدمت حدیث کے مقابلہ دب سی گئی ہے اور سوانح نگاروں کی توجہ اس طرف ذرا کم ہوئی، عربی میں مولانا یوسف بنوری کی عربی سوانح نفحہ العنبر فی حیاۃ امام العصر الشیخ انور میں ان کی عربی زباندانی اور اس فن میں ان کی مہارت کا ذکر ذرا تفصیل سے آیا ہے ، بقیہ مولانا عبد الرحمن کونڈو کی الانور، مولانا ازہر شاہ قیصر کی حیات انور، مولانا انظر شاہ صاحب کی نقش دوام اور بہت سارے مضامین ومقالات میں عربی ادب کے حوالہ سے ان کی خدمات کے ذکر سے محققین سرسری گذر گیے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک اہم کتاب ڈاکٹر عبد المالک مظفر خان کی العلامہ انور شاہ کشمیری حیاتہ وشعرہ ہے جو بلا واسطہ اس موضوع سے متعلق ہے ، مولانا محمد نافع عارفی کی یہ کتاب اردو میں مولانا کی عربی ادب کی خدمات کا تفصیلی ، تحقیقی اور تجزیاتی مطالعہ ہے ، جو تحقیق کے نئے زاویے اور عصری جہتوں کو سامنے رکھ کر لکھا گیا ہے ۔اور میرے مطالعہ کی حد تک اس موضوع پر پہلی کتاب ہے۔
ابو حمزہ محمد نافع عارفی بن حضرت مولانا محمد سعد اللہ صدیقی بن حضرت مولانا عبد الرحمن ہر سنگھ پوری ؒ ایک علمی خانوادے کے چشم وچراغ ہیں، علم وصلاح ان کا خاندانی ورثہ ہے ، تصوف کے حوالہ سے بھی اس خاندان کی بڑی خدمات رہی ہیں، مولانا نافع عارفی نے مدرسہ رحمانیہ سوپول ، جامع العلوم مظفر پور، دار العلوم دیو بند اور المعہد العالی الاسلامی حیدر آباد سے علمی اکتساب کیا ہے اور تحقیق وفتاویٰ کے رموز سیکھے ہیں، پھر اس صلاحیت کو صیقل کرنے کے لیے مدرسہ عبد اللہ بن مسعود حیدر آباد ، مدرسہ چشمہ فیض ملل ، دارالعلوم سبیل الفلاح جالے، معہد الولی الاسلامی ہر سنگھ پور میں پڑھایا بھی ہے ، ان کی دس کتابیں اسلام کا نظام زراعت ، کتابت وحی اور کاتبین ، مذہبی رواداری اور اسوۂ نبوی ، حیات عارف، الحدیقۃ العربیۃ (2حصے) نخبۃ دروس اللغۃ العربیۃ ، الزھرۃ العربیۃ ، عربی زبان وادب کی تاریخ، تسہیل القواعد اور زاہیۃ الادب، تصیف ، تالیف ، تحقیق اور ترتیب کے طور پر سامنے آچکی ہیں، یا آنے والی ہیں، جس سے ان کی صلاحیت اور اردو عربی زبان میں تصنیفی قدرت کا پتہ چلتا ہے، بدقسمتی سے زیر تبصرہ کتاب کے علاوہ ا ن کی کوئی دوسری کتاب میری نظر سے نہیں گذری، قصور اپنی طلب اور نظر کا ہی ہے ۔
تین سو چھ صفحات کی یہ کتاب اردو ڈائرکٹوریٹ محکمہ کابینہ سکریٹریٹ حکومت بہار کے جزوی مالی تعاون سے اشاعت پذیر ہوئی ہے، کمپوزنگ ابو نصر ہاشم ندوی اور نا شر کتب خانہ نعیمیہ دیو بند سہارن پور ہے، جب قیمت کتاب پر درج نہ ہو تو مفت ملنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں، ملنے کے چار عدد پتے درج ہیں، آپ حیدر آباد میں المعہد العالی الاسلامی ، دربھنگہ میں معہد الولی الاسلامی ہرسنگھ پور، پھلواری شریف میں ابو الکلام ریسرچ فاؤنڈیشن اور دیو بند میں کتب خانہ نعیمیہ سے یہ کتاب حاصل کر سکتے ہیں، البتہ ان جگہوں سے لینے پر مفت ملنے کی ضمانت نہیں دی جا سکتی ۔ کتاب کا انتساب دار العلوم دیو بند ، والدین اور عاشقان جمال انور کے نام ہے جو مصنف کے عقیدت وتعلق کا مظہر ہے ، کتاب کا پیش لفظ حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی ، دامت برکاتہم نے لکھا ہے ، مولانا انیس الرحمن قاسمی سابق ناظم امارت شرعیہ کی تقریظ اور مولانا ڈاکٹر شکیل احمد قاسمی کی کلمات تحسین ہے، ڈاکٹر شکیل احمد قاسمی کے نام کی پٹی فہرست میں
بعد میں چپکائی گئی ہے ، اس سے لگتا ہے کہ یہ جگہ مولانا نسیم اختر شاہ قیصر ؒ کے لیے مختص تھی، لیکن یا تو ان کی تحریر نہیں مل سکی، یا وہ لکھنے کے پہلے ہی راہیٔ آخرت ہو گیے، اس راز کا پتہ مولانا نافع عارفی کے مقدمہ سے چلتا ہے ، جس میں انہوں نے اظہار تشکر میں مولانا نسیم اختر شاہ قیصر کے نام ذکر کیا ہے ، اور ڈاکٹر شکیل قاسمی کاتذکرہ رہ گیا ہے، میں نے چشمہ اوپر نیچے کرکے بار بار فہرست اور کتاب میں ان کا نام اور ان کی تحریر تلاشنے کی کوشش کی ، لیکن ناکام رہا، پھر ساری قلعی فہرست مضامین کی پٹی اور عنوان کی تبدیلی ’’کلمات تحسین‘‘ نے کھول دیا، اگر مقدمہ سے اسے ہٹا دیا جاتا تو یہ تسامح نہیں ہوتا۔بے اختیار علامہ اقبال کے دور قدیم کی ایک غزل کا ایک شعر یاد آگیا ، جو داغ اسکول کی نمائندگی کرتا ہے۔
تمہارے ’’پیامی‘‘ نے سب راز کھولا  خطا اس میں بندے کی سرکار کیا تھی
 کتاب کا پہلا باب دار العلوم دیو بند کی علمی خدمات کی تحقیق اور ابناء دار العلوم کی مختلف موضوعات واصناف پر ان کی تصنیفی فہرست پر مبنی ہے ، اس میں تحقیق بھی ہے اور تاریخ بھی، یہ فہرست مختصر ہے، لیکن اجمالی واقفیت کے لیے مفید مطلب ہے ، اس باب کو ’’عربی زبان وادب کی ترقی میں ابنائے دار العلوم کی کاوشیں ‘‘ کا عنوان دیا گیا ہے ، دوسرا باب، علامہ کشمیری کے احوال وآثار اور نسلوں کی تعلیم وتربیت سے متعلق ہے ، اس میں ان کی تعلیمی وتدریسی زندگی کا بھر پور جائزہ لیا گیا ہے اور اس میں تحقیق کے جدید تقاضوں کو برتا گیا ہے ، اس باب کا عنوان ’’علامہ انور شاہ کشمیری کی علمی زندگی کی داستان ‘‘ ہے۔ تیسرے باب میں عربی زبان وادب کے حوالہ سے حضرت کشمیری کی زبان دانی ، نثر نگاری اور شاعری پر تفصیلی بحث کی گئی ہے ، ان کے اسلوب ، محاسن اور ندرت پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے ، یہ اس کتاب کا تیسرا باب ہے ، جس کا عنوان مصنف نے ’’عربی زبان وادب کے میدان میں علامہ کشمیری کے فتوحات‘‘ رکھاہے، یہ باب صفحہ 205 سے شروع ہوتا ہے اور 216 پر ختم ہوتا ہے، اس باب میں علامہ کشمیری کے ادبی ذوق ، شعر وسخن ، مرثیے، اصلاحی اشعار آپ کی شاعری کی اہم خصوصیات اور محاکمہ کے طور پر شاعری میں علامہ کشمیری کے مقام کی تعیین کی کوشش کی گئی ہے ، مصنف اس نتیجے پر پہونچے ہیں کہ 
’’اردو فارسی شاعری میں جو رتبہ میر وغالب کا ہے ، عربی شاعری میں
حضرت کشمیری کو وہی مقام حاصل ہے، علامہ کی عربی نثر نگاری کا محاکمہ کرتے ہوئے مولانا نافع عارفی نے لکھا ہے ‘‘۔ 
 علوم شرعیہ میں انشاء پردازی کے جو جوہر دکھلائے ہیں وہ انہیں اپنے زمانہ کے ممتاز ادباء کی صف میں کھڑا کرتا ہے۔ (صفحہ 393)
295؍ سے ان شخصیات ، کتابیات اور رسائل وجرائدکا ذکر ہے، جن کے حوالہ سے تحقیق کے دشوار گذار مراحل کومصنف نے طے کیا ہے ، جن شخصیات کا ذکر کتاب میں آیا ہے، اس پر قیمتی حاشیہ درج کرنے کا انتظام کیا ہے، جس میں انکی شخصی اور علمی احوال وکوائف کے ذکر نے اس کتاب کی اہمیت میں اضافہ کیا ہے ۔
مولانا اس کتاب کی تصنیف پر علمی دنیا سے شکریہ کے مستحق ہیں، کتاب اس لائق ہے کہ اہل علم اس کا مطالعہ کریں اور لائبریری میں ماخذ ومرجع کے طور پر محفوظ کر لی جائے۔

اتوار, جنوری 28, 2024

" تماشہ میرے آگے "

"  تماشہ میرے آگے "
   اردودنیانیوز۷۲ 
      عین الحق امینی قاسمی
معہد عائشہ الصدیقہ بیگوسرائے

کتاب کے باکمال مصنف آبروئے قلم مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ ہیں ، اپنے مثبت افکار،صالح خیالات اور قلمی معیار وکردار کی وجہ سے اکثر حلقوں  میں احترام کے ساتھ جانے جاتے ہیں ، وہ صبر آزما ذہن رکھتے ہیں ،مزاج میں ترشی نہیں ہے،خندہ پیشانی سے انہونی کوبھی انگیز کرلیتے ہیں، ملول خاطر ہوناان کے یہاں نہیں ہے،ہاں!" غیر اہم" کو "اہم" قرار دیئے جانے کا احساس انہیں شاید دیر تک رہتا ہے اور یہ فطری امرہے،البتہ ایسے تمام سیاسی ،سماجی دشوار گزار مرحلوں کو وہ اک" تماشہ" سے زیادہ اہمیت بھی نہیں دیتے ہیں،اسی لئے آئے دن کے سیاسی تماشوں سے وہ نہ خودمایوس ہوتے ہیں اور نہ عام لوگوں کےعزم و عمل میں ٹھہراؤ کو جائز سمجھتے ہیں۔ان کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ جہاں جہاں سیاسی بازیگر ،ملک وملت کو مسائل میں الجھا کر دشواریاں پیدا کرتے ہیں،دن کو رات ثابت کرنےیا غلط کو درست دکھانے کی بے وجہ کوشش کرتے ہیں، ایسے مرحلوں میں ان کا قلم رواں رہ کر نہ صرف راہ تلاشتا ہے ،بلکہ اوروں کے لئے راہ یابی کا فریضہ بھی انجام دیتا ہے۔مصنف کتاب اپنے اس مجموعہ تحریر کے حوالے سے پیش لفظ میں ایک جگہ بڑی خوبصورتی سےلکھتے ہیں : 
"تماشہ میرے آگے "میرے ان مضامین کا مجموعہ ہے جو سیاسی احوال ومعاملات پر لکھے گئے نقیب میں چھپ کر لوگوں تک پہنچے اور مقبول ہوئے ،اب چوں کہ سیاست میں اخلاق و اقدار کا جنازہ نکل گیا ہے ،نظریات، اقتدار اور کرسی کے گرد گھومنے لگے ہیں ،یہ سب ایک تماشہ ہے جو اقتدار کے اسٹیج سے یا اقتدار  تک پہنچنے کے لئے کیا جارہا ہے اس لئے میں نے ان مضامین پر مشتمل کتاب کا نام ہی تماشہ میرے آگے رکھ دیا ہے "
سردست مجموعہ مضامین میں جن 130/ عناوین کے تحت انہوں نے" تماشہائے جہاں "کو پرکھا اور اس پر اپنے موقف کو پیش کیا ہے ،اس کا لفظ لفظ ،بلکہ حرف حرف ان کی ہمہ جہت معلومات،دوررس سیاسی آگہی،فکر ودانشمندی،بے باک موقف، درد وچبھن ،کامیاب حل اور حقیقت حال کا مظہر ہے ،خوبی کی بات یہ بھی ہےکہ ان کی خامہ فرسائی کا میدان تذکرہ ،سوانح،تاریخ،ادب، تحقیق اورتنقیدسمیت اصلاح ودعوت،تعلیم وتربیت اور فکری وسماجی موضوعات کے علاؤہ فقہ ،سیرت،حدیث، تفسیراور دین کے بنیادی مآخذ  بھی ہیں ،جن پر الگ الگ زاویوں سے وہ مسلسل یومیہ لکھ رہےہیں ، آج یہاں وہاں  سیا سی گلیاروں میں جو بے چینیاں پائی جارہی ہیں ان کے پڑھنےسمجھنے کا بھی ایک وقت متعین ہے اور خیالات کی قلم بندی کے لئے بھی وقت مقرر کیا ہوا ہے ،اوقات میں برکتوں کے حوالے سےوہ اکابرین کے پرتو ہیں،خدا نے بڑی برکتوں سے نوازا ہے ۔زیر تذکرہ کتاب کا ہرعنوان و پیراگراف ،ان کے فکر ومطالعے کی وسعت کا عکس ہے ،کتاب ہاتھ میں لیجئے تو ورق ورق الٹے بغیر آپ حرف آخر تک نہیں پہنچ سکتے ،عنوان کا انداز وساخت،عام علماء کی نثری روش سے مختلف ،کم لفظوں میں پوری کہانی کا سرنامہ ہے۔

یہ کتاب دراصل "سیاسی حالات ،مسائل اور معاملات پر امارت شرعیہ بہار، اڑیسہ وجھارکھنڈ کے ترجمان ہفت روزہ نقیب  (2019 -2015 )میں چھپے ادارئیے،شذرات،تجزیاتی وتنقیدی مضامین کاانتخاب "ہے۔ "تماشہ میرے آگے" قریباً 130/مختلف النوع مضامین پر مشتمل ہے ،جس کی ضخامت 280/صفحات کو محیط ہے ،ظاہر وباطن میں حسن ہی حسن،دیدہ زیب طباعت ،عمدہ کاغذ ،روایتی تقریظات سے پاک، عام فہم زبان جیسی خوبیوں والی اس دراز نفس کتاب کی عام قیمت 300/ روپے ہے۔نور اردو لائبریری حسن پور گنگٹھی بکساما،ویشالی بہار کو اس کتاب کا ناشر ہونے کا فخر حاصل ہے جب کہ مکتبہ امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ ،نور اردو لائبریری ویشالی،ادارہ سبیل الشرعیہ آواپور سیتا مڑھی اور الہدی ایجو کیشنل اینڈ ویلفیر ٹرسٹ وغیرہ سے کتاب منگوائی جاسکتی ہے۔شاندار،خوبصورت اور معیاری مطبوعات پیش کرنے کے لئے مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی صاحب مدظلہ شکریہ اور مبارک باد دونوں کے یکساں مستحق ہیں۔

مالدیپ اور ہندوستان کے بگڑتے تعلقات

مالدیپ اور ہندوستان کے بگڑتے تعلقات
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ
==============================
بحر ہند میں جمہوریہ مالدیپ گیارہ سو برانوے (1192)جزائر پر مشتمل ایک چھوٹا سا ملک ہے جن میں دو سو جزیروں پر انسانی آبادی پائی جاتی ہے، یہ ہندوستان کے جزائر لکشدیپ کے جنوب اور سری لنکا سے سات سو کلو میٹر (435میل)جنوب مغرب میں واقع ہے، یہاں کا دار الحکومت مالے ہے جہاں ملک کی مجموعی آبادی کے اسی فیصد لوگ بود وباش اختیار کیے ہوئے ہیں، یہاں کی سرکاری زبان ’’دیویہی‘‘ ہے گیارہ نومبر1968اس کا یوم تاسیس ہے، بعضوں نے 26جولائی 1965بھی لکھا ہے ، یہاں کے سر براہ ان دنوں محمد معیز ہیں، جو 17نومبر 2023کو منتخب ہو کر بر سر اقتدار آئے ہیں۔ ہندوستان سے مالدیپ کا رشتہ بہت قدیم ہے، البتہ یہاںکے حکمرانوں میں بعض چین نواز بھی ہوا کیے ہیں، محمد معیز کے بارے میں کہا جا تا ہے کہ وہ چین نواز ہیں، اسی لیے سابقہ حکمرانوں کے بر عکس انہوں نے منتخب ہونے کے بعد ہندوستان کے بجائے پہلے چین جانے کا فیصلہ لیا اور وہاں سے آکر جو بیان دیا ہے وہ بہت معنی خیز ہے، انہوں نے کہا کہ ہم چھوٹے ضروری ہیں، لیکن کسی کے دباؤ میں رہنے والے نہیں ہیں، اور ہمیں کوئی دھمکا نہیں سکتا، یہ بیان انہوں نے اس پس منظر میں دیا ہے کہ ان کے تین وزراء نے وزیر اعظم نریندر مودی کے بارے میں کچھ ایسا تبصرہ کیا تھا ، جسے ہندوستان نے ہتک آمیز قرار دیا تھا، محمد معیز نے ان تینوں وزراء پر کاروائی کرتے ہوئے انہیں کابینہ سے نکال دیا جو ایک بڑا قدم تھا، لیکن ہندوستان اس سے مطمئن نہیں ہے اور اپنی بے اطمینانی کا اظہار مختلف طریقوں سے کرتا رہا ہے، اس کی وجہ سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہو گئی ہے، یہ کشیدگی دونوں ملکوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے، تازہ خبر کے مطابق مالدیپ نے ان اٹھاسی(88) فوجیوں کو ملک چھوڑ دینے کو کہا ہے جو برسوں سے وہاں تعینات ہیں۔
 ہندوستان سے مالدیپ کا رشتہ ملک کے تحفظ، فوجی تربیت ، تجارت ، سیاحت، صحت وتعلیم کے حوالہ سے مضبوط رہا ہے، 1988سے ہی ہندوستان مالدیپ کو تحفظ کے نقطہ نظر سے تعاون دیتا رہا ہے، اپریل 2016میں ایک معاہدہ مالدیپ اور ہندوستان کے درمیان ’’ایکشن پلان فارڈیفنس‘‘ کے نام سے ہوا تھا ، جس کے مطابق ہندوستان مالدیپ کو ستر فی صد تعاون دینے کا پابند ہے، گذشتہ دس سالوں میں ہندوستان نے ایم این ڈی ایف (MNDF)کے پندرہ سوارکان کو فوجی تربیت دینے کا کام کیا ہے، ہندوستانی بحریہ فضائی نگرانی کے لیے بھی مالدیپ کو تعاون دیتی رہی ہے۔
 معاشی اعتبار سے دیکھیں تو مالدیپ چاول، گیہوں ، چینی، آلو، پیاز اور تعمیراتی سامانوں کے لیے ہندوستان پر منحصر ہے، مودی دور حکومت میں مالدیپ سے تجارت میں تین گنا اضافہ ہوا ہے، تجارتی نقطہ نظر سے اسٹیٹ بینک آف انڈیامالیات کی فراہمی میں تیسرا بڑا معاون مالدیپ کا ہے، ہندوستان نے مالدیپ کو چار سو کروڑ روپے بطور تعاون مالی سال 2022-2023میں دیا ہے ۔
مالدیپ کی معیشت کا بڑا انحصار سیاحت پر ہے، وہاں کی گھریلو آمدنی کا ایک تہائی حصہ سیاحت سے فراہم ہوتا ہے، وہاں اوسطا ہر سال اٹھارہ لاکھ سے زیادہ سیاح آتے ہیں، جن میں بڑی تعداد ہندوستانیوں کی ہوتی ہے۔ 2023میں جتنے سیاح مالدیپ آئے ان میں بارہ فیصد ہندوستانی تھے۔
اسی طرح وہاں تعلیم اور صحت کے ادارے کے فروغ میں بھی ہندوستان کی اہم حصہ داری رہی ہے، ہندوستان نے وہاں اندرا گاندھی میموریل اسپتال کو جدید ٹکنالوجی سے آراستہ کرنے کے لیے باون (52)کروڑ روپے دیے اور ایک سو پچاس سے زائد اسپتالوں کے لیے جو مختلف جزیروں پر واقع ہیں رقومات فراہم کی ہیں، مالدیپ کے اساتذہ کو تربیت دینے کے لیے ہندوستان نے وہاں ووکیشنل تربیت کے مراکز قائم کیے اور اطلاع کے مطابق دو ہزار سے زائد لوگوں کو تربیت دینے کا کام کیا ہے، اس کے علاوہ مختلف میدانوں میں فنی تربیت دینے کے لیے ہندوستان اپنے یہاں بھی مالدیپ سے لوگوں کو بلاتا رہا ہے، اسی وجہ سے مالدیپ کے حکمراں ہندوستان سے تعلقات استوار رکھنے میں سبقت لے جاتے رہے ہیں، محمد معز نے انتخاب ہی اس منشور پر لڑا تھا کہ وہ ہندوستان پر انحصار کو کم کریں گے، چنانچہ انہوں نے آتے ہی یہ کام شروع کر دیا ہے۔انہوں نے ہندوستان کے بجائے چین پر انحصار کو بڑھاوا دیا ہے، چین نے وہاں پہلے سے ہی ایک ارب پینتیس کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے، جس کا بڑا حصہ قرض کی شکل میں ہے اور واقعہ یہ ہے کہ مالدیپ کی زمین کے بڑے حصہ پر مختلف سرمایہ کاری کے نام پرچین نے قبضہ کر رکھا ہے، اگر مالدیپ کا انحصار چین پر بڑھتا ہے تو علاقہ میں چین کے اثرات میں اضافہ ہوگا، جوہندوستان کے حق میں نہیں ہے، مالدیپ کی کمزوری یہ ہے کہ وہ ایک چھوٹا ملک ہے اور اپنی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے اسے ہند وچین میں ایک کو چننا ضروری ہے، یہ افسوسناک ہے کہ موجودہ حکمراں محمد معز نے چین کو چن لیا ہے۔

ہفتہ, جنوری 27, 2024

صحرائے جنوں" اور احمد معراج ۔۔✍️انور آفاقی دربھنگا

صحرائے جنوں" اور احمد معراج ۔۔
Urduduniyanews72 
✍️انور آفاقی دربھنگا (9931016273)
دبستانِ عظیم اباد میں جب شعر و ادب کی بہار چھائی ہوئی تھی تو اس کے ساتھ اسی زمانے میں دوسرے کئی اضلاع بھی اس بہار کی خوشبوؤں سے فیض یاب ہونے لگے تھے ان اضلاع میں سے ضلع سارن کے شہر چھپرہ میں بھی شعر و سخن کی فضا پھولنے پھلنے لگی تھی۔ شہر چھپرہ جس کی خاک سے نشتر چھپروی ، عبد الطیف شؔفا چھپروی، اسمعیل خاں جوؔش چھپروی،  محمد حنیؔف چھپروی، اجتبی حسین رضوی اور دوسرے کئی شعراء اٹھے اور شعر و ادب کی دنیا پہ چھا گئے اور بڑا نام پیدا کیا ۔ چھپرہ میں شاعری کی فضا سازگار ہوتی رہی اور اس کی خمیر سے شعرا و ادبا پیدا ہوتے رہے ۔  اسی خمیر سے اٹھنے والے ایک خوش مزاج ،خوش گلو اور خوش اخلاق و اعتبار  نوجوان  شاعر کا نام ڈاکٹر احمد معراج ہے جن کا وطن ثانی عشق و محبت کی سرزمین، ٹیگور و نذر الاسلام کا وطن اور رضا علی وحؔشت ، علقمہ شبلی کا مسکن شہرِ نشاط یعنی کالکوتہ ہے ۔
احمد معراج الدین خان ابن عبداللہ خان و نجمہ بیگم نے چھپرہ بہار کے ایک موضع ارنا میں 7 جنوری 1986 ( بہ اعتبار تعلیمی سند )میں آنکھیں کھولیں۔ شعر و ادب کی دنیا میں اپنے قلمی نام احمد معراج سے مشہور ہوئے ۔ بچپن ہی سے کلکتہ جیسے دلربا شہر میں پروان چڑھنے والے اور وکٹوریہ میموریل گارڈن ، آٹرم گھاٹ کی صبح و شام کی فضا میں سانس لینے والے احمد معراج کی ابتدائی تعلیم  مدرسہ حنفیہ رضویہ سے شروع ہوئی مولانا ازاد کالج کولکاتا  سے گریجویٹ ہوئے ۔ایم۔ اے اور بی۔ ایڈ کی ڈگریاں مولانا ازاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدراباد سے پائیں ۔ بی ۔پی۔ ایڈ ناگپور یونیورسٹی ناگپور سے مکمل کیا ۔ ساتھ ہی وہ للت نارائن متھلا یونیورسٹی دربھنگہ سے ڈاکٹریٹ کے سند یافتہ بھی ہیں ۔ جب شاعری کی ابتدا کی تو اپنی پہلی غزل پر معتبر شاعر بازغ بہاری سے اصلاحِ سخن لی پھر ان کی وفات کے بعد مستقل طور پر اپنا کلام معروف و مشہور شاعر حلیم صابر کو دکھانے لگے ۔  حلیم صابر نے احمد معراج کی فنی صلاحیت کو نکھارا اور اب احمد معراج نے اپنے پہلے مجموعہ کلام" صحرائے جنوں" ( مطبوعہ 2022) کے ساتھ شاعری کی دنیا میں اپنی شناخت کرائی ہے۔
 احمد معراج جتنے ہینڈسم ہیں وہ اتنی ہی خوبصورت شاعری بھی کرتے ہیں ۔ وہ مشاعرے میں اپنا کلام ترنم سے سنا تے ہیں اور  سامعین سے داد و تحسین پاتے ہیں ۔ اس کم عمری ہی میں کئی اعزازات و انعامات سے نوازے جاچکے ہیں ۔ صرف کولکاتا ہی نہیں بلکہ پورے ہندوستان کے مشاعرے میں مدعو کیے جاتے ہیں۔

ڈاکٹر احمد معراج کا اولین مجموعہ کلام "صحرائے جنوں" میری نگاہوں کے سامنے ہے اور ابھی زیر مطالعہ ہے۔ یہ کتاب مجھے بدست ڈاکٹر منصور خوشتر،  چند دنوں قبل موصول ہوئی تھی۔ میں اس خوبصورت تحفہ کے لیے ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور صحرائے جنوں کے لیے نیک تمنائیں پیش کرتے ہوئے دعا کرتا ہوں کہ صحرائے جنوں اپنی مقبولیت کی تمام بلندیوں کو چھو لے ۔ اللہ ان کو نئی توانائی اور فکری جولانی عطا کرے اور ان کا دوسرا مجموعہ کلام بھی جلد ہی قارئیں ادب کے ہاتھوں میں ہو۔ امین۔
پیش نظر کتاب کل 174 صفحات پر محیط ایک دیدہ زیب مجموعہ کلام ہے جسے عرشیہ پبلی کیشنز دہلی نے بڑے اہتمام سے چھاپا ہے ۔ اس کتاب کو موصوف نے اپنی "امی جان" کے نام منسوب کیا ہے ساتھ ہی ایک صفحہ اپنے مادرِ  علمی "مولانا آزاد کالج کلکتہ" کے نام بھی کیا ہے۔ یہ وہی کالج ہے جہاں سے انہوں نے علم حاصل کرکے اپنے باطن کو روشن کیا ، شعور کے راستے طئے کئے اور منزل کی طرف گامزن ہوئے۔ بعد کے
 دو صفحات پر ان کا تعارف و کوائف ہے جس سے ان کے بارے میں قارئین کو بہت سی ضروری معلومات حاصل ہو جائیں گی ۔ فہرست پانچ صفحات پر مشتمل ہیں ۔ 
سب سے پہلے احمد معراج  "اپنی بات "کے صفحہ پر  اپنی دلی کیفیات و احساسات کا اظہار کچھ یوں کرتے ہیں۔۔۔۔ ۔۔۔
     " قدرت نے مجھے بے حد حساس طبیعت عطا کی ہے ۔ یہی سبب ہے کہ زمانے کے تغیرات مجھے حد درجہ متاثر کرتے ہیں اور میں اضطرابی کیفیت سے دوچار ہو جاتا ہوں ۔ یقینا اس کی آہٹ آپ بھی میری شاعری میں محسوس کریں گے ۔ قدروں کا زوال میرے لیے ایک بڑا سانحہ ہے ۔میری نظریں ایسے صالح سماج کو ڈھونڈتی ہیں جس میں انسانیت کی خوشبو فضاؤں میں رچی بسی ہو"۔
سچی بات تو یہ ہے کہ کوئی بھی شاعر/ فنکار پہلے حساس ہوتا ہے تب ہی اس کی نگاہوں کے سامنے ہونے والے واقعات اس کے قلب پر مرتسم ہوتے ہیں  اسے جھنجوڑتے ہیں تڑپاتے ہیں رلاتے ہیں اور تب ایک شاعر/فنکار اپنا قلم اٹھاتا ہے اور اپنے قلبی کیفیات و تجربات کو صفحہءِ قرطاس  پر بکھیر کر سکون پاتا ہے۔  اور عام انسان اس شاعر کی تخلیق میں اپنے دکھ درد کی تصویر دیکھتا ہے ۔ شاعر کی آواز اس کی اپنی آواز لگتی ہے اور تب جا کر وہ شاعر وہ فنکار عوامی سطح پر مرکز نگاہ بنتا ہے ۔ پکاسو  اپنے احساس و جذبات کو پینٹنگ میں پیش کر کے ایک بڑا فنکار بن کر ابھرتا ہے ساحر لدھیانوی" چکلہ "جیسی نظم لکھ کر تہلکہ مچا دیتا ہے اور یہ کہہ کر ؂
 کہاں ہیں کہاں ہیں محافظ خودی کے
 ثنا خوانِ  تقدیس   مشرق   کہاں ہیں
لوگوں کی نگاہوں کا مرکز بن جاتا ہے ، اور شاعر جمالی
جیسا شاعر یہ شعر ؂ 
ائے  پڑوسی یہ جو بچہ  ہے ترے نیزے پر
تیرا  ببلو اسے کل ڈھونڈ کے روئے گا بہت
سنا کر سامعین کو سکتے میں ڈال دیتا ہے اور ڈاکٹر احمد معراج محنت کشوں کے دکھ اور درد کو اپنا دکھ درد سمجھ کر جب یہ شعر کہتا ہے اور مشاعرے میں سناتا ہے   ؂
دھوپ سر  پر  مرے  مشقت  کی
 شاخ محنت پہ پھل رہا ہوں میں
تو قارئین و سامعین کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے میں کامیاب ہوجاتا ہے ۔
اس کے بعد 26 صفحات پر  ڈاکٹر احمد معراج کی  شخصیت اور فنِ شاعری پر ڈاکٹر نسیم احمد نسیم بتیا، بہار ، ممتاز ناقد ڈاکٹر حقانی القاسمی دہلی ، ایم۔ نصر اللہ نصر کولکاتا ،اور ڈاکٹر خان محمد رضوان دہلی نے عمدہ تاثراتی مضامین قلمبند کئے ہیں جن کے مطالعے سے قارئین کو یک گونہ مسرت اور آحمد معراج کی شاعری کے کینوس کی وسعت کا اندازہ ہوگا ۔
سب سے پہلے کتاب کے گرد پوش کے اندرونی حصے پر معروف صحافی شاعر ادیب ناقد ف۔ س۔ اعجاز  کی تحریر پر نظر پڑتی ہے وہ اپنی رائے دیتے ہوئے رقم طراز ہیں:
" احمد معراج کی شاعری کی موجودہ پرواز سے ان کی دلی کیفیات کی سمتیں اور تہیں واضح ہوتی ہیں ۔ حیات و موت کے فلسفہ میں ان کی دلچسپی نے ان کی غزلوں کی زبان کو ایک خاص صفائی اور پاکیزگی عطا کر دی ہے"۔
ڈاکٹر احمد معراج کی شاعری اور شخصیت پر گفتگو کرتے ہوئے ہمارے معروف و مقبول ادبا و شعرا نے کیا کچھ تحریر کیا ہے ، مناسب لگتا ہے کہ ان کے کچھ  اقتباسات بھی آپ قارئین کی بصارتوں کے حوالے کرتا چلوں۔ معروف ادیب و شاعر  ڈاکٹر نسیم احمد نسیم ، احمد معراج کی شعری کائنات ، زبان اور طرز بیان پر اپنی رائے دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
"احمد معراج کی زبان شستہ شگفتہ اور سلیس ہے۔ اس لیے ان کے یہاں خیال الجھے ہوئے اور گنجلک نہیں ہیں۔
 وہ بہت روانی اور برجستگی کے ساتھ جو کچھ کہنا چاہتے ہیں کہہ جاتے ہیں ۔ میری دانست میں یہ کسی بھی شاعر کی سب سے بڑی خصوصیت تصور کی جانی چاہیے"۔
ان کے بعد اردو دنیا کے نہایت معتبر اور ممتاز ناقد و صحافی حقانی القاسمی( نئی دہلی) کا عمدہ مضمون "سخنِ آسماں کا نیا ستارہ "پڑھنے کو میسر ہے ۔ موصوف، ڈاکٹر احمد معراج کے بارے میں بہت واضح اور کھلے دل سے ان کی شعری صلاحیت و استعداد پر اپنی رائے اور پسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
" احمد معراج کی شاعری حادثات حیات ، زندگی کے تضادات وہ تموجات  ، انتشار و آویزش کی تعبیر بھی ہے اور عصری کرب و کشمکش کا بیانیہ بھی ۔ ان کی شاعری کا روح اور روحانیت عشق اور رومانیت سے بھی گہرا رشتہ ہے ۔ اس میں تزکیہ نفس ، تطہیر باطن کے ساتھ ساتھ ، جمالیاتی اور جذباتی تسکین کا عنصر بھی ہے"۔
احمد معراج کی شخصیت اور فن سے متعلق معروف شاعر و ادیب  ایم ۔نصراللہ نصر ( ہورہ مغربی بنگال) فرماتے ہیں:
        "ڈاکٹر احمد معراج نہایت ہی مخلص اور سلیقہ مند انسان ہیں ۔ درد مند دل رکھتے ہیں ۔ طبیعت میں شگفتگی اور شادابی ہمیشہ قائم رہتی ہے ۔ آج وہ اس مقام پر پہنچ چکے ہیں جہاں سے ان کا شعری و ادبی قد کہسار کے درمیان سے نکلتے ہوئے سورج کی مانند صاف دکھائی پڑتا ہے"۔
آخر میں مشہور و معروف ادیب و شاعر  ڈاکٹر خان محمد رضوان(دہلی ) کچھ اس انداز میں  خامہ فرسائی کرتے ہیں:
" ڈاکٹر احمد معراج کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے اپنے آپ پر کسی بھی تحریک یا رویے کی فکری میلان کو حاوی نہیں ہونے دیا بلکہ ان افکار و خیالات پر خود کو حاوی رکھا ۔ یہی سبب ہے کہ وہ اپنی مثبت فکر اور متنوع خیالات سے پرورش لوح و قلم کر رہے ہیں "۔
اس مجموعہ کلام میں صفحہ 42 سے 165 تک صرف غزلیں ہی غزلیں ہیں جنکی تعداد 80 ہے ۔ اس کے ساتھ 48 متفرق اشعار بھی اس مجموعہ کلام کی زینت بنے  ہیں ۔ یہاں ایک بات واضح کرتا چلوں کہ احمد معراج نے صرف غزلیں ہی نہیں کہی ہیں بلکہ شاعری کے دوسرے اصناف پر بھی ان کو دسترس حاصل ہے۔ وہ خوب صورت نثر بھی لکھتے ہیں ۔ ان کے تحریر کردہ 
مضامین و مقالے رسائل و جرائد کے ساتھ اخبارات 
میں شائع ہوتے رہتے ہیں ۔ 
انکی دو کتابیں  "آنکھوں دیکھی:تجزیہ " اور "گلستانِ
وارث(تحقیق و تدوین )"  منظر عام پر آچکی ہیں ۔
جب ہم احمد معراج کی شاعری پر غور کرتے ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنی کم عمری ہی سے
 اطراف و اکناف کا مشاہدہ بہت گہری نگاہ سے کیا 
ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا عکس ان کے اشعار میں جا بجا نظر اتا ہے ۔ شاعر نے زندگی کو بہت قریب سے دیکھا ہے حالات اور روز بروز ہونے والے واقعات اس کے ذہن کو نہ صرف متاثر کرتے ہیں بلکہ جھنجھوڑتے بھی ہیں ۔  شاعر کا مشاہدہ جس قدر گہرا ہوگا اس کی شاعری میں اس کی تصویر کشی بھی اتنی ہی پُر کشش ہوگی ۔ زمانے کے نشب و فراز اور حالات نے ان کو ایک درد مند انسان بنا دیا ہے۔ لہذا ان کی شاعری میں انسان کی زبوں حالی ، مجبوری اور لاچاری 
کا عکس اور عصری حیثیت بھی نظر اتی ہے ۔ ان کے کچھ اشعار دیکھیں:
بے گھری اوڑھے ہوئے رہتے ہیں فٹ پاتھ پہ جو
 ان   کے  رہنے  کے  لیے کاش   کوئی  گھر   ہوتا

یوں   مفادات   کے   زینے   پہ  اگر  چڑھتا  رہا
 سب کی نظروں ہی سے ایک روز اتر جاؤں گا 

جب بھی روتا ہوں اکیلے میں سکون پاتا ہوں 
میرا   غم    بانٹنے   والی   مری   تنہائی  ہے
 
مت سمجھیے کہ وہ پرانی ہے
 عہد  رفتہ کی جو  نشانی ہے 

موت مارے گی کیا اسے مؔعراج 
زندگی   نے  جس کو  مارا  ہے 

نئی  تہذیب  کی  دیکھی  یہ  نئی   عریانی 
خوش لباسی میں بدن حسن کا عریاں نکلا 

ائینہ  دیکھنے  کی  عادت   نے
 مجھ کو سچ بولنا سکھایا ہے

یہ سچ ہے کہ بعض شعراء کی طرح احمد معراج نے بھی کچھ الفاظ کو اپنی شاعری میں خصوصیت کے  ساتھ برتا ہے۔ حقانی القاسمی کی باریک بیں نگاہ 
اس طرح کے الفاظ پر پڑی تو وہ کہہ اٹھے :
" احمد معراج کی کچھ پسندیدہ لفظیات بھی ہیں۔ جن سے ان کے ذہنی اور جذباتی سمتوں کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے ۔ خواب ، یاد  ، تنہائی ، اشک  ، غم ، زندگی اور چراغ ان کے مخصوص الفاظ ہیں"۔
مجموعہ کلام کا مطالعہ کرتے ہوئے جب میں( راقم الحروف) نے غور کیا تو ان الفاظ جن کی نشاندہی حقانی صاحب نے کی ہے ۔ ان کے ساتھ "عشق" اور" گھر" دو  مزید  ایسے  الفاظ ملتے ہیں جو تواتر سے ان کے کلام میں بکھرے نظر اتے ہیں ۔ چنانچہ لفظ" عشق" کوئی 17 مرتبہ ان کے اشعار میں ملتے ہیں جبکہ لفظ "گھر" سب سے زیادہ یعنی 26 بار ائے ہیں  ۔
عشق و محبت کی لو ، اللہ نے انسان کے دل اور اس کی فطرت میں اسے خلق کرتے ہوئے روشن کر دی تھی۔ جب تک انسان کے اندر دل دھڑکتا رہے گا عشق کی لو روشن رہے گی ۔ انسان کے دل میں عشق و محبت کی یہ "لو " اگر روشن  نہیں رہے گی تو پھر انسان ایک روبوٹ بن کر رہ جائے گا ۔  عشق کے حوالے سے چند اشعار بطور خاص آپ قارعین کی بصارتوں کی نذر کرتا چلوں ۔ پڑھیے اور لطف اٹھائیے ۔

وہاں عشق  نے ہم کو  پہنچا دیا
 جہاں تک ہماری رسائی نہیں ہے

 عشق   کو   چاہیے  نظر   ایسی 
حسن چلمن سے بھی دکھائی دے

 حسن کی کائنات عشق میں ضم
 ایسی  پیش   نظر   مثال   کہاں

 چہرہءِ  عشق  کو  بارہا
 انسوؤں سے نکھارا گیا

 ہے   معؔراج  اگر   عشق  سچا  تمہارا
 تو خاموش کیوں ہو زمانے کے ڈر سے

 عشق کو عشق کی معراج نہ حاصل ہوتی
 مرحلے  عشق  کے مؔعراج  جو  آساں ہوتے

اب آئیے لفظ" گھر" کی طرف ۔ گھر ہر انسان کی بنیادی ضرورت ہوتی ہے ۔ یہ گھر ہی ہے جہاں دنیا کے سارے مصائب، الجھنوں اور پریشانیوں سے نبرد آزما ہونے کے بعد تھکا ہارا انسان جب گھر لوٹتا ہے تو اس کو آرام و سکون میسر ہوتا ہے۔ مگر وہ لوگ جو اپنی اس بنیادی ضرورت سے بھی محروم ہیں  یا وہ گھر جہاں رہ کر بھی سکون نام کی چیز انہیں نہیں ملتی ۔ پھر ایسے حالات و واقعات سے جب ایک شاعر روبرو ہوتا ہے تو پھر گھر اس شاعر کے یہاں کس طرح ایک اہم موضوع بن کر اس کی شاعری میں ابھر اتا ہے ۔ اس کی جھلک احمد معراج کے مجموعہ کلام "صحرائے جنوں" میں نظر آتی ہے ۔چند اشعار ملاحظہ فرمائیں اور شاعر کی ذہنی پرواز کا اندازہ کریں ۔۔۔۔۔۔۔

ہوتا مٹی کا مکاں پھوس کا چھپر ہوتا 
سر جھپانے کے لیے اپنا کوئی گھر ہوتا 

جس  میں  رہتا ہوں  میں وہ  گھر  تو میرا ہے
 لیکن کاش رہنے کے لئےگھر کی طرح گھر ہوتا 

بے گھری اوڑھے ہوئے رہتے ہیں فٹ پاتھ پہ جو
 ان   کے  رہنے  کے  لیے کاش   کوئی  گھر   ہوتا

 اگر ہو دیوار  و  در سلامت تو گھر سلامت
 ہو گھر کی بنیاد گر سلامت تو گھر سلامت

ہے گھر کی رونق تو بال بچوں کے شور و غل سے
 ہوں  جن  کے  نور  نظر  سلامت  تو گھر سلامت 

یوں ہمیں جہد مسلسل نے سفر میں رکھا 
مدتوں  بعد  کبھی  لوٹ  کے  ہم  گھر ائے

 شب  نوردی میں مجھے ہوش کہاں رہتا ہے
 لوٹ کر گھر کی طرف وقت سحر جاؤں گا

 بوڑھی انکھوں میں نور بھر آیا 
بعد  مدت کے  میں  جو  گھر آیا

احمد معراج نے زندگی کو اپنی نگاہوں سے کس زاویہ سے کیسے دیکھا  اور اپنے احساسات کو اشعار میں کس طرح پیرویا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں ۔

بے    وقار     زندگی   با   وقار   زندگی
 دونوں صورتوں میں ہے برقرار زندگی

زندگی کو زندگی  دے گئی فریب جب
 کس پہ اب کرے  بھلا  اعتبار  زندگی

 تیرہ شبی میں ان کو ہوئی زندگی عطا
 سورج کے ڈوبتے ہی ستارے چمک اٹھے
 
میرے  اندر  شعور  جاگ اٹھا
زندگی میں فریب کھانے سے

 میرا   سرمایہءِ   زندگی
 دولت فکر و فن اور میں

 زندگی  مل  گئی  چراغوں کو
 ایک سورج کے ڈوب جانے سے

 اس دعا کے ساتھ مجھے اجازت دیں کہ رب کریم
 احمد معراج کی زندگی کو خوشیوں سے بھر دے اور وہ گلستانِ شعر و ادب کو اپنی تخلیقات  سے سجاتے سنوارتے رہیں ۔۔۔۔۔۔۔ آمین ۔

جمعہ, جنوری 26, 2024

جمہوری اقدارکی حفاظت __

جمہوری اقدارکی حفاظت __
Urduduniyanews72 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی 
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ
==============================
ہر سال کی طرح امسال بھی جشن منایا جائے گا ، ہندوستان کی تہذیبی وثقافتی جھانکیاں پیش کی جائیں گی ، دفاعی میدان اور اسلحوں کی دوڑ میں ہماری جو حصولیابیاں ہیں، اس کا مظاہرہ کیا جائے گا، شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کیا جائے گا ، پورا ملک جشن میں ڈوب جائے گا ، ترنگے جھنڈوں کے ساتھ مدرسوں ، اسکولوں اور اداروں میں رنگا رنگ تقریب ہوگی ، طلبہ وطالبات کو انعامات سے نوازا جائے گا ، سیاسی حضرات کی جانب سے ہندوستان کے مجاہدین آزادی کا گن گان کیا جائے گا ، اور لمبے چوڑے بیانات اور وعدوں کے ذریعہ سیدھے سادے عوام کو لبھانے کی کوشش کی جائے گی او رایسا پہلی بار نہیں ہوگا ، ہر سال ایسا ہی ہوتا ہے 26 جنوری گذرا اور ہم سب یہ بھول جاتے ہیں کہ جمہوریت کے لفظی نعروں کی کوئی حقیقت نہیں ہے ، اصل ہے جمہوری اقدار کا تحفظ؛ جس سے ملک دور سے دور ہوتا جا رہا ہے، ہم نے جمہوریت کا مطلب صرف عوام کی حکومت ، عوام کے لیے عوام کے ذریعہ سمجھ لیا ہے اور ہر پانچ سال پر انتخابات میں سارے حربے استعمال کرکے حکومت پر جو قبضہ کیا جاتا ہے ، اسے ہم جمہوری طریقہ کار سے تعبیر کرتے ہیں اور خوب خوش ہوتے ہیں کہ ہمارا ملک جمہوری اعتبار سے مضبوط ہے، یہاں عوامی حکومت ہے اور اس قدر مضبوط ہے کہ پڑوسی ملکوں کی طرح یہاں مار شل لا لگانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی اور ملک تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔
یقینا ترقی کر رہا ہے ، آزادی سے قبل جن گھروں میں سائیکل دستیاب نہیں تھی، آج موٹر سائیکل اس گھر میں موجود ہے اور بعض گھروں میں تو ہر آدمی کے لیے موٹر سائیکل دستیاب ہے، چار چکے کی بھی کمی نہیں ہے، کھانے کے لیے آزادی سے قبل عموما عام لوگوں کے لیے باجرہ ، جوار اور جوہی مہیا تھا ، گیہوں کی روٹی شاید باید گھروں میں ہر روز مہیا ہو پاتی تھی، دھوتی اور کپڑے بھی پورے طور پر فراہم نہیں تھے، زمینداروں کے ظلم وستم نے عام لوگوں کا جینا دو بھر کر دیا تھا ، بعض حرکات تو انسانیت کو ذلیل کرنے والی ہوتی تھیں، جو تے پہن کر ان کے دروازے سے گذرا نہیں جا سکتا تھا ، سواری پر بیٹھ کر کوئی گذر جائے تو قیامت آجاتی تھی ، لوگ بندھوا مزدوروں کی طرح ان کے یہاں کام کرتے اور کرتے کرتے مر جاتے تھے، یہ معاملہ نسل در نسل چلتا تھا ، ایسے لوگوں کی اپنی مرضی نہیں ہوا کرتی تھی ، سارا کچھ مالک کی مرضی کے تابع ہوتا تھا ، تھوڑی سی غلطی اور چوک پر چمڑی ادھیڑ دی جاتی تھی ، اور عفو ودر گذر ، رحم وکرم کا خانہ خالی رہتا تھا ، انسانیت سسک رہی تھی ، کسان خود کشی کر لیا کرتے تھے، پوس کی رات او رجاڑے کی یخ بستہ سردی میں کھیتوں کی رکھوالی کرتے کرتے عمر گذر جاتی تھی۔
ملک آزاد ہوا ، زمینداری ختم ہوئی، جمہوری دستور نافذ ہوا تو ملک کے عوام نے اطمینان کا سانس لیا او ربہت کچھ منظر بدلا ، انسانی قدروں کی پامالی پر روک لگی ، بندھوا مزدوری کا رواج ختم تو نہیں ہو سکا ، کم ضرور ہوا، کھیت کسانوں کا ہو گیا، ان کی بھی خود کشی کے واقعات سامنے آنے کے با وجود حالات پہلے سے اچھے ضرور ہیں۔
 اس جمہوری نظام کی وجہ سے حکومتیں بدلتی رہی ہیں، الگ الگ منشور اور مینو فیسٹو پر کام شروع ہوا ، جو حکومت آئی اس نے اپنے نظریات ملک پر تھوپنے کی کوشش کی ، اس کے نتیجے میں بھی بہت کچھ بدلا اور بدلتا چلا گیا ، کسی نے گھوم کر دیکھنے کی کوشش نہیں کی کہ سلطانی ٔجمہور میں، جمہوری اقدار کا جنازہ کس طرح نکلا اور نکلتا چلا گیا ، سیاسی پارٹیوں کو حکومت عزیز تھی ، جہاں سے ملے اور جس طرح ملے اور جتنے اقدار کو دفن کرکے ملے۔ سوا نہیں جمہوری اقدار کے تحفظ کی فکر کبھی نہیں ہوئی۔
 اس صورت حال نے جمہوری اقدار کو پامال کیا ، جمہوریت میں صرف حکومت کاہی عوامی ہونا ضروری نہیں ہے ، عوام کی خواہشات ، امنگیں ، ان کے حقوق کا تحفظ ، مذہب پر چلنے کی آزادی سب کا خیال رکھنا ضروری ہے، بد قسمتی سے بی جے پی کی مرکزی حکومت نے ہر سطح پر ان اقدار کو تہس نہس کر کے رکھ دیا ہے، مہنگائی بڑھتی جا رہی ہے ، گو رکچھا، لو جہاد، مندر تعمیر اور اب اس کے افتاح کے نام پر رواداری کا ماحول گذشتہ سالوں میں تیزی سے ختم ہوا ہے، نوٹ بندی اور جی ایس ٹی نے عوامی زندگی کو اس قدر متاثر کیا ہے کہ چھوٹے کاروباری تجارت کے اعتبار سے ختم ہو چکے ہیں،طویل عرصہ گذر جانے کے بعد بھی اب تک وہ اپنے کاروبا ر کو پھر سے کھڑانہیں کر پائے ہیں۔ گاندھی جی اس ملک میں عدم تشدد اور اہنسا کی علامت کے طور پر مختلف جگہوں پر تصویری شکل میں موجود تھے، انہیں بھی دیش نکالا دینے کی تیاری زوروں پر چل رہی ہے ، کئی جگہ سے انہیں ہٹایا جا چکا ہے اور روپے پر بھی کتنے دن نظر آئیں گے، کہنا مشکل ہے، نسلی اور مذہبی بنیادوں پر ملکی باشندوں کو عصبیت کا سامنا ہے اور جان بوجھ کر دلتوں ، مسلمانوں اور لسانی اقلیتوں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے ، بحالیوں میں اور اعلیٰ عہدوں پر تقرریوں میں بھی سرکار سینئرٹی کو نظر انداز کرکے پرانے لوگوں کی حوصلہ شکنی کر رہی ہے ، 
 یہ مکمل حالات نہیں ، حالات کا ہلکا سا اشاریہ ہے ، اس کو پھیلا یا جائے تو بات دیر تک چلے گی اور دور تک جائے گی، کہنا صرف یہ ہے کہ ملک میں جس طرح جمہور ی اقدار پامال ہو رہے ہیں اور کسی کو اس کی فکر نہیں ہے، ایسے میں جشن جمہوریت محض ایک رسم ہے ؛ چونکہ یہ رسم ملکی دستور سے محبت کی علامت سمجھا جاتا رہا ہے، اس لیے ہر سطح پر اس جشن کا اہتمام کرنا چاہیے اور پورے جوش وخروش کے ساتھ کرنا چاہیے ، لیکن یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ جمہوری اقدار کے تحفظ کی ضرورت پہلے سے آج کہیں زیادہ ہے، ملک کے سیاسی رہنماؤں کو اس کے لیے اقدام کرنا چاہیے ، یہ ملک سے محبت اور وفاداری کا تقاضہ بھی ہے اور جمہوری دستور کے تحفظ ؛بلکہ مجاہدین آزادی کو خراج عقیدت پیش کرنے کا بہترین طریقہ بھی۔
 چلے چلو کہ ابھی وہ منزل نہیں آئی

بدھ, جنوری 24, 2024

بلقیس بانو کو انصاف ___

بلقیس بانو کو انصاف ___
Urduduniyanews72 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ 
=====================
عدالت عظمیٰ (سپریم کورٹ) نے گجرات سرکار کے ذریعہ بلقیس بانو کے مجرمین کی رہائی کے حکم کو رد کرکے بتا دیا ہے کہ گجرات سرکار کو یہ حق نہیں تھا کہ وہ ان گیارہ مجرمین کی رہائی کا حکم جاری کرے، جنہوں نے 3؍ مارچ 2002ء کو بلقیس بانو کی اجتماعی عصمت دری کی تھی ، اس کے خاندان کے سات افراد کو قتل کر دیا تھا،جس میں بلقیس بانو کی تین سالہ بیٹی بھی شامل تھی ، خود 21؍ سال کی بلقیس بانو پانچ ماہ کی حاملہ تھی، یہ ایسا درد ناک واقعہ تھا جو گجرات فساد میں نسل کشی کا عنوان بن گیا تھا، 2004ء میں ملزمین گرفتار کیے گیے ، 2008ء میں خصوصی عدالت نے گیارہ مجرمین کو عمر قید کی سزا سنائی، مئی 2017ء میں بمبئی ہائی کورٹ نے اس فیصلہ کو بر قرار رکھا، 15؍ اگست 2022ء کو گجرات سرکار نے معافی دے کر ان مجرموں کو رہا کر دیا، 8؍ جنوری 2023ء کو سپریم کورٹ نے گجرات سرکار کے فیصلے کو رد کرکے دو ہفتہ کے اندر مجرمین کو خود سپردگی کا حکم دیا ہے، پورے ملک نے اس فیصلہ کا خیر مقدم کیا ہے اور اسے حق وانصاف کی جیت قرار دیا ہے ۔
اس مقدمہ کا فیصلہ کرتے ہوئے جسٹس بی وی ناگر تھنا اور اُجل بھوئیاں نے گجرات حکومت کو سخت پھٹکار لگائی کہ اس نے اپنے دائرہ اختیار سے تجاوز کرکے یہ فیصلہ لیا، اسے اس طرح کا حکم صادر کرنے کا اختیار ہی نہیں تھا، اس قسم کا کوئی فیصلہ صرف گجرات حکومت لے سکتی تھی کیوں کہ اس کی سماعت مہاراشٹر ا میں ہوتی تھی اور وہی حکومت رہائی کا حکم دے سکتی تھی ، بینچ نے دفعہ ۳۲؍ کے تحت بلقیس بانو کی عرضی کو قابل سماعت قرار دیا اور دفعہ 432؍ کی تشریح کے ضمن میں یہ ثابت کیا کہ گجرات حکومت کا یہ فیصلہ قابل اعتراض اور قانونی تقاضوں کے خلاف تھا، جسٹس بی وی ناگرتھنا نے مشہور فلسفی افلاطون کا یہ قول نقل کیا کہ ’’منصف کی حیثیت ڈاکٹر کی ہوتی ہے جو مریضوں کی صحت یابی کے لیے کڑوی دوائیں تجویز کرتا ہے۔‘‘
بلقیس بانو کے ہونٹوں پر کوئی ڈیڑھ سال بعد مسکراہٹ نظر آئی ، انہوں نے خود بھی اقرار کیا کہ ڈیڑھ سال کے بعد میں مسکرائی ہوں، جب سے مجرمین کو رہا کیا گیا تھا میں انتہائی کرب میں تھی، مجھے پھر سے ان مجرمین کی جانب سے خطرہ لاحق ہو گیا تھا، کیوں کہ کسی بھی مرحلہ میں مجھے حکومت کی جانب سے تحفظ فراہم نہیں کیا گیا، اور رہائی کے بعد ان کے حوصلے اس قدر بڑھ گیے تھے کہ وہ پھر سے کسی اور حد تک جا سکتے تھے، ان کے دو بارہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے جانے کے حکم سے مجھے انتہائی اطمینان اور سکون ملا ہے، اور یقین ہو گیا کہ انصاف ابھی زندہ ہے۔بلقیس بانو نے ان تمام لوگوں کا بھی شکریہ ادا کیا ہے، جو ان کی پشت پر مضبوطی سے کھڑے رہے اور ان کا حوصلہ بڑھایا، ان لوگوں میں خواتین بھی ہیں اور مرد بھی، یہ تعداد ہزاروں تک پہونچتی ہے، معلوم ہوا کہ فیصلہ یقینا ہمارے بس میں نہیں ہوتا لیکن مظلوموں کا ساتھ دے کر اسے کیفر کردار تک پہونچانے میں معاون تو بن ہی سکتے ہیں۔

منگل, جنوری 23, 2024

تکان نا آشنا عبقری شخصیت

تکان نا آشنا عبقری شخصیت
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ 

مولانا مفتی ابو ابراہیم مشیر عالم قاسمی دار العلوم الاسلامیہ امارت شرعیہ میں استاذ حدیث ہیں، ان کا درس طلبہ میں مقبول ہے، ہم لوگ انہیں ایک مدرس کی حیثیت سے ہی جانتے پہچانتے رہے ہیں، لیکن دار العلوم الاسلامیہ کے سابق سکریٹری مولانا سہیل احمد ندوی ؒ نے تصنیف وتالیف کی ان کی خفیہ صلاحیت کو ہمارے سامنے ا ٓشکاراکیا، وہ ایک بار مولانا کو اپنے ساتھ لے کر آئے اور فرمایا کہ یہ میرے پر دادا مشہور مجاہد آزادی شیخ عدالت حسین بگہی پر کام کر رہے ہیں، اس تحقیق میں آپ ان کی مدد کردیں، مجھے وقتی طور پر اس موضوع پر حوالہ جاتی کتب کا جوعلم تھا، انہیں بتایا، خود مولانا سہیل احمد ندوی ؒ نے اپنے کاغذات کے ذخیرے کوالٹا پلٹا، علاقہ کے اہل علم اور مؤرخین سے چمپارن کی تاریخ کے بہت سے اوراق گم گشتہ کو ڈھونڈھا اور مولانا کے حوالہ کیا، مولانامشیر عالم اپنی تدریسی مصروفیات کے ساتھ اس کام کو انجام دے رہے تھے اور مولاناسہیل احمد ندوی مرحوم بھی انتہائی خوش تھے کہ برسوں بعد اللہ رب العزت نے اس کام کی توفیق عطا فرمائی اس کام کے لیے مولانا مشیر عالم صاحب کے وہ ممنون بھی تھے اور مشکور بھی۔
 ابھی شیخ عدالت حسین پر کتاب کی تکمیل نہیں ہو سکی تھی کہ اچانک مولانا سہیل احمد ندوی ؒ کی زندگی کا آخری ورق پلٹ گیا، وہ اڈیشہ کے سفر پر یوسی سی کی مخالفت میں دورے پر تھے کہ ظہر کی نماز کی سنت پڑھتے ہوئے سجدہ کی حالت میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے، حادثہ اس قدر اچانک آیا کہ لوگ حیرت زدہ رہ گیے اور کہنے لگے ”تم جیسے گیے ویسے بھی ہے جاتا کوئی“ غم واندوہ کی کیفیت مولانا کے صاحب زادگان، اعزو اقربا کے ساتھ ان تمام اداروں کے افراد پربھی طاری تھی واقعہ یہی ہے کہ ان کی کمی دیر تک محسوس کی جاتی رہے گی۔
 مولانا کے انتقال کے بعد مولانا نے اپنے قلم کا رخ مولانا سہیل احمد ندوی ؒ کی حیات وخدمات کی طرف موڑ دیا، علاقہ کی سماجی، سیاسی اور جغرافیائی تاریخ تو وہ پہلے سے ہی شیخ عدالت حسین کے لیے لکھ چکے تھے، اب ساری توجہ مولانا کی زندگی کے مختلف گوشوں اور ان کی خدمات کی لانبی تاریخ کو صفحہئ قرطاس میں ثبت کرنے پر لگ گئی، جو مقدم تھے مؤخر ہو گیے اور جو جانے کے اعتبار سے مؤخر تھے وہ سر فہرست آگیے، مولانا مشیر عالم نے بڑی محنت سے مولانا کی حیات وخدمات کے نقوش کو قارئین کے سامنے پیش کرنے کا ارادہ کیا اور اللہ رب العزت نے اس میں انہیں کامیابی عطا فرمائی۔
 مولانا پر پہلا مضمون مشہور صحافی عارف اقبال نے اپنی کتاب”میر کارواں“ میں لکھا تھا، جس کا مواد اور ماخذ انہوں نے بالمشافہ ان سے انٹر ویو لے کر حاصل کیا تھا، مفتی نیر اسلام صاحب نے بھی مولانا کے اخلاق وعادات اوصاف وکمالات پر ایک طویل مضمون لکھا تھا، مولانا کے انتقال کے بعد تو مضامین، پیغامات اور تعزیتی بیانات کا طویل سلسلہ شروع ہوا، لیکن مولانا پر ان کے انتقال کے بعد پہلا باضابطہ مضمو ن میں نے نقیب میں لکھا، پھر جب حضرت امیر شریعت کے حکم پر نقیب کا خصوصی شمارہ مولانا مرحوم پر نکلا تو اس کے اداریہ میں بھی بہت سی باتیں میں نے ذکر کی تھیں، اور چوں کہ میرا مضمون ان کے انتقال کے معا بعد نقیب میں چھپ چکا تھا، اس لیے اس خصوصی شمارہ میں قصدا شامل نہیں کیا، نقیب کا یہ خصوصی شمارہ حصہ دوم کی حیثیت سے اس کتاب میں شامل ہے، مولانا مشیر عالم صاحب نے اسے شامل کتاب کرکے اس شمارہ کے مضامین کو حیات جاودانی بخشنے کا کام کیا ہے، ان مضامین سے مولانا کی ہمہ جہت شخصیت کے کئی اہم پہلو ہمارے سامنے آتے ہیں۔
 مولانا مشیر عالم صاحب کی اصل محنت پہلے حصہ میں ہے، انہوں نے مولانا کے آبائی وطن، بگہی، علاقہ دیوراج ضلع چمپارن کی تاریخ پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے اور انگریزی اردو میں معلوم تاریخ کے حوالہ سے چمپارن، دیوراج کی وجہ تسمیہ، اس کی تاریخی حیثیت، دیوراج کی خوش حالی، وہاں کے پیشہ، دیوراج کی تہذیبی وثقافتی اہمیت، وہاں کی تعلیمی شرح، کھیل کود کے احوال، سیاسی رجحانات، فرقہ وارانہ ہم آہنگی وغیرہ پر انگریزی کتابوں کے حوالوں سے اپنے مطالعہ کو پیش کیا ہے، یہ انتہائی اہم ہے اور وقیع بھی۔
اس سے فراغت کے بعد مولانا مشیر عالم نے مولانا کے خاندان اور اس خاندان کی دینی وملی خدمات کا جائزہ لیا ہے، مولانا کے سوانحی خاکے، ان کے انداز واطوار، دار العلوم الاسلامیہ کی سکریٹری شپ، امارت شرعیہ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیر ٹرسٹ کے حوالہ سے ان کی خدمات کا جامع تذکرہ مرتب کر دیا ہے، اس کے ذیل میں مولانا کی مادر علمی، اساتذہ، مولانا کی ظرافت، فکر امارت کی پاسبانی، کام کرنے کے طریقے کابھی بسیط تذکرہ موجود ہے، اس طرح مولانا کی وفات تجہیز وتکفین کے ذکر پر یہ کتاب اختتام پذیر ہوتی ہے۔
 مولانا کی خدمات کی جو مختلف جہتیں تھیں اس میں سے ایک بڑی جہت یہ تھی کہ وہ کاموں کے بوجھ سے نہ تو تھکتے تھے اور نہ ہی گھبراتے تھے،ا س کے لیے مولانا مشیر عالم صاحب نے تکان نا آشنا کا لفظ استعمال کیا ہے اور اسی کو کتاب کا سرنامہ اور عنوان قرار دیا ہے، جوان کے ذہن رسا اور تجزیاتی مطالعہ میں گہرائی اور گیرائی کی دلیل ہے، واقعتا مولانا کی شخصیت تکان نا آشنا تھی، اسی اعتبار سے ان کا شمار عبقری شخصیتوں میں کیا جا سکتا ہے۔
 اللہ تعالیٰ مولانا مشیر عالم کو جزاء خیر دے کہ انہوں نے ہم سب کی طرف سے فرض کفایہ ادا کر دیا، میں یہ بھی دعا کرتا ہوں کہ مولانا مرحوم کے پر دادا شیخ عدالت حسین صاحب کی سوانح بھی وہ مکمل کر دیں کیوں کہ یہ مولانا مرحوم کی خواہش تھی اور خواہش کو مرنے کے بعد وصیت کا درجہ مل جاتا ہے، اس لیے شیخ عدالت پر کتاب کی تکمیل ان کی صیت پوری کرنے جیسا عمل ہے، اللہ تعالیٰ مولاسہیل احمد ندوی رحمۃ اللہ علیہ کی مغفرت فرمائے، امارت کو ان کا نعم البدل دے اور مولانا مشیر عالم کو صحت عافیت کے ساتھ درازیئ عمر عطا فرمائے، تاکہ وہ ایسے ہی تاریخ وتحقیق کے کل گیسو سنوارتے رہیں، آمین یا رب العالمین

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...