Powered By Blogger

جمعرات, فروری 01, 2024

ہر اک شکست دے گی تجھے حوصلہ نیا

ہر اک شکست دے گی تجھے حوصلہ نیا 
اردودنیانیوز۷۲ 
     مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ (9431003131)

22؍ جنوری 2024ء ہندوستانی تاریخ کا وہ کالا دن تھا، جس دن مرکزی اور ریاستی حکومت نے ملکی دھن اور حکومتی تنتر اور اقتدار کے سہارے اجودھیا میں رام للا کی پران پرتشٹھا‘‘ کے نام پر گنگا جمنی تہذیب، سیکولر اقدار اور محبت کے ماحول کو نفرت کی بھینٹ چڑھادیا، یوگی جی نے اس موقع سے فرمایا کہ لوگ کہتے تھے کہ مندر تعمیر ہونے پر خون کی ندی بہہ جائے گی، وہ دیکھ لیں مندر وہیں بنا ہے، جہاں ہم بنانا چاہتے تھے،وزیر اعظم نے کہا کہ لوگ کہتے تھے کہ رام مندر بنے گا تو آگ لگ جائے گی، ایسا کچھ نہیں ہوا، انہوں نے کہا کہ رام سب کے ہیں، تو پھر ہندو مذہب کے چاروں شنکر اچاریہ، رام مندر تحریک کے صف اول کے رہنما لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی، ونے کٹیار ، اوما بھارتی اور حزب اختلاف کی تمام جماعتوں نے اپنے کو اس تقریب سے کیوں دور رکھا ، بات بالکل واضح ہے کہ ان حضرات نے اسے بھاجپا اور آرایس ایس کا محض ایک کھیل سمجھا، جو 2024ء میں بھاجپا کو پھر سے اقتدار تک پہونچانے اورنریندر مودی کو پھر سے وزیر اعظم بنانے کے لیے کھیلا گیا ہے، مودی جی نے  کہا کہ رام للا مندر کی تعمیر ہندوستانی سماج کے امن ، صبر، باہمی خیر سگالی اور ہم آہنگی کی علامت ہے، وزیر اعظم نے بالکل صحیح کہا، لیکن یہ ہندوستانی سماج کے بجائے یک طرفہ مسلمانوں کے صبر ، امن ،باہمی خیرسگالی اور ہم آہنگی کی وجہ سے سارا کام پر امن ماحول میں ہوگیا، جس نے مسلم مخالف نعرے اور ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے کے لئے اکسانے اور اشتعال انگیز نعروں کے باوجود صبر،تحمل اوربرداشت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا، وہ اپنے قائدین کے مشورے کے بموجب خاموشی سے یہ سارا تماشہ جھیل گیے اورملک کی فضا کو پُر امن بنائے رکھنے میں اپنی مضبوط حصہ داری نبھائی، جبکہ فریق مخالف نے رام للا کی گھر واپسی کے نام پر پورے ملک میں جو طوفان بد تمیزی برپا کیا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں، پروگرام کو پورے ہندوستان میں رواں دکھایا گیا اورلوگ جھومتے رہے ، اس سے رام جی کی محبت دلوں میں پیدا ہوئی ہو یانہیں، یہ تو اللہ جانے، لیکن آر ایس ایس اور بھاجپا کے 2024ء میں اقتدار پر قبضے کی بھر پور منصوبہ بندی ہو گئی اور مودی جی کی تقریر سے متھرا اورکاشی کی آگ اور بھڑکنے کا اندیشہ پیدا ہو گیا، وزیر اعظم اشاروں میں بات کرنے کے عادی ہیں اوریہ اشارے ان کے بھگت اچھی طرح سمجھتے ہیں، وہ بہت برننگ ٹاپک پر بھی کم بولا کرتے ہیں، منی پور کا معاملہ آپ کے سامنے ہے ، پارلیامنٹ کا سارا وقت برباد ہوا اور وہ چپی سادھے رہے ، مودی جی نے اس پوجا کے ججمان بننے کے لیے گیارہ دن کا اُپواس رکھا، صرف ناریل پانی پر گذارا کرتے رہے ، مندر مندر جا کر پوجا ارچنا کی، تقریب میں رام للا کو اپنی جگہ پر پہونچانے اور آنکھوں کی پٹی کھولنے کے وقت یوں تو آدتیہ ناتھ یوگی ، آر ایس ایس کے سنچالک موہن بھاگوت، اتر پردیش کی گورنر آنندی بین اور ایک پنڈت بھی تھے، لیکن ایسا لگتا تھا کہ یہ ’’ون مین شو‘‘ہے جو نریندر مودی پر مرکوز ہے، بقیہ لوگ صرف اس موقع کے چشم دید گواہ ہیں، اس موقع سے ایک بڑا جلسہ بھی ہوا، اوربڑی شخصیات نے اس میں خطاب کیا، تذکرہ اس موقع سے رام للا سے زیادہ مودی جی کا ہوا، البتہ یہ بات صحیح کے مودی جی نے اپنی مختصر تقریر میں ایک سو چودہ (114)بار رام اور رام للا کا ذکر کیا۔انہوں نے اس پورے پروگرام میں اپنے کو سادھو سنتوں کی طرح پیش کیا اورہندو راشٹر کی علامت اپنے کو بنا لیا۔ ایسے میں ہندوستان کا گودی میڈیا کب خاموش رہنے والا تھا، اس نے کئی کئی گھنٹے اس تقریب کی رواں نشریہ کا انتظام کیا اور پل پل کی خبریں اس طرح پہونچائیں، جیسے پورا ملک ہندو راشٹر میں تبدیل ہو چکا ہے، اورکیا ہندو اور کیا مسلمان سب اس تقریب میں شریک ہیں، آر ایس ایس اور موہن بھاگوت کے منظور نظر عمر الیاسی کی اونچی ٹوپی گودی میڈیا کی توجہ کا خاص مرکز رہی ، اور کیمرہ گھوم پھر کر اس پر ڈالا جاتا تھا تاکہ دنیا کو بتایا جائے کہ مسلمان کو بھی اس تقریب سے مسرت ہے، بابری مسجد کا مقدمہ پوری زندگی لڑنے والے ہاشم انصاری کے بیٹے اقبال انصاری بھی اس مہم میں شریک تھے اور بھول گیے تھے کہ ان کے والد نے مرتے وقت انہیں وصیت کی تھی ، جو تصویر میڈیا دیکھا رہا تھا مسلمانوں کی حالت اس کے بر عکس تھی، وہ خون کے آنسو پی کر امن اور سکون سے رہے بھی اور دوسروں کو رکھا بھی، اگر یہ یک طرفہ تحمل نہیں ہوتا تو اس موقع پر سب کچھ جل کر خاکستر ہوجاتا اور لاشوں کا شمار ممکن نہیں ہوتا۔ 
اس پروگرام کی بڑی حد تک صحیح تصویر غیر ملکی اخبارات نے پیش کی ، اور عنوانات اور سرخیوں کے ذریعہ لوگوں کو بتایا کہ حقیقت کیا ہے، بر طانوی اخبار گارجین نے لکھا ، مودی نے بھارت میں منہدم مسجد کی جگہ ہندو مندر کا افتتاح کیا، بی بی سی کے ویب سائٹ پر سرخی لگائی گئی کہ ’’بھارتی وزیر اعظم مودی نے مسمار کی گئی بابری مسجد کے مقام پر ہندو مندر کا افتتاح کیا‘‘ رائٹر نے لکھا کہ ’’اسے ہندوستان میں ہندو بیداری کے طور پر دیکھا جا رہا ہے‘‘۔
 رام للا کی جو مورتی مندر میں نصب کی گئی ہے اس کی سناتن دھرم کے مطابق کئی بار پوجا کی گئی ، سینکڑوں گھڑے پانی سے غسل دیا گیا، پالکی پر رکھ کر انہیں پورے مندر میں گھمایا گیا، بقول پنڈتوں کے انہوں نے پورے مندر احاطہ کا ’’بھرمن‘‘ کیا، اور اس کے بعد صرف چوراسی(84) سکنڈ میں منتروں کے بیچ انہیں متعینہ جگہ پر نصب کر دیا گیا، رام للا کی یہ مورتی سوئے گی، بھی جاگے گی بھی، کھائے گی بھی، بھوگ اسی کے لیے لگایا جاتا ہے، یہ دو پہر میں آرام کرے گی، رات میں دس بجے کے بعد پھر سوئے گی،اس پورے کام کو متعینہ وقت پر انجام دلانے کے لیے ان کی چھ بار آرتی اتاری جائے گی، جس میں ایک صبح ان کو جگانے، دوسری انہیں آرام پر جانے، تیسری ان کو رات میں سونے کا وقت بتانے کے لیے کیا جائے گا۔ہندوؤں کے عقیدے کے مطابق ’’پران پرتشٹھا‘‘ سے مورتی کے اندر جان پڑ گئی ہے، لیکن ان کو روز مرہ کے معمول یاد دلانے کے لیے بار بار ان کی آرتی اتاری جائے گی اور ان کے آرام میں کوئی خلل واقع نہ ہو اس کے لیے رام للا کے درشن کودن میں ڈیڑھ گھنٹے اور دس بجے کے بعد سے صبح ک روک دیا جائے گا۔گوا بھی معتقدوں کی بھیڑ کی وجہ سے دن کے آرام کے وقفہ کو ختم کر دیا گیا ہے، جب تک بھیڑ رہے گی، دن میں وہ آرام نہیں کر سکیں گے ، اللہ نے کتنی پیاری بات کہی ہے، ضعف الطالب والمطلوب۔
تاریخ کے آنکھوں نے یہ دیکھ لیا کہ بابری مسجد توڑ کر اس کی جگہ مندر بنادی گئی ہے اور اس بے انصافی کا جشن پورے ہندوستان میں اکثریتی طبقہ نے پورے جوش وخروش سے منایا ، رات میں دیوالی منائی گئی ، پٹنہ میں ڈاک بنگلہ چوراہے سے بودھی پارک تک پچپن ہزار دیے جلائے گیے ، یہ صرف ایک چوراہے کا حال ہے، پورے ملک میں جو پٹاخے پھوڑے گیے، آتش بازی ہوئی ، اس کا شمار ممکن نہیں ہے، سڑکوں کی آمد ورفت کو جس طرح بند کیا گیا، لوگ ہنومان مندر پٹنہ سے گاندھی میدان تک پیدل مارچ کرنے کو مجبور ہوئے، یہ رام کا پیغام بالکل نہیں تھا، جس ملک میں عام جگہوں پر نماز پڑھنے کی اجازت نہیں ہے، کئی کو ایسا کرنے پر قید وبند کی صعوبت جھیلنی پڑی ہے ، اس ملک میں ایک مذہبی تقریب کے لیے سڑکیں بند کر دی گئی ہوں، تیز آواز میں ڈی جے، پٹاخے، آتش بازیاں اور چراغاں فضائی آلودگی میں اضافہ کرکے خطرناک حد تک پہونچا دے رہے ہوں، جہاں سانس لینا مشکل ہو رہاہو کیا اسے رام کا پیغام کہا جا سکتا ہے ، یقینا نہیں، خوشیاں ضرور منائیے، لیکن عام انسانوں کو تو پریشانی میں مت ڈالیے، رام جی نے اپنی پہلی تقریر میں کہا تھا’’پرہت سرس دھرم ناہیں بھائی، پریہارسم نہیں ادھمائی‘‘،یعنی دوسروں کی بھلائی کے برابر کوئی مذہب نہیں ہے اور دوسروں کو دکھ پہونچانے کے برابر کوئی نیچتا پاپ نہیں ہے، کیا رام مندر بنانے والوں نے رام جی کے اس اپدیش کاذرا بھی خیال رکھا، انہوں نے کہا تھا کہ اجُون اینتی کچھ بھاشیوں بھائی، تو موہی برجبوبھیسرائی‘‘، اگر میں کچھ غلط کی بات کروں تو ڈرخوف بھلاکر مجھے روک دینا ، کیا ایسا ہے، ہندوستان میں رام جی کے معتقدین کا بڑا طبقہ ڈراور خوف پھیلانے میں لگا ہوا ہے ، اور اپنے موقف کے خلاف عدل وانصاف کی بات بھی سننا اسے گوارہ نہیں ہے ۔یقینا رام مندر کی تعمیر ہمارے بازی ہار جانے کی علامت ہے، بازی تو ہم اس وقت بھی ہار گیے تھے، جب بابری مسجد کا دروازہ پوجا کے لیے کھول دیا گیا تھا، اس وقت بھی ہارے تھے جب رات کی تاریکی میں مورتیاں وہاں رکھ دی گئی تھی، بازی ہارنے کا ایک موقع وہ بھی تھا جب پنج وقتہ نمازوں پر وہاں روک لگادی گئی تھی ، ہمیں شکست کا احساس اس وقت بھی ہوا تھا، جب فرقہ پرستوں کے مشتعل کارسیوکوں نے حکومت کے تحفظ کی ذمہ داری اور عدالت کی یقین دہانی پر تیشہ چلا کر بابری مسجد کو توڑ دیا تھا، ہمیں اپنی بے کسی کا اندازہ اس وقت بھی ہوا تھا جب نرسمہا راؤ کی سرکار میں عارضی مندر کی دیواریں اٹھا دی گئی تھیں اور رام للا کو درشن کے لیے ٹینٹ میں براجمان کر دیا گیا تھا، اس تمام شکست وریخت کے درمیان تھوڑی امید اس وقت بندھی تھی جب 1994ء میں یہ قانون پاس ہوا تھا کہ تمام عبادت گاہیں 1947ء میں جس پوزیشن میں تھیں رہیں گی اور اس پر کسی کا کوئی دعویٰ کبھی بھی قبول نہیں کیا جا ئے گا، لیکن یہ بھرم بھی ہمارا جاتا رہا جب عدالت نے گیان واپی مسجد اور متھرا کی عیدگاہ کے مقدمہ کو سماعت کے لیے قبول کر لیا اور لوہے کے فوارہ کوشیو لنگ بتانے میں سروے کنندہ کو دیر نہیں لگی، بابری مسجد تاریخ کے اوراق میں سما گئی اور اب متھرا کاشی کا نمبر ہے، اگر مودی جی 2024ء میں آگیے تو 2029ء کے انتخاب کے لیے اگر ہندو راشٹر کا اعلان نہیں بھی ہوا تو متھرا کاشی کی ضرورت انہیں پڑے گی اور وہ اس کو موقع بموقع زندہ کرتے رہیں گے، انہوں نے انتخاب میں مسلم خواتین کو متوجہ کرنے کے لیے تین طلاق کو غیر قانونی قرار دلوایا تھا اور اسے موجب سزا تسلیم کیا گیا تھا، لیکن مسلم خواتین ان کے اس جھانسے میں نہیں آسکیں، آج عدالتوں میں جا کر دیکھئے تو معلوم ہوگا کہ تین طلاق کا کیس وہاں موجود نہیں ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلم عورتیں خوب اچھی طرح جانتی ہیں کہ جس کام کو اللہ، رسول نے حرام قرار دیا ہے وہ کسی کے بھی کہنے اور کرنے سے حلال نہیں ہوسکتا، اس لیے عدالت کے فیصلے اور حکومت کے قوانین بھی عورتوں کو مودی جی کا ہم نوا نہیں بنا سکے، بلکہ مسلم عورتوں نے اسے دین میں مداخلت سے تعبیر کیا اور لاکھوں کی تعداد میں مسلم خواتین نے ہندوستان کے ہر خطے میں اپنا احتجاج درج کرایا، سی اے اے ، این آر سی اور این پی آر میں بھی ہم اپنے کو ٹھگا ہوا محسوس کر تے رہے، لیکن حالات کے ان تمام نازک موڑ پر ہم نے بازی تو ہاری، بلکہ بار بار ہاری ، لیکن ہم نے حوصلے نہیں ہارے ، ہم نے یقینا اپنے حوصلوں کی اڑان دنیا کو نہیں دکھائی ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہمارے حوصلے پست ہو گیے ہیں اور ہم نے حوصلہ ہار دیا ہے، ایسا بالکل نہیں ہے، ہم خوب جانتے ہیں کہ تاریخ اپنے کو دہراتی ہے ، ہم نے تاریخ کو دہرانے کا عمل نادر خان کے حملے کے وقت بھی دیکھا اور تاتاریوں کی نسل کشی کے وقت بھی ، تاریخ نے ترکی میں خود کو دہرایا تو ایا صوفیا گرجا گھر پھر سے مسجد بن گئی ، ہم پورے حوصلے کے ساتھ اس دن کا انتظار کریں گے، جب پھر سے اللہ کی کبریائی کی آواز گونجے گی ، ابھی تو یہ خیال معلوم ہوتا ہے اور اسے ’’دیوانے کی بڑ‘‘یا پھر’’ ایں خیال است ومحال است وجنوں‘‘ کہہ کر دامن جھاڑ لیا جا سکتا ہے ، لیکن جن کا یقین تلک الایام نداولھا بین الناس، ان اللہ علی کل شئی قدیر اور لعل اللہ یحدث بعد ذالک امرا زمانہ کے الٹ پھیر کے الٰہی نظام اس کی قدرت اور ہر شر سے خیر نکلنے پر ہے اور وہ نوشتہ دیوار پڑھنے کا ہنر جانتے ہیں وہ اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہوتے اور دنیا و امید ہی پر قائم ہے ۔

بدھ, جنوری 31, 2024

مفتی مظفر عالم قاسمی ؒ (یادوں کے چراغ)

مفتی مظفر عالم قاسمی ؒ
     (یادوں کے چراغ)
اردودنیانیوز۷۲ 
 ✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ

 مدرسہ عالیہ قاضی پورہ ممبئی اور انجمن اہل سنت والجماعت کے بانی مدرسہ تعلیم الدین برار سیتامڑھی کے بانی وسابق ناظم ، دار العلوم امدادیہ اور انجمن اسلام احمد سیلر اسکول ممبئی کے سابق استاذ ، حج کمیٹی آف انڈیا کے رکن ، معروف عالم دین اور با فیض شخصیت ، مولانا مفتی مظفر عالم قاسمی کا ممبرا ممبئی کے کالیسکر اسپتال میں 14؍ جنوری2024ء مطابق 2؍ رجب بروز اتوارانتقال ہو گیا، جنازہ کی نماز بعد نماز عشاء سورتی محلہ مسجد ممبئی کے امام قاری وقار صاحب نے پڑھائی اور ناریل واری قبرستان ممبئی میں تدفین عمل میں آئی، پس ماندگان میں 4؍لڑکے 2؍لڑکیاں اور پوتے پوتی ، نواسہ، نواسی اور ہزاروں شاگرد اور مستفیدین کو چھوڑا، ایک لڑکی مشہور صحافی مولانا نور اللہ جاویدیو این آئی کولکاتہ کے نکاح میں ہے ۔اہلیہ ایک دہائی قبل ہی رخصت ہو چکی تھیں۔
مولانا مظفر عالم بن مولانا عزیز الرحمن بن شیخ صمدانی بن شیخ نواب علی کی ولادت اپنی نانی ہال مہیش استھان اورائی میں 15؍ رمضان المبارک 1361ھ مطابق 11؍ نومبر 1941ء کو ہوئی ، ان کے نانا کا نام ماجد بخش تھا جو علیم اللہ ٹھیکیدار کے چچا زاد بھائی تھے، عہد طفلی کے چار سال یہیں گذرے ، پھر اپنی دادیہال موضع برار، کوئیلی ضلع سیتامڑھی چلے آئے، یہاں کے سرکاری مکتب میں چار سال ابتدائی تعلیم پائی ، ان کے بڑے چچا جنہیں ہمارے علاقہ میں ’’بڑے ابا‘‘ کہا جاتا ہے کی طلب پر 1950ء میں ممبئی چلے گیے اور ممبئی کی مشہور دینی درسگاہ دار العلوم امدادیہ میں داخلہ لیااورسات سال تک یہاں زیر درس رہے، یہاں انہوں نے حافظ شمس الحق اعظمی، مولانا عبد المنان پٹھان پیشاوری، مولانا عباس علی بستوی اور اپنے بڑے ابا مولانا عبد العزیز صاحب(م1967ئ) عرف بڑے مولانا (رحمہم اللہ) سے کسب فیض کیا، مولانا عبد العزیز صاحب ان دنوں دارالعلوم امدادیہ کے صدر مدرس تھے، وہاں سے اعلیٰ تعلیم کے لیے دار العلوم دیو بند کے لیے سفر باندھا اور عربی ششم میں داخلہ لے کر تین سال میں دورۂ حدیث مکمل کرکے سند فراغت حاصل کی، مولانا نے جن اکابر اساتذہ کے سامنے دیو بند میں زانوے تلمذ تہہ کیا، ان میں حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب، مولانا فخر الدین احمد مراد آبادی، مولانا مبارک علی، مولانا مفتی مہدی حسن ، علامہ محمد ابراہیم بلیاوی، مولانا فخر الحسن ، مولانا ظہور احمد، مولانا بشیر احمد خان، مولانا عبد الجلیل ، مولانا اختر حسین، مولانا عبد الاحد، مولانا معراج الحق، مولانا نصیر احمد خان، مولانا محمد حسین بہاری (رحمہم اللہ) کے نام خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔
فراغت کے بعد 1960ء میں خالہ کی لڑکی سے نکاح ہوا، نکاح خواں مولانا کے بڑے ابا مولانا عبد العزیز صاحب تھے، تدریسی زندگی کا آغاز مادر علمی دار العلوم امدادیہ سے کیا، سات سال تک یہاں استاذ رہے اور عربی کی ابتدائی کتابوں سے بخاری شریف تک کا درس اس درمیان ان سے متعلق ہوا، فجر اور عشا کی نماز کے بعد ممبئی کی کماٹی پورہ کی تیسری گلی والی مسجد میں بھی تعلیم دیا کرتے تھے۔ 1968ء سے 1973ء تک کا زمانہ قلابہ بازار ممبئی ۔۵؍کی مسجد میں امام وخطیب کی حیثیت سے گذارا۔ 1973ء میں سوٹ کیس میٹیریل سپلائی کی تجارت شروع کی، 1980ء سے 2000ء تک انجمن اسلام احمد سیلر ہائی اسکول ناگپاڑہ ممبئی میں معلم کی حیثیت سے کام کرتے رہے ، 1980ء سے 2018ء تک چوک محلہ مسجد میں جمعہ کی خطابت وامامت بھی آپ کے سپرد رہی ، 1974ء میں جامعہ تعلیم الدین کے نام سے اپنے گاؤں میں ایک مدرسہ درسگاہ تعلیم الدین کے نام سے قائم کیا تھا، جو پہلے مدرسہ اور اب جامعہ کے نام سے جانا جاتا ہے، جو لفظ ہی کی حد تک جامعہ ہے ۔
 مولانا مرحوم پختہ اور منجھے ہوئے خطیب تھے، امامت وخطابت کی ذمہ داریوں نے ان کی اس صلاحیت کو خصوصیت سے صیقل کر دیا تھا، ان کی تقریر میں بہت گھن گرج تو نہیں تھا اورنہ ہی وہ زیادہ جسمانی حرکات وسکنات(باٹی لنگویج) سے کام لیتے تھے، اس کے باوجود وہ اپنی بات سلیقہ سے لوگوں کو سمجھانے پر قادر تھے، اوروہ ’’از دل خیزد دبر دل ریزد‘‘ ہوا کرتی تھی، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے انہیں تصنیف وتالیف کا بھی ملکہ عطا فرمایا تھا، وہ اپنی متنوع مشغولیات کی وجہ سے اس میدان میں بہت کام تو نہیں کرسکے، لیکن جو لکھا مسلمانوں کے عام ضرورت کی چیز ہے ۔ ان کی مشہور تصانیف میں اذان واقامت ، آئینہ نکاح، آدھا دین، آداب زندگی، تعلیم السنۃ ، پردہ سنٹر اور چند رسائل قابل ذکر ہیں۔
 مولانا مرحوم سے میرے تعلقات قدیم مضبوط اور مستحکم تھے، میری ملاقات موضع برار ضلع سیتامڑھی، کولکاتہ اور ممبئی ہر سہ جگہ ہوئی تھی، کولکاتہ میں ان کے داماد مولانا نور اللہ جاوید قیام پذیر ہیں اس تعلق سے ان کا آنا جانا ہوتا تھااور میری حاضری تینوں جگہ جلسہ کے حوالہ سے ہوتی تھی ، میں نے مولانا کو ہر مجلس میں باوقار ، مہمان نواز اور محبت وشفقت کرنے والا پایا، ممبئی کی چکا چوند والی زندگی نے انہیں کبھی بھی عالمانہ وقار اور داعیانہ کردار سے دور نہیں کیا،وہ باجماعت نمازوں کے پابند تھے، اور گھر کے چھوٹے بچوں کو بھ اس میں شریک کیا کرتے تھے، کہنے والے کہتے ہیں کہ شمالی بہار کے باشندوں کی جو بڑی تعداد ممبئی میں سکونت پذیر ہے، اور تنظیمیں کام کر رہی ہیں، ان کو بسانے ، وقار بخشنے اور ان کی دنیاوی اور دینی ضرورتو کی تکمیل میں مولانا عبد العزیز ؒ اور ان کے خانوادے کا بڑا ہاتھ رہا ہے ، یہ خاندان آج بھی ممبئی میں مولانا کی دینی جد وجہد کو روشن وتابندہ رکھے ہوئے ہے۔ اللہ رب العزت مولانا مرحوم کی مغفرت فرمائے ۔ پس ماندگان کو صبر جمیل دے۔ رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ

منگل, جنوری 30, 2024

علامہ محمد انور شاہ کشمیری اور عربی زبان وادب

علامہ محمد انور شاہ کشمیری اور عربی زبان وادب 
اردودنیانیوز۷۲ 
    ✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ
===============================
حضرت علامہ محمد انور شاہ کشمیری کا نام آتے ہی ان کی علمی عبقریت وعظمت ، احادیث پر ان کی خدمات ، تحقیق کے میدان میں ان کی بے مثال مساعی اور ان کے غیر معمولی حافظہ کے احوال وواقعات پڑھ اور سن کر دل ودماغ سر نگوں ہوجاتے ہیں، اور احساس ہوتاہے کہ دار العلوم دیو بند نے کیسی کیسی علمی شخصیات کو پیدا کیا اور انہوں نے کس قدر علمی ، ملی ، دینی کاموں میں جفا کشی کی اور کیسے کیسے گہر آبدار ہم پیچھے آنے والوں کے لیے چھوڑا، واقعہ یہ ہے کہ حضرت کشمیری ؒ کی ذات اقدس اپنے وقت میں مرجع علماء تھیں اور اب ان کی کتابیں مرجع کے طور پر استعمال ہو رہی ہیں، صحیح اور سچی بات یہ ہے کہ ان کی شخصیت کثیر الجہات تھی اور ان کے علم وتحقیق کا دائرہ تفسیر ، حدیث، فقہ ، عقائد ، تاریخ عربی ادب، لغت اور تصوف تک وسیع تھا، ہر صنف میں ان کی خدمات وقیع ہیں، اسی لیے پوری مسلم دنیا ان کی عظمت کے سامنے سرجھکاتی ہے ۔
 عربی زبان وادب میں بھی ان کی خدمات وقیع ہیں، ان کی اکثر بیشتر تصنیفات وتالیفات کی زبان عربی ہے، ان کی یہ خدمت حدیث کے مقابلہ دب سی گئی ہے اور سوانح نگاروں کی توجہ اس طرف ذرا کم ہوئی، عربی میں مولانا یوسف بنوری کی عربی سوانح نفحہ العنبر فی حیاۃ امام العصر الشیخ انور میں ان کی عربی زباندانی اور اس فن میں ان کی مہارت کا ذکر ذرا تفصیل سے آیا ہے ، بقیہ مولانا عبد الرحمن کونڈو کی الانور، مولانا ازہر شاہ قیصر کی حیات انور، مولانا انظر شاہ صاحب کی نقش دوام اور بہت سارے مضامین ومقالات میں عربی ادب کے حوالہ سے ان کی خدمات کے ذکر سے محققین سرسری گذر گیے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک اہم کتاب ڈاکٹر عبد المالک مظفر خان کی العلامہ انور شاہ کشمیری حیاتہ وشعرہ ہے جو بلا واسطہ اس موضوع سے متعلق ہے ، مولانا محمد نافع عارفی کی یہ کتاب اردو میں مولانا کی عربی ادب کی خدمات کا تفصیلی ، تحقیقی اور تجزیاتی مطالعہ ہے ، جو تحقیق کے نئے زاویے اور عصری جہتوں کو سامنے رکھ کر لکھا گیا ہے ۔اور میرے مطالعہ کی حد تک اس موضوع پر پہلی کتاب ہے۔
ابو حمزہ محمد نافع عارفی بن حضرت مولانا محمد سعد اللہ صدیقی بن حضرت مولانا عبد الرحمن ہر سنگھ پوری ؒ ایک علمی خانوادے کے چشم وچراغ ہیں، علم وصلاح ان کا خاندانی ورثہ ہے ، تصوف کے حوالہ سے بھی اس خاندان کی بڑی خدمات رہی ہیں، مولانا نافع عارفی نے مدرسہ رحمانیہ سوپول ، جامع العلوم مظفر پور، دار العلوم دیو بند اور المعہد العالی الاسلامی حیدر آباد سے علمی اکتساب کیا ہے اور تحقیق وفتاویٰ کے رموز سیکھے ہیں، پھر اس صلاحیت کو صیقل کرنے کے لیے مدرسہ عبد اللہ بن مسعود حیدر آباد ، مدرسہ چشمہ فیض ملل ، دارالعلوم سبیل الفلاح جالے، معہد الولی الاسلامی ہر سنگھ پور میں پڑھایا بھی ہے ، ان کی دس کتابیں اسلام کا نظام زراعت ، کتابت وحی اور کاتبین ، مذہبی رواداری اور اسوۂ نبوی ، حیات عارف، الحدیقۃ العربیۃ (2حصے) نخبۃ دروس اللغۃ العربیۃ ، الزھرۃ العربیۃ ، عربی زبان وادب کی تاریخ، تسہیل القواعد اور زاہیۃ الادب، تصیف ، تالیف ، تحقیق اور ترتیب کے طور پر سامنے آچکی ہیں، یا آنے والی ہیں، جس سے ان کی صلاحیت اور اردو عربی زبان میں تصنیفی قدرت کا پتہ چلتا ہے، بدقسمتی سے زیر تبصرہ کتاب کے علاوہ ا ن کی کوئی دوسری کتاب میری نظر سے نہیں گذری، قصور اپنی طلب اور نظر کا ہی ہے ۔
تین سو چھ صفحات کی یہ کتاب اردو ڈائرکٹوریٹ محکمہ کابینہ سکریٹریٹ حکومت بہار کے جزوی مالی تعاون سے اشاعت پذیر ہوئی ہے، کمپوزنگ ابو نصر ہاشم ندوی اور نا شر کتب خانہ نعیمیہ دیو بند سہارن پور ہے، جب قیمت کتاب پر درج نہ ہو تو مفت ملنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں، ملنے کے چار عدد پتے درج ہیں، آپ حیدر آباد میں المعہد العالی الاسلامی ، دربھنگہ میں معہد الولی الاسلامی ہرسنگھ پور، پھلواری شریف میں ابو الکلام ریسرچ فاؤنڈیشن اور دیو بند میں کتب خانہ نعیمیہ سے یہ کتاب حاصل کر سکتے ہیں، البتہ ان جگہوں سے لینے پر مفت ملنے کی ضمانت نہیں دی جا سکتی ۔ کتاب کا انتساب دار العلوم دیو بند ، والدین اور عاشقان جمال انور کے نام ہے جو مصنف کے عقیدت وتعلق کا مظہر ہے ، کتاب کا پیش لفظ حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی ، دامت برکاتہم نے لکھا ہے ، مولانا انیس الرحمن قاسمی سابق ناظم امارت شرعیہ کی تقریظ اور مولانا ڈاکٹر شکیل احمد قاسمی کی کلمات تحسین ہے، ڈاکٹر شکیل احمد قاسمی کے نام کی پٹی فہرست میں
بعد میں چپکائی گئی ہے ، اس سے لگتا ہے کہ یہ جگہ مولانا نسیم اختر شاہ قیصر ؒ کے لیے مختص تھی، لیکن یا تو ان کی تحریر نہیں مل سکی، یا وہ لکھنے کے پہلے ہی راہیٔ آخرت ہو گیے، اس راز کا پتہ مولانا نافع عارفی کے مقدمہ سے چلتا ہے ، جس میں انہوں نے اظہار تشکر میں مولانا نسیم اختر شاہ قیصر کے نام ذکر کیا ہے ، اور ڈاکٹر شکیل قاسمی کاتذکرہ رہ گیا ہے، میں نے چشمہ اوپر نیچے کرکے بار بار فہرست اور کتاب میں ان کا نام اور ان کی تحریر تلاشنے کی کوشش کی ، لیکن ناکام رہا، پھر ساری قلعی فہرست مضامین کی پٹی اور عنوان کی تبدیلی ’’کلمات تحسین‘‘ نے کھول دیا، اگر مقدمہ سے اسے ہٹا دیا جاتا تو یہ تسامح نہیں ہوتا۔بے اختیار علامہ اقبال کے دور قدیم کی ایک غزل کا ایک شعر یاد آگیا ، جو داغ اسکول کی نمائندگی کرتا ہے۔
تمہارے ’’پیامی‘‘ نے سب راز کھولا  خطا اس میں بندے کی سرکار کیا تھی
 کتاب کا پہلا باب دار العلوم دیو بند کی علمی خدمات کی تحقیق اور ابناء دار العلوم کی مختلف موضوعات واصناف پر ان کی تصنیفی فہرست پر مبنی ہے ، اس میں تحقیق بھی ہے اور تاریخ بھی، یہ فہرست مختصر ہے، لیکن اجمالی واقفیت کے لیے مفید مطلب ہے ، اس باب کو ’’عربی زبان وادب کی ترقی میں ابنائے دار العلوم کی کاوشیں ‘‘ کا عنوان دیا گیا ہے ، دوسرا باب، علامہ کشمیری کے احوال وآثار اور نسلوں کی تعلیم وتربیت سے متعلق ہے ، اس میں ان کی تعلیمی وتدریسی زندگی کا بھر پور جائزہ لیا گیا ہے اور اس میں تحقیق کے جدید تقاضوں کو برتا گیا ہے ، اس باب کا عنوان ’’علامہ انور شاہ کشمیری کی علمی زندگی کی داستان ‘‘ ہے۔ تیسرے باب میں عربی زبان وادب کے حوالہ سے حضرت کشمیری کی زبان دانی ، نثر نگاری اور شاعری پر تفصیلی بحث کی گئی ہے ، ان کے اسلوب ، محاسن اور ندرت پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے ، یہ اس کتاب کا تیسرا باب ہے ، جس کا عنوان مصنف نے ’’عربی زبان وادب کے میدان میں علامہ کشمیری کے فتوحات‘‘ رکھاہے، یہ باب صفحہ 205 سے شروع ہوتا ہے اور 216 پر ختم ہوتا ہے، اس باب میں علامہ کشمیری کے ادبی ذوق ، شعر وسخن ، مرثیے، اصلاحی اشعار آپ کی شاعری کی اہم خصوصیات اور محاکمہ کے طور پر شاعری میں علامہ کشمیری کے مقام کی تعیین کی کوشش کی گئی ہے ، مصنف اس نتیجے پر پہونچے ہیں کہ 
’’اردو فارسی شاعری میں جو رتبہ میر وغالب کا ہے ، عربی شاعری میں
حضرت کشمیری کو وہی مقام حاصل ہے، علامہ کی عربی نثر نگاری کا محاکمہ کرتے ہوئے مولانا نافع عارفی نے لکھا ہے ‘‘۔ 
 علوم شرعیہ میں انشاء پردازی کے جو جوہر دکھلائے ہیں وہ انہیں اپنے زمانہ کے ممتاز ادباء کی صف میں کھڑا کرتا ہے۔ (صفحہ 393)
295؍ سے ان شخصیات ، کتابیات اور رسائل وجرائدکا ذکر ہے، جن کے حوالہ سے تحقیق کے دشوار گذار مراحل کومصنف نے طے کیا ہے ، جن شخصیات کا ذکر کتاب میں آیا ہے، اس پر قیمتی حاشیہ درج کرنے کا انتظام کیا ہے، جس میں انکی شخصی اور علمی احوال وکوائف کے ذکر نے اس کتاب کی اہمیت میں اضافہ کیا ہے ۔
مولانا اس کتاب کی تصنیف پر علمی دنیا سے شکریہ کے مستحق ہیں، کتاب اس لائق ہے کہ اہل علم اس کا مطالعہ کریں اور لائبریری میں ماخذ ومرجع کے طور پر محفوظ کر لی جائے۔

اتوار, جنوری 28, 2024

" تماشہ میرے آگے "

"  تماشہ میرے آگے "
   اردودنیانیوز۷۲ 
      عین الحق امینی قاسمی
معہد عائشہ الصدیقہ بیگوسرائے

کتاب کے باکمال مصنف آبروئے قلم مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ ہیں ، اپنے مثبت افکار،صالح خیالات اور قلمی معیار وکردار کی وجہ سے اکثر حلقوں  میں احترام کے ساتھ جانے جاتے ہیں ، وہ صبر آزما ذہن رکھتے ہیں ،مزاج میں ترشی نہیں ہے،خندہ پیشانی سے انہونی کوبھی انگیز کرلیتے ہیں، ملول خاطر ہوناان کے یہاں نہیں ہے،ہاں!" غیر اہم" کو "اہم" قرار دیئے جانے کا احساس انہیں شاید دیر تک رہتا ہے اور یہ فطری امرہے،البتہ ایسے تمام سیاسی ،سماجی دشوار گزار مرحلوں کو وہ اک" تماشہ" سے زیادہ اہمیت بھی نہیں دیتے ہیں،اسی لئے آئے دن کے سیاسی تماشوں سے وہ نہ خودمایوس ہوتے ہیں اور نہ عام لوگوں کےعزم و عمل میں ٹھہراؤ کو جائز سمجھتے ہیں۔ان کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ جہاں جہاں سیاسی بازیگر ،ملک وملت کو مسائل میں الجھا کر دشواریاں پیدا کرتے ہیں،دن کو رات ثابت کرنےیا غلط کو درست دکھانے کی بے وجہ کوشش کرتے ہیں، ایسے مرحلوں میں ان کا قلم رواں رہ کر نہ صرف راہ تلاشتا ہے ،بلکہ اوروں کے لئے راہ یابی کا فریضہ بھی انجام دیتا ہے۔مصنف کتاب اپنے اس مجموعہ تحریر کے حوالے سے پیش لفظ میں ایک جگہ بڑی خوبصورتی سےلکھتے ہیں : 
"تماشہ میرے آگے "میرے ان مضامین کا مجموعہ ہے جو سیاسی احوال ومعاملات پر لکھے گئے نقیب میں چھپ کر لوگوں تک پہنچے اور مقبول ہوئے ،اب چوں کہ سیاست میں اخلاق و اقدار کا جنازہ نکل گیا ہے ،نظریات، اقتدار اور کرسی کے گرد گھومنے لگے ہیں ،یہ سب ایک تماشہ ہے جو اقتدار کے اسٹیج سے یا اقتدار  تک پہنچنے کے لئے کیا جارہا ہے اس لئے میں نے ان مضامین پر مشتمل کتاب کا نام ہی تماشہ میرے آگے رکھ دیا ہے "
سردست مجموعہ مضامین میں جن 130/ عناوین کے تحت انہوں نے" تماشہائے جہاں "کو پرکھا اور اس پر اپنے موقف کو پیش کیا ہے ،اس کا لفظ لفظ ،بلکہ حرف حرف ان کی ہمہ جہت معلومات،دوررس سیاسی آگہی،فکر ودانشمندی،بے باک موقف، درد وچبھن ،کامیاب حل اور حقیقت حال کا مظہر ہے ،خوبی کی بات یہ بھی ہےکہ ان کی خامہ فرسائی کا میدان تذکرہ ،سوانح،تاریخ،ادب، تحقیق اورتنقیدسمیت اصلاح ودعوت،تعلیم وتربیت اور فکری وسماجی موضوعات کے علاؤہ فقہ ،سیرت،حدیث، تفسیراور دین کے بنیادی مآخذ  بھی ہیں ،جن پر الگ الگ زاویوں سے وہ مسلسل یومیہ لکھ رہےہیں ، آج یہاں وہاں  سیا سی گلیاروں میں جو بے چینیاں پائی جارہی ہیں ان کے پڑھنےسمجھنے کا بھی ایک وقت متعین ہے اور خیالات کی قلم بندی کے لئے بھی وقت مقرر کیا ہوا ہے ،اوقات میں برکتوں کے حوالے سےوہ اکابرین کے پرتو ہیں،خدا نے بڑی برکتوں سے نوازا ہے ۔زیر تذکرہ کتاب کا ہرعنوان و پیراگراف ،ان کے فکر ومطالعے کی وسعت کا عکس ہے ،کتاب ہاتھ میں لیجئے تو ورق ورق الٹے بغیر آپ حرف آخر تک نہیں پہنچ سکتے ،عنوان کا انداز وساخت،عام علماء کی نثری روش سے مختلف ،کم لفظوں میں پوری کہانی کا سرنامہ ہے۔

یہ کتاب دراصل "سیاسی حالات ،مسائل اور معاملات پر امارت شرعیہ بہار، اڑیسہ وجھارکھنڈ کے ترجمان ہفت روزہ نقیب  (2019 -2015 )میں چھپے ادارئیے،شذرات،تجزیاتی وتنقیدی مضامین کاانتخاب "ہے۔ "تماشہ میرے آگے" قریباً 130/مختلف النوع مضامین پر مشتمل ہے ،جس کی ضخامت 280/صفحات کو محیط ہے ،ظاہر وباطن میں حسن ہی حسن،دیدہ زیب طباعت ،عمدہ کاغذ ،روایتی تقریظات سے پاک، عام فہم زبان جیسی خوبیوں والی اس دراز نفس کتاب کی عام قیمت 300/ روپے ہے۔نور اردو لائبریری حسن پور گنگٹھی بکساما،ویشالی بہار کو اس کتاب کا ناشر ہونے کا فخر حاصل ہے جب کہ مکتبہ امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ ،نور اردو لائبریری ویشالی،ادارہ سبیل الشرعیہ آواپور سیتا مڑھی اور الہدی ایجو کیشنل اینڈ ویلفیر ٹرسٹ وغیرہ سے کتاب منگوائی جاسکتی ہے۔شاندار،خوبصورت اور معیاری مطبوعات پیش کرنے کے لئے مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی صاحب مدظلہ شکریہ اور مبارک باد دونوں کے یکساں مستحق ہیں۔

مالدیپ اور ہندوستان کے بگڑتے تعلقات

مالدیپ اور ہندوستان کے بگڑتے تعلقات
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ
==============================
بحر ہند میں جمہوریہ مالدیپ گیارہ سو برانوے (1192)جزائر پر مشتمل ایک چھوٹا سا ملک ہے جن میں دو سو جزیروں پر انسانی آبادی پائی جاتی ہے، یہ ہندوستان کے جزائر لکشدیپ کے جنوب اور سری لنکا سے سات سو کلو میٹر (435میل)جنوب مغرب میں واقع ہے، یہاں کا دار الحکومت مالے ہے جہاں ملک کی مجموعی آبادی کے اسی فیصد لوگ بود وباش اختیار کیے ہوئے ہیں، یہاں کی سرکاری زبان ’’دیویہی‘‘ ہے گیارہ نومبر1968اس کا یوم تاسیس ہے، بعضوں نے 26جولائی 1965بھی لکھا ہے ، یہاں کے سر براہ ان دنوں محمد معیز ہیں، جو 17نومبر 2023کو منتخب ہو کر بر سر اقتدار آئے ہیں۔ ہندوستان سے مالدیپ کا رشتہ بہت قدیم ہے، البتہ یہاںکے حکمرانوں میں بعض چین نواز بھی ہوا کیے ہیں، محمد معیز کے بارے میں کہا جا تا ہے کہ وہ چین نواز ہیں، اسی لیے سابقہ حکمرانوں کے بر عکس انہوں نے منتخب ہونے کے بعد ہندوستان کے بجائے پہلے چین جانے کا فیصلہ لیا اور وہاں سے آکر جو بیان دیا ہے وہ بہت معنی خیز ہے، انہوں نے کہا کہ ہم چھوٹے ضروری ہیں، لیکن کسی کے دباؤ میں رہنے والے نہیں ہیں، اور ہمیں کوئی دھمکا نہیں سکتا، یہ بیان انہوں نے اس پس منظر میں دیا ہے کہ ان کے تین وزراء نے وزیر اعظم نریندر مودی کے بارے میں کچھ ایسا تبصرہ کیا تھا ، جسے ہندوستان نے ہتک آمیز قرار دیا تھا، محمد معیز نے ان تینوں وزراء پر کاروائی کرتے ہوئے انہیں کابینہ سے نکال دیا جو ایک بڑا قدم تھا، لیکن ہندوستان اس سے مطمئن نہیں ہے اور اپنی بے اطمینانی کا اظہار مختلف طریقوں سے کرتا رہا ہے، اس کی وجہ سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہو گئی ہے، یہ کشیدگی دونوں ملکوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے، تازہ خبر کے مطابق مالدیپ نے ان اٹھاسی(88) فوجیوں کو ملک چھوڑ دینے کو کہا ہے جو برسوں سے وہاں تعینات ہیں۔
 ہندوستان سے مالدیپ کا رشتہ ملک کے تحفظ، فوجی تربیت ، تجارت ، سیاحت، صحت وتعلیم کے حوالہ سے مضبوط رہا ہے، 1988سے ہی ہندوستان مالدیپ کو تحفظ کے نقطہ نظر سے تعاون دیتا رہا ہے، اپریل 2016میں ایک معاہدہ مالدیپ اور ہندوستان کے درمیان ’’ایکشن پلان فارڈیفنس‘‘ کے نام سے ہوا تھا ، جس کے مطابق ہندوستان مالدیپ کو ستر فی صد تعاون دینے کا پابند ہے، گذشتہ دس سالوں میں ہندوستان نے ایم این ڈی ایف (MNDF)کے پندرہ سوارکان کو فوجی تربیت دینے کا کام کیا ہے، ہندوستانی بحریہ فضائی نگرانی کے لیے بھی مالدیپ کو تعاون دیتی رہی ہے۔
 معاشی اعتبار سے دیکھیں تو مالدیپ چاول، گیہوں ، چینی، آلو، پیاز اور تعمیراتی سامانوں کے لیے ہندوستان پر منحصر ہے، مودی دور حکومت میں مالدیپ سے تجارت میں تین گنا اضافہ ہوا ہے، تجارتی نقطہ نظر سے اسٹیٹ بینک آف انڈیامالیات کی فراہمی میں تیسرا بڑا معاون مالدیپ کا ہے، ہندوستان نے مالدیپ کو چار سو کروڑ روپے بطور تعاون مالی سال 2022-2023میں دیا ہے ۔
مالدیپ کی معیشت کا بڑا انحصار سیاحت پر ہے، وہاں کی گھریلو آمدنی کا ایک تہائی حصہ سیاحت سے فراہم ہوتا ہے، وہاں اوسطا ہر سال اٹھارہ لاکھ سے زیادہ سیاح آتے ہیں، جن میں بڑی تعداد ہندوستانیوں کی ہوتی ہے۔ 2023میں جتنے سیاح مالدیپ آئے ان میں بارہ فیصد ہندوستانی تھے۔
اسی طرح وہاں تعلیم اور صحت کے ادارے کے فروغ میں بھی ہندوستان کی اہم حصہ داری رہی ہے، ہندوستان نے وہاں اندرا گاندھی میموریل اسپتال کو جدید ٹکنالوجی سے آراستہ کرنے کے لیے باون (52)کروڑ روپے دیے اور ایک سو پچاس سے زائد اسپتالوں کے لیے جو مختلف جزیروں پر واقع ہیں رقومات فراہم کی ہیں، مالدیپ کے اساتذہ کو تربیت دینے کے لیے ہندوستان نے وہاں ووکیشنل تربیت کے مراکز قائم کیے اور اطلاع کے مطابق دو ہزار سے زائد لوگوں کو تربیت دینے کا کام کیا ہے، اس کے علاوہ مختلف میدانوں میں فنی تربیت دینے کے لیے ہندوستان اپنے یہاں بھی مالدیپ سے لوگوں کو بلاتا رہا ہے، اسی وجہ سے مالدیپ کے حکمراں ہندوستان سے تعلقات استوار رکھنے میں سبقت لے جاتے رہے ہیں، محمد معز نے انتخاب ہی اس منشور پر لڑا تھا کہ وہ ہندوستان پر انحصار کو کم کریں گے، چنانچہ انہوں نے آتے ہی یہ کام شروع کر دیا ہے۔انہوں نے ہندوستان کے بجائے چین پر انحصار کو بڑھاوا دیا ہے، چین نے وہاں پہلے سے ہی ایک ارب پینتیس کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے، جس کا بڑا حصہ قرض کی شکل میں ہے اور واقعہ یہ ہے کہ مالدیپ کی زمین کے بڑے حصہ پر مختلف سرمایہ کاری کے نام پرچین نے قبضہ کر رکھا ہے، اگر مالدیپ کا انحصار چین پر بڑھتا ہے تو علاقہ میں چین کے اثرات میں اضافہ ہوگا، جوہندوستان کے حق میں نہیں ہے، مالدیپ کی کمزوری یہ ہے کہ وہ ایک چھوٹا ملک ہے اور اپنی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے اسے ہند وچین میں ایک کو چننا ضروری ہے، یہ افسوسناک ہے کہ موجودہ حکمراں محمد معز نے چین کو چن لیا ہے۔

ہفتہ, جنوری 27, 2024

صحرائے جنوں" اور احمد معراج ۔۔✍️انور آفاقی دربھنگا

صحرائے جنوں" اور احمد معراج ۔۔
Urduduniyanews72 
✍️انور آفاقی دربھنگا (9931016273)
دبستانِ عظیم اباد میں جب شعر و ادب کی بہار چھائی ہوئی تھی تو اس کے ساتھ اسی زمانے میں دوسرے کئی اضلاع بھی اس بہار کی خوشبوؤں سے فیض یاب ہونے لگے تھے ان اضلاع میں سے ضلع سارن کے شہر چھپرہ میں بھی شعر و سخن کی فضا پھولنے پھلنے لگی تھی۔ شہر چھپرہ جس کی خاک سے نشتر چھپروی ، عبد الطیف شؔفا چھپروی، اسمعیل خاں جوؔش چھپروی،  محمد حنیؔف چھپروی، اجتبی حسین رضوی اور دوسرے کئی شعراء اٹھے اور شعر و ادب کی دنیا پہ چھا گئے اور بڑا نام پیدا کیا ۔ چھپرہ میں شاعری کی فضا سازگار ہوتی رہی اور اس کی خمیر سے شعرا و ادبا پیدا ہوتے رہے ۔  اسی خمیر سے اٹھنے والے ایک خوش مزاج ،خوش گلو اور خوش اخلاق و اعتبار  نوجوان  شاعر کا نام ڈاکٹر احمد معراج ہے جن کا وطن ثانی عشق و محبت کی سرزمین، ٹیگور و نذر الاسلام کا وطن اور رضا علی وحؔشت ، علقمہ شبلی کا مسکن شہرِ نشاط یعنی کالکوتہ ہے ۔
احمد معراج الدین خان ابن عبداللہ خان و نجمہ بیگم نے چھپرہ بہار کے ایک موضع ارنا میں 7 جنوری 1986 ( بہ اعتبار تعلیمی سند )میں آنکھیں کھولیں۔ شعر و ادب کی دنیا میں اپنے قلمی نام احمد معراج سے مشہور ہوئے ۔ بچپن ہی سے کلکتہ جیسے دلربا شہر میں پروان چڑھنے والے اور وکٹوریہ میموریل گارڈن ، آٹرم گھاٹ کی صبح و شام کی فضا میں سانس لینے والے احمد معراج کی ابتدائی تعلیم  مدرسہ حنفیہ رضویہ سے شروع ہوئی مولانا ازاد کالج کولکاتا  سے گریجویٹ ہوئے ۔ایم۔ اے اور بی۔ ایڈ کی ڈگریاں مولانا ازاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدراباد سے پائیں ۔ بی ۔پی۔ ایڈ ناگپور یونیورسٹی ناگپور سے مکمل کیا ۔ ساتھ ہی وہ للت نارائن متھلا یونیورسٹی دربھنگہ سے ڈاکٹریٹ کے سند یافتہ بھی ہیں ۔ جب شاعری کی ابتدا کی تو اپنی پہلی غزل پر معتبر شاعر بازغ بہاری سے اصلاحِ سخن لی پھر ان کی وفات کے بعد مستقل طور پر اپنا کلام معروف و مشہور شاعر حلیم صابر کو دکھانے لگے ۔  حلیم صابر نے احمد معراج کی فنی صلاحیت کو نکھارا اور اب احمد معراج نے اپنے پہلے مجموعہ کلام" صحرائے جنوں" ( مطبوعہ 2022) کے ساتھ شاعری کی دنیا میں اپنی شناخت کرائی ہے۔
 احمد معراج جتنے ہینڈسم ہیں وہ اتنی ہی خوبصورت شاعری بھی کرتے ہیں ۔ وہ مشاعرے میں اپنا کلام ترنم سے سنا تے ہیں اور  سامعین سے داد و تحسین پاتے ہیں ۔ اس کم عمری ہی میں کئی اعزازات و انعامات سے نوازے جاچکے ہیں ۔ صرف کولکاتا ہی نہیں بلکہ پورے ہندوستان کے مشاعرے میں مدعو کیے جاتے ہیں۔

ڈاکٹر احمد معراج کا اولین مجموعہ کلام "صحرائے جنوں" میری نگاہوں کے سامنے ہے اور ابھی زیر مطالعہ ہے۔ یہ کتاب مجھے بدست ڈاکٹر منصور خوشتر،  چند دنوں قبل موصول ہوئی تھی۔ میں اس خوبصورت تحفہ کے لیے ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور صحرائے جنوں کے لیے نیک تمنائیں پیش کرتے ہوئے دعا کرتا ہوں کہ صحرائے جنوں اپنی مقبولیت کی تمام بلندیوں کو چھو لے ۔ اللہ ان کو نئی توانائی اور فکری جولانی عطا کرے اور ان کا دوسرا مجموعہ کلام بھی جلد ہی قارئیں ادب کے ہاتھوں میں ہو۔ امین۔
پیش نظر کتاب کل 174 صفحات پر محیط ایک دیدہ زیب مجموعہ کلام ہے جسے عرشیہ پبلی کیشنز دہلی نے بڑے اہتمام سے چھاپا ہے ۔ اس کتاب کو موصوف نے اپنی "امی جان" کے نام منسوب کیا ہے ساتھ ہی ایک صفحہ اپنے مادرِ  علمی "مولانا آزاد کالج کلکتہ" کے نام بھی کیا ہے۔ یہ وہی کالج ہے جہاں سے انہوں نے علم حاصل کرکے اپنے باطن کو روشن کیا ، شعور کے راستے طئے کئے اور منزل کی طرف گامزن ہوئے۔ بعد کے
 دو صفحات پر ان کا تعارف و کوائف ہے جس سے ان کے بارے میں قارئین کو بہت سی ضروری معلومات حاصل ہو جائیں گی ۔ فہرست پانچ صفحات پر مشتمل ہیں ۔ 
سب سے پہلے احمد معراج  "اپنی بات "کے صفحہ پر  اپنی دلی کیفیات و احساسات کا اظہار کچھ یوں کرتے ہیں۔۔۔۔ ۔۔۔
     " قدرت نے مجھے بے حد حساس طبیعت عطا کی ہے ۔ یہی سبب ہے کہ زمانے کے تغیرات مجھے حد درجہ متاثر کرتے ہیں اور میں اضطرابی کیفیت سے دوچار ہو جاتا ہوں ۔ یقینا اس کی آہٹ آپ بھی میری شاعری میں محسوس کریں گے ۔ قدروں کا زوال میرے لیے ایک بڑا سانحہ ہے ۔میری نظریں ایسے صالح سماج کو ڈھونڈتی ہیں جس میں انسانیت کی خوشبو فضاؤں میں رچی بسی ہو"۔
سچی بات تو یہ ہے کہ کوئی بھی شاعر/ فنکار پہلے حساس ہوتا ہے تب ہی اس کی نگاہوں کے سامنے ہونے والے واقعات اس کے قلب پر مرتسم ہوتے ہیں  اسے جھنجوڑتے ہیں تڑپاتے ہیں رلاتے ہیں اور تب ایک شاعر/فنکار اپنا قلم اٹھاتا ہے اور اپنے قلبی کیفیات و تجربات کو صفحہءِ قرطاس  پر بکھیر کر سکون پاتا ہے۔  اور عام انسان اس شاعر کی تخلیق میں اپنے دکھ درد کی تصویر دیکھتا ہے ۔ شاعر کی آواز اس کی اپنی آواز لگتی ہے اور تب جا کر وہ شاعر وہ فنکار عوامی سطح پر مرکز نگاہ بنتا ہے ۔ پکاسو  اپنے احساس و جذبات کو پینٹنگ میں پیش کر کے ایک بڑا فنکار بن کر ابھرتا ہے ساحر لدھیانوی" چکلہ "جیسی نظم لکھ کر تہلکہ مچا دیتا ہے اور یہ کہہ کر ؂
 کہاں ہیں کہاں ہیں محافظ خودی کے
 ثنا خوانِ  تقدیس   مشرق   کہاں ہیں
لوگوں کی نگاہوں کا مرکز بن جاتا ہے ، اور شاعر جمالی
جیسا شاعر یہ شعر ؂ 
ائے  پڑوسی یہ جو بچہ  ہے ترے نیزے پر
تیرا  ببلو اسے کل ڈھونڈ کے روئے گا بہت
سنا کر سامعین کو سکتے میں ڈال دیتا ہے اور ڈاکٹر احمد معراج محنت کشوں کے دکھ اور درد کو اپنا دکھ درد سمجھ کر جب یہ شعر کہتا ہے اور مشاعرے میں سناتا ہے   ؂
دھوپ سر  پر  مرے  مشقت  کی
 شاخ محنت پہ پھل رہا ہوں میں
تو قارئین و سامعین کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے میں کامیاب ہوجاتا ہے ۔
اس کے بعد 26 صفحات پر  ڈاکٹر احمد معراج کی  شخصیت اور فنِ شاعری پر ڈاکٹر نسیم احمد نسیم بتیا، بہار ، ممتاز ناقد ڈاکٹر حقانی القاسمی دہلی ، ایم۔ نصر اللہ نصر کولکاتا ،اور ڈاکٹر خان محمد رضوان دہلی نے عمدہ تاثراتی مضامین قلمبند کئے ہیں جن کے مطالعے سے قارئین کو یک گونہ مسرت اور آحمد معراج کی شاعری کے کینوس کی وسعت کا اندازہ ہوگا ۔
سب سے پہلے کتاب کے گرد پوش کے اندرونی حصے پر معروف صحافی شاعر ادیب ناقد ف۔ س۔ اعجاز  کی تحریر پر نظر پڑتی ہے وہ اپنی رائے دیتے ہوئے رقم طراز ہیں:
" احمد معراج کی شاعری کی موجودہ پرواز سے ان کی دلی کیفیات کی سمتیں اور تہیں واضح ہوتی ہیں ۔ حیات و موت کے فلسفہ میں ان کی دلچسپی نے ان کی غزلوں کی زبان کو ایک خاص صفائی اور پاکیزگی عطا کر دی ہے"۔
ڈاکٹر احمد معراج کی شاعری اور شخصیت پر گفتگو کرتے ہوئے ہمارے معروف و مقبول ادبا و شعرا نے کیا کچھ تحریر کیا ہے ، مناسب لگتا ہے کہ ان کے کچھ  اقتباسات بھی آپ قارئین کی بصارتوں کے حوالے کرتا چلوں۔ معروف ادیب و شاعر  ڈاکٹر نسیم احمد نسیم ، احمد معراج کی شعری کائنات ، زبان اور طرز بیان پر اپنی رائے دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
"احمد معراج کی زبان شستہ شگفتہ اور سلیس ہے۔ اس لیے ان کے یہاں خیال الجھے ہوئے اور گنجلک نہیں ہیں۔
 وہ بہت روانی اور برجستگی کے ساتھ جو کچھ کہنا چاہتے ہیں کہہ جاتے ہیں ۔ میری دانست میں یہ کسی بھی شاعر کی سب سے بڑی خصوصیت تصور کی جانی چاہیے"۔
ان کے بعد اردو دنیا کے نہایت معتبر اور ممتاز ناقد و صحافی حقانی القاسمی( نئی دہلی) کا عمدہ مضمون "سخنِ آسماں کا نیا ستارہ "پڑھنے کو میسر ہے ۔ موصوف، ڈاکٹر احمد معراج کے بارے میں بہت واضح اور کھلے دل سے ان کی شعری صلاحیت و استعداد پر اپنی رائے اور پسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
" احمد معراج کی شاعری حادثات حیات ، زندگی کے تضادات وہ تموجات  ، انتشار و آویزش کی تعبیر بھی ہے اور عصری کرب و کشمکش کا بیانیہ بھی ۔ ان کی شاعری کا روح اور روحانیت عشق اور رومانیت سے بھی گہرا رشتہ ہے ۔ اس میں تزکیہ نفس ، تطہیر باطن کے ساتھ ساتھ ، جمالیاتی اور جذباتی تسکین کا عنصر بھی ہے"۔
احمد معراج کی شخصیت اور فن سے متعلق معروف شاعر و ادیب  ایم ۔نصراللہ نصر ( ہورہ مغربی بنگال) فرماتے ہیں:
        "ڈاکٹر احمد معراج نہایت ہی مخلص اور سلیقہ مند انسان ہیں ۔ درد مند دل رکھتے ہیں ۔ طبیعت میں شگفتگی اور شادابی ہمیشہ قائم رہتی ہے ۔ آج وہ اس مقام پر پہنچ چکے ہیں جہاں سے ان کا شعری و ادبی قد کہسار کے درمیان سے نکلتے ہوئے سورج کی مانند صاف دکھائی پڑتا ہے"۔
آخر میں مشہور و معروف ادیب و شاعر  ڈاکٹر خان محمد رضوان(دہلی ) کچھ اس انداز میں  خامہ فرسائی کرتے ہیں:
" ڈاکٹر احمد معراج کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے اپنے آپ پر کسی بھی تحریک یا رویے کی فکری میلان کو حاوی نہیں ہونے دیا بلکہ ان افکار و خیالات پر خود کو حاوی رکھا ۔ یہی سبب ہے کہ وہ اپنی مثبت فکر اور متنوع خیالات سے پرورش لوح و قلم کر رہے ہیں "۔
اس مجموعہ کلام میں صفحہ 42 سے 165 تک صرف غزلیں ہی غزلیں ہیں جنکی تعداد 80 ہے ۔ اس کے ساتھ 48 متفرق اشعار بھی اس مجموعہ کلام کی زینت بنے  ہیں ۔ یہاں ایک بات واضح کرتا چلوں کہ احمد معراج نے صرف غزلیں ہی نہیں کہی ہیں بلکہ شاعری کے دوسرے اصناف پر بھی ان کو دسترس حاصل ہے۔ وہ خوب صورت نثر بھی لکھتے ہیں ۔ ان کے تحریر کردہ 
مضامین و مقالے رسائل و جرائد کے ساتھ اخبارات 
میں شائع ہوتے رہتے ہیں ۔ 
انکی دو کتابیں  "آنکھوں دیکھی:تجزیہ " اور "گلستانِ
وارث(تحقیق و تدوین )"  منظر عام پر آچکی ہیں ۔
جب ہم احمد معراج کی شاعری پر غور کرتے ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنی کم عمری ہی سے
 اطراف و اکناف کا مشاہدہ بہت گہری نگاہ سے کیا 
ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا عکس ان کے اشعار میں جا بجا نظر اتا ہے ۔ شاعر نے زندگی کو بہت قریب سے دیکھا ہے حالات اور روز بروز ہونے والے واقعات اس کے ذہن کو نہ صرف متاثر کرتے ہیں بلکہ جھنجھوڑتے بھی ہیں ۔  شاعر کا مشاہدہ جس قدر گہرا ہوگا اس کی شاعری میں اس کی تصویر کشی بھی اتنی ہی پُر کشش ہوگی ۔ زمانے کے نشب و فراز اور حالات نے ان کو ایک درد مند انسان بنا دیا ہے۔ لہذا ان کی شاعری میں انسان کی زبوں حالی ، مجبوری اور لاچاری 
کا عکس اور عصری حیثیت بھی نظر اتی ہے ۔ ان کے کچھ اشعار دیکھیں:
بے گھری اوڑھے ہوئے رہتے ہیں فٹ پاتھ پہ جو
 ان   کے  رہنے  کے  لیے کاش   کوئی  گھر   ہوتا

یوں   مفادات   کے   زینے   پہ  اگر  چڑھتا  رہا
 سب کی نظروں ہی سے ایک روز اتر جاؤں گا 

جب بھی روتا ہوں اکیلے میں سکون پاتا ہوں 
میرا   غم    بانٹنے   والی   مری   تنہائی  ہے
 
مت سمجھیے کہ وہ پرانی ہے
 عہد  رفتہ کی جو  نشانی ہے 

موت مارے گی کیا اسے مؔعراج 
زندگی   نے  جس کو  مارا  ہے 

نئی  تہذیب  کی  دیکھی  یہ  نئی   عریانی 
خوش لباسی میں بدن حسن کا عریاں نکلا 

ائینہ  دیکھنے  کی  عادت   نے
 مجھ کو سچ بولنا سکھایا ہے

یہ سچ ہے کہ بعض شعراء کی طرح احمد معراج نے بھی کچھ الفاظ کو اپنی شاعری میں خصوصیت کے  ساتھ برتا ہے۔ حقانی القاسمی کی باریک بیں نگاہ 
اس طرح کے الفاظ پر پڑی تو وہ کہہ اٹھے :
" احمد معراج کی کچھ پسندیدہ لفظیات بھی ہیں۔ جن سے ان کے ذہنی اور جذباتی سمتوں کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے ۔ خواب ، یاد  ، تنہائی ، اشک  ، غم ، زندگی اور چراغ ان کے مخصوص الفاظ ہیں"۔
مجموعہ کلام کا مطالعہ کرتے ہوئے جب میں( راقم الحروف) نے غور کیا تو ان الفاظ جن کی نشاندہی حقانی صاحب نے کی ہے ۔ ان کے ساتھ "عشق" اور" گھر" دو  مزید  ایسے  الفاظ ملتے ہیں جو تواتر سے ان کے کلام میں بکھرے نظر اتے ہیں ۔ چنانچہ لفظ" عشق" کوئی 17 مرتبہ ان کے اشعار میں ملتے ہیں جبکہ لفظ "گھر" سب سے زیادہ یعنی 26 بار ائے ہیں  ۔
عشق و محبت کی لو ، اللہ نے انسان کے دل اور اس کی فطرت میں اسے خلق کرتے ہوئے روشن کر دی تھی۔ جب تک انسان کے اندر دل دھڑکتا رہے گا عشق کی لو روشن رہے گی ۔ انسان کے دل میں عشق و محبت کی یہ "لو " اگر روشن  نہیں رہے گی تو پھر انسان ایک روبوٹ بن کر رہ جائے گا ۔  عشق کے حوالے سے چند اشعار بطور خاص آپ قارعین کی بصارتوں کی نذر کرتا چلوں ۔ پڑھیے اور لطف اٹھائیے ۔

وہاں عشق  نے ہم کو  پہنچا دیا
 جہاں تک ہماری رسائی نہیں ہے

 عشق   کو   چاہیے  نظر   ایسی 
حسن چلمن سے بھی دکھائی دے

 حسن کی کائنات عشق میں ضم
 ایسی  پیش   نظر   مثال   کہاں

 چہرہءِ  عشق  کو  بارہا
 انسوؤں سے نکھارا گیا

 ہے   معؔراج  اگر   عشق  سچا  تمہارا
 تو خاموش کیوں ہو زمانے کے ڈر سے

 عشق کو عشق کی معراج نہ حاصل ہوتی
 مرحلے  عشق  کے مؔعراج  جو  آساں ہوتے

اب آئیے لفظ" گھر" کی طرف ۔ گھر ہر انسان کی بنیادی ضرورت ہوتی ہے ۔ یہ گھر ہی ہے جہاں دنیا کے سارے مصائب، الجھنوں اور پریشانیوں سے نبرد آزما ہونے کے بعد تھکا ہارا انسان جب گھر لوٹتا ہے تو اس کو آرام و سکون میسر ہوتا ہے۔ مگر وہ لوگ جو اپنی اس بنیادی ضرورت سے بھی محروم ہیں  یا وہ گھر جہاں رہ کر بھی سکون نام کی چیز انہیں نہیں ملتی ۔ پھر ایسے حالات و واقعات سے جب ایک شاعر روبرو ہوتا ہے تو پھر گھر اس شاعر کے یہاں کس طرح ایک اہم موضوع بن کر اس کی شاعری میں ابھر اتا ہے ۔ اس کی جھلک احمد معراج کے مجموعہ کلام "صحرائے جنوں" میں نظر آتی ہے ۔چند اشعار ملاحظہ فرمائیں اور شاعر کی ذہنی پرواز کا اندازہ کریں ۔۔۔۔۔۔۔

ہوتا مٹی کا مکاں پھوس کا چھپر ہوتا 
سر جھپانے کے لیے اپنا کوئی گھر ہوتا 

جس  میں  رہتا ہوں  میں وہ  گھر  تو میرا ہے
 لیکن کاش رہنے کے لئےگھر کی طرح گھر ہوتا 

بے گھری اوڑھے ہوئے رہتے ہیں فٹ پاتھ پہ جو
 ان   کے  رہنے  کے  لیے کاش   کوئی  گھر   ہوتا

 اگر ہو دیوار  و  در سلامت تو گھر سلامت
 ہو گھر کی بنیاد گر سلامت تو گھر سلامت

ہے گھر کی رونق تو بال بچوں کے شور و غل سے
 ہوں  جن  کے  نور  نظر  سلامت  تو گھر سلامت 

یوں ہمیں جہد مسلسل نے سفر میں رکھا 
مدتوں  بعد  کبھی  لوٹ  کے  ہم  گھر ائے

 شب  نوردی میں مجھے ہوش کہاں رہتا ہے
 لوٹ کر گھر کی طرف وقت سحر جاؤں گا

 بوڑھی انکھوں میں نور بھر آیا 
بعد  مدت کے  میں  جو  گھر آیا

احمد معراج نے زندگی کو اپنی نگاہوں سے کس زاویہ سے کیسے دیکھا  اور اپنے احساسات کو اشعار میں کس طرح پیرویا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں ۔

بے    وقار     زندگی   با   وقار   زندگی
 دونوں صورتوں میں ہے برقرار زندگی

زندگی کو زندگی  دے گئی فریب جب
 کس پہ اب کرے  بھلا  اعتبار  زندگی

 تیرہ شبی میں ان کو ہوئی زندگی عطا
 سورج کے ڈوبتے ہی ستارے چمک اٹھے
 
میرے  اندر  شعور  جاگ اٹھا
زندگی میں فریب کھانے سے

 میرا   سرمایہءِ   زندگی
 دولت فکر و فن اور میں

 زندگی  مل  گئی  چراغوں کو
 ایک سورج کے ڈوب جانے سے

 اس دعا کے ساتھ مجھے اجازت دیں کہ رب کریم
 احمد معراج کی زندگی کو خوشیوں سے بھر دے اور وہ گلستانِ شعر و ادب کو اپنی تخلیقات  سے سجاتے سنوارتے رہیں ۔۔۔۔۔۔۔ آمین ۔

جمعہ, جنوری 26, 2024

جمہوری اقدارکی حفاظت __

جمہوری اقدارکی حفاظت __
Urduduniyanews72 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی 
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ
==============================
ہر سال کی طرح امسال بھی جشن منایا جائے گا ، ہندوستان کی تہذیبی وثقافتی جھانکیاں پیش کی جائیں گی ، دفاعی میدان اور اسلحوں کی دوڑ میں ہماری جو حصولیابیاں ہیں، اس کا مظاہرہ کیا جائے گا، شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کیا جائے گا ، پورا ملک جشن میں ڈوب جائے گا ، ترنگے جھنڈوں کے ساتھ مدرسوں ، اسکولوں اور اداروں میں رنگا رنگ تقریب ہوگی ، طلبہ وطالبات کو انعامات سے نوازا جائے گا ، سیاسی حضرات کی جانب سے ہندوستان کے مجاہدین آزادی کا گن گان کیا جائے گا ، اور لمبے چوڑے بیانات اور وعدوں کے ذریعہ سیدھے سادے عوام کو لبھانے کی کوشش کی جائے گی او رایسا پہلی بار نہیں ہوگا ، ہر سال ایسا ہی ہوتا ہے 26 جنوری گذرا اور ہم سب یہ بھول جاتے ہیں کہ جمہوریت کے لفظی نعروں کی کوئی حقیقت نہیں ہے ، اصل ہے جمہوری اقدار کا تحفظ؛ جس سے ملک دور سے دور ہوتا جا رہا ہے، ہم نے جمہوریت کا مطلب صرف عوام کی حکومت ، عوام کے لیے عوام کے ذریعہ سمجھ لیا ہے اور ہر پانچ سال پر انتخابات میں سارے حربے استعمال کرکے حکومت پر جو قبضہ کیا جاتا ہے ، اسے ہم جمہوری طریقہ کار سے تعبیر کرتے ہیں اور خوب خوش ہوتے ہیں کہ ہمارا ملک جمہوری اعتبار سے مضبوط ہے، یہاں عوامی حکومت ہے اور اس قدر مضبوط ہے کہ پڑوسی ملکوں کی طرح یہاں مار شل لا لگانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی اور ملک تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔
یقینا ترقی کر رہا ہے ، آزادی سے قبل جن گھروں میں سائیکل دستیاب نہیں تھی، آج موٹر سائیکل اس گھر میں موجود ہے اور بعض گھروں میں تو ہر آدمی کے لیے موٹر سائیکل دستیاب ہے، چار چکے کی بھی کمی نہیں ہے، کھانے کے لیے آزادی سے قبل عموما عام لوگوں کے لیے باجرہ ، جوار اور جوہی مہیا تھا ، گیہوں کی روٹی شاید باید گھروں میں ہر روز مہیا ہو پاتی تھی، دھوتی اور کپڑے بھی پورے طور پر فراہم نہیں تھے، زمینداروں کے ظلم وستم نے عام لوگوں کا جینا دو بھر کر دیا تھا ، بعض حرکات تو انسانیت کو ذلیل کرنے والی ہوتی تھیں، جو تے پہن کر ان کے دروازے سے گذرا نہیں جا سکتا تھا ، سواری پر بیٹھ کر کوئی گذر جائے تو قیامت آجاتی تھی ، لوگ بندھوا مزدوروں کی طرح ان کے یہاں کام کرتے اور کرتے کرتے مر جاتے تھے، یہ معاملہ نسل در نسل چلتا تھا ، ایسے لوگوں کی اپنی مرضی نہیں ہوا کرتی تھی ، سارا کچھ مالک کی مرضی کے تابع ہوتا تھا ، تھوڑی سی غلطی اور چوک پر چمڑی ادھیڑ دی جاتی تھی ، اور عفو ودر گذر ، رحم وکرم کا خانہ خالی رہتا تھا ، انسانیت سسک رہی تھی ، کسان خود کشی کر لیا کرتے تھے، پوس کی رات او رجاڑے کی یخ بستہ سردی میں کھیتوں کی رکھوالی کرتے کرتے عمر گذر جاتی تھی۔
ملک آزاد ہوا ، زمینداری ختم ہوئی، جمہوری دستور نافذ ہوا تو ملک کے عوام نے اطمینان کا سانس لیا او ربہت کچھ منظر بدلا ، انسانی قدروں کی پامالی پر روک لگی ، بندھوا مزدوری کا رواج ختم تو نہیں ہو سکا ، کم ضرور ہوا، کھیت کسانوں کا ہو گیا، ان کی بھی خود کشی کے واقعات سامنے آنے کے با وجود حالات پہلے سے اچھے ضرور ہیں۔
 اس جمہوری نظام کی وجہ سے حکومتیں بدلتی رہی ہیں، الگ الگ منشور اور مینو فیسٹو پر کام شروع ہوا ، جو حکومت آئی اس نے اپنے نظریات ملک پر تھوپنے کی کوشش کی ، اس کے نتیجے میں بھی بہت کچھ بدلا اور بدلتا چلا گیا ، کسی نے گھوم کر دیکھنے کی کوشش نہیں کی کہ سلطانی ٔجمہور میں، جمہوری اقدار کا جنازہ کس طرح نکلا اور نکلتا چلا گیا ، سیاسی پارٹیوں کو حکومت عزیز تھی ، جہاں سے ملے اور جس طرح ملے اور جتنے اقدار کو دفن کرکے ملے۔ سوا نہیں جمہوری اقدار کے تحفظ کی فکر کبھی نہیں ہوئی۔
 اس صورت حال نے جمہوری اقدار کو پامال کیا ، جمہوریت میں صرف حکومت کاہی عوامی ہونا ضروری نہیں ہے ، عوام کی خواہشات ، امنگیں ، ان کے حقوق کا تحفظ ، مذہب پر چلنے کی آزادی سب کا خیال رکھنا ضروری ہے، بد قسمتی سے بی جے پی کی مرکزی حکومت نے ہر سطح پر ان اقدار کو تہس نہس کر کے رکھ دیا ہے، مہنگائی بڑھتی جا رہی ہے ، گو رکچھا، لو جہاد، مندر تعمیر اور اب اس کے افتاح کے نام پر رواداری کا ماحول گذشتہ سالوں میں تیزی سے ختم ہوا ہے، نوٹ بندی اور جی ایس ٹی نے عوامی زندگی کو اس قدر متاثر کیا ہے کہ چھوٹے کاروباری تجارت کے اعتبار سے ختم ہو چکے ہیں،طویل عرصہ گذر جانے کے بعد بھی اب تک وہ اپنے کاروبا ر کو پھر سے کھڑانہیں کر پائے ہیں۔ گاندھی جی اس ملک میں عدم تشدد اور اہنسا کی علامت کے طور پر مختلف جگہوں پر تصویری شکل میں موجود تھے، انہیں بھی دیش نکالا دینے کی تیاری زوروں پر چل رہی ہے ، کئی جگہ سے انہیں ہٹایا جا چکا ہے اور روپے پر بھی کتنے دن نظر آئیں گے، کہنا مشکل ہے، نسلی اور مذہبی بنیادوں پر ملکی باشندوں کو عصبیت کا سامنا ہے اور جان بوجھ کر دلتوں ، مسلمانوں اور لسانی اقلیتوں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے ، بحالیوں میں اور اعلیٰ عہدوں پر تقرریوں میں بھی سرکار سینئرٹی کو نظر انداز کرکے پرانے لوگوں کی حوصلہ شکنی کر رہی ہے ، 
 یہ مکمل حالات نہیں ، حالات کا ہلکا سا اشاریہ ہے ، اس کو پھیلا یا جائے تو بات دیر تک چلے گی اور دور تک جائے گی، کہنا صرف یہ ہے کہ ملک میں جس طرح جمہور ی اقدار پامال ہو رہے ہیں اور کسی کو اس کی فکر نہیں ہے، ایسے میں جشن جمہوریت محض ایک رسم ہے ؛ چونکہ یہ رسم ملکی دستور سے محبت کی علامت سمجھا جاتا رہا ہے، اس لیے ہر سطح پر اس جشن کا اہتمام کرنا چاہیے اور پورے جوش وخروش کے ساتھ کرنا چاہیے ، لیکن یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ جمہوری اقدار کے تحفظ کی ضرورت پہلے سے آج کہیں زیادہ ہے، ملک کے سیاسی رہنماؤں کو اس کے لیے اقدام کرنا چاہیے ، یہ ملک سے محبت اور وفاداری کا تقاضہ بھی ہے اور جمہوری دستور کے تحفظ ؛بلکہ مجاہدین آزادی کو خراج عقیدت پیش کرنے کا بہترین طریقہ بھی۔
 چلے چلو کہ ابھی وہ منزل نہیں آئی

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...