Powered By Blogger

ہفتہ, فروری 17, 2024

دربھنگا میں ایک شام مشتاق ہاشمی کے نام

دربھنگا میں ایک شام مشتاق ہاشمی کے نام
   (پریس ریلیز)17 فروری 
اردودنیانیوز۷۲ 
ایک شام معروف شاعر مشتاق ہاشمی (کولکتہ) کے نام
جمیلہ بیسک ایجوکیشن سینٹر دربھنگہ کے احاطہ میں
 شہر نشاط (کولکتہ  مغربی بنگال) سے تشریف لانے والے مہمان شاعر جناب مشتاق ہاشمی کے اعزاز میں استقبالیہ مجلس و شعری نشست کا انعقاد عمل میں آیا، جس کی صدارت پروفیسر ذوالفقار انور نے فرمائی، پروگرام کا باضابطہ آغاز حافظ محمد عابد حسین (استاد جمیلہ بیسک ایجوکیشن سینٹر )کی تلاوت کلام پاک سے ہوا، نظامت کے فرائض ڈاکٹر عبدالودود قاسمی صدر شعبہ اردو (سی، ایم، بی، کالج، ڈیوڑھ، گھوگھر ڈیہا، مدہو بنی) نے فرمائی تمہیدی باتوں میں ڈاکٹر قاسمی نے شہر نشاط (کولکتہ مغربی بنگال)کے مہمان شاعر مشتاق ہاشمی کی شخصیت اور شاعرانہ جہت پر ان کے شعری مجموعہ  "تیشئہ فکر" کے تناظر میں تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے ان کی شعری و فکری انفرادیت کو بڑے خوبصورت پیرائے میں بیان کرتے ہوئے دربھنگہ کی سرزمین پرموصوف کا والہانہ استقبال کیا، تمہیدی گفتگو کے بعد باضابطہ مہمان مکرم کا والہانہ استقبال متھلا کی تہذیب کے مطابق پاگ،ٹوپی،شال،گلدستہ،مومنٹو اور منظوم تہنیتی قطعات کا فریم پیش کر کے کیا گیا،استقبالیہ مجلس میں تشریف  لانے والے مہمان شاعر کی عزت و تکریم اور ان کی شاعرانہ عظمت کے اعتراف کے لئے شہرووقرب جوار کے درجنوں اہل علم‌ودانش سمیت متعدد شعراۓ کرام تشریف لاکر مجلس کو پر وقار بنا دۓ،استقبال کے بعد شعری نشست کا انعقاد عمل میں آیا، دوچند شعراء کے بعد  جناب مشتاق ہاشمی نے اپنی متعدد غزلیں  پیش کرکے صاحبان علم وادب سے خوب داد تحسین اور پذیرائی حاصل کی، اس موقع پر آٹھ شعراء کی تحریر کردہ منظوم تہنیتی قطعات کا حسین گلدستہ فریم کراکےسپاس نامہ کے طورپیش کیا گیا ،منظوم تہنیتی قطعات پیش کرنے والے شاعروں میں احسان مکرم پوری ،مشتاق دربھنگوی ،امان ذخیروی،ڈاکٹر منور راہی،صبا دربھنگوی ،طالب صدیقی،م،سرور پنڈولوی ،ڈاکٹر مقصود عالم رفعت ،ڈاکٹر عبد الودود قاسمی کے نام قابل ذکر ہیں،مذکورہ شعرا کے علاوہ دیگر موجود شعرا بھی اپنے کلام پیش کئے جسے لوگوں نے خوب داد تحسین سے نوازا،
شریک شعرا میں ایڈووکیٹ عرفان احمد پیدل،مشتاق اقبال،نداعارفی،جواں سال ہونہار شاعر وریسرچ اسکالر حسان جاذب،خون چندن پٹوی،شہباز انور غزالی،کے نام اہم ہیں،سامعین میں حافظ محمد ثاقب ضیاء ،ڈاکٹر محمد سرفراز عالم ،جناب نصرت عالم ،ایڈووکیٹ خورشید عالم،جنید عالم،مولانا نظر الاسلام قاسمی،مولانا امام الدین ندوی،وغیرہ شریک تھے

تحریک تنظیم ائمہ مساجدبہار کےذمہ داران کا جدید انتخاب عمل میں آیا۔

تحریک تنظیم ائمہ مساجدبہار کےذمہ داران کا جدید انتخاب عمل میں آیا۔
اردودنیانیوز۷۲ 
پٹنہ 17فروری(پریس ریلیز) کنوینر تنظیم تحریک ائمہ مساجد بہار جناب مولانا حسین احمد قاسمی امام شکور کالونی مسجد سمن پورہ پٹنہ کی اطلاع کے مطابق گزشتہ روز جامع مسجد فقیر باڑہ دریا پور پٹنہ میں تنظیم کی ایک اہم عمومی اجلاس بمقام جامع مسجد فقیر باڑہ پٹنہ، زیر صدارت جناب مولانا عتیق الله قاسمی سرپرست تنظیم و امام جامع مسجد فقیر باڑہ منعقد ہوئی، جس میں کثیر تعداد میں ائمہ کرام شریک ہوۓ۔  حالیہ دنوں انتقال فرمانے والے اہم شخصیات کے زریں کارناموں کو بیان کرتے ہوئے ان کےلیے دعاۓ مغفرت کی گئی۔
بعد ازاں اگلے سہ سالہ میقات کے لیے انتخاب جدید عمل میں آیا۔ 
اجلاس کا آغاز مولانا غفران قاسمی امام نیا ٹولہ پھلواری شریف کی تلاوت قرآن پاک سے ہوا، بعدہ بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں ہدیۂ نعت شریف مولانا عادل حسین قاسمی نے پیش کیا پھر کنوینر تنظیم مولانا محمد عالم قاسمی نے تنظیم کے اغراض مقاصد اورسہ سالہ تنطیم کارکردگی کی رپورٹ پیش کی حسبِ ضابطہ سہ سالہ میقات 2024تا2027تین سال کے لیے نیا انتخاب کیا گیا اور متفقہ رائے کے مطابق سرپرست تنظیم مولانا عتیق اللہ قاسمی امام فقیر باڑہ مسجد، صدر تنظیم مولانا غلام اکبر قاسمی امام مراد پور مسجد اور سکریٹری تنظیم مولانا محمد عالم قاسمی ،امام جامع مسجد دریا پور سبزی باغ، جبکہ خازن تنظیم مولانا عادل حسین قاسمی امام بھسولہ دانا پور، کو اتفاق رائے سے منتخب کیا گیا ہے۔ 
اسی طرح نائب صدر تنظیم مولانا معین الدین قاسمی امام جامع مسجد کربیگہیہ، پٹنہ، نائب سکریٹری مولانا اقبال سعادتی، کربلا پھلواری شریف، نائب کنوینر تنظیم مولانا ابرار کریم قاسمی امام بکسر یہ ٹولہ مسجد سلطان گنج، اور نائب خازن مولانا غفران قاسمی امام نیا ٹولہ مسجد پھلواری شریف کو منتخب کیا گیا ہے۔ 
اسی طرح حلقہ وار ذمہ دار میں پٹنہ سیٹی حلقہ کا ذمہ دار مولانا ذوالفقار ندوی امام فصاحت کا میدان مسجد، کو ، پٹنہ سنٹرل حلقہ کا ذمہ دار مولانا اسعد قاسمی امام جنکشن مسجد، کو، پھلواری شریف حلقہ کا ذمہ دار مولانا انیس الرحمن قاسمی امام عالمگیر مسجد پھلواری کو، اور دانا پور حلقہ کا ذمہ دار مولانا نقیب عالم قاسمی امام شگونہ دانا پور کو متعین کیا گیا ہے۔ 
شکیلیت، قادیانیت جیسے فرقہ باطلہ پرمکمل نگرانی رکھنے اور اس کی سرکوبی کی ذمہ داری مولانا اسعد قاسمی، مولانا حسین قاسمی، مولانا ابرار کریم قاسمی اور مولانا عادل حسین قاسمی کو سونپی گئی ہے۔ تنظیم کی اگلی مٹنگ مورخہ 5مئ، مطابق 25شوال المکرم بروز اتوار بوقت 8بجے صبح، بمقام جامع مسجد مراد پور پٹنہ میں منعقد ہوگی۔ 
اس مٹنگ میں شرکت کرنے والے ائمہ مساجد کے اسماۓ گرامی ہیں:
جناب مولانا عتیق الله قاسمی سرپرست تنظیم وامام فقیر باڑہ مسجد، مولانا غلام اکبر قاسمی صدر تنظیم و امام مراد پور مسجد پٹنہ۔
مولانا محمد عالم قاسمی سکریٹری تنظیم و امام مسجد دریا پور سبزی باغ ۔
 مولانا حسین قاسمی کنوینر تنظیم وامام شکور کالونی مسجد،۔
 مولانا عادل حسین قاسمی خازن تنظیم وامام بھسولہ دانا پور مسجد۔
 مولانا معین الدین قاسمی نائب صدر تنظیم وامام بڑی مسجد
 کربیگہیہ۔
 مولانا اقبال سعادتی نائب سکریٹری تنظیم و سابق امام کربلا مسجد پھلواری شریف۔
مولانا ابرار کریم قاسمی نائب کنوینر تنظیم وامام بکسریہ ٹولہ مسجد سلطان گنج ۔
مولانا غفران قاسمی نائب خازن تنظیم وامام نیا ٹولہ مسجد پھلواری شریف۔
فرقۂ ضالہ وباطلہ فتنۂ شکیلیت  مسلم نوجوانوں گمراہ ہوکر مرتد ہورہےہیں  اس فتنۂ شکیلیت وقادیانیت کےسدباب کےلیے چار آدمی پر مشتمل ایک کمیٹی بھی تشکیل پائی جس کے مشورے پر تنطیم کام کرے گی۔
جن ائمہ کرام کی شرکت ہوئی ان میں 
 مولانا فاروق قاسمی امام پاٹلی پترا کالونی مسجد، مولانا اعجاز کریم قاسمی امام بلال مسجد سمن پورہ، مولانا آفتاب عالم قاسمی امام بلورگنج مسجد پچھم دروازہ، مولانا عتیق الله قاسمی امام گولک پور مسجد، مولانا ذوالفقار ندوی امام فصاحت کا میدان مسجد، مولانا انوار الحق قاسمی امام مکھنیاکنواں مسجد، مولانا انیس الرحمن قاسمی امام عالگیر مسجد پھلواری شریف، مولانا اسعد قاسمی۔ امام جنکشن مسجد، مولانا نقیب عالم قاسمی امام شگونہ دانا پور، مولانا مسعود عالم قاسمی امام ہارون نگر سیکٹر 2مسجد، مولانا عبدالرشید سجادی امام خواجہ پورہ مسجد، مولانا شاہد مظاہری امام حرا مسجد نیو عظیم آباد کالونی، مولانا عالمگیر مظاہری امام درگاہ گھیرا مسجد، مولانا نسیم الدین نوری امام نوری مسجد، مولانا قاصد بیگ قاسمی امام ابو بکر مسجد سلطان گنج، مولانا ذکاء الله ندوی امام ترپولیہ مسجد، اور مولانا عبدالستار قاسمی امام تبارک علی مسجد وغیرہ اسمائےگرامی قابل ذکر ہیں۔
مولانا عالمگیر مظاہری کی دعاء کےساتھ اجلاس اختتام پذیر ہوا۔

غیر افسانوی ادب کا رشتہ زندگی سے گہرا ہوتا ہے:




 غیر افسانوی ادب کا رشتہ زندگی سے گہرا ہوتا ہے: پروفیسر سجاد حسین
اردودنیانیوز۷۲ 
سری شنکر اچاریہ یونیورسٹی برائے سنسکر ت میں تین روزہ اردو قومی سمینار اختتام پذیر
کالی کٹ ()
سری شنکر اچاریہ یونیورسٹی برائے سنسکر ت کے شعبہ اردو (ریجنل کیمپس کوئی لانڈی کیرل)میں تین روزہ قومی سمینار اختتام پذیر ہوا جس میں ملک بھر کے دانش وروں اور مقالہ نگاروں نے شرکت کی اور اکیسویں صدی میں غیر افسانوی ادب کے سمت ورفتار پر اظہار خیال کیا۔ کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے معروف ادیب ودانش ور پروفیسر سید سجاد حسین نے کہا کہ غیر افسانوی ادب کا رشتہ زندگی سے گہرا ہوتا ہے۔ کیوں کہ اس میں زندگی کے حقائق پیش کیے جاتے ہیں۔ حقائق کا تجزیہ کیا جاتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اکیسویں صدی میں جہاں افسانوی ادب پر ادبا وشعرا طبع آزمائی کررہے ہیں، وہیں وہ غیر افسانوی ادب پر بھی توجہ مبذول کررہے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ اکیسویں صدی کا غیر افسانوی ادب قابل ذکر ہے۔ انھوں نے اپنے کلیدی خطبے میں افسانوی اور غیر افسانوی ادب کا فرق واضح کیا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ انھوں نے سامعین کے مدنظر کلیدی خطبے کو اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں مشترکہ طور پر پیش کیا۔ اس محفل میں اردو والوں کے علاوہ بطور سامعین مختلف زبانوں کے شرکاء موجود تھے۔ شنکر اچاریہ یونیورسٹی کے رجسٹر ڈاکٹر انی کرشنن نے افتتاحی خطبہ پیش کیا۔یونیورسٹی کی سرگرمیوں، زبان وبیان اور ادب وثقافت کے معاملات پر گہری بحث کی۔ پروفیسر سید سجاد حسین اور ڈاکٹر انی کرشنن نے شعبہ اردو کی فعالیت کا تذکرہ کیا۔صدر شعبہ اردو ڈاکٹر قمر النسا نے شعبہ اردو کی ذمے داریوں، پروگرام کی سرگرمیوں اوردیگر ادبی اور انتظامی امور پر گفتگو کی۔ پروفیسر صفیہ بی اور پروفیسر نکولن کے وی (سابق صدور شعبہ اردو ایس ایس یو) نے غیر افسانوی ادب کے دیگر پہلوؤں پر بات کی اور اردو زبان کی اہمیت پر اردو ملیالم زبان میں تقریر کی۔ تین روزہ اس سمینار میں تقریبا دودرجن مقالات پیش کیے گئے۔ شام غزل کی محفل آراستہ کی گئی۔ اہم مقالہ نگاروں میں پروفیسر ثناء اللہ، پروفیسر امین اللہ، محمد ابراہیم، ڈاکٹر رجینا، ساجد حسین،سلمان عبدالصمد، رسینہ، محمد پرویز عالم، عارف این، عبدالعزیز، نجمہ سی کے، فائر، ساجدہ، ربیعت، محمد جاسل وغیرہ کے نام سر فہرست ہیں۔ پروگرام کی شاند ار نظامت ڈاکٹر محمد قاسم استاذ شعبہ اردو، ایس ایس یو نے بہترین طریقے سے کی۔ واضح رہے کہ یہ پروگرام شعبہ اردو کی طرف سے منعقد ہوا تھا مگر سنسکرت، ہندی اور دیگر شعبوں کے اساتذہ واراکین نے سمینار کو کامیاب بنانے میں صدر شعبہ ڈاکٹر قمر النساکا بھر پور تعاون کیا۔



اتراکھنڈ میں یو سی سی

اتراکھنڈ میں یو سی سی
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ 
============================
 7 فروری کو اتراکھنڈ اسمبلی میں بھاجپا نے یونی فارم سول کوڈ کو صوتی ووٹ سے پاس کرالیا، اس طرح آزادی کے بعد یو سی سی پر قانون بنانے والی وہ ہندوستان کی پہلی ریاست بن گئی ہے، گو اسے صرف اسمبلی سے پاس کروا نا کافی نہیں ہے کیوں کہ اس قسم کی قانون سازی کا حق مرکز کو ہے  ریاستیں ان کے تابع ہیں، اس لیے اتراکھنڈ کے وزیر اعلیٰ دھامی نے اسے صدر جمہوریہ کو بھیجنے اور ان کی منظوری کے بعد اسے نافذ کرنے کی بات کہی ہے، چونکہ اتراکھنڈ اور مرکز میں ایک ہی پارٹی کی حکومت ہے اس لیے توقع یہی ہے کہ اسے وہاں سے بھی ہری جھنڈی مل جائے گی۔
 جیسا کہ میں پہلے بھی لکھتا رہا ہوں کہ اس قانون کی زد میں صرف اور صرف مسلمان ہیں، کیوں کہ دوسرے مذاہب کے پاس احکام الٰہی نہیں ہے، اس لیے وہ رسم ورواج، کسٹم، قبائلی روایات اور دیومالائی قصے کہانیوں کو دین کے طور پر تسلیم کرتے ہیں اور انہیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا، کیوں کہ ان کی بنیادیں اللہ کے دین میں پیوست  نہیں ہیں، اس قانون کی رو سے مرد وعورت دوسری شادی نہیں کر سکیں گے، شادی کا رجسٹریشن ضروری ہوگا، طلاق صرف عدالت کے ذریعہ ہی ممکن ہوگا، وہ بھی جب شادی کو ایک سال ہو چکے ہوں گے، لڑکے لڑکی کو ترکہ میں برابر حصہ ملے گا، منہہ بولے بیٹے بیٹی بھی ترکہ میں حقیقی اور نسبتی اولاد کی طرح حصہ پائیں گے، طلاق یا شوہر کے انتقال کے بعد عدت نہیں گذارنی ہوگی، رضامندی کے ساتھ لڑکے لڑکی ایک کمرے میں رہ سکیں گے، جسے اصطلاح میں ’’لیو ان ریلیشن شپ‘‘ کہا جاتا ہے، البتہ اس کا بھی رجسٹریشن ہوگا، بغیر رجسٹریشن کے رہنے پر چھ ماہ کی سزا ہوگی، ریلیشن شپ کے دوران جو بچے پیدا ہوں گے وہ بھی ترکہ کے مستحق ہوں گے، شادی سے متعلق تمام معاملات میں اگر خلاف ورزی کی جاتی ہے تو چھ ماہ کی سزا اور پچاس ہزار روپے تک جرمانہ ادا کرنا ہوگا، یہ اور اس قسم کے دوسرے دفعات شریعت اپلی کیشن ایکٹ 1937 کے خلاف ہیں، ان قوانین کو بناتے وقت دفعہ 25،/26 کے تحت دی گئی مذہبی آزادی کا بھی خیال نہیں رکھا گیا ہے، جب کہ اس  قانون سے درج فہرست قبائل کو آئین کی دفعہ 366 کے باب 25 کی ذیلی دفعہ 342 کے تحت مستثنیٰ رکھا گیا ہے یعنی یہ قوانین اس پر لاگو نہیں ہوں گے، اس کا سیدھا مطلب ہے کہ یہ ہندو کوڈ ہے یونی فارم سول کوڈ نہیں، کیوں کہ اسے سب پر لاگو کرنے کے بجائے ایک خاص طبقہ کو اس سے الگ رکھا گیا ہے، مسلم پرنسل لا بورڈ نے اس قانون کو غیر مناسب اور نا قابل عمل قرار دیا ہے، یہی موقف ساری تنظیموں کا ہونا چاہیے اورمختلف مذہبی اکائیوں کو ساتھ لے کر اس قانون کے بے اثر اور غیر نافذ ہونے کے طریقہ کار پر غور کرنا چاہیے خصوصا حال میں سکھوں کے ذریعہ تشکیل نئی تنظیم سکھ پرسنل لا بورڈ کو ضرور ساتھ لینا چاہیے، یہ پہلا پتھر ہے جسے بھاجپا نے مذہبی اکائی کی درجہ حرارت ناپنے کے لیے پھینکا ہے، مرکزی حکومت یہ دیکھنا چاہتی ہے کہ اس سے کتنا مد وجزر پیدا ہوتا ہے، اگر ہم نے اسے خاموشی سے برداشت کرلیا تو مرکزی حکومت کو اس سے حوصلہ ملے گا اور وہ پورے ملک میں اس کو نافذ کرنے کی کوشش کرے گی، جو یقینی طور پر کسی بھی حال میں ہمارے لیے قابل بر داشت نہیں ہوگا، ہم اس ملک کے اچھے شہری ہیں، امن وامان سے رہنا چاہتیہیں اور دوسروں سے بھی یہی توقع رکھتے ہیں، لیکن ہم اپنے اس عہد پر بھی قائم ہیں کہ ہم پہلے مسلمان ہیں بعد میں ہندوستانی، ہمارا ہندوستانی ہونا مذہب پر عمل کرنے سے نہیں روکتا، اس لیے ہم اس ملک میں فرائض واجبات، حلال تو بڑی چیز ہے، ہم یہاں اپنی چھوٹی چھوٹی سنتوں اورنوافل میں بھی رکاوٹ کو پسند نہیں کرتے، ہماری توانائی اس ملک کی ترقی، یک جہتی اور سالمیت کے لیے وقف ہے، لیکن ہمارا دل ودماغ اسلام کی تعلیمات سے کبھی بھی الگ نہیں ہو سکتا، کیوں کہ ہم اس ملک کے اچھے شہری ہونے کے ساتھ اچھے مسلمان بھی ہیں اورہم اپنے عقائد، قرآنی احکام اور نبوی ہدایات پر عمل کرنے سے روکنے کو ہندوستانی قانون اور دستور کے منافی سمجھتے ہیں۔

پیر, فروری 12, 2024

خواتین پر رحمۃ للعالمین کے احسانات

خواتین پر رحمۃ للعالمین کے احسانات 
Urduduniyanews72 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ
==============================
مولانا ابو سفیان بن سعید ندوی (ولادت 3 جولائی 1973) بن سعید احمد (م2017) بن قاضی ظفر بن قاضی اشمل ایک بڑی علمی شخصیت ہیں، انہوں نے ندوۃ العلماء سے 1994 میں فضیلت اور علی گڈھ مسلم یونیورسٹی علی گڈھ سے 1996 میں عربی میں ایم اے کیا ہے، تدریسی زندگی کا آغاز مظاہر علوم دار جدید سہارن پور سے 1997 میں کیا، 1998 کے آخر میں وہ جدہ سعودی عرب چلے گیے جہاں انہوں نے سعودی ریسرچ اینڈ پبلشنگ کمپنی میں مترجم کی حیثیت سے کام کیا، 2017 سے 2020 تک ان کی وابستگی مولانا مظہرالحق عربی فارسی یونیورسیٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت سے رہی، ان دنون گذشتہ تین ماہ سے وہ قاضی نور الحسن میموریل اسکول پھلواری شریف پٹنہ سے وابستہ ہیں، یہ اسکول امارت شرعیہ کا ہے اس لیے کہنا چاہیے کہ اس ادارہ کے واسطے سے وہ امارت شرعیہ سے منسلک ہیں، مولانا عربی اور اردو زبان کے ماہر ہیں، انہیں ان زبانوں میں لکھنا، پڑھنا اور بولنا اچھی طرح آتا ہے۔ ان کی تصنیفی صلاحیت کے مظہر کے طور پر تین کتابیں، والدین کی فضیلت، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بچوں سے پیار اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اخلاق حسنہ کے پیکر شائع ہو کر مقبول ہو چکی ہیں، مولانا کی چوتھی کتاب خواتین پر رحمۃ للعالمین کے احسانات ہیں، جو ابھی پریس جانے کو تیار ہے اور میرے زیر مطالعہ ہے۔
 عورت کے سلسلے میں دنیا افراط وتفریط کی شکار رہی ہے، بعض مذاہب میں اسے دیوی کا روپ دے کر اس کی پوجا کی جانے لگی، بعضوں نے اسے قدموں کی دھول سمجھ کر ذلیل وخوار کیا، اور سماج میں اس کے ساتھ وہ سلوک روا رکھا، جس سے انسانیت شرمسار ہوئی، ایک زمانہ تک اسے صرف خواہش نفسانی کی تسکین کا ذریعہ جانا گیا، اس کی اپنی مرضی  اپنی خواہش کچھ نہیں ہوتی تھی، وہ مرد کے تابع ہوتی تھی، اور اسے مرد کی مرضی کے مطابق زندگی گذارنی ہوتی تھی، ظلم کی انتہا یہ تھی کہ اسے شوہر کے مرجانے کے بعد اس کے ساتھ ہی ’’ستی‘‘ چتا پر جل کر مرجانا ہوتا تھا۔
پھر ایک دور وہ آیا جب عورتوں کی آزادی کے نام پر اسے بے پردہ کیا گیا، رقص وسرود کی محفلوں میں اسے آئٹم گرل کے طور پر پیش کیا جانے لگا، بڑی بڑی مشینوں سے لے کر ماچس کی ڈبیا تک اس کی نیم برہنہ تصویریں اشہارات میں لگائی گئیں اور ان کو خوش کرنے کے لیے فلمی دنیا میں ’’اسٹار‘‘ اور طوائفوں کے حلقے میں ’’سیکس ورکر‘‘ کا نام دیا گیا، اس کے خورد ونوش کی ذمہ داری مردوں پر تھی، لیکن حقوق نسواں کا بلند وبالا نعرہ لگا کر انہیں معاشی سرگرمیوں کا حصہ بنا دیا گیا، اب عورت بچے پیدا کرتی ہے، پوستی پالتی ہے، چولھا چوکا کرتی ہے اور روزگار کے حصول کے لیے مختلف کمپنیوں، فیکٹریوں، اسکولوں کالجوں اور گھروں میں کام کرتی ہے، مرد ڈیوٹی سے آکر آرام کرتا ہے اور عورتیں گھر آکر بھی گھریلو کاموں سے لگ جاتی ہیں، یعنی اسے کسی وقت آرام نہیں ہے، دلیل یہ دی جاتی ہے کہ جب گھر میں کئی کمانے والے ہوتے ہیں تو معاشی ترقی ہوتی ہے، حالاں کہ عورت کا اصل کام بچوں کی پرورش وپرداخت ہے، انہیں تربیت دے کر اچھا شہری بنانا ہے، اب بچے دائی اور نوکروں کے حوالہ ہوتے ہیں اور مائیں گھر سے باہر کسی دفتر میں مفوضہ امور انجام دینے میں لگی ہوتی ہے، حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ کے ایک مرید صوفی عبد الرب تھے، وہ کہا کرتے تھے کہ دنیا کو اتنی سمجھ نہیں ہے کہ عورتیں مجاہد تیار کرنے والی کمپنی ہے، اگر کمپنی کو ہی میدان میں لے کر چلے جاؤگے تو مجاہد کہاں سے پیدا ہوں گے۔
ان دونوں نظریات کے بر عکس اسلام نے عورتوں کی عفت وعصمت کی حفاظت پر زور دیا، بعض شروط کے ساتھ اسے کام کرنے کی بھی اجازت دی، والدین کی متروکہ میں اس کا حصہ مقرر کیا، شادی بیاہ میں اس کی اجازت کا خیال رکھا جانے لگا، شوہروں کو اس پر ظلم وزیادتی سے روکا گیا، وہ ماں، بہن بیوی بیٹی جس حیثیت میں ہوں اس کے حقوق مقرر کیے، وفا شعاری اور حسن سلوک کی تلیقن کی اس طرح عورتیں افراط وتفریط کی زندگی کے بجائے اعتدال کی زندگی گذارنے لگیں ایسااعتدال جس میں مرد وعورت دونوں کے حقوق کی رعایت کرکے گھر کو جنت نشاں، پرسکون اور ’’ٹینشن فری زون‘‘ بنایا جا سکتا ہے۔
 مرد جو عورتوں سے اپنی آنکھیں سیکنے اوراسے شہوت رانی کا ذریعہ بنانا چاہتا ہے، محفلوں کی رونق وتابانی اسی کے دم قدم سے مانتا ہے وہ اسلام کی معتدل تعلیمات جو عورتوں کے حوالہ سے ہے اس میں کیڑے نکالتا ہے، تنقیدیں کرتا ہے اور کبھی کبھی مسلمان عورتوں کے ذریعہ بھی سوالات کھڑے کرتا ہے، ان کا منطقی اور سماجی جواب دینا آج کی ضروت ہے۔
 مولانا ابوسفیان سعید ندوی جن کی علمی صلاحیت اور تدریسی خدمات کا اوپر ذکر کیا گیا ہے،انہوں نے اس موضوع پر اسلام کی جامع تعلیمات کا تفصیلی جائزہ اپنی کتاب ’’خواتین پر رحمۃ للعالمین کے احسانات‘‘ میں لیا ہے، انہوں نے اسلام سے پہلے عورت کا مقام اور عرب معاشرے میں عورت کی حیثیت پر اپنا مطالعہ پیش کیا ہے، پھر اسلام میں ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کے جو حقوق ہیں بشارتیں اور حسن سلوک، اطاعت وفرماں برداری پر ثواب کا جو ذکر قرآن واحادیث میں آیا ہے اس پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے، صحیح اور سچی بات یہ ہے کہ مولانا نے اپنی باتیں اپنے تبصرے اس کتاب میں کم اور احادیث کا ترجمہ زیادہ پیش کیا ہے، جس کی وجہ سے یہ کتاب معتبر اور اس کے مندرجات قابل اعتماد ہیں، اگر مولانا نے اس کتاب میں واقعات ومسائل کا ذکر احادیث کی تخریج کے ساتھ کیا ہوتا تو یہ کتاب زیادہ مستند ہوجاتی، مولانا نے یہ کتاب عام مسلمانوں کے لیے لکھی ہے، ممکن ہے یہ ذہن میں رہا ہو کہ حوالہ جات کے ذکر سے کتاب بوجھل ہو جائے گی اورقاری کے مطالعہ میں کسی حد تک رکاوٹ بھی، کتاب میں پردہ، نگاہ کی حفاظت، اجنبی کو دیکھنے اورباریک وچست لباس پہننے کی حرمت اور اسلام میں رہبانیت کی ممانعت کے تعلق سے بھی اچھا خاصہ مواد موجود ہے، جس سے مولانا ابو سفیان صاحب کے مطالعہ کی گہرائی اور گیرائی کا پتہ چلتا ہے۔
 اردو میں اس موضوع پر بہت ساری کتابیں موجود ہیں، ان میں عورتوں کے حقوق سیرت نبوی کی روشنی میں مصنفہ نغمہ پروین، عورت  اسلامی معاشرہ میں از مولانا نور الحق رحمانی، مولانا رضی الاسلام ندوی اور مولانا جلال الدین انصر عمری، اسلام اور عورت از مظہر الدین صدیقی، عورت اور اسلام وغیرہ بھی خاص طور پر قابل ذکر ہیں، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مولانا کی یہ کتاب تحصیل حاصل ہے، ہرمصنف کی اپنی فہم اور سوچ ہوتی ہے، اس لیے موضوع کی یکسانیت کے باوجود کتاب میں گفتگو صاحب کتاب کے نقطۂ نظر سے آتی ہے اور ہر گلہائے رنگ وبوئے دیگر است کے مصداق قاری کے مشام جاں کو الگ الگ انداز میں معطر اور مختلف انداز میں معلومات فراہم کرنے کا ذریعہ ہوا کرتی ہے، اس لیے ایک موضوع پر کئی کتابوں کو دیکھ کر مصنف پر غیر ضروری محنت کا الزام چسپاں کرنا صحیح نہیں ہے، مولانا ابو سفیان صاحب کی کتاب کا مطالعہ اسی نقطۂ نظر سے کرنا چاہیے۔
 مولانا کو اس کتاب کی تالیف پر مبارکباد دیتا ہوں اور دل سے دعا کرتا ہوں کہ اس کتاب کا فیض عام وتام ہو اور ان کا قلم اسی طرح رواں دواں رہے اور صحت وعافیت کے ساتھ وہ ایسی طویل عمر پائیں جس میں مشقت وپریشانی، تعب وتکان کا گذر نہ ہو۔ آمین یا رب العالمین وصلی اللہ علی النبی الکریم وعلی اٰلہ وصحبہ اجمعین۔

ضیائے حق فاؤنڈیشن کی جانب سے ضیاء فتح آبادی کے یوم پیدائش پر مشاعرہ وتقریب رسم اجراء بحسن خوبی اختتام پذیر ہوا

ضیائے حق فاؤنڈیشن کی جانب سے ضیاء فتح آبادی کے یوم پیدائش پر مشاعرہ وتقریب رسم اجراء بحسن خوبی اختتام پذیر ہوا 
Urduduniyanews72 

پھلواری شریف پٹنہ مورخہ 12/فروری 2024 (پریس ریلیز :محمد ضیاء العظیم )

ضیائے حق فاؤنڈیشن کی جانب سے مدرسہ ضیاء العلوم البا کالونی پھلواری شریف پٹنہ میں مورخہ 11/فروری 2024 بروز اتوار بوقت 02/بجے دوپہر ضیاء فتح آبادی کے 111 ویں یومِ پیدائش پر ایک خوبصورت مشاعرہ اور ضیاء فتح آبادی کی حیات وخدمات پر منحصر "ضیاء فتح آبادی حیات اور کارنامے " نامی کتاب کا رسم اجراء عمل میں آیا ۔ پروگرام دو حصوں پر مشتمل تھا، 
 پروگرام کی صدارت مشہور ومعروف بزرگ شاعر شمیم شعلہ نے کی، جبکہ نظامت کے فرائض سید رضوان حیدر اور شکیل سہسرامی نے انجام دیا ۔ 
پروگرام کی شروعات تلاوت قرآن پاک سے عزیزم فیصل نے کیا ۔
اس کے بعد برانچ اونر محمد ضیاء العظیم نے ضیائے حق فاؤنڈیشن کا تعارف اور ضیاء فتح آبادی کے حیات وخدمات اور فن پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ضیاء فتح آبادی اردو ہندی زبان وادب کے مشہور ومعروف اور مقبول افسانہ نگار، تنقید نگار، ساغرؔ نظامی، جوشؔ ملیح آبادی، میراؔ جی اور ساحرؔ ہوشیار پوری کے ہم عصر اور استاد شاعر سیمابؔ  اکبر آبادی کے شاگرد ہیں۔
ضیاء فتح آبادی کا اصل نام مہر لال سونی تھا۔ وہ کپورتھلہ پنجاب میں اپنے ماموں شنکر داس پوری کے گھر 9؍فروری 1913 کو پیدا ہوئے۔ وہ ایک اردو نظم نگار و غزل گو شاعر تھے۔ انکے والد منشی رام سونی فتح آباد ضلع ترن تارن پنجاب کے رہنے والے تھے اور پیشے کے اعتبار سے ایک مدنی مہندس تھے۔ ضیاء فتح آبادی نے اپنی ابتدائی تعلیم جےپور راجستھان کے مہاراجہ ہائی سکول میں حاصل کی اور اسکے بعد 1931 سے لیکر 1935 تک لاہور کے فورمین کرسچن کالج میں پڑھتے ہوئے بی اے (آنرز) (فارسی) اور ایم اے (انگریزی) کی اسناد حاصل کیں اسی دوران انکی ملاقات کرشن چندر ، ساغرؔ نظامی ، جوشؔ ملیح آبادی ، میراؔ جی اور ساحرؔ ہوشیارپوری سے ہوئی۔ ان احباب میں آپس میں ایک ایسا رشتہ قائم ہوا جو تمام عمر بخوبی نبھایا گیا۔۔
بعدہ ضیاء فتح آبادی کے حیات وخدمات پر "ضیاء فتح آبادی حیات اور کارنامے" کا رسم اجراء عمل میں آیا، اس موقع پر مشہور ومعروف شاعر وادیب، مترجم ،شکیل سہسرامی نے ضیائے حق فاؤنڈیشن کی سرگرمیوں سے آگاہ کراتے ہوئے کہا کہ یہ وہ تنظیم ہے جس نے قوس صدیقی، ناشاد اورنگ آبادی ،شمیم شعلہ ،خالد عبادی، افتخار عاکف، دلشاد نظمی ، شکیل سہسرامی ، اور بھی دیگر شعراء وادباء کو اعزاز سے نواز چکی ہے، ہمیں اس تنظیم کی سرگرمیاں دیکھ کر بیحد خوشی ومسرت اور شادمانی ہوتی ہے، کیوں کہ یہ تنظیم اردو ہندی زبان وادب کی ترویج وترقی کے لئے مستقل کوشاں رہتی ہے، اس تنظیم کے زیر انتظام طلبہ وطالبات اپنی علمی پیاس بجھا رہے ہیں،میں خصوصی طور پر ڈاکٹر صالحہ صدیقی چئیر پرسن ضیائے حق فاؤنڈیشن اور محمد ضیاء العظیم برانچ اونر ضیائے حق فاؤنڈیشن کو مبارکباد پیش کرتے ہیں ۔ اس کے بعد ضیاء فتح آبادی کے حیات وخدمات اور تصنیفات کا اجمالی خاکہ پیش کیا ۔
مشہور ومعروف شاعر ظفر صدیقی نے بھی اپنی مثبت تاثرات سے نوازتے ہوئے فاؤنڈیشن کی سرگرمیوں پر اطمینان کا اظہار کیا ۔انھوں نے ضیاء فتح آبادی کے اس شعر کے ساتھ پروگرام کی ابتداء کی کہ:
بڑھ کر مہ و انجم سے ضیائے اردو
رنگینی و دلکشی برائے اردو
اپنی جسے کہہ سکتے ہو ہم سب مل جل کر
ہے کوئی زباں اور سوائے اردو

اس کے بعد مشاعرہ کا باضابطہ آغاز ہوا، مشاعرہ میں پڑھے گئے شعراء کے نام اور ان کا شعر 

ماں کبھی دیتی نہیں ہے بددعا 
کیا ہوئی تجھ سے خطا معلوم کر ۔
ڈاکٹر نصر عالم نصر 
جو چلیں خود نظر سے اوروں کی 
کاروبار ان کا رہنمائی ہے ۔
سید رضوان حیدر 
زندہ رہنا کتنا مشکل ہے 
مرجانا آسان ہے بابا ۔
سہیل فاروقی 
بہت سخت نازاں ہوا ان سے ملنا 
نگاہوں پہ پہرے ہیں، سپاہی گلی میں ۔
ڈاکٹر شمع ناسمین نازاں 
میر یہ سچی کہانی تیری ہی اردو کی ہے 
گھر کی دلہن اپنے ہی گھر میں رکھیلی ہوگئی ۔
میر سجاد 
راحت پسند دیکھ لو منزل قریب ہے 
مایوس نہ ہو راستہ دشوار دیکھ کر ۔
مصلح الدین کاظم 
اکیلے گھر سے نہ نکلا کرو تم 
بہت بگڑی ہے دنیا کی ہوا دیکھو ۔
معین گرڈیہوی 
آپ کی ذہانت پر کون خوش نہیں گا 
آپ تو بزرگوں کی خامیاں پکڑتے ہیں ۔
ظفر صدیقی 
اہل ضمیر ہیں بہت حیران آج کل 
شیشے میں اپنے آپ کو انسان دیکھ کر ۔
اصغر حسین کامل 
موج خوں، حسن چمن، رنگ وشفق، شام وصال 
تیرے گھر کا سارا منظر جانا پہچانا لگا۔
اسرار عالم سیفی 
وہ دل بھی کتنا جہاں میں حسین رکھتا ہے 
جو اپنے سینے میں ہر وقت دین رکھتا ہے ۔
وارث اسلام پوری 
تیری حیرت کا یہ سامان بھی ہو سکتا ہے 
سنگ ریزہ کبھی چٹان بھی ہو سکتا ہے ۔
شمیم شعلہ 
تم پہ مرتا ہوں، میں سچ کہتا ہوں، اللہ قسم 
تم مجھے جان وفا چھوڑ کے جایا نہ کرو ۔
محمد ضیاء العظیم ۔
آخر میں صدر محترم کی صدارتی کلمات پر پروگرام اختتام پذیر ہوا ۔

 واضح رہے کہ ضیائے حق فاؤنڈیشن کی بنیاد انسانی فلاح وترقی، سماجی خدمات، غرباء وفقراء اور ضرورتمندوں کی امداد، طبی سہولیات کی فراہمی، تعلیمی اداروں کا قیام، اردو ہندی زبان وادب کی ترویج وترقی، نئے پرانے شعراء وادباء کو پلیٹ فارم مہیا کرانا وغیرہ ہیں، فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام صوبہ بہار کے دارالسلطنت شہر پٹنہ کے پھلواری شریف  میں ضیائے حق فاؤنڈیشن کا برانچ اور ایک مدرسہ کاقیام ،، مدرسہ ضیاء العلوم،،عمل میں آیا ہے، جہاں کثیر تعداد میں طلبہ وطالبات دینی علوم کے ساتھ ساتھ ابتدائی عصری علوم حاصل کر رہے ہیں ۔
اس پروگرام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں خصوصی طور پر ڈاکٹر نصر عالم نصر رکن ضیائے حق فاؤنڈیشن ،ڈاکٹر صالحہ صدیقی چئیر پرسن ضیائے حق فاؤنڈیشن ،محمد ضیاء العظیم برانچ اونر ضیائے حق فاؤنڈیشن نے اپنا تعاون پیش کیا، جبکہ عمومی طور پر جملہ اراکین ضیائے حق فاؤنڈیشن نے تعاون دیا ۔

ہفتہ, فروری 10, 2024

قاری احمداللہ بھاگل پوری حقیقی معنوں میں خادم قرآن تھے___

قاری احمداللہ بھاگل پوری حقیقی معنوں میں خادم قرآن تھے___
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمدثناءالہدی قاسمی
 
پٹنہ 10 فروری (عبدالرحیم برہولیاوی/پریس ریلیز)
قاری احمداللہ صاحب نے اپنی پوری زندگی خدمت قرآن میں لگادی وہ خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ یعنی
 تم میں اچھا وہ ہے جوقرآن پڑھے اور پرھایے کہ صحیح  مصداق تھےاس تعلق سے دیکھا جائے  تو وہ حقیقتاً خادم قرآن تھے انہوں نے  کئی نسلوں کو قرآن تجوید کی رعایت کے ساتھ پڑھنا سکھایا
ان خیالات کااظہار معروف عالم دین مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی ناظم وفاق المدارس الاسلامیہ ،اردو میڈیا فورم اور کاروان ادب کے صدر نے کیا وہ 
حضرت کے انتقال پر اظہارِ  تعزیت   کر رہے  تھے 
مفتی صاحب نے فرمایاکہ حضرت کے وصال سے تجوید وقراءت کے میدان میں جو خلا پیدا ہواہے اس کی تلافی کی ہم  سب کو دعا کرنی چاہیے گو یہ بہت آسان  نہیں ہےلیکن اللّٰہ ہر چیز پر قادر ہے۔حضرت مفتی صاحب نے فرمایا کہ وہ اصلا بھاگلپور کے رہنے والے تھے لیکن انہوں نے جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل کو اپنا میدان عمل بنایا مفتی صاحب نے فرمایا حضرت مولانا سے کیی یادگار ملاقاتیں تھیں حضرت مجھ سے بہت محبت فرماتے تھے حضرت میری تحریروں کے بھے مداح تھے
 قرآن کی نسبت پر کام کرنے والوں کی حضرت بہت قدر کیا کرتے تھے ان سے محبت وشفت فرماتے اور مفید مشورے بھی دیتے تھے حضرت
مولانا نے اپنی پوری زندگی کو خدمت قران کے لیے وقف کر دیا تھا 
اس طرح ان کافیض عموماََ پورے ہندوستان خصوصاََ گجرات میں پھیلا 
مفتی صاحب نے حضرت کے لیے دعاء مغفرت اور پس ماندگان کے لیے صبر جمیل کی دعا فرمائی۔انہوں نے فرمایا ابھی غم تازہ ہے کچھ کہ سناءینگےجو طبیعت سنبھل گیی

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...