اردودنیانیوز۷۲
رمضان کی پہلی تاریخ کو روزنامہ انقلاب کے ذریعے یہ خبر ملی ہے کہ امریکی شہری شان کنگ نے اپنی اہلیہ کے ساتھ اسلام قبول کر لیا ہے۔یہ بہت بڑی خبر ہے اور امت مسلمہ کے لیے بڑی خوشخبری ہے۔موصوف کوئی معمولی آدمی نہیں ہیں بلکہ معروف امریکی اور سماجی کارکن ہیں۔ عیسائی مذہب میں پادری کی حیثیت انہیں حاصل رہی ہےاور ایک چرچ بھی انہوں نے خود بنوایا ہے۔ظلم و تشدد کے خلاف ہمیشہ آواز بلند کرتے رہے ہیں، امریکہ میں سیاہ فام کمیونٹی کی معروف مہم بلیک لائیوزمیٹر کا بھی اہم حصہ رہے ہیں، پچھلے پانچ مہینے سے نہتے فلسطینیوں پر اسرائیلی بمباری کے خلاف امریکہ میں سراپا احتجاج بنے ہوئے تھے، رمضان کا مبارک مہینہ آگیامگر اسرائیلی حملہ موقوف نہیں ہوا،یکم رمضان کی رات بھی غزہ پر اسرائیلی بمباری ہوئی ہے جس میں ۶۷/فلسطینی شہید ہوئے ہیں اب تک شہداء کی تعداد ۳۱/ہزار ۳۱۲/تک پہنچ گئی ہے، نہ اسرائیلی حملہ رک رہا ہے اور نہ ہی یہ نہتے مسلمان ہتھیار ڈال رہے ہیں، ان کے عزائم کو دیکھ کر شان کنگ نے اپنی اہلیہ کے ساتھ اسلام قبول کر لیا ہے، مظلوموں کے حق میں آواز اٹھانے والا اب اس مذہب میں آگیا ہے جو ظلم وتشدد کے خلاف ہے اور سراپا مظلوموں کی آواز ہے۔یہ بات بھائی شان کنگ کی سمجھ میں آگئی ہے کہ مذہب اسلام ہی ذات پات کا خاتمہ کرتا ہے اور مسلمانوں کے ہی عزائم پہاڑ جیسے ہوتے ہیں۔ ہمیں خدا کا شکر ادا کرنا چاہئے اس بات پر کہ بے شان وگمان اپنے دین کی اشاعت کے لیے ایک امریکی شخص شان کنگ کے لیے خدا نے ہدایت کا دروازہ کھول دیا ہے۔
ایک طرف اسرائیل بہترین ہتھیار کا استعمال کر کے فلسطینی مسلمانوں کا مکمل خاتمہ چاہتا ہے، تو دوسری طرف نظام الہی کے تحت اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد بڑھتی چلی جا رہی ہے اور فلسطینی مسلمانوں کی ہر ادا اسلام کی دعوت بن گئی ہے۔بالخصوص ان کے عزم و حوصلے کو اس وقت دنیا سلام کررہی ہےاورایک بڑی تعداد اس سے مثاثر ہوکر مسلمان ہورہی ہے۔ابھی کچھ دنوں پہلے کی بات ہے، اسٹریلوی ۳۰/خواتین نے ملبورن شہر میں واقع میڈوہائٹس مسجد میں پہنچ کر ایک ساتھ اسلام کا کلمہ پڑھا ہے ،جب ان سے پوچھا گیا کہ کس بات سے متاثر ہوکر اسلام کو اپنا رہی ہیں؟تو ان کا مشترکہ جواب یہی تھا کہ غزہ میں مسلمانوں کی عزم و حوصلے سے متاثر ہو کر وہ سبھی اسلام قبول کررہی ہیں۔امریکی ٹک ٹاکر میگن رائس اور ایبی نے بھی یہی دیکھ کر اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کیا ہے۔
واقعی یہ بڑی بات ہے کہ اتنی بڑی طاقت سے چند لوگ دست بگریباں ہیں اور ان کے عزائم میں ذرہ برابر اضمحلال پیدا نہیں ہوا ہے۔ یہ حیرت انگیز بھی ہے۔
آج فلسطینی مسلمانوں کایہ عزم و حوصلہ دعوت اسلام بن گیا ہے۔اسرائیل غزہ میں مسلمانوں کو ختم کرنا چاہتا ہے جبکہ ان مظلمومین کے بھائی اور حمایتی آسٹریلیا، یورپ اور امریکہ میں پیدا ہورہے ہیں اور اسلامی دعوت کو ان کی ذات سے ایک نئی زندگی مل گئی ہے۔
فلسطینی مسلمانوں نے اپنے عزم و حوصلے کے ذریعے دراصل اسلام کی دعوت پیش کی ہے اور یہ پیغام دیا ہے کہ حالات خواہ کتنے مخالف کیوں نہ ہوں ان سے مقابلہ کرنا ایک مسلمان پر فرض ہے۔ حالات سے سمجھوتہ کرنا اور یہ کہنا کہ؛ "چلو ادھر کو ہوا ہو جدھر کی" یہ مذہب اسلام نہیں سکھاتا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی نصیحت اپنی پوری امت سے ہے کہ تمہارے لیے میرا راستہ اور میرے اصحاب کا راستہ اپنانا لازم ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سخت حالات سے دو چار ہوئے ہیں مگر دین کے معاملے میں نہ کسی کی ملامت کی پرواہ کی ہے اور نہ کوئی سمجھوتہ کیا ہے۔یہی استقامت دراصل اسلام کا دروازہ ہے۔ الحمدللہ یہ امتیازی شان اج فلسطینی مسلمان کو حاصل ہوئی ہے کہ ان کے عزائم کو دیکھ کر لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہو رہے ہیں باری تعالی مزید برکتیں نصیب فرمائے اور پوری دنیا کی ہدایت کا انہیں سامان بنا دے ،آمین
یہ رمضان المبارک کا مہینہ بھی ہم سے یہی تقاضا کرتا ہے۔رمضان کو حدیث شریف میں صبر کا مہینہ کہا گیا ہے۔صبر کا مطلب ثابت قدمی اور استقامت ہے۔قران کریم کے سورہ حج میں اللہ رب العزت نے مصیبت پر صبر کرنے والوں کی مدح فرمائی ہے،اور دوسری جگہ ارشاد ربانی ہے؛" اپنے پروردگار کے فیصلے کا ثابت قدمی سے منتظر رہو اور ان مخالفین میں سے کسی گنہگار یا کافر کا کہنا نہ مانو(سورۃ الدھر)
ہمایوں اقبال ندوی
نائب صدر، جمعیت علماء ارریہ
وجنرل سکریٹری، تنظیم أبناء ندوہ پورنیہ کمشنری
۲/رمضان المبارک ۱۴۴۵ھ