Powered By Blogger

جمعرات, مارچ 14, 2024

استقامت اسلام کا دروازہ ہے

استقامت اسلام کا دروازہ ہے
اردودنیانیوز۷۲ 
رمضان کی پہلی تاریخ کو روزنامہ انقلاب کے ذریعے یہ خبر ملی ہے کہ امریکی شہری شان کنگ نے اپنی اہلیہ کے ساتھ اسلام قبول کر لیا ہے۔یہ بہت بڑی خبر ہے اور امت مسلمہ کے لیے بڑی خوشخبری ہے۔موصوف کوئی معمولی آدمی نہیں ہیں بلکہ معروف امریکی اور سماجی  کارکن ہیں۔ عیسائی مذہب میں پادری کی  حیثیت انہیں حاصل رہی ہےاور ایک چرچ بھی انہوں نے خود بنوایا ہے۔ظلم و تشدد کے خلاف ہمیشہ آواز بلند کرتے رہے ہیں، امریکہ میں سیاہ فام کمیونٹی کی معروف مہم بلیک لائیوزمیٹر کا بھی اہم حصہ رہے ہیں، پچھلے پانچ مہینے سے نہتے فلسطینیوں پر اسرائیلی بمباری کے خلاف امریکہ میں سراپا احتجاج بنے ہوئے تھے، رمضان کا مبارک مہینہ آگیامگر اسرائیلی حملہ موقوف نہیں ہوا،یکم رمضان کی رات بھی غزہ پر اسرائیلی بمباری ہوئی ہے جس میں ۶۷/فلسطینی شہید ہوئے ہیں اب تک شہداء کی تعداد ۳۱/ہزار ۳۱۲/تک پہنچ گئی ہے، نہ اسرائیلی حملہ رک رہا ہے اور نہ ہی یہ نہتے مسلمان ہتھیار ڈال رہے ہیں، ان کے عزائم کو دیکھ کر شان کنگ نے اپنی اہلیہ کے ساتھ اسلام قبول کر لیا ہے، مظلوموں کے حق میں آواز اٹھانے والا اب اس مذہب میں آگیا ہے جو ظلم وتشدد کے خلاف ہے اور سراپا مظلوموں کی آواز ہے۔یہ بات بھائی شان کنگ کی سمجھ میں آگئی ہے کہ مذہب اسلام ہی ذات پات کا خاتمہ کرتا ہے اور مسلمانوں کے ہی عزائم پہاڑ جیسے ہوتے ہیں۔ ہمیں خدا کا شکر ادا کرنا چاہئے اس بات پر کہ بے شان وگمان اپنے دین کی اشاعت کے لیے ایک امریکی شخص شان کنگ کے لیے خدا نے ہدایت کا دروازہ کھول دیا ہے۔
ایک طرف اسرائیل بہترین ہتھیار کا  استعمال کر کے فلسطینی مسلمانوں کا مکمل خاتمہ چاہتا ہے، تو دوسری طرف نظام الہی کے تحت اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد بڑھتی چلی جا رہی ہے اور فلسطینی مسلمانوں کی ہر ادا اسلام کی دعوت بن گئی ہے۔بالخصوص ان کے عزم و حوصلے کو اس وقت دنیا سلام کررہی ہےاورایک بڑی تعداد اس سے مثاثر ہوکر مسلمان ہورہی ہے۔ابھی کچھ دنوں پہلے کی بات ہے، اسٹریلوی ۳۰/خواتین نے ملبورن شہر میں واقع میڈوہائٹس مسجد میں پہنچ کر ایک ساتھ اسلام کا کلمہ پڑھا ہے ،جب ان سے پوچھا گیا کہ کس بات سے متاثر ہوکر اسلام کو اپنا رہی ہیں؟تو ان کا مشترکہ جواب  یہی تھا کہ غزہ میں مسلمانوں کی عزم و حوصلے سے متاثر ہو کر وہ سبھی اسلام قبول کررہی ہیں۔امریکی ٹک ٹاکر میگن رائس اور ایبی نے بھی یہی دیکھ کر اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کیا ہے۔
واقعی یہ بڑی بات ہے کہ اتنی بڑی طاقت سے چند لوگ دست بگریباں ہیں اور ان کے عزائم میں ذرہ برابر اضمحلال پیدا نہیں ہوا ہے۔ یہ حیرت انگیز بھی ہے۔
آج فلسطینی مسلمانوں کایہ عزم و حوصلہ دعوت اسلام بن گیا ہے۔اسرائیل غزہ میں مسلمانوں کو ختم کرنا چاہتا ہے جبکہ ان مظلمومین کے بھائی اور حمایتی آسٹریلیا، یورپ اور امریکہ میں پیدا ہورہے ہیں اور اسلامی دعوت کو ان کی ذات سے ایک نئی زندگی مل گئی ہے۔
فلسطینی مسلمانوں نے اپنے عزم و حوصلے کے ذریعے دراصل اسلام کی دعوت پیش کی ہے اور یہ پیغام دیا ہے کہ حالات خواہ کتنے مخالف کیوں نہ ہوں ان سے مقابلہ کرنا ایک مسلمان پر فرض ہے۔ حالات سے سمجھوتہ کرنا اور یہ کہنا کہ؛ "چلو ادھر کو ہوا ہو جدھر کی" یہ مذہب اسلام نہیں سکھاتا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی نصیحت اپنی پوری امت سے ہے کہ تمہارے لیے میرا راستہ اور میرے اصحاب کا راستہ اپنانا لازم ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سخت حالات سے دو چار ہوئے ہیں مگر دین کے معاملے میں نہ کسی کی ملامت کی پرواہ کی ہے اور نہ کوئی سمجھوتہ کیا ہے۔یہی استقامت دراصل اسلام کا دروازہ ہے۔ الحمدللہ یہ امتیازی شان اج فلسطینی مسلمان کو حاصل ہوئی ہے کہ ان کے عزائم کو دیکھ کر لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہو رہے ہیں باری تعالی مزید برکتیں نصیب فرمائے اور پوری دنیا کی ہدایت کا انہیں سامان بنا دے ،آمین 
یہ رمضان المبارک کا مہینہ بھی ہم سے یہی تقاضا کرتا ہے۔رمضان کو حدیث شریف میں صبر کا مہینہ کہا گیا ہے۔صبر کا مطلب ثابت قدمی اور استقامت ہے۔قران کریم کے سورہ حج میں اللہ رب العزت نے مصیبت پر صبر کرنے والوں کی مدح فرمائی ہے،اور دوسری جگہ ارشاد ربانی ہے؛" اپنے پروردگار کے فیصلے کا ثابت قدمی سے منتظر رہو اور ان مخالفین میں سے کسی گنہگار یا کافر کا کہنا نہ مانو(سورۃ الدھر)

ہمایوں اقبال ندوی 
نائب صدر، جمعیت علماء ارریہ 
وجنرل سکریٹری، تنظیم أبناء ندوہ پورنیہ کمشنری 
۲/رمضان المبارک ۱۴۴۵ھ

اتوار, مارچ 10, 2024

استقبال رمضان ____

استقبال رمضان ____
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
Urduduniyanews72 
ایک ضعیف روایت کے مطابق اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جمادی الثانی کے گزرنے اور رجب المرجب کا چاند طلوع ہوتے ہی رمضان المبارک کی تیاری شروع فرماتے اوردعا کرتے ’’کہ اے اللہ رجب و شعبان میں برکت دے اوررمضان المبارک تک ہمیں پہونچا دے (اللھم بارک لی فی رجب وشعبان وبلغنی رمضان ) اس کے ساتھ ر جب ہی سے روزانہ کے معمولات میںا ضافہ ہوجاتا ، شعبان آتا تو کثرت سے روزے رکھتے ، اورایسی کثرت ہوتی کہ حضر ت عائشہ ؓ  فرماتی ہیں کہ گمان ہوتاکہ رمضان المبارک کے روزوں سے ملا دیں گے، اسی پس منظر میں یہ بھی  فرمایا کرتے کہ شعبان میرا مہینہ ہے ، یعنی روزے اللہ نے اس مہینہ میں فرض نہیں کئے؛ لیکن مجھے وہ عمل پسند ہے جو اللہ کی طرف سے رمضان میں فرض ہے، شعبان کی پندرہ شب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم عبادت کا خصوصی اہتمام فرماتے ،اس رات میں خود اللہ رب العزت کی طرف سے رمضان کے آنے کے قبل ایسے انعامات اور فیوض وبرکات کا اعلان ہوتاہے کہ بندے میں خوشی کی لہردوڑجاتی ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ رمضان کی آمد آمد ہے ۔اس رات اللہ تعالی کی رحمتوں کا نزول سورج غروب ہونے کے بعد سے ہی شروع ہوجاتا ہے ۔منادی آواز لگاتارہتا ہے کہ کوئی بخشش طلب کرنے والا ہے جسے میں بخش دوں ، ہے کوئی رزق طلب کرنے والا جس پر رزق کے دروازے کھول دوں ، پھررمضان میں جو مغفرت کا اعلان عام ہوتا ہے اس سے قبل ہی بنو کلب کی بکریوں کے بالوں کے برابرپندرہ شعبان کی شب میں گنہگاروں کی مغفرت کردی جاتی ہے، اتنی کثرت  سے مغفرت ہی کی وجہ سے اسے لیلۃ البراء ۃکہا جاتا ہے ۔
مفسرین کی ایک رائے یہ بھی ہے کہ اللہ نے اس رات میں قرآن کریم کے نزول کا فیصلہ کیا، جس کی تنفیذ شب قدر میں ہوئی؛ گویا جس طرح موسم بہار کی آمدسے قبل آثار و قرائن بتاتے ہیں کہ باد بہاری چلنے والی ہے اور صبح کی سفیدی روشن دن کے آنے کی خبر دیتی ہے ، اسی طرح اللہ رب العزت اس ماہ مبارک کے آنے سے قبل ہی اس کے فیوض وبرکات کے ایک حصہ کا آغاز شعبا ن سے کردیتاہے۔اسی وجہ سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کی تیاریوں میں مشغول رہتے، صحابہ کرا م رضوان اللہ تعالی اجمعین کے سامنے رمضان المبارک کی عظمت واہمیت بیان فرماتے۔پھرجب شعبان کے آخری ایام آتے تورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم استقبال رمضان پر تقریر فرماتے اورلوگوں کو خیر کے کاموں کی طرف ابھارتے۔
 اس موقع سے آپ کی تقریر جو حضرت سلمان فارسی کے حوالے سے احادیث کی کتابوں میں مذکور ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ لوگو !ایک باعظمت مہینہ آپہونچاہے یہ ماہ رمضان ہے۔ اس ماہ میں جو شخص کوئی نیک کام کریگا اس کا ثواب فرض کے برابراور فرض اداکریگا تو اس کا ثواب ستر فرض کے برابر ملے گا، جو روزہ دار کو افطار کرائے گا وہ جہنم سے خلاصی پائے گا ۔اوراسے روزہ دار کے بقدر ثواب ملے گا، جب کہ روز ہ دار کے ثواب میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی ۔اوریہ ثواب محض ایک کھجور یا ایک گھونٹ پانی سے افطار کرانے پر بھی ملے گا۔اور اگر کسی نے روزہ دار کو پیٹ بھر کھانا کھلادیا تو حوض کوثر سے ایسی سیرابی ہوگی کہ جنت میں داخلے تک پیاس نہیں لگے گی اورجنت بھوک پیاس کی جگہ نہیں ہے ، فرمایا : اس ماہ کا پہلا حصہ رحمت ، دوسر ا مغفرت اورتیسرادوزخ سے آزادی کا ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس ماہ میںاپنی خاص رحمت سے ایسا انتظام کرتے ہیں کہ شیطان بندوں کو گمراہ نہ کرسکے ، اور بُرائی پر آمادہ کرنے سے بازآجائے؛ اس لئے جنات اورسرکش شیاطین کو پابند سلاسل کردیاجاتاہے۔جہنم کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں اور جنت کے دروازے پورے ماہ کے لئے کھول دیئے جاتے ہیں ۔اور منادی خدا کی طرف سے آواز لگاتا ہے کہ خیر کے طالب آگے بڑھو اورشر کی طرف مائل لوگو رک جائو ، باز آئو، اتنے اہتمام کے باوجود اگر کوئی مسلمان  اس ماہ سے فائدہ نہیںا ٹھاتا اور جنت کے حصول کے سامان نہیں کرتاتو بدبختی اور شقاوت کی انتہا ہے ۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے لوگوں کے لئے حضرت جبرئیل علیہ السلام کی بددعا کہ جو شخص رمضان کا مہینہ پائے اوراپنی مغفرت نہ کروالے اس پر آمین کہا ہے ، ایک حضرت جبرئیل کی بددعا ، اوردوسرے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا آمین کہنا ، ایسے لوگوں پر لعنت ہی لعنت کا کھلا اعلان ہے۔
یہ تمام انعامات اور فیوض وبرکات اس ماہ میں نزول قرآن کی وجہ سے ہیں ، اس لیے اس ماہ مبارک کا حق یہ ہے کہ تلاوت قرآن کی کثرت کی جائے ، تراویح میں قرآن سننے سنانے کا اہتمام کیاجائے، تہجد میں رات گذاری کی جائے اور ہرلمحہ کو قیمتی سمجھ کر ذکر ،اذکاراور وظائف میں مشغول رہا جائے، روزہ کا ایسا اہتمام کیاجائے جو شریعت کو مطلوب ہے ، اور جس سے تقوی کی کیفیت پیدا ہوتی ہے ، جو روزہ کا اصل مقصد ہے ، روزہ صرف کھانے پینے اور شہوانی خواہشات سے پرہیز تک محدود نہ رکھا جائے ، بلکہ آنکھ ، دل ، دماغ ، کان ، زبان ، ہاتھ ، پائوں ، اور سبھی اعضا و جوارح کا روزہ رکھا جائے، آنکھ غلط چیزوں کو نہ دیکھے ، دل گناہوں کی طرف مائل نہ ہو ،دماغ خدا کے احکام کے خلاف نہ سوچے ، کان غلط نہ سنے ، زبا ن غیبت ، چغل خوری ، جھوٹ، طعن وتشنیع اورگالی گلوج سے محفوظ رہے ، اعضا وجوارح خداکی مرضیات پر لگ جائیں ، ایسا روزہ دراصل روزہ ہے ، بندہ جب ایسا روزہ رکھتا ہے تو اللہ خود اس کا ہوجاتا ہے ، اور اللہ دلوں کے احوال جانتاہے، اس لیے اجر و ثواب کا ضابطہ ایک دس کا یہاں نہیں چلتا ، بلکہ جس نے اللہ کے لئے روزہ رکھا ہے ، اللہ ہی اس کا بدلہ دیں گے پھر چونکہ یہ غم گساری کا بھی مہینہ ہے؛ اس لیے جہاں کہیں بھی رہے ،جس کام میں لگا ہوا ہے۔ اس میں اس کو ملحوظ رکھے ، حسب استطاعت غربا کے خورد ونوش اورمحتاجوں کی ضروریات کی کفالت کا بھی نظم کرے کہ یہ بھی روزہ کے مقاصد میں سے ایک ہے ہم لوگ جنہیں اللہ تعالی نے خوردونوش کی سہولتیں دے رکھی ہیں اور بھوک پیاس کی تکلیف کا احساس پورے سال نہیں ہوتا، بلکہ شادی اور دیگرتقریبات میں کھانے پینے کی اشیاء کو ضائع کرتے ہیں ، انہیںروزہ میں جب بھوک پیاس لگے تو ان کے اندریہ احساس جاگناچاہئے کہ سماج کے دبے کچلے لوگ جن کے گھرچولہا بڑی مشکل سے جلتاہے ۔ اور کئی بار فاقہ میںرات گذرجاتی ہے، کس قدر پریشانیاں محسوس کرتے ہوں گے ، اس وجہ سے اکابر نے اس بات پر زوردیا کہ افطار اورکھانے میں تلافی مافات کی غرض سے اتنا نہ کھالے کہ روزہ رکھنے سے جو شہوانی قوت میںتھوڑی کمی آئی تھی وہ جاتی رہے اورسحری میں اس قدر نہ کھالے کہ دن بھر بھوک پیاس کا احساس ہی نہ ہو ۔ اس ماہ میں مدارس کے اساتذہ اوراکابر علماء ، ادارے تنظیموں اور مدارس کی فراہمی مالیات کے لئے کوشاں اور متفکرہوتے ہیں۔ ان کا اکرام کیاجائے ، اور محسوس کیا جائے کہ وہ امراء پراحسان کرتے ہیں کہ ان کی زکوۃ بروقت مناسب جگہ پہنچ جاتی ہے ، اس لئے جھڑک کر اوربار بار انہیں دوڑا کر اپنے عمل کو ضائع نہیں کرنا چاہیے اس سے علماء کی بے وقعتی بھی ہوتی ہے اور ثواب بھی ضائع ہوتا ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ پورے ایمانی قوت سے رمضان المبارک کے فیوض وبرکات سے ہم سب کو وافر حصہ عطا فرمائے اور اسے جہنم سے نجات کا ذریعہ بنادے ۔ آمین۔

ہفتہ, مارچ 09, 2024

علم اور اہل علم کی قدر*

علم اور اہل علم کی قدر* 
Urduduniyanews72 
*🖋️حضرتمولانانورعالم صاحب جامعی* 
مدرسہ اخلاق العلوم نیوز حیدر گنج لکھنؤ
علم  اللہ تعالی کی وہ عظیم نعمت ہے جس کی فضیلت اور اہمیت ہر دور میں تسلیم کی گئی ہے ۔ یہ ان انعامات میں سے ہے جن کی بناء پر انسان دیگر مخلوقات سے افضل ہے۔ علم ہی ہے جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو عطا فرما کر اس کے ذریعے فرشتوں پر ان کی برتری ثابت فرمائی۔ 
       دینِ اسلام میں حصولِ علم کی بہت تاکید کی گئی ہے اور علم و اہلِ علم  کی متعدد فضیلتیں وارد ہوئی ہیں اور مسلمانوں کو علم کے حصول پر ابھارا گیا ہے۔ اور جس طرح علم کی اہمیت و فضیلت مسلّمہ ہے، اُسی طرح اِس نعمتِ عظیم کے حامل افراد کی فضیلت سے بھی انکار ممکن نہیں۔ رسول اللہ ﷺ  کی اس امت میں تو بالخصوص اہلِ علم بہت اعلی مقام کے حامل ہیں حتیٰ کہ انہیں انبیائے کرام کا وارث قرار دیا  گیا ہے جیسا کہ فرمانِ نبوی ہے "العلماء ورثة الانبیاء" ۔ اور علم کو فرض قرار دیتے ہوئے نبی کریم ﷺ نے فرمایا"طلب العلم فریضة علی کل مسلم و مسلمہ" یعنی دین کا اتنا علم جس سے حلال و حرام کی پہچان ہوجائے، اسکا حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔
 عصرِ حاضر میں ہم مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم عصری تعلیم میں اتنا مصروف ہو چکے ہیں کہ دینی تعلیم میں وقت لگانے کو وقت کی بربادی سمجھنے لگے ہیں، اور اسمیں کہیں نا کہیں والدین کا بھی قصور ہے کیونکہ گھر ہی پہلا ادارہ ہوتا ہے ، جب بچہ گھر میں دینی علم اور علماء سے نفرت، عصری علم کیلئے جہد وجہد دیکھے گا تو یہی سیکھے گا اور جب انکی تربیت دینی نا ہو تو یقیناً یہ نیک اولاد نہیں بنیں گے۔ پھر یہی بچے اپنے والدین کو بیت المعمرین (Old age home) میں چھوڑتے ہیں تو والدین کو تکلیف ہوتی ہے کہ ہمارے بچے اتنے برے کیسے ہوگئے ؟ حالانکہ وہ یہ نہیں دیکھتے کہ یہ سب انکی دنیاوی تربیت کا خمیازہ ہے جو وہ بھگت رہے ہیں ۔
عصری تعلیم کی محبت اور دینی تعلیم سے دوری کے سبب ہی آج ہم دنیا میں آگے تو ہیں لیکن ہمارے پاس علم اور علماء کی قدر و عزت نہیں، آج ہم مسلمانوں کی صورتحال یہ ہے کہ ہم اہلِ علم حضرات بالخصوص ائمہ مساجد اور علماء کو بالکل حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، ہم منتظر ہوتے ہیں کہ ان سے کچھ غلطی ہو اور ہمیں ان پر طنز کرنے کا موقعہ ملے۔ اہلِ علم نیک ہوتے ہیں لیکن وہ بھی بشر ہوتے ہیں نا کہ کوئی فرشتے اور غلطی کرنا ہر بشر کی فطرت ہے۔ اللہ نے جہاں بھی اپنے نیک بندوں کا ذکر کیا وہاں کہا  میرے نیک بندوں سے گناہ بھی ہوتے ہیں لیکن وہ فوراً توبہ کرلیتے ہیں۔ آج ہمارے دلوں سے علماء کی محبت بالکل ختم ہو چکی ہے، اگر دینی علم کے حصول کی بات کی جائے تو کچھ ایسی باتیں ہمارے گوش گزار ہوتی ہیں کہ گھر میں کوئی حافظ بنا لینگے، گھر میں اتنے سارے حفاظِ کرام موجود ہیں کسی کی بھی سفارش سے بخشش ہوجائے گی۔ ہمیں تو یہ جذبہ ہونا چاہیے تھا کہ ہم امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دے کر خود اس قابل بنیں کہ ہم امت کی سفارش کرسکیں ۔ اور جن کی سفارش کے بھروسے ہم بیٹھے ہیں ہم ان کی قدر کرنا بھی نہیں جانتے۔ اور اس غلط فہمی میں ہیں کہ کسی کی بھی سفارش سے ہماری بخشش ہو جائے گی۔ ذرا غور کریں کہ ہماری قبر کی اتنی لمبی زندگی میں ہماری سفارش کون کریگا ؟ 
یہاں صرف ہمارا دینی علم کام آئے گا اور وہ دینی علم جس پر ہم عمل پیرا ہوئے، دینی علوم کا حصول ہم پر فرض ہے اور فرض میں کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ ہم سب اس سے واقف ہیں کہ ہمارے معاشرے میں دینی تعلیم کو کس حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، جبکہ دینی علم کی فضیلت بھی ہم پر عیاں ہے، میرے کہنے کا مقصد یہ نہیں کہ عصری تعلیم سے کنارہ کشی اختیار کی جائے بلکہ میرا مقصد ہے کہ عصری اور دینی دونوں تعلیم کو حاصل کیا جائے کیونکہ دونوں کی اہمیت ہے، اس دار فانی میں رہنے کیلئے عصری تعلیم ضروری ہے جبکہ عالم برزخ اور آخرت کے لئے دینی تعلیم کا حصول لازم ہے، لیکن آج ہم مسلمان دینی تعلیم سے اس قدر دور ہیں کہ ہمیں حلال وحرام اور فرائض و واجبات کا علم تک نہیں۔ اگر ہم دینی علم نہیں حاصل کررہے تو ہمیں کم از کم اہلِ علم یعنی علماء کی قدر کرنی چاہیے کیونکہ یہ وہ وسیلہ ہے جو ہمیں اللہ کے ہاں محبوب اور مبغوض بنانے کی طاقت رکھتا ہے، اگر ہم علماء سے محبت کریں تو کوئی بعید نہیں کہ اللہ بھی ہم سے محبت کرے اور ہماری آخرت سنور جائے لیکن اگر ہم علماء سے نفرت کریں گے تو ہم ملعون ہوجائینگے، آج کل اکثریت علماء سے اسی لئے نفرت کرتی ہے کیونکہ وہ دینی علوم کے حامل ہیں، لیکن ہمیں سوچنا چاہیے کہ یہی لوگ ہیں جن کی وجہ سے قیامت رکی ہوئی ہے، جیسا کہ حدیث میں وارد ہوا ہے "لا تقوم الساعة حتى يقال الله الله" یعنی قیامت اس وقت تک نہیں آئی گی جب تک روئے زمین پر کوئی اللہ اللہ کہنے والا ہو ، اور حدیث قدسی میں ہے "من عادى لى وليا فقد آذنته بالحرب" یعنی جو شخص میرے کسی ولی سے دشمنی رکھے گا اسے میری طرف سے اعلان جنگ ہے ۔
 ان احادیث سے عیاں ہے کہ کس طرح ہم علماء کی قدر کے ذریعے اللہ کے محبوب بن سکتے ہیں، اور کس طرح آج ہم علماء سے نفرت کرکے اللہ سے جنگ مول لے رہے ہیں۔ اور نبی کریم ﷺ نے تو یہ تک فرما دیا کہ جو ہمارے علماء کی قدر نا کرے وہ ہم میں سے نہیں، اس سے بڑی اور کیا وعید ہو سکتی ہے کہ ہم مسلمانوں اور دین اسلام کی صف سے نکال دیے جائیں، آج اللہ کو حاضر و ناظر رکھتے ہوئے یہ عہد کرلیں کہ ہم اللہ اور رسول کے متعین کردہ مقام و مرتبہ کو علمائے کرام کے سر کا تاج بنائیں گے اور اللہ اور رسول سے محبت و الفت کے ساتھ عمومی طور پر تمام مسلمانوں سے اور خصوصی طور پر علمائے کرام سے محبت و الفت رکھیں گے ان شاءاللہ عزوجل
تکمیل قرآن  شرکت ہوئی ہے  حضرت مولانا انوار صاحب 
مولانا امتیاز احمد صاحب عمران بھائی قاری رضوان احمد صاحب صادق حسین قاری عمر فاروق صاحب ایم رحمانی مولانا عبدالمتین صاحب ندوی کنیز فاطمہ شریک ہیں 

یہ بات کہنا چاہیں گے سارے جہاں سے ہم ____

یہ بات کہنا چاہیں گے  سارے جہاں سے ہم ____
اردودنیانیوز۷۲
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

 سماج کو عربی زبان میں معاشرہ اور انگریزی میں Societyکہتے ہیں ، جس کے معنی ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہنے اور ایک ساتھ رہنے کے آتے ہیں ، ابن خلدون نے معاشرے کوحیوانی جسم کی طرح اور ارسطو نے انسان کو سماجی جاندارسے تعبیر کیا ہے ، علامہ جمال الدین افغانی کا خیال ہے کہ زندگی کی اجتماعی صورت کا ظہور سماج اور معاشرہ ہے اور معاشرہ کی حیثیت ایک جسم کی ہے ، رالف لنٹن  Ralif Lenton)) کے مطابق طویل عرصہ تک ایک جگہ رہنے والے افرا د کا گروہ معاشرہ بن جاتا ہے ، ان کے مابین اشتراک عمل ہوتاہے؛ جس کی وجہ سے وہ سب خود کو ایک جسم کی مانند سمجھتے ہیں۔ انگریزمفکر پروفیسر پیڑک نے لکھا ہے کہ Civics is  A Science Dealing only With Lfie and Prolelems of cites  ان تعریفات کی روشنی میں سماج کا دائرہ افراد کے ہرقسم کے تعلقات تمدنی ، تہذیبی اور ثقافتی احوال وکوائف اور ا ن کے اوصاف حمیدہ اوراخلاق رذیلہ کومحیط ہے ، اس میں نہ تو شعوری غیر شعوری کی تفریق ہے اور نہ ہی انضباط اورغیر انضباط کی ۔سماج کے ساتھ انصاف کو جوڑیں تو مطلب ہوگا کہ سماج کے ہر طبقے کو  ہر سطح پر پھلنے پھولنے اور ترقی کے یکساں مواقع حاصل ہوں ، ذات برادری ، علاقہ کی تفریق کے بغیر ان کے حقوق کا تحفظ اور نگہداشت کیا جارہا ہو اس لئے اللہ رب العزت نے انصاف پرزوردیا اور فرمایا کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو ،توانصاف کے ساتھ کرو ،بے شک اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے، یہ بھی ارشاد فرمایا کہ کسی قوم کی دشمنی انصاف کے راستے میں مزاحم نہ ہو،معاملہ چاہے اپنی ذات، اپنے اعزو اقربااور والدین ہی کا کیوں نہ ہو، کسی بھی حال میں انصاف کا دامن نہ چھوڑا جائے، اس معاملہ میں اللہ کے رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ میں بہت سے واقعات ملتے ہیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابھی نبوت کا اعلان نہیں کیا ہے ، کعبہ کی تعمیر چل رہی ہے ، بات اس پرآکر رکتی ہے کہ حجراسود کو اس کی جگہ پر کون نصب کریگا ، ہرقبیلہ کے سردار اس کام پر اپنا حق جتا رہے تھے اور اپنے دعوی پر اٹل تھے ،قریب تھا کہ کشت و خوں کا بازا ر گرم ہوجائے، حرم پاک میںتلواریں نکل آئیں ، آقا صلی اللہ علیہ وسلم وہاں تشریف لے گئے، آپ کے اخلاق و کردار کے مکہ کے لوگ قائل تھے اور عرب کے نوجوانوں میں آپ کوسب سے اچھا، امین وصادق سمجھتے تھے ، چنانچہ تمام سردا روں نے آپ کو َحکَم مان لیا ، آپ نے فرمایا ، ابھی سب لوگ اپنے اپنے گھرچلے جائیں ، کل صبح سویرے جو شخص سب سے پہلے حرم شریف  میںآئے گا، اس کے فیصلے کو سب مان لیں گے ، سب مان گئے ، صبح کے وقت سردار ان قریش حرم پہونچے تو دیکھا کہ امین صادق محمد صلی اللہ علیہ وسلم پہلے سے وہاں تشریف فرما ہیں ، سب نے مسرت کا اظہار کیا آپ نے فیصلہ کیا کہ حجراسود کو ایک چادر پر رکھا جائے ، اورہر قبیلہ کا سردار اس چادر کو پکڑ کر کعبہ کی دیوارتک لے جائے ، وہاں پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کی طرف سے حجرا سود کودیوار میںنصب کردیا ، جھگڑا بھی ٹل گیا ، اور سب کے حصے میں حجرا سود کو مقام تک پہونچانے کی سعادت بھی حاصل ہوگئی ، ایک اور موقع ہے، اسلام میں حدود وقصاص کے احکام نازل ہوچکے ہیں ، فاطمہ نام کی ایک لڑکی ہے چوری کا ارتکاب کرتی ہے ، جرم شدید ہے ، اسلام میں ہاتھ کاٹنا اس کی سزا ہے ، سفارش میں حضرت زید بن حارثہ ؓ کو لوگ بھیجتے ہیں آپ انہیں بہت چاہتے تھے لوگوں نے سمجھا کہ شاید ان کی بات پر فیصلہ بدلا جاسکے ، حضرت زید ؓ نے جیسے ہی ہاتھ کاٹنے کے عوض کچھ رقم لے کر معاملہ ختم کرنے کی بات کہی ، آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ ٔ مبارک سرخ ہوگیا اور فرمایا؛ تم سے پہلے کے لوگ اسی لئے ہلاک ہوئے کہ کوئی بڑا آدمی چوری کرتا تو وہ اسے چھوڑ دیتے اور کوئی کمزور چوری کرتے تو اس پر سزا جار ی کرتا ، اللہ کی قسم اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے گی تو اس کا ہاتھ بھی ضرور کاٹوں گا ، ان ہدایات کی روشنی میںحضرت علی ؓ فرمایا کرتے تھے کہ کفر کے ساتھ حکومت چل سکتی ہے ، ظلم کے ساتھ نہیں چل سکتی ہے ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اونچ نیچ ، کالے ، گورے عربی عجمی کی تفریق ختم کرکے صاف صاف اعلان کیا کہ تمام انسان بنی آدم کی اولاد ہیں ، اور آدم مٹی سے بنائے گئے تھے ، فرمایا ؛ ساری مخلوق اللہ کا کنبہ ہے اور اللہ کا محبوب وہ ہے جو اللہ کے کنبہ کے ساتھ اچھا سلوک کرے ۔جس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ دنیا نے عظمت کے جو خود ساختہ پیمانے بنا رکھے ہیں وہ سماجی انصاف کے پیمانے نہیں ہیں ، سماجی انصاف یہ ہے کہ حکومت کی نظر میں سب برابر ہوں ، اور نسلی ، لسانی اورعلاقائی بنیادوں پر تفریق نہ کی جائے ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے غیر مسلم کے بارے میں جو امن و امان سے رہتا ہے اور اسلامی ملک میں مقرر کردہ ٹیکس دیتا ہے ، قتل کرنے سے منع کیا اور فرمایا کہ جو کسی ذمی کو قتل کرے گا وہ جنت کی خوشبونہیں پائیگا ؛حالانکہ جنت کی خوشبو چالیس سال کی مسافت تک پائی جاتی ہے ، سماجی انصاف کے تقاضوں کی تکمیل کے لئے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے قیدیوں کے بند ڈھیلے کرائے ، اور ثمامہ بن اثال کو قید سے آزاد کردیا ،آپ کا حسن اخلاق دیکھ کر وہ مسلمان ہوگئے ؛ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مزدوروں ، غلاموں ، پڑوسیوں،معذوروں ، بیوائوں ، مسکینوں ، یتیموں ، عورتوں ، بچوں ، والدین کے حقوق پرانتہائی منصفانہ احکام جاری کئے اورانسانی بنیادوں پرہرایک کی ضرورت کی تکمیل اور ان کی اعانت ، وخبرگیری کی طرف لوگوں کو متوجہ کیا ،حدودوقصاص میں آقا اور غلام کے فرق کو مٹادیا ، اور فتنہ فساد کوروکنے کے لئے سخت ہدایات جاری کیں ، ان ہدایات کے علاوہ انسانی خیر کو بیدار کرنے اور ظلم وسرکشی سے اجتناب کرنے کے لئے آقاصلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی ارشادفرمایا کہ مظلوموں کی بدعائوں سے بچو؛ کیوں کہ اس کی آہ سیدھے عرش تک پہنچتی ہے ۔
سماجی انصاف کے ساتھ حکومت کرنے کی وجہ سے ہی مملکت اسلامی میں امن وامان کی فضا قائم ہوتی اور دوردراز کے علاقوں میں سفر اطمینان کے ساتھ ہونے لگا؛ آقاصلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ ایک سوار صنعاء سے حضر موت تک سفرکرے گا اوراسے اللہ کے علاوہ کسی کاڈر نہیں ہوگا ، واقعہ یہ ہے بے امنی کا ایک خا ص سبب سماجی انصاف سے ر وگردانی ہے ، بدامنی ، احتجاج، مظاہروں کے پیچھے کہیں نہ کہیں محرومی کارفرما ہوتی ہے، محرومی ہی بغاوت کو جنم دیتی ہے ،آقاصلی اللہ علیہ وسلم نے سماجی مساوات اور انصاف کا جو تصوردنیا کو دیا، وہ اپنے آپ میں بے نظیر ہے۔خلفاء راشدین اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین  نے انہیں بے بنیادوں پر سماجی انصاف کے ساتھ حکومت کے کام کو آگے بڑھایا ، چنانچہ اسی انصاف کے تقاضے کو ملحوظ رکھتے ہوئے حضرت عمرؓ نے بیت المقدس کے فتح کے بعد جو امان نامہ دیا اس میں لکھا کہ یہ امان نامہ ان کی جان ومان ، گرجا ، صلیب ، تندرست ،بیمار اور ان کے تمام مذاہب والوں کے لئے ہے، ان کے گرجائوں میںنہ سکونت کی جائیگی نہ ڈھائے جائیں گے ، نہ اس کو اور نہ اس کے احاطے کو کچھ نقصان پہونچایا جائے گا نہ ان کی صلیبوں اور نہ ان کے ما ل میں کچھ کمی کی جائے گی ، مذہب کے بارے میں ان پرجبر نہیںکیا جائے گا ، اور نہ ان میں سے کسی کو نقصان پہونچایا جائے گا ، ہر دور میں اس پر عمل کیا جاتا رہا ، یہ سماجی انصاف کا ہی تقاضہ تھا کہ امیر المومنین حضرت علی ؓ پر مقدمہ چلا ،عدالت میں ان کی حاضری ہوئی ، اور مقدمہ یہودی کے حق میں فیصل ہوگیا دنیا کے دوسرے مذاہب میں اس کی کوئی نظیر نہیںملتی ، آج کے دور میں ا سکی اہمیت و معنویت بعض خارجی وداخلی احوال کی وجہ سے دوچند ہوگئی ہے ۔

جمعہ, مارچ 08, 2024

شرط سلیقہ ہے ہر اک امر میں ____

شرط سلیقہ ہے ہر اک امر میں ____
 اردودنیانیوز۷۲
✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

سلیقہ کا مطلب کسی بھی کام کو نظم وترتیب سے انجام دینا ہے، اگر یہ سلیقہ مجموعی طورپر کسی معاشرہ میں پایا جائے تو اسے عربی میں ’’الذوق الاجتماعی‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں، اسے قرینہ، خوش اسلوبی اور ذوق کے متبادل کے طورپر بھی استعمال کیا جاتا ہے، میر تقی میر کا مشہور شعر ہے۔
شرط سلیقہ ہے ہر اک امر میں

عیب بھی کہنے کو ہنر چاہئے

ڈاکٹر کلیم عاجز بھی یاد آگئے۔
بات چاہے بے سلیقہ ہو کلیم

بات کرنے کا سلیقہ چاہئے

وسیم بریلوی کی بھی سن لیجیے
کون سی بات کب کہاں کیسے کہی جاتی ہے

یہ سلیقہ ہو تو ہر بات سنی جاتی ہے
یہ سلیقہ مندی نظام وانتظام کی خوبی سے پیدا ہوتی ہے، یہ خوبی پوری دنیا کو اسلام کی دَین ہے کہ جو کام کیا جائے سلیقہ سے کیا جائے، خواہ کام چھوٹا ہو یابڑا، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے سارے کاموں میں اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اسے سلیقہ سے کیا جائے ’’ان اﷲ تعالیٰ یحب اذا عمل احدکم ان ینقیہ‘‘ (شعب الایمان، باب فی الامانات) حضرت مفتی محمد شفیع صاحبؒ نے معارف القرآن میں سورۂ صافات کی ابتدائی آیت کی تفسیر میں لکھا ہے:
’’اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر کام میں نظم وضبط اور ترتیب وسلیقہ کا لحاظ رکھنا دین میں مطلوب اور اللہ تعالیٰ کو پسند ہے، ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت ہو یا اس کے احکام کی تعمیل یہ دونوں مقصد اس طرح بھی حاصل ہوسکتے تھے کہ فرشتے صف باندھنے کے بجائے ایک غیرمنظم بھیڑ کی شکل میں جمع ہوجایا کریں، لیکن اس بد نظمی کے بجائے بتا دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کو ان کی یہ ادا بہت پسند ہے‘‘(۷؍۴۱۷)
یہی وجہ ہے کہ عبادات، معاملات اور معاشرت تینوں میں سلیقہ مندی پر شریعت نے زور دیا، نماز میں صفوں کی ترتیب، درمیان میں خلا نہ چھوڑنا یہ بھی سلیقہ مندی کا مظہر ہے، جانور کو ذبح کرتے وقت کم سے کم تکلیف پہونچانا اور پورا سر نہ اتارنا، صرف مطلوبہ رگوں کو کاٹنے کا حکم سلیقہ سے ذبح کرنے کی غرض سے ہی دیا گیا ہے۔
مسلمانوں کے یہاں اس پر توجہ کم دی جارہی ہے جس کی وجہ سے سلیقہ مندی یاتو ختم ہوتی جارہی ہے یاکم ہورہی ہے، حالاںکہ ہمارے یہاں تو دسترخوان بچھانے اور اٹھانے تک میں سلیقہ کی رعایت سکھائی گئی ہے، دسترخوان پر گرے ہوئے اجناس کو اٹھاکر کھالینا، اپنے سامنے سے کھانا، چھوٹے چھوٹے لقمہ اٹھانا، خوب چبا چبا کر کھانا، دسترخوان پر اس کی رعایت کرنا کہ میرا بھائی مجھ سے زیادہ کھائے، مشروبات کے استعمال میں چسکی کی آواز نہ آنا، کھانا اٹھ جانے کے بعد دسترخوان سے اٹھنا، یہ سب سلیقہ مندی کے ذیل میں ہی آتے ہیں، حضرت مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ نے اپنے والد مفتی محمد شفیع صاحبؒ کے بارے میں لکھا ہے کہ ایک بار وہ میاں اصغر حسین محدث کے مہمان ہوئے، کھانا ختم ہونے کے بعد حضرت مفتی صاحبؒ نے فرمایا کہ دسترخوان جھاڑدوں؟ فرمایا کہ تمہیں دسترخوان اٹھانا آتا بھی ہے؟ فرمایا : اس میں کیا خاص بات ہے؟ارشاد ہوا: تمہیں نہیں آتا، حضرت نے فرمایا: سکھا دیجئے، میاں اصغر حسین صاحب اٹھے، ایک پلیٹ لیا، دسترخوان پر روٹی کے بُرادے کو ایک طرف رکھا، گوشت کے چھیچھڑے کو دوسری طرف رکھا، روٹی کے بڑے ٹکڑے جو بچ گیے تھے اسے ایک طرف رکھا، ہڈی کو پلیٹ کے ایک کونے میں رکھا اورباہر نکل پڑے، ایک جگہ بُرادے کو، دوسری جگہ روٹی کے ٹکڑے کو تیسری جگہ ہڈی اور چوتھی جگہ روٹی کے پس ماندہ ٹکڑے کو الگ الگ رکھا، واپس آکر دستر خوان اٹھا لیا، دریافت کرنے پر فرمایا کہ روٹی کے ذرات ہم نے چیونٹی کے سوراخ پر، ہڈی کتوں کے آنے کی جگہ، روٹی کے ٹکڑے پرندوں کی جگہ اور چھیچھڑے بلی کے آنے کی جگہ پر ڈال دیا ہے ، یہ باقیات سب کی خوراک کے کام آئیں گے ، ہڈی تو جناتوں کی بھی خوراک بنا کرتی ہے، اگر ایسے ہی دستر خوان جھاڑ دیتا تو باقیات ضائع ہوجاتے، سلیقہ کی وجہ سے کتنی مخلوقات کے کھانے کا نظم ہو گیا۔
ہمارے استاذ حضرت مولانا وحید الزماں کیرانوی ؒ کے کمرہ میں بعد نماز عصر چائے وائے کی مجلس لگتی تھی، حضرت خود ہی دسترخوان پر غذائی اشیاء لگاتے اور متوجہ کرتے کہ اس کو یہاں رکھنا چاہیے، چائے اس طرح پینی چاہیے کہ چُسکی کی آواز نہ نکلے، حضرت نستعلیق قسم کے آدمی تھے، ان کے شاگردوں میں جو جس قدر ان سے قریب رہا وہ اسی قدر سلیقہ مند بن گیا، حضرت کی سلیقہ مندی کا لازمی جزیہ بھی تھا کہ وہ آنے والے سے پورے کپڑے،کرتا، پائجامہ ٹوپی اور شیروانی کے ساتھ ملا کرتے ، فرماتے کہ مہمان کے استقبال اور اکرام کا یہ سلیقہ ہے، گنجی وغیرہ میں مہمانوں سے ملاقات کرنا ملنے والے کی بد سلیقگی کو بتاتا ہے اور مہمان کو یہ موجب ہتک محسوس ہوتا ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ سلیقہ مندی سے سامنے والا متاثر ہوتا ہے اورکام جلد ہونے کی توقع رہتی ہے ، گھر کو سجانے کے لیے گلدستے اور پھول ہی ضروری نہیں ہیں ، سلیقہ مند عورتیں کھانا پکانے کے برتن اور چائے کی پیالی اور کیتلی سے بھی گھر کو سجا لیتی ہیں اور’’ناک میں فقط نیم کا ٹکڑا‘‘ بھی حسن کو دو بالاکر سکتاہے ، لیکن اگر سلیقہ نہ ہو تو کام میں دشواری پیدا ہوتی ہے اور بسا اوقات کام رک جاتا ہے ، مثلاً آپ کو کسی دفتر سے کوئی کاغذ نکلوانا ہے، آپ نے مطلوبہ کاغذ فراہم نہیں کیا، درخواست کی ترتیب الٹ کر نیچے لگا دیا، درخواست پر دستخط ہی نہیں کیا، یوں ہی چھوڑ دیا، سادہ کاغذ کا استعمال کر لیا ، دستخط کی جگہ مہر لگا دیا، دستخط اور مہر لگا ہوا لیٹر پیڈ سادہ کسی کے حوالہ کر دیا، یہ سارے کام بد سلیقگی کے ہیں، اگر آپ نے دستخط کے بجائے نام کی مہر لگی ہوئی درخواست کسی کے حوالہ کر دیا تو ایساممکن ہے کہ وہ سادے لیٹر پیڈ پر آپ کی مہر لگا کر آپ کا استعفیٰ نامہ کمیٹی کے سامنے پیش کر دے اور آپ منہہ دیکھتے رہ جائیں، چوں کہ لیٹر ہیڈ ، مہر سب اصلی ہیں، ایسے میں آپ اپنے استعفیٰ کا انکار نہیں کر سکتے ، اسی طرح اردو ، ہندی میں پِن لگانے کے قاعدے الگ الگ ہیں، ہندی، انگریزی کے صفحات بائیں کھلتے ہیں، اس لیے پِن بائیں میں لگایا جاتا ہے اردو کی درخواست میں آپ نے بائیں پِن کر دیا تو وہ داہنی طرف کھل ہی نہیں سکے گا، یہ بد سلیقگی کے ذیل میں آئے گا۔ آپ کہیں گے یہ بہت چھوٹی بات ہے ، یقینا چھوٹی ہے، لیکن شاعر نے کہا ہے۔
 ایک تنکا حقیر ہے لیکن  وہ ہواؤں کا رخ بتاتا ہے 
اسی طرح بعض کا غذات کے حصول کے لیے اصل کاغذات پیش کرنے ہوتے ہیں، اب اگر فوٹو کاپی لے کر آئے ہیں، تو یہ بد سلیقگی ہے اور خطرہ یہ بھی ہے کہ دوسرا کوئی جس کے پاس اصل کاغذات ہیں، آپ کے مطلوبہ کاغذات لے کر چلا جائے اور آپ کو فوٹو کاپی لے کر واپس جانا پڑے، اس لیے ہر ممکن سلیقہ برتیے، اپنے مطلوبہ کاغذ کے حصول کے لیے ضروری شرائط کی تکمیل کیجئے، آپ آسانی سے اپنے مطلوب تک پہونچ جائیںگے، جو کاغذات تیار کرنے ہیں ، اسے جس دفتر سے کاغذ نکلوانے ہیں وہاں بیٹھ کر تیار نہ کریں، اسے گھر سے تیار کرکے لے جائیں اور خوب اچھی طرح دیکھ لیں کہ کوئی چیز چھوٹ تو نہیں رہی ہے، درخواست پر دستخط کا سلیقہ یہ ہے کہ اگر آپ مکڑی کے جالے کی طرح دستخط کرتے ہیں تو اس کے نیچے قوسین (برائکٹ) میں صاف صاف نام لکھیں، تاکہ اسے پڑھا جاسکے، دستخط کے نیچے فارم وغیرہ لکھنے کے بجائے اپنا عہدہ صاف صاف لکھیں۔
 بعض کاغذات کو دوسروں کو اٹسٹیڈ کرنا ہوتا ہے ، اٹسٹیڈ کرنے والے کا سلیقہ یہ ہے کہ وہ سامنے والے کے تمام کاغذات کو بغور دیکھ لے اس لیے کہ اس میں کسی قسم کی کمی کی وجہ اس کی بدسلیقگی اور بے اعتنائی کو قرار دیا جا سکتاہے اور ہو سکتا ہے کہ اس سے باز پرس بھی ہو جائے کہ آپ نے سادے کاغذ پر تصدیق کیوں کر دی ، اور مطلوبہ کاغذات کی جانچ کیوں نہیں کی ، اس کا مطلب ہے کہ آپ کی تھوڑی سی توجہ اور سلیقہ مندی سے آپ کا کام جلد ہو سکتا ہے، آسانی سے ہوسکتا ہے اور آپ بہت سارے خطرات سے بچ سکیں گے ۔خوب یاد رکھیے بدسلیقگی سے پریشانیاں بڑھتی ہیں، سرکاری دفاتر میں ہرکام رشوت کی ہی وجہ سے نہیں رکتا، آپ کی بدسلیقگی کا بھی اس میں بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔

بدھ, مارچ 06, 2024

مثبت سوچ _____

مثبت سوچ _____Urduduniyanews72 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 

انسانی زندگی میں اتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے، مختلف قسم کے واقعات وحوادثات ذہن ودماغ پر اثر انداز ہوتے ہیں، ایسے موقع سے ذہن میں دو قسم کے خیالات پیدا ہوتے ہیں، ایک اس واقعہ کا منفی پہلو ہوتا ہے اور ذہن عموماً ادھرہی منتقل ہوتا ہے، اس منفی سوچ اور منفی اثرات سے انسان کے اندر مایوسی پیدا ہوتی ہے، کام کرنے کا جذبہ سرد پڑ جاتا ہے اور اس کا بہت سارا وقت یہ سوچتے ہوئے گذر جاتا ہے کہ ایساکیوں ہوا؟ یہ معاملہ تو میرے خلاف چلا گیا ، اس کی وجہ سے میری پریشانیاں بڑھیں، سوچنے کا دوسرا طریقہ اس واقعہ کا مثبت پہلو ہے، اس پہلو تک ذہن کی رسائی آدمی کو مفلوج نہیں کرتی بلکہ اس کے قوت عمل کو مہمیز کرتی ہے، اور بسا اوقات وہ ایسا کر گذرتا ہے ، جس کی توقع عام حالات میں اس سے نہیں لگائی جا تی ۔ ابھی حال میں مطالعہ میں ایک صاحب کا واقعہ آیا ، وہ سال کے آخری دن پورے سال کی حصولیابیوں کا جائزہ لے رہے تھے، جائزہ کے بعد وہ اس نتیجہ پر پہونچے کہ یہ سال میرے لیے انتہائی بُراتھا، کیوں کہ انہیں ایک آپریشن کے نتیجے میں کئی ماہ بستر سے لگا رہنا پڑا تھا ، ساٹھ سال کی عمر ہو جانے کی وجہ سے وہ اپنی پسندیدہ ملازمت سے سبکدوش ہوچکے ، اسی سال ان کے والد اسی(۸۰) سال کی عمر میںراہئی آخرت ہو گیے ایک حادثہ میں بیٹا ایسا معذور ہوا کہ کئی ماہ اسے پلاسٹر کراکربستر پر پڑے رہنا پڑا، اس بیماری کی وجہ سے وہ امتحان کی بہتر تیاری نہیں کر سکا ، اور فیل ہو گیا ، ظاہر ہے اس سے بُرا سال اور کیا ہو سکتا ہے، اس منفی سوچ کے نتیجے میں وہ ذہنی اور دماغی طور پر پریشان رہنے لگے، لیکن جب ان کی رفیقہ حیات نے انہیں واقعات کا جائزہ لیا تو اس کا احساس تھا کہ یہ سال ہر اعتبار سے اچھا رہا ، اس لیے کہ برسوں سے پتّے کے درد سے پریشان میرے خاوند کو درد سے نجات مل گئی ،ا نہوں نے صحت وسلامتی کے ساتھ اپنی مدت ملازمت پوری کرلی اب وہ دفتری مصروفیات سے آزاد ہونے کی وجہ سے گھریلو معاملات پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں ، مکمل یکسوئی کے ساتھ لکھنے پڑھنے میں ان کا وقت لگ رہا ہے ، اس کا احساس تھا کہ میرے سسر لمبی عمر پا کر بغیر کسی پر بوجھ بنے اور غیر معمولی تکلیف اٹھائے دنیا سے رخصت ہوئے، میرا بیٹا ایک حادثہ میں بال بال بچ گیا،گاڑی جس طرح تباہ ہوئی اس طرح بیٹا بھی موت کے آغوش میں سو سکتا تھا، اللہ نے بڑا کرم کیا ، میرا بیٹا زیادہ معذور نہیں ہوا، بچ گیا ، گاڑی تو دوسری بھی آجائے گی ، اگر میر ابیٹا مر جاتا تو؟ اس نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس سال کو اللہ نے میرے لیے رحمت بنا کر بھیجا تھا ، آپ نے دیکھا واقعات وہی ہیں؛ لیکن نتائج الگ الگ اخذ کیے جا رہے ہیں، ایک منفی انداز میں تجزیہ کررہا ہے تو اسے پورے سال میں خرابی ہی خرابی نظر آتی ہے ، اور دوسرے کی سوچ مثبت ہے تو اس کو خیر ہی خیر پورے سال میں نظر آتا ہے، ظاہر ہے اس سوچ کا اثر اعمال پر بھی پڑتا ہے، منفی سوچ والا شکایتوں کے دفتر لے کر بیٹھ جائے گا اور مثبت سوچ والا کلمۂ شکر سے اپنی زبان کو تازگی بخشے گا ، اس لیے واقعات وحالات کا ایجابی اور مثبت اثر لینا چاہیے، زندگی بہتر انداز میں گذارنے کا یہی طریقہ ہے، آپ کے سامنے ایک گلاس ہے، جس میں تھوڑا پانی ہے، آپ اسے آدھا بھرا بھی کہہ سکتے ہیں، اور آدھا خالی بھی ، واقعاتی اعتبار سے دونوں صحیح ہے، لیکن اگر آپ اس گلاس کو جس میں پانی ہے، آدھا بھرا کہتے ہیں تو آپ کی سوچ مثبت ہے، اگر آپ اسے آدھا خالی کہتے ہیں تو یہ آپ کی منفی سوچ کی غماز ہے، اُگتے اور ڈوبتے سورج کا منظر یکساں ہوتا ہے، آپ کے سامنے تصویر رکھی گئی ، آپ نے کہا کہ یہ اُگتے سورج کی تصویر ہے، تو یہ آپ کی مثبت سوچ کی نشانی ہے ، کیوں کہ آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ رات کی تاریکی دور ہو گئی اور آنے والا دن روشن اور تابناک ہے، لیکن اگر آپ نے اس تصویر میں سورج کو ڈوبتا ہوا سمجھا تو یہ آپ کی منفی سوچ کا مظہر ہے ، آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ سورج ڈوب رہا ہے، روشن دن کا خاتمہ ہوا، آگے تاریک رات ہے، اس سوچ کا اثرآپ کے قوت فکر وعمل پر پڑے گا ، تقریر وتحریر پر بھی پڑے گا ، اس کی وجہ سے آپ کے کہنے کا اسلوب اور الفاظ بھی بدلے گا ، گلزار دبستاں میں ایک کہانی لکھی ہے کہ بادشاہ نے خواب دیکھا کہ اس کے سارے دانت گر گیے ہیں، نجومی نے تعبیر بتائی کہ آپ کے سارے اعزواقرباء آپ کی زندگی میں مر جائیں گے ،بادشاہ نے کہا کہ اچھا میرا بیٹا ، میری بیوی، میرا بھائی سب مر جائے گا اور میں ان کا جنازہ اٹھانے کے لیے زندہ رہوں گا، بادشاہ نے اس نجومی کو قید کر دیا ، دوسرے کو بلایا ، اس نے مبارک سلامت کہہ کر پہلے تو بادشاہ کے ذہن پر پہلی تعبیر کے اثرات کو دور کیا ، پھر کہا کہ حضور اس کی تعبیر یہ ہے کہ پورے خاندان میں اللہ آپ کی عمر سب سے دراز کرے گا ، بادشاہ نے خوش ہو کر اسے موتیوں سے تولوا دیا ، بات وہی ہے، نتیجہ بھی وہی ہے، لیکن ایک موت کی بات کرتا ہے، جسے کم ہی لوگ پسند کرتے ہیں اور ایک زندگی کی اور درازی عمر کی بات کرتا ہے، جس کی خواہش ہر کس وناکس کو ہوتی ہے، تعبیر کا یہ فرق بھی مثبت منفی سوچ کو ظاہر کرتا ہے۔دفتری معاملات میں کچھ کام آپ سے لے کر دوسروں کو دیدیئے گئے ، منفی سوچ والا یہ کہے گا کہ میرے پَر کتر ے جا رہے ہیں اور دفتر میں مجھے بے وزن کیا جا رہا ہے ، مثبت سوچ والا اس واقعہ سے اس نتیجہ پر پہونچے گا کہ ہمارا دفتری بوجھ ہلکا ہو گیا ، اب ہم ان کاموں پر جو میرے ذمے رہ گیے ہیں، زیادہ توجہ اور محنت سے وقت لگا سکتے ہیں، جو ذمہ داریاں دوسروں کے حوالہ کر دی گئی ہیں، اس شخص کی اگر سوچ مثبت ہو گی تو وہ اسے آزمائش اور امتحان سمجھ کر اٹھائے گا، اور اس اضافی ذمہ داری کی وجہ سے اس کے اندر آمریت اور حاکمیت کا مزاج نہیں پیدا ہوگا، لیکن اگر سوچ منفی ہے تو اس کے اندر کبر ونخوت ، حاکمت اور آمریت کا مزاج پیدا ہوگا جو دیر سویر خود اس کے لیے مہلک ثابت ہو گا ، ملکوں کی تاریخ اور سماجی مشاہدات تو یہی بتاتے ہیں۔

منگل, مارچ 05, 2024

مولانا قاری احمد اللہ صاحب بھاگلپوری (یادوں کے چراغ)

مولانا قاری احمد اللہ صاحب بھاگلپوری  
  (یادوں کے چراغ)
Urduduniyanews72 
  ✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار، اڈیشہ و جھارکھنڈ 
مشہور خادم قرآن ، استاذ الاساتذہ، جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل کے صدر القراء ’’بڑے قاری صاحب‘‘ کے نام سے عالمی شہرت یافتہ ، فنا فی القرآن، قرآن کریم صحت کے ساتھ پڑھنے کو تحریک کا رنگ دینے والے عظیم انسان حضرت مولانا قاری احمد اللہ صاحب بھاگلپوری نے 29؍ رجب المرجب 1445ھ مطابق 10؍ فروری 2024ء بروز ہفتہ اس دنیا کو الوداع کہہ دیا، وہ وضو کے لیے اٹھے تھے، اور گر گیے، جس کی وجہ سے ناک سے بہت سارا خون نکل گیا، آئی سی یو میں داخل کیا گیا ، صحت قدرے بحال ہوئی ، خون کا آنا رک گیا، لیکن ہارٹ اٹیک ہوا، آکسیجن کم ہوتا چلا گیا ، قلب کی حرکت صرف پندرہ فی صد رہ گئی تھی ، وینٹیلیٹر پر ڈالا گیا ، آواز بند ہو گئی، سانس اکھڑ گئی، اور آنکھوں نے بند ہو کر اس دنیا سے رخ موڑ لینے کا پیغام سنا دیا ، ہزاروں معتقدین ، شاگر اور محبین دیکھتے رہ گیے ، آنکھوں نے آنسوؤں سے غسل کیا، سورت اسپتال سے گھر اور گھر سے جامعہ اسلامیہ تک کا سفر عقیدت مندوں کے کاندھوں پر ہوا، بعد نماز مغرب حضرت کے جلیل القدر شاگرد مفتی محمد عباس بسم اللہ نے جنازہ کی نما زپڑھائی اور ڈابھیل کے مقامی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی، پس ماندگان میں اہلیہ، دو لڑکے اور دو لڑکیوں کو چھوڑا، صاحب زادہ کا نام اسعد اللہ اور سعود اللہ ہے، مولانا سعوداللہ نے امارت شرعیہ کے المعہد العالی سے تدریب افتاء وقضاء کیا ہے اور والد کے ساتھ ڈابھیل میں ہی قیام کرتے ہیں، مولانا اسعد اللہ بھاگل پور میں ایک مدرسہ کے مہتمم ہیں، جو حضرت مولانا قاری احمد اللہ صاحب کا قائم کردہ ہے، تین بھائی اور دو بہن تھیں، آپ بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔
 مولانا قاری احمد اللہ صاحب بن حاجی معارف حسین (1977ء) بن فضیل کریم بن تعلیم حسین بن بھِکاری شیخ بن جان محمد 12؍ ربیع الاول 1336ھ مطابق 15؍ اپریل 1944ء کو اپنے آبائی گاؤں کرن پور ، ضلع بھاگلپور میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم گاؤں میں حاصل کرنے کے بعد حفظ قرآن کا آغاز مدرسہ اصلاح المسلمین چمپا نگر بھاگلپور میں قاری عبد الرشید صاحب کے پاس کیا اور تکمیل مدرسہ شاہی مراد آباد میں قاری ابراہیم کی درسگاہ سے ہوئی، کچھ تعلیم جامعہ رحمانی مونگیر میں ہوئی ا ور ہدایہ تک کی تعلیم دار العلوم دیو بند میں پائی، وہاں سے دوبارہ مدرسہ شاہی آگیے اور یہیں سے 1393ھ مطابق 1973ء میں سند فراغ حاصل کیا، آپ کے نانا کا نام شرافت خاں اور نانی بطول النساء تھیں جو، جواکھر، ڈاکخانہ سمستی پور، تھانہ شاہ کنڈ، ضلع بھاگلپور کے رہنے والے تھے، شادی 25؍سال کی عمر میں گاؤں میں ہی اپنی پھوپھی کی لڑکی سے کرن پور میں ہوئی، آپ کو دلچسپی شروع سے ہی قرآن کی تلاوت سے رہی، چنانچہ مدرسہ شاہی مرادآباد کے نامور استاذ قاری کامل صاحب سے تجوید وقراء ت کے رموز میں مہارت تامہ حاصل کی۔
 تدریسی زندگی کا آغاز جامعہ اسلامیہ ڈابھیل گجرات سے 11؍ شوال 1394ء میں کیا، 1982ئ؁ میں انقلاب دارالعلوم کے بعد جب حضرت مولانا قاری عبد اللہ سلیم صاحب امریکہ کو اپنا مستقر بنالیا تو دارالعلوم دیوبند کے ارباب حل وعقد کی نگاہ حضرت قاری احمداللہ صاحب تک پہونچی اور وہ دارالعلوم دیوبند منتقل ہوگئے، لیکن ڈابھیل کی محبت جو سودائے قلب میں ان کے جاگزیں تھی، وہ دارالعلوم دیوبند کی محبت پر غالب آگئی اور وہ صرف ایک سال دار العلوم دیو بند کے شعبہ قرأت کو اپنی خدمت دے سکے اور پھر سے وہ ڈابھیل چلے آئے اور پوری زندگی خدمت قرآن میں لگادی، تا آں کہ خالق کائنات نے انہیں اپنے پاس بلا لیا، قاری صاحب خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ کے صحیح مصداق تھے، وہ حقیقتاً خادم قرآن تھے،ا نہوں نے کئی نسلوں کو قرآن کریم صحت کے ساتھ پڑھنا سکھایا ، دا رالقرآن کفلیتہ اور جامعہ اشاعت الاسلام اکل کنواں میں جو قرآن پر محنت ہو رہی ہے اس میں ان کا خون جگر بھی شامل ہے۔
قاضی صاحب کو اللہ رب العزت نے انتہائی خوبصورت اور وجیہ بنایا تھا، اکاسی (81) سال کی لمبی عمر کے بعد بھی ان کے چہرے سے قرآن کریم کی خدمت کا نور جھلکتا نہیں چھلکتا تھا۔انہوں نے ہزاروں کی تعداد میں قراء ومجودین بنائے، خصوصا گجرات میں صحت کے ساتھ قرآن پڑھنے اورپڑھانے کا جو ماحول بنا وہ ان کی کد وکاوش اور جد وجہد کا عظیم مظہر ہے، آج جو لوگ بھی اس طرف اس کام سے جُڑے ہوئے ہیں وہ بالواسطہ یا بلا واسطہ ان کے شاگرد ہیں۔
 اللہ تعالیٰ نے تصنیف وتالیف کا بھی اچھا شعور بخشا تھا، پچیس کتابیں انہوں نے تیار کیں، ان میں سے بیش تر تجوید وقرأت سے متعلق ہیں، ان میں مرقاۃ التجوید، مراء ۃ التجوید، معلم الصبیان فی قواعد تجوید القرآن (چھپے)، کتاب التلخیص فی قواعد تجوید، مبادیات قراء ات، تلخیص العالی فی القراء ات السبع من طریق الشاطیہ والتیسیر، التحفۃ المکیۃ فی القراء ات الثلاث من طریق الدرۃ المضیۃ وتجسیر التسیر، تحفۃ النظر شرح طبیۃ النشر فی القراء ات الحشر کتاب التکبیر، اسلام میں قرآن مجید کا مقام خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔
اس کے علاوہ قواعد الصرف (دو اجزائ) الدروس الاساسیۃ فی تعلیم اللغۃ العربیۃ (دوجز) درسی نصابی کتابیں ہیں، ان کے علاوہ تیرہ کتابیں تجوید وقراء ت اور سات کتابیں نحو وصرف اور عربی تعلیم سے متعلق غیر مطبوعہ ہیں، شاگردوں کے ساتھ یہ بھی ان کے لیے صدقہ جاریہ ہیں۔
حضرت قاری صاحب سے میری صرف چار ملاقاتیں تھیں، پہلی ملاقات اس وقت ہوئی جب وہ دارالعلوم دیوبند میں استاذ ہوکر آئے، اس زمانہ میں، میں افتاء کا طالب علم تھا اور جمعیۃ الطلبہ کا جنرل سکریٹری، یہ ملاقات حضرت کو پورے طورپر محفوظ تھی اور نام بھی ان کو یاد ہوگیا تھا، دوسری ملاقات ڈابھیل میں ہوئی، ایک ملاقات دارالقرآن جمبوسر میں اسلامک فقہ اکیڈمی کے سمینار کے موقعہ سے ہوئی تھی اور آخری ملاقات 2016ئ؁ میں امارت شرعیہ میں ہوئی تھی، ان کے چھوٹے صاحب زادہ مولانا سعد اللہ بھی ان کے ساتھ تھے، جب میرا سفر امیر شریعت سادس کے ساتھ گجرات کا ہوا تھا اور تمام قابل ذکر جامعات میں جانا ہوا تھا، اسی موقع سے جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل بھی جانا ہوا، عصر بعد حضرت کے حجرے میں ملاقات ہوئی، اور خرد نوازی کا جو نقش اس دن دل پر قائم ہوا، وہ آج تک باقی ہے ۔
یہ چوتھی ملاقات تھی، انہوں نے بھاگلپور میں ایک مدرسہ قائم کیا تھا، اس کا رجسٹریشن کرانا چاہتے تھے، مجھ سے جو رہنمائی ہو سکی، کر دیا تھا، حضرت نے بہت دعائیں دیں اورصاحب زادہ کو تلقین کیا کہ مدرسہ اور اس کے متعلقات کی قانونی اور دستوری تحفظ کے لیے وہ مجھ سے رابطہ میں رہیں، لیکن پھر بات آئی گئی ہو گئی ، ایک بار مدرسہ کے جلسہ میں بھی یا دکیا تھا، لیکن میں اپنی مشغولیت کی وجہ سے وہاں حاضر نہ ہو سکا، جس کا مجھے آج تک افسوس ہے ۔
 انہوں نے آخری وقت میں اپنے شاگردوں کو جو وصیت کی وہ یہ کہ ’’گاؤں گاؤں گھومو اور مسلمانوں کو مکتب کے ذریعہ قرآن پاک سے جوڑو، اس کے سوا عزت کا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے، نوجوان فضلاء کو اس جانب خصوصی طور پر متوجہ کرو، ان کی ذہن سازی کرو کہ مرتے دم تک قرآن کی خدمت میں لگے رہیں‘‘۔ اپنے تین شاگرد قاری حمزہ ، قاری اسحاق اور قاری رضوان سے فرمایا : ’’دیکھو ایک نصیحت یاد رکھنا اپنی زندگی کا کوئی ایک گھنٹہ بھی ایسا نہ گذرنے دینا جو قرآن سننے یا پڑھنے سے خالی ہو۔ یہ بھی فرمایا کہ ہم تو اساتذۃ سے کہتے ہیں کہ مکتب سے ہی عربی زبان سکھانا شروع کر دو، جب بچے ساری زبانیں سیکھتے ہیں تو عربی کیوں نہیں سیکھیں گے ۔
 اللہ تعالیٰ حضرت کی مغفرت فرمائے اور ان کے پس ماندگان ، شاگرد اور متعلقین کو صبر جمیل کی دولت سے مالا مال کرے، رحمۃ اﷲ رحمۃ واسعۃ

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...