Powered By Blogger

منگل, مئی 28, 2024

بہار میں ووٹنگ کا گرتا تناسب

بہار میں ووٹنگ کا گرتا تناسب 
Urduduniyanews72 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ

ہندوستان کا شمار دنیا کے بڑے جمہوری ملک میں ہوتا ہے ، یہاں کے انتخاب کودنیا بھر میں دکھانے کے لیے مختلف ملکوں سے پرنٹ میڈیا الکٹرونک میڈیا کے لوگ ہوتے ہیں، ان کی حیثیت صرف صحافی کی نہیں ہوتی بلکہ وہ بڑی حد تک انتخاب کے مشاہد ہوتے ہیں، وہ دیکھتے ہیں کہ ووٹ دینے کا تناسب اور فی صد کیا رہا ،اس کام کے لیے بتیس ملکوں کے ستر صحافی ان دنوں ہندوستان میں ڈیرہ ڈالے ہوئے ہیں، ابھی تک چار دور کا انتخاب ہو چکا ہے ، اس میں ووٹوں کا تناسب کافی کم پایا گیا ، حالاں کہ انتخابی کمیشن ، ملی تنظیمیں ، ذرائع ابلاغ، مساجد کے ائمہ ودانشور اپنی اپنی سطح سے ووٹروں میں بیداری لانے کی مہم چلا رہے ہیں،بعض تنظیموں کے ارکان گھر گھر دستک دے کر ووٹ دینے کی اپیل کر رہے ہیں، بعضوں کے ذریعہ زوم پر آن لائن میٹنگیں چل رہی ہیں، اشتہارات کے ذریعہ انہیں متوجہ کیا جا رہاہے، لیکن لوگ ووٹ دینے کے لیے گھر سے باہر نکل نہیں رہے ہیں۔ 19؍ اپریل کو بہار میں چار سیٹوں کے لیے اور 26؍ اپریل کو پانچ سیٹوں کے لیے ووٹ ڈالے گیے گذشتہ انتخاب کے مقابلے 19؍ اپریل والے دن 4.21فی صد لوگوں نے کم اپنا ووٹ ڈالا جبکہ 26؍ اپریل میں گذشتہ کے مقابلہ 3.47فی صد کم ووٹ ڈالے جا سکے۔آخر کے دو دور میں ووٹوں کا تناسب قدرے بڑھا، لیکن وہ ساٹھ فیصد کو عبور نہیں کر سکا، 13؍ مئی کو ہونے والے انتخاب میں زیادہ سے زیادہ سنتاون (57)فیصد ووٹنگ ہوئی، ایک ہفتہ کے بعد ممکن ہے الیکشن کمیشن اسے بڑھا کر پینسٹھ (65)فیصد کر دے، جیسا کہ پہلے دو دور میں اس نے کیا۔
 بہار میں ووٹوں کے کم ہوتے تناسب پر ہر کوئی حیران ہے، مختلف حلقوں میں اس کا فائدہ مختلف امید واروں کو مل سکتا ہے اور ہو سکتا ہے کہ کئی امیدواروں کو اس کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑے، یہ معاملہ اس قدر حساس ہے کہ انتخابی کمیشن نے اس کے اسباب تلاشنے کا حکم دیا ہے، بہار میں انتخابی کمیشن نے تمام اضلاع کے ضلع مجسٹریٹ کو خط لکھ کر تمام بوتھوں کی حلقہ وار رپورٹ مانگی ہے ، تاکہ ووٹوں کے کم ہوتے تناسب کے اسباب کا جائزہ لے کر ووٹروں کی دلچسپی کو بڑھایا جا سکے۔
 ووٹوں کے کم ہوتے تناسب کے اسباب وعلل پر بہت زیادہ غور وفکر کی ضرورت نہیں، سامنے کی بات ہے کہ انتخاب کی تاریخیں سب موسم گرما میں رکھی گئی ہیں، جب کہ باد سموم کے جھونکے اور لو کے تھپیڑے اس قدر سخت ہیں کہ لوگوں کا گھر سے نکلنا دشوار ہو رہاہے ،یہ اس بات کا اشاریہ ہے کہ انتخابی کمیشن کو عوام کی سہولت کا ذرا بھی خیال نہیں ہے، اسے اس بات سے کچھ لینا دینا نہیں ہے کہ ملک کی بڑی آبادی اپنی حق رائے دہی کا استعمال نہیں کر رہی ہے، رائے دہندگان خوب اچھی طرح جانتے ہیں کہ جیت ہار کسی کی بھی ہو ، اس کی زندگی میں بدلاؤ کی کوئی شکل نہیں ہے ، جب کہ اس کی زندگی اس کے خاندان اور با ل بچوں کے لیے انتہائی ضروری ہے، ایسے میں عافیت بوتھ پر جا کر ووٹ دینے کے بجائے گھرمیں بیٹے رہنا مناسب ہے، وہ جانتا ہے کہ باہر کی بہ نسبت گھر میں رہنا زیادہ بہتر ہے۔ اس لیے انتخاب کے لیے ماضی بعید کی طرح ٹھنڈک کے موسم کا انتخاب کرنا چاہیے تاکہ لوگ آسانی سے ووٹ دینے کے لیے گھر سے نکل سکیں ، ورنہ عوام کی یہ لا تعلقی اور بے رخی ہندوستانی جمہوریت کو خطرات سے دور کردے گی۔تیسرے اور چوتھے دور میں ووٹوں کا تناسب تھوڑا بڑھائے اس کی بڑی وجہ موسم کا سازگار ہونا ہے۔ گرمی کی تمازت کم ہوئی تو رائے دہندگان نے پہلے دو دور کی بہ نسبت زیادہ پولنگ بوتھ کا رخ کیا۔
ایک دوسری وجہ عوام کی سرد مہری ہے، اب پرچار کے لیے اسٹار چنے جاتے ہیں، اور وہی آکر بھانج کر چلے جاتے ہیں ، عام کارکن کو صرف چا در بچھانے ، مجمع جمع کرنے اور مائیک لگانے کی خدمت ملتی ہے، ایسے میں وہ ذہنی طور پر مایوسی کے شکار ہوتے ہیں اور ان کی حصہ داری انتخاب کے موقع سے طے نہیں ہو پاتی، اس کا اثر اس حلقہ کے عوام پر بھی پڑتا ہے اور ان کی دلچسپی ووٹ دینے سے کم ہوجاتی ہے۔ دل بدلنے اور دل بدلو کو ٹکٹ دینے سے بھی کارکنوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے، کل تک جو کارکن بھاجپا کی مخالفت میں تھے، اس نے پالا بدل کر کانگریس جوائن کر لیا، اور اسے ٹکٹ مل گیا، ایسے میں قہراً جبراً کانگریس کے قدیم کارکنوں کو اس کے پاس جانا پڑتا ہے، جبکہ بھاجپا کے قدیم کارکن اسکے ساتھ ہوجاتے ہیں، اس لیے کارکنوں کو سُبکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور ان کی دلچسپی انتخاب سے کم ہوجاتی ہے اس کا بُرا اثر ووٹروں پر بھی پڑتا ہے اور وہ ووٹ دینے کے لیے بوتھ پر جاتے ہی نہیں، ایسے کارکنوں میں روح پھونکنے کے لیے اس طریقہ کار کو بدلنا انتہائی ضروری ہے ، اس کے بغیر ووٹوں کے تناسب کو بڑھایا نہیں جا سکتا۔
 تیسری وجہ رائے دہندگان کا روزی روٹی کے لیے باہر کا قیام ہے ، ریاست میں ملازمت اور کام نہیں ملنے کی وجہ سے بہار کے لوگ، بڑی تعداد میں دوسری ریاستوں بلکہ ملک سے باہر بھی قیام پذیر ہیں، اس میں نو جوانوں کی بڑی تعداد ہے، وہ انتخاب کے موقع سے واپس اپنے گھر نہیں آپاتے، کیوں کہ سفر کے اخراجات کا ان کا جیب متحمل نہیں ہوتا ، اس لیے ان کا ووٹ یا تو پڑتا نہیں ہے یا پڑتا ہے تو دوسرے لوگ گرادیتے ہیں، ایک طریقہ ڈاک کے ذریعہ ان کی رائے دہندگی کا ہے، لیکن ان پڑھ مزدور اس کے طریقہ کار سے واقف نہیں ہوتے اور ووٹ دینے سے محروم ہوجاتے ہیں، ایسے میں انتخابی کمیشن کو کوئی ایسا طریقۂ کار وضع کرنا چاہتے کہ وہ ووٹ دے سکیں،ا ن کی انتخاب کے وقت اپنے حلقہ واپسی کی راہ بھی سوچنی چاہیے تاکہ وہ بھی جمہوریت کے اس عظیم تہوار میں شریک ہو سکیں ۔
 ایک اور وجہ بوتھ پر قبضہ کا ہونا بھی ہے، اعلیٰ ذات کے لوگ ہریجنوں ، دلتوں اور مسلمانوں کو ڈرا دھمکا کر انہیں بوتھ پر پہونچنے ہی نہیں دیتے اور ان کا جعلی ووٹ ڈال کر اپنے امیدوار کی جیت کی راہ ہموار کرتے ہیں، ملک میں بڑی تعداد ہریجنوں ، مسلمانوں اور دلتوں کی ہے، ان کے ووٹ نہ دینے سے بھی بہار میں ووٹ کا تناسب گرتا جا تا ہے ۔
 یہاں غور وفکر کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ووٹوں کے فی صد میں کمی اور ووٹروں میں جوش کی کمی موجودہ سیاسی جماعتوں اور حکومت کے خلاف یہ بے رخی، عوام اور سماج کی جانب سے ملکی سیاست اور اس کے طریقۂ کار بیزاری کا اعلانیہ بھی ہو سکتا ہے ۔ایسے میں سیاست دانوں کو اپنے نظریات اور طریقۂ کار پر بھی نظر ثانی کرنی چاہیے، انتخاب کے وقت پورے پانچ سال اپنے حلقۂ انتخاب سے غائب رہنا، انتخابی منشور میں کیے گیے دعوے کو پورا نہ کرنا اس سرد مہری کا بڑا سبب ہے۔
 بھاجپادور میں انتخابی عمل کو دن بدن لمبا کیا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے عوام انتخابی عمل سے اکتا جاتی ہے اسے لیڈروں کی آمد ورفت کے موقع سے عوامی آمد ورفت میں دشواریاں ہوتی ہیں، دکانیں بند ہوجاتی ہیں، کاروبار ٹھپ ہوجاتا ہے اور کمزورلوگوں کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے، اگر انتخابی عمل کو مختصر کیا جائے تو لوگوں کی دلچسپی ووٹنگ سے بڑھے گی۔
ان امور پر اگر حکومت اور انتخابی کمیشن توجہ دے اور ان اسباب کو دور کرنے کی شکلیں نکالے تو ووٹ کا تناسب بڑی حد تک بڑھ جائے گا، اور معلوم ہوگا کہ جمہوریت کے اس تہوار میں پورا ہندوستان کثرت کے ساتھ شریک ہے ۔

جمعہ, مئی 03, 2024

وفاق کے مدارس بہتر تعلیم وتربیت کے عظیم مراکز-مفتی محمدثناء الہدی قاسمی

وفاق کے مدارس بہتر تعلیم وتربیت کے عظیم مراکز-مفتی محمدثناء الہدی قاسمی
اردودنیانیوز۷۲
      اچھی تعلیم وتربیت اور بہتر نتائج کے لیے وفاق المدارس سے ملحق مدارس کا انتخاب کریں
پھلواری شریف 3/ مئی(پریس ریلیز):
      وفاق المدارس الاسلامیہ امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھار کھنڈ کے سالانہ امتحانات کے نتائج کا اعلان وفاق المدارس الاسلامیہ کے ناظم مفتی محمدثناء الہدی قا سمی کے ہاتھوں رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں عمل میں آیاتھا، اس موقع سے مفتی صاحب نے ان تمام مدارس کاشکریہ ادا کیاجنہوں نے سالانہ امتحان میں وفاق کاتعاون کیااور صاف ستھرے ماحول میں امتحانات کی پوری کاروائی کو یقینی بنایا۔
      امسال 1445ھ میں مدارس ملحقہ وفاق کے 34298/ طلبہ نے امتحان دیا، عربی ہفتم تک کے طلبہ نے امتحانات میں شرکت کی،جن میں درجہ حفظ کے11080،دینیا ت اول تا پنجم کے 22386اور عربی اول تا عربی ہفتم کے832/طلبہ شامل ہیں، جن مدارس ملحقہ نے امتحانات میں شرکت کیاان میں مدرسہ اسلامیہ شکر پور بھروارہ دربھنگہ، جامعہ ربانی منورواشریف سمستی پور،مدرسہ چشمہ فیض ململ مدھوبنی،جامعہ عربیہ مقیمیہ سرپنیا مشرقی چمپارن اور الجامعۃ العربیۃ سرا ج العلوم تلاپت گنج کے طلبہ کی کارکردگی اچھی رہی۔مفتی صاحب نے امتیازی نمبرات سے کامیاب ہونے والے طلبہ کو نیک دعاؤں کے ساتھ مزیدمحنت سے علم دین حاصل کرنے کی ترغیب دی، مخلص اساتذہ کرام اور ان کے سرپرستوں کو بھی مبارک باددی۔
مفتی صاحب نے فرمایا کہ وفاق المدارس الاسلامیہ امارت شرعیہ سے ملحق مدارس معیاری تعلیم وتربیت کے عظیم مراکز ہیں؛اس لیے اچھی تعلیم وتربیت اور بہتر نتائج کے لیے اپنے بچوں کو وفاق سے ملحق مدارس میں داخل کریں،آپ ہمیں بچے دیں،ہم انشاء اللہ انہیں بہتر مستقبل دیں گے۔مفتی صاحب نے اس بات پر زور دیا کہ چھوٹے بچوں کو باہر تعلیم کے لیے نہ بھیجیں،انہیں مشکلات کاسامناکرنا پڑتاہے اور کبھی پولیس والے بھی انہیں پکڑکر جیل میں بند کردیتے ہیں،یقینا یہ قانونی طور پر غلط ہے،لیکن جب تک آپ قانون کی دہائی دے کر عدالت کارخ کریں گے،بچوں کی حالت غیر ہوچکی ہوگی،امارت شرعیہ نے کئی جگہ ایسے گرفتار شدہ بچوں کو آزادکرانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ہمارے یہاں اچھے اور معیاری مدارس ہیں،ان میں اچھی تعلیم ہوتی ہے؛اس لیے بچوں کے باہر بھیجنے کے رجحان کو ختم ہونا چاہیے۔
حفظ اور ابتدائی درجات کے وہ مدارس ملحقہ جن کے نتائج امتحان ابتک دفتر وفاق کو موصول نہیں ہوئے ہیں، ان سے گذارش ہے کہ وہ جلداز جلد رزلٹ دفترکو ارسال کردیں۔ یہ اطلاع مفتی محمدسعید کریمی رفیق وفاق المدارس الاسلامیہ نے دی۔

پیر, اپریل 22, 2024

کشن گنج پارلیمانی حلقے کے ووٹرس کے نام ایک اپیل

کشن گنج پارلیمانی حلقے کے ووٹرس کے نام ایک اپیل
Urduduniyanews72
____________________________________________
 کشن گنج پارلیمانی حلقے کے ووٹرس اس بات سے واقف ہیں کہ آئندہ 26 اپریل (جمعہ) کو متھلانچل کے دیگر حلقوں کی طرح وہاں بھی ووٹنگ ہونے جا رہی ہے جہاں سے دیگر امیدواروں کے ساتھ مسلمانوں کے بے باک، بے خوف اور نڈر لیڈر جناب اختر الایمان صدر آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین( بہار) بھی امیدوار ہیں-  جناب اختر الایمان اپنی دانشوری، حق گوئی اور بے باکی کے لیے نہ صرف بہار بلکہ پورے ملک میں جانے اور پہچانے جاتے ہیں- لہذا کشن گنج سے ان کی امیدواری کے سبب اس حلقے کے انتخاب پر پورے بہار کی نظر ہے- یہاں کی فرقہ پرست اور فسطائی طاقتیں انہیں اس الیکشن میں کامیاب نہ ہونے دینے کے لیے ہر ممکن کوششوں میں مصروف ہیں-  ایسی صورت میں کشن  گنج حلقے کے ووٹروں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ان طاقتوں کے منصوبے کو کسی قیمت پر کامیاب نہ ہونے دیں اور اپنے فہم و فراست کو بروئے کار  لاتے ہوئے اپنا ایک ایک قیمتی ووٹ اختر الایمان کو دے کر انہیں کامیاب بنائیں-  بہار کے ڈیڑھ کروڑ مسلمان پوری شدت سے یہ محسوس کرتے ہیں کہ فی الوقت ملکی سطح پر بہار کے مسلمانوں کا پارلیمنٹ میں کوئی نمائندہ نہیں ہے - اب نہ ہمارے درمیان سید شہاب الدین ہیں، نہ مولانا اسرار الحق قاسمی ہیں اور نہ الحاج تسلیم الدین ہیں - ایسی صورت میں اختر الایمان کی ذات ہمارے لیے غنیمت ہے - اختر الایمان نہ صرف حق گو، بے باک اور بے خوف انسان ہیں بلکہ وہ ایک باضمیر انسان بھی ہیں- انہیں نہ کوئی خرید سکتا ہے اور نہ توڑ ہی سکتا ہے-  لہذا ایسے بااصول قائد پر ہمیں مکمل اعتماد کرنا چاہیے اور ہمیں انہیں اپنا قیمتی ووٹ دے کر ضرور لوک سبھا بھیجنا چاہیے - کشن گنج کے ووٹرس کا یہ فیصلہ نہ صرف کشن گنج کے حق میں بہتر ہوگا بلکہ ریاست کی مسلم قیادت میں پیدا ہوا خلا بھی پر ہو سکے گا-  لہذا کشن گنج کے عوام سے یہ توقع ہے کہ وہ اپنا ایک ایک ووٹ جناب اختر الایمان کو دے کر نہ صرف کشن گنج کا نام روشن کریں گے بلکہ بہار کو ایک مضبوط ملی قائد دینے کا بھی فریضہ انجام دیں گے-  بہار کے مسلمانوں پر کشن گنج کے ووٹرس کا یہ احسان بھی ہوگا ساتھ ہی تاریخ میں ان کے تدبر اور دور اندیشی کا چرچہ بھی تادیر ہوتا رہے گا-
 الملتمس
 انوار الحسن وسطوی
 رکن 
مجلس عاملہ مجلس مشاورت( بہار)

جمعہ, اپریل 19, 2024

سچ کہہ دوں اے برہمن گر تو برا نہ مانے!(اے آئی ایم آئی ایم کے تناظر میں)

سچ کہہ دوں اے برہمن گر تو برا نہ مانے!
(اے آئی ایم آئی ایم کے تناظر میں)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اردودنیانیوز۷۲
انوارالحسن وسطوی
آشیانہ کالونی،سانچی پٹّی،حاجی پور(بہار)844101
9430649112
  ملک کی تمام نام نہاد سیکولر پارٹیاں بڑی ڈھٹائی کے ساتھ”مجلس اتحاد المسلمین“ (اے آئی ایم آئی ایم)پر یہ الزام لگاتی ہیں کہ مجلس اتحاد المسلمین بی جے پی کی ایجنٹ ہے اور اس کی”بی ٹیم“ ہے۔ الزام لگانے والوں کی یہ دلیل ہے کہ انتخابات میں سیکولر پارٹیاں جس سیٹ سے اپنا امیدوار کھڑا کرتی ہیں وہاں مجلس اتحاد المسلمین بھی اپنے امیدوار اتار دیتا ہے۔ جس کے نتیجے میں مسلم ووٹ میں بکھراؤ ہو جاتا ہے اور سیکولر پارٹیوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس طرح  اے آئی ایم آئی ایم، بی۔جے۔پی اور اس کی ہمنوا پارٹیوں کو فتح دلانے میں مدد کرتی ہے۔ غیروں کے منہ سے نکلے اس الزام پر اتنی حیرت نہیں ہوتی ہے جتنی حیرت خود مسلمانوں حتیٰ کہ مسلم دانشوروں کی زبان سے سننے پر ہوتی ہے۔ کم از کم مسلمانوں کو اپنے دماغ سے یہ بات بالکل نکال دینی چاہیے کہ ایم آئی ایم، بھاجپا کی ایجنٹ یا”بی ٹیم“ ہے۔یہ الزام بالکل غلط اور بے بنیاد ہے۔بھاجپا کے خلاف”سڑک سے ایوان تک“ فی وقت اگر کوئی پارٹی بلا خوف و خطرآواز بلند کرتی ہے اور مسلم کاذ کی وکالت کرتی ہے تو وہ پارٹی ہے ایم آئی ایم۔ جس کے سربراہ بیرسٹر اسد الدین اویسی ہیں۔ اویسی صاحب جس ہمت اور بے باکی سے وزیراعظم اور وزیر داخلہ کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر باتیں کرتے ہیں اس سے کون واقف نہیں۔ اس حقیقت کو پوری دنیا جانتی ہے کہ بھاجپا کو”دندان شکن“جواب دینے کی ایسی جرأت شاید کسی بھی پارٹی کے اندر نہیں ہے۔ لہذا ان کی اس انفرادیت اور شناخت کو ختم کرنے کے مقصد سے نام نہاد سیکولر پارٹیاں انہیں بی جے پی کی ”بی ٹیم“ کہتی ہیں۔ اسدالدین اویسی کو یہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ اپنی سرگرمیاں صرف اپنی ریاست تلنگانہ(حیدرآباد) تک محدود رکھیں۔ ایسا مشورہ آخر کیوں؟ اسد الدین اویسی کی پارٹی(ایم آئی ایم)کی طرح ملک میں بے شمار علاقائی پارٹیاں ہیں، لیکن نام نہاد سیکولر لیڈران کسی بھی علاقائی پارٹی کو اپنی سرگرمیاں محدود دائرے میں رکھنے کی صلاح نہیں دیتے۔یہ نصیحت صرف اور صرف ایم آئی ایم کے لیے کیوں؟ممتا بنرجی،ترنمول کانگریس کی لیڈر ہیں۔اس پارٹی کا حلقہ اثر صرف”مغربی بنگال“ تک ہے۔لیکن ممتا بنرجی اپنی پارٹی کو ”قومی پارٹی“کا درجہ دلانے کے لیے مغربی بنگال سے باہرآسام،منی پور،میگھالیہ اور تریپورہ وغیرہ ریاستوں میں اپنے امیدوار کھڑا کرتی ہیں۔ کیا ان کے اس قدم سے کانگریس کو نقصان اور بھاجپا کو فائدہ نہیں پہنچتا ہے؟ ان ریاستوں میں بھاجپا اگر کامیاب ہوتی ہے تو کیا اس کے ذمہ دار بھی اویسی ہی ہیں؟ ”عآپ پارٹی“بھی ایک علاقائی پارٹی ہے، جس کے سربراہ اروند کیجریوال صاحب ہیں۔کیجریوال صاحب اپنی پارٹی کا دائرہ بڑھانے کے لیے اور”قومی پارٹی“کا درجہ حاصل کرنے کے لیے دہلی کے علاوہ اتر پردیش، مدھیہ پردیش، پنجاب، ہماچل پردیش، حتیٰ کہ گجرات جیسی ریاست سے بھی اپنا امیدوار کھڑا نہیں کرتے؟ کیجریوال صاحب کے اس قدم سے ان مقامات پر سیکولر ووٹروں کی جو تقسیم ہوتی ہے اور جس کے نتیجے میں بھاجپا کو فائدہ پہنچتا ہے، کیا اس کے ذمہ دار بھی اسدالدین اویسی ہی ہیں؟ بہار میں جنتا دل(یونائیٹڈ) اورر اشٹریہ جنتا دل جیسی پارٹیاں ہیں جن کی حیثیت علاقائی ہے۔ پھر بھی وہ اپنا دائرہ بڑھانے کے لیے اتر پردیش،اتراکھنڈ اور جھارکھنڈ وغیرہ مقامات سے ہر انتخاب میں اپنا امیدوار کھڑا کرتی ہیں اور قومی پارٹی بننے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہیں۔ ایسی کئی اور مثالیں ہیں جہاں یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ علاقائی پارٹیاں اپنا دائرہ بڑھانے اور اپنی پارٹی کو قومی پارٹی کا درجہ دلانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتی ہیں۔ جب ملک کی ہر پارٹی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنا حلقہ بڑھائے، اپنی پارٹی کو قومی پارٹی کا درجہ دلائے تو پھر ایم آئی ایم کو کس گناہ کی پاداش میں اس حق سے محروم رہنے کا مشورہ دیا جائے کہ وہ اپنی پارٹی کو قومی پارٹی نہ بنائے اور خود کو صرف تلنگانہ(حیدرآباد) تک ہی محدود رکھے؟ شاید صرف اس لیے کہ یہ مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والی پارٹی ہے جو مسلمانوں کو ان کے حق حقوق کی باتیں کرتی ہے، ان کا دفاع کرتی ہے اور ان کی محافظت کی باتیں کرتی ہے اور مزید یہ کہ اس پارٹی کا سربراہ ایک مسلمان ہے۔
راقم السطور کا ماننا ہے کہ فی الوقت اب یہ ملک نہ ”سیکولر“ہے اور نہ یہاں کی کوئی پارٹی ہی صحیح معنوں میں ”سیکولر“ہے۔ اپنے کو سیکولر کہنے والی تمام پارٹیاں ملک کی 18 فیصد”مسلم ووٹ“ کو ہتھیانے کے لیے خود کو سیکولر کہتی ہیں۔ یہاں تفصیل میں جانے کا موقع نہیں ورنہ میں یہ بتاتا کہ”بابری مسجد“ کے انہدام اور”رام مندر“ کی تعمیر کے علاوہ بے شمار ایسے مواقع آئے ہیں جب ان تمام سیکولر پارٹیوں نے مسلمانوں کو دھوکہ دیا ہے اور درپردہ بھاجپا کی حمایت کی ہے۔بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ بھاجپا کی مسلم دشمنی میں اس کا ساتھ دیا ہے۔ خواہ وہ ”مسلم پرسنل لاء“ کو ختم کرنے کا معاملہ ہو یا ”دفعہ 370“کو ہٹانے کا۔”تین طلاق“ کا معاملہ ہو یا”مسلم پناہ گزینوں“ کو شہریت نہ دینے کا معاملہ ہو۔ اکثر یہ پارٹیاں کبھی خاموش رہ کر اور کبھی ایوان میں ووٹنگ میں حصہ نہ لے کر بھاجپا کو مدد پہنچاتی ہیں۔
ان مثالوں سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ ایم آئی ایم قطعی بھاجپا کی ایجنٹ یا اس کی ”بی ٹیم“ نہیں ہے۔ ایم آئی ایم ملک میں مسلمانوں کی مضبوط قیادت تیار کرنے کے لیے اور قومی پارٹی کا درجہ حاصل کرنے کے لیے ساری تگ و دو کر رہی ہے اور تلنگانہ(حیدرآباد) کے علاوہ دوسری ریاستوں میں بھی الیکشن میں حصہ لے رہی ہے۔ یہ اس کا بنیادی حق ہے اور اسے کسی بھی حالت میں غلط نہیں کہا جا سکتا ہے۔یہ صحیح ہے کہ چند مقامات پر ایم آئی ایم کے امیدوار کھڑے ہوجانے کے سبب بی جے پی کو فائدہ پہنچ جاتا ہے اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بی جے پی اور کانگرس کے مقابلے کے درمیان میں اگر کسی دوسری علاقائی پارٹی کا امیدوار یا آزاد امیدوار بھی کھڑا ہو جاتا ہے تو اس سے بھی بھاجپا کو ہی فائدہ اور کانگریس کو نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسے معاملے میں صرف ایم آئی ایم کو ذمہ دار ٹھہرانا بالکل مناسب نہیں ہے۔ بہار کے تناظر میں دیکھا جائے تو ایم آئی ایم کے اس قدم کے لیے اس کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ اس نے ”سیمانچل“ کے تمام حلقے میں اپنی امیدوار کا اعلان کرنے کے باوجود”کشن گنج“ چھوڑ کر پورے سیمانچل میں ”انڈیا اتحاد“ کی کامیابی کی راہ ہموار کرنے کے لیے اپنے امیدوار نہیں کھڑے کیے۔اس سے بڑھ کر فیاضی اور دریا دلی کیا ہو سکتی ہے؟ ان نام نہاد سیکولر پارٹیوں کو مسلمانوں کے ووٹ کی تقسیم کی اتنی ہی فکرہے تو اس کے جذبات کی قدر کرتے ہوئے سیکولر پارٹیاں انہیں بھی ان کی آبادی کے حساب سے امیدوار کیوں نہیں بناتی ہیں؟ اور ایم آئی ایم کو اگر وہ اپنے لیے خطرہ سمجھتی ہے تو انہیں اپنے خیمہ میں لانے کی کوشش کیوں نہیں کرتی ہیں؟ کوشش کرنا تو دور کی بات ہے پہل کرنے پر بھی یہ پارٹیاں ایم آئی ایم کو خاطر میں نہیں لا رہی ہیں۔ 28 مارچ 2024 کی بات ہے کہ بہار ریاستی اے۔ آئی۔ ایم۔ آئی۔ ایم کے صدر جناب اختر الایمان نے پٹنہ کے ”بیلی روڈ“ میں واقع اپنی سرکاری رہائش گاہ پر منعقدہ ایک پریس کانفرنس میں کھلم کھلا یہ دعویٰ کیا ہے کہ گزشتہ دو سالوں سے وہ اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ بہار میں ”لوک سبھا“اور”ودھان سبھا“کے انتخابات کے موقع سے سیکولر پارٹیاں ایم آئی ایم کے ساتھ اتحاد قائم کریں اور مل جل کر انتخاب لڑیں تاکہ بی جے پی کو شکست دی جا سکے۔ لیکن ان کی اس پہل پرکانگرس یا اس کی کسی ہمنوا پارٹی نے اس پر نہ تو توجہ دی بلکہ ان کی اس تجویز کو مسترد بھی کر دیا۔جب”مجلس اتحاد المسلمین“ کا مقصد بھی بی جے پی کو شکست دینا ہے اور اسے مرکز اور ریاستوں کے اقتدار سے ہٹانا ہے تو پھر کن اسباب کی بنا پر یہ نام نہاد سیکولر پارٹیاں ایم آئی ایم کو”انڈیا اتحاد“میں حصہ دینا نہیں چاہتی ہیں۔ اس معمہ کی واحد وجہ یہ ہے کہ تمام پارٹیاں خواہ وہ بھاجپا ہو یا اس کے نظریات کی حامی دیگر پارٹیاں ہوں یا نام نہاد سیکولر پارٹیاں ہوں سبھی مسلمانوں کو قیادت سے محروم رکھنا چاہتی ہیں۔ وہ مسلمانوں کو صرف”ووٹ بینک“ اور”بندھوا مزدور“ بنائے رکھنا چاہتی ہیں۔وہ بیرسٹر اسد الدین اویسی اور جناب اختر الایمان جیسے تیز طرّار اور قدآور لیڈر کو اپنی صف میں اس لیے شامل کرنا نہیں چاہتی ہیں کہ اس سے خود ان کا قد بونا ہو جائے گا اور پھر یہ کہ مسلمانوں کے معاملے میں وہ من مانی بھی نہیں کر سکیں گی۔
ملک کی تمام پارٹیاں کسی بھی قدآور مسلم لیڈر کو اپنی صف میں لا کر اپنا قد بونا کرنا نہیں چاہتی ہیں۔ انہیں قطعی گوارا نہیں ہے کہ مسلمانوں کا کوئی قدآور لیڈر اوپرآئے جو مسلمانوں کو متحد کرے، انہیں ان کی ووٹ کی طاقت اور اہمیت کا احساس دلائے اور مسلمان کسی کو اپنا قائد بنائیں۔ سیاسی پارٹیاں مسلمانوں سے صرف”دری بچھوانے“،”جھنڈا ڈھلوانے“،”نعرہ لگوانے“ اور سیاسی لیڈروں کا”قصیدہ پڑھنے“ کا کام لینا چاہتی ہیں۔آبادی کے حساب سے حصہ داری دینے سے انہیں کوئی مطلب نہیں ہے۔ بڑے طمطراق سے ذات کی بنیاد پر مردم شماری کرائی گئی۔کس ذات کی کتنی تعداد ہے اس کا اعلان کیا گیا۔ بعض ذاتوں کو ان کی حصہ داری سے کہیں زیادہ حصہ دے کر اپنا امیدوار بنایا گیا۔ لیکن مسلمانوں کی 18 فیصد آبادی ہونے کے باوجود انہیں وہ حصہ داری نہیں دی گئی جس کے وہ مستحق تھے۔ مثال کے طور پر ریاست بہار کو ہی لے لیں۔”انڈیا اتحاد“نے صرف چار سیٹیں مسلمانوں کو دی ہیں۔ یہ سیٹیں ہیں ”کشن گنج“(ڈاکٹر جاویدآزاد)،”کٹیہار“(طارق انور)،”مدھوبنی“(علی اشرف فاطمی) اور ”ارریہ“(شاہنواز عالم)۔ اگر ان مسلم لیڈروں کا کوئی بدل ان پارٹیوں کے پاس ہوتا تو یہ چار سیٹیں بھی نہیں ملتیں اور سیدھے انگوٹھا دکھا دیا جاتا، جیسا کہ بی جے پی نے کیا ہے۔”انڈیا اتحاد“ کو کم از کم سات مسلمانوں کو ٹکٹ دینا چاہیے۔ اسی طرح جنتادل(یو) کو کم از کم دو سیٹوں پر مسلمان امیدوار کھڑا کرنا چاہیے۔لیکن اس نے صرف ایک مسلمان”مجاہد عالم“(کشن گنج) کو ٹکٹ دینے پر اکتفا کر لیا۔ یعنی کسی پارٹی نے بھی مسلمانوں کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ اس کے باوجود وہ ہم سے یہ امید رکھتے ہیں کہ ہم جھولی بھر کر اپنا ووٹ انہیں دیں۔ یہ پیمانہ انصاف کے سراسر خلاف ہے۔
بہار میں ذات پر مبنی”مردم شماری 2023“کے مطابق”ملاّح“ذات کی آبادی مشکل سے ڈھائی فیصد ہے۔ اس ڈھائی فیصدآبادی کے ووٹ کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے”راشٹریہ جنتادل“نے اپنی حصے کی تین سیٹیں ”وکاس شیل انسان پارٹی“(وی۔آئی۔ پی)کو دے کر اس کے لیڈر مکیش سہنی کو گلے لگایا اور ان کی آؤ بھگت کی۔ بھاجپا نے پانچ فیصد”پاسوان“ذات کا ووٹ حاصل کرنے کے لیے چراغ پاسوان کی بھرپور نازبرداری کی۔ ایک بے چارہ مسلمان ہے جس کی آبادی 18 فیصد ہے، لیکن  اسے اپنانے یا اسے حصہ داری دینے کے لیے کوئی پارٹی بھی تیار نہیں ہے۔ یہ کتنی بڑی بدقسمتی اور شامت اعمالی کی بات ہے۔سیاسی پارٹیوں کے اس رویے پر جتنا بھی ماتم کیا جائے کم ہے۔ اپنے ساتھ ہو رہے سلوک کے ذمہ دار ہم خود بھی ہیں۔ یہی سبب ہے کہ ملکی سیاست میں ہماری کوئی حیثیت نہیں ہے۔ ہم مسلمان اپنی قیادت تیار کرنے کو”گناہ کبیرہ“سمجھتے ہیں اور دوسروں کی ”نازبرداری“ اور ”درباری“ کرنے پر ہمیں شرم نہیں آتی۔ملک ”سیکولر اسٹیٹ“ رہے اس کا ٹھیکہ صرف مسلمانوں کے ذمہ نہیں ہے۔ اگر تمام برادران وطن ا سے”سیکولر اسٹیٹ“ کی شکل میں نہیں دیکھنا چاہتے ہیں تو مسلمان قیامت کی صبح تک اسے ”سیکولر اسٹیٹ“ بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکتے ہیں۔ چنانچہ حالات کے مطابق ہمیں اپنے آپ کو ڈھالنا ہوگا۔حکیم الامّت شاعر مشرق علّامہ اقبالؔ نے صحیح کہا ہے  ؎
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی 
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
٭٭٭

جمعرات, اپریل 18, 2024

الحاج قاری شعیب احمد ؒ (یادوں کے چراغ)

الحاج قاری شعیب احمد ؒ (یادوں کے چراغ)
Urduduniyanew72
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ

امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ کی مجلس شوریٰ کے رکن ، دار القرآن مدرسہ عظمتیہ نوادہ کے ناظم، استاذ الاساتذہ ، اکابر امارت شرعیہ کے معتمد ، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی اصلاح معاشرہ ضلع کمیٹی کے کنوینر ، جمعیت علماء بہار کی عاملہ کے رکن ، دار العلوم رحمانیہ ملت کالونی بھدونی نوادہ کے سر پرست حضرت مولانا قاری شعیب احمد صاحب نے ١٦؍ رمضان ٤٥ھ کی شب مطابق ۲۷؍ مارچ ٢٠٢٤ء بروز بدھ بوقت ایک بجے عارضۂ قلب میں اس دنیا کو الوداع کہا، سب کچھ اچانک ہوا اور آدھے گھنٹے میں زندگی کا سفر مکمل ہو گیا، ۳؍ رمضان کو طبیعت بگڑ کر سنبھل گئی تھی ، اب کے روزہ افطار ، مغرب ، عشاء تراویح کے بعد دل کا دورہ پڑا اور علاج معاملہ سے بے نیاز ہو گیے، جنازہ کی نماز اسی دن ۳؍ بجے دن میں قائم مقام ناظم امارت شرعیہ مولانا محمد شبلی قاسمی نے پڑھائی ، حضرت امیر شریعت دامت برکاتہم کے حکم سے تجہیز وتکفین اورجنازہ میں شرکت کے لیے جو وفد گیا تھا اس میں راقم الحروف محمد ثناء الہدیٰ اور مولانا اعجاز احمد بھی شریک تھے، ظہر کے بعد جنازہ سے قبل مدرسہ کی مکہ مسجد میں ان کے شاگردان ، معروف علماء اور قائم مقام ناظم صاحب کے ساتھ میرا بھی تعزیتی خطاب ہوا، سب نے ان کی خدمات کی تعریف کی ، انہیں ایک اچھا اور سچا انسان قرار دیا اور ان کی وفات کو ملت کا عظیم خسارہ بتایا، پس ماندگان میں سات صاحب زادگان میں طارق انور (صدر عالم) مولانا ضیاء الدین مظاہری ، مولانا محمد نظام الدین مظاہری، مولانا محمد نصیر الدین مظاہری ، قاری محمد اسامہ مظاہری ، مولانا ابو طلحہ مظاہری ، مولانا منت اللہ مظاہری اور تین صاحب زادیاں ہیں، سب کی شادی وغیرہ کی ذمہ داری سے قاری صاحب سبکدوش ہو چکے تھے، اول الذکر کے علاوہ الحمد للہ سب لڑکے حافظ قاری اور عالم دین ہیں، بڑے صاحب زادے با قاعدہ حافظ عالم تو نہیں ، لیکن خانوادہ کے دینی اثرات ان پر نمایاں ہیں، اہلیہ گذشتہ سال ۱۰؍ رمضان ١٤٤٤ھ میں انتقا ل کر چکی تھیں۔ 
حضرت قاری شعیب احمدبن عبد الحفیظ (م ۱۹۵۱) بن محمد یوسف کی ولادت دربھنگہ ضلع کی مشہور بستی لوام میں یکم جنوری ۱٩٤٧ء کو ہوئی، چار سال کے ہوئے تو والد کا سایہ سر سے جاتا رہا، والدہ مرحومہ نے پوری توجہ اور انہماک سے انہیں پوسا پالا ، والد سے محرومی کا احساس نہیں ہونے دیا، ابتدائی تعلیم گاؤں کے مکتب میں حاصل کرنے کے بعد مدرسہ امانیہ لوام دربھنگہ میں داخلہ لیا، یہاں کچھ دن تعلیم حاصل کرنے کے بعد خود ان کا شعور جاگا اور انہوں نے محسوس کیا کہ گھر پر رہ کر تعلیم جاری رکھنا ممکن نہیں ہے، چنانچہ والدہ سے اجازت لے کر اپنے ماموں زاد بھائی عثمان صاحب کے ساتھ کلکتہ کے لئے رخت سفر باندھا ، بعض مخلص کے مشورے سے دار القرآن مدرسہ عظمتیہ لورچت پور روڈ کلکتہ میں داخل ہوئے اور قاری عبد القوی صاحب اعظمی، بانی وناظم مدرسہ کی زیر نگرانی تعلیم کی تکمیل کی ، فضیلت کی سند بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ سے بتوسط مدرسہ امانیہ لوام حاصل کیا، قاری عبد القوی صاحب کے علاوہ جن اکابر علم وفن سے قاری صاحب کاخصوصی تعلق رہا اور آپ جن سے استفادہ کرتے رہے ان میں مولانا عبد الوحید مظاہری غازی پوری، مولانا سید محمد شمس الحق صاحب ویشالوی، مفتی مظفر حسین صاحب مظاہری ، قاری محمد مبین صاحب الٰہ آبادی ، مولانا محمد اسرائیل صاھب بھوجپوری ، مولانا قطب الدین صاحب مظاہری رحمہم اللہ کے اسماء گرامی خاص طور پر قابل ذکر یں، ان حضرات نے قاری صاحب کے اندر معرفت الٰہی کی آگ پھونکی اور دینی کاموں کو سلیقہ سے کرنے اور لوگوں کی تربیت دینی نہج پر کرنے کا شعور بخشا، ان میں سے کئی کی حیثیت قاری صاحب کے نزدیک پیر ومرشد کی بھی تھی ، جن سے انہوں نے تصوف وسلوک کے رموز سیکھے۔
تعلیم سے فراغت کے بعد آپ کی شادی اونسی ببھنگواں حال ضلع مدھوبنی کے مقصود صاحب کی صاحبز ادی سے ہوا، شریک حیات انتہائی دیندار تھیں اللہ رب العزت نے اس رشتے میں بڑی برکت دی ، سات صاحب زادے اور تین صاحب زادیاں تولد ہوئیں، اور سب دین کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں، قاری صاحب کی خدمت میں ان کی دیندار اہلیہ کا بڑا تعاون رہا، انہوں نے بہت سارے خانگی امور سے انہیں الگ رکھ کر خدمت کا موقع دیا، کہنا چاہیے کہ دونوں کی زندگی کا مقصد رضائے الٰہی تھا، اس لیے زندگی کی پٹری پر یہ گاڑی پوری زندگی محبت والفت کے ساتھ چلتی رہی اور گھر کا جو مقصود’’ ٹینشن فری زون‘‘ ہوتا ہے وہ قاری صاحب کو حاصل رہا۔
تدریسی زندگی کا آغاز بنگلور سے کیا، پھر جہان آباد منتقل ہو گئے، قاری عبد القوی صاحب کے حکم سے پہلے بھداسی ضلع الور کی نظامت سنبھالی، اور مکتب کو مدرسہ بنا کر دم لیا ، مطبخ اور دار الاقامہ کا نظم ہوا، اور پھر قاری صاحب کے حکم سے ہی نوادہ دار القرآن مدرسہ عظمتیہ کی شاخ میں منتقل کیے گیے ، کہنے کے لیے یہ ایک شاخ تھی، لیکن کوئی انتظام نہیں تھا،قاری صاحب نے بے سروسامانی میں کام شروع کیا، پھونس کی جھونپڑی جس سے پانی ٹپک کر اندر آتا تھا، کھانے پینے کا نظم نہیں، طلبہ کہاں رکھے جائیں، مسائل ہی مسائل ، قاری صاحب نے اپنے ناخن تدبیر سے سارے مسائل حل کیے، دوسری طرف مسلکی اختلافات بھی مزاحم ، ایسے میں قاری صاحب نے پوری جرأت ایمانی سے ان حالات کا مقابلہ کیا اور دیکھتے دیکھتے اُسّر اور بنجر زمین میں عمارت سر اٹھانے لگی، آج مکہ مسجد ، مدرسہ کی شاندار اور دیدہ زیب عمارت قاری صاحب ؒ کی جہد مسلسل کی بہترین یاد گار ہے جو آباد وشاداب بھی ہے۔
قاری صاحب ؒ کو اصلاح معاشرہ کی بھی بڑی فکر رہا کرتی تھی ، بھداسی اور نوادہ کے کم وبیش پچاس سالہ قیام کے دوران بہت سارے خاندان کو رسم ورواج ، اوہام وخرافات ،غیر شرعی امور ، بے جا لہو ولعب سے کنارہ کش کرایا ، مدرسہ کے جلسوں گلیوں اور گاؤں گاؤں گھوم کر پوری حکمت عملی اور ایمانی بصیرت سے اس کام میں اپنی توانائی لگائی، بہت سارے غیر شرعی کاروبار سے لوگوں کو آزاد کرایا اور یہ سب بلند بانگ دعووں اور نعروں کے ساتھ نہیں، خاموشی سے انجام دیا، ان کی اسی فکر مندی سے متاثر ہو کر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری امیر شریعت سابع مولانا محمد ولی رحمانی صاحب ؒ نے نوادہ ضلع کی اصلاحی کمیٹی کا کنوینر انہیں نامزد کیا تھا۔
 اسی طرح قاری صاحب ؒ کو امارت شرعیہ کے اکابر اور اس کے کاموں سے غیر معمولی دلچسپی تھی، اسی دلچسی کے نتیجے میں ۲۰۰۱ء میں مدارس اسلامیہ کنونشن میں ان کا بھر پور تعاون ملا، نوادہ میں وفاق المدارس الاسلامیہ کا مسابقہ قرأت قرآن دار العلوم رحمانیہ ملت کالونی میں منعقد ہوا، طلاق ثلاثہ بل کے خلاف نوادہ میں مضبوط دستخطی مہم چلی، سی اے اے ، این آر سی کے خلاف جد وجہد کابڑا مرکز نوادہ بنا ، امیرشریعت سابع کی تحریک دین بچاؤ دیش بچاؤ کے لیے ضلع میں بیداری لائی گئی اور قاری صاحب ہی کی قیادت میں ۱۵؍ اپریل ۲۰۱۸ء کو بڑی تعداد میں نوادہ کے مسلمان گاندھی میدان پٹنہ پہونچے، جب امارت شرعیہ نے اردو کے فروغ ، دینی اور عصری تعلیمی اداروں کے قیام کی تحریک بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ میں چلائی تو نوادہ میں انہوں نے زبر دست پروگرام کرایا اور وہ نوادہ کی تعلیمی مشاورتی کمیٹی کے صدر منتخب ہوئے، وہ رویت ہلال کمیٹی ضلع نوادہ کے بھی کنوینر تھے۔حال میں امارت شرعیہ نے یوسی سی کے خلاف تحریک چلائی تو انہوں نے پورے ضلع کو اس کام کے لیے متحرک کر دیا۔
 تعلیم قرآن اصلاح معاشرہ ، امارت شرعیہ کی تحریک سے مضبوط وابستگی کے ساتھ ساتھ ان کی خدمت کا بڑا میدان امراء کو حج پر ابھارنا ان کے فارم بھرنا ، پھر سفر حج کے لیے تربیت کا نظم کرنا بھی شامل تھا، سبھی جانتے ہیں کہ حج اسلام کا ایسا رکن ہے ، جس ک ادائیگی میں عموما کوتاہی کی جاتی ہے اور تاخیر بھی قاری صاحب نے حج کے لیے مہم چلائی اور سال بہ سال حاجیوں کی تعداد میں اضافہ کرایا، نوادہ جیسے چھوٹے ضلع سے بعض سالوں میں ڈیڑھ سو سے زائد مسلمانوں نے عزم سفر کیا، قاری صاحب کی اس محنت سے مسلمانوں میں اس رکن کی ادائیگی کے سلسلے میں بیداری آئی، یہ بھی ان کے لئے صدقہ جاریہ ہے۔
ان تمام کاموں میں مشغولیت کے باوجود خود اپنی اصلاح سے بھی غافل نہیں رہے ، وہ پوری زندگی اکابر علماء کے دامن سے وابستہ رہے اور اصلاح نفس کے لیے صوفیاء کے یہاں جو اوراد واعمال بتائے جاتے ہیں، سب کا غیر معمولی اہتمام کرتے ، تھانوی سلسلہ سے قربت زیادہ تھی، چنانچہ حضرت مولانا احمد مرتضیٰ صاحب مظاہری خلیفہ مجاز حضرت مولانا شاہ اسعد اللہ صاحب ؒنے انہیں اجازت وخلافت سے نوازا، یہ اجازت زبانی بھی تھی اور تحریری بھی ، لیکن وہ عمومی طور ر لوگوں کو بیعت کرنے سے دور ہی رہا کرتے، ساری پابندیوں کے باوجود خانقاہی مزاج نہیں تھا۔
 قاری صاحب کی ایک بڑی خوبی ان کی ضیافت تھی، ان کا دسترخوان بڑا وسیع تھا، وہ مہمان کے پہونچتے ہی گھر سے باہر اور مدرسہ کے لڑکوں تک کو مہمان کی ضیافت ان کے آؤ بھگت اور خدمت میں لگا دیتے ، وہ کم سخن نہیں، کم گو تھے، لیکن صائب الرائے تھے، ہم جیسے چھوٹے بھی جب نوادہ پہونچ جاتے تو ان کی کوشش ہوتی کہ کچھ اصلاحی باتیں لوگوں میں ہوجائے ، جمعہ کا دن ہوتا تو منبر ومحراب حوالے کر دیتے ،خرد نوازی اس قدر کرتے کہ چھوٹوں کو بھی اپنے بڑے ہونے کی غلط فہمی ہونے لگتی ۔
 قاری صاحب سے میری ملاقات امارت شرعیہ آنے سے پہلے سے تھی ، ہم دونوں کے ایک مشترکہ ممدوح حضرت مولانا شمس الحق ؒ سابق شیخ الحدیث جامعہ رحانی مونگیر تھے، جن سے میری وطنی قربت ہے اور ان کے گاؤں کے قریب واقع مدرسہ احمدیہ ابا بکر پور ویشالی میں مدرس ہواکرتاتھا، اس لیے قاری صاحب اپنے رفقاء کے ساتھ جب بھی چک اولیاء وارد وتے تو کسی نہ کسی عنوان سے ملاقات کی شکل بن جاتی ، قاری صاحب بھی مجھ سے محبت کرتے تھے اور مولانا شمس الحق صاحب بھی، اس لیے کئی بار ایسا ہوا کہ قاری صاحب نے نوادہ میں کوئی پروگرام کرایا ، مولانا شمس الحق صاحب مدعو ہوئے تو مجھ حقیر کو بھی یاد کیا گیا، سی اے اے این آر سی مخالف تحریک میں نوادہ میرے ہی حصہ میں تھا، اس لیے ان کی صحبت اور پروگرام میں ایک ساتھ شرکت کے خوب مواقع ملے، قاری صاحب سے آخری ملاقات ہندوستان کے ’’موجودہ حالات اور ان کے حل‘‘ کے عنوان سے منعقد ہونے والے پروگرام میں ہوئی تھی، وہ تنفس کی شکایت اور دیگر عوارض کے باوجو د اس پروگرام میں شرکت کے لیے تشریف لائے تھے، اور فکر ونظر چینل کو اس اجلاس کی اہمیت پر انٹر ویو بھی دیا تھا۔
قاری صاحب ہزاروں حفاظ ، قراء اور علماء کے استاذ اور مربی تھے، ایسی با فیض شخصیت کا ہمارے درمیان سے اٹھ جانا عظیم علمی ،ملی ودینی نقصان ہے، اللہ رب العزت قاری صاحب کی مغفرت فرمائے اور پس ماندگان کو صبر جمیل کے ساتھ دار القرآن عظمتیہ کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے ۔

منگل, اپریل 09, 2024

" تابِ سخن" ____ ایک مطالعہ*

*" تابِ سخن"  ____  ایک مطالعہ*
Urduduniyanews72 
نام کتاب: تابِ سخن
مرتب: مفتی محمد سراج الہدی ندوی ازہری 
استاذ: دار العلوم سبیل السلام، حیدر آباد

*تعارف و تبصرہ: عین الحق امینی قاسمی*، معہد عائشہ الصدیقہ ،بیگوسرائے، بہار

سرزمین بہار کے خمیر کی ایک خوبصورت جہت یہ بھی ہے کہ اس کے سپوت ابر باراں کی طرح حسبِ ضرورت کرۂ ارض کے مختلف حصوں کو مستفید کرنا اپنا علمی اور اخلاقی فریضہ سمجھتے رہے ہیں۔ مولانا سید مسرور احمد مسرور (1950- 2022) بھی ایک ایسی ہی روشن سخن شخصیت کا نام تھا، جو ریاست بہار میں پلے بڑھے ، پڑھے اور کچھ عرصہ مختلف اداروں میں رہ کر خطاطی کا ہنر آزماتے رہے، مگر 1986ء کے اوائل میں بہار سے حیدرآباد کو اپنا مستقل مسکن بنالیا اور وہیں ایک معروف ادارہ دارالعلوم سبیل السلام میں خدمت علم و قلم پر مامور ہوگئے، جہاں تین دہائیوں سے کچھ زیادہ دم واپسیں تک خدمت کرتے رہے؛ بلکہ آخری "آرام گاہ " بھی اسی شہر گلستاں کے حصے میں آیا۔
مسرور صاحب کام کے آدمی تھے، ان میں چَھپنے سے زیادہ چُھپنے کا ذہن کار فرماتھا، انہوں نے اپنی خاموش طبیعت کی وجہ سے کام اور صرف کام پر توجہ دی، نام سے زیادہ سروکار نہیں رکھا؛ بہ قول آبروئے قلم مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی، نائب ناظم امارت شرعیہ پٹنہ:
"وہ اچھے کاتب تھے اور کتابت انہوں نے دار العلوم دیوبند سے سیکھی تھی؛ اس لیے زیادہ وقت کتابت اور بچوں کو خوش خطی سکھانے میں گذرا، حیدرآباد جانے سے قبل ایک زمانہ تک امارت شرعیہ کے ہفت روزہ نقیب کی کتابت وہی کیا کرتے تھے، امیر شریعت سادس حضرت مولانا سید نظام الدین رحمہ اللّٰہ سے وطنی قربت بھی تھی، مولانا سید مسرور احمد کے والد چھپرہ سے نقل مکانی کر کے کوٹھی ضلع گیا منتقل ہو گئے تھے، جہاں ان کی سسرال تھی، امیر شریعت سادس کے گاؤں گھوری گھاٹ سے یہ بہت قریب ہے، یہیں پلے بڑھے، مدرسہ عبید یہ کوٹھی اور مدرسہ قاسمیہ گیا سے تعلیم و تربیت حاصل کی، دیو بند کا رُخ کیا ، وہاں سے کتابت کا فن سیکھا اور پوری زندگی اس کام میں لگا دیا۔ شعر و ادب کا ذوق اکتسابی نہیں، وہبی تھا، طبیعت موزوں تھی، مختلف اصناف سخن میں طبع آزمائی کی، جن میں نعت، تہنیت، منقبت، سپاس نامے، الوداعی نظمیں، سہرے، نغمہ ہائے شادی، خراج عقیدت اور متفرق چیزیں شامل ہیں؛ لیکن ان کو مرتب کرنے، جمع کرنے اور با قاعدہ محفوظ رکھنے کا خیال ان کے دل میں کبھی نہیں آیا؛ بلکہ مولا نا محمد سراج الہدی ندوی ازہری کے بار بار کے تقاضے کے باوجود وہ اس پر آمادہ نہیں ہوئے اور بالآخر موت نے انھیں آلیا"۔
زیرِ تبصرہ کتاب در اصل مولانا سید مسرور احمد مسرور کا مجموعۂ کلام ہے، جسے بعد مرگ محترم مولانا محمد سراج الہدی ندوی ازہری، استاذ دارالعلوم  سبیل السلام حیدرآباد نے مرتب فرماکر شاندار خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ مسرور صاحب بے نفس قادر الکلام شاعر تھے، ان کی ایک بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ سبھوں کی ضرورت تھے، جب جنہیں موزوں کلام کی ضرورت پڑی، مسرور صاحب کے کان میں کہہ دیا، اگلی صبح حسب منشاء کلام تیار ملتا۔ ذاتی احساس یہ ہےکہ جس پہلو پر شاعر نے زندگی بھر کبھی کوئی توجہ نہیں دی، پس مرگ اس تھوڑی مدت میں ان کے مجموعہ کلام کا اپنی تمام تر تابانیوں کے ساتھ منظر عام پر آجانا "کرامت" ہی کہا جاسکتا ہے، وررنہ آج کسے فرصت جو ایسی گمنام شخصیت کو بے لوث زندہ رکھنے کی جگر کاوی براشت کرے۔ 

قابل مبارک باد ہیں مولانا ازہری صاحب جو اپنی علمی و فکری خدمات اور صلاحیت و صالحیت کی وجہ سے طبقۂ علماء میں ایک ممتاز مقام رکھتے ہیں، طلبۂ مدارس میں صرف درسی افادات ہی مقبول نہیں ہیں؛ بلکہ عوام وخواص کے درمیان بھی وہ گل سرسبد، صاحب قلم، شیریں بیاں خطیب، ذی علم مفسر، بافیض مصنف، مؤلف اور مرتب ہیں۔ صائب الرائے، فکر و نظر میں تابانی رکھنے والے ایک اچھے سلجھے ہوئے دردمند انسان کے روپ میں جانے پہچانے جاتے ہیں، موصوف کے ادبی کارناموں میں "کلام شمس" بھی ایک نایاب اضافہ ہے، انہیں حدیث وفقہ اور تفسیر قرآن کریم سے گہری مناسبت ہے، ان کے گہر بار قلم سے علم و تحقیق اور تعلیق وتحشیہ سے مربوط تفسیر قرآن کریم کی دو ضخیم جلدیں بھی منصۂ شہود پر آچکی ہیں۔ انہوں نے دار العلوم ندوة العلماء، لكهنؤ، جامعۃ الازهر، یونیورسٹی مصر، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد اور یونیورسٹی آف کالی کٹ کیرلا وغیرہ سے باضابطہ علم و سند حاصل کیا ہوا ہے ۔ 2006ء میں دبئی (Dubai) کے ایک اسکول میں بھی انہیں چند ماہ تدریسی خدمات انجام دینے کا موقع ملا۔ فروری 2007ء سے جنوبی ہند کی مشہور و معروف درس گاه دار العلوم سبیل السلام حیدرآباد میں عالمیت و فضیلت اور تخصصات کے طلبہ کو فیض یاب کررہے ہیں۔ "جامعہ ریاض البنات" ملک پیٹ حیدرآباد میں بھی وہ ایک دہائی سے درس و تدریس سے جڑے ہوئے ہیں، خطابت وصحافت تو ان کے ذوق کی چیزیں ہیں؛ اس لیے اخبار ورسائل میں چھپتے رہتے ہیں ۔ہندوستان کے طول و عرض میں جلسوں، کانفرنسوں اور سمیناروں میں بھی ان کی شرکت ہوتی رہتی ہے۔ خوبی کی بات یہ ہے کہ مولانا ندوی نے "تاب سخن" مرتب کر نہ صرف ادب نوازوں کو مواد فراہم کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے؛ بلکہ حال کے ادیبوں پر بھی واضح کیا ہے کہ شعر وادب کی خدمت محض طبقۂ دانشوری کی میراث نہیں؛ بلکہ چٹائیوں پر بیٹھ کرخاموش مزاج علماء بھی منفرد لب ولہجے میں سخن پروری کر سکتے ہیں اور صدیوں سے بزم شعر وادب کے حوالے سے نمایاں خدمات انجام دیتے بھی رہے ہیں۔
خوبصورت سرورق ،کاغذ کی نفاست، طباعت کی عمدگی، حسن خط، سمیت متعدد خوبیوں کا حامل یہ مجموعہ ہاتھ میں لیجیے، تو جستہ جستہ پڑھ جائیے، اس میں اصناف سخن کا ہر رنگ نظر آئے گا، نعت و منقبت بھی ہے، نظمیں اور سہرے بھی ملیں گے، شادیوں کے نغمے ،خراج عقیدت و تہنیت بھی دل کو شاداں وفرحاں کرتی ہوئی محسوس ہوگی۔
پوری کتاب ایک سو چوراسی صفحات پر پھیلی ہوئی ہے، والدین کے عظیم احسانات اور محبین وتلامذہ کی جہد آشنا خدمات کے نام "انتساب " ممنونیت و مشکوریت کا اچھا انداز ہے۔ کتاب کی ترتیب وغیرہ کے سلسلے میں خود مرتب موصوف کے الفاظ یہ ہیں:
" اس مجموعہ کی ترتیب میں میرا طریقہ کار یہ رہا ہے، سب سے پہلے تمام دستیاب منظوم کلام کو پانچ مرکزی عناوین: نعت و منقبت ، خراج عقیدت، الوداعی نظمیں ، سہرے  اور متفرقات کے تحت تقسیم کر دیا؛ اس کے بعد ہر مرکزی عنوان کے تحت جو نظمیں ذکر کی گئیں، ان کی ترتیب تاریخی اعتبار سے رکھی گئی ہے، ہاں! نعت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نعت ومنقبت میں مقدم رکھا گیا ہے، جن نظموں میں تاریخ نہیں تھی، انھیں اس حصے کے اخیر میں رکھا گیا ہے؛ البتہ ایک شخصیت سے متعلق اگر ایک سے زائد نظمیں تھیں، تو انھیں پہلی ہی تاریخ کے بعد تسلسل سے ذکر کر دیا گیا"۔
بعض کتابوں کی طرح مولانا ندوی نے بے وجہ کی تقریظ، کلمات عالیہ اور متواتر بے ربط تحریرات سے" تاب سخن " کی تابانی کو ماند پڑنے سے بچایا ہے، البتہ ضرورت کی حد تک آبروئے قلم مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی، نائب ناظم امارت شرعیہ پٹنہ کے حرف چند کو جگہ دی ہے، جس میں انہوں نے واقعتاً  چند حرفوں کی مدد سے حسب عادت کئی ایک جہتوں کو بیان کردیا ہے ۔
"تاب سخن" کو یوں تو پانچ مرکزی عناوین کے تحت تقسیم کیا گیا ہے ،تاہم اس کا آخری حصہ جو  "متفرقات " کے عنوان سے ہے، وہ بھی خاصے کی چیز ہے، بالخصوص "بوسنیا کے مجاہدین و شہدا" کے حوالے سے جو طویل نظم کہی گئی ہے، اس کا ایک ایک بند نہ صرف مجاہدین کے حوصلوں کو مہمیز کرتا ہے؛ بلکہ خون سے لت پت حال میں غزہ و فلسطین کے شہدا کے جسم و جاں کو بھی توانائی بخشتی ہے:

شعار سبط پیمبر بتا دیا تم نے
یہی  ہے ر ا ہ منو ر بتا د یا  تم  نے

 بساط دہر پہ چھا کر بتا دیا تم نے
 سروں کو کر کے نچھاور بتا دیا تم نے
 
ہزار  آفتیں آئیں ہز ار شہر جلے 
رضائے داور محشر بتا دیا تم نے 

یہو دیت کا معنی ہے روس و امریکہ
 جو بات سچ ہے وہ کھل کر بتا دیا تم نے

جبیں ہے جہد مسلسل سے گرد آلودہ
یہ مشک سے بھی ہے بہتر بتا دیا تم نے

ایک دوسری نظم "آواز جرس" کے عنوان سے بھی ہے، اس نے گویا حال کا مکھوٹا اتار کر رکھ دیا ہے، ملک کے بد باطن حکمرانوں کا رویہ دین وشریعت کے ساتھ کبھی بھی حوصلہ بخش نہیں رہا، پوری نظم میں جس بیداری کو برتنے اور ظالم کی بد نگاہی سے ہوشیار رہنے کی ضرورت کی طرف اشارہ ہے، اس سےشاعر کی دیدہ وری اور جاں پرسوزی کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے :

عجب گردش دوراں ہے جاگتے رہیے
نفاق تاحد امکاں ہے جاگتے رہیے

یہ کیا عجب ہے کہ دینی معاشرے کے لئے
شکست وریخت کا ساماں ہے جاگتے رہیے

کہاں کا لطف ؟کہاں کا خلوص؟ کیسی وفا؟
خزاں کی زد پہ دبستاں ہے جاگتے رہیے

نہ دے سکے کوئی الزام، کم نگاہی کا 
یہ آگہی، یہی عرفاں ہے جاگتے رہیے

بسر نشاط و طرب میں جو زندگی ہوگی
وہ اور کچھ نہیں حرماں ہے جاگتے رہیے

اسی طرح سے انہوں نے کئی ایسی منفرد نظمیں بھی کہی ہیں، جن سے روح کو تازگی اور نہ صرف خون جگر میں گرمی  محسوس ہوتی ہے؛ بلکہ غیر متزلزل عزم و یقیں کی کیفیت کا احساس بھی پیدا ہوتا ہے، مثلاً ان کی ایک نظم کے یہ اشعاربھی سن لیجئے:

احکام الہی سے ہٹ کر صد حیف ذلیل و خوار ہوئے
 و اللہ ہمارے پیش نظر قرآن نہیں تو کچھ بھی نہیں

اے برق تپاں! ہو موسم گل ، یا دور خزاں کے جھونکے ہوں
 ناموس نبی پہ مرنے کا ایقان نہیں تو کچھ بھی نہیں

تہذیب ہماری پہچاں ہے، ایثار ہمارا شیوہ ہے
 اس طرز عمل کا دنیا پہ فیضان نہیں تو کچھ بھی نہیں

سوشل میڈیا کے اس دور میں جب ہم کتابوں سے دور ہورہے ہیں، تحقیق وتدوین اور فکر و مطالعہ کی عادت، ہم سے رخصت پذیر ہے، تب مسرور احمد مسرور کی یہ نظم بلند آہنگی کے ساتھ دل کو اپیل کرتی ہوئی دیکھائی دیتی ہے جس میں شکوہ، فغاں، عقیدت، محبت ،نعمت اور انکشافات کا سفینہ بحر تمنا میں غوطہ زن ہے :

کتاب زندہ حقیقت ہے کوئی خواب نہیں 
کتاب دہر میں تیرا کوئی جواب نہیں 

کتاب دیتی ہے انساں کو تیرگی سے نجات
کتاب کاشف رازحیات بعد ممات

کتاب روشنی وانکشاف راز بھی ہے
کتاب کھوج کی دنیا میں امتیاز بھی ہے

کتاب کے مطالعے کے بعد مجموعی طور پر "تاب سخن" کے تئیں آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ

گل نہیں، گلد ستۂ اشعار ہے تاب سخن 
شاعری کے حسن سے سرشار ہے تاب سخن

شروع کتاب میں منظوم تبصرہ جسے مولانا انوار الحق داؤد قاسمی نے پیش کیاہے، بہت شاندار ہے، بر محل الفاظ و استعارہ نے موصوف کی شعری صلاحیت سے خوب واقف کرایا۔ڈیزائنگ اور کتابت بھی باذوق ہاتھوں سے انجام پائی ہوئی ہے۔ کتاب کی قیمت _/230 روپے ہے، رعایتی قیمت مع ڈاک خرچ _/130 روپے ہے، جب کہ پہلی اشاعت کا یہ نسخہ آپ دارالعلوم سبیل السلام حیدرآباد، یاسین بک ہاؤس، فائر اسٹیشن مغلپورہ، نور اردو لائبریری، حسن پور گنگٹھی، بکساما، ویشالی، بہار اور نور القمر لائبریری، مدنی نگر، مہوا، ویشالی، بہار کے علاوہ مرتب موصوف کے اس نمبر 919849085328 سے بھی رابطہ کر کے منگوا سکتے ہیں۔
*** ___________________***

پیر, اپریل 08, 2024

عید الفطر کا پیغام،رب کا بڑا انعام

عید الفطر کا پیغام،رب کا بڑا انعام 
Urduduniyanews72 

مضمون نگار : محمد ضیاء العظیم قاسمی،
استاذ چک غلام الدین ہائی اسکول ،ویشالی
موبائل نمبر :7909098319

اسلام ایک پر امن اور فطری مذہب ہے،جس کی ابتداء انسانوں کے وجود سے قبل  کی ہے، اس مذہب نے ہر قدم پر انسانیت کی مکمل راہنمائی کی ہے، مہد سے لے کر لحد تک زندگی گزارنے کے سلیقے اور طریقے واضح انداز میں پیش کیا، انسانیت کو کہیں بھی لاچار، بے یار و مددگار نہیں چھوڑا، اللہ رب العزت نے سیدنا آدم وحوا علیہما السلام کے ذریعہ اس دنیا کو وجود میں لاکر صاف طور پر دنیا کی تخلیقی پس منظر کی وضاحت فرما دی "وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ" الذاريات (56) ترجمہ : میں نے انسان اور جنات کی تخلیق عبادت کے واسطے کیا ۔ عبادت نام ہے اللہ کے احکامات کو تسلیم کرکے اس کے مطابق زندگی گزارنے کا، اللہ رب العزت انسانوں سے اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی رب چاہی زندگی کے مطابق کرے، یہی زندگی رب العزت کو پسند ہے، رب کائنات نے انسانوں کی ہدایت کے لئے انبیاء کرام کے سلسلے کو جاری وساری فرمایا، تاکہ انسان أعمال صالحہ کے ساتھ زندگی گزارے، سیدنا آدم علیہ السلام سے لے آخری نبی وپیغمر سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی مشن کے ساتھ بھیجا گیا، تاکہ انسان گمراہی کے راستے کو ترک کرکے راہ راست کی طرف گامزن ہو جائے ۔
اسی طرح نبیوں کا سلسلہ چلتا رہا، پھر حضرت عیسٰی علیہ السلام اس دنیا میں تشریف لائیں ان کے بعد اور سیدنا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے سے قبل دنیا کی حالت بد سے بد ہو چکی تھی، لوگوں کے اندر ہر طرح کی برائیاں عام تھیں، تاریخ اس دور کو ایام جاہلیت سے تشبیہ دیتی ہے، انہیں برائیوں میں سے دو برائیاں بہت عام تھیں اور وہ یہ کہ رنج وغم کے موقع پر وہ حد سے اتر جاتے اور اسے ماتم سے بدل دیتے ، ےاپنے اظہارِ غم کے لئے عجیب وغریب انداز اختیار کیا کرتے تھے، اسی طرح جب انہیں کوئی خوشیاں لاحق ہوتی تو وہ خوشیوں کے اظہار کے واسطے حد سے گزر کر جشن سے بدل دیتے تھے، اور اس جشن کا انداز بھی عجیب وغریب ہوا کرتا تھا، لیکن جیسے ہی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں تشریف لائے انہوں نے ان دونوں تصور کی تردید کرتے ہوئے غم میں ماتم کی جگہ صبر، اور خوشی میں جشن کی جگہ شکر ادا کرنے کی تلقین فرمائی، اور ان دونوں طریقے کو مومنین کی علامت سے تشبیہ دیتے ہوئے فرمایا,, اَلَّـذِيْنَ اِذَآ اَصَابَتْهُـمْ مُّصِيْبَةٌ قَالُوْآ اِنَّا لِلّـٰهِ وَاِنَّـآ اِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ (سورہ بقرہ آیت 156)
وہ لوگ کہ جب انہیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو کہتے ہیں ہم تو اللہ کے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔
اسی طرح شکر ادا کرنے والوں کے لئے یہ وعدہ فرمایا,, وَاِذْ تَاَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِنْ شَكَـرْتُـمْ لَاَزِيْدَنَّكُمْ ۖ وَلَئِنْ كَفَرْتُـمْ اِنَّ عَذَابِىْ لَشَدِيْدٌ (سورہ ابراہیم آیت 7)
اور جب تمہارے رب نے سنا دیا تھا کہ البتہ اگر تم شکر گزاری کرو گے تو اور زیادہ دوں گا، اور اگر ناشکری کرو گے تو میرا عذاب بھی سخت ہے۔
یعنی کہ زندگی صبر اور شکر کے ساتھ گزارنے کی تلقین کی ۔
اسلام دنیا کا واحد مذہب ہے جس نے انسانوں کی تاریخ کیا ہے، انسانوں کی تخلیق کیوں کی گئی، انسانوں کی کامیابی اور ناکامی کہاں مخفی ہے ، کون سا عمل کرنا ہے اور کس عمل سے دور رہنا ہے ان باتوں کی مکمل، مدلل ومفصل راہنمائی کردی ہے ۔اللہ رب العزت نے انسانوں کی تخلیقات کرکے ایمان وکفر کے راستے بتائیں اور اسے اپنی قدرت اور اپنے اختیارات میں سے چند اختیارات عطاء فرماتے ہوئے ارشاد فرما دیا,, وَ قُلِ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكُمْ فَمَنْ شَآءَ فَلْیُؤْمِنْ وَّ مَنْ شَآءَ فَلْیَكْفُرْۙ-اِنَّاۤ اَعْتَدْنَا لِلظّٰلِمِیْنَ نَارًاۙ-اَحَاطَ بِهِمْ سُرَادِقُهَاؕ-وَ اِنْ یَّسْتَغِیْثُوْا یُغَاثُوْا بِمَآءٍ كَالْمُهْلِ یَشْوِی الْوُجُوْهَؕ-بِئْسَ الشَّرَابُؕ-وَ سَآءَتْ مُرْتَفَقًا() سورہ کہف آیت (۲۹)،،
اے بنی صلی اللہ علیہ وسلم آپ کہ دیں کہ حق تمہارے رب کی طرف سے ہے، جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے، بیشک ہم نے ظالموں کے لیے وہ آگ تیار کر رکھی ہے جس کی دیواریں انہیں گھیر لیں گی اور اگروہ پانی کے لیے فریاد کریں تو ان کی فریاد اس پانی سے پوری کی جائے گی جو پگھلائے ہوئے تانبے کی طرح ہوگا جو اُن کے منہ کوبھون دے گا۔ کیا ہی برا پینا اور دوزخ کیا ہی بری ٹھہرنے کی جگہ ہے۔
اللہ رب العزت نے انسانوں کو اختیارات دے رکھے ہیں کہ وہ ایمان پر چلے یا کفر پر، لیکن ساتھ ساتھ کفر کی مذمت بھی بیان فرمادی، اسی طرح ایمان کی حلاوت وچاشنی اور انعامات بھی بیان فرمائے,, اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ كَانَتْ لَهُمْ جَنّٰتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلًاۙ(سورہ کہف آیت ۱۰۷)بیشک جو لوگ ایمان لائے اور اچھے اعمال کئے ان کی مہمانی کے لئے فردوس کے باغات ہیں ۔
وَالَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَنُدْخِلُـهُـمْ جَنَّاتٍ تَجْرِىْ مِنْ تَحْتِـهَا الْاَنْـهَارُ خَالِـدِيْنَ فِيْـهَآ اَبَدًا ۖ وَعْدَ اللّـٰهِ حَقًّا ۚ وَمَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللّـٰهِ قِيْلًا (سورہ نساء آیت 122)
اور جو لوگ ایمان لائے اور اچھے کام کیے انہیں ہم باغوں میں داخل کریں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ان میں ہمیشہ رہیں گے، اللہ کا وعدہ سچا ہے، اور اللہ سے زیادہ سچا کون ہے۔
اس طرح سے اور بھی کئ آیات کریمہ ہیں، 
اللہ رب العزت کا وعدہ برحق ہے۔

يَآ اَيُّـهَا النَّاسُ اِنَّ وَعْدَ اللّـٰهِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيَاةُ الـدُّنْيَا ۖ وَلَا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللّـٰهِ الْغَرُوْرُ (سورہ فاطر آیت 5)
اے لوگو بے شک اللہ کا وعدہ سچا ہے پھر تمہیں دنیا کی زندگی دھوکے میں نہ ڈالے، اور تمہیں اللہ کے بارے میں دھوکہ باز دھوکا نہ دے،، 

یقیناً رب العزت نے  انسانوں کی تمام ضروریات کا خیال کرتے ہوئے اسے نعمتوں سے سرفراز کیا، زندگی گزارنے کے سلیقے دیئے۔
"عید الفطر" بھی رب العزت کی عطاء کردہ ایک عظیم نعمت ہے یہ وہ تہوار ہے جسے پوری دنیا میں بسنے والے مسلمان رمضان المبارک کا مہینہ ختم ہونے پر مناتے ہیں۔
اس لحاظ سے یہ ایک عظیم تاریخ سے جڑا ہوا ہے، عید کے دن اللہ رب العزت نے  روزہ رکھنے سے منع کیا ہے، عید در اصل تحفہ ہے ان مومنین و مومنات کے لئے جنہوں نے صرف رب کی رضامندی کی خاطر کھانے پینے اور نفسانی خواہشات سے خود کو الگ رکھا ہے ۔ مسلمان رمضان کے 29 یا 30 روزے رکھنے کے بعد یکم شوال المکرم کو عید مناتے ہیں۔اور بطورِ شکرانہ عید الفطر کے دن نماز عید (دو رکعت 6 زائد تکبیروں)کے ساتھ پڑھ کر رب کے سامنے اپنی بندگی کا اظہار کرتے ہیں ، جسے جامع مسجد یا کسی کھلے میدان یعنی عیدگاہ میں ادا کرتے ہیں ۔عید کے دن کئ اہم امور انجام دینے کا حکم ہے اور ان میں سب سے اہم یہ ہے کہ ہم اپنی جانب اور اہل خانہ کی جانب سے صدقۃ الفطر ادا کریں ۔صدقہ فطر حکم خداوندی کی بنا پر واجب ہے اس کی ایک حکمت ادائے شکر بھی ہے ۔جو مسلمان اتنا مال دار ہے کہ اس پر زکوٰۃ واجب ہے یا اس پر زکوٰۃ واجب نہیں، لیکن قرض اور ضروری اسباب سے زائد اتنی قیمت کا مال یا اسباب اس کی ملکیت میں موجود ہے جس کی مالیت ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت کے برابر یا اس سے زیادہ ہو تو اس پر عیدالفطر کے دن صدقہ دینا واجب ہے، چاہے وہ تجارت کا مال ہو یا تجارت کا مال نہ ہو، چاہے اس پر سال گزر چکا ہو یا نہ گزرا ہو۔ اس صدقہ کو صدقۂ فطر کہتے ہیں۔
جس طرح مال دار ہونے کی صورت میں مردوں پر صدقۂ فطر ادا کرنا واجب ہے اسی طرح اگر عورت مال دار صاحب نصاب ہے یا اس کی ملکیت میں قرضہ اور ضروری اسباب سے زائد اتنی قیمت کا مال وغیرہ ہے جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہے، مثلاً اس کے پاس زیور ہے جو والدین کی طرف سے ملا ہے یا شوہر نے نصاب کے برابر زیور عورت کو بطور ملکیت دیا ہے، یا مہر میں اتنا زیور ملا جو نصاب کے برابر ہے تو عورت کو بھی اپنی طرف سے صدقۂ فطر ادا کرنا واجب ہے، ہاں اگرشوہر اس کی طرف سے اسے بتاکر ادا کردے تو ادا ہوجائے گا۔
 مال دار عورت پر اپنا صدقۂ فطر ادا کرنا تو واجب ہے، لیکن اس پر کسی اور کی طرف سے ادا کرنا واجب نہیں، نہ بچوں کی طرف سے نہ ماں باپ کی طرف سے، نہ شوہر کی طرف سے۔
البتہ مال دار آدمی کے لیے صدقۂ فطر اپنی طرف سے بھی ادا کرنا واجب ہے، اپنی نابالغ اولاد کی طرف سے بھی، نابالغ اولاد اگر مال دار ہو تو ان کے مال سے ادا کرے اور اگر مال دار نہیں ہے تو اپنے مال سے ادا کرے۔ بالغ اولاد اگر مال دار ہے تو ان کی طرف سے صدقۂ فطر ادا کرنا باپ پر واجب نہیں، ہاں اگر باپ ازخود ادا کردے گا تو صدقۂ فطر ادا ہوجائے گا۔
عید الفطر کی رات یعنی چاند رات کو "ليلة الجائزة "  اور  عید الفطر کے دن کو " یوم الْجَوَائِزِ"  یعنی انعامات و بدلے کا دن حدیث میں کہا گیا ہے ۔
حضرت ابن عباس سے موقوفاً مَروی ہے :”يَوْمُ الْفِطْرِ يَوْمُ الْجَوَائِزِ“
عید کا دن ”یوم الجَوَائِز“یعنی انعام ملنے والا دن ہے۔(کنز العمال :24540)
نبی کریمﷺ اس دن کو مذہبی تہوار قرار دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں  : ”إِنَّ لِكُلِّ قَوْمٍ عِيدًا وَهَذَا عِيدُنَا“  (بیشک ہر قوم کیلئے عید کا دن ہوتا ہے اور یہ ہمارا عید کا دن ہے۔(بخاری:952)
اللہ تعالی عید الفطر کے دن فرشتوں کو گواہ بناکر روزہ داروں کی مغفرت فرمادیتے اور ان کے گناہوں کو سیئات سے بدل دیتے ہیں،  چنانچہ روزہ دار عید گاہ سے بخشے بخشائے واپس ہوتے ہیں ۔
اگر ہم غور وخوض کریں تو عید الفطر کی خوشیاں در حقیقت  قرآن کے ملنے پر منائی جاتی ہیں،  رمضان المبارک جو کہ قرآن کا مہینہ ہے،اور قرآن مجید کی تعریف خود قرآن مجید نے سب سے بڑی نعمت سے کرائی ہے ، اور اس قرآن کی نعمت پر خود رب العزت نے انسانوں کو خوشیاں منانے کا اعلان فرمایا ہے : یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ قَدْ جَآءَتْكُمْ مَّوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ شِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِۙ۬-وَ هُدًى وَّ رَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ  قُلْ بِفَضْلِ اللّٰهِ وَ بِرَحْمَتِهٖ فَبِذٰلِكَ فَلْیَفْرَحُوْاؕ-هُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ
(سورہ یونس آیت 57 58)
’’لوگو، تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت آگئی ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو دلوں کے امراض کی شفا ہے اور جو اسے قبول کر لیں ان کے لیے رہنمائی اور رحمت ہے۔ اے نبی ؐ ، کہو کہ’’ یہ اللہ کا فضل اور اْس کی مہربانی ہے کہ یہ چیز اْس نے بھیجی، اس پر تو لوگوں کو خوشی منانی چاہیے، یہ اْن سب چیزوں سے بہتر ہے جنہیں لوگ سمیٹ رہے ہیں۔‘‘

"عید الفطر کے اہم تقاضے" عید الفطر سے ہمیں کئ اہم پیغامات ملتے ہیں اور وہ یہ کہ ہم حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی بھی ادائیگی کریں،  اللہ کی بندگی کے ساتھ ساتھ ان کے تمام احکامات کو بجا لانے کی سعی کریں، نعمتوں پر شکر ادا کریں اور مصائب میں صبر وتحمل کے ساتھ اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے زندگی گزاریں،کیوں کہ شکر نام ہی ہے نعمتوں کے حقوق کی ادائیگی کا، اللہ نے جو بھی نعمتیں ہمیں میسر کی ہیں ان میں اوروں کے بھی حقوق ہیں، خصوصاً غرباء وفقراء ، مساکین، ضرورتمند، خویش واقربہ وغیرہ ۔
اسی لیے اپنی خوشیوں میں اپنے دوست واحباب، خویش واقربہ ،غرباء وفقراء اور ضرورتمندوں کو لازمی شامل رکھیں،انفرادی نہیں اجتماعی زندگی گزاریں، مسلمانوں کے کے ایک ایک لمحات عبادات ہیں، خواہ سماجی ومعاشرتی زندگی ہو ، اقتصادی زندگی ہو ، اجتماعی وانفرادی زندگی ہو،محفل وتنہائی ہو، خلوت وجلوت ہو، صبح وشام  یا رات ودن ہو، بشرطیکہ ہر معاملے میں احکامات الہی کو سامنے رکھیں۔ یہی وجہ ہے کہ عید الفطر کی نماز کے لئے ایک راستے سے جانے اور دوسرے راستے سے واپس آنے کا حکم ہے تاکہ ہم زیادہ سے زیادہ لوگوں سے ملاقات کرکے ان کے احوال سے واقف ہوکر ان کی مدد کرسکیں، خلاصہ عید اللہ کی نعمتوں کے شکر ادا کرنے کا ایک اہم ذریعہ اور وسیلہ ہے۔ہر مسلمان کو چاہیے کہ اللہ کے ان احکامات کو بھر پور بجا لانے کی کوشش کرے یہی پیغام ہے عید الفطر کا، اور یہی تقاضے ہیں بندگی کے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...