Powered By Blogger

ہفتہ, اکتوبر 19, 2024

سر زمین موضع جگت چند پور عرف چلکیا پوسٹ بڑھا پور

سر زمین موضع جگت چند پور عرف چلکیا پوسٹ بڑھا پور
Urduduniyanews72 
تحصیل نگینہ ضلع بجنور اترپردیش میں ایک روزہ عظیم الشان محفلِ حُسنِ قرات و نعتیہ مشاعرہ کا انعقاد ہو رہا ہے ۔
جسمیں ضلع بجنور کے مشہور و معروف قراء کرام اور شعراء حضرات تشریف لا رہے ہیں
17 اکتوبر 2024 بروز جمعرات بعد نمازِ عشاء محفلِ قرات و نعت یہ مشاعرہ
17 اکتوبر 2024 بروز جمعرات بوقت 10 بجے صبح برائے مستورات  


ہفتہ, اکتوبر 05, 2024

گستاخ نبی کی قرآنی سزا

گستاخ نبی کی قرآنی سزا
اردودنیانیوز۷۲ 
مکہ میں سب سے پہلےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنےوالا کوئی اور نہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حقیقی چچا ابولہب تھا۔ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صفا پہاڑ پر چڑھ کر لوگوں سے خطاب کررہے تھے اوردلنشیں انداز میں مذہب اسلام کی دعوت دے رہے تھے کہ اچانک مجمع میں سے ابولہب اپنے ہاتھوں میں پتھر اٹھا کر حضور اکرم کی طرف پھینکا اور یہ بولا محمد!"تو برباد ہوجائے! کیا ہم کو اسی بات کے لیے یہاں جمع کیا تھا "
ابو لہب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا سخت ترین دشمن تھا۔ قرآن کریم میں اللہ تعالی نے مکمل ایک سورہ نازل کرکے دنیا جہان والوں کو اس کی گستاخی کے برےانجام سے باخبر کیا ہے۔ارشاد باری تعالٰی ہے:
" ٹوٹ گئے ہاتھ ابی لہب کے اور ٹوٹ گیا وہ خود آپ،اور کام نہ آیا اس کو مال اس کا، اور نہ جو اس نے کمایا،اب پڑے گا ڈیگ مارتی آگ میں، اور اس کی جورو جو سر پر لئے پھرتی ہے ایندھن، اس کی گردن میں رسی ہے مونجھ کی۔(سورہ تبت مکیہ)

قرآن کا کہاہواحرف بحرف پورا ہوا،محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تباہی چاہنے والا خود بربادی کے گڑھے میں پہونچ گیا۔ اس گستاخ کےناپاک جسم میں زہریلے دانے نکلنے شروع ہوگئے، سخت بدبو پیدا ہوگئی، چنانچہ تعفن اور مرض لگ جانے کے خوف سے کوئی  اس کے قریب نہیں پھٹکتا تھا، گھر والوں نے بھی اس سے دوری بنالی،اسی حالت میں وہ تڑپ تڑپ کر مرگیا۔ تین دن تک اس کی لاش پڑی سڑتی رہی،جب راہ گیروں کو سخت اذیت محسوس ہوئی تو حبشی مزدوروں کے ذریعہ ایک گڑھا کھدوایا گیا اورلکڑی ڈنڈے سے اس کی لاش کو اندر ڈھلکاکر اوپر سے پتھر بھردیئےگئے، اس طرح یہ گستاخ نبی جہنم رسید ہوا اور اپنی بربادی کے گڑھے میں پہونچ گیا۔
ابولہب کو اپنے مال اور اپنی تعداد پر بہت ناز تھا، دراصل اسی وجہ سے اس کے اندرنبی کی شان میں یہ گستاخی کا حوصلہ پیدا ہوا۔وہ یہ سمجھ رہا تھا کہ یہ تھوڑی سی تعداد میں کلمہ گو مسلمان میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ہیں،قرآن نےاس موقع پر یہ اعلان کیا کہ اس کامال اس کے کام نہ آیا اور نہ تعداد اس کے کام آئی، سب  کچھ پڑا رہ گیا اور وہ نشان عبرت بن گیا۔
دوسری چیز جس کا اس سورہ میں خاص طور پر ذکرہے یہ ابولہب کی بیوی ہے جس کا نام ام جمیل یے۔
قرآن کریم نے اس عورت کے عبرتناک انجام سے بھی آگاہ کیا ہے۔اس کا گناہ یہ تھا کہ انہوں گستاخ نبی کی مدد کی تھی، جنگل سے خاردار لکڑیاں لاتی تھی اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی راہوں میں ڈالا کرتی تھی ۔اس عورت کے گلے میں ایک قیمتی ہار تھا،وہ کہا کرتی تھی کہ لات وعزی کی قسم! میں اس ہار کو محمد کی عداوت پر خرچ کروں گی۔چنانچہ لکڑیوں کے گٹھر کی رسی گلے میں آپڑی جس سے گلا گھٹ گیا اور یہ بھی جہنم رسید ہوگئی ۔
                    لو اب آپ دام میں صیاد آگیا 
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی یہ قرآنی سزا ہے۔ ہر زمانے میں گستاخوں کو ملتی رہی ہے۔تاریخ اس پر شاہد ہے۔محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خود اللہ رب العزت نے اپنی لازوال کتاب میں یہ کہ دیا ہے کہ ہم آپ کا مذاق بنانے والوں کو نشان عبرت بنادیں گے باوجود اس کے کچھ احمق لوگ آقا کی شان میں گستاخیاں کرنے لگتے ہیں۔انہیں اپنی تعداد پر فخر ہے، یہ چیز ان کے کسی کام نہیں آنے والی ہے، اپنے انجام کو یہ بھی پہونچنے والے ہیں۔آقائے نامدار سے بغض وعداوت کی وجہ صرف اور صرف مذہب اسلام اور اس کی سچی تعلیم ہے۔آج بھی بحمداللہ لوگ اس پاک دین کو گلے لگارہے ہیں۔
آج دین اسلام سےمتنفر کرنے کے لئے اور اپنی سیاسی روٹی سینکنے کے لئے ایک ناپاک اور زہریلا انسان جو خود کو پنڈت کہتا ہے وہ نعوذ باللہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے کارٹون جلانے کی بات کہتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام ونشان مٹانے کا خواب دیکھتا ہے، اسی طرح کے خواب آج سے ساڑھے چودہ سوسال پہلے بھی کچھ لوگ دیکھ رہے تھےاور یہ خیال ظاہر کرتے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی بیٹا نہیں ہے، بس جب تک وہ زندہ ہیں تو زندہ ہیں،جس دن انتقال کریں گے تو کوئی نام لینے والا نہیں ہوگا۔عرب میں جس کے گھراولاد نرینہ نہیں ہو اسے" ابتر" یعنی بے نام ونشان کہتے تھے۔قرآن نے یہ اعلان کیا کہ : اے محمد! بیشک جو تیرا دشمن ہے وہی ابتر اور بے نام ونشان ہے۔آج ساڑھےچودہ سو سال کے بعد بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی اولاد سے دنیا بھری پڑی ہے، جسمانی ودختری اولادیں بھی بکثرت ممالک میں پھیلی ہوئی ہیں،مگر ان گستاخان نبی کا کہیں اتا پتہ نہیں ہے۔ ان شاء اللہ العزیز عنقریب یہ بھی اپنی گستاخی کی سزااپنے انجام بدکی شکل میں پائیں گےاورقصہ پارینہ ہوجائیں گے۔قرآن کا ان کے حق میں فیصلہ یہی ہے۔

ہمایوں اقبال ندوی ارریہ 
یکم ربیع الثانی ۱۴۴۶ھ

جمعہ, ستمبر 27, 2024

* بلڈوزر ایکشن

** بلڈوزر ایکشن***
اردودنیانیوز۷۲ 
مایوسیوں کے اندھیروں میں امید کی کرن

مبارک حسین مصباحی
چیف ایڈیٹر ماہ نامہ ۔۔اشرفیہ،،مبارک پور(اعظم گڑھ) 

2019 ء سے جزوی طور پر اور پھر 2022 ء میں بلڈوزر ایکشن شروع کیا۔ ہر طرف ہاہاکار مچی ہوئی تھی، بلڈوزر ایکشن یو پی کے مختلف علاقوں میں اپنی گھن گرج کے ساتھ آگے بڑھتا رہا ، اس کے بعد ایم پی اور راجستھان وغیرہ میں اس کے شعلوں کی چنگاریاں اٹھنے لگیں ، خدا بھلا کرےان تنظیموں اور سر کردہ شخصیات کا جنھوں نے کیس سپریم کورٹ میں داخل کیا اور طے شدہ تاریخ پر اپنے بحث کرنے والے ماہر وکلاکو کھڑا کیا۔
ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے اس کے دستور میں الیکشن کے بعد سلیکشن ہوتا ہے، ہندو ، مسلم ، سکھ اور عیسائی وغیرہ سب کو اپنے مذہبی امور اور احکام پر عمل کرنے کی اجازت ہے یہاں سول کورٹ اپنے اپنے صوبوں کی ہائی کورٹ اور ملکی سطح پر سپریم کورٹ ہے مگر افسوس بعض سیاسی پارٹیاں کٹر پنتھ مذہبی تنظیموں کے تعاون سے برسر اقتدار ہیں اور وہ اپنے مذاہب کی برتری کے لیے دیگر مذاہب پر حملہ آور رہتی ہیں ۔ اب آپ موجوده بی جے پی ہی کو دیکھ لیجیےجو آر ایس ایس اور بجرنگ دل وغیرہ ہند و کٹر پنتھ مذہبی تحریکوں کے دباؤ میں کام کر رہی ہیں ۔یہ مذہبی تحریکیں دیگر مذاہب پر مسلسل شب خون مار رہی ہیں، خاص طور پر مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں پر حملہ آور رہتی ہیں اسکولوں اور کالجوں میں تعلیم و تربیت کا مسئلہ ہو یا جو ان بچیوں کے پر دے اور نقاب کا مسئلہ، اسی طرح وقف ایکٹ 2024 کا مسئلہ ہو یا دینی مدارس کو اسکولوں اور کالجوں میں بدلنے کا مسئلہ ۔ اسی طرح دیگر مسائل میں بھی مسلسل مداخلت کرتی رہتی ہیں ۔
 بلڈوزر ایکشن معاملے میں کانگریس کی ترجما ن سپریہ شرینت نے ویڈیو جاری کرکے ردعمل دیا کہ بلڈوزر کارروائی کسی بھی جمہوری ملک میں قابل قبول نہیں ہے اور وہ بھی اقلیتوں کے خلاف تو بالکل بھی نہیں کیوں کہ اس کے ذریعے اکثریتی جبر کا پیغام دیا جاتا ہے جسےسپریم کورٹ نے بیک جنبش قلم مسترد کردیا ہے۔ سپریہ شرینیت نے مزید کہا کہ کانگریس پارٹی ہمیشہ سے کہتی رہی ہے کہ بلڈوزر انصاف کا طریقہ نہیں ہو سکتا بلکہ یہ تو جبر کا طریقہ ہے جس سے مودی حکومت اور بی جے پی کی دیگر حکومتوں کو بچنا چاہیے تھا لیکن وہ اسے پورے ملک میں فروغ دے رہے تھے بہرحال اب سپریم کورٹ نے اس کا نوٹس لے لیا ہے اور فیصلہ سنادیا ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ جو گائیڈ لائنز جاری ہوں گی وہ نہایت معقول ہو ں گی۔ واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے ملک میں یکم اکتوبر 2024تک بلڈوزر کارروائی پر روک لگادی ہے۔ کورٹ نے مرکزی حکومت کی سرزنش کرتے ہوئے کہاکہ اگر دو ہفتہ تک بلڈوزر پر روک لگی رہی تو کوئی آسمان نہیں گر پڑے گا۔ بنچ نے ایک مرتبہ پھر واضح کیاکہ اس کے احکامات غیرقانونی تعمیرات کے بارے میں نہیں تاہم کہاکہ اگرایک بھی غیر قانونی انہدامی کارروائی ہوئی تو اس کو آئینی اخلاقیات کے خلاف تصور کیا جائے گا۔ مرکزی حکومت کے ذریعہ ملک گیر سطح پر اس طرح کی روک عائد کرنے پر اعتراض کو مسترد کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہاکہ وہ آئین کے آرٹیکل ۱۴۲؍ کے تحت اپنے خصوصی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے یہ احکامات جاری کر رہی ہے۔ عدالت نے عندیہ دیاکہ وہ رہنما خطوط کے بجائے غیرقانونی بلڈوزر کارروائیوں کے خلاف احکامات جاری کرسکتی ہے۔سپریم کورٹ میں جمعیۃ کےدونوں گروپوں اور دیگر کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے جسٹس بی آر گوئی اور جسٹس کے وی وشناتھن کی بنچ نےاپنے واضح حکم میں کہاکہ’’ اگلی تاریخ تک اس عدالت کی اجازت کے بغیر کوئی انہدامی کارروائی نہیں ہو گی۔ تاہم اس طرح کا حکم عوامی سڑکوں، فٹ پاتھ، ریلوے لائنوں یا عوامی مقامات پر غیر مجاز تعمیرات پر لاگو نہیں ہوگا۔‘‘ سینئر ایڈوکیٹ چندر ادے سنگھ سپریم کورٹ میں گزشتہ سماعت کے باوجود انہدامی کارروائی کی بنچ کی توجہ دلائی تھی۔ انہوں نے پتھربازی کا الزام عائد کرکے ۱۲؍ ستمبر کو گھر منہدم کئے جانے کے بارے میں عدالت کو آگاہ کیا۔حالانکہ مرکزی حکومت نے اس کا دفاع کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اس کو ایک غیر متعلقہ معاملہ قرار دیا۔ تاہم بنچ نے ناراضگی کااظہار کرتے ہوئے سوال کیاکہ تو پھر اس معاملے میں اچانک انہدام کی ضرورت کیوں پیش آگئی؟ اس کے بعد بنچ نے اپنے سخت مشاہدہ میں کہاکہ عدالت ناجائز تعمیرات کے انہدام میں طاقت اور اختیارات کے غلط استعمال کے خلاف احکامات جاری کرنا چاہتی ہے۔ حالانکہ سالیسٹر جنرل نے عدالت کی توجہ اصل مسئلہ سے ہٹانے کی بھرپور کوشش کرتے ہوئے کہاکہ یہ بیانیہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ایک خاص برادری کے گھروں کو منہدم کیا جارہاہےلیکن عدالت نے اسے تسلیم نہیں کیا۔
سپریم کورٹ نے یوگی آدتیہ ناتھ کی طرح بلڈوزر کارروائی کرنے والی ریاستوں پر بڑا فیصلہ سنایا ہے۔ سپریم کورٹ نے بلڈوزر کی کارروائی پر پابندی لگا دی ہے اور سبھی ریاستوں کو ہدایات جاری کی ہیں۔ اب کوئی بھی ریاست اجازت کے بغیر بلڈوزر کی کارروائی نہیں کر سکے گی۔ بلڈوزر کارروائی کے خلاف دائر درخواستوں پر سپریم کورٹ نے یہ روک لگائی ہے۔ سپریم کورٹ نے واضح طور پر کہا کہ اگلی سماعت تک کسی بھی ریاست میں بلڈوزر کی کارروائی نہیں ہوگی۔
گذشتہ سنوائی میں جسٹس بی آر کی سربراہی میں گوائی بنچ نے واضح کیا تھا کہ قانون ان ملزمان کی جائیدادوں کو منہدم کرنے کی اجازت نہیں دیتا، جن پر ابھی تک مقدمہ چل رہا ہے۔ جسٹس گوائی نے 2 ستمبر کو سماعت کے دوران زبانی طور پر ریمارکس دیئے تھے کہ کسی ایک کیس میں ملزم ہونے پر کسی کا گھر کیسے گرایا جا سکتا ہے؟ قانون اس بات کی اجازت نہیں دیتا۔ چاہے کوئی شخص مجرم ہی کیوں نہ ہو؟
غور طلب ہے کہ عدالت نے درخواست گزاروں سے غیر قانونی مسماریوں کے خلاف یکساں رہنما خطوط وضع کرنے کے لیے تجاویز طلب کی تھیں۔ مرکزی عرضی گزار تنظیم نے انہدام سے کم از کم 45 سے 60 دن پہلے پیشگی نوٹس تجویز کیا ہے، جس میں قانونی دفعات کی وضاحت کی گئی ہے۔ جس کے تحت جائیداد کو مسمار کیے جانے اور من مانی کارروائی کے ذریعے قانون کی خلاف ورزی کرنے والے افسران پر ذاتی ذمہ داری عائد کی جائے گی۔
قابل ذکر ہے کہ درخواست گزار نے ان افراد اور ان کے خاندانوں کو فوری اور جامع ریلیف، بحالی اور معاوضہ دینے کا مطالبہ کیا ہے جن کے گھروں کو بلڈوز کیا گیا ہے۔
سینئر ایڈوکیٹ دشینت دیو، سینئر ایڈوکیٹ سی یو کے ساتھ درخواست گزار کی طرف سے پیش ہوئے۔ سنگھ نے پچھلی سماعت میں عدالت سے یہ بیان دینے پر زور دیا تھا کہ ان کے رہنما خطوط کے ذریعہ 'ملک میں کہیں بھی بلڈوزر جسٹس نہیں ملا۔
اِدھر عدالت کے اس فیصلے پر سماج وادی پارٹی (ایس پی) کے سربراہ اکھلیش یادو کا رد عمل سامنے آیا ہے۔انھوں نے یوپی حکومت پر سخت نکتہ چینی کی ہے۔ ایک نیوز چینل سے گفتگو کرتے ہوئے اکھلیش یادو نے کہا ہے ،’’جس دن سے یہ بلڈوزر چلنا شروع ہوا ہے، ہم اپوزیشن کے لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ آئین کے خلاف ہے۔ بلڈوزر کو انصاف کیسے سمجھا جا سکتا ہے؟ یہ جمہوریت میں انصاف نہیں ہو سکتا۔ میں سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا خیرمقدم کرتا ہوں ۔ اس فیصلے کے بعد بلڈوزر ہمیشہ کے لیے بند ہو جائے گا۔میں خاص طور پر ان لوگوں کومبارکباد دیتا ہوں ، جن کو عدالت انصاف دے سکتی ہے۔ایسے میں حکومت کے خلاف ہی کارروائی ہو گی۔ اکھلیش یادو نے مزید کہا، حکومت نے لوگوں کو ڈرانے کے لیے جان بوجھ کر بلڈوزر کی اتنی تشہیر کی کہ لوگ دہشت میں آگئے۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ بلڈوزر ایکشن کا اتنا’’ مہِما منڈن‘‘ نہیں ہونا چاہئے، میں اس کے لئے ان کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔‘‘دوسرے کئی اپوزیشن لیڈروں نے بھی سپریم کورٹ کی اس ہدایت کا خیرمقدم کیا ہے۔
  اس سے قبل 12 ستمبر کو بھی’’ بلڈوزر ایکشن‘‘ پرسپریم کورٹ نے کہا تھا کہ بلڈوزر کی کارروائی ملک کے قوانین پر بلڈوزر چلانے کے مترادف ہے۔ تب یہ معاملہ جسٹس ہرش کیش رائے، جسٹس سدھانشو دھولیا اور جسٹس ایس وی این بھٹی کی بنچ کے سامنے تھا۔بنچ کے ذریعہ معاملے کی سماعت کے دوران کورٹ کا آبزرویشن سامنے آیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ اگر کوئی ملزم قصوروار بھی ہے، اس کے باوجود قانونی عمل کی پیروی کیے بغیر اس کے گھر کو مسمار نہیں کیا جا سکتا۔
قابل ذکر ہے کہ بی جے پی کی حکومت والی تین ریاستوں میں قانونی عمل کو درکنار کر ملزمان کو من مانے ڈھنگ سے قصوروار قرار دیکر ان کے مکانات کو مسمار کرنے کی کارروائی کی جاتی رہی ہے۔ آئینی نظام پر حملے کی شروعات یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے کی تھی۔ وہ اس کام میں اتنے مشہور یا کہہ لیجئے کہ بدنام ہوئے کہ لوگ انھیں ’’بلڈوزربابا‘‘ کہنے لگے۔اس لقب پر بابا بھی پھولے نہیں سماتے رہے۔ ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مدھیہ پردیش اور پھر بی جے پی حکومت بننے کے بعد راجستھان میں بھی بلڈوزر کے گرجنے کی بازگشت پوری دنیا میں سنائی دینے لگی۔تازہ ترین واقعہ کی بات کریں تو اسی سال ماہ جون میں یوپی کے مراد آباد اور بلیا میں 2 ملزمان کی 6 جائیدادیں مسمار کر دی گئیں۔اسی دوران بریلی میں روٹی کے تنازعہ پر ایک نوجوان کو پیٹ پیٹ کر ہلاک کرنے والے ہوٹل مالک ذیشان کے ہوٹل کو زمین بوس کر دیا گیا۔ 21 اگست کومدھیہ پردیش کے چھتر پور کوتوالی پولس اسٹیشن پر پتھراؤ کرنے کے لئے ہجوم کو اکسانے کے الزام میں 24 گھنٹے کے اندر، حکومت نے 20 کروڑ روپے کی لاگت سے بنی ، حاجی شہزاد علی کی تین منزلہ حویلی کو مسمار کردیا۔ اسی طرح راجستھان کے ادے پور کے ایک سرکاری اسکول میں 10ویں جماعت میں پڑھنے والے بچوں کے درمیان ہوئی مارپیٹ کے معاملے کو ہوا دیکر بات کا اس قدر بتنگڑ بنایا گیا اور پھر 17 اگست کو ملزم طالب علم کے والد سلیم شیخ کے گھر کو منہدم کر دیا گیا۔اس سے قبل حکومت کی ہدایت پر محکمہ جنگلات نے ملزم کے والد کو غیر قانونی کالونی میں بنایا ہوا مکان خالی کرنے کا نوٹس دیا تھا۔اس طرح کی غیر قانونی اور غیر آئینی کارروائی کا سلسلہ دراز ہوتا چلا جا رہا تھا۔اسی دوران ایک عرضی پر سنوائی کرتے ہوئے ، سپریم کورٹ نے بی جے پی کے اس منافرت آمیز ’’بلڈوزر ایکشن‘‘ پر بریک لگا دیا ہے۔سپریم کورٹ کی ہدایت میں مضمر عندیہ سے ایسا لگ رہا ہےکہ معاملے کی مکمل سماعت کے بعد اس غیر جمہوری ایکشن پر ہمیشہ کے لئے بریک لگ جائےگا۔
مہاراشٹر میں انتظامیہ کے ذریعہ بلڈوزر کا استعمال کر مبینہ مزار کو منہدم کیے جانے کا معاملہ سامنے آیا ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ رات کی تاریکی میں ناسک منماڈ چاندواڑ شاہراہ پر بنے مزار پر بلڈوزر ایکشن ہوا ہے۔ اس سے قبل میرا روڈ میں بھی ایک مزار کو نیست و نابود کر دیا گیا تھا۔
دراصل بی جے پی رکن اسمبلی نتیش رانے نے اسمبلی میں قومی شاہراہ پر بنے اس مزار کا معاملہ اٹھایا تھا اور اسے مزار کے نام پر ’لینڈ جہاد‘ سے تعبیر کیا تھا۔ انھوں نے مزار کو ختم کرنے کا الٹی میٹم بھی دیا تھا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انتظامیہ نے بلڈوزر سے مزار کو منہدم کر دیا۔ اس کارروائی کے بعد شاہراہ پر سیکورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔ بڑی تعداد میں پولیس فورس کی تعیناتی کی گئی ہے تاکہ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آئے۔
انتہائی افسوسناک خبر ہے کہ لکھنو کے اکبر نگر میں 16 بلڈوزروں سے سینکڑوں مکانات منہدم کر دیے گئے ان مکان مالکوں میں بعض نے اپنے مکان خریدے تھے جبکہ اکثر نے زمینیں خرید کر مکان بنائے تھے اہل خانہ اور بچے چیختے رہے مگر لکھنو میونسپل کارپوریشن اور لکھنو ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے 16 بلڈوزر مسلسل منہدم کرتے رہے مقامِ افسوس یہ ہے کہ گورنمنٹ وہاں روڈ اور پانی وغیرہ کی سہولتیں بھی دے رہی تھی، لائٹ کی سپلائی بھی اپنے اصولی طریقوں سے ہو رہی تھی مدرسہ اہل سنت نور اسلام کے بانی و مہتمم حضرت مولانا قاری روشن علی قادری سے موبائل پر گفتگو ہوئی، وہ درد و غم سے نڈھال تھے، فرمانے لگے کہ آپ کو تو ہم نے اپنے مدرسہ کے اجلاس میں مدعو کیا تھا آپ تشریف بھی لائے تھے ظلم و جبر کا نشانہ بنا کرسب کچھ نیست و نابود کر دیا ۔ایف زیڈ پبلک اسکول، محمدیہ مسجد، مدرسہ فاطمہ زہرا للبنات کو بھی بلڈوزر کا نشانہ بنا دیا گیا موصوف نے فرمایا کہ ہر سال ہمارے مدارس سے حفاظ و قرا کی قابل ذکر تعداد فارغ ہوتی تھی فرمانے لگے کہ ان اداروں کی تعمیر میں 10 کروڑ سے زائد رقم خرچ ہوئی تھی مزید فرمایا کہ مزید تین مسجدیں بھی شہید کر دی گئیں۔
یہ افسوس ناک حالات ہیں، ہم نے چند باتیں انتہائی اختصار کے ساتھ سپردِ قلم کی ہیں۔ ان درد ناک احوال کی روداد سناتے ہوئے قلم اشک بار ہے۔ آپ نے سنا، کتنے مدارس، مساجد، اور مزارات کو شہید کر دیا ، ان مقدس مقامات سے مسلمانوں کی عقیدت کا رشتہ تھااور مدارس میں نئی نسلوں اور نادار طلبہ کی تعلیم و تربیت کا تعلق تھا، جن کے مکانات توڑ دیے گئے ہیں ان بے چاروں کے پاس اتنا سرمایہ کہاں ہے کہ وہ نئی زمینیں خرید کر اپنے مکان تعمیر کرائیں، اس لیے ہم سپریم کورٹ سے گزارش کرتے ہیں کہ کروڑوں کے نقصانات کی بھرپائی کے لیے بلڈوزر حکومتوں کو آرڈر کرے کہ یہ حکومتیں انھیں بھر پور معاوضہ دیں، حیرت و افسوس کا مرحلہ یہ ہے کہ ایک فرد سے جرم کچھ اور ہوا ہے ، اس مجرم کے اس جرم پر کیس چلانے اور اس پر سزا سنانے کے بجاے اس کی بلڈنگ اور مکان پر بلڈوزر چلانے کا کیا مطلب ہے؟ اور پھر سارے جرائم مسلمانوں اور غیر بی جے پی والوں کے ہی کیوں اجاگر ہوتے ہیں، اور اگر ہیں بھی تو ان کی سگےزا میں ان کے مکانوں اور جائدادوں کو تباہ کرنا کہاں کا انصاف ہے؟ ان شاء اللہ تعالیٰ سپریم کورٹ کا فیصلہ حق و انصاف پر مبنی ہوگا۔**

اشاعت کی درخواست کے ساتھ۔۔۔۔۔۔۔ (مبارک حسین مصباحی) 

*****دارالقلم*****
 انس مسرورانصاری
قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن (انڈیا) 
     رابطہ/9453347784/

اتوار, ستمبر 22, 2024

بہار کے ذریعہ اردو فکشن کا مستقبل روشن ہے۔ پروفیسر اسلم جمشید پوری

بہار کے ذریعہ اردو فکشن کا مستقبل روشن ہے۔ پروفیسر اسلم جمشید پوری
 شہاب ظفر اعظمی کا طرز تنقید انفرادیت رکھتا ہے۔عبدالصمد
اردودنیانیوز۷۲ 
پٹنہ ( پریس ریلیز )

بہار میں اردو فکشن کی تو انا روایت رہی ہے جو سہیل عظیم آبادی ، اختر اور بینوی، شکیلہ اختر کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی ۔ اس خیال کا اظہار معروف ناقد اور شعبۂ اردو چودھری چرن سنگھ یو نیورسٹی کے صدر پروفیسر اسلم جمشید پوری نے شعبہ اردو پٹنہ یونیورسٹی میں ایک تقریب میں کلیدی خطبہ دیتے ہوئے کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ نئے فکشن کو اعتبار قائم کروانے میں عبدالصمد غضنفر، آفاقی ، ذوقی حسین الحق ، شموئل احمد ذکیہ مشہدی اور شوکت حیات وغیرہ کا بڑا رول رہا ہے۔ بالکل نئے لکھنے والوں میں او بیناش امن، نورین علی حقی ، نیاز اختر ، فیاض احمد وجیہ، رومانہ تبسم اور نیلوفر یاسمین وغیرہ افسانے کی دنیا کو وسیع کر رہے ہیں جبکہ ناولوں میں عبدالصمد ، صغیر رحمانی، احمد صغیر ، وغیرہ کی اقتدا میں سلمان عبد الصمد، پیسین احمد وغیرہ کا ذکر کیا جا سکتا ہے۔ نئے لکھنے والے صرف تہذیب کا رونا نہیں روتے ، ان کی تخلیقات پچاسی فیصد دیگر آبادی کے مسائل و موضوعات کا بھی احاطہ کرتی ہیں۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ اردو فکشن کا مستقبل بہار کے لکھنے والوں کے توسط سے محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ واضح ہو کہ شعبہ اردو پٹنہ یونیورسٹی میں آج ایک قومی سیمینار کا انعقاد کیا گیا تھا جس کی صدارت معروف فکشن نگار عبد الصمد نے کی اور کلیدی خطبہ پر وفیسر اسلم جمشید پوری نے پیش کیا۔ اس موقع پر شعبے کے استاد ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی کے تنقیدی مضامین کے مجموعہ ” اردو فکشن تنقیدات و تفہیمات کا اجرا ابھی عمل میں آیا جسے ڈاکٹر عارف حسین نے ترتیب دے کر پیش کیا ہے۔ بہار میں نے فکشن اور شہاب ظفر اعظمی کی فکشن تنقید پر پروفیسر عبدالصمد، پروفیسر افسانہ خاتون ، ڈاکٹر شاداب علیم اور ڈاکٹر ارشاد سیانوی نے بھی
اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ صدارتی خطبہ پیش کرتے ہوئے معروف فکشن نگار عبد الصمد نے کہا کہ بہار نے ۱۹۸۰ کے بعد اردو فکشن کی طرف لوگوں کو متوجہ کرنے میں بڑا رول ادا کیا ہے۔ مگر ایک اہم سوال ہے کہ اردو میں بڑا ناول کیوں نہیں لکھا جا رہا ہے؟“۔ ضرورت ہے کہ فکشن پر بڑے سیمینار اور ورک شاپ ہوں اور ان میں اس سوال پر غور کیا جائے اور نئے لکھنے والوں کی ضروری تربیت کی جائے۔ انہوں نے زور دیا کہ ادب کی تخلیق محنت طلب کام ہے، نئے لکھنے والوں کو نجات پسندی سے کام نہ لے کر محنت اور صبر سے کام لینا چاہیے۔ پروفیسر افسانہ خاتون نے شہاب ظفر اعظمی کی تنقیدی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ان کی کتاب کو فکشن کی تفہیم میں اہم کتاب قرار دیا اور طلبہ کو تلقین کی کہ جس طرح شہاب ظفر ادبی وغیر ادبی سیاست سے دور رہ کر صرف کام پر توجہ دیتے ہیں ۔ اسی طرح آپ بھی اپنے کام پر توجہ دے کر اپنی شناخت قائم کریں ۔ جد و جہد اور مسلسل محنت سے ہی آپ کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔
 انہوں نے شعبہ اردو کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ کسی شعبے کی رونق اس کے بچوں سے ہوتی ہے اور یہ بھرا ہوا حال ثبوت ہے کہ شعبہ اردو اپنے بچوں کی تربیت
احسن طریقے سے کر رہا ہے۔شعبہ اردو میرٹھ یونیورسٹی کی استاد ڈاکٹر شاداب علیم نے شہاب ظفر اعظمی کی کتاب کے لئے انہیں مبارکباد دیتے ہوئے ان کی تنقید نگاری پر گفتگو کی اور کہا کہ ادب و تنقید کے تعلق سے ان کے نظریات بہت واضح ہیں ۔ وہ تنقید میں استہزائی اور منفی لہجہ کے قائل نہیں ہیں۔ ان کی گفتگو ہمیشہ معتدل رہتی ہے۔ وہ فکشن کی باریکیوں سے کما حقہ واقف ہیں ۔ وہ نظریاتی اصولوں کے ساتھ ساتھ عملی شواہد بھی پیش کرتے ہیں۔ اپنی کتاب میں انہوں نے ۱۷ مضامین کلاسیکی وجدید فکشن کے تعلق سے لکھ کر اپنے ہمہ جہت مطالعے کا ثبوت دیا ہے۔
شعبہ اردو چودھری چرن سنگھ یو نیورسٹی کے استاد اور نوجوان نا قد ڈاکٹر ارشاد سیانوی نے بھی شہاب ظفر اعظمی کے تنقیدی رویئے پر اپنی آرا پیش کی اور کہا کہ شہاب صاحب کا ذہن تنقیدی میدان میں تعصبات و تحفظات سے پاک ہے۔ انہوں نے ہم عصر فلکشن پر خاص نگاہ رکھی ہے۔ وہ ٹکشن جمالیات کے ساتھ ساتھ کلاسیکی افسانوی روایت پر بھی نظر رکھتے ہیں۔ پروگرام کا آغاز کتاب کی مرتب ڈاکٹر عارف حسین کی تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ اس کے بعد صدر شعبہ اردو ڈاکٹر سورج دیوسنگھ نے مہمانوں کا استقبال کرتے ہوئے ان کی شرکت کے لیے ہدیہ تشکر پیش کیا۔ پروگرام کی پیش روی ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی نے کی جبکہ انتظام و انصرام کی ذمہ داری شعبے کے طلبہ واسکالرز بالخصوص فیاض کریم ، واصف اعلم معظمی، عافیہ بشری، شیر میں تسنیم ، آفرین عالیہ ، رحت ظہیر محمد هنو از قمر الزماں، کمیل رضا محمد عطا اللہ شاذیہ خاتون وغیرہ نے بخوبی نبھائی۔ اس تقریب میں ڈیڑھ سو سے زاید طلبہ طالبات کے علاوہ عظیم آباد کے ہم اساتذہ اور معتبر شخصیات نے شرکت کی جن میں پروفیسر صفدر امام قادری فخرالدین عارفی ، ڈاکٹر اے کے علوی، ڈاکٹر جاوید حیات ، ڈاکٹر سرور عالم ندوی ، ڈاکٹر صادق حسین، نوشاد احمد عاطر ، عبد الباسط حمید محمد جلال الدین، سہیل انور، بالمیکی رام ، مسرت جہاں نور السلام ندوی، رہبر مصباحی، افضل حسین ، حبیب مرشد خان افقی احمد جان، ہاشم رضا مصباحی، سلیم اختر ، ابوالکلام آزاد محمود عالم، نرجس فاطمہ، صفدری صاحب، انوار اللہ صحافی ، ضیائ الحسن صحافی وغیرہ کے نام شامل ہیں ۔

ہفتہ, ستمبر 21, 2024

آخری گناہ

آخری گناہ
اردودنیانیوز۷۲ 
                       ٭ انس مسرورانصاری
                            9453347784 
     انسانی معاشرہ میں پھیلتی ہوئی برائیوں سےچشم پوشی اختیارکرناکسی قوم کاآخری گناہ ہوتاہے۔پھر
قدرت اُس قوم کومعاف نہیں کرتی۔تباہی وبربادی اُس کامقدّربن جاتی ہے۔تاریخ کامطالعہ کیجئے تومعلوم ہوتاہے کہ اس خاک دانِ گیتی پربہت سی قومیں پیدا ہوئیں،اُبھریں اورعروج حاصل کیا۔عیش پرستی اور مختلف خرافات میں مبتلاہوئیں ۔پھرتباہیوں کے سیلاب میں ڈوب گئیں۔ ان میں سے بعض کے صرف آثاروقرائن باقی رہ گئے۔ 
          عجیب لوگ تھے صدیوں توسربلندرہے
          مگر مٹے تو نشا نِ مز ا ر تک نہ رہا۔ 
                       (انس مسرورؔانصاری)
  دراصل برائیاں چھوت کی مہلک بیماریوں کی طرح ہوتی ہیں۔غیرمحسوس طریقہ سے معاشرہ میں اندرہی اندرپرورش پاتی اورنشوونماحاصل کرتی رہتی ہیں۔چونکہ انسان کوحظِ نفس کاسامان فراہم کرتی ہیں،وقتی لذّتوں سے ہم کنارکرتی ہیں اس لیے اّن کی بیخ کنی کے لیے پیش بندی کی طرف توجہ نہیں ہو پاتی اورقصداََبھی نطراندازکیاجاتاہے ۔سب سے پہلے معاشرے کامقتدرطبقہ اُنہیں اپناتااورگلے لگاتاہے۔ابتداء میں برائیاں پوشیدہ طریقے پراعلیٰ طبقہ میں رائج ہوتی ہیں لیکن جب آہستہ آہستہ اُن کے منفی اورتباہ کن نتائج کااحساس کم ہوجاتاہے یاجب کثرتِ گناہ سے احساسِ گناہ ختم ہوجاتاہےتو یہ برائیاں پردۂ خفاسے باہرنکل آتی ہیں اورچونکہ معاشرے کے اعلیٰ طبقہ کے اعمال وافعال کے اثرات براہِ راست عوامی طبقوں پرپڑتے ہیں اس لیے اچھے اعمال کے ساتھ مذموم افعال بھی اعلیٰ طبقہ سے ادنیٰ اورمتوسط طبقوں میں چلے آتے ہیں ۔جس طرح چھوٹے لوگ ہرمعاملہ میں بڑے لوگوں کی اتباع اورتقلیدکرتے ہیں اسی طرح یہ لوگ اپنے معاشرہ میں ان برائیوں کوبھی رائج کر لیتے ہیں۔مقتدرطبقہ میں ان برائیوں کاانسدادجس قدرآسان ہوتاہے،چھوٹےاورکم خوانداہ طبقوں میں اتناہی مشکل اورکبھی کبھی ناممکن۔ ساہوجاتاہے۔بغیرکسی روک ٹوک اوردشواری کے برائیاں معاشرے میں نشوونما پاتی رہتی ہیں ۔رفتہ رفتہ اُن کادائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتاجاتاہے جس کالازمی نتیجہ یہ ہوتاہے کہ اُن کی جڑیں بہت گہرائی تک پیوست ہوجاتی ہیں اوراپنے تباہ کن اثرات پھیلاتی رہتی ہیں ۔ظاہر ہے کہ ایسے معاشرہ اورقوم کاانجام نہایت عبرت ناک ہوتاہے۔اسی لیے اسلام میں بلکہ تمام مذاہب میں انھیں روکنے اورطاقت کے استعمال سے ختم کرنے کی تاکیدکی گئی ہےاوراگر انھیں روکنے کی طاقت نھیں تواُن سے دوررہنے اورگریز کرنے کاحکم دیاگیاہے۔
 قوم کے افرادجب معاشرتی برائیوں سے آنکھیں چرانے لگتے ہیں اوراُن کے انسداد کاجذبہ پیدانہیں ہوتا توبچے کھچے صالح عناصرکمزوراوربے جان ہوجاتے ہیں ۔چونکہ اُنھیں کسی طرف سے طاقت نہیں مل پاتی اس لیے معصیت کے مقابلہ میں اُن کی قوتِ مدافعت بیکارہوجاتی ہے۔برائیاں دیمک کی طرح معاشرےکوا۔ندر ہی اندر چاٹ جاتی ہیں۔یہ وہ آخری گناہ ہے جسے ہم اس قوم کی تباہی وبربادی کاپیش خیمہ کہہ سکتے ہیں۔ اس تناظر میں اگرہم برصغیرمیں مسلم قوم کی معاشرت کاجائزہ لیں توبے حدتکلیف دہ معاملات و مسائل سامنے آتے ہیں۔ مسلمانوں کے علاوہ کوئی قوم ایسی نہیں جس نے اپنی اچھائیاں دے کر دوسری قوموں کی برائیاں قبول کرکے اپنے معاشرہ میں داخل کرلی ہوں۔انھیں ہرچمکتی ہوئی چیزسونانظرآتی ہے۔موجودہ زمانہ میں مسلم معاشرہ بری طرح انحطاط کاشکارہے۔ ارتدادکافتنہ۔جہیزکی لعنت۔عقدِ ثانی سے گریز بلکہ نفرت۔آپسی اختلاف وانتشار۔مسلکی لڑائیاں۔ سودخوری کی لعنت ۔جھوٹ ،بے ایمانی افتر اق و مغائرت۔سرمایہ پرستی۔خودغرضی وبدخلقی۔وغیرہ جیسے معاملات عام ہیں ۔اس کاسیدھامطلب یہ ہے کہ اس قوم کے مذہبی،سماجی اورسیاسی رہنماؤں نے اپنی ذمہ داریوں کوفراموش کرتے ہوئے اس قوم کواس کے حال پرچھوڑدیاہے۔مسلم معاشرہ میں رائج برائیوں سے چشم پوشی ناقابلِ معافی جرم ہے ۔اس کا احتساب آخرت کی دنیا میں ہوگا۔ان برائیوں کے تدارک کے لیے ہمارے رہنمااپنی طاقت اوراثرورسوخ کااستعمال نہیں کرتے۔بس وعظ ونصیحت کوکافی سمجھتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صالح معاشرہ کی تشکیل فرمائی تھی جومسلم قوم کے لیے ماڈل معاشرہ تھالیکن موجودہ مسلم قوم نےاسے مسترد کردیااورنئے معاشرتی ،غیرحقیقی معاشرہ کی تشکیل کی۔ اورتباہ وبرباد ہے۔
    کثرت کے اعتبا رسے یوں توخطیرہے 
     پھربھی نگاہِ دہر میں بے حدحقیرہے 
    قرآن بھی خدابھی رسولِ کریم بھی 
    کُل کائنات اس کی ہے لیکن فقیرہے 
                                                      ٭٭
                   * انس مسروراؔنصاری 
         anasmasrooransari@gmail.com

جمعرات, ستمبر 19, 2024

مدارس اسلامیہ کنونشن میں منظور شدہ تجاویز

مدارس اسلامیہ کنونشن میں منظور شدہ تجاویز
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ نے "  مدارس اسلامیہ کنونشن " منعقدہ المعہد العالی ہال پھلواری شریف پٹنہ بتاریخ: 15/ ستمبر 2024ء روز اتوار بعد نماز مغرب مدارس اسلامیہ  کو درپیش خطرات کی روشنی میں تجاویز پیش کیں،جس کو شرکاء نے ہاتھ اٹھا کر منظوری دی تجاویز کا متن حسب ذیل ہے۔
مدارس اسلامیہ اور اس کا تعلیمی تدریسی اور تربیتی نظام ہر دور میں فرقہ پرستوں کی سازش کا نشانہ بنتا رہا ہے، مختلف موقعوں پر اس کی کار کردگی پر سوالات اٹھائے گئے اور اس کی خدمات کو معطل کرنے کی کوشش کی گئی ، امارت شرعیہ کے اکابر نے ہر دور میں ایسی مذموم کوششوں کا دفاع کیا ، ملک میں نئی تعلیمی پالیسی نافذ کی گئی تو مدارس کے وجود ہی کو خطرہ لاحق ہو گیا، یہ فرضی اور موہوم احساس نہیں بلکہ آسام میں مدارس کو سرکاری طور پر اسکول میں تبدیل کرنے کی عملی کوشش اور اتر پردیش میں یوگی حکومت کے ذریعہ مداس بند کر کے طلبہ کو اسکولوں میں منتقل کرنے کا حکم اس احساس کو یقین میں تبدیل کرتا ہے ، ضرورت ہے کہ مدارس کے ذمہ داران اس طرف توجہ دیں؛ تا کہ ملت کے اس قیمتی اثاثے کاتحفظ ہو سکے ، اس صورت حال کے پیش امیر شریعت مفکر ملت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی کی صدارت میں منعقد کنونشن کے شرکاء متفقہ طور پر درج ذیل تجاویز منظور کرتے ہیں اور ان تجاویز پر عمل درآمد کو یقینی
بنانے کی مدارس کے ذمہ داروں سے اپیل کرتے ہیں: 
(1) مدارس اسلامیہ نے ہر دور میں ملک میں خواندگی کے تناسب کو بڑھانے ، غریبوں میں خصوصیت سے تعلیم کو فروغ دینے اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کو پروان چڑھانے میں لائق تحسین اور قابل قدر خدمات انجام دی ہیں، یہ مدارس دستور ہند کی دفعات 29اور 30 کے تحت قائم ہیں، یہ اجلاس اسے غیر قانونی قرار دیکر بند کرانے کی کوششوں اور منصوبوں کی پرزور مذمت کرتا ہے اور حکومت پرواضح کر دینا چاہتا ہے کہ مسلمان اس قسم کی نازیبا حرکت کو کسی قیمت پر برداشت نہیں کر سکتے اور اپنے دستوری حقوق کی بقاء، بازیابی اور رو بعمل رکھنے کے لیے ضروری اقدامات سے باز نہیں آئیں گے۔
(2) مدارس اسلامیہ کی آراضی جائیداد وغیرہ کو سرکاری ضابطوں کے مطابق رجسٹر ڈ کرایا جائے ، رجسٹریشن کا یہ کام سوسائٹی ایکٹ یا ٹرسٹ بنا کر بھی کرایا جا سکتا ہے۔
(3) معاصر دینی تعلیم کو مدارس کے بنیادی رول میں تبدیلی کیے بغیر عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے۔
(4) تعلیم کو معیاری بنانے کے لیے ضروری ہے کہ مدارس میں تدریسی آلات کا سہارا لیا جائے ، اس سے افہام وتفہیم میں سہولت پیدا ہوتی ہے ، مدارس میں بھی عملی تدریس ( پریکٹیکل ) کو رائج کیا جائے عملی تدریس کا مطلب یہ ہے کہ صبح صادق صبح کاذب ، سایہ اصلی مثل مثلین، شفق وغیرہ کی تدریس صرف کتابی نہ ہو اس کا مشاہدہ بھی کرایا جائے۔ (5) سرکاری محکمہ کو مطمئن کرنے کے لیے مدارس میں آمد و خرچ اور گوشوارے کا اندراج محاسبی کے جدید اصول و ضوابط کے مطابق کیا جائے ۔ اگر حسابات کا جمع کرنا سرکاری دفاتر میں ضروری ہو تو اس سے کسی بھی حال میں صرف نظر نہ کیا جائے۔
 (6) محکمہ بہبودی اطفال کے معیار کے مطابق مد اس میں طلبہ کے خوردونوش اور رہائش کا انتظام کیا جائے یہ طلبہ کی ذہنی و جسمانی نشو و نما کے لیے انتہائی ضروری ہے۔
(7) طلبہ کی تربیت پر خصوصی توجہ دی جائے ، غیر شرعی اعمال اور لہو ولعب سے بچانے کے لیے ان پر نگاہ سخت رکھی جائے ، اس کا مطلب جسمانی تعذیب نہیں ہے، نفسیاتی طور پر بار بار کی کونسلنگ کے ذریعہ انھیں نماز پنج گانہ، تلاوت قرآن، درس کی پابندی ،ضروری ورزش کا پابند بنایا جائے۔
(8) امارت شرعیہ کا وفاق المدارس الاسلامیہ حضرت امیر شریعت دامت برکاتہم کی صدارت میں انھیں خطوط پر کام کرتا ہے یہ وفاق ایک نظام و نصاب کو مدارس میں رائج کرانے کی ایک کوشش ہے، مدارس کا الحاق اس سے کرانا بھی مفید ہے، اس سے طلبہ میں ریاستی سطح پر امتحانات میں مقابلے اور مسابقے کا مزاج بنے گا اور وہ تمام مدارس کے طلبہ سے مقابلہ کی ہمت جٹا پائیں گے،مدارس میں پڑھا کر خود سے امتحان لینا طلبہ کی صلاحیت کو محد و داور ان کے مسابقاتی مزاج کو ختم کرتا ہے۔
(9) بنیادی دینی تعلیم کا حصول تمام مسلمانوں پر فرض ہے، مدارس اسلامیہ اپنے قریب کے چند گاؤں کو گود لے کر وہاں مکتب کا نظام قائم کریں تا کہ کوئی بچہ دینی تعلیم سے محروم نہ رہے۔ 
(10) اصلاح معاشرہ کی ضروت دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے اس کام کو صرف جلسے جلوس پر منحصر نہ رکھا جائے ، بلکہ غیر رسمی انداز میں اصلاح کی شکلیں پیدا کی جائیں، معاشرہ کی اصلاح کے ذریعہ ہی ہم مسلم لڑکیوں میں ارتداد کے بڑھتے فتنہ کو روک سکتے ہیں ۔

مدارس اسلامیہ اور عصری تقاضے، ایک مطالعہ۔

مدارس اسلامیہ اور عصری تقاضے، ایک مطالعہ۔
محمد ضیاء العظیم، معلم چک غلام الدین ہائی اسکول ،ویشالی بہار 
موبائل نمبر 7909098319
اردودنیانیوز۷۲ 
مدارس اسلامیہ اور عصری تقاضے ڈاکٹر محمد حفظ الرحمن کی ایک شاہکار تصنیف ہے جو اردو ڈائریکٹوریٹ کی اشاعتی امداد سے شائع کی گئی ہے ۔
کتاب دیکھ کر ہی مصنف محترم کی کاوش اور محنت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔
دو سو صفحات پر مشتمل اس کتاب کی کمپوزنگ نورالدین محمد قاسمی نے کی، اس کی طباعت سن 2021 میں ہوئی، تین سو روپے کی یہ کتاب مرکز المعارف حضرت بشارت کریم سیتا مڑھی بہار، اور مدرسہ بحر العلوم مظفر پور بہار سے حاصل کی جا سکتی ہے ۔
مصنف نے کتاب دو حصوں میں تقسیم کی ہے ،
حصہ اول (نصاب تعلیم) جس میں پانچ عناوین ہیں،
فہرست عناوین حصہ اول 
1  موجودہ علمی تحدیاں اور مدارس اسلامیہ
2  مشترکہ تعلیمی لائحہ
3  تخصص فی الاساسیہ
4 تخصص فی الإقتصاد
5  تخصص فی علم الاجتماع

حصہ دوم میں (مشورے اور گزارشیں) گیارہ عناوین ہیں، 

فہرست عناوین حصہ دوم 
1  انگریزی کے اساتذہ کی قلت کا مسئلہ
2  فارسی کتب سے استفادہ میں مشکلات
3   انگریزی داں علماء اور مدارس ومساجد
4  نصاب میں تبدیلی کے مثبت اثرات
5   اتحاد ملت اور مدارس اسلامیہ
6    ہماری ترجیحات میں تبدیلی ضروری
7   مدارس اسلامیہ اور عصری تعلیم
8    اسلامی اقامت خانہ کا قیام
9    دینی وأخلاقی تربیت
10  مدارس اور مسجد کی نام گزاری
11    اختتامیہ

مصنف نے کتاب کا انتساب اپنے والدین کے نام کیا ہے ۔
کتاب کی تقریظ مشہور ومعروف اور مقبول عالم دین مولانا احمد بیگ ندوی، سابق استاذ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ ،اور ماہر تعلیم مولانا بدیع الزماں ندوی قاسمی بانی و مہتم جامعہ فاطمہ للبنات مظفر پور،بہار نے لکھی ہے، جس میں مصنف کے طرز تحریر، اسلوب تحریر، اور خاصیت تحریر کا بہترین جائزہ لیتے ہوئے مثبت تاثرات سے نوازتے ہوئے ان موضوعات پر اپنے اطمنان کا اظہار کیا ہے ۔
بعدہ سطور اولین میں مصنف محترم نے ہندوستان کی قدیم تاریخ (1857) میں ہندوستانی تہذیب وثقافت کے ساتھ ساتھ تعلیم پر اس کے مرتب ہونے والے اثرات کا تذکرہ کیا ہے،
نیز کتاب میں شامل مضامین، وجہ تالیف وتصنیف، اور ان تمام دوست واحباب، خویش واقارب کا شکریہ ادا کیا ہے جنہوں نے اس تصنیفی سفر میں ان کی حوصلہ افزائی کی ہے ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ آخری عنوان اختتامیہ میں مجموعی طور پر کتاب کے تمام مضامین کا خلاصہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے، انہوں نے مدارس اسلامیہ کی اہمیت و افادیت اور موجودہ دور میں اس کی ضرورت و مقاصد کے سلسلے میں بڑی خوبصورتی کے ساتھ دلچسپ پیرائے میں مدلل بیان کرکے اس تصنیف کو با مقصد بنانے کی بھر پور سعی کی ہے ۔
یقیناً انسانوں کی ترقی وکامیابی تعلیم میں پوشیدہ ہے، تعلیم وہ زیور ہے جو طرز زندگی، اصول بندگی، اور سلیقۂ زیست سے متعارف کراتا ہے ۔
دنیا کے تمام علوم وفنون کی اصل اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو وہ قرآن مجید کی تعلیمات اور اس کے مفاہیم ہیں، اللہ رب العزت نے اس کے نزول کے آغاز ہی میں تعلیم کی ترغیب دلائی ہے، اور تعلیم کا مقصد صرف یہ ہے کہ معرفت الہی پیدا ہو جائے، تعلیم خواہ جو بھی ہو لیکن اس کے حصول کا مقصد معرفت الہی ہو یہی تقاضۂ تعلیم ہے ۔سیدنا ابوالبشر آدم علیہ السلام کو اشرف المخلوقات بناتے ہوئے فرشتوں کو سجدے کا حکم دیا، اس کا پس منظر بھی تعلیم ہی ہے ۔ "مدارس اسلامیہ اور عصری تقاضے"اس تصنیف میں موصوف محترم نے مدارس اسلامیہ کی تعلیمات کے ساتھ ساتھ ان کے تعلیمی نصاب پر بھی گفتگو کی ہے، اور ساتھ یہ مشورہ بھی دیا ہے کہ مدارس اسلامیہ کے نصاب میں عصری تقاضوں کے پیش نظر ترمیم واضافہ کی اشد ضرورت ہے اور یقیناً آپ نے جن پہلوؤں کی نشاندہی کی ہیں ان پر اہل مدارس کو غور وفکر کے ساتھ ساتھ مستقل اور مستقبل کے لئے لائحۂ عمل تیار کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ مدارس اسلامیہ کے طلبہ وطالبات دنیاوی معلومات کی نا واقفیت کی بنا پر احساس کمتری کا شکار نہ رہیں ۔
 عام طور پر مدارس اسلامیہ میں طلبہ وطالبات کے لیے جن علوم دینیہ کو نصاب میں شامل کیا جاتا ہے ان میں شعبۂ حفظ و قرأت،دینیات ،عالمیت کورس کے دوران قرآن مجید، تفسیر قرآن، احادیث، فقہ، اصول فقہ، منطق فلسفہ، تاریخ وسیرت، عربی، اردو، فارسی زبان وادب وغیرہ ہے، جبکہ چند مدارس نے عصری بنیادی تعلیم کا بھی نظم ونسق کیا ہے ،ابتدائی انگریزی، ہندی، اور حساب وغیرہ کی بھی تعلیم دے رہے ہیں جو کہ ایک اچھی پہل اور شروعات ہے،
لیکن یہ نصاب تعلیم اور نظام تعلیم موجودہ دور کے لئے ناکافی ہے، بلکہ اس میں ترمیم واضافہ کی ضرورت ہے، ان سب باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے مدلل اورمثبت انداز میں ایک لائحۂ عمل تیار کیا جانا چاہیے ۔
کتاب کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں جس سے کتاب کے مضامین ومفاہیم اور مقاصد با آسانی سمجھے جا سکتے ہیں ۔۔۔
اقتباس ۔۔۔۔  "میڈیکل کالج اور مینیجمینٹ کالج میں ملکی قانون کا کچھ حصہ پڑھایا جاتا ہے،لیکن اس کی تدریس کے لئے وہی حصے منتخب کئے جاتے ہیں جو ان حضرات کے کیریئر میں معاون ہو سکتے ہیں، کیونکہ قانون کو درس میں شامل کرنے کا مقصد یہاں عدالتوں کے لئے وکلاء اور ججز فراہم کرنا نہیں بلکہ قانون سے ناواقفیت ان کے اپنے میدان میں جن نقصانات کا باعث ہو سکتی ہے ان سے بچانا ہوتا ہے"
پس اسی مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے مشترکہ تعلیمی لائحہ میں ایک ایسی کتاب تصنیف کرکے نصاب میں شامل کیا جانا چاہئے جو اس ضرورت کو پوری کر سکے۔
اس کتاب میں آئین ہند کے چند اہم ابواب جیسے بنیادی حقوق (fundamental rights)، بنیادی فرائض (fundamental duties)، رہنما اصول (directive principles) اور کچھ اہم دفعات، اس کے علاوہ سول کوڈ اور کرمنل کوڈ کا بنیادی فرق، پرسنل لاء اور سول کوڈ کی قانونی حیثیت، وقف ایکٹ اور اوقاف مینیجمینٹ کا قانونی و انتظامی طریقۂ کار، پرائیویٹ ڈیفینس کی اہمیت اور قانونی حدود وغیرہ اجمالی طور پر شامل ہوں۔ اسی کے ساتھ یہ ضروری ہوگا کہ سول پروسیجر اور کرمنل پروسیجر کی مکمل معلومات انہیں فراہم کیا جائے اور ایف آئی آر اور استغاثہ کی عملی مشق کرا دی جائے، تاکہ فارغین مدارس  امت کے تحفظ کا کام بہتر طور پر ادا کر سکیں اور ہر سطح پر اوقاف کی حفاظت کرنے اور انھیں نفع بخش بنانے کا کام منظم طور پر انجام پانے لگے۔
تجربہ کار قانون دانوں کی نگرانی میں ایسی کتاب تیار کی جانی چاہئے اور پھر بدلتے ہوئے وقت کے ساتھ اس کی تجدید بھی ہوتی رہے، تاکہ قانون میں آئی ترمیم اسے بے فائدہ نہ کردے۔۔۔
مزید کتاب کے مضامین کو سمجھنے کے لئے کتاب کا مطالعہ ضروری ہے، اہل علم ودانشوران  سے ہماری گزارش ہے کہ اس کتاب کا مطالعہ کرکے مدارس اسلامیہ کے تئیں جن پہلوؤں پر نشاندہی کی گئی ہیں ان پر توجہ دے کر مدارس اسلامیہ کی تعلیم کو مضبوط ومستحکم بنانے کی کوشش کی جائے ۔
ہم اپنی جانب سے اور ضیائے حق فاؤنڈیشن کی جانب سے مصنف کی اس کاوش پر انہیں مباکباد پیش کرتے ہیں اور ان کے حق میں دعا گو ہیں کہ اللہ ان کی اس تصنیف کو قبول فرمائے، آمین ثم آمین

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...