Powered By Blogger

منگل, اکتوبر 29, 2024

یہ بیماری نہیں عذاب الہی ہے !

یہ بیماری نہیں عذاب الہی ہے !
Urduduniyanews72 
سی این این یہ امریکی نشریاتی ادارہ ہے،اس کی ایک رپورٹ جسے ملک کے اکثر اخبارات میں جگہ ملی ہے کہ صہیونی فوجیوں کو ایک مرض کا سامنا ہوگیاہےجس کا نام پی ٹی ایس ڈی یعنی پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس ارڈر ہے۔یہ بیماری تیزی سے فوجیوں میں پھیلتی جارہی ہے اور وبا کی شکل اختیار کر گئی ہے، تقریبا ایک تہائی اسرائیلی فوجی اس کے شکار ہوچکےہیں۔اس بیماری سے متاثرہ فوجی کی حالت پاگل جیسی ہوجاتی ہے،وہ عجیب وغریب حرکتیں کرنے لگتا ہے، بالآخر اپنی جان خود آپنے ہاتھوں ختم کردیتا ہے،فوجیوں کی خودکشی کے بیشمار واقعات رونما ہورہے ہیں۔
  ایک صہیونی فوجی کا عبرتناک واقعہ بھی رپورٹ میں مذکور ہے۔ہیلیران مز رہی نامی ایک صہیونی فوجی جو چار بچوں کا باپ تھا،پچھلے سال اکتوبر کے مہینے میں اسےغزہ بھیجا گیا ، وہاں جاکر فلسطینی خواتین اور بچوں کے قتل عام کامرتکب ہوا،جب اسرائیل واپس آیا تو دوبارہ غزہ جانے کی ہمت نہ کرسکا، صہیونی حکومت نے اسے مجبور کیا تو انہوں نے خودکشی کر لی۔اس کی ماں جینی مزرہی کا کہنا ہے کہ خودکشی کی وجہ ہیلیران کااحساس جرم ہےجو اس نے غزہ میں انجام دیا ہے،وہ غزہ سے تو نکل آیا تھا مگر غزہ اس کے دل ودماغ سے نہیں نکل سکا،اسی احساس نے اسے اپنی موت کو گلے لگانے پر مجبور کیا۔
اس سے یہ بات صاف ہوگئی ہے کہ احساس جرم نے صہیونی ظالموں کو گھیرنا شروع کر دیا ہے،یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے۔ اس سے یہ بیماری کا مسئلہ بھی حل ہوجاتا ہے کہ دراصل یہ بیماری کیا ہے؟اور کیوں صہیونی فوجیوں کو ہی یہ لاحق ہوری ہے؟ صہیونی فوجی جنکے ہاتھ نہتے فلسطینی عوام کے خون سے رنگے ہوئےہیں وہی لوگ بالخصوص اس بیماری میں مبتلا ہورہے ہیں۔
  فلسطینی بچوں اور خواتین کو مارنے والے صہیونی فوجی ہی ڈپریشن اور مختلف قسم کی ذہنی بیماری کا شکار ہورہے ہیں،پی ٹی ایس ڈی دراصل ذہنی مرض نہیں بلکہ یہ بیماری دراصل عذاب الہی ہے، یہ صرف ذہنی بیماری نہیں ہے بلکہ صہیونی فوجیوں کے لئے ایک ذہنی عذاب ہے جسمیں یہ مبتلا ہورہے ہیں۔
نہتے فلسطینی بزرگوں، بچوں اور خواتین کو نشانہ بنانے والےاب خدائی عذاب کا نشانہ بن رہے ہیں، نفسیاتی مریض بن کرخود کشی کے ذریعہ اپنے عبرتناک انجام کو پہونچ رہے ہیں۔اہل غزہ پر پچھلے ایک سال سے جو مظالم انہوں نے ڈھائے ہیں اسی کے پاداش میں درحقیقت یہ خدا ئی پکڑ ہے۔ظلم کو خدا برداشت نہیں کرتا ہے، اس کی سزا اس دنیا ہی میں دیتا ہے،خدا کب کس طرح ظالم کو اس کے ظلم کی سزا دیتا ہے؟اس کا احساس بھی ایک انسان کو نہیں ہوتا ہے مگر دنیا کے لئے یہ عبرت کی چیز ہوتی ہے ۔اس وقت لوگ مسلم دشمنی میں اسرائیل کی مثال پیش کرتے ہیں کہ وہ دیکھو اسرائیل کس طرح مسلمانوں کو سبق سکھا رہا ہے، موجودہ وقت میں ایسے لوگوں کی توجہ اس جانب مبذول کرانے کی ضرورت ہے کہ یہ دیکھو خدا اس کے کرتوت کی سزا کس طرح دے رہا ہے، قران کریم کے سورہ الفجر میں اللہ رب العزت نے قوم عاد اورفرعون کی مثال پیش کی ہے کہ طاقت وقوت میں یہ بہت فائق تھے، ایسی طاقتور قوم آج تک پیدا نہیں ہوسکی ہے، یہ جب ظلم مچانے لگے تو خدا نے اس دنیا ہی میں عذاب کا کوڑا ان پر برسادیا، تاقیامت یہ نشان عبرت بن گئے، اسرائیل کی ان اقوام کے سامنے کیا حیثیت اور حقیقت ہے،تھوڑی سی تعداد میں یہ لوگ امریکی بیساکھی کے سہارے جیتے ہیں، ان کا خاتمہ قریب ہے۔وہ اس لئے کہ یہ ظالم ہیں،خدا ظالم کو پسند نہیں کرتا ہے، اور ظالم کی ہلاکت یقینی اور حتمی ہے،قرآن میں ارشاد ربانی ہے؛"ہم ضرور ظالموں کو ہلاک کریں گے"( سورہ ابراہیم )
ظالم صہیونی کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے ہیں،یہ بات بھی قرآن کریم میں لکھی ہےکہ ظالم پر خدا کی لعنت ہوتی ہے، اس کی نحوست کی بناپر وہ مال واسباب اور بے پناہ قوت وطاقت رکھنے کے باوجود کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکتا ہے، سورہ انعام میں خدائی فرمان ہے؛"ظالم کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتا ہے، (سورہ انعام ) اس قرآنی پیش گوئی سے یہ بات واضح ہے کہ اسرائیل حماس سےجنگ حقیقی معنوں میں جیت نہیں سکتا ہے۔اس تعلق سےابھی گزشتہ کل ایک تازہ بیان فلسطینی قومی تحریک کے قائد مصطفی برغوثی کا بھی آگیا ہےکہ ہم اس تکلیف دہ صورتحال کے خاتمہ کے بہت قریب ہیں ،اور مجھے راکھ کے ڈھیر سے امید کی کرن نظر آرہی ہے۔
مضمون کے اختتام میں اس بات کا ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے مسلم بھائی بھی اس بات کا شکوہ کرتے ہیں کہ ہماری دعائیں قبول نہیں ہورہی ہیں، یہ بات شرعی طور پر کہنا درست نہیں ہے، دعا قبولیت ہی کا نام ہے، ظالم صہیونی فوجیوں کی یہ درگت درحقیقت دعاؤں اور معصوم بچوں، بچیوں کی آہوں کا ہی نتیجہ ہے۔بلکہ ہماری ہر دعا میں معصوم بچوں کی بھی شرکت ہونی چاہئے، جب آسمان سے باران رحمت نازل نہیں ہورہی ہو تو شریعت اسلامیہ نے ہمیں اس کی تعلیم دی ہے کہ اپنے بچوں اور بےزبان مخلوق کو لیکر کھلے میدان میں نماز ودعا کا اھتمام کیا جائے، مویشی کو ان کے بچوں سے الگ کرلیا جائے، ایسے میں ایک سماں پیدا ہوتا ہے اور خدا کو ان معصوموں پر بڑا رحم آتا ہے ، آسمان سے باران رحمت کے فیصلے نازل ہوتے ہیں۔یہی کیفیت اس وقت غزہ میں پیدا ہوگئی ہے۔والدین جام شہادت نوش فرماکر دنیا سے رخصت ہوگئے ہیں، معصوم بچے خدا سے فریاد کناں ہیں اور رحمت کے طلبگار ہیں، مذکورہ واقعات سے ہمیں یہ معلوم ہوتا کہ ان کی دعائیں قبولیت سے ہمکنار ہوچکی ہیں، اور ربیہ بیماری نہیں عذاب الہی ہے  !


سی این این یہ امریکی نشریاتی ادارہ ہے،اس کی ایک  رپورٹ جسے ملک کے اکثر اخبارات میں جگہ ملی ہے کہ صہیونی فوجیوں کو  ایک مرض  کا سامنا ہوگیاہےجس کا نام  پی ٹی ایس ڈی یعنی پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس ارڈر ہے۔یہ بیماری تیزی سے فوجیوں میں پھیلتی جارہی ہے اور وبا کی شکل اختیار کر گئی ہے، تقریبا ایک تہائی اسرائیلی فوجی اس کے شکار ہوچکےہیں۔اس بیماری سے متاثرہ فوجی کی حالت پاگل جیسی ہوجاتی ہے،وہ عجیب وغریب حرکتیں کرنے لگتا ہے، بالآخر اپنی جان خود آپنے ہاتھوں ختم کردیتا ہے،فوجیوں کی خودکشی کے بیشمار واقعات رونما ہورہے ہیں۔
  ایک صہیونی فوجی کا عبرتناک واقعہ بھی رپورٹ میں مذکور ہے۔ہیلیران مز رہی نامی ایک صہیونی فوجی جو چار بچوں کا باپ تھا،پچھلے سال اکتوبر کے مہینے میں اسےغزہ بھیجا گیا ، وہاں جاکر فلسطینی خواتین اور بچوں کے قتل عام کامرتکب ہوا،جب اسرائیل واپس آیا تو دوبارہ غزہ جانے کی ہمت نہ کرسکا، صہیونی حکومت نے اسے مجبور کیا تو انہوں نے خودکشی کر لی۔اس کی ماں جینی مزرہی کا کہنا ہے کہ خودکشی کی وجہ ہیلیران کااحساس جرم ہےجو اس نے غزہ میں انجام دیا ہے،وہ غزہ سے تو نکل آیا تھا مگر غزہ اس کے دل ودماغ سے نہیں نکل سکا،اسی احساس نے اسے اپنی موت کو گلے لگانے پر مجبور کیا۔
اس سے یہ بات صاف ہوگئی ہے کہ احساس جرم نے صہیونی ظالموں کو گھیرنا شروع کر دیا ہے،یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے۔ اس سے یہ بیماری کا مسئلہ بھی حل ہوجاتا ہے کہ دراصل یہ بیماری کیا ہے؟اور کیوں صہیونی فوجیوں کو ہی یہ لاحق ہوری ہے؟ صہیونی فوجی جنکے ہاتھ نہتے فلسطینی عوام کے خون سے رنگے ہوئےہیں وہی لوگ بالخصوص اس بیماری میں مبتلا ہورہے ہیں۔
  فلسطینی بچوں اور خواتین کو مارنے والے صہیونی فوجی ہی ڈپریشن اور مختلف قسم کی ذہنی بیماری کا شکار ہورہے ہیں،پی ٹی ایس ڈی دراصل  ذہنی مرض نہیں بلکہ یہ بیماری دراصل عذاب الہی ہے، یہ  صرف ذہنی بیماری نہیں ہے بلکہ صہیونی فوجیوں کے لئے ایک ذہنی عذاب ہے جسمیں یہ مبتلا ہورہے ہیں۔
نہتے فلسطینی بزرگوں، بچوں اور خواتین کو نشانہ بنانے والےاب خدائی عذاب کا نشانہ بن رہے ہیں، نفسیاتی مریض بن کرخود کشی کے ذریعہ اپنے عبرتناک انجام کو پہونچ رہے ہیں۔اہل غزہ پر پچھلے ایک سال سے جو مظالم  انہوں نے ڈھائے ہیں اسی کے پاداش میں  درحقیقت یہ خدا ئی پکڑ ہے۔ظلم کو خدا برداشت نہیں کرتا ہے، اس کی سزا اس دنیا ہی میں دیتا ہے،خدا کب کس طرح ظالم کو اس کے ظلم کی سزا دیتا ہے؟اس کا احساس بھی ایک انسان کو نہیں ہوتا ہے مگر دنیا کے لئے یہ عبرت کی چیز ہوتی ہے ۔اس وقت لوگ مسلم دشمنی میں اسرائیل کی مثال پیش کرتے ہیں کہ وہ دیکھو اسرائیل کس طرح مسلمانوں کو سبق سکھا رہا ہے، موجودہ وقت میں ایسے لوگوں کی توجہ اس جانب مبذول کرانے کی ضرورت ہے کہ یہ دیکھو خدا اس کے کرتوت کی سزا کس طرح دے رہا ہے، قران کریم کے سورہ الفجر میں اللہ رب العزت نے قوم عاد اورفرعون کی مثال پیش کی ہے کہ طاقت وقوت میں یہ بہت فائق تھے، ایسی طاقتور قوم آج تک پیدا نہیں ہوسکی ہے، یہ جب ظلم مچانے لگے تو خدا نے اس دنیا ہی میں عذاب کا کوڑا ان پر برسادیا، تاقیامت یہ نشان عبرت بن گئے، اسرائیل کی ان اقوام کے سامنے کیا حیثیت اور حقیقت ہے،تھوڑی سی تعداد میں یہ لوگ امریکی بیساکھی کے سہارے جیتے ہیں، ان کا خاتمہ قریب ہے۔وہ اس لئے کہ یہ ظالم ہیں،خدا ظالم کو پسند نہیں کرتا ہے، اور ظالم کی ہلاکت یقینی اور حتمی ہے،قرآن میں ارشاد ربانی ہے؛"ہم ضرور ظالموں کو ہلاک کریں گے"( سورہ ابراہیم )
ظالم صہیونی کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے ہیں،یہ بات بھی قرآن کریم میں لکھی ہےکہ ظالم پر خدا کی لعنت ہوتی ہے، اس کی نحوست کی بناپر وہ مال واسباب اور بے پناہ قوت وطاقت رکھنے کے باوجود کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکتا ہے، سورہ انعام میں خدائی فرمان ہے؛"ظالم کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتا ہے، (سورہ انعام ) اس قرآنی پیش گوئی سے یہ بات واضح ہے کہ اسرائیل حماس سےجنگ حقیقی معنوں میں جیت نہیں سکتا ہے۔اس تعلق سےابھی گزشتہ کل ایک تازہ بیان فلسطینی قومی تحریک کے قائد مصطفی برغوثی کا بھی آگیا ہےکہ ہم اس تکلیف دہ صورتحال کے خاتمہ کے بہت قریب ہیں ،اور مجھے راکھ کے ڈھیر سے امید کی کرن نظر آرہی ہے۔
مضمون کے اختتام میں اس بات کا ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے مسلم بھائی بھی اس بات کا شکوہ کرتے ہیں کہ ہماری دعائیں قبول نہیں ہورہی ہیں، یہ بات شرعی طور پر کہنا درست نہیں ہے، دعا قبولیت ہی کا نام ہے، ظالم صہیونی فوجیوں کی یہ درگت درحقیقت دعاؤں اور معصوم بچوں، بچیوں کی آہوں کا ہی نتیجہ ہے۔بلکہ ہماری ہر دعا میں معصوم بچوں کی بھی شرکت ہونی چاہئے، جب آسمان سے باران رحمت نازل نہیں ہورہی ہو تو شریعت اسلامیہ نے ہمیں اس کی تعلیم دی ہے کہ اپنے بچوں اور بےزبان مخلوق کو لیکر کھلے میدان میں نماز ودعا کا اھتمام کیا جائے، مویشی کو ان کے بچوں سے الگ کرلیا جائے، ایسے میں ایک سماں پیدا ہوتا ہے اور خدا کو ان معصوموں پر بڑا رحم آتا ہے ، آسمان سے باران رحمت کے فیصلے نازل  ہوتے ہیں۔یہی کیفیت اس وقت غزہ میں پیدا ہوگئی ہے۔والدین جام شہادت نوش فرماکر دنیا سے رخصت ہوگئے ہیں، معصوم بچے خدا سے فریاد کناں ہیں اور رحمت کے طلبگار ہیں، مذکورہ واقعات سے ہمیں یہ معلوم ہوتا کہ ان کی  دعائیں قبولیت سے ہمکنار ہوچکی ہیں، اور رب لم یزل ولایزال کو ان پر بڑا پیار آگیا ہے، صہیونی درندوں کی الٹی گنتی شروع ہوگئی اور یہ اپنےدردناک انجام کو پہونچنے لگے ہیں۔

          ملتی ہے خموشی سےظالم کوسزا یارو 
           اللہ  کی لاٹھی میں آواز  نہیں  ہوتی

          ملتی ہے خموشی سےظالم کوسزا یارو 
           اللہ کی لاٹھی میں آواز نہیں ہوتی


ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ 
جنرل سکریٹری، تنظیم أبناء ندوہ پورنیہ کمشنری 
۲۹/اکتوبر ۲۰۲۴ء بروز سہ شنبہ

جمعرات, اکتوبر 24, 2024

بولتی ہوئی محرابوں کے درمیان ٭ انس مسرورؔ انصاری

( تاریخ کےاسباق) 
Urduduniyanews72 
               بولتی ہوئی محرابوں کے درمیان 
           
                       ٭ انس مسرورؔ انصاری 
 
      شیوناتھن اپنے کیمرے کی تیسری آنکھ سے دیکھ رہاتھا۔اسے سب کچھ صاف صاف نظر آرہا تھا۔بہت ساری یاد گار تصویریں اس کے علم میں تھیں جن میں سے یہ بھی ایک تصویر ہے۔نواب آصف الدولہ کا شاہی لشکراپنی روایتی شان وشوکت اور تزک واحتشام کے ساتھ شہر میں داخل ہو رہاہے۔ ۱۷۷۵؁ کا زمانہ ہے۔ لکھنؤ کاایک آباد محلہ.....محلہ کی ایک عظیم الشان عمارت کے ایک منقّش دروازہ میں کھڑی ہوئی خواتین کی آوازیں آرہی ہیں۔نہیں...نہیں ۔ صرف آوازیں ( خواتین آپ کے تصور میں مجسّم ہوں گی ) 
 ‘‘ ائے بی بی!تمھیں معلوم ہے کہ یہ کس کی آمد آمد کا اعلان ہورہاہے ۔؟’’
 ‘‘ ہوں۔ میں صدقے ۔میں واری۔کون نہیں جا نتا کہ خلد آشیانی نواب شجاع الدولہ کے فرزندارجمند اودھ پناہ جناب آصف الدولہ تشریف لارہے ہیں۔’’
 ‘‘ تو پھر فیض آباد کا کیا ہو گا ؟ بہو بیگم کا وہ فردوسِ دل نشین ، جنت بے نظیر !’’
 ‘‘ ائے خالہ بی! یہ وقت اور زمانہ کی کروٹ ہے جس نے فیض آباد کا چراغ گُل کردیا اور لکھنؤ کی قندیل روشن کر دی۔’’
 ‘‘ تو یوں کہو کہ اب ہمارے شہر کا آفتاب خوب بلندی پر چمکے گا۔’’
 ‘‘ بیشک! یہ ہماری خوش نصیبی ہے ۔’’ 
         اس طرح لکھنؤ کے نوابین کے عروج وزوال کی داستان کو لکھنؤ کے کھنڈروں کی زبان میں بڑی خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے۔ ایک تاثر یہ بھی ہے کہ شمال اور جنوب کے دو ہاتھوں نے مل کر لکھنؤ کو کھنڈروں سے اجا گر کر نے کی یہ انوکھی کوشش کی ہے۔باتیں ماضی کی ہیں لیکن تاریخ تو ہمیشہ ہی زندہ رہتی ہے ۔اسے کوئی مٹا نہیں سکتا، کوئی فراموش نہیں کر سکتا۔تاریخ،کھنڈروں میں ،تصویروں اور تحریروں میں زندہ رہتی ہے۔زندہ قومیں اپنی تاریخ کو ہمیشہ یاد رکھتی ہیں۔وہ اپنی تاریخ کی بنیاد پر اپنے مستقبل کی عمارت تعمیر کر تی ہیں۔ 
 ۱۸۱۹؁ء کی ایک صبح کا چڑھتا ہوا آفتاب۔لکھنؤ شہر کی ہمہ ہمی۔ شاہی دربار کا جاہ وجلال،رونق اور شان وشوکت اور نقا روں کی آواز کی گونج کے ساتھ تاج پوشی کا اعلان کر تی ہوئی لکھنو ٔ کی ایک صبح ! لال بارہ دری کی پُر ہیبت اور بلند وبالا محرابیں! شیو نا تھن اپنے کیمرے کی آنکھ سے سب کچھ دیکھ رہا تھا۔محلات کے کھنڈر بول رہے تھے ۔خاموشی گونج رہی تھی اور سنا ٹے چیخ رہے تھے۔ 
 ‘‘ خلق خدا کی ملک ہندوستان کا ،علاقہ اودھ کا،حکم شاہِ دہلی بادشاہ اکبر شاہ ثانی کا.......ہر خاص وعام کو اطلاع دی جاتی ہے کہ حکومت ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو گئی.....ہمارے صوبہ کے نواب وزیر مرزا رفعت الدولہ غازی الدین حیدر کمپنی بہادر کے ہاتھوں تاج 
 پہن کر بادشاہِ اودھ اوّل کی حیثیت سے تختِ سلطنت پر مسند نشین ہو تے ہیں.......!’’
 نوابی کے بادشاہت میں تبدیل ہو جانے کا یہ اعلان تمام لوگوں تک پہنچایا جا سکتا ہے مگر کیسے پہنچایا جائے۔ وہ درد جو لکھنؤ کی لال با رہ دری کی ان محرابوں میں دفن ہے،جسے ہم نے آج تصویروں میں دیکھا ہے، کس کس سے بیان کریں۔ تاریخ کے اہرام میں سجی ہوئی تلخ ترین حقیقتوں کا انکشاف کیسے ہو ؟ کس سے فریاد کریں کس سے مداوا چاہیں ،جو کچھ آج ہم نے تصویروں میں دیکھا ہے،سب کو کیسے دکھا ئیں۔؟ 
 مغل سلطنت پہلے ہی ایک زندہ لاش کی طرح تھی ۔ایسٹ انڈیا کمپنی نے اس کے ٹکڑے کر دیے ۔اودھ میں مغل سلطنت سے انحراف کی سازش انگریزوں نے کی۔دہلی کی گرفت اور انتظام سے تمام صوبے الگ الگ ہو گئے ۔مغل سلطنت حصولِ برکت کا ذریعہ بھی نہیں رہ گئی۔ہندوستان میں برطانیہ کی حکومت یقینی ہو گئی،بادشاہ صرف نام کے رہ گئے۔ وسیع وعریض مغل سلطنت صرف دہلی کی حدود میں سمٹ کر رہ گئی۔
 ۶ ؍ جولائی۱۸۳۷؁ء کی نصف رات، آسمان پر بجھے بجھے چاند ،ستارے،مغموم ہوؤں کے سسکتے ہوئے جھونکے،برطانوی طرز کی بنی ہوئی حویلی ‘‘گلستانِ ارم’’ کا ایک گوشہ۔ اس گوشے میں رات کے سنّاٹوں اور تاریکیوں کو چیرتی ہوئی ایک بے بس دعا گو ماں کی چیخ !‘‘۔ہائے بیٹا! تم عورت اور انگریز پرستی کے شکار ہو ہی گئے نا میرے لال ! اور انھیں کے ہاتھوں سے زہر پی کر چپ چاپ سوگئے۔’’ 
 بادشاہ نصیر الدین حیدر کی موت،ایک المناک تاریخی سانحہ تھی ،گلستانِ ارم کے درو دیوار،نقش ونگار، کانچ کی بوتلوں کے گودام، شاہی تہ خانے، سرکاری فائلیں،الماریوں کی آڑ میں سسکتے ہوئے حسین چہرے،بیل بوٹے۔ ... .! کہاں تک بیان کی جائے لکھنؤ کے دکھوں اور غموں کی داستان۔؟ یہ بڑی طویل اور درد ناک ہے۔آپ کہاں تک سنیں گے اور میں کہاں تک سناؤں گا ۔؟ 
 آیئے اب ذرا قیصر باغ کی طرف چلیں جہاں ‘‘ پری خانہ’’ سے ریختی کے شوخ جملے اٹھتے ہیں ۔
 ‘‘او بنّو! دیکھا ہمارا قیصر باغ ؟ گلشنِ خوبی ،باغِ محبوبی،میں صدقے ،میں واری،ہائے ہائے کیا چھب ہے ہمارے اختر پیا کی!’’
 یہ ایک رخ تھا،سِکّے کی طرح اس کادوسرارخ بھی ہے۔ ۴/ فروری ۱۸۵۳ ؁.ء کی ایک صبح،تقریباََ آٹھ بجے کا وقت ...جرنل اوٹرم کے ہاتھوں میں پیاجانِ عالم واجد علی شاہِ اودھ کے تخت بدر کیے جانے کا فرمان۔کمپنی سرکار کا جدید صلح نامہ۔تیزوطرّار گھوڑوں کے ٹاپوں کی گونج حضور باغ کے پھاٹک کے اندر داخل ہوکر زرد کوٹھی کے تینوں دروازوں سے گزرتی ہے جن پرجل پریوں کا شاہی نشان ہے۔یہ دروازے اب لکھنؤ میں نہیں ہیں پر ان کے اثرات ونشانات کی جھلک اب بھی ملتی ہے۔جب ریزیڈنسی کا مترجم کچھ کہتاہے تو ملازم شاہِ اودھ کے حضور میں آداب بجالاکر عرض کرتا ہے۔
 ‘‘ حضور! بیلی گارد کےاوٹرم صاحب آپ کو سویرے کا سلام کہتے ہیں۔’’ بادشاہ اپنی لکھنوی تہذیب کا دامن مصیبت کی اس گھڑی میں بھی نہیں چھوڑتا ۔اپنی باہیں پھیلاکر اپنے عزیز فرنگی مہمان کا خیر مقدم کرتاہے لیکن اس گورےناہنجارکاہاتھ صرف جدیدصلح نامہ پر بادشاہ کےدستخط کی خواہش کےساتھ آگے بڑ ھتا ہے ۔صلح نامہ کے نام سے کمپنی کا فرمان بلند آواز سے پڑھاجاتا ہے جسے سن کرزرد حویلی کے درودیوار چیخ اٹھتے ہیں۔بادشاہ اس فرمان کو سن کرچاروں طرف سے نظریں بچا کرخاموشی کےساتھ صرف او پر کی طرف دیکھتا ہے۔دل سے فریاد کرتاہے ۔
 ۔‘‘ائے خداوند! تو شاہد حال ہے کہ یہ مجھ پر صریح جفاہے اور حوالہ ٔ انتظام کے بہانے سے میرا گھر مجھ سے چھینا جارہا ہے۔’’
 بیٹے کی سلطنت پر ڈاکہ پڑتے دیکھ کر محل کی چلمن میں جنبش ہوتی ہے۔ملکہ کشور جہاں کی آواز ! 
 ‘‘ انگریز بہادر ! ہمیں ہماری شرافت کا یہ انعام دیا جارہاہے۔ ؟ اس گھر کو جو خرابی آپ کی بدولت ہونی تھی وہ ہو چکی،اس سے بدتر اب اور کیا ہوگا۔؟’’ ملکہ کی ڈوبتی ہوئی آواز کا درد چھپ نہ سکا۔ 
 یہ ہیں لکھنؤ کی کچھ خاص جھلکیاں اور تصویریں جن کاسلسلہ جنوب بعید کے سا حلِ سمندر کے قریب کا رہنے والا شیوناتھن اپنی تیسری آنکھ سے دیکھ اور دکھارہاہے۔سریش شرمااور مکیش کپور ان زندہ محرابوں پر پڑی ہوئی تہہ بہ تہہ گرد کو صاف کررہے ہیں جنھیں قصداََ وقت سے پہلے ہی دفنایا جارہاہے۔ 
 یہ محرابیں اور دیوارودر جومیرے سامنےہیں،میں ان محرابوں اور دیواروں سے پرے کھنڈروں میں سوئے ہوئے لکھنؤ کو بیدار کرنے کے لیے آوازیں دے رہاہوں۔کاش کوئی سن سکتا کہ بلندوبالا اور عظیم الشان محلات کے کھنڈروں کی گری پڑی دیواروں پر اداسی بال کھولے سو رہی ہے۔ 
                               ٭ ٭ 
                     
                   انس مسرورؔ انصاری
                                 *9453347784/    
              قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن 
۔سکراول،اردوبازار، ٹانڈہ،امبیڈکرنگر۔224190(یو،پی)

ہفتہ, اکتوبر 19, 2024

سر زمین موضع جگت چند پور عرف چلکیا پوسٹ بڑھا پور

سر زمین موضع جگت چند پور عرف چلکیا پوسٹ بڑھا پور
Urduduniyanews72 
تحصیل نگینہ ضلع بجنور اترپردیش میں ایک روزہ عظیم الشان محفلِ حُسنِ قرات و نعتیہ مشاعرہ کا انعقاد ہو رہا ہے ۔
جسمیں ضلع بجنور کے مشہور و معروف قراء کرام اور شعراء حضرات تشریف لا رہے ہیں
17 اکتوبر 2024 بروز جمعرات بعد نمازِ عشاء محفلِ قرات و نعت یہ مشاعرہ
17 اکتوبر 2024 بروز جمعرات بوقت 10 بجے صبح برائے مستورات  


ہفتہ, اکتوبر 05, 2024

گستاخ نبی کی قرآنی سزا

گستاخ نبی کی قرآنی سزا
اردودنیانیوز۷۲ 
مکہ میں سب سے پہلےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنےوالا کوئی اور نہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حقیقی چچا ابولہب تھا۔ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صفا پہاڑ پر چڑھ کر لوگوں سے خطاب کررہے تھے اوردلنشیں انداز میں مذہب اسلام کی دعوت دے رہے تھے کہ اچانک مجمع میں سے ابولہب اپنے ہاتھوں میں پتھر اٹھا کر حضور اکرم کی طرف پھینکا اور یہ بولا محمد!"تو برباد ہوجائے! کیا ہم کو اسی بات کے لیے یہاں جمع کیا تھا "
ابو لہب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا سخت ترین دشمن تھا۔ قرآن کریم میں اللہ تعالی نے مکمل ایک سورہ نازل کرکے دنیا جہان والوں کو اس کی گستاخی کے برےانجام سے باخبر کیا ہے۔ارشاد باری تعالٰی ہے:
" ٹوٹ گئے ہاتھ ابی لہب کے اور ٹوٹ گیا وہ خود آپ،اور کام نہ آیا اس کو مال اس کا، اور نہ جو اس نے کمایا،اب پڑے گا ڈیگ مارتی آگ میں، اور اس کی جورو جو سر پر لئے پھرتی ہے ایندھن، اس کی گردن میں رسی ہے مونجھ کی۔(سورہ تبت مکیہ)

قرآن کا کہاہواحرف بحرف پورا ہوا،محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تباہی چاہنے والا خود بربادی کے گڑھے میں پہونچ گیا۔ اس گستاخ کےناپاک جسم میں زہریلے دانے نکلنے شروع ہوگئے، سخت بدبو پیدا ہوگئی، چنانچہ تعفن اور مرض لگ جانے کے خوف سے کوئی  اس کے قریب نہیں پھٹکتا تھا، گھر والوں نے بھی اس سے دوری بنالی،اسی حالت میں وہ تڑپ تڑپ کر مرگیا۔ تین دن تک اس کی لاش پڑی سڑتی رہی،جب راہ گیروں کو سخت اذیت محسوس ہوئی تو حبشی مزدوروں کے ذریعہ ایک گڑھا کھدوایا گیا اورلکڑی ڈنڈے سے اس کی لاش کو اندر ڈھلکاکر اوپر سے پتھر بھردیئےگئے، اس طرح یہ گستاخ نبی جہنم رسید ہوا اور اپنی بربادی کے گڑھے میں پہونچ گیا۔
ابولہب کو اپنے مال اور اپنی تعداد پر بہت ناز تھا، دراصل اسی وجہ سے اس کے اندرنبی کی شان میں یہ گستاخی کا حوصلہ پیدا ہوا۔وہ یہ سمجھ رہا تھا کہ یہ تھوڑی سی تعداد میں کلمہ گو مسلمان میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ہیں،قرآن نےاس موقع پر یہ اعلان کیا کہ اس کامال اس کے کام نہ آیا اور نہ تعداد اس کے کام آئی، سب  کچھ پڑا رہ گیا اور وہ نشان عبرت بن گیا۔
دوسری چیز جس کا اس سورہ میں خاص طور پر ذکرہے یہ ابولہب کی بیوی ہے جس کا نام ام جمیل یے۔
قرآن کریم نے اس عورت کے عبرتناک انجام سے بھی آگاہ کیا ہے۔اس کا گناہ یہ تھا کہ انہوں گستاخ نبی کی مدد کی تھی، جنگل سے خاردار لکڑیاں لاتی تھی اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی راہوں میں ڈالا کرتی تھی ۔اس عورت کے گلے میں ایک قیمتی ہار تھا،وہ کہا کرتی تھی کہ لات وعزی کی قسم! میں اس ہار کو محمد کی عداوت پر خرچ کروں گی۔چنانچہ لکڑیوں کے گٹھر کی رسی گلے میں آپڑی جس سے گلا گھٹ گیا اور یہ بھی جہنم رسید ہوگئی ۔
                    لو اب آپ دام میں صیاد آگیا 
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی یہ قرآنی سزا ہے۔ ہر زمانے میں گستاخوں کو ملتی رہی ہے۔تاریخ اس پر شاہد ہے۔محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خود اللہ رب العزت نے اپنی لازوال کتاب میں یہ کہ دیا ہے کہ ہم آپ کا مذاق بنانے والوں کو نشان عبرت بنادیں گے باوجود اس کے کچھ احمق لوگ آقا کی شان میں گستاخیاں کرنے لگتے ہیں۔انہیں اپنی تعداد پر فخر ہے، یہ چیز ان کے کسی کام نہیں آنے والی ہے، اپنے انجام کو یہ بھی پہونچنے والے ہیں۔آقائے نامدار سے بغض وعداوت کی وجہ صرف اور صرف مذہب اسلام اور اس کی سچی تعلیم ہے۔آج بھی بحمداللہ لوگ اس پاک دین کو گلے لگارہے ہیں۔
آج دین اسلام سےمتنفر کرنے کے لئے اور اپنی سیاسی روٹی سینکنے کے لئے ایک ناپاک اور زہریلا انسان جو خود کو پنڈت کہتا ہے وہ نعوذ باللہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے کارٹون جلانے کی بات کہتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام ونشان مٹانے کا خواب دیکھتا ہے، اسی طرح کے خواب آج سے ساڑھے چودہ سوسال پہلے بھی کچھ لوگ دیکھ رہے تھےاور یہ خیال ظاہر کرتے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی بیٹا نہیں ہے، بس جب تک وہ زندہ ہیں تو زندہ ہیں،جس دن انتقال کریں گے تو کوئی نام لینے والا نہیں ہوگا۔عرب میں جس کے گھراولاد نرینہ نہیں ہو اسے" ابتر" یعنی بے نام ونشان کہتے تھے۔قرآن نے یہ اعلان کیا کہ : اے محمد! بیشک جو تیرا دشمن ہے وہی ابتر اور بے نام ونشان ہے۔آج ساڑھےچودہ سو سال کے بعد بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی اولاد سے دنیا بھری پڑی ہے، جسمانی ودختری اولادیں بھی بکثرت ممالک میں پھیلی ہوئی ہیں،مگر ان گستاخان نبی کا کہیں اتا پتہ نہیں ہے۔ ان شاء اللہ العزیز عنقریب یہ بھی اپنی گستاخی کی سزااپنے انجام بدکی شکل میں پائیں گےاورقصہ پارینہ ہوجائیں گے۔قرآن کا ان کے حق میں فیصلہ یہی ہے۔

ہمایوں اقبال ندوی ارریہ 
یکم ربیع الثانی ۱۴۴۶ھ

جمعہ, ستمبر 27, 2024

* بلڈوزر ایکشن

** بلڈوزر ایکشن***
اردودنیانیوز۷۲ 
مایوسیوں کے اندھیروں میں امید کی کرن

مبارک حسین مصباحی
چیف ایڈیٹر ماہ نامہ ۔۔اشرفیہ،،مبارک پور(اعظم گڑھ) 

2019 ء سے جزوی طور پر اور پھر 2022 ء میں بلڈوزر ایکشن شروع کیا۔ ہر طرف ہاہاکار مچی ہوئی تھی، بلڈوزر ایکشن یو پی کے مختلف علاقوں میں اپنی گھن گرج کے ساتھ آگے بڑھتا رہا ، اس کے بعد ایم پی اور راجستھان وغیرہ میں اس کے شعلوں کی چنگاریاں اٹھنے لگیں ، خدا بھلا کرےان تنظیموں اور سر کردہ شخصیات کا جنھوں نے کیس سپریم کورٹ میں داخل کیا اور طے شدہ تاریخ پر اپنے بحث کرنے والے ماہر وکلاکو کھڑا کیا۔
ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے اس کے دستور میں الیکشن کے بعد سلیکشن ہوتا ہے، ہندو ، مسلم ، سکھ اور عیسائی وغیرہ سب کو اپنے مذہبی امور اور احکام پر عمل کرنے کی اجازت ہے یہاں سول کورٹ اپنے اپنے صوبوں کی ہائی کورٹ اور ملکی سطح پر سپریم کورٹ ہے مگر افسوس بعض سیاسی پارٹیاں کٹر پنتھ مذہبی تنظیموں کے تعاون سے برسر اقتدار ہیں اور وہ اپنے مذاہب کی برتری کے لیے دیگر مذاہب پر حملہ آور رہتی ہیں ۔ اب آپ موجوده بی جے پی ہی کو دیکھ لیجیےجو آر ایس ایس اور بجرنگ دل وغیرہ ہند و کٹر پنتھ مذہبی تحریکوں کے دباؤ میں کام کر رہی ہیں ۔یہ مذہبی تحریکیں دیگر مذاہب پر مسلسل شب خون مار رہی ہیں، خاص طور پر مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں پر حملہ آور رہتی ہیں اسکولوں اور کالجوں میں تعلیم و تربیت کا مسئلہ ہو یا جو ان بچیوں کے پر دے اور نقاب کا مسئلہ، اسی طرح وقف ایکٹ 2024 کا مسئلہ ہو یا دینی مدارس کو اسکولوں اور کالجوں میں بدلنے کا مسئلہ ۔ اسی طرح دیگر مسائل میں بھی مسلسل مداخلت کرتی رہتی ہیں ۔
 بلڈوزر ایکشن معاملے میں کانگریس کی ترجما ن سپریہ شرینت نے ویڈیو جاری کرکے ردعمل دیا کہ بلڈوزر کارروائی کسی بھی جمہوری ملک میں قابل قبول نہیں ہے اور وہ بھی اقلیتوں کے خلاف تو بالکل بھی نہیں کیوں کہ اس کے ذریعے اکثریتی جبر کا پیغام دیا جاتا ہے جسےسپریم کورٹ نے بیک جنبش قلم مسترد کردیا ہے۔ سپریہ شرینیت نے مزید کہا کہ کانگریس پارٹی ہمیشہ سے کہتی رہی ہے کہ بلڈوزر انصاف کا طریقہ نہیں ہو سکتا بلکہ یہ تو جبر کا طریقہ ہے جس سے مودی حکومت اور بی جے پی کی دیگر حکومتوں کو بچنا چاہیے تھا لیکن وہ اسے پورے ملک میں فروغ دے رہے تھے بہرحال اب سپریم کورٹ نے اس کا نوٹس لے لیا ہے اور فیصلہ سنادیا ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ جو گائیڈ لائنز جاری ہوں گی وہ نہایت معقول ہو ں گی۔ واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے ملک میں یکم اکتوبر 2024تک بلڈوزر کارروائی پر روک لگادی ہے۔ کورٹ نے مرکزی حکومت کی سرزنش کرتے ہوئے کہاکہ اگر دو ہفتہ تک بلڈوزر پر روک لگی رہی تو کوئی آسمان نہیں گر پڑے گا۔ بنچ نے ایک مرتبہ پھر واضح کیاکہ اس کے احکامات غیرقانونی تعمیرات کے بارے میں نہیں تاہم کہاکہ اگرایک بھی غیر قانونی انہدامی کارروائی ہوئی تو اس کو آئینی اخلاقیات کے خلاف تصور کیا جائے گا۔ مرکزی حکومت کے ذریعہ ملک گیر سطح پر اس طرح کی روک عائد کرنے پر اعتراض کو مسترد کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہاکہ وہ آئین کے آرٹیکل ۱۴۲؍ کے تحت اپنے خصوصی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے یہ احکامات جاری کر رہی ہے۔ عدالت نے عندیہ دیاکہ وہ رہنما خطوط کے بجائے غیرقانونی بلڈوزر کارروائیوں کے خلاف احکامات جاری کرسکتی ہے۔سپریم کورٹ میں جمعیۃ کےدونوں گروپوں اور دیگر کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے جسٹس بی آر گوئی اور جسٹس کے وی وشناتھن کی بنچ نےاپنے واضح حکم میں کہاکہ’’ اگلی تاریخ تک اس عدالت کی اجازت کے بغیر کوئی انہدامی کارروائی نہیں ہو گی۔ تاہم اس طرح کا حکم عوامی سڑکوں، فٹ پاتھ، ریلوے لائنوں یا عوامی مقامات پر غیر مجاز تعمیرات پر لاگو نہیں ہوگا۔‘‘ سینئر ایڈوکیٹ چندر ادے سنگھ سپریم کورٹ میں گزشتہ سماعت کے باوجود انہدامی کارروائی کی بنچ کی توجہ دلائی تھی۔ انہوں نے پتھربازی کا الزام عائد کرکے ۱۲؍ ستمبر کو گھر منہدم کئے جانے کے بارے میں عدالت کو آگاہ کیا۔حالانکہ مرکزی حکومت نے اس کا دفاع کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اس کو ایک غیر متعلقہ معاملہ قرار دیا۔ تاہم بنچ نے ناراضگی کااظہار کرتے ہوئے سوال کیاکہ تو پھر اس معاملے میں اچانک انہدام کی ضرورت کیوں پیش آگئی؟ اس کے بعد بنچ نے اپنے سخت مشاہدہ میں کہاکہ عدالت ناجائز تعمیرات کے انہدام میں طاقت اور اختیارات کے غلط استعمال کے خلاف احکامات جاری کرنا چاہتی ہے۔ حالانکہ سالیسٹر جنرل نے عدالت کی توجہ اصل مسئلہ سے ہٹانے کی بھرپور کوشش کرتے ہوئے کہاکہ یہ بیانیہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ایک خاص برادری کے گھروں کو منہدم کیا جارہاہےلیکن عدالت نے اسے تسلیم نہیں کیا۔
سپریم کورٹ نے یوگی آدتیہ ناتھ کی طرح بلڈوزر کارروائی کرنے والی ریاستوں پر بڑا فیصلہ سنایا ہے۔ سپریم کورٹ نے بلڈوزر کی کارروائی پر پابندی لگا دی ہے اور سبھی ریاستوں کو ہدایات جاری کی ہیں۔ اب کوئی بھی ریاست اجازت کے بغیر بلڈوزر کی کارروائی نہیں کر سکے گی۔ بلڈوزر کارروائی کے خلاف دائر درخواستوں پر سپریم کورٹ نے یہ روک لگائی ہے۔ سپریم کورٹ نے واضح طور پر کہا کہ اگلی سماعت تک کسی بھی ریاست میں بلڈوزر کی کارروائی نہیں ہوگی۔
گذشتہ سنوائی میں جسٹس بی آر کی سربراہی میں گوائی بنچ نے واضح کیا تھا کہ قانون ان ملزمان کی جائیدادوں کو منہدم کرنے کی اجازت نہیں دیتا، جن پر ابھی تک مقدمہ چل رہا ہے۔ جسٹس گوائی نے 2 ستمبر کو سماعت کے دوران زبانی طور پر ریمارکس دیئے تھے کہ کسی ایک کیس میں ملزم ہونے پر کسی کا گھر کیسے گرایا جا سکتا ہے؟ قانون اس بات کی اجازت نہیں دیتا۔ چاہے کوئی شخص مجرم ہی کیوں نہ ہو؟
غور طلب ہے کہ عدالت نے درخواست گزاروں سے غیر قانونی مسماریوں کے خلاف یکساں رہنما خطوط وضع کرنے کے لیے تجاویز طلب کی تھیں۔ مرکزی عرضی گزار تنظیم نے انہدام سے کم از کم 45 سے 60 دن پہلے پیشگی نوٹس تجویز کیا ہے، جس میں قانونی دفعات کی وضاحت کی گئی ہے۔ جس کے تحت جائیداد کو مسمار کیے جانے اور من مانی کارروائی کے ذریعے قانون کی خلاف ورزی کرنے والے افسران پر ذاتی ذمہ داری عائد کی جائے گی۔
قابل ذکر ہے کہ درخواست گزار نے ان افراد اور ان کے خاندانوں کو فوری اور جامع ریلیف، بحالی اور معاوضہ دینے کا مطالبہ کیا ہے جن کے گھروں کو بلڈوز کیا گیا ہے۔
سینئر ایڈوکیٹ دشینت دیو، سینئر ایڈوکیٹ سی یو کے ساتھ درخواست گزار کی طرف سے پیش ہوئے۔ سنگھ نے پچھلی سماعت میں عدالت سے یہ بیان دینے پر زور دیا تھا کہ ان کے رہنما خطوط کے ذریعہ 'ملک میں کہیں بھی بلڈوزر جسٹس نہیں ملا۔
اِدھر عدالت کے اس فیصلے پر سماج وادی پارٹی (ایس پی) کے سربراہ اکھلیش یادو کا رد عمل سامنے آیا ہے۔انھوں نے یوپی حکومت پر سخت نکتہ چینی کی ہے۔ ایک نیوز چینل سے گفتگو کرتے ہوئے اکھلیش یادو نے کہا ہے ،’’جس دن سے یہ بلڈوزر چلنا شروع ہوا ہے، ہم اپوزیشن کے لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ آئین کے خلاف ہے۔ بلڈوزر کو انصاف کیسے سمجھا جا سکتا ہے؟ یہ جمہوریت میں انصاف نہیں ہو سکتا۔ میں سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا خیرمقدم کرتا ہوں ۔ اس فیصلے کے بعد بلڈوزر ہمیشہ کے لیے بند ہو جائے گا۔میں خاص طور پر ان لوگوں کومبارکباد دیتا ہوں ، جن کو عدالت انصاف دے سکتی ہے۔ایسے میں حکومت کے خلاف ہی کارروائی ہو گی۔ اکھلیش یادو نے مزید کہا، حکومت نے لوگوں کو ڈرانے کے لیے جان بوجھ کر بلڈوزر کی اتنی تشہیر کی کہ لوگ دہشت میں آگئے۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ بلڈوزر ایکشن کا اتنا’’ مہِما منڈن‘‘ نہیں ہونا چاہئے، میں اس کے لئے ان کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔‘‘دوسرے کئی اپوزیشن لیڈروں نے بھی سپریم کورٹ کی اس ہدایت کا خیرمقدم کیا ہے۔
  اس سے قبل 12 ستمبر کو بھی’’ بلڈوزر ایکشن‘‘ پرسپریم کورٹ نے کہا تھا کہ بلڈوزر کی کارروائی ملک کے قوانین پر بلڈوزر چلانے کے مترادف ہے۔ تب یہ معاملہ جسٹس ہرش کیش رائے، جسٹس سدھانشو دھولیا اور جسٹس ایس وی این بھٹی کی بنچ کے سامنے تھا۔بنچ کے ذریعہ معاملے کی سماعت کے دوران کورٹ کا آبزرویشن سامنے آیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ اگر کوئی ملزم قصوروار بھی ہے، اس کے باوجود قانونی عمل کی پیروی کیے بغیر اس کے گھر کو مسمار نہیں کیا جا سکتا۔
قابل ذکر ہے کہ بی جے پی کی حکومت والی تین ریاستوں میں قانونی عمل کو درکنار کر ملزمان کو من مانے ڈھنگ سے قصوروار قرار دیکر ان کے مکانات کو مسمار کرنے کی کارروائی کی جاتی رہی ہے۔ آئینی نظام پر حملے کی شروعات یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے کی تھی۔ وہ اس کام میں اتنے مشہور یا کہہ لیجئے کہ بدنام ہوئے کہ لوگ انھیں ’’بلڈوزربابا‘‘ کہنے لگے۔اس لقب پر بابا بھی پھولے نہیں سماتے رہے۔ ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مدھیہ پردیش اور پھر بی جے پی حکومت بننے کے بعد راجستھان میں بھی بلڈوزر کے گرجنے کی بازگشت پوری دنیا میں سنائی دینے لگی۔تازہ ترین واقعہ کی بات کریں تو اسی سال ماہ جون میں یوپی کے مراد آباد اور بلیا میں 2 ملزمان کی 6 جائیدادیں مسمار کر دی گئیں۔اسی دوران بریلی میں روٹی کے تنازعہ پر ایک نوجوان کو پیٹ پیٹ کر ہلاک کرنے والے ہوٹل مالک ذیشان کے ہوٹل کو زمین بوس کر دیا گیا۔ 21 اگست کومدھیہ پردیش کے چھتر پور کوتوالی پولس اسٹیشن پر پتھراؤ کرنے کے لئے ہجوم کو اکسانے کے الزام میں 24 گھنٹے کے اندر، حکومت نے 20 کروڑ روپے کی لاگت سے بنی ، حاجی شہزاد علی کی تین منزلہ حویلی کو مسمار کردیا۔ اسی طرح راجستھان کے ادے پور کے ایک سرکاری اسکول میں 10ویں جماعت میں پڑھنے والے بچوں کے درمیان ہوئی مارپیٹ کے معاملے کو ہوا دیکر بات کا اس قدر بتنگڑ بنایا گیا اور پھر 17 اگست کو ملزم طالب علم کے والد سلیم شیخ کے گھر کو منہدم کر دیا گیا۔اس سے قبل حکومت کی ہدایت پر محکمہ جنگلات نے ملزم کے والد کو غیر قانونی کالونی میں بنایا ہوا مکان خالی کرنے کا نوٹس دیا تھا۔اس طرح کی غیر قانونی اور غیر آئینی کارروائی کا سلسلہ دراز ہوتا چلا جا رہا تھا۔اسی دوران ایک عرضی پر سنوائی کرتے ہوئے ، سپریم کورٹ نے بی جے پی کے اس منافرت آمیز ’’بلڈوزر ایکشن‘‘ پر بریک لگا دیا ہے۔سپریم کورٹ کی ہدایت میں مضمر عندیہ سے ایسا لگ رہا ہےکہ معاملے کی مکمل سماعت کے بعد اس غیر جمہوری ایکشن پر ہمیشہ کے لئے بریک لگ جائےگا۔
مہاراشٹر میں انتظامیہ کے ذریعہ بلڈوزر کا استعمال کر مبینہ مزار کو منہدم کیے جانے کا معاملہ سامنے آیا ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ رات کی تاریکی میں ناسک منماڈ چاندواڑ شاہراہ پر بنے مزار پر بلڈوزر ایکشن ہوا ہے۔ اس سے قبل میرا روڈ میں بھی ایک مزار کو نیست و نابود کر دیا گیا تھا۔
دراصل بی جے پی رکن اسمبلی نتیش رانے نے اسمبلی میں قومی شاہراہ پر بنے اس مزار کا معاملہ اٹھایا تھا اور اسے مزار کے نام پر ’لینڈ جہاد‘ سے تعبیر کیا تھا۔ انھوں نے مزار کو ختم کرنے کا الٹی میٹم بھی دیا تھا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انتظامیہ نے بلڈوزر سے مزار کو منہدم کر دیا۔ اس کارروائی کے بعد شاہراہ پر سیکورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔ بڑی تعداد میں پولیس فورس کی تعیناتی کی گئی ہے تاکہ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آئے۔
انتہائی افسوسناک خبر ہے کہ لکھنو کے اکبر نگر میں 16 بلڈوزروں سے سینکڑوں مکانات منہدم کر دیے گئے ان مکان مالکوں میں بعض نے اپنے مکان خریدے تھے جبکہ اکثر نے زمینیں خرید کر مکان بنائے تھے اہل خانہ اور بچے چیختے رہے مگر لکھنو میونسپل کارپوریشن اور لکھنو ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے 16 بلڈوزر مسلسل منہدم کرتے رہے مقامِ افسوس یہ ہے کہ گورنمنٹ وہاں روڈ اور پانی وغیرہ کی سہولتیں بھی دے رہی تھی، لائٹ کی سپلائی بھی اپنے اصولی طریقوں سے ہو رہی تھی مدرسہ اہل سنت نور اسلام کے بانی و مہتمم حضرت مولانا قاری روشن علی قادری سے موبائل پر گفتگو ہوئی، وہ درد و غم سے نڈھال تھے، فرمانے لگے کہ آپ کو تو ہم نے اپنے مدرسہ کے اجلاس میں مدعو کیا تھا آپ تشریف بھی لائے تھے ظلم و جبر کا نشانہ بنا کرسب کچھ نیست و نابود کر دیا ۔ایف زیڈ پبلک اسکول، محمدیہ مسجد، مدرسہ فاطمہ زہرا للبنات کو بھی بلڈوزر کا نشانہ بنا دیا گیا موصوف نے فرمایا کہ ہر سال ہمارے مدارس سے حفاظ و قرا کی قابل ذکر تعداد فارغ ہوتی تھی فرمانے لگے کہ ان اداروں کی تعمیر میں 10 کروڑ سے زائد رقم خرچ ہوئی تھی مزید فرمایا کہ مزید تین مسجدیں بھی شہید کر دی گئیں۔
یہ افسوس ناک حالات ہیں، ہم نے چند باتیں انتہائی اختصار کے ساتھ سپردِ قلم کی ہیں۔ ان درد ناک احوال کی روداد سناتے ہوئے قلم اشک بار ہے۔ آپ نے سنا، کتنے مدارس، مساجد، اور مزارات کو شہید کر دیا ، ان مقدس مقامات سے مسلمانوں کی عقیدت کا رشتہ تھااور مدارس میں نئی نسلوں اور نادار طلبہ کی تعلیم و تربیت کا تعلق تھا، جن کے مکانات توڑ دیے گئے ہیں ان بے چاروں کے پاس اتنا سرمایہ کہاں ہے کہ وہ نئی زمینیں خرید کر اپنے مکان تعمیر کرائیں، اس لیے ہم سپریم کورٹ سے گزارش کرتے ہیں کہ کروڑوں کے نقصانات کی بھرپائی کے لیے بلڈوزر حکومتوں کو آرڈر کرے کہ یہ حکومتیں انھیں بھر پور معاوضہ دیں، حیرت و افسوس کا مرحلہ یہ ہے کہ ایک فرد سے جرم کچھ اور ہوا ہے ، اس مجرم کے اس جرم پر کیس چلانے اور اس پر سزا سنانے کے بجاے اس کی بلڈنگ اور مکان پر بلڈوزر چلانے کا کیا مطلب ہے؟ اور پھر سارے جرائم مسلمانوں اور غیر بی جے پی والوں کے ہی کیوں اجاگر ہوتے ہیں، اور اگر ہیں بھی تو ان کی سگےزا میں ان کے مکانوں اور جائدادوں کو تباہ کرنا کہاں کا انصاف ہے؟ ان شاء اللہ تعالیٰ سپریم کورٹ کا فیصلہ حق و انصاف پر مبنی ہوگا۔**

اشاعت کی درخواست کے ساتھ۔۔۔۔۔۔۔ (مبارک حسین مصباحی) 

*****دارالقلم*****
 انس مسرورانصاری
قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن (انڈیا) 
     رابطہ/9453347784/

اتوار, ستمبر 22, 2024

بہار کے ذریعہ اردو فکشن کا مستقبل روشن ہے۔ پروفیسر اسلم جمشید پوری

بہار کے ذریعہ اردو فکشن کا مستقبل روشن ہے۔ پروفیسر اسلم جمشید پوری
 شہاب ظفر اعظمی کا طرز تنقید انفرادیت رکھتا ہے۔عبدالصمد
اردودنیانیوز۷۲ 
پٹنہ ( پریس ریلیز )

بہار میں اردو فکشن کی تو انا روایت رہی ہے جو سہیل عظیم آبادی ، اختر اور بینوی، شکیلہ اختر کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی ۔ اس خیال کا اظہار معروف ناقد اور شعبۂ اردو چودھری چرن سنگھ یو نیورسٹی کے صدر پروفیسر اسلم جمشید پوری نے شعبہ اردو پٹنہ یونیورسٹی میں ایک تقریب میں کلیدی خطبہ دیتے ہوئے کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ نئے فکشن کو اعتبار قائم کروانے میں عبدالصمد غضنفر، آفاقی ، ذوقی حسین الحق ، شموئل احمد ذکیہ مشہدی اور شوکت حیات وغیرہ کا بڑا رول رہا ہے۔ بالکل نئے لکھنے والوں میں او بیناش امن، نورین علی حقی ، نیاز اختر ، فیاض احمد وجیہ، رومانہ تبسم اور نیلوفر یاسمین وغیرہ افسانے کی دنیا کو وسیع کر رہے ہیں جبکہ ناولوں میں عبدالصمد ، صغیر رحمانی، احمد صغیر ، وغیرہ کی اقتدا میں سلمان عبد الصمد، پیسین احمد وغیرہ کا ذکر کیا جا سکتا ہے۔ نئے لکھنے والے صرف تہذیب کا رونا نہیں روتے ، ان کی تخلیقات پچاسی فیصد دیگر آبادی کے مسائل و موضوعات کا بھی احاطہ کرتی ہیں۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ اردو فکشن کا مستقبل بہار کے لکھنے والوں کے توسط سے محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ واضح ہو کہ شعبہ اردو پٹنہ یونیورسٹی میں آج ایک قومی سیمینار کا انعقاد کیا گیا تھا جس کی صدارت معروف فکشن نگار عبد الصمد نے کی اور کلیدی خطبہ پر وفیسر اسلم جمشید پوری نے پیش کیا۔ اس موقع پر شعبے کے استاد ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی کے تنقیدی مضامین کے مجموعہ ” اردو فکشن تنقیدات و تفہیمات کا اجرا ابھی عمل میں آیا جسے ڈاکٹر عارف حسین نے ترتیب دے کر پیش کیا ہے۔ بہار میں نے فکشن اور شہاب ظفر اعظمی کی فکشن تنقید پر پروفیسر عبدالصمد، پروفیسر افسانہ خاتون ، ڈاکٹر شاداب علیم اور ڈاکٹر ارشاد سیانوی نے بھی
اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ صدارتی خطبہ پیش کرتے ہوئے معروف فکشن نگار عبد الصمد نے کہا کہ بہار نے ۱۹۸۰ کے بعد اردو فکشن کی طرف لوگوں کو متوجہ کرنے میں بڑا رول ادا کیا ہے۔ مگر ایک اہم سوال ہے کہ اردو میں بڑا ناول کیوں نہیں لکھا جا رہا ہے؟“۔ ضرورت ہے کہ فکشن پر بڑے سیمینار اور ورک شاپ ہوں اور ان میں اس سوال پر غور کیا جائے اور نئے لکھنے والوں کی ضروری تربیت کی جائے۔ انہوں نے زور دیا کہ ادب کی تخلیق محنت طلب کام ہے، نئے لکھنے والوں کو نجات پسندی سے کام نہ لے کر محنت اور صبر سے کام لینا چاہیے۔ پروفیسر افسانہ خاتون نے شہاب ظفر اعظمی کی تنقیدی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ان کی کتاب کو فکشن کی تفہیم میں اہم کتاب قرار دیا اور طلبہ کو تلقین کی کہ جس طرح شہاب ظفر ادبی وغیر ادبی سیاست سے دور رہ کر صرف کام پر توجہ دیتے ہیں ۔ اسی طرح آپ بھی اپنے کام پر توجہ دے کر اپنی شناخت قائم کریں ۔ جد و جہد اور مسلسل محنت سے ہی آپ کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔
 انہوں نے شعبہ اردو کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ کسی شعبے کی رونق اس کے بچوں سے ہوتی ہے اور یہ بھرا ہوا حال ثبوت ہے کہ شعبہ اردو اپنے بچوں کی تربیت
احسن طریقے سے کر رہا ہے۔شعبہ اردو میرٹھ یونیورسٹی کی استاد ڈاکٹر شاداب علیم نے شہاب ظفر اعظمی کی کتاب کے لئے انہیں مبارکباد دیتے ہوئے ان کی تنقید نگاری پر گفتگو کی اور کہا کہ ادب و تنقید کے تعلق سے ان کے نظریات بہت واضح ہیں ۔ وہ تنقید میں استہزائی اور منفی لہجہ کے قائل نہیں ہیں۔ ان کی گفتگو ہمیشہ معتدل رہتی ہے۔ وہ فکشن کی باریکیوں سے کما حقہ واقف ہیں ۔ وہ نظریاتی اصولوں کے ساتھ ساتھ عملی شواہد بھی پیش کرتے ہیں۔ اپنی کتاب میں انہوں نے ۱۷ مضامین کلاسیکی وجدید فکشن کے تعلق سے لکھ کر اپنے ہمہ جہت مطالعے کا ثبوت دیا ہے۔
شعبہ اردو چودھری چرن سنگھ یو نیورسٹی کے استاد اور نوجوان نا قد ڈاکٹر ارشاد سیانوی نے بھی شہاب ظفر اعظمی کے تنقیدی رویئے پر اپنی آرا پیش کی اور کہا کہ شہاب صاحب کا ذہن تنقیدی میدان میں تعصبات و تحفظات سے پاک ہے۔ انہوں نے ہم عصر فلکشن پر خاص نگاہ رکھی ہے۔ وہ ٹکشن جمالیات کے ساتھ ساتھ کلاسیکی افسانوی روایت پر بھی نظر رکھتے ہیں۔ پروگرام کا آغاز کتاب کی مرتب ڈاکٹر عارف حسین کی تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ اس کے بعد صدر شعبہ اردو ڈاکٹر سورج دیوسنگھ نے مہمانوں کا استقبال کرتے ہوئے ان کی شرکت کے لیے ہدیہ تشکر پیش کیا۔ پروگرام کی پیش روی ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی نے کی جبکہ انتظام و انصرام کی ذمہ داری شعبے کے طلبہ واسکالرز بالخصوص فیاض کریم ، واصف اعلم معظمی، عافیہ بشری، شیر میں تسنیم ، آفرین عالیہ ، رحت ظہیر محمد هنو از قمر الزماں، کمیل رضا محمد عطا اللہ شاذیہ خاتون وغیرہ نے بخوبی نبھائی۔ اس تقریب میں ڈیڑھ سو سے زاید طلبہ طالبات کے علاوہ عظیم آباد کے ہم اساتذہ اور معتبر شخصیات نے شرکت کی جن میں پروفیسر صفدر امام قادری فخرالدین عارفی ، ڈاکٹر اے کے علوی، ڈاکٹر جاوید حیات ، ڈاکٹر سرور عالم ندوی ، ڈاکٹر صادق حسین، نوشاد احمد عاطر ، عبد الباسط حمید محمد جلال الدین، سہیل انور، بالمیکی رام ، مسرت جہاں نور السلام ندوی، رہبر مصباحی، افضل حسین ، حبیب مرشد خان افقی احمد جان، ہاشم رضا مصباحی، سلیم اختر ، ابوالکلام آزاد محمود عالم، نرجس فاطمہ، صفدری صاحب، انوار اللہ صحافی ، ضیائ الحسن صحافی وغیرہ کے نام شامل ہیں ۔

ہفتہ, ستمبر 21, 2024

آخری گناہ

آخری گناہ
اردودنیانیوز۷۲ 
                       ٭ انس مسرورانصاری
                            9453347784 
     انسانی معاشرہ میں پھیلتی ہوئی برائیوں سےچشم پوشی اختیارکرناکسی قوم کاآخری گناہ ہوتاہے۔پھر
قدرت اُس قوم کومعاف نہیں کرتی۔تباہی وبربادی اُس کامقدّربن جاتی ہے۔تاریخ کامطالعہ کیجئے تومعلوم ہوتاہے کہ اس خاک دانِ گیتی پربہت سی قومیں پیدا ہوئیں،اُبھریں اورعروج حاصل کیا۔عیش پرستی اور مختلف خرافات میں مبتلاہوئیں ۔پھرتباہیوں کے سیلاب میں ڈوب گئیں۔ ان میں سے بعض کے صرف آثاروقرائن باقی رہ گئے۔ 
          عجیب لوگ تھے صدیوں توسربلندرہے
          مگر مٹے تو نشا نِ مز ا ر تک نہ رہا۔ 
                       (انس مسرورؔانصاری)
  دراصل برائیاں چھوت کی مہلک بیماریوں کی طرح ہوتی ہیں۔غیرمحسوس طریقہ سے معاشرہ میں اندرہی اندرپرورش پاتی اورنشوونماحاصل کرتی رہتی ہیں۔چونکہ انسان کوحظِ نفس کاسامان فراہم کرتی ہیں،وقتی لذّتوں سے ہم کنارکرتی ہیں اس لیے اّن کی بیخ کنی کے لیے پیش بندی کی طرف توجہ نہیں ہو پاتی اورقصداََبھی نطراندازکیاجاتاہے ۔سب سے پہلے معاشرے کامقتدرطبقہ اُنہیں اپناتااورگلے لگاتاہے۔ابتداء میں برائیاں پوشیدہ طریقے پراعلیٰ طبقہ میں رائج ہوتی ہیں لیکن جب آہستہ آہستہ اُن کے منفی اورتباہ کن نتائج کااحساس کم ہوجاتاہے یاجب کثرتِ گناہ سے احساسِ گناہ ختم ہوجاتاہےتو یہ برائیاں پردۂ خفاسے باہرنکل آتی ہیں اورچونکہ معاشرے کے اعلیٰ طبقہ کے اعمال وافعال کے اثرات براہِ راست عوامی طبقوں پرپڑتے ہیں اس لیے اچھے اعمال کے ساتھ مذموم افعال بھی اعلیٰ طبقہ سے ادنیٰ اورمتوسط طبقوں میں چلے آتے ہیں ۔جس طرح چھوٹے لوگ ہرمعاملہ میں بڑے لوگوں کی اتباع اورتقلیدکرتے ہیں اسی طرح یہ لوگ اپنے معاشرہ میں ان برائیوں کوبھی رائج کر لیتے ہیں۔مقتدرطبقہ میں ان برائیوں کاانسدادجس قدرآسان ہوتاہے،چھوٹےاورکم خوانداہ طبقوں میں اتناہی مشکل اورکبھی کبھی ناممکن۔ ساہوجاتاہے۔بغیرکسی روک ٹوک اوردشواری کے برائیاں معاشرے میں نشوونما پاتی رہتی ہیں ۔رفتہ رفتہ اُن کادائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتاجاتاہے جس کالازمی نتیجہ یہ ہوتاہے کہ اُن کی جڑیں بہت گہرائی تک پیوست ہوجاتی ہیں اوراپنے تباہ کن اثرات پھیلاتی رہتی ہیں ۔ظاہر ہے کہ ایسے معاشرہ اورقوم کاانجام نہایت عبرت ناک ہوتاہے۔اسی لیے اسلام میں بلکہ تمام مذاہب میں انھیں روکنے اورطاقت کے استعمال سے ختم کرنے کی تاکیدکی گئی ہےاوراگر انھیں روکنے کی طاقت نھیں تواُن سے دوررہنے اورگریز کرنے کاحکم دیاگیاہے۔
 قوم کے افرادجب معاشرتی برائیوں سے آنکھیں چرانے لگتے ہیں اوراُن کے انسداد کاجذبہ پیدانہیں ہوتا توبچے کھچے صالح عناصرکمزوراوربے جان ہوجاتے ہیں ۔چونکہ اُنھیں کسی طرف سے طاقت نہیں مل پاتی اس لیے معصیت کے مقابلہ میں اُن کی قوتِ مدافعت بیکارہوجاتی ہے۔برائیاں دیمک کی طرح معاشرےکوا۔ندر ہی اندر چاٹ جاتی ہیں۔یہ وہ آخری گناہ ہے جسے ہم اس قوم کی تباہی وبربادی کاپیش خیمہ کہہ سکتے ہیں۔ اس تناظر میں اگرہم برصغیرمیں مسلم قوم کی معاشرت کاجائزہ لیں توبے حدتکلیف دہ معاملات و مسائل سامنے آتے ہیں۔ مسلمانوں کے علاوہ کوئی قوم ایسی نہیں جس نے اپنی اچھائیاں دے کر دوسری قوموں کی برائیاں قبول کرکے اپنے معاشرہ میں داخل کرلی ہوں۔انھیں ہرچمکتی ہوئی چیزسونانظرآتی ہے۔موجودہ زمانہ میں مسلم معاشرہ بری طرح انحطاط کاشکارہے۔ ارتدادکافتنہ۔جہیزکی لعنت۔عقدِ ثانی سے گریز بلکہ نفرت۔آپسی اختلاف وانتشار۔مسلکی لڑائیاں۔ سودخوری کی لعنت ۔جھوٹ ،بے ایمانی افتر اق و مغائرت۔سرمایہ پرستی۔خودغرضی وبدخلقی۔وغیرہ جیسے معاملات عام ہیں ۔اس کاسیدھامطلب یہ ہے کہ اس قوم کے مذہبی،سماجی اورسیاسی رہنماؤں نے اپنی ذمہ داریوں کوفراموش کرتے ہوئے اس قوم کواس کے حال پرچھوڑدیاہے۔مسلم معاشرہ میں رائج برائیوں سے چشم پوشی ناقابلِ معافی جرم ہے ۔اس کا احتساب آخرت کی دنیا میں ہوگا۔ان برائیوں کے تدارک کے لیے ہمارے رہنمااپنی طاقت اوراثرورسوخ کااستعمال نہیں کرتے۔بس وعظ ونصیحت کوکافی سمجھتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صالح معاشرہ کی تشکیل فرمائی تھی جومسلم قوم کے لیے ماڈل معاشرہ تھالیکن موجودہ مسلم قوم نےاسے مسترد کردیااورنئے معاشرتی ،غیرحقیقی معاشرہ کی تشکیل کی۔ اورتباہ وبرباد ہے۔
    کثرت کے اعتبا رسے یوں توخطیرہے 
     پھربھی نگاہِ دہر میں بے حدحقیرہے 
    قرآن بھی خدابھی رسولِ کریم بھی 
    کُل کائنات اس کی ہے لیکن فقیرہے 
                                                      ٭٭
                   * انس مسروراؔنصاری 
         anasmasrooransari@gmail.com

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...