Powered By Blogger

منگل, نومبر 05, 2024

*علیحدگی کے بجائے ہم آہنگی*

*علیحدگی کے بجائے ہم آہنگی*
Urduduniyanews72 
دنیا کے موجودہ حالات میں "ہم آہنگی" کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ محسوس ہوتی ہے۔ عالمی سطح پر سیاست، مذہب، نسلی و ثقافتی اختلافات اور قومی مفادات کے باعث پیدا ہونے والے تنازعات نے دنیا کو شدید تقسیم کا شکار کر دیا ہے۔ مختلف اقوام اور فرقوں کے مابین بڑھتی ہوئی دوریوں نے معاشروں کے امن و امان اور ترقی کو نقصان پہنچایا ہے۔ اس صورت حال میں علیحدگی کے بجائے ہم آہنگی کی ضرورت کو سمجھنا ضروری ہے۔ یہ مضمون اسی اہم موضوع پر روشنی ڈالتا ہے کہ ہم آہنگی کیسے انسانی فلاح و بہبود اور عالمی ترقی کا ذریعہ بن سکتی ہے۔
علیحدگی کا مطلب یہ ہے کہ اختلافات کو ختم کرنے کی بجائے مختلف گروہوں یا قوموں کو الگ کر دیا جائے۔ یہ رجحان افراد اور معاشروں کے درمیان دوریاں بڑھاتا ہے۔ علیحدگی اکثر غلط فہمیوں اور نفرت کو فروغ دیتی ہے، جو کہ معاشرتی ہم آہنگی کو ختم کر دیتی ہے۔ اس کے علاوہ، علیحدگی سے اقتصادی ترقی میں بھی رکاوٹ آتی ہے، کیونکہ جب معاشرے تقسیم ہو جاتے ہیں تو ان کے وسائل اور صلاحیتیں منتشر ہو جاتی ہیں۔
ہم آہنگی کا مطلب ہے کہ مختلف طبقات، گروہوں، یا قوموں کے درمیان باہمی احترام اور تعاون کا فروغ دیا جائے۔ یہ اصول انسانیت کی بنیادی اقدار کو اجاگر کرتا ہے جیسے کہ برداشت، صبر، انصاف اور مساوات۔ ہم آہنگی کے ذریعے مختلف لوگوں میں بھائی چارہ اور اتفاق پیدا ہوتا ہے جو کہ امن اور ترقی کے لیے لازمی ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں ہم آہنگی کو فروغ دے کر ہی فلاحی معاشرے کی بنیاد رکھی گئی ہے۔
آج کے دور میں جب دنیا ایک عالمی گاؤں کی شکل اختیار کر چکی ہے، ہم آہنگی کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی نے ہمیں ایک دوسرے کے قریب کر دیا ہے، مگر بدقسمتی سے بعض سیاسی اور مذہبی مسائل نے ہمارے معاشروں میں تقسیم پیدا کر دی ہے۔ مثلاً مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں جاری کشیدگی، مذہبی انتہاپسندی اور عالمی سطح پر پناہ گزینوں کے مسائل، یہ سب مثالیں ہیں کہ ہم آہنگی کے بغیر مسائل کیسے پیچیدہ ہو سکتے ہیں۔
اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں بچوں کو امن، برداشت اور بھائی چارے کی تعلیم دی جائے۔ اس سے نوجوان نسل میں ہم آہنگی کا شعور پیدا ہوگا اور وہ مستقبل میں معاشرتی مسائل کو بہتر انداز میں حل کر سکیں گے۔
مذاہب اور قومیتوں کے درمیان مکالمے کا فروغ ہم آہنگی کے لیے ضروری ہے۔ مکالمہ لوگوں کو ایک دوسرے کے خیالات کو سمجھنے کا موقع دیتا ہے اور غلط فہمیوں کو دور کرتا ہے۔
جب تک لوگوں کے حقوق کا تحفظ اور انصاف کا نظام مضبوط نہیں ہوگا، ہم آہنگی کا قیام ممکن نہیں ہو سکے گا۔ معاشرتی انصاف اور برابری کے بغیر کسی بھی معاشرے میں امن کا قیام ممکن نہیں ہے
میڈیا کو چاہیے کہ وہ عوام میں نفرت اور تفرقے کے بجائے امن اور ہم آہنگی کا پیغام دے۔ میڈیا کے   ذریعے مختلف قومیتوں اور مذاہب کے لوگوں کو قریب لایا جا سکتا ہےجب معاشرتی نظام میں مساوات اور معاشی انصاف ہو تو اس سے عوام میں سکون اور ہم آہنگی کا ماحول پیدا ہوتا ہے۔
دنیا کے موجودہ حالات میں ہم آہنگی کی ضرورت ناگزیر ہے۔ جب مختلف گروہ اور قومیں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کریں گی تو ہی ایک خوشحال، پر امن اور ترقی یافتہ معاشرہ تشکیل پا سکتا ہے۔ علیحدگی کی سیاست اور منفی جذبات کو ترک کر کے ہمیں برداشت، بھائی چارے اور ہم آہنگی کو فروغ دینا ہوگا۔ یہ نہ صرف ہماری اجتماعی فلاح کے لیے ضروری ہے بلکہ عالمی امن اور سلامتی کے لیے بھی ایک لازمی امر ہے۔
طالب دعاء: احمد علی ندوی ارریاوی
استاذ خنساء اسلامک انگلش اسکول بہیڑہ ،دربھنگہ، بہار ۔

پیر, نومبر 04, 2024

مدرسہ فیض القرآن موضع کتھوڑ میں ششماہی امتحان کے موقع پر علماء

 بتاریخ 3 نومبر 2024 بروز اتوار
Urduduniyanews72 
 مدرسہ فیض القرآن موضع کتھوڑ میں ششماہی امتحان کے موقع پر علماء عظام کی حاضری ہوئی ، جس میں قصبہ کرتپور سے حضرت قاری محمد اکرم دامت برکاتہم العالیہ مولانا عبدالماجد عثمانی صاحب وقار محمد جاوید اختر صاحب و قاری محمد شہزاد صاحب بحیثیتِ ممتحن تشریف لائیے ، امتحان کےبعد مختصر پروگرام طلباء عزیز کی حوصلہ افزائی کے لئے زیر صدرات حضرت مولانا کلیم الزماں صاحب دامت برکاتہم عالیہ منعقد کیاگیا جسکی نظامت کے فرائض مولانا محمد اسجد رحمانی القاسمی صاحب نے انجام دیے، اس موقع پر ممتحن حضرات نے اپنے خیالات کا اظہار کیااور بچوں کی محنت اور اساتذہ کرام کی خوب حوصلہ افزائی کی بعدہ اچھے نمبرات لانے والے طلباء وطالبات کوانعامات کی شکل میں شلڈ دے کر حضرات اکابر علمائے کرام کے ہاتھوں سے حوصلہ افزائی کی گی اس موقع پر مدرسہ ہٰذا کے مہتمم اختر حسین وصدر محترم انتظار چوھدری ومحمد اقرار و محمد ارشاد نمبردار وسابق پردھان محمد یونس و محمد ارشد ومحمد مناظر حسین وسابق پردھان عشارت حسین و محمد اصلوب چوہدری اور دیگر بستی کے معزز حضرات بھی شریک رہے۔ مہمان خصوصی کےطور پر مفتی عبد المقتدر صاحب رنگھڑپورہ قاری محمد ذاکر صاحب جیون سراے حافظ منکشف عالم کامراجپوری حکیم قاری محمد یحیٰ صاحب جوگی رامپوری قاری محمد محبوب عالم صاحب کوٹ قادر مفتی محمد ارشد صاحب اور بھی دیگر علماء کرام موجود رہے اخیر میں حضرت مولانا محمد اقرار بیگ صاحب ناظم مدرسہ ہٰذا نے اپنے سبھی مہمانوں کا شکریہ ادا کیا اور صدر محترم حضرت مولانا کلیم الزماں صاحب کی دعا پر پروگرام ختم ہوا

اتوار, نومبر 03, 2024

خنساء اسلامک انگلش اسکول بہیڑہ دربہنگہ، بہار کی دینی و عصری تعلیم اور اصلاحی خدمات۔

خنساء اسلامک انگلش اسکول بہیڑہ دربہنگہ، بہار کی دینی و عصری تعلیم اور اصلاحی خدمات۔
Urduduniyanews72 
تعارف: خنساء اسلامک انگلش اسکول ایک مثالی تعلیمی ادارہ ہے جو بچیوں کے لیے دینی و عصری تعلیم کو ہم آہنگ کرنے اور معاشرتی اصلاح میں مثبت کردار ادا کرنے میں پیش پیش ہے۔ اس ادارے نے محض دو سال کی مختصر مدت میں نہ صرف تعلیمی میدان میں بلکہ دینی و اصلاحی خدمات میں بھی نمایاں مقام حاصل کیا ہے۔ اس مضمون میں ہم خنساء اسلامک انگلش اسکول کی خدمات، مقاصد اور اس کے مثبت اثرات پر روشنی ڈالیں گے۔

ادارے کا تعلیمی نظام اور مقاصد: خنساء اسلامک انگلش اسکول کا مقصد بچیوں کے لیے دینی و دنیاوی علوم کا امتزاج فراہم کرنا ہے تاکہ وہ اپنے اسلامی تشخص کو برقرار رکھتے ہوئے جدید دنیا میں کامیاب زندگی گزار سکیں۔ یہاں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ انگلش، سائنس، ریاضی اور جدید ٹیکنالوجی کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ ادارے کا بنیادی مقصد ایسی باصلاحیت بچیوں کی تیاری ہے جو اپنے علم کو نہ صرف اپنی ذات بلکہ معاشرت کے لئے بھی مفید ثابت کریں۔

دینی تعلیم: اسکول میں قرآن مجید کی تجوید و تلاوت، احادیث نبوی ﷺ، فقہ، اور اسلامی تاریخ جیسے اہم موضوعات پر توجہ دی جاتی ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ بچیاں دینی علوم سے واقف ہوں، اپنی عبادات صحیح طریقے سے انجام دیں، اور اسلامی اقدار کو اپنے کردار کا حصہ بنائیں۔ اساتذہ دینی مضامین کو آسان اور دلچسپ انداز میں پڑھاتے ہیں تاکہ بچیوں میں دین کی محبت پیدا ہو۔

عصری تعلیم: دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری علوم پر بھی خاص توجہ دی جاتی ہے۔ اسکول میں انگلش، سائنس، ریاضی اور کمپیوٹر جیسے مضامین کی جدید طرز پر تدریس کی جاتی ہے۔ اس مقصد کے لئے جدید تدریسی طریقے استعمال کیے جاتے ہیں تاکہ بچیاں موجودہ دور کے چیلنجز کا مقابلہ کرسکیں۔ خنساء اسلامک انگلش اسکول کے اساتذہ بچیوں کو نہ صرف علمی بلکہ عملی طور پر بھی مضبوط بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔

اصلاحی خدمات: خنساء اسلامک انگلش اسکول کی ایک اہم خصوصیت اس کا اصلاحی کردار ہے۔ ادارہ بچیوں کی اخلاقی تربیت پر خصوصی توجہ دیتا ہے تاکہ ان کی شخصیت میں اسلامی اخلاق اور کردار کو پروان چڑھایا جا سکے۔ اسکول میں اخلاقی و تربیتی سیشن منعقد کیے جاتے ہیں جن میں اساتذہ بچیوں کو اعلیٰ اخلاقی اقدار، حسن سلوک اور ادب و احترام کا درس دیتے ہیں۔
اخلاقی تربیت: بچیوں کو دیانتداری، امانت، صداقت، ادب، اور عفو و درگزر جیسے اسلامی اخلاقیات سکھائے جاتے ہیں۔ اس سے نہ صرف ان کی شخصیت میں نکھار آتا ہے بلکہ وہ معاشرت میں ایک مثبت کردار ادا کرنے کے اہل بنتی ہیں۔

اجتماعی سرگرمیاں: اسکول میں مختلف تقریبات اور علمی مقابلے منعقد کیے جاتے ہیں جو بچیوں کی خود اعتمادی اور اجتماعی سوچ کو فروغ دیتے ہیں۔ ان سرگرمیوں کے ذریعے بچیوں میں ٹیم ورک اور ایک دوسرے کی مدد کرنے کی عادات کو فروغ دیا جاتا ہے۔

والدین کے ساتھ روابط: ادارہ والدین کے ساتھ مستقل رابطے میں رہتا ہے اور ان کو بچیوں کی تعلیمی و اخلاقی ترقی سے آگاہ رکھتا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ والدین اور اساتذہ مل کر بچیوں کی تعلیم و تربیت میں بھرپور کردار ادا کریں۔

خدمت خلق: خنساء اسلامک انگلش اسکول میں بچیوں کو خدمت خلق کے جذبے سے سرشار کیا جاتا ہے۔ اس مقصد کے تحت بچیوں کو یتیم خانوں، ہسپتالوں، اور دیگر فلاحی اداروں میں خدمات انجام دینے کی ترغیب دی جاتی ہے۔



خنساء اسلامک انگلش اسکول کا اثر اور کامیابیاں: دو سال کے مختصر عرصے میں خنساء اسلامک انگلش اسکول نے تعلیمی میدان میں قابل ذکر کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ اس اسکول میں زیر تعلیم بچیاں نہ صرف تعلیمی میدان میں آگے بڑھ رہی ہیں بلکہ وہ اپنے اخلاقی کردار اور دینی علم کی وجہ سے معاشرت میں ایک مثبت شناخت رکھتی ہیں۔ اس ادارے میں زیرتعلیم بچیوں کو یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ وہ اپنے علم کو صرف اپنی ترقی کے لیے نہیں بلکہ معاشرتی فلاح کے لیے بھی استعمال کریں۔

خلاصہْ كلام: خنساء اسلامک انگلش اسکول بچیوں کے لیے دینی و عصری تعلیم اور اصلاحی خدمات کا ایک بہترین امتزاج ہے۔ اس اسکول نے مختصر وقت میں جو کامیابیاں حاصل کی ہیں وہ قابل تقلید ہیں۔ دینی و عصری تعلیم کو ہم آہنگ کرکے بچیوں میں جو اسلامی روح بیدار کی گئی ہے وہ مستقبل میں ایک مستحکم اور مثبت معاشرت کے قیام میں معاون ثابت ہوگی۔

محمد افضل اللہ ظفر ڈائریکٹر خنساء اسلامک انگلش اسکول و جامعہ کاشفہ للبنات ، بہیڑہ ضلع دربھنگہ،بہار۔
        +91 87579 59314 ر ابطہ:

جمعہ, نومبر 01, 2024

ملکِ ہند میں اسلامی انگریزی اسکول: وقت کی اہم ضرورت

ملکِ ہند میں اسلامی انگریزی اسکول: وقت کی اہم ضرورت
Urduduniyanews72 
ہندوستان میں مسلمان قوم کا شمار ملک کی سب سے بڑی اقلیت میں ہوتا ہے، لیکن بدقسمتی سے تعلیمی میدان میں مسلمان قوم کو دیگر اقوام کے مقابلے میں کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔ ملک کی ترقی اور قوم کی فلاح و بہبود کے لیے ضروری ہے کہ مسلمان بچوں کو معیاری اور اسلامی تعلیمات پر مبنی تعلیم فراہم کی جائے۔ اسی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے اسلامی انگریزی اسکولوں کا قیام وقت کی اہم ضرورت بن چکا ہے۔

اسلامی انگریزی اسکول: کیا اور کیوں؟

اسلامی انگریزی اسکول ایسے تعلیمی ادارے ہیں جہاں جدید اور معیاری انگریزی تعلیم کے ساتھ ساتھ اسلامی تعلیمات کو بھی نصاب کا حصہ بنایا جاتا ہے۔ اس طرح کے اسکولوں میں طلبہ کو انگریزی زبان میں مہارت حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ قرآن، حدیث، اسلامی تاریخ اور اخلاقی تعلیمات سے بھی آگاہ کیا جاتا ہے۔ اس سے طلبہ کی کردار سازی اور اخلاقی تربیت ممکن ہوتی ہے، جو کہ ان کی شخصیت کے لیے نہایت اہم ہیں۔

جدید تقاضوں کے ساتھ اسلامی تعلیمات کا امتزاج

اسلامی انگریزی اسکولوں میں جدید اور روایتی تعلیمات کے درمیان ایک توازن قائم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس طرح کے اسکولوں میں طلبہ کو سائنس، ریاضی، تاریخ، اور دیگر ضروری مضامین کے ساتھ ساتھ اسلامی تعلیمات بھی سکھائی جاتی ہیں۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ طلبہ اپنی دینی اور دنیاوی تعلیم میں مہارت حاصل کریں اور مستقبل میں ایک کامیاب اور نیک انسان بن سکیں۔

عالمی چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی تیاری

آج کا دور عالمی مقابلے کا دور ہے، جہاں تعلیمی میدان میں انگریزی زبان کو خاص اہمیت دی جاتی ہے۔ اسلامی انگریزی اسکول طلبہ کو اس قابل بناتے ہیں کہ وہ انگریزی زبان میں مہارت حاصل کریں اور عالمی سطح پر اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کر سکیں۔ اسلامی تعلیمات کے ذریعے ان میں اخلاقی اقدار کو فروغ دیا جاتا ہے تاکہ وہ اپنی اسلامی شناخت کو برقرار رکھتے ہوئے دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چل سکیں۔

اسلامی شناخت اور ثقافتی ورثے کا تحفظ

اسلامی انگریزی اسکولوں کا ایک اور اہم فائدہ یہ ہے کہ وہ طلبہ کو اپنی اسلامی شناخت اور ثقافتی ورثے سے جوڑتے ہیں۔ ان اسکولوں میں طلبہ کو قرآن و سنت کی روشنی میں زندگی گزارنے کی تربیت دی جاتی ہے، جس سے ان کی زندگی اسلامی اقدار کے مطابق تشکیل پاتی ہے۔ اس سے وہ زندگی کے ہر میدان میں اسلام کے اصولوں کو عملی طور پر اپنانے کے اہل ہوتے ہیں۔

مسلم قوم کی تعلیمی پسماندگی کا حل

ہندوستان میں مسلمان قوم تعلیمی لحاظ سے کافی پسماندگی کا شکار ہے۔ اسلامی انگریزی اسکول اس مسئلے کے حل کی طرف ایک اہم قدم ہیں۔ ان اسکولوں میں غریب اور مستحق طلبہ کے لیے وظائف، تربیت یافتہ اساتذہ، اور جدید تعلیمی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں، جس سے ان طلبہ کو بہترین تعلیمی ماحول ملتا ہے اور ان کی تعلیمی ترقی ممکن ہو پاتی ہے۔

نتائج اور مستقبل

اسلامی انگریزی اسکولوں کے قیام سے مستقبل میں ایک باشعور اور دیندار مسلم نسل کی تربیت ممکن ہوگی۔ یہ نسل نہ صرف اپنے ملک کی ترقی میں حصہ لے سکے گی بلکہ عالمی سطح پر بھی اسلام کی مثبت تصویر پیش کر سکے گی۔ اسلامی تعلیمات کے ساتھ انگریزی میں مہارت حاصل کرنا انہیں علمی اور عملی میدان میں کامیابی کی راہ پر گامزن کرے گا۔

نتیجہ

ملکِ ہند میں اسلامی انگریزی اسکولوں کا قیام وقت کی ایک اہم ضرورت ہے۔ یہ اسکول اسلامی تعلیمات اور جدید تقاضوں کو ایک ساتھ لے کر چلتے ہیں، جس سے طلبہ کی شخصیت کی مکمل تربیت ہوتی ہے۔ اسلامی انگریزی اسکول نہ صرف مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کے لیے ضروری ہیں بلکہ وہ ملک کی تعلیمی نظام میں ایک مثبت اضافہ بھی ہیں۔

محمد افضل اللہ ظفر ڈائریکٹر خنساء اسلامک انگلش اسکول و جامعہ کاشفہ للبنات بہیڑہ ،ضلع دربھنگہ ،بہار.

بدھ, اکتوبر 30, 2024

بچیوں کی تربیت: ایک اہم ذمہ داری

بچیوں کی تربیت: ایک اہم ذمہ داری
Urduduniyanews72 
1. بچیوں کی تربیت کی اہمیت

بچیوں کی تربیت ایک معاشرتی فریضہ ہے۔ ایک اچھی تربیت یافتہ لڑکی مستقبل کی ماں، رہنما اور ذمہ دار شہری بنتی ہے۔ ان کی تعلیم اور تربیت نہ صرف ان کی ذات بلکہ پورے معاشرے کی ترقی میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ تعلیم یافتہ لڑکیاں بہتر فیصلے کر سکتی ہیں، اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھا سکتی ہیں اور اپنی زندگی کی بہتری کے لیے جدوجہد کر سکتی ہیں۔

2. تربیتی طریقے

الف. تعلیم: تعلیم بچیوں کی تربیت کا بنیادی ستون ہے۔ والدین کو چاہئے کہ وہ اپنی بچیوں کو معیاری تعلیم فراہم کریں، تاکہ وہ اپنے خوابوں کی تعبیر کر سکیں۔

ب. اخلاقی تربیت: بچیوں کو اخلاقیات، اقدار، اور انسانی حقوق کے بارے میں آگاہی فراہم کرنا ضروری ہے۔ ان میں محبت، رحم، اور دوسرے کی مدد کرنے کا جذبہ پیدا کرنا چاہئے۔

ج. عملی تربیت: بچیوں کو مختلف ہنر سکھانا جیسے کھانا پکانا، ہاتھ کے کام، اور مالی معاملات کی سمجھ بوجھ دینا ان کی خود کفالت میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔

د. مثبت ماحول: بچیوں کو ایک مثبت اور محفوظ ماحول فراہم کرنا ان کی ذہنی نشوونما کے لیے ضروری ہے۔ انہیں اعتماد دینا اور ان کی کامیابیوں کا جشن منانا چاہئے۔

3. چیلنجز

بچیوں کی تربیت میں کئی چیلنجز درپیش ہیں، جیسے:

روایتی نظریات: بعض معاشرتوں میں بچیوں کی تعلیم کو کم اہمیت دی جاتی ہے، جس کے باعث انہیں اسکول جانے سے روکا جاتا ہے۔

مالی مسائل: والدین بعض اوقات مالی مشکلات کے باعث بچیوں کی تعلیم جاری نہیں رکھ سکتے۔

سماجی دباؤ: بچیوں پر سماجی دباؤ بھی ان کی تربیت میں رکاوٹ بن سکتا ہے، جیسے کہ جلد شادی یا گھر کے کاموں میں مصروفیت۔


4. نتیجہ

بچیوں کی تربیت ایک طویل مدتی عمل ہے جس میں والدین، اساتذہ، اور معاشرتی اداروں کا کردار بہت اہم ہے۔ اگر ہم بچیوں کی تربیت پر توجہ دیں گے تو ہم ایک بہتر معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں جہاں خواتین اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ترقی کر سکیں۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی بچیوں کو بہتر تربیت فراہم کریں، تاکہ وہ ایک کامیاب اور خوشحال زندگی گزار سکیں۔
طالب دعاء ۔۔۔احمد علی ندوی ارریاوی 
استاذ خنساء اسلامک انگلش اسکول بہیڑہ ، دربھنگہ، بہار

منگل, اکتوبر 29, 2024

یہ بیماری نہیں عذاب الہی ہے !

یہ بیماری نہیں عذاب الہی ہے !
Urduduniyanews72 
سی این این یہ امریکی نشریاتی ادارہ ہے،اس کی ایک رپورٹ جسے ملک کے اکثر اخبارات میں جگہ ملی ہے کہ صہیونی فوجیوں کو ایک مرض کا سامنا ہوگیاہےجس کا نام پی ٹی ایس ڈی یعنی پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس ارڈر ہے۔یہ بیماری تیزی سے فوجیوں میں پھیلتی جارہی ہے اور وبا کی شکل اختیار کر گئی ہے، تقریبا ایک تہائی اسرائیلی فوجی اس کے شکار ہوچکےہیں۔اس بیماری سے متاثرہ فوجی کی حالت پاگل جیسی ہوجاتی ہے،وہ عجیب وغریب حرکتیں کرنے لگتا ہے، بالآخر اپنی جان خود آپنے ہاتھوں ختم کردیتا ہے،فوجیوں کی خودکشی کے بیشمار واقعات رونما ہورہے ہیں۔
  ایک صہیونی فوجی کا عبرتناک واقعہ بھی رپورٹ میں مذکور ہے۔ہیلیران مز رہی نامی ایک صہیونی فوجی جو چار بچوں کا باپ تھا،پچھلے سال اکتوبر کے مہینے میں اسےغزہ بھیجا گیا ، وہاں جاکر فلسطینی خواتین اور بچوں کے قتل عام کامرتکب ہوا،جب اسرائیل واپس آیا تو دوبارہ غزہ جانے کی ہمت نہ کرسکا، صہیونی حکومت نے اسے مجبور کیا تو انہوں نے خودکشی کر لی۔اس کی ماں جینی مزرہی کا کہنا ہے کہ خودکشی کی وجہ ہیلیران کااحساس جرم ہےجو اس نے غزہ میں انجام دیا ہے،وہ غزہ سے تو نکل آیا تھا مگر غزہ اس کے دل ودماغ سے نہیں نکل سکا،اسی احساس نے اسے اپنی موت کو گلے لگانے پر مجبور کیا۔
اس سے یہ بات صاف ہوگئی ہے کہ احساس جرم نے صہیونی ظالموں کو گھیرنا شروع کر دیا ہے،یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے۔ اس سے یہ بیماری کا مسئلہ بھی حل ہوجاتا ہے کہ دراصل یہ بیماری کیا ہے؟اور کیوں صہیونی فوجیوں کو ہی یہ لاحق ہوری ہے؟ صہیونی فوجی جنکے ہاتھ نہتے فلسطینی عوام کے خون سے رنگے ہوئےہیں وہی لوگ بالخصوص اس بیماری میں مبتلا ہورہے ہیں۔
  فلسطینی بچوں اور خواتین کو مارنے والے صہیونی فوجی ہی ڈپریشن اور مختلف قسم کی ذہنی بیماری کا شکار ہورہے ہیں،پی ٹی ایس ڈی دراصل ذہنی مرض نہیں بلکہ یہ بیماری دراصل عذاب الہی ہے، یہ صرف ذہنی بیماری نہیں ہے بلکہ صہیونی فوجیوں کے لئے ایک ذہنی عذاب ہے جسمیں یہ مبتلا ہورہے ہیں۔
نہتے فلسطینی بزرگوں، بچوں اور خواتین کو نشانہ بنانے والےاب خدائی عذاب کا نشانہ بن رہے ہیں، نفسیاتی مریض بن کرخود کشی کے ذریعہ اپنے عبرتناک انجام کو پہونچ رہے ہیں۔اہل غزہ پر پچھلے ایک سال سے جو مظالم انہوں نے ڈھائے ہیں اسی کے پاداش میں درحقیقت یہ خدا ئی پکڑ ہے۔ظلم کو خدا برداشت نہیں کرتا ہے، اس کی سزا اس دنیا ہی میں دیتا ہے،خدا کب کس طرح ظالم کو اس کے ظلم کی سزا دیتا ہے؟اس کا احساس بھی ایک انسان کو نہیں ہوتا ہے مگر دنیا کے لئے یہ عبرت کی چیز ہوتی ہے ۔اس وقت لوگ مسلم دشمنی میں اسرائیل کی مثال پیش کرتے ہیں کہ وہ دیکھو اسرائیل کس طرح مسلمانوں کو سبق سکھا رہا ہے، موجودہ وقت میں ایسے لوگوں کی توجہ اس جانب مبذول کرانے کی ضرورت ہے کہ یہ دیکھو خدا اس کے کرتوت کی سزا کس طرح دے رہا ہے، قران کریم کے سورہ الفجر میں اللہ رب العزت نے قوم عاد اورفرعون کی مثال پیش کی ہے کہ طاقت وقوت میں یہ بہت فائق تھے، ایسی طاقتور قوم آج تک پیدا نہیں ہوسکی ہے، یہ جب ظلم مچانے لگے تو خدا نے اس دنیا ہی میں عذاب کا کوڑا ان پر برسادیا، تاقیامت یہ نشان عبرت بن گئے، اسرائیل کی ان اقوام کے سامنے کیا حیثیت اور حقیقت ہے،تھوڑی سی تعداد میں یہ لوگ امریکی بیساکھی کے سہارے جیتے ہیں، ان کا خاتمہ قریب ہے۔وہ اس لئے کہ یہ ظالم ہیں،خدا ظالم کو پسند نہیں کرتا ہے، اور ظالم کی ہلاکت یقینی اور حتمی ہے،قرآن میں ارشاد ربانی ہے؛"ہم ضرور ظالموں کو ہلاک کریں گے"( سورہ ابراہیم )
ظالم صہیونی کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے ہیں،یہ بات بھی قرآن کریم میں لکھی ہےکہ ظالم پر خدا کی لعنت ہوتی ہے، اس کی نحوست کی بناپر وہ مال واسباب اور بے پناہ قوت وطاقت رکھنے کے باوجود کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکتا ہے، سورہ انعام میں خدائی فرمان ہے؛"ظالم کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتا ہے، (سورہ انعام ) اس قرآنی پیش گوئی سے یہ بات واضح ہے کہ اسرائیل حماس سےجنگ حقیقی معنوں میں جیت نہیں سکتا ہے۔اس تعلق سےابھی گزشتہ کل ایک تازہ بیان فلسطینی قومی تحریک کے قائد مصطفی برغوثی کا بھی آگیا ہےکہ ہم اس تکلیف دہ صورتحال کے خاتمہ کے بہت قریب ہیں ،اور مجھے راکھ کے ڈھیر سے امید کی کرن نظر آرہی ہے۔
مضمون کے اختتام میں اس بات کا ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے مسلم بھائی بھی اس بات کا شکوہ کرتے ہیں کہ ہماری دعائیں قبول نہیں ہورہی ہیں، یہ بات شرعی طور پر کہنا درست نہیں ہے، دعا قبولیت ہی کا نام ہے، ظالم صہیونی فوجیوں کی یہ درگت درحقیقت دعاؤں اور معصوم بچوں، بچیوں کی آہوں کا ہی نتیجہ ہے۔بلکہ ہماری ہر دعا میں معصوم بچوں کی بھی شرکت ہونی چاہئے، جب آسمان سے باران رحمت نازل نہیں ہورہی ہو تو شریعت اسلامیہ نے ہمیں اس کی تعلیم دی ہے کہ اپنے بچوں اور بےزبان مخلوق کو لیکر کھلے میدان میں نماز ودعا کا اھتمام کیا جائے، مویشی کو ان کے بچوں سے الگ کرلیا جائے، ایسے میں ایک سماں پیدا ہوتا ہے اور خدا کو ان معصوموں پر بڑا رحم آتا ہے ، آسمان سے باران رحمت کے فیصلے نازل ہوتے ہیں۔یہی کیفیت اس وقت غزہ میں پیدا ہوگئی ہے۔والدین جام شہادت نوش فرماکر دنیا سے رخصت ہوگئے ہیں، معصوم بچے خدا سے فریاد کناں ہیں اور رحمت کے طلبگار ہیں، مذکورہ واقعات سے ہمیں یہ معلوم ہوتا کہ ان کی دعائیں قبولیت سے ہمکنار ہوچکی ہیں، اور ربیہ بیماری نہیں عذاب الہی ہے  !


سی این این یہ امریکی نشریاتی ادارہ ہے،اس کی ایک  رپورٹ جسے ملک کے اکثر اخبارات میں جگہ ملی ہے کہ صہیونی فوجیوں کو  ایک مرض  کا سامنا ہوگیاہےجس کا نام  پی ٹی ایس ڈی یعنی پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس ارڈر ہے۔یہ بیماری تیزی سے فوجیوں میں پھیلتی جارہی ہے اور وبا کی شکل اختیار کر گئی ہے، تقریبا ایک تہائی اسرائیلی فوجی اس کے شکار ہوچکےہیں۔اس بیماری سے متاثرہ فوجی کی حالت پاگل جیسی ہوجاتی ہے،وہ عجیب وغریب حرکتیں کرنے لگتا ہے، بالآخر اپنی جان خود آپنے ہاتھوں ختم کردیتا ہے،فوجیوں کی خودکشی کے بیشمار واقعات رونما ہورہے ہیں۔
  ایک صہیونی فوجی کا عبرتناک واقعہ بھی رپورٹ میں مذکور ہے۔ہیلیران مز رہی نامی ایک صہیونی فوجی جو چار بچوں کا باپ تھا،پچھلے سال اکتوبر کے مہینے میں اسےغزہ بھیجا گیا ، وہاں جاکر فلسطینی خواتین اور بچوں کے قتل عام کامرتکب ہوا،جب اسرائیل واپس آیا تو دوبارہ غزہ جانے کی ہمت نہ کرسکا، صہیونی حکومت نے اسے مجبور کیا تو انہوں نے خودکشی کر لی۔اس کی ماں جینی مزرہی کا کہنا ہے کہ خودکشی کی وجہ ہیلیران کااحساس جرم ہےجو اس نے غزہ میں انجام دیا ہے،وہ غزہ سے تو نکل آیا تھا مگر غزہ اس کے دل ودماغ سے نہیں نکل سکا،اسی احساس نے اسے اپنی موت کو گلے لگانے پر مجبور کیا۔
اس سے یہ بات صاف ہوگئی ہے کہ احساس جرم نے صہیونی ظالموں کو گھیرنا شروع کر دیا ہے،یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے۔ اس سے یہ بیماری کا مسئلہ بھی حل ہوجاتا ہے کہ دراصل یہ بیماری کیا ہے؟اور کیوں صہیونی فوجیوں کو ہی یہ لاحق ہوری ہے؟ صہیونی فوجی جنکے ہاتھ نہتے فلسطینی عوام کے خون سے رنگے ہوئےہیں وہی لوگ بالخصوص اس بیماری میں مبتلا ہورہے ہیں۔
  فلسطینی بچوں اور خواتین کو مارنے والے صہیونی فوجی ہی ڈپریشن اور مختلف قسم کی ذہنی بیماری کا شکار ہورہے ہیں،پی ٹی ایس ڈی دراصل  ذہنی مرض نہیں بلکہ یہ بیماری دراصل عذاب الہی ہے، یہ  صرف ذہنی بیماری نہیں ہے بلکہ صہیونی فوجیوں کے لئے ایک ذہنی عذاب ہے جسمیں یہ مبتلا ہورہے ہیں۔
نہتے فلسطینی بزرگوں، بچوں اور خواتین کو نشانہ بنانے والےاب خدائی عذاب کا نشانہ بن رہے ہیں، نفسیاتی مریض بن کرخود کشی کے ذریعہ اپنے عبرتناک انجام کو پہونچ رہے ہیں۔اہل غزہ پر پچھلے ایک سال سے جو مظالم  انہوں نے ڈھائے ہیں اسی کے پاداش میں  درحقیقت یہ خدا ئی پکڑ ہے۔ظلم کو خدا برداشت نہیں کرتا ہے، اس کی سزا اس دنیا ہی میں دیتا ہے،خدا کب کس طرح ظالم کو اس کے ظلم کی سزا دیتا ہے؟اس کا احساس بھی ایک انسان کو نہیں ہوتا ہے مگر دنیا کے لئے یہ عبرت کی چیز ہوتی ہے ۔اس وقت لوگ مسلم دشمنی میں اسرائیل کی مثال پیش کرتے ہیں کہ وہ دیکھو اسرائیل کس طرح مسلمانوں کو سبق سکھا رہا ہے، موجودہ وقت میں ایسے لوگوں کی توجہ اس جانب مبذول کرانے کی ضرورت ہے کہ یہ دیکھو خدا اس کے کرتوت کی سزا کس طرح دے رہا ہے، قران کریم کے سورہ الفجر میں اللہ رب العزت نے قوم عاد اورفرعون کی مثال پیش کی ہے کہ طاقت وقوت میں یہ بہت فائق تھے، ایسی طاقتور قوم آج تک پیدا نہیں ہوسکی ہے، یہ جب ظلم مچانے لگے تو خدا نے اس دنیا ہی میں عذاب کا کوڑا ان پر برسادیا، تاقیامت یہ نشان عبرت بن گئے، اسرائیل کی ان اقوام کے سامنے کیا حیثیت اور حقیقت ہے،تھوڑی سی تعداد میں یہ لوگ امریکی بیساکھی کے سہارے جیتے ہیں، ان کا خاتمہ قریب ہے۔وہ اس لئے کہ یہ ظالم ہیں،خدا ظالم کو پسند نہیں کرتا ہے، اور ظالم کی ہلاکت یقینی اور حتمی ہے،قرآن میں ارشاد ربانی ہے؛"ہم ضرور ظالموں کو ہلاک کریں گے"( سورہ ابراہیم )
ظالم صہیونی کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے ہیں،یہ بات بھی قرآن کریم میں لکھی ہےکہ ظالم پر خدا کی لعنت ہوتی ہے، اس کی نحوست کی بناپر وہ مال واسباب اور بے پناہ قوت وطاقت رکھنے کے باوجود کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکتا ہے، سورہ انعام میں خدائی فرمان ہے؛"ظالم کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتا ہے، (سورہ انعام ) اس قرآنی پیش گوئی سے یہ بات واضح ہے کہ اسرائیل حماس سےجنگ حقیقی معنوں میں جیت نہیں سکتا ہے۔اس تعلق سےابھی گزشتہ کل ایک تازہ بیان فلسطینی قومی تحریک کے قائد مصطفی برغوثی کا بھی آگیا ہےکہ ہم اس تکلیف دہ صورتحال کے خاتمہ کے بہت قریب ہیں ،اور مجھے راکھ کے ڈھیر سے امید کی کرن نظر آرہی ہے۔
مضمون کے اختتام میں اس بات کا ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے مسلم بھائی بھی اس بات کا شکوہ کرتے ہیں کہ ہماری دعائیں قبول نہیں ہورہی ہیں، یہ بات شرعی طور پر کہنا درست نہیں ہے، دعا قبولیت ہی کا نام ہے، ظالم صہیونی فوجیوں کی یہ درگت درحقیقت دعاؤں اور معصوم بچوں، بچیوں کی آہوں کا ہی نتیجہ ہے۔بلکہ ہماری ہر دعا میں معصوم بچوں کی بھی شرکت ہونی چاہئے، جب آسمان سے باران رحمت نازل نہیں ہورہی ہو تو شریعت اسلامیہ نے ہمیں اس کی تعلیم دی ہے کہ اپنے بچوں اور بےزبان مخلوق کو لیکر کھلے میدان میں نماز ودعا کا اھتمام کیا جائے، مویشی کو ان کے بچوں سے الگ کرلیا جائے، ایسے میں ایک سماں پیدا ہوتا ہے اور خدا کو ان معصوموں پر بڑا رحم آتا ہے ، آسمان سے باران رحمت کے فیصلے نازل  ہوتے ہیں۔یہی کیفیت اس وقت غزہ میں پیدا ہوگئی ہے۔والدین جام شہادت نوش فرماکر دنیا سے رخصت ہوگئے ہیں، معصوم بچے خدا سے فریاد کناں ہیں اور رحمت کے طلبگار ہیں، مذکورہ واقعات سے ہمیں یہ معلوم ہوتا کہ ان کی  دعائیں قبولیت سے ہمکنار ہوچکی ہیں، اور رب لم یزل ولایزال کو ان پر بڑا پیار آگیا ہے، صہیونی درندوں کی الٹی گنتی شروع ہوگئی اور یہ اپنےدردناک انجام کو پہونچنے لگے ہیں۔

          ملتی ہے خموشی سےظالم کوسزا یارو 
           اللہ  کی لاٹھی میں آواز  نہیں  ہوتی

          ملتی ہے خموشی سےظالم کوسزا یارو 
           اللہ کی لاٹھی میں آواز نہیں ہوتی


ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ 
جنرل سکریٹری، تنظیم أبناء ندوہ پورنیہ کمشنری 
۲۹/اکتوبر ۲۰۲۴ء بروز سہ شنبہ

جمعرات, اکتوبر 24, 2024

بولتی ہوئی محرابوں کے درمیان ٭ انس مسرورؔ انصاری

( تاریخ کےاسباق) 
Urduduniyanews72 
               بولتی ہوئی محرابوں کے درمیان 
           
                       ٭ انس مسرورؔ انصاری 
 
      شیوناتھن اپنے کیمرے کی تیسری آنکھ سے دیکھ رہاتھا۔اسے سب کچھ صاف صاف نظر آرہا تھا۔بہت ساری یاد گار تصویریں اس کے علم میں تھیں جن میں سے یہ بھی ایک تصویر ہے۔نواب آصف الدولہ کا شاہی لشکراپنی روایتی شان وشوکت اور تزک واحتشام کے ساتھ شہر میں داخل ہو رہاہے۔ ۱۷۷۵؁ کا زمانہ ہے۔ لکھنؤ کاایک آباد محلہ.....محلہ کی ایک عظیم الشان عمارت کے ایک منقّش دروازہ میں کھڑی ہوئی خواتین کی آوازیں آرہی ہیں۔نہیں...نہیں ۔ صرف آوازیں ( خواتین آپ کے تصور میں مجسّم ہوں گی ) 
 ‘‘ ائے بی بی!تمھیں معلوم ہے کہ یہ کس کی آمد آمد کا اعلان ہورہاہے ۔؟’’
 ‘‘ ہوں۔ میں صدقے ۔میں واری۔کون نہیں جا نتا کہ خلد آشیانی نواب شجاع الدولہ کے فرزندارجمند اودھ پناہ جناب آصف الدولہ تشریف لارہے ہیں۔’’
 ‘‘ تو پھر فیض آباد کا کیا ہو گا ؟ بہو بیگم کا وہ فردوسِ دل نشین ، جنت بے نظیر !’’
 ‘‘ ائے خالہ بی! یہ وقت اور زمانہ کی کروٹ ہے جس نے فیض آباد کا چراغ گُل کردیا اور لکھنؤ کی قندیل روشن کر دی۔’’
 ‘‘ تو یوں کہو کہ اب ہمارے شہر کا آفتاب خوب بلندی پر چمکے گا۔’’
 ‘‘ بیشک! یہ ہماری خوش نصیبی ہے ۔’’ 
         اس طرح لکھنؤ کے نوابین کے عروج وزوال کی داستان کو لکھنؤ کے کھنڈروں کی زبان میں بڑی خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے۔ ایک تاثر یہ بھی ہے کہ شمال اور جنوب کے دو ہاتھوں نے مل کر لکھنؤ کو کھنڈروں سے اجا گر کر نے کی یہ انوکھی کوشش کی ہے۔باتیں ماضی کی ہیں لیکن تاریخ تو ہمیشہ ہی زندہ رہتی ہے ۔اسے کوئی مٹا نہیں سکتا، کوئی فراموش نہیں کر سکتا۔تاریخ،کھنڈروں میں ،تصویروں اور تحریروں میں زندہ رہتی ہے۔زندہ قومیں اپنی تاریخ کو ہمیشہ یاد رکھتی ہیں۔وہ اپنی تاریخ کی بنیاد پر اپنے مستقبل کی عمارت تعمیر کر تی ہیں۔ 
 ۱۸۱۹؁ء کی ایک صبح کا چڑھتا ہوا آفتاب۔لکھنؤ شہر کی ہمہ ہمی۔ شاہی دربار کا جاہ وجلال،رونق اور شان وشوکت اور نقا روں کی آواز کی گونج کے ساتھ تاج پوشی کا اعلان کر تی ہوئی لکھنو ٔ کی ایک صبح ! لال بارہ دری کی پُر ہیبت اور بلند وبالا محرابیں! شیو نا تھن اپنے کیمرے کی آنکھ سے سب کچھ دیکھ رہا تھا۔محلات کے کھنڈر بول رہے تھے ۔خاموشی گونج رہی تھی اور سنا ٹے چیخ رہے تھے۔ 
 ‘‘ خلق خدا کی ملک ہندوستان کا ،علاقہ اودھ کا،حکم شاہِ دہلی بادشاہ اکبر شاہ ثانی کا.......ہر خاص وعام کو اطلاع دی جاتی ہے کہ حکومت ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو گئی.....ہمارے صوبہ کے نواب وزیر مرزا رفعت الدولہ غازی الدین حیدر کمپنی بہادر کے ہاتھوں تاج 
 پہن کر بادشاہِ اودھ اوّل کی حیثیت سے تختِ سلطنت پر مسند نشین ہو تے ہیں.......!’’
 نوابی کے بادشاہت میں تبدیل ہو جانے کا یہ اعلان تمام لوگوں تک پہنچایا جا سکتا ہے مگر کیسے پہنچایا جائے۔ وہ درد جو لکھنؤ کی لال با رہ دری کی ان محرابوں میں دفن ہے،جسے ہم نے آج تصویروں میں دیکھا ہے، کس کس سے بیان کریں۔ تاریخ کے اہرام میں سجی ہوئی تلخ ترین حقیقتوں کا انکشاف کیسے ہو ؟ کس سے فریاد کریں کس سے مداوا چاہیں ،جو کچھ آج ہم نے تصویروں میں دیکھا ہے،سب کو کیسے دکھا ئیں۔؟ 
 مغل سلطنت پہلے ہی ایک زندہ لاش کی طرح تھی ۔ایسٹ انڈیا کمپنی نے اس کے ٹکڑے کر دیے ۔اودھ میں مغل سلطنت سے انحراف کی سازش انگریزوں نے کی۔دہلی کی گرفت اور انتظام سے تمام صوبے الگ الگ ہو گئے ۔مغل سلطنت حصولِ برکت کا ذریعہ بھی نہیں رہ گئی۔ہندوستان میں برطانیہ کی حکومت یقینی ہو گئی،بادشاہ صرف نام کے رہ گئے۔ وسیع وعریض مغل سلطنت صرف دہلی کی حدود میں سمٹ کر رہ گئی۔
 ۶ ؍ جولائی۱۸۳۷؁ء کی نصف رات، آسمان پر بجھے بجھے چاند ،ستارے،مغموم ہوؤں کے سسکتے ہوئے جھونکے،برطانوی طرز کی بنی ہوئی حویلی ‘‘گلستانِ ارم’’ کا ایک گوشہ۔ اس گوشے میں رات کے سنّاٹوں اور تاریکیوں کو چیرتی ہوئی ایک بے بس دعا گو ماں کی چیخ !‘‘۔ہائے بیٹا! تم عورت اور انگریز پرستی کے شکار ہو ہی گئے نا میرے لال ! اور انھیں کے ہاتھوں سے زہر پی کر چپ چاپ سوگئے۔’’ 
 بادشاہ نصیر الدین حیدر کی موت،ایک المناک تاریخی سانحہ تھی ،گلستانِ ارم کے درو دیوار،نقش ونگار، کانچ کی بوتلوں کے گودام، شاہی تہ خانے، سرکاری فائلیں،الماریوں کی آڑ میں سسکتے ہوئے حسین چہرے،بیل بوٹے۔ ... .! کہاں تک بیان کی جائے لکھنؤ کے دکھوں اور غموں کی داستان۔؟ یہ بڑی طویل اور درد ناک ہے۔آپ کہاں تک سنیں گے اور میں کہاں تک سناؤں گا ۔؟ 
 آیئے اب ذرا قیصر باغ کی طرف چلیں جہاں ‘‘ پری خانہ’’ سے ریختی کے شوخ جملے اٹھتے ہیں ۔
 ‘‘او بنّو! دیکھا ہمارا قیصر باغ ؟ گلشنِ خوبی ،باغِ محبوبی،میں صدقے ،میں واری،ہائے ہائے کیا چھب ہے ہمارے اختر پیا کی!’’
 یہ ایک رخ تھا،سِکّے کی طرح اس کادوسرارخ بھی ہے۔ ۴/ فروری ۱۸۵۳ ؁.ء کی ایک صبح،تقریباََ آٹھ بجے کا وقت ...جرنل اوٹرم کے ہاتھوں میں پیاجانِ عالم واجد علی شاہِ اودھ کے تخت بدر کیے جانے کا فرمان۔کمپنی سرکار کا جدید صلح نامہ۔تیزوطرّار گھوڑوں کے ٹاپوں کی گونج حضور باغ کے پھاٹک کے اندر داخل ہوکر زرد کوٹھی کے تینوں دروازوں سے گزرتی ہے جن پرجل پریوں کا شاہی نشان ہے۔یہ دروازے اب لکھنؤ میں نہیں ہیں پر ان کے اثرات ونشانات کی جھلک اب بھی ملتی ہے۔جب ریزیڈنسی کا مترجم کچھ کہتاہے تو ملازم شاہِ اودھ کے حضور میں آداب بجالاکر عرض کرتا ہے۔
 ‘‘ حضور! بیلی گارد کےاوٹرم صاحب آپ کو سویرے کا سلام کہتے ہیں۔’’ بادشاہ اپنی لکھنوی تہذیب کا دامن مصیبت کی اس گھڑی میں بھی نہیں چھوڑتا ۔اپنی باہیں پھیلاکر اپنے عزیز فرنگی مہمان کا خیر مقدم کرتاہے لیکن اس گورےناہنجارکاہاتھ صرف جدیدصلح نامہ پر بادشاہ کےدستخط کی خواہش کےساتھ آگے بڑ ھتا ہے ۔صلح نامہ کے نام سے کمپنی کا فرمان بلند آواز سے پڑھاجاتا ہے جسے سن کرزرد حویلی کے درودیوار چیخ اٹھتے ہیں۔بادشاہ اس فرمان کو سن کرچاروں طرف سے نظریں بچا کرخاموشی کےساتھ صرف او پر کی طرف دیکھتا ہے۔دل سے فریاد کرتاہے ۔
 ۔‘‘ائے خداوند! تو شاہد حال ہے کہ یہ مجھ پر صریح جفاہے اور حوالہ ٔ انتظام کے بہانے سے میرا گھر مجھ سے چھینا جارہا ہے۔’’
 بیٹے کی سلطنت پر ڈاکہ پڑتے دیکھ کر محل کی چلمن میں جنبش ہوتی ہے۔ملکہ کشور جہاں کی آواز ! 
 ‘‘ انگریز بہادر ! ہمیں ہماری شرافت کا یہ انعام دیا جارہاہے۔ ؟ اس گھر کو جو خرابی آپ کی بدولت ہونی تھی وہ ہو چکی،اس سے بدتر اب اور کیا ہوگا۔؟’’ ملکہ کی ڈوبتی ہوئی آواز کا درد چھپ نہ سکا۔ 
 یہ ہیں لکھنؤ کی کچھ خاص جھلکیاں اور تصویریں جن کاسلسلہ جنوب بعید کے سا حلِ سمندر کے قریب کا رہنے والا شیوناتھن اپنی تیسری آنکھ سے دیکھ اور دکھارہاہے۔سریش شرمااور مکیش کپور ان زندہ محرابوں پر پڑی ہوئی تہہ بہ تہہ گرد کو صاف کررہے ہیں جنھیں قصداََ وقت سے پہلے ہی دفنایا جارہاہے۔ 
 یہ محرابیں اور دیوارودر جومیرے سامنےہیں،میں ان محرابوں اور دیواروں سے پرے کھنڈروں میں سوئے ہوئے لکھنؤ کو بیدار کرنے کے لیے آوازیں دے رہاہوں۔کاش کوئی سن سکتا کہ بلندوبالا اور عظیم الشان محلات کے کھنڈروں کی گری پڑی دیواروں پر اداسی بال کھولے سو رہی ہے۔ 
                               ٭ ٭ 
                     
                   انس مسرورؔ انصاری
                                 *9453347784/    
              قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن 
۔سکراول،اردوبازار، ٹانڈہ،امبیڈکرنگر۔224190(یو،پی)

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...