Urduduniyanews72
دنیا کے موجودہ حالات میں "ہم آہنگی" کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ محسوس ہوتی ہے۔ عالمی سطح پر سیاست، مذہب، نسلی و ثقافتی اختلافات اور قومی مفادات کے باعث پیدا ہونے والے تنازعات نے دنیا کو شدید تقسیم کا شکار کر دیا ہے۔ مختلف اقوام اور فرقوں کے مابین بڑھتی ہوئی دوریوں نے معاشروں کے امن و امان اور ترقی کو نقصان پہنچایا ہے۔ اس صورت حال میں علیحدگی کے بجائے ہم آہنگی کی ضرورت کو سمجھنا ضروری ہے۔ یہ مضمون اسی اہم موضوع پر روشنی ڈالتا ہے کہ ہم آہنگی کیسے انسانی فلاح و بہبود اور عالمی ترقی کا ذریعہ بن سکتی ہے۔
علیحدگی کا مطلب یہ ہے کہ اختلافات کو ختم کرنے کی بجائے مختلف گروہوں یا قوموں کو الگ کر دیا جائے۔ یہ رجحان افراد اور معاشروں کے درمیان دوریاں بڑھاتا ہے۔ علیحدگی اکثر غلط فہمیوں اور نفرت کو فروغ دیتی ہے، جو کہ معاشرتی ہم آہنگی کو ختم کر دیتی ہے۔ اس کے علاوہ، علیحدگی سے اقتصادی ترقی میں بھی رکاوٹ آتی ہے، کیونکہ جب معاشرے تقسیم ہو جاتے ہیں تو ان کے وسائل اور صلاحیتیں منتشر ہو جاتی ہیں۔
ہم آہنگی کا مطلب ہے کہ مختلف طبقات، گروہوں، یا قوموں کے درمیان باہمی احترام اور تعاون کا فروغ دیا جائے۔ یہ اصول انسانیت کی بنیادی اقدار کو اجاگر کرتا ہے جیسے کہ برداشت، صبر، انصاف اور مساوات۔ ہم آہنگی کے ذریعے مختلف لوگوں میں بھائی چارہ اور اتفاق پیدا ہوتا ہے جو کہ امن اور ترقی کے لیے لازمی ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں ہم آہنگی کو فروغ دے کر ہی فلاحی معاشرے کی بنیاد رکھی گئی ہے۔
آج کے دور میں جب دنیا ایک عالمی گاؤں کی شکل اختیار کر چکی ہے، ہم آہنگی کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی نے ہمیں ایک دوسرے کے قریب کر دیا ہے، مگر بدقسمتی سے بعض سیاسی اور مذہبی مسائل نے ہمارے معاشروں میں تقسیم پیدا کر دی ہے۔ مثلاً مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں جاری کشیدگی، مذہبی انتہاپسندی اور عالمی سطح پر پناہ گزینوں کے مسائل، یہ سب مثالیں ہیں کہ ہم آہنگی کے بغیر مسائل کیسے پیچیدہ ہو سکتے ہیں۔
اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں بچوں کو امن، برداشت اور بھائی چارے کی تعلیم دی جائے۔ اس سے نوجوان نسل میں ہم آہنگی کا شعور پیدا ہوگا اور وہ مستقبل میں معاشرتی مسائل کو بہتر انداز میں حل کر سکیں گے۔
مذاہب اور قومیتوں کے درمیان مکالمے کا فروغ ہم آہنگی کے لیے ضروری ہے۔ مکالمہ لوگوں کو ایک دوسرے کے خیالات کو سمجھنے کا موقع دیتا ہے اور غلط فہمیوں کو دور کرتا ہے۔
جب تک لوگوں کے حقوق کا تحفظ اور انصاف کا نظام مضبوط نہیں ہوگا، ہم آہنگی کا قیام ممکن نہیں ہو سکے گا۔ معاشرتی انصاف اور برابری کے بغیر کسی بھی معاشرے میں امن کا قیام ممکن نہیں ہے
میڈیا کو چاہیے کہ وہ عوام میں نفرت اور تفرقے کے بجائے امن اور ہم آہنگی کا پیغام دے۔ میڈیا کے ذریعے مختلف قومیتوں اور مذاہب کے لوگوں کو قریب لایا جا سکتا ہےجب معاشرتی نظام میں مساوات اور معاشی انصاف ہو تو اس سے عوام میں سکون اور ہم آہنگی کا ماحول پیدا ہوتا ہے۔
دنیا کے موجودہ حالات میں ہم آہنگی کی ضرورت ناگزیر ہے۔ جب مختلف گروہ اور قومیں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کریں گی تو ہی ایک خوشحال، پر امن اور ترقی یافتہ معاشرہ تشکیل پا سکتا ہے۔ علیحدگی کی سیاست اور منفی جذبات کو ترک کر کے ہمیں برداشت، بھائی چارے اور ہم آہنگی کو فروغ دینا ہوگا۔ یہ نہ صرف ہماری اجتماعی فلاح کے لیے ضروری ہے بلکہ عالمی امن اور سلامتی کے لیے بھی ایک لازمی امر ہے۔
طالب دعاء: احمد علی ندوی ارریاوی
استاذ خنساء اسلامک انگلش اسکول بہیڑہ ،دربھنگہ، بہار ۔