Powered By Blogger

بدھ, نومبر 13, 2024

******غز ل ******* # انس مسرورانصاری

******غز ل *******
Urduduniyanews72 
         # انس مسرورانصاری

 ہم کلنڈ رسہی  گز ر ے ہو ئے سا لو ں کی طر ح  
یا د کر تے ہیں مگر  لو گ  حو ا لو ں  کی  طر ح
 
میر ی  تنہا ئی  کے  شا نو ں   پہ  ہے  مہکا  مہک
رات کا ر یشمی آ نچل تر  ے  با لو ں  کی  طر ح

حو صلے  ہا ر کے بھی  ہنستے ر ہے،  جیتے   ر ہے
ز ند گی  ہم  نے گز ا ر ی  ہے جیا لو ں کی طر ح

ہم  محبت  سے   محبت   کا  صلہ   د  یتے   ہیں
کو ئی چا ہے تو ہمیں چا ہنے و ا لو ں کی طر ح

یا  د  آ تی  ہے  تر  ی  جیسے    پجا ر ن   کو ئی
گھنٹیاں بجتی ہیں یوں دل میں شوالوں کیطرح

ا پنی ا و لا د  کو  شا عر  نے   و ر ا ثت   بخشی
کچھ کتابیں کئی جیز یں ہیں رسالو ں کی طرح

یو ں بہا ر آ ئی  کہ جیسے   ہو   سہیلی    تیر ی
پھو ل گلشن میں کھلےہیں ترےگالو ں کی طر ح
 
مہر با ں  ہو کے ذ را  د ستِ   حنا ئی  کو   بڑ ھا
ز ند گی ہے مر ی ا لجھےہو ئے با لو ں  کی طر ح

میں نے د ن  بھر کی مشقت  کا  صلہ   پا یا  ہے
چند سکےہیں ہتھلی پہ جو چھا لو ں کی طر ح

ا پنےہا تھو ں کی لکیر و ں میں سجا کر پڑ ھئے
ہم ہیں اخبا رکی صورت نہ رسا لو ں کی طر ح

شام کے سرمئی ہا تھوں میں ہیں گلہا ئے  شفق
نرم ز لفو ں میں د ہکتے ہو ئےگا لو ں کی طر ح

و قت نے جسم کو ز خمو ں کی قبا ئیں بخشیں
پھرہمیں کا نٹو ں پہ کیھنچاگیاشالوں کی طرح

کیسا غم  ٹو ٹ  پڑ ا  ہے  یہ  خد ا   ہی   جا نے
د ل سے آواز بھی ا ٹھتی ہےتونا لوں کی طر ح

ا س کےدا من  پہ کئی داغ ہیں کچھ د ھبے ہیں
پیش کر تے ہیں جسے لو گ  مثا لو ں کی طر ح

ز ند گی یو ں تو بہت خو ب  ہے  لیکن  مسرور
میرےخوابوں کی طر ح ہےنہ خیالوں کی طر ح

                             # انس مسرورانصاری
              قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن (انڈیا) 
                     رابطہ/9453347784/
              ********************************

آفاقیت کا نور : انور آفاقی ۔احمد اشفاق ۔ دوحہ قطر۔

آفاقیت کا نور : انور آفاقی ۔
احمد اشفاق ۔ دوحہ قطر۔ 
Urduduniyanews72 
تو جوہری ہے تو زیبا نہیں تجھے یہ گریز 
مجھے پرکھ مری شہرت کا انتظار نہ کر

حفیظ میرٹھی کا مندرجہ بالا شعر انور آفاقی کے لیے موزوں معلوم پڑتا ہے جو بہ یک وقت شاعر ، افسانہ نگار ، مبصر ، ناقد و محقق ہیں ۔ 
یوں تو انور آفاقی نے شعر گوئی کی ابتدا زمانہ طالب علمی میں ہی کی مگر خلیجی ممالک (سعودی عرب قطر اور متحدہ عرب امارات) میں ان کا فن پوری طرح نکھر کر سامنے آیا۔ دورانِ ملازمت انہوں نے اتنی مہلت ہی نہیں پائی کہ کوئی کتاب ترتیب دے سکیں ہاں ملازمت کے آخری ایام میں وطن واپسی سے قبل انہوں نے اپنا پہلا شعری مجموعہ "لمسوں کی خوشبو " 2011 میں شائع کروایا جس کی تقریب اجرا اپنے وطن دربھنگہ میں ہی کروائی ۔ اتفاق سے راقم الحروف بھی اس میں شریک تھا ۔ 
کچھ ہی عرصہ بعد یہ مستقل وطن آگئے اور پھر گیسو ادب سنوارنے میں مصروف ہو گئے ۔طبیعت تو موزوں  تھی ہی اور عصری ادب پر بھی گہری نگاہ تھی مگر غمِ روزگار نے قلم و قرطاس سے گہرا ربط ہونے نہ دیا۔ ہاں جیسے ہی مہلت ملی ان کا قلم مائل بہ سفر ہوا۔ پھر کیا تھا کہ وطن میں قیام کے دوران غزلیں لکھیں، افسانے لکھے ، سفرنامے لکھے ، تاثراتی مضامین کے ساتھ  تنقیدی و تحقیقی مضامین لکھے ۔ سینئر ، ہم عصر  اور جونیئرس سے انٹرویو لئے اور ان تمام کو کتابی شکل دی جس کی علمی و ادبی حلقے میں کافی پذیرائی ہوئی اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔
یوں تو انہوں نے اپنی تمام کتابوں کے موضوعات کا بہت ہی دیانتداری سے بھرپور احاطہ کیا ہے لیکن ان کے ادبی انٹرویو بطور خاص قابل ذکر ہیں جس میں انہوں نے جن شخصیات کا انتخاب کیا ہے ان کی ادبی حیثیت مسلم ہے مگر بطور خاص ذاتیات پر گفتگو کر کے ان کی زندگی کے مختلف گوشوں پر روشنی ڈالی ہے اور آنے والی نسلوں کے لیے تحقیق کا کام آسان کر دیا ہے ۔ انٹرویو میں نہ صرف صاحب مکالمہ سے ان کے تعلق سے باتیں کی گئی ہیں بلکہ اپنے ہم عصروں اور پیش روؤں کے فن پر بھی سیر حاصل گفتگو کر کے اپنی علمی و ادبی صلاحیت کا ثبوت فراہم کیا ہے جو ہمارے لیے مشعل راہ ہے اور جس سےفکر و فن کے نئے دریچے وا ہوتے ہیں  ساتھ ہی ادبی منظر نامے کو سمجھنے میں ممد و معاون بھی ۔ کسی ازم اور گروہ بندی سے پرے پر خلوص جذبے سے انہوں نے تاثراتی مضامین بھی لکھے ہیں اور تنقیدی رائے بھی دی ہے ۔ فی زمانہ شجرہ نسب کی ترتیب کے تعلق سے دلچسپی کا فقدان ہے لیکن موصوف نے نہ صرف اپنے خاندان اور رشتہ داروں کا شجرہ نسب بڑی عرق ریزی سے ترتیب دیا ہے بلکہ شعرا و ادباء کے تعلق سے ان کے خاندانی پس منظر اور اشعار کی تحقیق بھی کی ہے جو واقعی کارِ محال ہے ۔
دوحہ قطر، جِسے خلیج میں اردو کی راجدھانی کہا جاتا ہے ، میں انور آفاقی کا قیام پانچ برسوں تک رہا۔ وہ جب تک یہاں رہے خلیج کی قدیم ترین اردو ادبی تنظیم " بزمِ اردو قطر" جس کا قیام 1959 میں ہوا تھا سے منسلک رہے ۔ اُن دِنوں شعری و ادبی محفلوں میں پیش پیش رہنے والوں میں برخیا بو ترابی ، بشیر صحرائی ، صبا شیخانی ، قاضی فراز احمد ، شمیم حیدر جونپوری ، رشید نیاز اور محمد ممتاز راشد وغیرہ تھے۔ محمد ممتاز راشد کے وطن واپسی کے بعد گذشتہ دس برسوں سے  بزم اردو قطر کے معتمد عمومی کی ذمہ داری مجھ ناتواں کے کندھوں پر ہے جسے نبھانےکی کوشش تا حال جاری ہے۔
قطر میں پانچ سالہ قیام کے دوران انور آفاقی نے کئی بڑے مشاعروں میں شرکت کی اور ریڈیو قطر کے اردو پروگرام میں بھی حصہ لیا ۔ بزم اردو قطر کے سلور جوبلی مشاعرے میں جس کی صدارت مرحوم محسن
نقوی نے کی تھی،  کے انتظام و انصرام میں وہ پیش پیش رہے۔ 
 متحدہ  عرب امارات میں قیام کے دوران انہوں نے متعدد مشاعروں میں شرکت کی اور اردو کے معتبر  شعرا سے ان کو ملاقات کا شرف حاصل ہوا  مثلا،
 احمد ندیم قاسمی،  قتیل شفائی ، دلاور فگار ،خمار بارہ بنکوی ، مجروح سلطان پوری ، کیفی اعظمی ، کنور مہندر سنگھ بیدی سحر ، راغب مراد آبادی، نور جہاں ثروت ، ممتاز میرزا ، ریحانہ روحی ، حنا تیموری ، ساغر خیامی ،  انور شعور ، خواہ مخواہ حیدرآبادی ، جون ایلیا ، پروفیسر جگن ناتھ آزاد ، محشر بدایونی ، احمد فراز ، پیر زادہ قاسم ، کیف عظیم آبادی ، حفیظ بنارسی ، جمیل نظامی ، والی آسی ، رئیس رامپوری ، گنیش بہاری طرز ، بشیر بدر ، معراج فیض آبادی ، وسیم بریلوی ، ملک زادہ منظور احمد ، انور جلال پوری،  محسن بھوپالی ، امجد اسلام امجد  ، جاوید اختر ، ندا فاضلی،  جلیس شیروانی ،  حکیم ناصر ، مرتضے برلاس ، حمایت علی شاعر ، بلراج کومل ، عرفان صدیقی ، جازب قریشی ، عالمتاب تشنہ، سرفراز ابد ، شہزاد احمد ، سلیم کوثر ، جوگا سنگھ انور ، اظہر عنایتی ، نواز دیوبندی  وغیرہ ۔ ان میں بیشتر شعراء سے ملاقات اور کچھ کو صرف دیکھ اور سن سکے۔
          میری دلچسپی چونکہ شعر گوئی میں ہے لہذا آئیے انور آفاقی کے شعری جہان پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالتے ہیں ۔ اردو زبان نے غزل کو اپنی اصل صنعت محبوبیت میں بڑی شان و شوکت اور وقار کے ساتھ محفوظ رکھا ۔ اس کے دامن میں دنیا کے تمام موضوعات کو بڑے دل کش و دل آویز انداز میں سجا کر پیش کرنے کا ہنر بھی عطا کیا جس سے غزل ہم رنگ اور اس کی تاثیر دو آتشہ ہو گئی ۔ اگر قدرتی طور پر ذہن ہم آہنگ ہے تو قافیہ پیمائی اور غزل گوئی زیادہ مشکل نہیں لیکن مطالعہ ، مشاہدہ اور جذبات و احساسات غزل کے سپرد کر دینا نہایت ہی مشکل کام ہے ۔  میں انور آفاقی کی شاعری کے مطالعے کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ ان کے پاس موضوعات بھی ہیں اور مضامین بھی ۔ ساتھ ہی وہ اپنے مطالعہ اور مشاہدہ کو غزل کا حسین پیرایا عطا کرنے کے ہنر سے بھی بخوبی واقف ہیں ۔ اور اس کا انہیں اندازہ بھی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ فرماتے ہیں 
کہ؂

حرف و آواز کو پتھر نہ کہوں گا لیکن 
اپنے افکار کو میں گردِ سفر لکھوں گا 

میں آگیا ہوں پھر نئے لوگوں کی بھیڑ میں
 تنہائیوں  کا  بوجھ   اٹھایا   نہ  جائے  ہے

 ذہن کی تاریکیاں مٹ جائیں گی 
شمعِ  فکر  و  فن   جلاتے  جائیے

انور آفاقی کا لہجہ سادہ و سلیس ہے شستہ رواں دواں اور پر کیف و پرکشش ہے ۔ انہوں نے زندگی کے اعلی مقاصد اور بلند نصب العین کو محبوب کے پیکر میں مختلف زاویوں سے شاعری کے رنگ و آہنگ میں اس طرح ڈھالا ہے کہ ہر رنگ میں ایک تازگی ، شستگی اور
دل آویزی پیدا ہو گئی ہے ۔ ان کی شاعری صرف خوابوں کی دنیا کی سیر ہی نہیں بلکہ شعر و نغمہ کی  کیفیتوں سے سر شاری بھی ہے۔ مگر چونکہ سارے عالم کی زبانوں کا خمیر اس کا رومان ہے لہذا الفت و محبت آرزوئے وصل ، اندیشہءِ فراق ، حسرت دید ، اظہار  اقرار اور انکار ، حسن کی جلوہ آرائی اور محبوبیت ، عشق کی بینائی ، حسن کا استغنا جو غزل کے اجزائے ترکیبی ہیں وہ ان کی شاعری میں بدرجہ اتم موجود ہیں ۔ مثال کے طور پر چند اشعار ملاحظہ کریں؂
میں اپنی  زیست  کے  معیار  کو  بدل دوں  گا 
تمہاری مانگ میں سرخی شفق کی بھر دوں گا

ہے لہجہ پھول باتیں جس کی کلیاں
وہ خوشبو  بن کے ہر سو چھا گیا ہے 

جب  تمہارا  نہیں انور   سے تعلق  کچھ  بھی 
بن کے بادل مرے احساس پہ  چھاتے کیوں ہو

انور آفاقی کی شاعری میں روایت کی  پاسداری بھی ہے اور اردو شاعری پر بدلتے ہوئے رجحانات کی بازگشت بھی ۔ ان کی شاعری میں فلسفیانہ خیالات زیادہ نہیں ہیں لیکن بلندیءِ فکر کی دعوت جا بہ جا موجود ہے۔ انہوں نے استعارات اور تشبیہات کے تعلق سے اپنے کلام میں نئی معنویت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے ۔ ؂

اٹا تھا  دھول  میں  وہ  ایسی  رہ گزر  میں تھا 
عجیب شخص تھا جو روز و شب سفر میں تھا 

کبھی جو  پھول کی مانند نرم  و نازک تھا 
اب اس کے ہاتھ میں پتھر دکھائی دیتا ہے

 درد اور ٹیس سے مر جاتے ہیں کیسے کچھ لوگ 
میں  نے  زخموں کے سمندر  میں سکوں پایا ہے

انور آفاقی کی شاعری احساس کی جس سطح کی ترجمانی مختلف زاویوں سے کرتی ہے اسے ہم روایتی اور جدید غزل کے درمیان ایک پل کا نام دے سکتے ہیں ان کی شاعری اور لہجے میں بڑا ربط ہے اور یہ لہجہ واقعی جدید غزل کا ہے۔ ایسا لہجہ کہ جس میں دل کی دھڑکنیں شامل ہیں ان کے لہجے کی مانوس اپنائیت غزل کو بہ یک وقت سوز و ساز بھی عطا کرتی ہے اور شاعری کو " گویا یہ بھی میرے دل میں ہے" کا امین بھی بناتی ہے ۔ ان کی شاعری حیات انسانی اور اس کی بو قلمونیوں کا ہر طرح سے احاطہ کرتی نظر اتی ہے ۔ انہوں نے حسن و عشق کی نفسیات کو ذاتی تجربات کی روشنی میں پڑھنے کی کوشش کی ہے۔ تجربوں کے بیان میں پاکیزگی معصومیت اور خود سپردگی نظر اتی ہے۔ ان کے طرز و فکر کا مخصوص انداز اور آہنگ انہیں ان کے ہم عصروں میں امتیاز عطا کرتا ہے۔ انہوں نے گھسے پٹے الفاظ و تراکیب سے پرہیز کرتے ہوئے اپنے کلام کی انفرادیت برقرار رکھی ہے ۔ ان کی غزلیں مختلف رنگ کی ہیں ۔ انہوں نے اپنی غزلوں میں نوع بہ نوع موضوعات کو بڑی خوبصورتی اور فنکاری سے برتا ہے ۔ ملاحظہ فرمائیں چند اشعار ؂

وہیں شعلوں میں سمٹ آئے گی شبنم کی نمی
 میں قلم  سے جہاں اک  لفظِ  شجر  لکھوں گا 

کسی نے بخش دیا جب کمالِ خوش نظری
 رہا  نہ  فرق  گداؤں میں  بادشاہوں  میں 

سنا ہے  اس کو  اچانک  نگل گئیں  سڑکیں
جو سب سے آگے ہمیشہ سفر میں رہتا تھا

انور افاقی کی شاعری وسیع کینوس پر پھیلی ہوئی ہے جس میں خارجی اور داخلی زندگی کی کشمکش ، گم شدہ تہذیب کی بازیافت ، حیات کے پیچیدہ مسائل ، زندگی سے محرومی و ناکامی اور جینے کی امنگوں کے برعکس بیگانگی و محرومی کا عکس صاف دکھائی دیتا ہے ۔ انہوں نے غزل کی تہذیب کو اپنی شاعری میں اچھی طرح جذب کیا ہے ۔ جہاں کلاسیکیت کے ساتھ نئے تجربے بھی ہیں اور جدید انداز بیان بھی۔ انہوں نے موضوعات کو الگ ڈھنگ سے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے لب و لہجے میں نیا انداز نئی تشبیہات خوبصورت کنایات عمدہ خیالات تصور و تخیل کی گہرائی اور معاملات حسن کی صحیح عکاسی ہے۔
گزشتہ چند برسوں میں بہار کے شعری وادی منظر نامہ پر انور آفاقی نے اپنی بے پناہ شعری و ادبی صلاحیتوں کی بنیاد پر اپنی شناخت قائم کی ہے اور اس جذبے کا اظہار کیا ہے کہ ؂
 کل تو  میں دور بہت  دور چلا جاؤں گا
 آج موجود ہوں آنکھوں پہ بٹھا لو یارو

 آخر میں ان کی بہتر صحت کے لیے دعا گو ہوں اور چاہتا ہوں کہ دنیائے ادب میں ان کا نام روز روشن کی طرح منور ہو اور ادب کا جوہری اپنے ہیرے کی تلاش میں کامیاب ہو۔

منگل, نومبر 12, 2024

نومبر ،یوم پیدائش، آئی سی، سی آر کی جانب سے مولانا آزاد کے مزار واقع جامع مسجد دلی پرگل پوشی اور فاتحہ خوانی ھوئی، مفتی عطاءالر حمن قاسمی دعا کراتے ھوئے اور بنے بہرا وغیرہ دیکھے

---------------------------

نومبر ،یوم پیدائش، آئی سی، سی آر کی جانب سے مولانا آزاد کے مزار واقع جامع مسجد دلی پرگل پوشی اور فاتحہ خوانی ھوئی، مفتی عطاءالر حمن قاسمی دعا کراتے ھوئے اور بنے بہرا وغیرہ دیکھے جاسکتے ھیں
Urduduniyanews72 
مولانا آزاد اپنے عہد کے نامور عالم دین،مفسر قر آن ، محدث، فقیہ، متکلم، صحافی،ادیب ،انشاء پرداز ۔مجاھد آزادی، اور ھندوستان کے اولین وزیر تعلیم تھے، اب تو مولانا آزاد کے خیالات ونظریات کے قائل ومعترف پڑوسی ملک کے دانشور ورھنما بھی ھونے لگے ھیں اور انکی کی گئی سیاسی پیشنگوئیاں من وعن صادق آرہی ھیں،ان خیالات کا اظہار مولانا مفتی عطاءالر حمن قاسمی نائب صدر آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت اور صدر مولانا آزاد اکیڈمی نئی دھلی نے اخبار کے نمائندوں سے کیا اور مفتی صاحب نے مزید کہاکہ مولانا آزاد ازاول تا آخر دوقومی نظریہ اور تقسیم ملک کے مخالف رھے ھیں جبکہ انکے سیاسی رفقاء کار بتدریج آخری وائسرائے باون بٹن کے ھلاکت خیز فارمولہ کے فریب میں آچکے تھے،

مولانا آزاد تقسیم ملک کے ناقابل بیان اور ناقابل برداشت صدمے کے باوجود آراذ ھندوستان کی تعمیر وترقی میں ھمہ تن مصروف ھوگئےتھے اور انہوں ہی کے دور میں ان کے ہاتھوں وہ سارے کے سارے تعلیمی، تحقیقی، ثقافتی، (کلچرل)سائنسی، بین الاقوامی روابط کے ادارے اورادب، آرٹ و کلا اور فنون لطیفہ سے متعلق قائم ھوئے تھے جبکہ ھند وستان ابھی ابھی انگریزوں کی لوٹ کھسوٹ سے آزادھواتھا اورغریب ملک تھالیکن مولانا آزاد کا دماغ بڑا ذرخیر اور ثمرآور تھا، آزادی وطن کے ۷۵ سال بیت جانے کے باوجود ان میں ھم کوئی خاص اضافہ نہ کرسکے ھیں

Issued by Maulana Azad Academy, New Delhi 
attached photograph.

Regards, 
Maulana Mufti Ataur Rahman Qasmi
Maulana Azad Academy
New Delhi 
M-9891006857

بدھ, نومبر 06, 2024

تلاوت قرآن کی روح

تلاوت قرآن کی روح
Urduduniyanews72 
قرآن پاک اللہ تعالیٰ کا نازل کردہ کلام ہے جو ہمارے لیے ہدایت، رہنمائی اور نجات کا ذریعہ ہے۔ اس مقدس کتاب کی تلاوت نہ صرف ایک عبادت ہے بلکہ ایمان کو تقویت دینے اور اللہ کے قریب ہونے کا ایک اہم ذریعہ بھی ہے۔ تلاوتِ قرآن پاک میں تجوید یعنی صحیح مخارج اور اصولوں کے ساتھ پڑھنا ایک ضروری اور اہم عمل ہے۔
تجوید کی تعریف۔
تجوید کا معنی ہے "بہتر کرنا" یا "خوبصورت بنانا"۔ اسلامی اصطلاح میں، تجوید سے مراد قرآن پاک کو درست اور خوبصورت انداز میں پڑھنا ہے، جہاں ہر حرف کو اس کے صحیح مخرج اور صفات کے ساتھ ادا کیا جائے۔ تجوید کے اصول ہمیں سکھاتے ہیں کہ قرآن کے ہر حرف کو کیسے ادا کرنا ہے، تاکہ اس کا معنی صحیح طور پر ادا ہو اور اللہ کے کلام کی عظمت برقرار رہے۔
تجوید کی اہمیت:
قرآن پاک کی تلاوت میں تجوید کی پیروی بہت ضروری ہے کیونکہ اس سے نہ صرف قرآن کو صحیح طرح سے سمجھا جا سکتا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس کے الفاظ اور معانی میں جو حکمت رکھی ہے، اسے بہتر طور پر سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کو تجوید کے ساتھ پڑھنے کی تلقین کی ہے، جیسا کہ قرآن میں ہے۔
وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلًا"سورۂ مزمل:
ترجمہ: "اور قرآن کو خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کرو۔
اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ قرآن کو صحیح تلفظ اور وقار کے ساتھ پڑھنا ضروری ہے۔ تجوید کے بغیر پڑھنا کلامِ الٰہی میں تبدیلی یا تحریف کے مترادف ہو سکتا ہے، جو کہ انتہائی گناہ ہے۔
تلاوتِ قرآن میں تجوید کی اہمیت کے فوائد:
معانی کی درستگی:   جب ہم قرآن کو تجوید کے اصولوں کے مطابق پڑھتے ہیں، تو ہر لفظ اور جملے کا صحیح معنی واضح ہوتا ہے۔ غلطی سے کسی حرف کو غلط پڑھنے سے معنی تبدیل ہو سکتے ہیں، جو کہ ایک بڑا نقصان ہے۔
ثواب میں اضافہ: تلاوت کے ساتھ تجوید کے اصولوں کی پیروی کرنے سے اللہ کے ہاں اس کا اجر زیادہ ہو جاتا ہے۔ تجوید کے ساتھ قرآن کی تلاوت میں ایک خوبصورتی اور جذباتی تعلق پیدا ہوتا ہے جو دل کو سکون اور روح کو تازگی عطا کرتا ہے۔
اخلاق و ایمان میں بہتری: تجوید کے ساتھ قرآن پاک کی تلاوت انسان کی زندگی میں تبدیلی لاتی ہے۔ جب انسان تجوید کے اصولوں کے ساتھ اللہ کے کلام کو پڑھے گا تو اس کا دل نرم ہوگا، ایمان میں اضافہ ہوگا، اور اللہ کے احکامات پر عمل کرنے کا جذبہ پیدا ہوگا۔
تجوید کے مختلف اصول ہیں جیسے کہ غُنہ، مد، قلقلہ، اِخفاء، اِدغام، اور اِظہار وغیرہ۔ ہر اصول قرآن پاک کو خوبصورت اور دلکش انداز میں پڑھنے میں مدد کرتا ہے۔ تجوید کے اصول ہمیں حروف کو صحیح انداز میں ادا کرنے کا طریقہ سکھاتے ہیں، تاکہ کسی بھی غلطی سے معنی تبدیل نہ ہو۔
تجوید کی اہمیت کو اپنانا:
تجوید کے اصولوں کو سیکھنا اور اپنانا ہر مسلمان پر واجب ہے۔ اس کے لئے مختلف ادارے اور علماء  قراحضراتموجود ہیں جو تجوید کی تعلیم دیتے ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کو تجوید کے ساتھ قرآن پڑھنے کی تربیت دیں تاکہ قرآن پاک کی اصل حالت برقرار رہے اور اس کی برکتیں ہم پر سایہ فگن ہوں۔
نتیجہ:
تلاوتِ قرآن پاک میں تجوید کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآن کو تجوید کے ساتھ پڑھنے کا حکم دیا ہے تاکہ اس کا مطلب اور پیغام صحیح طرح سے سمجھا جا سکے۔ تجوید کے بغیر پڑھنے سے غلطیوں کا اندیشہ ہوتا ہے، جو نہ صرف قرآن کی توہین ہے بلکہ انسان کے لیے نقصان کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ تجوید کے اصولوں کو سیکھیں اور ان پر عمل کرتے ہوئے قرآن پاک کی تلاوت کریں تاکہ اللہ کا قرب حاصل کر سکیں اور اپنی آخرت کو سنوار سکیں۔

قاری محمد حنیف ثاقبی جھا    ڑكھنڈوی ،بہار۔
معلم  : خنساء اسلامک انگلش اسکول بہیڑہ ،دربھنگہ ،بہار۔

منگل, نومبر 05, 2024

مسلم برادرہڈفاؤنڈیشن کو مبارکباد !

مسلم برادرہڈفاؤنڈیشن کو مبارکباد !
 Urduduniyanews72 
ممبئی شہر میں ٹاٹا ہسپتال کے سامنے مفت کھانا تقسیم ہورہا ہے، ایک لمبی لائن لگی ہوئی ہے، اسی بیچ ایک باحجاب مسلم خاتون بھی کھڑی ہے،ایک شخص خاتون سے یہ کہتا ہے کہ؛"جے شری رام کا نعرہ لگاؤ یا لائن سےہٹ جاؤ"یہ سن کر وہ بحث کرتی ہے کہ مفت کھانا دیا جارہا ہے پھر یہ شرط کیوں؟ میں نعرہ نہیں لگاسکتی، اسی لئےاسے کھانا نہیں ملتا ہے۔
 اس واقعہ کی ویڈیو گزشتہ کئی دنوں سے سوشل میڈیا میں وائرل ہورہی ہے، لاکھوں کروڑوں لوگوں نے اسے دیکھا ہے، کسی نےبھی اس عمل کو پسند نہیں کیاہے،نیزمیڈیا میں اپنے تبصروں کے ذریعہ  زبانی طور پر اس بات کا کھل کر اظہاربھی کیا ہے، یہ بھی ایک جواب ہے،اس پر تمام سیکولر اور انصاف پسند بھائیوں کا شکریہ ادا کیا جاتا ہے،مگر مسلم برادرہڈ فاؤنڈیشن کے ذمہ داروں نےجوعملی جواب دیاہے وہ بہت ہی لائق تحسین اور قابل صد مبارکباد ہے۔
فاؤنڈیشن کے مسلم بھائیوں نے اپنے سروں پر ٹوپیاں رکھ کر مفت کھانا بلاتفریق بھوکوں میں تقسیم کیا ہے، یہ منظر بھی کیمرہ نے قید کرلیا ہے،ایک بھائی یہ کہ رہے ہیں کہ؛"اللہ اکبر بولنے کی ضرورت نہیں ہے، بھوک لگی ہے کھانا کھاؤ، کیا نام ہے تمہارا، شرن بھائی آپ بنداس کھاؤ ،ٹینشن مت لو ۰۰۰
اس کی ویڈیو بھی تیزی سے پھیلتی جارہی ہے، ہرکوئی پسندیدگی کی نگاہ سے اس عمل کو دیکھ رہا ہے، اس کے بعدہی ملک بھر میں مفت کھانا تقسیم کا سلسلہ جاری ہوگیا ہے، حتی کہ مسلم بھائی مندروں کے سامنے پہونچ کربھی بلاتفریق مذہب وملت اس عمل کو انجام دے رہے ہیں، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مسلم فاؤنڈیشن کا یہ مبارک مخلصانہ عمل قبولیت سے ہمکنار ہوگیا ہے، وہ اس لئے کہ انہوں نےصرف کھانا تقسیم نہیں کیا ہے بلکہ بھوکوں کو کھلانے کا اسلامی طریقہ نھی پیش کردیا ہے۔
قرآن کریم میں ارشاد خداوندی ہے؛اور کھلانے ہیں کھانا اس کی محبت پر محتاج کو، یتیم کو اور قیدی کو۰۰
ہم جو تم کو کھلاتے ہیں سو خالص اللہ کی خوشی چاہیے نہ کہ تم سے ہم چاہیں بدلہ اور نہ چاہیں شکر گزاری،( سورہ الدھر )
مذکورہ آیات میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ ایمان والوں کی شان وپہچان یہ ہے کہ وہ ضرورت مندوں کو کھلاتے ہیں اور انمیں تفریق نہیں کرتے ہیں، تاریخ اسلام کا یہ واقعہ مشہور ومعروف ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بدر کے قیدیوں کے بارے میں یہ حکم دیا تھا کہ ان کےساتھ اچھا سلوک کرو، جو کھاتے ہو وہی کھلاؤ، چنانچہ صحابہ کرام نے اپنے سے اچھا کھانا انہیں کھلایا، جب کہ یہ مسلمانوں کی قید میں تھے اور غیر مسلم تھے۔
قرآن کریم یہاں پر اس چیز کی بھی وضاحت کرتا ہے کہ یہ کھلانے کا عمل ان کا خالص اللہ کی خوشی اور خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ہوتا ہے، یہ کھلانے کے بعد بدلہ یا کسی طرح کا معاوضہ یا کوئی شکریہ ونعرہ کےامیدوار نہیں ہوتے ہیں۔
واقعی مسلم بردارہڈ فاؤنڈیشن نے اپنے عمل کے ذریعہ درحقیقت قرآن کی عملی تفسیر پیش کی ہے، بلاتفریق ضرورت مندوں کو کھلایا، اور یہ واضح پیغام دیا کہ ب کہ ہمیں تم سے نہ کوئی بدلہ چاہیے اور نہ  ہم کسی شکریہ کے امیدوار ہیں،نیز کھانے کے لئے تمہیں کوئی اسلامی نعرہ لگانے کی ضرورت نہیں ہے،تمہیں بھوک لگی ہے تم اس کھانے کے مستحق ہو، تمہارا نام شرن ہے یاشفیق ہے،یہ تمہارا واجبی حق ہے، تم ٹینشن نہ لو اور اس بات کی فکر نہ کرو کہ ہم مفت میں کھاریے ہیں۔
فاؤنڈیشن کے اس عمل کی ملک بھر میں پذیرائی ہورہی ہے، ساتھ ہی ساتھ اسلام کی سچی تصویر پوری دنیا میں گئی ہے، باری تعالٰی شرف قبولیت سے نوازے  اجر جزیل عطا فرمائے، دعا کیجئے کہ یہ عمل جاری وساری رہے، اس وقت وطن عزیز میں عملی دعوت کے ذریعہ ہی اسلام کی اشاعت کی جاسکتی ہے اور نفرت کا خاتمہ ممکن ہے۔ہمیں عمل کی توفیق نصیب ہو۔
آمین یارب العالمین 
ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ 
جنرل سکریٹری، تنظیم أبناء ندوہ پورنیہ کمشنری 
۲/جمادی الاولی۱۴۴۶ مطابق ۵/نومبر ۲۰۲۴ء

*علیحدگی کے بجائے ہم آہنگی*

*علیحدگی کے بجائے ہم آہنگی*
Urduduniyanews72 
دنیا کے موجودہ حالات میں "ہم آہنگی" کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ محسوس ہوتی ہے۔ عالمی سطح پر سیاست، مذہب، نسلی و ثقافتی اختلافات اور قومی مفادات کے باعث پیدا ہونے والے تنازعات نے دنیا کو شدید تقسیم کا شکار کر دیا ہے۔ مختلف اقوام اور فرقوں کے مابین بڑھتی ہوئی دوریوں نے معاشروں کے امن و امان اور ترقی کو نقصان پہنچایا ہے۔ اس صورت حال میں علیحدگی کے بجائے ہم آہنگی کی ضرورت کو سمجھنا ضروری ہے۔ یہ مضمون اسی اہم موضوع پر روشنی ڈالتا ہے کہ ہم آہنگی کیسے انسانی فلاح و بہبود اور عالمی ترقی کا ذریعہ بن سکتی ہے۔
علیحدگی کا مطلب یہ ہے کہ اختلافات کو ختم کرنے کی بجائے مختلف گروہوں یا قوموں کو الگ کر دیا جائے۔ یہ رجحان افراد اور معاشروں کے درمیان دوریاں بڑھاتا ہے۔ علیحدگی اکثر غلط فہمیوں اور نفرت کو فروغ دیتی ہے، جو کہ معاشرتی ہم آہنگی کو ختم کر دیتی ہے۔ اس کے علاوہ، علیحدگی سے اقتصادی ترقی میں بھی رکاوٹ آتی ہے، کیونکہ جب معاشرے تقسیم ہو جاتے ہیں تو ان کے وسائل اور صلاحیتیں منتشر ہو جاتی ہیں۔
ہم آہنگی کا مطلب ہے کہ مختلف طبقات، گروہوں، یا قوموں کے درمیان باہمی احترام اور تعاون کا فروغ دیا جائے۔ یہ اصول انسانیت کی بنیادی اقدار کو اجاگر کرتا ہے جیسے کہ برداشت، صبر، انصاف اور مساوات۔ ہم آہنگی کے ذریعے مختلف لوگوں میں بھائی چارہ اور اتفاق پیدا ہوتا ہے جو کہ امن اور ترقی کے لیے لازمی ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں ہم آہنگی کو فروغ دے کر ہی فلاحی معاشرے کی بنیاد رکھی گئی ہے۔
آج کے دور میں جب دنیا ایک عالمی گاؤں کی شکل اختیار کر چکی ہے، ہم آہنگی کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی نے ہمیں ایک دوسرے کے قریب کر دیا ہے، مگر بدقسمتی سے بعض سیاسی اور مذہبی مسائل نے ہمارے معاشروں میں تقسیم پیدا کر دی ہے۔ مثلاً مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں جاری کشیدگی، مذہبی انتہاپسندی اور عالمی سطح پر پناہ گزینوں کے مسائل، یہ سب مثالیں ہیں کہ ہم آہنگی کے بغیر مسائل کیسے پیچیدہ ہو سکتے ہیں۔
اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں بچوں کو امن، برداشت اور بھائی چارے کی تعلیم دی جائے۔ اس سے نوجوان نسل میں ہم آہنگی کا شعور پیدا ہوگا اور وہ مستقبل میں معاشرتی مسائل کو بہتر انداز میں حل کر سکیں گے۔
مذاہب اور قومیتوں کے درمیان مکالمے کا فروغ ہم آہنگی کے لیے ضروری ہے۔ مکالمہ لوگوں کو ایک دوسرے کے خیالات کو سمجھنے کا موقع دیتا ہے اور غلط فہمیوں کو دور کرتا ہے۔
جب تک لوگوں کے حقوق کا تحفظ اور انصاف کا نظام مضبوط نہیں ہوگا، ہم آہنگی کا قیام ممکن نہیں ہو سکے گا۔ معاشرتی انصاف اور برابری کے بغیر کسی بھی معاشرے میں امن کا قیام ممکن نہیں ہے
میڈیا کو چاہیے کہ وہ عوام میں نفرت اور تفرقے کے بجائے امن اور ہم آہنگی کا پیغام دے۔ میڈیا کے   ذریعے مختلف قومیتوں اور مذاہب کے لوگوں کو قریب لایا جا سکتا ہےجب معاشرتی نظام میں مساوات اور معاشی انصاف ہو تو اس سے عوام میں سکون اور ہم آہنگی کا ماحول پیدا ہوتا ہے۔
دنیا کے موجودہ حالات میں ہم آہنگی کی ضرورت ناگزیر ہے۔ جب مختلف گروہ اور قومیں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کریں گی تو ہی ایک خوشحال، پر امن اور ترقی یافتہ معاشرہ تشکیل پا سکتا ہے۔ علیحدگی کی سیاست اور منفی جذبات کو ترک کر کے ہمیں برداشت، بھائی چارے اور ہم آہنگی کو فروغ دینا ہوگا۔ یہ نہ صرف ہماری اجتماعی فلاح کے لیے ضروری ہے بلکہ عالمی امن اور سلامتی کے لیے بھی ایک لازمی امر ہے۔
طالب دعاء: احمد علی ندوی ارریاوی
استاذ خنساء اسلامک انگلش اسکول بہیڑہ ،دربھنگہ، بہار ۔

پیر, نومبر 04, 2024

مدرسہ فیض القرآن موضع کتھوڑ میں ششماہی امتحان کے موقع پر علماء

 بتاریخ 3 نومبر 2024 بروز اتوار
Urduduniyanews72 
 مدرسہ فیض القرآن موضع کتھوڑ میں ششماہی امتحان کے موقع پر علماء عظام کی حاضری ہوئی ، جس میں قصبہ کرتپور سے حضرت قاری محمد اکرم دامت برکاتہم العالیہ مولانا عبدالماجد عثمانی صاحب وقار محمد جاوید اختر صاحب و قاری محمد شہزاد صاحب بحیثیتِ ممتحن تشریف لائیے ، امتحان کےبعد مختصر پروگرام طلباء عزیز کی حوصلہ افزائی کے لئے زیر صدرات حضرت مولانا کلیم الزماں صاحب دامت برکاتہم عالیہ منعقد کیاگیا جسکی نظامت کے فرائض مولانا محمد اسجد رحمانی القاسمی صاحب نے انجام دیے، اس موقع پر ممتحن حضرات نے اپنے خیالات کا اظہار کیااور بچوں کی محنت اور اساتذہ کرام کی خوب حوصلہ افزائی کی بعدہ اچھے نمبرات لانے والے طلباء وطالبات کوانعامات کی شکل میں شلڈ دے کر حضرات اکابر علمائے کرام کے ہاتھوں سے حوصلہ افزائی کی گی اس موقع پر مدرسہ ہٰذا کے مہتمم اختر حسین وصدر محترم انتظار چوھدری ومحمد اقرار و محمد ارشاد نمبردار وسابق پردھان محمد یونس و محمد ارشد ومحمد مناظر حسین وسابق پردھان عشارت حسین و محمد اصلوب چوہدری اور دیگر بستی کے معزز حضرات بھی شریک رہے۔ مہمان خصوصی کےطور پر مفتی عبد المقتدر صاحب رنگھڑپورہ قاری محمد ذاکر صاحب جیون سراے حافظ منکشف عالم کامراجپوری حکیم قاری محمد یحیٰ صاحب جوگی رامپوری قاری محمد محبوب عالم صاحب کوٹ قادر مفتی محمد ارشد صاحب اور بھی دیگر علماء کرام موجود رہے اخیر میں حضرت مولانا محمد اقرار بیگ صاحب ناظم مدرسہ ہٰذا نے اپنے سبھی مہمانوں کا شکریہ ادا کیا اور صدر محترم حضرت مولانا کلیم الزماں صاحب کی دعا پر پروگرام ختم ہوا

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...