Powered By Blogger

ہفتہ, نومبر 30, 2024

سنبھل میں کرفیو کی ایک رات ) * انس مسرورانصاری

سنبھل میں کرفیو کی ایک رات ) 
                  * انس مسرورانصاری
         Urduduniyanews72 
            رات آئی تو خوف کا عفریت 
            خون پینےکوجاگ جاگ اٹھا
          کتنی ویراں پڑی ہے راہ گزر
          کتنی چپ چاپ ہےفضائےبسیط
          کوئی آہٹ نہ کوئی آوازہ
          ملگجی چاندنی سسکتی ہوئی
          جھاڑیوں میں ہواسنکتی ہوئی
           شش جہت خوفناک ویرانی
          خلقت اپنے مکاں کی زندانی
           خوف سے چمٹے ماں کےسینے سے
           ننھے ، معصوم، بےنّوا بچے 
           ایسےلگتاہےجیسےخاموشی 
           دفعتاََپھٹ پڑے گی بم کی طرح 
           راستے چونک چونک جائیں گے
           آہنی بوٹوں کی کھٹاکھٹ کھٹ 
           ریزہ ریزہ پڑی خموشی کو
            بے طرح پائمال کردے گی
            ہانپتی کانپتی ہوئی شب کو
           اور بھی کچھ نڈھال کردے گی 
    
        * انس مسرورانصاری 
     قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن(رجسٹرڈ) 
        اردوبازار،ٹانڈہ۔ امبیڈکرنگر (یو،پی) 
                رابطہ/9453347784
              ****************

جمعرات, نومبر 28, 2024

اعلیٰ اخلاقی اقدار اپنا ئیے

اعلیٰ اخلاقی اقدار اپنا ئیے
Urduduniyanews72 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ 

بے راہ روی، جھوٹ، غیبت، چغل خوری، طعن وتشنیع، بد کلامی، تہمت وبہتان تراشی نے سماج کو ایک ایسے راستے پر ڈال دیا ہے، جس کا نتیجہ دنیا میں بربادی، تباہی اور شرمندگی نیز آخرت میں ان گناہوں کی پاداش میں بغیر توبہ کے مرگیا تو جہنم ہے، المیہ یہ ہے کہ ان بُری عادتوں اور خصلتوں کو گناہ سمجھا بھی نہیں جا رہا ہے، جس کی وجہ سے ان گناہوں سے واپسی کا خیال نہیں آتا، گناہوں پر مداومت اور اصرار بڑھتا جا رہا ہے۔ کہنا چاہیے کہ ذہن ودماغ سے احساس زیاں بھی رخصت ہو گیا ہے۔
اپنے اعمال کا تجزیہ کیجئے تو معلوم ہوگا کہ جھوٹ ہماری گفتگو کا جز و لاینفک بن گیا ہے، ہماری کوئی مجلس غیبت، چغل خوری سے پاک نہیں ہوتی،گالی، بدکلامی، لعنت وملامت اور بغیر تحقیق کے تہمت وبہتان تراشی میں ہم آگے ہیں،دوسروں کو رسوا کرنے کے لیے اپنی عاقبت خراب کر رہے ہیں، سوشل میڈیا کے اس دور میں ہر ایرے غیرے کا ہاتھ موبائل کے کی بورڈ(Key Bord)پر ہے اور جو چاہے لکھتا چلا جاتا ہے، اس آزادی نے لوگوں کی پگڑیاں اچھا لنے کے کام کو آسان کر دیا ہے، پگڑیاں اچھل پاتی ہیں یا نہیں، لیکن اپنے نامہ اعمال میں ان رذیل حرکتوں کا گناہ تو درج ہوہی جاتا ہے۔
اللہ کی پناہ! ذرا سوچئے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا سچ راہ نجات ہے، اور جھوٹ ہلاکت کی طرف لے جاتا ہے، ہم نے ہلاکت والے راستے کو اپنا لیا ہے جس کی وجہ سے اللہ کی لعنت کے مستحق ہو رہے ہیں، اللہ رب العزت کا ارشاد ہے، لعنۃ اللہ علی الکاذبین. اگر ہم سچ نہیں بول سکتے، اس کی ہمت نہیں جٹاپاتے ہیں تو کم سے کم خاموش رہنا ہی سیکھ لیں، کیوں کہ خاموشی بڑا ہتھیار اور نجات کا ذریعہ ہے، مَنْ سَکَتَ نَجَا و منْ صَمَت نَجَا میں یہی بات کہی گئی ہے۔ واقعہ یہی ہے کہ مسلمانوں کی زندگی میں جھوٹ کے لیے کوئی جگہ نہیں ہونی چاہیے اور سچ کو ہی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا چاہیے، یہ بہت طاقت ور ذریعہ ہے، سچ کبھی شکست نہیں کھاتا، جھوٹ کے مقدر میں ہار ہے، ہو سکتا ہے اس ہار تک پہونچنے میں جھوٹے کو تھوڑی دیر لگ جائے۔
 خود غرضی بھی ہماری زندگی کو بری طرح متاثر کرتی ہے، خود غرض آدمی اپنے علاوہ کچھ اور دیکھ ہی نہیں پاتا ہے، اس مرض کا شکار نہ اپنے خاندان کے سلسلے میں مخلص ہوتا ہے اور نہ ہی ملک، ادارے تنظیموں، جماعتوں، جمعیتوں کے کام کا رہتا ہے، اس کی سوچ کا مرکز ومحور صرف یہ ہوتا ہے کہ ہمارا کس میں فائدہ ہے، حالاں کہ ہونا یہ چاہیے کہ ہم جس ملک میں رہتے ہیں، جن اداروں اور تنظیموں سے ہمارا تعلق ہے، اس کی محبت اور قدر ہماری زندگی میں سمائی ہوئی ہو کہ ہماری ذات اور منفعت کی اس طرح نفی ہوجائے کہ محبت کا پلڑہ ملکی اور ملی مفادمیں جھک جائے، ہمارے اکابر نے ہمیں اسی بات کی تعلیم دی ہے۔
 دنیاوی زندگی میں مکافات عمل کا اصول کار فرما ہے، جو بوئیں گے وہی کاٹیں گے، نظیر اکبر آبادی نے کہا ہے ؎
 کلجگ نہیں کرجگ ہے یہ یاں دن کو دے اور رات لے کیا خوب سودا نقد ہے، اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے
 یہی مکافات عمل ہے، سورج پر تھوکنے کا عمل اپنی پیشانی پر اس تھوک کو واپس لے لینا ہے، اس طرح کا کوئی عمل صرف اپنے احمق ہونے کا اعلان ہے، یہ بات صحیح ہے کہ انسان نفسیاتی طور پر اپنے خلاف کیے گئے کاموں اور تحریروں کا جواب دینا چاہتا ہے، لیکن ہمیں یہ بات خوب اچھی طرح یاد رکھنی چاہیے کہ کتا اگر کاٹ لے تو ہم بدلے میں کتے کے کاٹنے کو شریفانہ عمل نہیں سمجھتے۔
 ایسے موقعوں سے غصہ کو پی جانا اور معاف کر دینا شریفانہ عمل ہے، وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ میں ہمیں اسی کی تلقین کی گئی ہے، معافی سے ہمارے تحمل اور بر داشت کا پتہ چلتا ہے، حسد اور نفرت جیسے قبیح عمل سے ہم محفوظ رہتے ہیں، کیوں کہ یہ چیزیں جب ہمارے اندر داخل ہوجاتی ہیں تو یہ دیر سویر ہمارے زوال کا ذریعہ بنتی ہیں، لیکن جب ہم عفو ودرگذر سے کام لیتے ہیں تو محبت والفت کا ایک سمندر ہمارے دل ودماغ میں جوش مارتا ہے، اور اس کا فائدہ ہماری سوچ کو ہی نہیں ہمارے جسم ودماغ کو بھی پہونچتا ہے، ہم خود بھی خوش رہتے ہیں اور دوسروں تک خوشیاں پہونچانے کا کام کرتے ہیں۔
ہماری عادت دوسروں میں برائیاں تلاشنے کی ہو گئی ہے، جس طرح مکھیاں پورے جسم کو چھوڑ کر صرف گندی جگہ، پھوڑے پھنسی اور زخموں پر بیٹھا کرتی ہیں، اسی طرح ہماری نگاہ انسانوں کے کمزور پہلوؤں کی طرف لگی رہتی ہے، اس آدمی کے اندر لاکھ خوبیاں ہوں، لیکن مرکز نگاہ خامیاں ہواکرتی ہیں، خامیوں کی نشان دہی کرتے وقت ہم یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ جب ایک انگلی کسی کی طرف ہم اٹھاتے ہیں تو تین انگلیاں خود ہماری طرف ہوتی ہیں او رپوچھ رہی ہوتی ہیں کہ کبھی اپنا بھی جائزہ لیا ہے کہ تمہارے اندر کتنے عیوب ہیں، آپ کی سوچ کا اثر سامنے والے کے کردار پر پڑتا ہے، آپ کسی کو ہر وقت کہیں گے کہ آپ بیمار سے لگتے ہیں، کچھ دن کے بعد وہ واقعی بیمار ہوجائے گا، لیکن جب آپ اسے بار بار صحت کا پیغام سنائیں گے تو کم از کم وہ ذہنی مریض بننے سے بچ جائے گا، آپ نے اپنے بچے کو بار بار کند ذہن کہا تو وہ کند ذہن ہوجائے گا، اس کے سمجھنے کی طاقت دن بدن کم ہوتی چلی جائے گی، اس لیے دوسروں میں اچھائیاں تلاش کیجئے، اس کا ذکر کیجئے، اگر آپ کسی کو بار بار ناکارہ کہتے ہیں تو اس کی کارکردگی میں یقینا کمی آئے گی، لیکن آپ نے اس کی تھوڑی محنت کی تعریف کر دی تو اس کی فعالیت میں بے پناہ ترقی ہوگی، آپ کا رکردگی بڑھانے کا کام کیجئے، ناکارہ بنانے کا نہیں۔
سماج کے جو کمزور لوگ اور طبقات ہیں، گھر میں بوڑھے والدین ہیں، ان کی جانب سے بے اعتنائی آج کل عام ہے، ان کی ضرورتوں کی تکمیل نہیں ہو رہی ہے، ہمارے پاس ان کو دینے کے لیے وقت نہیں ہے، بلکہ بعض گھروں میں انہیں ایذا رسانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، اعلیٰ اخلاقی اقدار میں یہ بات بھی شامل ہے کہ چھوٹوں پر رحم کیا جائے، اور بڑوں کاادب واحترام کا خیال رکھا جائے۔
اسی طرح حسد بھی ہماری زندگی کو متاثر کرتا ہے، اس کا عادی شخص جلن کا شکار ہوتا ہے، اس سے اس کی قوت کار پر بھی اثر پڑتا ہے اور دل ودماغ کو خاص کرب سے گذرنا پڑتا ہے، واقعہ یہ ہے کہ ہم اپنے دکھ سے اس قدر دکھی نہیں ہیں، جتنا دوسرے کے سکھ سے ہمیں پریشانی لاحق ہے۔
 خود کو بدلنے کا مزاج بنائیے، اصلاح کا کام خودسے شروع کیجئے، سماج میں آپ جو تبدیلیاں لانا چاہتے ہیں، اعلیٰ اخلاقی اقدار کو فروغ دینا چاہتے ہیں تو کام کا آغاز خود سے کیجئے، اسلام کی تعلیم یہی ہے کہ اپنی اصلاح کیجئے، پھر عزیز واقربا کی کیجئے اور پھر خاندان، اور سماج کی طرف تدریجا بڑھیے اَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الاَقْرَبِیْن اور یاٰیھَا الذِیْنَ آمَنُوا قُوا اَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَارًا میں یہی بات کہی گئی ہے،کاش ہم اس راز اور کام کے اس طریقہ کو سمجھ کر اپنی زندگی میں اتارپائیں۔

منگل, نومبر 19, 2024

انس مسرور انصاری کی کتاب ’’عکس اورامکان ‘‘ کی رسم رونمائی

انس مسرور انصاری کی کتاب ’’عکس اورامکان ‘‘ کی رسم رونمائی
Urduduniyanews72 
ٹانڈہ جیسے علاقے میں رہ کر انس مسرورانصاری نے جو ادبی کام انجام دیئے ہیں وہ لائق تحسین ہیں۔احمد ابراہیم علوی

 قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن ٹانڈہ کے بانی و صدرانس مسرور انصاری کےتحقیقی و تنقیدی مضامین کا مجموعہ ’’عکس اورامکان ‘‘ کی رسم رونمائی۔۔ادبی نشیمن،،کے دفتر واقع الماس باغ ۔ہردوئی روڈ(لکھنؤ) میں منعقد ہوئی۔ جس کی صدارت سینئر صحافی و افسانہ نگار احمد ابراہیم علوی نے فرمائی۔ مہمانانِ خصوصی انس مسرور انصاری۔ ڈاکٹر عصمت ملیح آبادی اور ڈاکٹر اکبر علی بلگرامی موجود تھے ۔ نظامت کے فرائض ہر دو ناظم رضوان فاروقی اور ڈاکٹر اسرارالحق نے انجام دیئے۔
 رضوان فاروقی کی تلاوت قرآن پاک اورخلیل اختر شبو کےنعت پاک کا نذرانہ پیش کرنے کے بعدٹانڈہ۔ امبیڈکر نگر سے تشریف لائےفخرِامبیڈکرنگر انس مسرور انصاری کی کتاب ’’عکس اور امکان‘‘ کا اجراء احمد ابراہیم علوی اور ڈاکٹر عصمت ملیح آبادی کے ہاتھوں عمل میں آیا ۔
 پروگرام کی صدارت کر رہے احمد ابراہیم علوی نے انس مسرور انصاری کی ہمہ جہت خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے کہاکہ ایک شخص اکیلے کئی صنفوں پرقلم پیرا ہے،بہت سی قیمتی کتابیں اردو دنیا کو عطا کی ہیں ۔انس مسرور انصاری نے جو نظم پیش کی ہے وہ ایسی نظم ہے جس پر کہنے او ر لکھنے کے لیے بہت کچھ کہا اور لکھا جا سکتا ہے ۔میں نے جب ان کی چالیسویں کتاب۔۔عکس اور امکان،،کا مطالعہ کیا تو مجھے احساس ہواکہ انس مسرور صاحب کی تحریر میں روانی، طاقت ور اسلوب او ران کامطالعہ کافی وسیع ہے۔انھوں نے انس مسرور انصاری کی ادبی کاوشوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ بڑے شہروں میں تو اس طرح کے کام کرنے کی آسانیاں ہیں لیکن ٹانڈہ جیسےقصباتی علاقے میں رہ کر انس مسرور نے جوعلمی و ادبی کارنامےانجام دیئے ہیں وہ لائق تحسین ہیں انھوں نے کہا کہ میں امید کرتا ہوں کہ انس صاحب کا قلم یوں ہی رواں دواں رہے گا۔ 
 ڈاکٹر عصمت ملیح آبادی نے اپنے تاثرات میں نہ صرف معلومات افزاءاردو دنیا کی نامور ہستیوں کی یاد دلائی بلکہ یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کیا کہ ناقدین نئے لکھنے والوں پر بھی اپنے قلم کو چلانا چاہئے ۔یہ خوش آئند بات ہے کہ نثر لکھنے والے عنقا ضرور ہیں مگر جو لکھ رہے ہیں وہ بہت عمدہ، معیاری اوراعتبار یت سے مملو ہیں۔انھوں نے انس مسرور انصاری کو مبارک با د پیش کرتے ہوئےکہا کہ ان کی علمی و ادبی سرگرمیوں اور مسلسل مطالعہ کا نتیجہ ہے ’عکس اور امکان۔‘ 
   ڈاکٹر اکبر علی بلگرامی نے کہا کہ میں ٹانڈہ کی تین عظیم ادبی شخصیات سے بہت متاثر ہوں پہلی شخصیت استادِ محترم پروفیسر محمود الہٰی صاحب کی،دوسری شخصیت مفتی ولی اللہ صاحب اور تیسری شخصیت انس مسرور انصاری کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ انس مسرور صاحب جہاں ایک اچھے شاعرو نعت گو ہیں وہیں انھوں نے تحقیقی و تنقید ی مضامین کے ساتھ ساتھ بچوں کا بھی خیال رکھا اور بچوں کےادب پر بھی انھوں نےگراں قدر کام کیےہیں۔عکس اور امکان،، میں شامل نعت کے موضوع پر۔۔تعلیقاتِ نعت،، مضمون کو انھوں نے حاصل کتاب قرار دیا اور کہاکہ اچھا ہوتا کہ عربی اشعارکے تراجم کے ساتھ اگر عربی نعت گو شعراء کے کلام کے نمونے بھی اس میں شامل ہوتے۔
 اس کے علاوہ ڈاکٹر امین احسن نے انس مسرور انصاری کا تعار ف کراتے ہوئے کہا کہ انس صاحب ہمہ جہت و ہمہ رنگ موضوعات پر لکھنے والے کثیر التصانیف شاعر ،ادیب ،نقاد ،محقق و مورخ ہیں۔بچو کے لیے بھی انھوں نے کئی اہم کتابیں اور نظمیں تصنیف کیں۔ادب اظفال پر ان کی ایک درجن سے زائد کتابیں ہیں۔جبکہ ڈاکٹرمحمد اشہر سوداگر،صحافی وصیل احمد خان (روزنامہ۔۔اردوٹائمز،،ممبئی)ڈاکٹر اسرار الحق قریشی اوررضوان فاروقی نے مقالے پیش کیے۔روزنامہ راشٹریہ سہارا کے نمائندہ غفران نسیم نےانس مسرور اور ٹانڈہ کی ادبی سرگرمیوںپر روشنی ڈالتے ہوئے تحسین و آفرین کے کلمات پیش کئے۔
   اس موقع پر۔۔ ادبی نشیمن گروپ،،کی جانب سے انس مسرورانصاری کی علمی وادبی اوراردوزبان کی عملی خدمات پرانھیں۔۔ادبی نشیمن ایوارڈ،، اورسندِتوصیف سےسرفرازکیاگیا۔ 
 پروگرام میں ڈاکٹر اسرالحق قریشی نے افسانچہ ’’بریک‘‘ اور ڈاکٹر سلیم احمد نے ’’نوکری ‘‘ پیش کیا ۔پروگرام میں خلیل اختر ،معید رہبر،محسن عظیم انصاری ،عاشق رائے بریلوی ،جلال لکھنوی،ضیاء کاملی ،قمر جیلانی خان نے اپنے اپنےکلام پیش کئے۔پروگرم کےآخیرمیں کنوینراور۔۔ادبی نشیمن،،کے مدیر ڈاکٹر سلیم احمد نےحاضرین کاشکریہ ادا کیا۔

جمعرات, نومبر 14, 2024

اسلام کی انسانیت نوازی

اسلام کی انسانیت نوازی 
Urduduniyanews72 
 دھرم اور ذات کی بنیاد پرایک مسلم کسی سے نفرت نہیں کرتا ہے،اس لئےکہ اس بات کی اجازت اس کا مذہب نہیں دیتا۔مذہب اسلام میں انسان اللہ کی تمام مخلوقات میں سب سے اونچا مقام رکھتا ہے، یہ اشرف المخلوقات ہے،ہر آدمی حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد ہے،قرآن کریم میں اس کے مکرم ہونے کا بھی اعلان موجودہے،اس حیثیت سے حضرت آدم علیہ السلام کی تمام اولاد کا آپس میں ایک مضبوط رشتہ قائم ہوجاتا ہے، ایک ایمان والےکو اس برادرانہ رشتہ کی قدر کرنے کا حکم دیا گیا ہے،کہ جس طرح ایک انسان اپنے قبیلے وبرادری کا لحاظ کرتا ہے، اس کے اپنے دل میں نیک جذبات رکھتا ہے، اس کی ترقی وبھلائی کا خواہاں رہتا ہے، اسی طرح بحیثیت انسان ایک مسلمان اپنی انسانی برادری کا بھی خیال کرے ، کسی سے بغض وعداوت نہ رکھے، حسد کرےاور نہ اس سے بیزاری کا اظہار کرہے بلکہ بھائی جیسا سلوک کرےاوربرادرانہ رشتہ قائم ودائم رکھے، حدیث شریف میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے،؛"آپس میں ایک دوسرے سے کینہ نہ رکھو، ایک دوسرے پر حسد نہ کرو ،نہ ایک دوسرے سے منہ پھیرو، اور سب مل کر خدا کے بندے آپس میں بھائی بھائی بن جاؤ" (بخاری)
الحمد للہ اس کا عملی مظاہرہ بھی ملک میں مسلمانوں کی طرف سے ہوتا آیا ہے،مگر یہ چیز سیاستدانوں کو اور نفرتی ٹولوں کو کھٹکتی ہےاور بری لگتی ہے،اس وقت کوشش اس بات کی ہورہی ہے کہ اس بھائی چارہ کی فضا کو ختم کردی جائے،اس کے لئے مختلف حربے اپنائے جارہے ہیں، اب تو ان جگہوں کا بھی رخ کیا جانے لگا ہے جہاں خالص انسانی بنیاد پر خدمت کی جاتی ہے اور کبھی کسی کے مذہب کو پوچھ کر اس کا تعاون نہیں کیا جاتاہے، تازہ واقعہ ممبئی کے ٹاٹا ہسپتال کا ہے،مہاراشٹر میں اس وقت اسمبلی الیکشن بھی ہورہا ہے،کچھ لوگوں نے مفت کھانا تقسیم کرنے کے نام پر وہاں جاکر ہندو مسلمان کرنے کی کوشش کی ہے، تاکہ اس کا ردعمل سامنے آئے اور اس کے ذریعہ نفرت پھیلائی جاسکے، بحمداللہ اس کا ردعمل مسلم بھائیوں کے ذریعہ اتنا خوبصورت آگیا ہے کہ نفرتی ٹولے کو منھ کی کھانی پڑی ہے اور ناکامی ہاتھ لگی ہے، ملک ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں بھارت کے مسلمانوں کی انسانیت نوازی کی مثال دی جانے لگی ہے۔یہاں پر ایک مسلمان کی مجبوری بھی ہے کہ وہ ردعمل میں وہ کام نہیں کرسکتا ہے جو کام غیروں کے ذریعہ انجام دیا گیا ہے، مفت کھانا تقسیم کرتے وقت اگر اس کے سامنے کوئی غیر مذہب کا آدمی آتا ہے تو وہ اسے منع نہیں کرسکتا ہے، اس کا مذہب اس بات کی اجازت نہیں دیتا ہے ،اور نہ بدلہ وانتقام میں ایسا کرنے کی اسے اجازت دی گئی ہے، ارشاد ربانی ہے؛
" اور کسی قوم کی عداوت تم کو اس پر امادہ نہ کرے کہ تم عدل اور انصاف نہ کرو ،عدل اور انصاف ہر حال میں کروکہ یہ بات تقوی کے قریب ہے"۔(مائدہ )
 اس ایت کے اندر اس بات کا حکم دیا گیا ہے کہ کسی حال میں بھی ایک انسان کے ساتھ حق تلفی کی گنجائش نہیں ہے۔اس لئے کہ وہ تمہارا بھائی ہے۔مذہب اس کا الگ ہےمگر وہ تم سے الگ نہیں ہے،وہ ایک انسان ہے، بحیثیت انسان ایک مسلمان پر بھی اس کا حق ہےکہ جب وہ اس کے ساتھ معاملہ کرے تو انصاف کے تقاضے کو پورا کرے۔خدا کا شکر ہے کہ عملی طور پر ہمارے بھائیوں نے اسے اپنایاھی ہے،اوراسلام کی اشاعت میں اس پہلو کا بڑا دخل بھی رہا ہے۔
                    آدمی کا آدمی ہر حال میں ہمدرد ہو
              ایک توجہ چاہئے انساں کو انساں کی طرف
مذہب اسلام کی واضح تعلیم یہ ہے کہ مسلمان ہونے کے لئے انسانی ہمدردی ضروری ہے، یہی چیز خدا کی رحمت کا حقدار بناتی ہے، جو ایسا نہیں کرے گا وہ رحمت خداوندی سے دور ہوجائے گا۔آج اپنے وطن عزیز کی دنیا بھر میں عجیب وغریب تصویر جارہی ہے، موب لنچنگ کی ایک نئی اصطلاح حالیہ کچھ سالوں سے وجود میں آئی ہے، انسان اس کے ذریعہ اپنی درندگی کا اظہار کرنے لگا ہے،بھیڑ کے ذریعہ بے دردی سے ایک انسان کو ماراجاتا ہے، اسلام میں اسے انسانیت کا قتل قرار دیا گیا ہے، ایک صاحب ایمان کبھی اس کا تصور نہیں کرسکتا ہے، اس لئے کہ وہ اس بات کو سمجھنا ہے کہ ایک آدمی کے اندر انسانیت نہیں ہے تووہ آدمی کہلانے لائق نہیں ہے تو پھر وہ مسلمان کیسے ہوسکتا ہے؟
              سمجھے گا آدمی کو وہاں کون آدمی 
               بندہ جہاں خدا کو خدا مانتا نہیں 

   مفتی ہمایوں اقبال ندوی
جنرل سیکرٹری تنظیم أبناء ندوہ پورنیہ کمشنری
۱۴/نومبر ۲۰۲۴ء مطابق ۱۱/جمادی الاولی۱۴۴۶ ھ

بدھ, نومبر 13, 2024

******غز ل ******* # انس مسرورانصاری

******غز ل *******
Urduduniyanews72 
         # انس مسرورانصاری

 ہم کلنڈ رسہی  گز ر ے ہو ئے سا لو ں کی طر ح  
یا د کر تے ہیں مگر  لو گ  حو ا لو ں  کی  طر ح
 
میر ی  تنہا ئی  کے  شا نو ں   پہ  ہے  مہکا  مہک
رات کا ر یشمی آ نچل تر  ے  با لو ں  کی  طر ح

حو صلے  ہا ر کے بھی  ہنستے ر ہے،  جیتے   ر ہے
ز ند گی  ہم  نے گز ا ر ی  ہے جیا لو ں کی طر ح

ہم  محبت  سے   محبت   کا  صلہ   د  یتے   ہیں
کو ئی چا ہے تو ہمیں چا ہنے و ا لو ں کی طر ح

یا  د  آ تی  ہے  تر  ی  جیسے    پجا ر ن   کو ئی
گھنٹیاں بجتی ہیں یوں دل میں شوالوں کیطرح

ا پنی ا و لا د  کو  شا عر  نے   و ر ا ثت   بخشی
کچھ کتابیں کئی جیز یں ہیں رسالو ں کی طرح

یو ں بہا ر آ ئی  کہ جیسے   ہو   سہیلی    تیر ی
پھو ل گلشن میں کھلےہیں ترےگالو ں کی طر ح
 
مہر با ں  ہو کے ذ را  د ستِ   حنا ئی  کو   بڑ ھا
ز ند گی ہے مر ی ا لجھےہو ئے با لو ں  کی طر ح

میں نے د ن  بھر کی مشقت  کا  صلہ   پا یا  ہے
چند سکےہیں ہتھلی پہ جو چھا لو ں کی طر ح

ا پنےہا تھو ں کی لکیر و ں میں سجا کر پڑ ھئے
ہم ہیں اخبا رکی صورت نہ رسا لو ں کی طر ح

شام کے سرمئی ہا تھوں میں ہیں گلہا ئے  شفق
نرم ز لفو ں میں د ہکتے ہو ئےگا لو ں کی طر ح

و قت نے جسم کو ز خمو ں کی قبا ئیں بخشیں
پھرہمیں کا نٹو ں پہ کیھنچاگیاشالوں کی طرح

کیسا غم  ٹو ٹ  پڑ ا  ہے  یہ  خد ا   ہی   جا نے
د ل سے آواز بھی ا ٹھتی ہےتونا لوں کی طر ح

ا س کےدا من  پہ کئی داغ ہیں کچھ د ھبے ہیں
پیش کر تے ہیں جسے لو گ  مثا لو ں کی طر ح

ز ند گی یو ں تو بہت خو ب  ہے  لیکن  مسرور
میرےخوابوں کی طر ح ہےنہ خیالوں کی طر ح

                             # انس مسرورانصاری
              قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن (انڈیا) 
                     رابطہ/9453347784/
              ********************************

آفاقیت کا نور : انور آفاقی ۔احمد اشفاق ۔ دوحہ قطر۔

آفاقیت کا نور : انور آفاقی ۔
احمد اشفاق ۔ دوحہ قطر۔ 
Urduduniyanews72 
تو جوہری ہے تو زیبا نہیں تجھے یہ گریز 
مجھے پرکھ مری شہرت کا انتظار نہ کر

حفیظ میرٹھی کا مندرجہ بالا شعر انور آفاقی کے لیے موزوں معلوم پڑتا ہے جو بہ یک وقت شاعر ، افسانہ نگار ، مبصر ، ناقد و محقق ہیں ۔ 
یوں تو انور آفاقی نے شعر گوئی کی ابتدا زمانہ طالب علمی میں ہی کی مگر خلیجی ممالک (سعودی عرب قطر اور متحدہ عرب امارات) میں ان کا فن پوری طرح نکھر کر سامنے آیا۔ دورانِ ملازمت انہوں نے اتنی مہلت ہی نہیں پائی کہ کوئی کتاب ترتیب دے سکیں ہاں ملازمت کے آخری ایام میں وطن واپسی سے قبل انہوں نے اپنا پہلا شعری مجموعہ "لمسوں کی خوشبو " 2011 میں شائع کروایا جس کی تقریب اجرا اپنے وطن دربھنگہ میں ہی کروائی ۔ اتفاق سے راقم الحروف بھی اس میں شریک تھا ۔ 
کچھ ہی عرصہ بعد یہ مستقل وطن آگئے اور پھر گیسو ادب سنوارنے میں مصروف ہو گئے ۔طبیعت تو موزوں  تھی ہی اور عصری ادب پر بھی گہری نگاہ تھی مگر غمِ روزگار نے قلم و قرطاس سے گہرا ربط ہونے نہ دیا۔ ہاں جیسے ہی مہلت ملی ان کا قلم مائل بہ سفر ہوا۔ پھر کیا تھا کہ وطن میں قیام کے دوران غزلیں لکھیں، افسانے لکھے ، سفرنامے لکھے ، تاثراتی مضامین کے ساتھ  تنقیدی و تحقیقی مضامین لکھے ۔ سینئر ، ہم عصر  اور جونیئرس سے انٹرویو لئے اور ان تمام کو کتابی شکل دی جس کی علمی و ادبی حلقے میں کافی پذیرائی ہوئی اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔
یوں تو انہوں نے اپنی تمام کتابوں کے موضوعات کا بہت ہی دیانتداری سے بھرپور احاطہ کیا ہے لیکن ان کے ادبی انٹرویو بطور خاص قابل ذکر ہیں جس میں انہوں نے جن شخصیات کا انتخاب کیا ہے ان کی ادبی حیثیت مسلم ہے مگر بطور خاص ذاتیات پر گفتگو کر کے ان کی زندگی کے مختلف گوشوں پر روشنی ڈالی ہے اور آنے والی نسلوں کے لیے تحقیق کا کام آسان کر دیا ہے ۔ انٹرویو میں نہ صرف صاحب مکالمہ سے ان کے تعلق سے باتیں کی گئی ہیں بلکہ اپنے ہم عصروں اور پیش روؤں کے فن پر بھی سیر حاصل گفتگو کر کے اپنی علمی و ادبی صلاحیت کا ثبوت فراہم کیا ہے جو ہمارے لیے مشعل راہ ہے اور جس سےفکر و فن کے نئے دریچے وا ہوتے ہیں  ساتھ ہی ادبی منظر نامے کو سمجھنے میں ممد و معاون بھی ۔ کسی ازم اور گروہ بندی سے پرے پر خلوص جذبے سے انہوں نے تاثراتی مضامین بھی لکھے ہیں اور تنقیدی رائے بھی دی ہے ۔ فی زمانہ شجرہ نسب کی ترتیب کے تعلق سے دلچسپی کا فقدان ہے لیکن موصوف نے نہ صرف اپنے خاندان اور رشتہ داروں کا شجرہ نسب بڑی عرق ریزی سے ترتیب دیا ہے بلکہ شعرا و ادباء کے تعلق سے ان کے خاندانی پس منظر اور اشعار کی تحقیق بھی کی ہے جو واقعی کارِ محال ہے ۔
دوحہ قطر، جِسے خلیج میں اردو کی راجدھانی کہا جاتا ہے ، میں انور آفاقی کا قیام پانچ برسوں تک رہا۔ وہ جب تک یہاں رہے خلیج کی قدیم ترین اردو ادبی تنظیم " بزمِ اردو قطر" جس کا قیام 1959 میں ہوا تھا سے منسلک رہے ۔ اُن دِنوں شعری و ادبی محفلوں میں پیش پیش رہنے والوں میں برخیا بو ترابی ، بشیر صحرائی ، صبا شیخانی ، قاضی فراز احمد ، شمیم حیدر جونپوری ، رشید نیاز اور محمد ممتاز راشد وغیرہ تھے۔ محمد ممتاز راشد کے وطن واپسی کے بعد گذشتہ دس برسوں سے  بزم اردو قطر کے معتمد عمومی کی ذمہ داری مجھ ناتواں کے کندھوں پر ہے جسے نبھانےکی کوشش تا حال جاری ہے۔
قطر میں پانچ سالہ قیام کے دوران انور آفاقی نے کئی بڑے مشاعروں میں شرکت کی اور ریڈیو قطر کے اردو پروگرام میں بھی حصہ لیا ۔ بزم اردو قطر کے سلور جوبلی مشاعرے میں جس کی صدارت مرحوم محسن
نقوی نے کی تھی،  کے انتظام و انصرام میں وہ پیش پیش رہے۔ 
 متحدہ  عرب امارات میں قیام کے دوران انہوں نے متعدد مشاعروں میں شرکت کی اور اردو کے معتبر  شعرا سے ان کو ملاقات کا شرف حاصل ہوا  مثلا،
 احمد ندیم قاسمی،  قتیل شفائی ، دلاور فگار ،خمار بارہ بنکوی ، مجروح سلطان پوری ، کیفی اعظمی ، کنور مہندر سنگھ بیدی سحر ، راغب مراد آبادی، نور جہاں ثروت ، ممتاز میرزا ، ریحانہ روحی ، حنا تیموری ، ساغر خیامی ،  انور شعور ، خواہ مخواہ حیدرآبادی ، جون ایلیا ، پروفیسر جگن ناتھ آزاد ، محشر بدایونی ، احمد فراز ، پیر زادہ قاسم ، کیف عظیم آبادی ، حفیظ بنارسی ، جمیل نظامی ، والی آسی ، رئیس رامپوری ، گنیش بہاری طرز ، بشیر بدر ، معراج فیض آبادی ، وسیم بریلوی ، ملک زادہ منظور احمد ، انور جلال پوری،  محسن بھوپالی ، امجد اسلام امجد  ، جاوید اختر ، ندا فاضلی،  جلیس شیروانی ،  حکیم ناصر ، مرتضے برلاس ، حمایت علی شاعر ، بلراج کومل ، عرفان صدیقی ، جازب قریشی ، عالمتاب تشنہ، سرفراز ابد ، شہزاد احمد ، سلیم کوثر ، جوگا سنگھ انور ، اظہر عنایتی ، نواز دیوبندی  وغیرہ ۔ ان میں بیشتر شعراء سے ملاقات اور کچھ کو صرف دیکھ اور سن سکے۔
          میری دلچسپی چونکہ شعر گوئی میں ہے لہذا آئیے انور آفاقی کے شعری جہان پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالتے ہیں ۔ اردو زبان نے غزل کو اپنی اصل صنعت محبوبیت میں بڑی شان و شوکت اور وقار کے ساتھ محفوظ رکھا ۔ اس کے دامن میں دنیا کے تمام موضوعات کو بڑے دل کش و دل آویز انداز میں سجا کر پیش کرنے کا ہنر بھی عطا کیا جس سے غزل ہم رنگ اور اس کی تاثیر دو آتشہ ہو گئی ۔ اگر قدرتی طور پر ذہن ہم آہنگ ہے تو قافیہ پیمائی اور غزل گوئی زیادہ مشکل نہیں لیکن مطالعہ ، مشاہدہ اور جذبات و احساسات غزل کے سپرد کر دینا نہایت ہی مشکل کام ہے ۔  میں انور آفاقی کی شاعری کے مطالعے کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ ان کے پاس موضوعات بھی ہیں اور مضامین بھی ۔ ساتھ ہی وہ اپنے مطالعہ اور مشاہدہ کو غزل کا حسین پیرایا عطا کرنے کے ہنر سے بھی بخوبی واقف ہیں ۔ اور اس کا انہیں اندازہ بھی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ فرماتے ہیں 
کہ؂

حرف و آواز کو پتھر نہ کہوں گا لیکن 
اپنے افکار کو میں گردِ سفر لکھوں گا 

میں آگیا ہوں پھر نئے لوگوں کی بھیڑ میں
 تنہائیوں  کا  بوجھ   اٹھایا   نہ  جائے  ہے

 ذہن کی تاریکیاں مٹ جائیں گی 
شمعِ  فکر  و  فن   جلاتے  جائیے

انور آفاقی کا لہجہ سادہ و سلیس ہے شستہ رواں دواں اور پر کیف و پرکشش ہے ۔ انہوں نے زندگی کے اعلی مقاصد اور بلند نصب العین کو محبوب کے پیکر میں مختلف زاویوں سے شاعری کے رنگ و آہنگ میں اس طرح ڈھالا ہے کہ ہر رنگ میں ایک تازگی ، شستگی اور
دل آویزی پیدا ہو گئی ہے ۔ ان کی شاعری صرف خوابوں کی دنیا کی سیر ہی نہیں بلکہ شعر و نغمہ کی  کیفیتوں سے سر شاری بھی ہے۔ مگر چونکہ سارے عالم کی زبانوں کا خمیر اس کا رومان ہے لہذا الفت و محبت آرزوئے وصل ، اندیشہءِ فراق ، حسرت دید ، اظہار  اقرار اور انکار ، حسن کی جلوہ آرائی اور محبوبیت ، عشق کی بینائی ، حسن کا استغنا جو غزل کے اجزائے ترکیبی ہیں وہ ان کی شاعری میں بدرجہ اتم موجود ہیں ۔ مثال کے طور پر چند اشعار ملاحظہ کریں؂
میں اپنی  زیست  کے  معیار  کو  بدل دوں  گا 
تمہاری مانگ میں سرخی شفق کی بھر دوں گا

ہے لہجہ پھول باتیں جس کی کلیاں
وہ خوشبو  بن کے ہر سو چھا گیا ہے 

جب  تمہارا  نہیں انور   سے تعلق  کچھ  بھی 
بن کے بادل مرے احساس پہ  چھاتے کیوں ہو

انور آفاقی کی شاعری میں روایت کی  پاسداری بھی ہے اور اردو شاعری پر بدلتے ہوئے رجحانات کی بازگشت بھی ۔ ان کی شاعری میں فلسفیانہ خیالات زیادہ نہیں ہیں لیکن بلندیءِ فکر کی دعوت جا بہ جا موجود ہے۔ انہوں نے استعارات اور تشبیہات کے تعلق سے اپنے کلام میں نئی معنویت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے ۔ ؂

اٹا تھا  دھول  میں  وہ  ایسی  رہ گزر  میں تھا 
عجیب شخص تھا جو روز و شب سفر میں تھا 

کبھی جو  پھول کی مانند نرم  و نازک تھا 
اب اس کے ہاتھ میں پتھر دکھائی دیتا ہے

 درد اور ٹیس سے مر جاتے ہیں کیسے کچھ لوگ 
میں  نے  زخموں کے سمندر  میں سکوں پایا ہے

انور آفاقی کی شاعری احساس کی جس سطح کی ترجمانی مختلف زاویوں سے کرتی ہے اسے ہم روایتی اور جدید غزل کے درمیان ایک پل کا نام دے سکتے ہیں ان کی شاعری اور لہجے میں بڑا ربط ہے اور یہ لہجہ واقعی جدید غزل کا ہے۔ ایسا لہجہ کہ جس میں دل کی دھڑکنیں شامل ہیں ان کے لہجے کی مانوس اپنائیت غزل کو بہ یک وقت سوز و ساز بھی عطا کرتی ہے اور شاعری کو " گویا یہ بھی میرے دل میں ہے" کا امین بھی بناتی ہے ۔ ان کی شاعری حیات انسانی اور اس کی بو قلمونیوں کا ہر طرح سے احاطہ کرتی نظر اتی ہے ۔ انہوں نے حسن و عشق کی نفسیات کو ذاتی تجربات کی روشنی میں پڑھنے کی کوشش کی ہے۔ تجربوں کے بیان میں پاکیزگی معصومیت اور خود سپردگی نظر اتی ہے۔ ان کے طرز و فکر کا مخصوص انداز اور آہنگ انہیں ان کے ہم عصروں میں امتیاز عطا کرتا ہے۔ انہوں نے گھسے پٹے الفاظ و تراکیب سے پرہیز کرتے ہوئے اپنے کلام کی انفرادیت برقرار رکھی ہے ۔ ان کی غزلیں مختلف رنگ کی ہیں ۔ انہوں نے اپنی غزلوں میں نوع بہ نوع موضوعات کو بڑی خوبصورتی اور فنکاری سے برتا ہے ۔ ملاحظہ فرمائیں چند اشعار ؂

وہیں شعلوں میں سمٹ آئے گی شبنم کی نمی
 میں قلم  سے جہاں اک  لفظِ  شجر  لکھوں گا 

کسی نے بخش دیا جب کمالِ خوش نظری
 رہا  نہ  فرق  گداؤں میں  بادشاہوں  میں 

سنا ہے  اس کو  اچانک  نگل گئیں  سڑکیں
جو سب سے آگے ہمیشہ سفر میں رہتا تھا

انور افاقی کی شاعری وسیع کینوس پر پھیلی ہوئی ہے جس میں خارجی اور داخلی زندگی کی کشمکش ، گم شدہ تہذیب کی بازیافت ، حیات کے پیچیدہ مسائل ، زندگی سے محرومی و ناکامی اور جینے کی امنگوں کے برعکس بیگانگی و محرومی کا عکس صاف دکھائی دیتا ہے ۔ انہوں نے غزل کی تہذیب کو اپنی شاعری میں اچھی طرح جذب کیا ہے ۔ جہاں کلاسیکیت کے ساتھ نئے تجربے بھی ہیں اور جدید انداز بیان بھی۔ انہوں نے موضوعات کو الگ ڈھنگ سے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے لب و لہجے میں نیا انداز نئی تشبیہات خوبصورت کنایات عمدہ خیالات تصور و تخیل کی گہرائی اور معاملات حسن کی صحیح عکاسی ہے۔
گزشتہ چند برسوں میں بہار کے شعری وادی منظر نامہ پر انور آفاقی نے اپنی بے پناہ شعری و ادبی صلاحیتوں کی بنیاد پر اپنی شناخت قائم کی ہے اور اس جذبے کا اظہار کیا ہے کہ ؂
 کل تو  میں دور بہت  دور چلا جاؤں گا
 آج موجود ہوں آنکھوں پہ بٹھا لو یارو

 آخر میں ان کی بہتر صحت کے لیے دعا گو ہوں اور چاہتا ہوں کہ دنیائے ادب میں ان کا نام روز روشن کی طرح منور ہو اور ادب کا جوہری اپنے ہیرے کی تلاش میں کامیاب ہو۔

منگل, نومبر 12, 2024

نومبر ،یوم پیدائش، آئی سی، سی آر کی جانب سے مولانا آزاد کے مزار واقع جامع مسجد دلی پرگل پوشی اور فاتحہ خوانی ھوئی، مفتی عطاءالر حمن قاسمی دعا کراتے ھوئے اور بنے بہرا وغیرہ دیکھے

---------------------------

نومبر ،یوم پیدائش، آئی سی، سی آر کی جانب سے مولانا آزاد کے مزار واقع جامع مسجد دلی پرگل پوشی اور فاتحہ خوانی ھوئی، مفتی عطاءالر حمن قاسمی دعا کراتے ھوئے اور بنے بہرا وغیرہ دیکھے جاسکتے ھیں
Urduduniyanews72 
مولانا آزاد اپنے عہد کے نامور عالم دین،مفسر قر آن ، محدث، فقیہ، متکلم، صحافی،ادیب ،انشاء پرداز ۔مجاھد آزادی، اور ھندوستان کے اولین وزیر تعلیم تھے، اب تو مولانا آزاد کے خیالات ونظریات کے قائل ومعترف پڑوسی ملک کے دانشور ورھنما بھی ھونے لگے ھیں اور انکی کی گئی سیاسی پیشنگوئیاں من وعن صادق آرہی ھیں،ان خیالات کا اظہار مولانا مفتی عطاءالر حمن قاسمی نائب صدر آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت اور صدر مولانا آزاد اکیڈمی نئی دھلی نے اخبار کے نمائندوں سے کیا اور مفتی صاحب نے مزید کہاکہ مولانا آزاد ازاول تا آخر دوقومی نظریہ اور تقسیم ملک کے مخالف رھے ھیں جبکہ انکے سیاسی رفقاء کار بتدریج آخری وائسرائے باون بٹن کے ھلاکت خیز فارمولہ کے فریب میں آچکے تھے،

مولانا آزاد تقسیم ملک کے ناقابل بیان اور ناقابل برداشت صدمے کے باوجود آراذ ھندوستان کی تعمیر وترقی میں ھمہ تن مصروف ھوگئےتھے اور انہوں ہی کے دور میں ان کے ہاتھوں وہ سارے کے سارے تعلیمی، تحقیقی، ثقافتی، (کلچرل)سائنسی، بین الاقوامی روابط کے ادارے اورادب، آرٹ و کلا اور فنون لطیفہ سے متعلق قائم ھوئے تھے جبکہ ھند وستان ابھی ابھی انگریزوں کی لوٹ کھسوٹ سے آزادھواتھا اورغریب ملک تھالیکن مولانا آزاد کا دماغ بڑا ذرخیر اور ثمرآور تھا، آزادی وطن کے ۷۵ سال بیت جانے کے باوجود ان میں ھم کوئی خاص اضافہ نہ کرسکے ھیں

Issued by Maulana Azad Academy, New Delhi 
attached photograph.

Regards, 
Maulana Mufti Ataur Rahman Qasmi
Maulana Azad Academy
New Delhi 
M-9891006857

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...