Powered By Blogger

جمعرات, جنوری 16, 2025

(د ر صنعتِ غیر منقوطہ) * انس مسرورانصاری

*****نعتِ پاک ﷺ******
                   (د ر صنعتِ غیر منقوطہ) 
Urduduniyanews72 
           * انس مسرورانصاری

ا ما مِ ر سو لا ں محمد محمد ﷺ
د وعا لم کےسلطاں محمد محمد ﷺ

ہم عا صی کو ا ن کا سہا ر ملے گا
سرِ طو رِ ا مکا ں محمد محمد ﷺ

د و ا ئے د ل و ر و ح ا سمِ گر ا می 
ہراک دکھ کا درماں محمد محمد ﷺ

سرِ کو ہِ مک٘ہ صد ا لا ا لہٰ کی 
ملا ئک کا ا علا ں محمد محمد ﷺ

وہ محمو د وحامد وہ کامل وہ ا کمل
د عا ئے ر سو لا ں محمد محمد ﷺ

وہ طا ہر وہ ا طہر،کل ا مٌہ کے محور
ہر ا ک دل کے ارماں محمد محمد ﷺ

دعا ؤ ں کے سا ئے ملےحا سد و ں کو
سلو ک اور ا حسا ں محمد محمد ﷺ

ہم ا س کو ئے آ رامِ جا ں کے گد ا گر
وہ ا سعا د و سلطاں محمدمحمد ﷺ

کہا ں کو ئی ہمسر ا ما م ا لرسل کا
و ہ ﷲ کے مہما ں محمد محمد ﷺ

مد ر س، معلم، مد ا ر س ہد یٰ کے
وہ ہا د یِ د و ر ا ں محمد محمد ﷺ

ا س آ ر ا م گا ہِ معلٰی کے و ا ر ی 
کہ آ ر ا م سا ما ں محمد محمد ﷺ

ہم ا س کے ، ہما ر ا مکا ر م و ہ مولٰی
مسلما ں مسلما ں ، محمد محمد ﷺ

ہما ر ے لیے آ مدِ ا سعد ی ہے
وہ گرد و ں کےمہماں محمدمحمد ﷺ

مر ے کملی و ا لے مکرٌ م ! عطا ہو
کہ آ سی ہے دا ما ں محمد محمد ﷺ

کر م ہو مکرٌ م کہ ہو ں د و ر سا رے
مرے د ر د و حرما ں محمد محمد ﷺ

و ہ ا حر ا رِ محکم، و ہ ا سر ا رمحرم 
کہا ں و ہ مسلما ں، محمد محمد ﷺ

ہما رے لیے ر و ح و د ل کا سکو ں ہے
د مِ مد ح و ا لحا ں، محمد محمد ﷺ

وہ ہا د ی و ہ ا کرم،وہ اعلیٰ وہ محرم
مطا ع ا و ر ا حسا ں محمد محمد ﷺ

رسو لو ں کے سر د ا ر، و ا لی ہما رے
ملا ئک کے سلطا ں محمد محمد ﷺ

محمد ﷺ کا د ر ہمسرِ آ سما ں ہے
گد ا گر ہے سلطا ں۔ محمد محمد ﷺ

د رِ کو ئے طا ہر ہو ا و ر سر ہما ر ا
ہوں ا کر م و ا حسا ں،محمد محمد ﷺ

و ر و دِ محمد ﷺ ہے مسعو دِ عا لم
کر و مد حِ سلطا ں، محمد محمد ﷺ

ہم عا صی ا و ر ا س کا کر م ﷲ ﷲ
عطا ا و ر ا حسا ں محمد محمد ﷺ

کلا مِ ا لٰہی کا ا لہا م ا س کو
و ہ ا مٌی و ہ لسٌا ں محمد محمد ﷺ

مر ی ر و ح کی ہے و ہ د رگا ہ محور
مرے د ل کا ا ر ما ں محمد محمد ﷺ

صد ا ئے ہو ﷲ کے و ا سطے سے
مسا ئل ہو ں آ سا ں محمد محمد ﷺ

کرم ا و ر عطا سے ہو ں معمو ر سارے
مرا د و ں کے د ا ما ں محمد محمد ﷺ

درود ا س کودائم،سلام اس کو لاکھوں
و ہ ممد و حِ رحما ں ، محمد محمد ﷺ

سلا م اس کو،ا س کےعساکر کو لاکھوں
ہما ر ے علٓم د ا ں محمد محمد ﷺ

وہ مسر و ر ما حی و ہ مسرور ما و یٰ 
  وہ اسرارِرحماں محمد محمد ﷺ         
                  ﷺﷺ ﷺﷺ ﷺ
                 
     
                ****سلام بحضورخیرالانامﷺ****   
                            (غیرمنقوطہ) 

مہرِ د ر گا ہِ د ا و ر کو لا کھو ں سلام
سارے عا لم کے سرور کو لا کھوں سلام

سر و رِ سر و ر ا ں ، ر ہر وِ لا مکا ں
ا کمل و ا صل ر ہو ر کو لا کھو ں سلام

ا س کے آ گے ملا ئک گد ا گر ہو ئے 
ا س کی د ر گا ہِ احمر کو لا کھوں سلام 

کو ئی ہہمسر ا ما م ا لر سل کا کہا ں 
کل رسو لو ں کے سرور کو لا کھوں سلام

مہکی مہکی ہو ئی لمسِ احمدﷺ سے ہے
ا س ر د ا ئے معطر کو لا کھو ں سلام 

سا ئلو ں کو عطا ملک کے ملک ہو ں
ا س کے د ر کے گد ا گر کو لا کھوں سلام

و ہ محمد و ہ محمود و ا حمد ﷺ ہوئے
محرم سرٌِ د ا و ر کو لا کھو ں سلام

کل مر ا سِم سمو می مٹا ئے گئے
ا س کو،ا س کےعسا کر کو لا کھو ں سلام

لا مکا ں و ا لا و ا رِ د مکا ں سے ہو ا
مطلعِ ما ہِ د ا و ر کو لا کھو ں سلا م

ا س کے د ا د ا و و ا لد کو کا مل د ر و د
ا س کی ہمد رد ما در کو لا کھو ں سلام

ا س کو مسرور ا مٌی کہو ں کس طر ح
عِلم و حکمأء کے محو ر کو لا کھو ں سلام 
                                         *********
    
                    * انس مسرورانصاری
           قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن (انڈیا) 
               وہاٹس ایپ/9453347784/

اداس موسم" - ایک جائزہ

" اداس موسم" - ایک جائزہ 
Urduduniyanews72 
ڈاکٹر محمد شاہنواز عالم 
اسسٹنٹ پروفیسر 
شعبہ اردو، ملت کالج دربھنگہ- 

انوؔر آفاقی اردو کے ان مخلصین میں ہیں جنہوں نے  شاعری کے ساتھ ساتھ تنقید و تحقیق کے حوالے سے بھی قابل ذکر کارنامے انجام دینے ہیں. موصوف کی جو تصنیفات و تالیفات منظر عام پر آ کر مشاہیر ادبا و ناقدین سےداد و تحسین حاصل کر چکی ہیں ان میں 'لمسوں کی خوشبو' (شعری مجموعہ) 'دیرینہ خواب کی تعبیر' (سفر نامہ) پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی سے گفتگو '(انٹرویو)' نئی راہ نئی روشنی '(افسانوی مجموعہ)' دو بدو '(ادبی مکالمہ) اور میزان فکر و فن (مضامین) ان کے جادو بیان قلم کا بین ثبوت ہیں. 

 " اداس موسم " انور آفاقی کا دوسرا شعری مجموعہ ہے ۔ حمد اور نعت کے علاوہ ساٹھ غزلیں، بارہ نظمیں اور قطعات کے علاوہ متفرق اشعار سے مزین اس شعری مجموعہ کو انہوں نے اساتذہ، طلبہ و طالبات اور قارئین کے نام منسوب کیا ہے ۔ ان کا یہ انتساب صرف انتساب ہی نہیں ہے بلکہ اردو زبان سے ان کی والہانہ محبت ہے ساتھ ہی اس کے بین السطور میں اردو زبان کے تعلق سے ایک دعوتِ غور فکر بھی ہے ۔ پیش لفظ کے طور پر"اپنی بات " کے عنوان سے انہوں نے اپنے ادبی سفر کو اختصار لیکن جامعیت کے ساتھ پیش کیا ہے ۔ جو ان کے ادبی ذوق و شوق کی روداد ہے ۔ اندرونی فلیپ پر کامران غنی صبؔا اور احمد اشفاق نے شاعر کی انفرادیت کے متعلق اظہار خیال کیا ہے۔ جبکہ کور پیج پر عہد حاضر کے معتبر ناقد حقانی القاسمی نے انور آفاقی کے لہجے کی انفرادیت اور موضوعات و مضامین کے انوکھے پن کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے ان کی شاعری میں نصب العنیت کو ان کی شاعری کا وصف قرار دیا ہے۔
بنیادی طور پر"اداس موسم" عصری زندگی کے معاملات و مسائل سے رونما ہونے والی کیفیات کا شعری اظہار ہے ۔ انور آفاقی کا کمال فن یہ ہے کہ وہ برجستگی کے ساتھ صاف ستھری زبان میں عام فہم اور سہل انداز میں بڑی سے بڑی بات کہہ جاتے ہیں ۔ موضوع کے تعلق سے میرا ماننا ہے کہ حیات و موت کے درمیان زندگی جس نشیب و فراز سے گزرتی ہے ان میں بیشتر ہمیشہ سے موجود رہے ہیں اور ہمیشہ موجود رہیں گے ۔ لیکن جو چیز ایک فنکار کو دوسرے فنکار سے ممیز کرتی ہے وہ دراصل موضوع نہیں بلکہ موضوع کو بیان کرنے کا فنکارانہ شعور ہوتا ہے ۔ اس اعتبار سے انور آفاقی کے یہاں جدت دکھائی دیتی ہے۔ مثلاً شہری زندگی کی بےجہت رفتار اور ماحول کے بے سمت کردار کے نتیجے میں  بےچین و مضطرب کردینے والی کیفیت اردو شاعری کا اہم موضوع رہا ہے ۔ بھیڑ میں رہ کر بھی تنہائی کا احساس کوئی اچھوتا موضوع نہیں ہے۔ لیکن شامِ تنہائی کے خدشے سے پریشان اور مضطرب انورآفاقی جب جگنوؤں کو اپنے ساتھ چلنے کی گزارش کرتے ہیں تو بے بسی اور بے چینی کا سارا منظردل و دماغ پر نقش ہو جاتا ہے ۔

جگنوؤں آؤ میرے ساتھ چلو 
شامِ  تنہائی نے  پکارا  ہے

تمھارے شہر سے پھر نامراد لوٹا ہوں 
نہ در کھلا نہ ہی کھڑکی، نہ ہی صدا آئی 

ترقی کے تمام تر دعوؤں کے بیچ شہروں کی چکاچوندھ زندگی کا جو کرب ہے اس کا مشاہدہ انور آفاقی نے قریب سے کیا ہے ۔ لہٰذا شہروں کی گھٹن بھری زندگی ان کی شاعری کا ایک خاص موضوع رہا ہے ۔ انہیں شدت سے اس کا احساس ہے کہ شہروں میں مادیت پرستی غالب ہے اور اس کا زہر ہر فرد کے اندر سرایت کر چکا ہے ۔ انسانی دردمندی اور ہمدردی کی تتلی چمنیوں سے اٹھنے والی زہیر آلود دھوئیں کے نرغے میں نیم مردہ ہو چکی ہے ۔ اپنائیت ختم ہو رہی ہے اور اجنبیت اپنے تمام مکروہات کے ساتھ انسانی رشتوں کو پسپا کرنے پر آمادہ ہے ۔ وہ اس طرح کی زندگی سے بیزار ہیں ۔ لہٰذا وہ  سکون کی تلاش میں گاؤں کا رخ کرتے ہیں ۔ 

مرے بھائی چلو چلتے ہیں گاؤں 
یہاں تم  تو   بدلتے جا  رہے  ہو 

گاؤں  سے ہیں جڑی مری یادیں 
مجھ کو گاؤں میں یار جانا ہے 

ہمارے گاؤں میں پیپل کی چھاؤں کافی ہے 
تمہارے شہر میں  ہوٹل  ستارا، ہے تو ہے 

ادھر چند برسوں میں سماجی اور  سیاسی حالات نے افراد پر بڑے گہرے اثرات چھوڑے ہیں . رواداری ، وسیع المشربی اور آپسی بھائی چارگی کو ذات پات اور مذہب کے بیجا استعمال نے گہن لگا دیا ہے. ایسے میں ہر فرد کے اندر ایک عجیب بےبسی ہے ۔ انسان کی یہ بے بسی شاعر کو مضطرب اور بے چین کرتی ہے اور اس کا اظہار اس انداز میں کرتا ہے. 

آگ ایسی لگائی اندھوں نے 
جل رہا ہے گلاب لکھتا جا 

ہمارے دور میں فرعون پھر ہوا پیدا 
ہمارا دور بھی ضربِ کلیم مانگتا ہے 

ہوا اب  سنسناتی  پھر رہی ہے ہر طرف  انوؔر 
چراغ اپنے سنبھالو، یہ چراغوں کو بجھاتی ہے 

عشق و محبت شاعروں کا پسندیدہ موضوع رہا ہے. اور اس موضوع کو غزل گو شعرا کے یہاں" پیدائشی حق" کے طور پر نئے رنگ و آہنگ کے ساتھ پیش کرنے کی روایت رہی ہے ۔ انور آفاقی نے بھی اس روایت کی پاسداری کی ہے ۔ ان کے کلام میں محبوب کا تصور اور اس سے عشق کی پھوٹنے والی کونپلیں  پڑھنے والے کو جمالیاتی انبساط عطا کرتی ہیں ۔ چونکہ وہ صورتاً اور سیرتاً پارسا ہیں لہٰذا ان کے اشعار میں سطحیت اور آوارگی نہیں ہے ۔

میں گھرا ہوں اداس موسم میں 
تم  جو آ جاؤ  تو   بہار   آئے 

بات ہی بات میں یوں ہم کو رلاتے کیوں ہو 
جب سبب ہی نہیں کوئی تو ستاتے کیوں ہو 

عشق ہی راستہ ہے منزل کا 
دوسرا   راستہ   نہیں   ہوتا 

یہ کس مقام  پہ  دل  نے  مجھے  ہے  پہنچایا 
جدھر بھی دیکھوں فقط تو ہی روبرو ہے ابھی

تجھ سے ملنے کی آس میں اے چاند 
چھت  پہ  اکثر  میں رات  کرتا  ہوں 

انور آفاقی بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں. لیکن  نظم "جلتی ہوائیں" ، "خدشہ "، "غلیل کی زد پہ "اور "کرب تنہائی " میں تخلیقی فکر کی آنچ بھی گرویدہ بناتی ہے۔ مجموعی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ انور آفاقی نے فکر و خیال کی زرخیزی اور تخیل کی بلند پروازی سے  شاعری کو جو اعتبار بخشا ہے وہ ان کو اردو ادب میں زندہ رکھے گا ۔ اس شعری مجموعہ کو منظر عام پر لانے کے لئے انہیں ہم دلی مبارکباد دیتے ہیں ۔ امید ہے کہ اردو کے ادبی حلقوں میں "اداس موسم " کی خاطرخواہ پزیرائی ہوگی ۔

*****************************

بدھ, جنوری 15, 2025

*نعتِ پاک ﷺ*

******نعتِ پاک ﷺ******
                   (د ر صنعتِ غیر منقوطہ) 

           * انس مسرورانصاری

ا ما مِ ر سو لا ں محمد محمد ﷺ
د وعا لم کےسلطاں محمد محمد ﷺ

ہم عا صی کو ا ن کا سہا ر ملے گا
سرِ طو رِ ا مکا ں محمد محمد ﷺ

د و ا ئے د ل و ر و ح ا سمِ گر ا می 
ہراک دکھ کا درماں محمد محمد ﷺ

سرِ کو ہِ مک٘ہ صد ا لا ا لہٰ کی 
ملا ئک کا ا علا ں محمد محمد ﷺ

وہ محمو د وحامد وہ کامل وہ ا کمل
د عا ئے ر سو لا ں محمد محمد ﷺ

وہ طا ہر وہ ا طہر،کل ا مٌہ کے محور
ہر ا ک دل کے ارماں محمد محمد ﷺ

دعا ؤ ں کے سا ئے ملےحا سد و ں کو
سلو ک اور ا حسا ں محمد محمد ﷺ

ہم ا س کو ئے آ رامِ جا ں کے گد ا گر
وہ ا سعا د و سلطاں محمدمحمد ﷺ

کہا ں کو ئی ہمسر ا ما م ا لرسل کا
و ہ ﷲ کے مہما ں محمد محمد ﷺ

مد ر س، معلم، مد ا ر س ہد یٰ کے
وہ ہا د یِ د و ر ا ں محمد محمد ﷺ

ا س آ ر ا م گا ہِ معلٰی کے و ا ر ی 
کہ آ ر ا م سا ما ں محمد محمد ﷺ

ہم ا س کے ، ہما ر ا مکا ر م و ہ مولٰی
مسلما ں مسلما ں ، محمد محمد ﷺ

ہما ر ے لیے آ مدِ ا سعد ی ہے
وہ گرد و ں کےمہماں محمدمحمد ﷺ

مر ے کملی و ا لے مکرٌ م ! عطا ہو
کہ آ سی ہے دا ما ں محمد محمد ﷺ

کر م ہو مکرٌ م کہ ہو ں د و ر سا رے
مرے د ر د و حرما ں محمد محمد ﷺ

و ہ ا حر ا رِ محکم، و ہ ا سر ا رمحرم 
کہا ں و ہ مسلما ں، محمد محمد ﷺ

ہما رے لیے ر و ح و د ل کا سکو ں ہے
د مِ مد ح و ا لحا ں، محمد محمد ﷺ

وہ ہا د ی و ہ ا کرم،وہ اعلیٰ وہ محرم
مطا ع ا و ر ا حسا ں محمد محمد ﷺ

رسو لو ں کے سر د ا ر، و ا لی ہما رے
ملا ئک کے سلطا ں محمد محمد ﷺ

محمد ﷺ کا د ر ہمسرِ آ سما ں ہے
گد ا گر ہے سلطا ں۔ محمد محمد ﷺ

د رِ کو ئے طا ہر ہو ا و ر سر ہما ر ا
ہوں ا کر م و ا حسا ں،محمد محمد ﷺ

و ر و دِ محمد ﷺ ہے مسعو دِ عا لم
کر و مد حِ سلطا ں، محمد محمد ﷺ

ہم عا صی ا و ر ا س کا کر م ﷲ ﷲ
عطا ا و ر ا حسا ں محمد محمد ﷺ

کلا مِ ا لٰہی کا ا لہا م ا س کو
و ہ ا مٌی و ہ لسٌا ں محمد محمد ﷺ

مر ی ر و ح کی ہے و ہ د رگا ہ محور
مرے د ل کا ا ر ما ں محمد محمد ﷺ

صد ا ئے ہو ﷲ کے و ا سطے سے
مسا ئل ہو ں آ سا ں محمد محمد ﷺ

کرم ا و ر عطا سے ہو ں معمو ر سارے
مرا د و ں کے د ا ما ں محمد محمد ﷺ

درود ا س کوبےحد،سلام اس کو لاکھوں
و ہ ممد و حِ رحما ں ، محمد محمد ﷺ

سلا م اس کو،ا س کےعساکر کو لاکھوں
ہما ر ے علٓم د ا ں محمد محمد ﷺ

وہ مسر و ر ما حی و ہ مسرور ما و یٰ 
و ہ د لد ا رِ ر حما ں محمد محمد ﷺ         
                  ﷺﷺ ﷺﷺ ﷺ
                 
     
                ****سلام بحضورخیرالانامﷺ****   
                            (غیرمنقوطہ) 

مہرِ د ر گا ہِ د ا و ر کو لا کھو ں سلام
سارے عا لم کے سرور کو لا کھوں سلام

سر و رِ سر و ر ا ں ، ر ہر وِ لا مکا ں
ا کمل و ا صل ر ہو ر کو لا کھو ں سلام

ا س کے آ گے ملا ئک گد ا گر ہو ئے 
ا س کی د ر گا ہِ احمر کو لا کھوں سلام 

کو ئی ہہمسر ا ما م ا لر سل کا کہا ں 
کل رسو لو ں کے سرور کو لا کھوں سلام

مہکی مہکی ہو ئی لمسِ احمدﷺ سے ہے
ا س ر د ا ئے معطر کو لا کھو ں سلام 

سا ئلو ں کو عطا ملک کے ملک ہو ں
ا س کے د ر کے گد ا گر کو لا کھوں سلام

و ہ محمد و ہ محمود و ا حمد ﷺ ہوئے
محرم سرٌِ د ا و ر کو لا کھو ں سلام

کل مر ا سِم سمو می مٹا ئے گئے
ا س کو،ا س کےعسا کر کو لا کھو ں سلام

لا مکا ں و ا لا و ا رِ د مکا ں سے ہو ا
مطلعِ ما ہِ د ا و ر کو لا کھو ں سلا م

ا س کے د ا د ا و و ا لد کو کا مل د ر و د
ا س کی ہمد رد ما در کو لا کھو ں سلام

ا س کو مسرور ا مٌی کہو ں کس طر ح
عِلم و حکمأء کے محو ر کو لا کھو ں سلام 
                                         *********
    
                    * انس مسرورانصاری
           قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن (انڈیا) 
               وہاٹس ایپ/9453347784/

منگل, جنوری 14, 2025

کامران غنی صباشعبۂ اردو نتیشور کالج، مظفرپور

--
کامران غنی صبا
شعبۂ اردو نتیشور کالج، مظفرپور
Urduduniyanews72 
حضرت واصف علی واصفؒ : تیری الفت نے محبت مری عادت کر دی
(پیدائش: 15 جنوری 1929، وفات 18 جنوری 1993)
حضرت واصف علی واصفؒ میری پسندیدہ شخصیات میں سے ایک ہیں۔ میں نے واصف صاحب کو دیکھا نہیں ہے، صرف ان کی تحریریں پڑھی ہیں، ان کے لکچرسنے ہیں، ان کی محفلوں کے فیض یافتگان کو سنا ہے اور اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ واصف صاحب میں اللہ نے غضب کی تاثیر رکھی ہے۔ان کے چھوٹے چھوٹے اقوال اپنے اندر ایک جہانِ معنی رکھتے ہیں۔ زندگی کے عمومی مسائل جن سے ہر شخص نبردآزما ہے، واصف صاحب ان مسائل کے حل اتنے سادہ اور قابلِ عمل انداز میں پیش کرتے ہیں کہ شاعری کے سہل ممتنع کی طرح ہم یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ اتنا آسان اور قابلِ عمل حل ہمارے ذہن میں از خود کیوں نہیں آ گیا؟
 حضرت واصف علی واصف 15جنوری 1929 کو خوشاب میں پیدا ہوئے۔ 18 جنوری 1993 کو لاہور میں آپ کا وصال ہوا۔ واصف صاحب انگریزی کے استاد تھے۔ آپ نے سول سروس کے امتحان میں نمایاںکامیابی حاصل کی تھی لیکن آپ کی آزادانہ اور قلندرانہ طبیعت نے سرکاری ملازمت کو قابلِ اعتنا نہیں سمجھا۔ ابتداء میں آپ نے پنجابی کالج میں درس و تدریس کے فرائض انجام دئیے بعدمیں "لاہور انگلش کالج" کے نام سے اپنا خود مختار ادارہ قائم کیا۔
واصف صاحب کا اختصاص آپ کی قوت تاثیر ہے۔ میں نے واصف صاحب کو صرف پڑھا ہے اور کسی حد تک انہیں سنا ہے۔ ان کے الفاظ خواہ تحریری صورت میں ہوں یا تقریری، ایسا محسوس ہوتا ہے گویا سماعت میں نہیں سیدھے دل میں اُتر رہے ہوں۔ ان کے وصال کے بعد جب ان کی تحریر و تقریر اس قدر پر تاثیر ہے تو خداہی جانے جن لوگوں نے انھیں براہ راست سنا ہوگا، اُن کی قوتِ تاثیر کا مشاہدہ کیسا ہوگا؟تقریباً 2014 سے میں حضرت واصف علی واصفؒ کو پڑھ رہا ہوں۔ان دس برسوںمیں شایدہی کوئی ایسا دن گزرا ہو جب میں نے واصف صاحب کی کوئی چھوٹی بڑی تحریر نہیں پڑھی ہو۔ ان کے بعض اقوال ذہن و دل میں اس طرح پیوست ہو چکے ہیں کہ کبھی کوئی مسئلہ در پیش ہو تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کے اقوال رہنمائی کے لیے نظروں کے سامنے آ کھڑےہوئے ہوں۔ میں نے واصف صاحب کو نہیں دیکھا ہے لیکن ان کے اقوال و افعال کی روشنی میں ان کی شخصیت کا جو ہیولہ میرے سامنے ابھرتا ہے وہ اقبالؔ کےقلندر سے مشابہ نظر آتا ہے۔ وہی قلندر جو عمل لے لیے راغب کرتاہے۔ جو کہتا ہے کہ ؎
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
واصف صاحب کہتے ہیں کہ علم وہی ہے جو عمل میں آ سکے، ورنہ ایک اضافی بوجھ ہے۔ واصف صاحب عِلم پر عَمل کو ترجیح دیتے ہیں۔ وہ علم و عمل کی ترویج و اشاعت کے لیے محبت کو لازم قرار دیتے ہیں اورہر اُس رویے کو ترک کر نے کی ترغیب دیتے ہیں جو محبت کی راہ میں ہو حائل ہو۔ دنیا میں انسان کی ساری کاوشیں، ساری جدوجہدیں سکون کے حصول کےلیے ہوتی ہیں۔ بسا اوقات انسان کے پاس دولت بھی ہوتی ہے، اسےعزت و شہرت اور مقام و مرتبہ بھی حاصل ہوتا ہے لیکن اس کی زندگی سکون سے خالی ہوتی ہے۔ گھریلو رنجشوں اور گلے شکووں نے ہم سب کے ذہنوں میں اس قدر کدورتیں بھر رکھی ہیں کہ ہماری کوئی محفل گلے شکووں سے خالی نہیں ہوتی۔ حسین مجروح نے کیا ہی سچا شعر کہا ہے ؎
وہ قحطِ مخلصی ہے کہ یاروں کی بزم سے
غیبت نکال دیں تو فقط خامشی بچے
واصف صاحب زندگی کو پرسکون بنانے کے لیےگلہ اور شکوہ ترک کر دینے پر بار بار زور دیتے ہیں ۔ ایک موقع پر وہ کہتے ہیں:
"زندگی سے تقاضا اور گلہ نکال دیا جائے تو سکون پیدا ہو جاتا ہے۔ سکون اللہ کی یاد سے اور انسان کی محبت سے پیدا ہوتا ہے۔ نفرت اضطراب پیدا کرتی ہے۔ اضطراب اندیشے پیدا کرتا ہے اور اندیشہ سکون سے محروم کر دیتا ہے۔ محبت نہ ہو تو سکون نہیں۔"
ایک جگہ اپنے معتقدین کی محفل میں وہ ان سے وعدہ کرواتے ہوئے کہتے ہیں:
"اگر آپ وعدہ کریں کہ کسی انسان کا گلہ نہیں کریں گے تو آپ سے وعدہ ہے کہ آپ کو انسان کے روپ میں رحمان ملے گا، یہ پکی بات ہے کہ اگر انسان کا گلہ نہیں کرو گے تو انسان کے روپ میں راز ملے گا، اگر کبھی گلہ پیدا ہو جائے تو اپنے اللّٰه سے معافی مانگو کہ یا اللّٰه مجھے نیک کر دے اور میرے اندر گلہ نہیں پیدا ہونا چاہئے۔"
اسی محفل میں وہ کیسے پتے کی بات کہتے ہیں:
" آپ صرف اس آدمی کا گلہ کر سکتے ہو جس سے آپ کے خیال میں خدا ناراض ہے اور یہ فیصلہ صرف قیامت کو ہو گا کہ اللّٰه کس سے ناراض ہے۔ لہٰذا قیامت سے پہلے گلہ نہیں کرنا، تو آپ مجھ سے یہ پکا وعدہ کر لو کہ کسی کا گلہ نہیں کریں گے۔"
واصف علی واصف ؒ دوسرے صوفیوںکی طرح ظاہر کی بجائے باطن کی اصلاح پر زور دیتے ہیں۔ البتہ ان کے یہاں اصلاح باطن کے نام پر شریعت سے فرار کی راہ نہیں نکلتی۔ شرعی احکامات پر عمل پیرا ہوئے بغیر سلوک و تصوف کے سبھی مشاغل ان کے یہاں سعی لاحاصل ہیں۔ ایک موقع پر اپنے مریدین کو نماز باجماعت کی تلقین کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں
"بزرگوں کے جتنے بھی آستانے ہیں کوئی آستانہ بھی آپ نے ایسا نہیں دیکھا ہوگا جہاں مسجد نہ ہو۔ہم نے تو کوئی نہیں دیکھا۔آپ نے شائد کوئی دیکھا ہومگر نہیں۔لاہور میں داتا صاحب(رحمۃ اللّٰہ علیہ) کا آستانہ دیکھیں تو مسجد سارےلاہور میں سب سے اچھی ہے۔مسجد شریعت ہےآستانے کو طریقت سمجھ لو۔تو انہوں نے طریقت کو مختصر کیا ہے اور شریعت کو زیادہ کیا ا ہوا ہے۔ہر جگہ ایسا ہے۔میاں میر صاحب(رحمۃ اللّٰہ علیہ) کی مسجد دیکھ لوشاہ جمال(رحمۃ اللّٰہ علیہ) کی مسجد دیکھ لو۔تو یہ لوگ شریعت کا احترام کرتے تھے۔بلکہ اپنے آستانے سے پہلے مسجد بنایا کرتے تھے۔تو وہ شریعت کو violateنہیں کرتے۔"
واصف صاحبؒ شریعت کی روح تک پہنچنے کے لیے محبت اور عشق کی راہ پر چلنے کی تلقین کرتے ہیں۔ اقبالؔ نے کہا تھا کہ عقل و دل و نگاہ کا مرشد عشق نہیں ہو تو شرع و دیں بھی بتکدۂ تصورات بن جاتےہیں ۔ واصفؒ صاحب کہتے ہیں کہ اللہ کی محبت کا راستہ بندے کی محبت کے راستے سے ہو کر گزرتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اللہ جن انسانوں کو اپنے قریب رکھتا ہے انہی انسانوں کو ، انسانوں کے قریب کر دیتا ہے ۔ یعنی جو شخص اللہ کے ہاں جتنا محبوب ہو گا ، اس کے لئے انسانوں کی دنیا اتنی محبوب ہو گی ۔ اللہ کے ساتھ محبت کرنے والے انسانوں سے بیزار نہیں ہو سکتے اور انسان سے بیزار ہونے والے اللہ کے قریب نہیں ہو سکتے۔ایک موقع پر وہ کہتےہیں کہ انسان کا دِل توڑنے والاشخص اللہ کی تلاش نہیں کرسکتا۔ایک بار دورانِ گفتگو ابلیس کے لعین ہونے کی وجہ بتاتے ہوئے انھوںنےکہا کہ ابلیس نے خدا کو نہیں انسان کو ماننے سے انکار کیا تھا۔ واصف صاحب نے کیاہی معرفانہ بات کہی:
"اِبلیس کا معبود تو تھا، محبوب کوئی نہ تھا۔ لعین ہونے کے لیے اِتنا ہی کافی ہے۔ اِنسان کی محبت کے بغیر خدا کا سجدہ‘ اَنا کا سجدہ ہے۔ خدا اِنسان سے محبت کرتا ہے اور اِبلیس اور اُس کے چیلے اِنسان سے محبت نہیں کرتے۔ کیسے کر سکتے ہیں!اِنسان سے محبت وہی کر سکتا ہے‘ جس پر خدا مہربان ہو۔ خدا جب کسی پر بہت مہربان ہو‘ تو اُسے اپنے بہت پیارے محبوب ﷺکی محبت عطا کر دیتا ہے۔"
معاملات کی صفائی کے بغیر محبت اور عبادت کے دعوے جھوٹے ہیں۔ واصف علی واصفؒ معاملات کی صفائی پر اس قدر زور دیتےہیں کہ بسا اوقات گمان ہوتا ہے کہ وہ معاملات کی صفائی کو عبادت سے بھی مقدم تصور کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جو شخص وعدہ پورا نہ کرے اور نماز پڑھتا جائے تو وہ منافق بن جاتاہے۔ واصف علی واصفؒ کے نزدیک عبادت صرف ظاہری رسوم و قیود کا نام نہیں ہے بلکہ ان کے مطابق ہر وہ عمل عبادت ہے جو اللہ کے نزدیک محبوب ہے اور ہر وہ عمل فریب ہے جو اللہ کے نزدیک مردود ہے، خواہ وہ ظاہری اعتبار سے عبادت ہی کیوں نہ ہو۔ ان کا یہ قول کتنا معرفانہ ہے کہ "عبادت وہی ہے جو محبوب کو منظور ہو جائے ورنہ کروڑوں سال کی عبادت ایک سجدہ نہ کرنے سے ضائع ہوتے دیکھی ہے۔ "
واصف صاحبؒ کی تحریریں خاص و عام سب کے لیے یکساں تاثیر رکھتی ہے۔ بے قرار روحوں کےلیے ان کی تحریروں میں سامان قرار ہے۔ گنہ گاروں کےلیے ان کی تحریروں میں "لاتقنطوا" کی نوید ہے۔ آج جب ہر چہار جانب مایوسی ہے، خوف ہے، شکوک و شبہات ہیں، خوف ہے، ایسے میں واصف صاحب کی باتیںہمیں مایوسی کے حصار سے باہر نکال کر امید و یقین کی جنت میں داخل کرتی ہے۔ آپ کہتے ہیں:
"اللہ کی رحمت پر بھروسہ کرلیا جائے، اس کے فضل سے مایوسی نہ ہونے دی جائے تو خوف نہیں رہتا۔ کوئی رات ایسی نہیں جو ختم نہ ہوئی ہو کہ کوئی غلطی ایسی نہیں جو معاف نہ کی جاسکے۔ کوئی انسان ایسا نہیں جس پر رحمت کے دروازے بند ہوں ، رحم کرنے والے کا کام ہی یہی ہے کہ رحم کرے۔ رحم اس فضل کو کہتے ہیں جو انسانوں پر ان کی خامیوں کے باوجود کیا جائے اور یہ رحم ہوتا ہی رہتا ہے کسی کو خوف زدہ نہ کیا جائے تو خوف کا عذاب ٹل جاتا ہے۔"
واصف صاحبؒ عصر حاضرکے صوفی ہیں۔ عصری مسائل پر ان کی گہری نظر ہے۔ڈپریشن، غصہ، نفرت، تعصب، مسلکی انتشار،خونی رشتوں کی شکست و ریخت ،آج کے زمانے کے وہ مسائل ہیں جن سے ہر شخص نبردآزما ہے۔ واصف صاحب ؒ کی پوری زندگی کا ماحصل انسانی رشتوں سے وابستہ مسائل کی تفہیم و تعبیر تھی۔ رشتوں کے استحکام کے لیے انھوں نے محبت، شکر اور برداشت ان تین صفتوں کو بطور خاص اپنے اندر پیدا کرنے کی تلقین کی۔ انھوں نے خود پسندی،انا، غرور اور ہر وہ صفت جو انسان کو دوسرے انسان کی نظر میں ناپسندیدہ بناتی ہے، ترک کرنے پر زور دیا۔ ایک موقع پر آپ نے ارشاد فرمایا:
"اسلام میں داخل ہونے کے بعد اگر کوئی یہ دعویٰ کرے کہ وہ دوسرے مسلمانوں پر فوقیت رکھتا ہے’ تو اسے غلط سمجھیں۔ اپنی فضیلت کو فضیلت کے طور پر بیان کرنا ہی فضیلت کی نفی ہے’ انسان کی کم ظرفی ہے’ جہالت ہے۔ اصل فضیلت تو دوسروں کو فضیلت دینے میں ہے جیسا کہ علم میں دوسروں کو شامل کرنے کا نام علم ہے ورنہ علم سے دوسروں کو مرعوب کرنا اور احساسِ کمتری میں مبتلا کرنا جہالت ہے۔"
واصف صاحبؒ انسان کی عزت نفس کو ٹھیس پہنچانے کو گناہ کبیرہ سمجھتے تھے۔ انھوںنے نمائش سے بچنے اور سادہ زندگی گزارنے پر زور دیا۔ ان کے نزدیک وہ نمود و نمائش جس سے کسی کی غربت مجروح ہوتی ہو ناپسندیدہ ہے۔ ایک مقام پر انھوںنے کہا :
اگر نمائش کے بلب بند کر دو اور کسی غریب کے گھر میں ایک چھوٹا سا بلب جلا دو تو وہ نمائش سے بہتر ہے۔اگر تیرے گھر کی نمائش اس کے گھر کا چراغ بجھا رہی ہے تو میرا خیال ہے کہ اپنے گھر کی نمائش بند کر دو. تم اور کچھ نہ کرو صرف ایک کام کرو کہ دولت کا اظہار نہ کرو پھر غریب آدمی پریشان ہونا چھوڑ دے گا۔"
قطع تعلق اسلام میں انتہائی ناپسندیدہ عمل ہے۔ اللہ کے رسول نے تین دن سے زیادہ کسی مسلمان سے بات بند کرنے کو ناجائز قرار دیا۔ ہم میں سے ہر شخص قطع تعلق کی کراہت اور اس کی وعید سے واقف ہے لیکن المیہ ہے کہ ہم میں سے بیشتر لوگ اس گناہ کبیرہ میں ملوث ہیں۔ واصف صاحبؒ انسان کی نفسیات کا گہرا شعور رکھتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ رنجش کی حالت میں مذہبی اصول و ضوابط بالائے طاق رکھ دئیے جاتے ہیں۔ چنانچہ ایسے موقع پر وہ آیات و احادیث کی بجائے چند جملوں میں ایسی گہری بات کہہ جاتے تھے جو سیدھے دل پر چوٹ کرتی تھی۔ قطع تعلق کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے ایک بار انھوں نے کہا کہ "جس کا جنازہ نہیں چھوڑ سکتے اس سے تعلق کبھی مت توڑنا۔" اسی طرح ایک اور موقع سے آپ نے بڑا ہی بلیغ جملہ کہا۔ آپ نے فرمایا کہ جب "تعلق رکھنا ہے تو جھگڑا کس بات کا اور جب تعلق نہیں رکھنا تو جھگڑا کس بات کا۔"
مجھے افسوس ہے کہ میں نے واصف صاحبؒ کو نہیں دیکھا۔ اگر دیکھتا تو فرط عقیدت سے آپ کے دستِ مبارک کو بوسہ دیتا۔ میری زندگی پر آپ کے بے شمار احسانات ہیں۔ میرے ذہن کی منفی لہروں کو مثبت سمت عطا کرنے، میرے اندر کے اشتعال کو تھنڈا کرنے اور میرے اندر کے وحشی کو کسی حدتک انسان بنانے میں آپ کی تحریروں کا غیر معمولی کردار ہے۔ اللہ آپ کے درجات بلندفرمائے۔(آمین)۔ احمد ندیم قاسمی کا یہ شعر حضرت واصف علی واصفؒ کی ذات پر صد فیصد صادق آتا ہے ؎
مجھ کو دشمن کے ارادوں پہ بھی پیار آتا ہے
تیری الفت نے محبت مری عادت کر دی






--

ہفتہ, جنوری 04, 2025

احساس وآگہی کا نقیب انس مسرور انصاری کی کتاب عکس اور امکان پر ایک تاثراتی تحریر

احساس وآگہی کا نقیب 
انس مسرور انصاری کی کتاب عکس اور امکان پر ایک تاثراتی تحریر
Urduduniyanews72 
وصیل خان 

اس وقت میرے مطالعہ کی میز پر ٹانڈہ امبیڈکر نگر کے معروف شاعر وادیب انس مسرور انصاری کی تازہ ترین تجزیاتی تحریر پر مبنی کتاب " عکس اور امکان ,, موجود ہے جو بیشتر ادبی و تحقیقاتی مضامین پر مشتمل ہے ۔ میری عادت رہی ہے کہ میں کسی کتاب کا نہ تو طائرانہ مطالعہ کرتا ہوں نہ ہی سرسری اظہار خیال بلکہ  پوری کتاب کو بہ نظر عمیق پڑھنے کے بعد ہی اپنی رائے اور اظہار خیال کیلئے چند شکستہ  الفاظ جمع کرپاتا ہوں۔ کسی کی  بے جا تعریف وتو صیف ، مدح سرائی اور خواہ مخواہ کی  تنقیص کو بھی اللہ نے  میری فطرت سے دور رکھا ہے ۔  عام  روش سے مکمل انحراف اور تنقید و تنقیص میں فرق کرتے ہوئے خالص علمی سطح پر کلام کرتا ہوں ۔ اللہ اسی نہج کو قائم رکھے ۔ 
کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق 
نے آبلہ مسجد ہوں نہ تہذیب  کا فرزند ۔ 
انس مسرور صاحب سے میری واقفیت اس وقت سے ہے جب انہوں نے جولانگاہ ادب میں اولین  قدم رکھا تھا لیکن وہ دن اور آج کا دن نہ رکے نہ تھمے  نہ ہی تھکن سے سمجھوتہ کیا آج بھی بساط ادب پر پورے طمطراق سے نہ صرف  متمکن ہیں بلکہ آس پاس کے ادبی حلقوں میں  معتبر درجے پر فائز ہیں ۔ اب تک نثر ونظم پر مشتمل ان کی متعدد کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں ۔  انس مسرور انصاری صاحب ایک کہنہ مشق شاعر وادیب ہیں ،وہ ادب کی مختلف النوع اصناف پر نہ صرف طبع آزمائی کرتے ہیں بلکہ ان کی بیشتر کاوشات معیارو اعتبار کے درجہ پر فائز نظر آتی ہیں ۔ انس مسرور صاحب کی  شعری و نثری تخلیقات تصورات وجذبات کے امتزاج کا ایسا نگارخانہ ہے جس میں زندگی کے مختلف رنگ جھلکتے ہیں ،انسانی عظمت  میں آپ کا یقین غیر متزلزل  ہے ان کے یہاں خالی خولی جذباتی انداز نہیں بلکہ زندگی کے ٹھوس حقائق کا اظہار صاف ونمایاں نظر آتا ہے ۔ روایات کا احترام ان کی تخلیقات کا نمایاں عنصر تو ہے ہی ساتھ ہی وہ نیرنگ زمانہ کی بنتی بگڑتی صورتحال پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں اور مثبت حل بھی  تلاش کرلیتے ہیں ۔ ماضی اور حال کے دھندلکوں میں وہ نہ خود ایک تابناک مستقبل دیکھ رہے ہیں بلکہ اپنے قاری کو بھی اس تابناکی کا مشاہدہ کراتے ہیں ۔ اندھیروں کی گہری تہوں کا سینہ چاک کرکے اجالوں کو دیکھ لینا اور موسم خزاں میں بہار کا مشاہدہ بڑی بات ہے ، مزید یہ کہ وہ جس اسلوب میں قاری سے مخاطب ہوتے ہیں اس کی کشش وسادگی دلوں کو مسخر کرتی چلی جاتی ہے جس کا سبب یہ ہے کہ ان کا احساس ان کے  تخلیقی وجدان سے پوری طرح مربوط و منسلک ہے ۔ 
 عکس اور امکان ان کی تازہ ترین نثری تصنیف ہے جس میں کل بارہ مضامین شامل ہیں اولین مضمون تعلیقات نعت پر ہے جسے خالص تحقیقی انداز میں تحریر کیا گیا  ہے جس میں صنف نعت کے متعدد گوشوں پر مدلل اور موثر روشنی ڈالتے ہوئے قرآن واحادیث اور اس میدان کی عبقری شخصیات کے حوالے سے سیر حاصل بحث کی گئی ہے ۔ کتاب سے ایک اقتباس ہم یہاں نقل کررہے ہیں جس سے زبان وبیان پر گرفت کے ساتھ ان کی فکری رفعت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ 
" قوموں کے عروج وزوال کی تاریخ بتاتی ہے کہ دنیا میں کسی بھی قوم کو عروج صرف اس کی علمی برتری اور فوقیت کی بنیاد پر حاصل ہوتا ہے ۔ قرون وسطیٰ میں عرب مسلمانوں کو زندگی کے ہر میدان میں جو برتری اور تفوق حاصل تھا وہ صرف ان کی علمی برتری کا نتیجہ تھا۔ اس زمانہ میں مسلمان نہ صرف عقلی علوم میں یگانہ و یکتا تھے بلکہ دینی علوم کے امام بھی وہی تھے ۔ "
   دوسرا مضمون پروفیسر محمود الٰہی زخمی کی ادبی تحریکات و خدمات اور مولانا آزاد کے جریدہ الہلال کے تجزیاتی مطالعے پر مشتمل ہے ۔ اسی طرح ابوعلی حسن ابن اللہیشم اور یگانہ روزگار طبیب فلسفی شیخ بوعلی سینا کی فنی تحریکات ،ایجادات و اختراعات پر موثر گفتگو کی گئی ہے ۔ کچھ مضامین عصری ادباء و شعراء کی  شعری و نثری تخلیقات پر مشتمل ہیں جن میں انور جلال پوری ، شرافت حسین ،ڈاکٹر امین احسن ، احمد شبلی ، ذکی طارق ، ڈاکٹر ایم  نسیم اعظمی  اور مولانا شمشاد منظری شامل ہیں ۔ آج کے اس قحط الرجال میں خصوصاََ اردو ادب جس طرح اکھڑی  اکھڑی سانسیں لے رہا ہے اس طرح کی کتابیں یقیناً حیات بخش ثابت ہوسکتی ہیں ، انس مسرور انصاری کی یہ کاوش قابل قدر ہے ،ہم ایوان ادب میں اس خیر مقدم کرتے ہیں ۔ شائقین یہ کتاب قومی اردو تحریک  فاؤنڈیشن،سکراول ،اردو بازار ،ٹانڈہ ضلع امبیڈکر نگر  224190 یوپی سے حاصل کرسکتے ہیں۔

جمعہ, جنوری 03, 2025

مجبور اور نہ تم کو شرمسار کروں گانہ بھی ہوں گا تیرا تو دیدار کروں گا :سریش کمار

مجبور اور نہ تم کو شرمسار کروں گا
نہ بھی ہوں گا تیرا تو دیدار کروں گا :سریش کمار
Urduduniyanews72 
پی، ٹی، ای، سی، سرہتہ ویشالی میں ادبی وثقاتی پروگرام کا انعقاد ۔
 ویشالی مورخہ 03/جنوری (پریس ریلیز :محمد ضیاء العظیم) سرہتہ پی، ٹی، ای، سی میں مورخہ 02/جنوری بروز جمعرات کی شام ایک ادبی وثقاتی پروگرام کا انعقاد کیا گیا، جس میں اسکول بیسیس ٹریننگ لینے والے +2 کے اساتذہ نے پروگرام میں حصہ لیا،
پروگرام کی صدارت محترم سریش کمار پرنسپل پی، ٹی، ای، سی، سرہتہ نے کی، جبکہ نظامت کے فرائض کو محترم انیل کمار معلم چک غلام الدین ہائی اسکول ویشالی نے انجام دیا ۔ پروگرام پورے جوش وخروش کے ساتھ منایا گیا ۔ اساتذۂ کرام نے نظمیں، غزلیں، نغمات، اور مکالمے کے ذریعہ پروگرام کو دلچسپ بنایا، محترم انیل کمار چک غلام الدین ہائی اسکول ویشالی نے ایک دلچسپ مکالمہ پیش کیا، جس پر سامعین سے خوب داد وتحسین سے نوازا، محمد ضیاءالعظیم ،صدر عالم نے اپنے اشعار سنائے، ان کے علاوہ جن اساتذۂ کرام نے اس پروگرام میں حصہ لیا ان کی فہرست اس طرح ہے، ستیم کمار، منچون کمار، سنجیو کمار، نوین کمار، راجنی کماری، سمی، سریش پرساد، مکیش کمار، شاہد، سرفراز عالم کے نام مذکور ہیں ۔
آخر میں صدر محترم سریش کمار نے صدارتی خطبہ میں اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے تمام اساتذۂ کرام کو ٹریننگ مکمل ہونے کی پیشگی مبارکبادی دیتے ہوئے کہا کہ ہم سب یہاں ٹریننگ کے لئے حاضر ہوئے ہیں، اور اب وہ اختتام پر ہے، پھر انہوں نے اردو ہندی زبان وادب سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اردو ہندی کا رشتہ اتنا مضبوط اور مستحکم ہے کہ دونوں زبانیں سگی بہنیں ہیں، میں اردو شاعری کو بڑے شوق سے پڑھتا ہوں، اردو شاعری کا دائرہ بہت وسیع ہے، اردو شاعری میں سیاسی، معاشی، اقتصادی، معاشرتی، ہر پہلوؤں پر گفتگو ہوتی ہیں، شاعروں نے اپنے کلام میں کہیں سے بھی تشنگی کا احساس نہیں ہونے دیا ہے، آپ اساتذۂ کرام کی دلچسپی جو شعر وادب، نغمات ،اور مکالمے سے جو ہیں وہ مجھے دیکھ کر بیحد خوشی ہوئی، پھر صدر محترم سریش کمار نے اپنی شاعری، غزلیں سناکر محفل میں ایک نئی زندگی پیدا کردی دی، ساتھ ساتھ بڑے خوبصورت لب ولہجے کے ساتھ ہندی اور بھوجپوری نغمات گا کر سنایا، محفل میں موجود اساتذۂ کرام نے بھر پور داد وتحسین سے نوازا ۔
اس کے بعد صدر محترم کی اجازت سے پروگرام کے اختتام کا اعلان کیا گیا ۔
واضح رہے کہ سرہتہ ویشالی میں پانچ ایام کی رہایشی ٹریننگ حاصل کرنے ویشالی ضلع کے مختلف اسکولوں کے اساتذۂ کرام مورخہ 30/دسمبر 2024 سے 03/جنوری 2025 تک یہاں تشریف لائے تھیں، جو اپنے آخری پڑاؤ پر پہنچ چکی ہے ۔

جمعرات, جنوری 02, 2025

پیام انسانیت کے وفد کا سیمانچل دورہ

پیام انسانیت کے وفد کا سیمانچل دورہ
Urduduniyanews72 
Urduduniyanews72 @gmail.com 
ملک میں ایک ایسی تحریک جو خالص انسانی بنیاد پر کام کرتی ہے وہ پیام انسانیت ہے۔اس کےمحرک وبانی مفکر اسلام حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ علیہ ہیں۔ ۱۹۵۰ء کے اوائل ہی میں مولانا نےوطن میں اس تحریک کی ضرورت محسوس کی اور اس عنوان پر تحریرو تقریرکا سلسلہ جاری فرمادیا تھا، مگر باضابطہ ایک تحریک کی شکل میں ۱۹۷۴ء میں الہ آباد سے اس کاآغاز فرمایا ہے۔حضرت کے انتقال کے بعدحضرت مولانا سیدعبداللہ حسنی رحمۃ اللہ تاحیات اس اہم ذمہ داری کو بحسن وخوبی نبھانے رہے اور پورے ملک میں پیام انسانیت کے بندے تیار ہوگئے،اور اس وقت ناظم ندوۃ العلماء حضرت مولانا سید بلال عبدالحی حسنی ندوی مدظلہ العالی کی سرپرستی میں یہ کاروں رواں دواں ہے۔ ملک میں پیام انسانیت کی موجودہ وقت میں تین سو یونٹ کام کررہی ہے۔نیز تحریک پیام انسانیت کے کام کاج کی نوعیت ونگرانی اور تعارف کے لئے مرکزی ٹیم گاہے گاہے ملکی وریاستی دورے بھی کرتی رہتی ہے۔اسی مقصد کے تحت ایک وفد کا ماہ دسمبر کے اختتام پر سیمانچل اور نیپال کا دورہ ہوا ہے،اس ٹیم میں مولانا جنید احمد صاحب ندوی نیشنل آرگنائزر پیام انسانیت، مولانا سمعان خلیفہ صاحب ندوی، نامور مصنف ڈاکٹر عبدالحمید اطہرصاحب ندوی اور انجینئر مصلح الدین سعدی صاحب شامل تھے۔کشنگنج، پورنیہ، ارریہ اور نیپال میں تعارفی اجلاس منعقد کئے گئے، اس موقع پر وفد نے بہت ہی خوبصورت انداز میں تحریک کا تعارف اور اغراض ومقاصد سے ہمیں روشناس کرایا اور اس کی ضرورت واہمیت پر موثر گفتگو کرتے ہوئےچونکا دینے والے اعداد وشمار بھی پیش کئے ہیں،ان کی جانکاری ہمارے لئے بہت ہی ضروری ہے، اسی مقصد کے تحت یہ تحریر لکھی جارہی ہے۔
 مہمان وفد نے اپنی گفتگو میں یہ باتیں پیش کی ہیں کہ" اس وقت سب سے بڑا مسئلہ ملک کی آزادی کا ہے۔کس چیز سے آزادی؟ بھوک سے آزادی کا ہے،بھوک دنیا میں اموات کی نمبر ایک وجہ بنی ہوئی ہے، اس کے بعد ایڈز کینسر وغیرہ موت کی وجہ ہیں، دنیا میں ۸۲۰/ملین لوگ دائمی طور پر بھوکے ہیں، دنیا کے ایک تہائی بھوکے ہندوستان میں رہتے ہیں، ایسے نازک حالات میں ہم تحریک پیام انسانیت اپنی اولین ترجیح اور ذمہ داری سمجھتے ہیں کہ ہندوستان کو بھوک سے آزادی دلانے کے لئے اپنی وسعت میں ہم جو کچھ کرسکتے ہیں وہ کریں،ہم اپنے ملک عزیز کو بھوک سے آزاد ملک بنانے کے لئے اپنی عاجزانہ کوشش کررہے ہیں،اگر ہم میں سے ہر کوئی اس منفرد پہل میں ساتھ دے تو اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ بھوک سے پاک ہندوستان کا خواب ہمارا پورا ہوسکتا ہے۔
آج ہمیں بیماری سے آزادی چاہئے، اس وقت ہندوستان کو فی ۱۰۰۰۰/دس ہزار افراد پر ۱۵/پندرہ ڈاکٹروں اور ۲۰/بیس اسپتالوں کے بستروں کی ضرورت ہے، ہمارے پاس فی الحال اس تعداد کا نصف ہے، اس کے معنی یہ ہے کہ ۷۰۰/سات سوملین (۷۰/ستر کروڑ) لوگ نظام صحت سے دور اور بنیادی ہیلتھ کیئر سے محروم ہیں۔
ہندوستان دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے اور دنیا کی ۲۰/بیس فیصد سے زیادہ نابینا آبادی کا گھر بھی ہے۔ بدقسمتی سے، یہ کسی بھی ملک میں نابینا بچوں کی سب سے بڑی تعداد کا بھی گھر ہے۔ ہندوستان میں نابینا پن میں ۵۰/پچاس سال کی عمر کے بعد تیزی سے اضافہ ہوتا ہے۔ شہری ہندوستان میں ماہر امراض چشم اور آبادی کا تناسب ہر پچیس ہزار افراد پر ایک ماہر ہے، لیکن دیہی ہندوستان میں، یہ تقریباًہر ڈھائی لاکھ افراد پر ایک ماہر ہے،ہائی پر ٹینشن (Hypertension) کو طویل عرصے سے ہندوستان میں دائمی بیماری کے بوجھ، بیماری اور اموات کے لیے ایک بڑے خطرے والے عوامل میں سے ایک کے طور پر تسلیم کیا جاتا رہا ہے، جو کہ ملک میں ہونے والی تمام اموات میں سے 10۰8/ فیصد ہے۔ہم تحریک پیام انسانیت اپنی عاجزانہ کوششوں سے حالات پر قابو پانے کے لیے کیمپوں کا اہتمام کرتے ہیں۔ عام اور خصوصی میڈیکل کیمپس۔آئی چیک اپ کیمپس۔ ہم خصوصی آئی چیک اپ کیمپس اور ان میں حسب استعداد آنکھوں کے چشموں کے ہدیہ دینے کا بھی اہتمام کرتے ہیں۔
آج ملک کو منشیات سے آزادی چاہئے، گانجہ استعمال کرنے والے لوگ ۳/تین کروڑ ۱۰/دس لاکھ ہیں، افیم کا استعمال کرنے والے ۲/دوکروڑ ۳۰/تیس لاکھ ہیں، ہیروئن کا کرنے والے ۶۳/تیرسٹھ لاکھ لوگ ہیں، میڈیکل دوائیوں سے نشہ کرنے والے لوگ ۲۵/پچیس لاکھ ہیں، ناک کے ذریعے سے کھینچ کر نشہ کرنے والے ۷۷/ستترلاکھ ہیں، انمیں ۵۱/اکاون لاکھ مرد ہیں اور ۲۶/چھبیس لاکھ بچے ہیں جو اپنی ناک کے ذریعہ کھینچ کر نشہ کرتے ہیں، شرابیوں کی تعداد اس وقت وطن عزیز میں سولہ کروڑ ہے"۔
مذکورہ بالا اعداد وشمار سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اپناملک اس وقت تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے، مذہب اور ذات پات کی سیاست یہاں ہورہی ہے، انسانیت کے لئے کوئی فکر نہیں ہے، پیام انسانیت یہ غیر سیاسی اور غیر مذہبی تحریک کانام ہے،انسانیت کی خدمت کے لئے وجود میں آئی ہے،یہ انبیائی مشن ہے، لہذا اس تحریک سے ہمیں وابستہ ہونے کی ضرورت ہے، یہ ہمارے لئے ضروری بھی ہے اورموجودہ حالات کے تناظر میں یہ ہماری مجبوری بھی ہے۔مدارس ومساجد اور خانقاہوں کی حفاظت کے لئے بھی پیام انسانیت کا اسٹیج ہمارے لئےبہت ہی موثر اور معاون ہے۔
حضرت علی میاں رحمۃ اللہ فرماتے تھے کہ "پیام انسانیت کی تحریک، ملک کے تمام دینی، تعلیمی، علمی کوششوں اور تحریکوں کے لئے ایک حصار کی حیثیت رکھتی ہے جس کے اندر رہ کر ہرکوشش کامیاب ہوسکتی ہے اوراس کو اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے پرسکون اور معتدل فضا مہیا ہوگی، اس لئے اس تحریک کو میں ہرتحریک کا خادم اور معاون سمجھتا ہوں، اور میرے نزدیک ہر دعوت وتحریک کو اس کا خیر مقدم کرنا چاہئے،کم سےکم اس کی حیثیت وہ ہےجو کسی فراش یا سقہ، یا زمین برابر کرنے والے، یا شامیانہ لگانے والے کی ہوتی ہے، جس کے بعد کوئی بھی جلسہ یا اجتماع ہوسکتا ہے، خواہ وہ خالص مذہبی نوعیت کا ہو یا تعلیمی بحث و مذاکرہ کا"۔
            جس کی ادا ادا پہ ہو انسانیت کو ناز 
             مل جائے کاش ایسا بشر ڈھونڈتے ہیں ہم
راقم الحروف 
ہمایوں اقبال ندوی 
نائب صدر، جمعیت علماء ارریہ 
وجنرل سکریٹری، تنظیم أبناء ندوہ پورنیہ کمشنری

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...