Powered By Blogger

ہفتہ, جنوری 18, 2025

سہ ماہی نقیب الخلیج کا "رباعی نمبر" (جنوری تا مارچ 2025) ایک مطالعہ

سہ ماہی نقیب الخلیج کا "رباعی نمبر" (جنوری تا مارچ 2025) ایک مطالعہ 
مضمون نگار : محمد ضیاء العظیم قاسمی، معلم چک غلام الدین ہائی اسکول،ویشالی بہار 
موبائل نمبر :7909098319 

Urduduniyanews72 
 سہ ماہی نقیب الخلیج ادبی، تاریخی، ثقافتی، اصلاحی، اور معلوماتی مضامین پر مشتمل ایک اہم اور نایاب رسالہ ہے، جسے گلف اردو کونسل کی جانب سے شائع کیا جاتا ہے- یہ رسالہ گذشتہ دو سالوں سے مسلسل اردو زبان وادب کی ترویج وترقی اور اس کی اشاعت کے لئے مکمل کوشاں ہے- سہ ماہی نقیب الخلیج کا تازہ شمارہ " رباعی نمبر "(جنوری تا مارچ 2025) 72/صفحات پر مشتمل ہے، جس میں اردو رباعی کی تاریخ، اہمیت وافادیت، اور اس کا پس منظر مکمل، مدلل، اور مفصل پیش کرنے کی بھر پور سعی کی گئی ہے، جو ایک قابل تعریف اور مستحسن عمل ہے - رسالہ میں رباعیات اور اس سے متعلق اہم اور لائق مطالعہ مضامین،معلومات عامہ، اور قارئین ادب کے خطوط شامل ہیں- 
رسالے کی شروعات اداریہ سے ہوتی ہے، جسے مدیر محترم قاضی منصور قاسمی نے قلم بند کیا ہے، اس میں رسالے کے مختصر تعارف کے ساتھ ساتھ اردو رباعی کی تاریخ، اہمیت وافادیت کو کئی زاویے سے پیش کیا گیا ہے۔فن رباعی کو مشکل فن گرداننے والوں کی مدیر نے گرفت بھی کی ہے۔ اس رسالے میں رباعیات پر جن قلمکاروں کے مضامین شامل ہیں۔ اُن میں "احساس و ادراک: ایک فکر انگیز اد بی سوغات"(رفیق جعفر، مہاراشٹر)، "امجد حیدر آبادی در باب رباعی" (ڈاکٹر امیر حمزہ، جھارکھنڈ)، "اُردو میں رباعی کی روایت: ایک تعارف"(پروفیسر ڈاکٹر محمد اشرف کمال)، "اردور باعیات: علامہ اقبال کے خصوصی مطالعہ کے ساتھ" (ڈاکٹر صالحہ صدیقی، الہ آباد)،" رباعی" (ڈاکٹر رحمت عزیز خان، چترالی)، "عبدالحق امام کی رباعیات پر ایک نظر" (سلیم انصاری، جبل پور )، "ر باعی کا شیدا: ڈاکٹر عبدالحق امام" (مصباح انصاری، گورکھپور)، وغیرہ خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں ۔
اِن مضامین کے ساتھ ساتھ تاریخ ادبیات فارسی اور دیگر حوالے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ رباعی، دیگر اصناف شعری کی طرح ایک قدیم اور عظیم صنف شاعری ہے، جو فارسی شعر وادب کے عین آغاز کے ساتھ ساتھ وجود میں آئی ۔۔
اللہ نے انسانوں کو اشرف المخلوقات کے شرف سے نوازتے ہوئے انہیں بے پناہ نعمتیں دے کر ان پر بہت سے احسانات کئے ہیں ،ان احسانات کو اگر ہم شمار کرنا چاہیں تو ہرگز انہیں شمار نہیں کرسکتے ہیں، ان احسانات اور نعمتوں میں سے ایک نعمت قوت گویائی بھی ہے، انسان اپنے احساسات وجذبات اور خیالات کے اظہار کے لیے الفاظ کا سہارا لیتا ہے، اور ان الفاظ کو جب خوبصورتی کے ساتھ سجا کر فنی اصول وضوابط پر کار بند رہتے ہوئے اپنے جذبات وخیالات اور احسات کا اظہار کرتا ہے تو وہ شاعری بن جاتی ہے، اور شاعری میں جب رباعی کا تذکرہ آتا ہے تو معلوم ہونا چاہیے کہ رباعی عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے لغوی معنی چار چار کے ہیں، رباعی کی جمع رباعیات ہے۔ شاعرانہ مضمون میں رباعی اس صنف کا نام ہے جس میں چار مصرعوں میں ایک مکمل مضمون ادا کیا جائے ۔ رباعی کا وزن مخصوص ہے، پہلے دوسرے اور چوتھے مصرعے میں قافیہ لانا ضروری ہے، رباعی کو دوبیتی بھی کہتے ہیں-فارسی میں رباعیات کے حوالے سے عمر خیام ، ابوسعید ابوالخیر، اور سرمد کے ناموں کو دنیائے ادب جانتی اور پہچانتی ہے۔ اردو میں حالی ، اکبر، انیس ، امجد، جوش، فراق اور دیگر شعرا کی شاعرانہ عظمت و شہرت کو اس مخصوص صنف نے چار چاند لگایا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ رباعی نے زندگی کے آفاقی اور عالمگیر حقائق کی عکاسی کا حق بعض کے نزدیک نہ ادا کیا ہو، لیکن تاریخ ادب شاہد ہے کہ اس نے رکاکت، ابتذال ، فحاشی ، بیہودہ گوئی ، مبالغہ اور ہجو سے اپنے دامن کو کبھی آلودہ نہیں کیا ۔ حالی نے اردو شعر و قصائد کے جس دفتر کو تعفن زدہ بتایا ہے اس میں رباعی کو شامل کرنا امر محال نظر آتا ہے ۔ اور رباعی کی یہی ایک معنوی خصوصیت اسے دیگر اصناف سخن کے مقابلے میں ممتاز و موقر بنانے کے لئے کافی ہے ۔
یہ بھی سچ ہے کہ اردو اور فارسی کے ناقدین و محققین نے رباعی کی جانب بہت کم توجہ دی- رسائل کے ذمہ داران اور مدیران نے بھی اس پر کم ہی گوشے شائع کیے تاہم سہ ماہی "نقیب الخلیج" نے خصوصی رباعی نمبر شائع کرکے اس طرف توجہ مبذول کرانے کی بھر پور سعی کی ہے کہ اردو رباعی کو اردو زبان وادب میں اب بھی وہی مقام مرتبہ حاصل ہے جو ماضی میں تھا ،اور اس کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے ۔ رسالہ میں اردو رباعی سے متعلق جتنے بھی مضامین ہیں انہیں ایک دستاویزی حیثیت حاصل ہے، البتہ رسالے میں شامل ایک مضمون جس پر میری نگاہ پڑی تو حیرت اور تجسس میں اضافہ ہوا کہ ایسا کیسے ممکن ہے کہ رباعیات کے مضمون میں غزلوں کے اشعار شامل ہو گئے ہیں، ڈاکٹر صالحہ صدیقی نے لمبے عرصے سے تحقیقی مضامین کے ساتھ ساتھ تخلیقی میدان میں بھی خامہ فرسائی کی ہے ،ان کے مضمون کی ترتیب دیکھ کر بخوبی اندازہ ہوا کہ مضمون نظر ثانی کے بغیر یا عجلت کا شکار ہو کر شائع ہوگیا ہے ، مدیر محترم اور مصنفہ سے رابطہ کرنے پر معلوم ہوا کہ رسالے میں مضمون شامل کرنے کے لیے الفاظ کی قید مقرر ہے اور مضمون چونکہ رسالے میں شمولیت کے اعتبار سے خاصا طویل اور مخلتف اصناف پر مبنی تھا لہٰذا مضمون کو رسالے کے لحاظ سے سیٹنگ کرنے میں ترتیب اور مثال کی الٹ پھیر ہوئی ہے۔ مدیر محترم اور مصنفہ نے اس کا اعتراف کیا۔ نیز انھوں نے اس بات پر خوشی اور اطمینان کا اظہار کیا کہ اس رسالے کا اتنی دلچسپی سے قارئین ادب مطالعہ کرتے ہیں،ادارہ آئندہ شمارہ میں پوری وضاحت کے ساتھ اس مضمون کو صحیح ترتیب دے کر شامل اشاعت کرے گا۔
ادب کے قارئین کے لیے اس رسالے کا مطالعہ موضوع سے متعلق واقفیت کے لحاظ سے بے حد مفید ثابت ہوگا۔ 
میں خصوصی طور پر قاضی منصور قاسمی صاحب کو اور عمومی طور پر پوری ٹیم کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ آپ عربستان میں رہ کر بھی اردو زبان وادب کی ترویج وترقی اور آبیاری کے لئے مکمل اور مسلسل کوشاں ہیں، رب کریم سے دعا ہے کہ آپ سبھوں کو اپنی حفظ وامان میں رکھے اور مزید زبان وادب کی خدمت کرنے کی توفیق وتوثيق عطاء فرمائے آمین۔

عنوان: آتش امریکہ: ایک عذاب الہی کی نشانی؟قدرتی آفات، جیسے کہ آگ، سیلاب، زلزلے، اور طوفان، انسان کی زندگی میں بار بار آتی ہیں۔

عنوان: آتش امریکہ: ایک عذاب الہی کی نشانی؟
Urduduniyanews72 
قدرتی آفات، جیسے کہ آگ، سیلاب، زلزلے، اور طوفان، انسان کی زندگی میں بار بار آتی ہیں۔ یہ آفات نہ صرف انسانی زندگی اور وسائل کو متاثر کرتی ہیں بلکہ انسان کو اپنے اعمال اور رویوں پر غور کرنے کا موقع بھی فراہم کرتی ہیں۔ حالیہ دہائیوں میں امریکہ سمیت دنیا کے مختلف حصوں میں آتشزدگی کے واقعات نے لوگوں کو اس بات پر سوچنے پر مجبور کیا کہ کیا یہ قدرتی آفات واقعی عذاب الہی کی نشانیاں ہو سکتی ہیں؟ اس مضمون میں ہم اس سوال پر غور کریں گے کہ آیا آتش امریکہ کو عذاب الہی کی نشانی سمجھا جا سکتا ہے، اور اس کے پیچھے کیا فلسفیانہ اور مذہبی تناظر ہو سکتا ہے۔
قدرتی آفات وہ واقعات ہیں جو قدرتی عوامل سے وقوع پذیر ہوتے ہیں، جیسے زمین کی سرکشی، موسم کی تبدیلی، یا آگ لگنا۔ ان آفات کا انسان کی زندگی پر بڑا اثر ہوتا ہے۔ امریکہ میں آنے والی جنگلات کی آگ، طوفان، اور دیگر قدرتی آفات نے نہ صرف ہزاروں افراد کی زندگیوں کو متاثر کیا ہے بلکہ ان کی معیشت اور ماحولیاتی نظام پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔
اسلامی تعلیمات کے مطابق، دنیا میں ہونے والی تمام آفات اللہ کی مرضی سے ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے: "اور تمہیں جو کچھ بھی آفت پہنچتی ہے وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کی کمائی کی وجہ سے ہے" (الشوریٰ 30:41)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسانی عمل، جیسے کہ بے جا جنگلات کی کٹائی، فضائی آلودگی، اور قدرتی وسائل کا استحصال، قدرتی آفات کو بڑھا سکتا ہے۔
اسلام میں عذاب الہی ایک خاص معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ جب قومیں یا افراد اپنے گناہوں کی حد تک پہنچ جاتے ہیں، تو اللہ ان پر عذاب بھیج سکتا ہے تاکہ وہ توبہ کریں اور اپنے اعمال کی اصلاح کریں۔ لیکن عذاب صرف سزا نہیں ہوتا، بلکہ اس کا مقصد انسانوں کو اپنی اصلاح کی طرف مائل کرنا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتے ہیں: "اگر وہ توبہ کر کے اپنے رب کے سامنے جھک جاتے، اور نماز قائم کرتے اور زکات دیتے تو ہم ان سے ان کی برائیاں دور کر دیتے" (القرآن، 9:103)۔
ایسی حالت میں اگر کسی قوم یا علاقے میں قدرتی آفات آتی ہیں، تو ان آفات کو عذاب الہی کی نشانی سمجھنا ایک ممکنہ اندازہ ہو سکتا ہے۔ تاہم، یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ عذاب الہی کی کوئی مخصوص علامت یا وقت نہیں ہوتا، اور ہر آفات کا مقصد خدا کی طرف سے انسانوں کو اپنی اصلاح کی طرف بلانا ہو سکتا ہے۔
امریکہ میں مختلف جنگلاتی آگوں کے واقعات نے پوری دنیا کی توجہ حاصل کی ہے۔ ان آگوں کی شدت اور پھیلاؤ نے نہ صرف انسانوں کی زندگی کو متاثر کیا بلکہ ماحولیات اور جنگلات کے نظام کو بھی شدید نقصان پہنچایا۔ ان آگوں کے پیچھے مختلف عوامل ہو سکتے ہیں، جیسے کہ موسمیاتی تبدیلیاں، انسانی غفلت، یا قدرتی عوامل۔
اس تناظر میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ آگیں عذاب الہی کی نشانی ہیں؟ بعض لوگ یہ خیال رکھتے ہیں کہ جب کسی قوم یا علاقے میں بار بار قدرتی آفات آتی ہیں، تو یہ ایک انتباہ ہوتا ہے کہ لوگ اپنے اخلاقی، سماجی، یا ماحولیاتی رویوں کو درست کریں۔ یہ انفرادی اور اجتماعی سطح پر ایک امتحان ہو سکتا ہے کہ انسان اپنی زندگیوں میں تبدیلی لائیں، توبہ کریں اور اللہ کے راستے کی طرف واپس آئیں۔
اسلام میں قدرتی آفات کو صرف عذاب کے طور پر نہیں بلکہ ایک امتحان اور امتحان کی صورت میں بھی دیکھا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتے ہیں: "ہم تمہیں کچھ خوف، بھوک، مال کی کمی، جانوں کی کمی، اور پھلوں کی کمی سے آزمائیں گے، اور بشارت دے دو صبر کرنے والوں کو" (البقرہ: 155)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آفات کا سامنا انسان کی قوتِ ارادی اور ایمان کا امتحان ہے۔ اس کے ذریعے انسان اپنی ایمان کی پختگی، صبر اور تقویٰ کا اندازہ لگا سکتا ہے۔
اگرچہ آفات اور آتشزدگیاں بعض اوقات عذاب کی صورت اختیار کر سکتی ہیں، لیکن اسلام میں یہ بھی ہے کہ ان آفات کے ذریعے اللہ تعالیٰ انسانوں کو اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کا مقصد انسانوں کی اخلاقی اور روحانی اصلاح ہے، تاکہ وہ اپنی زندگی میں بہتر تبدیلیاں لائیں۔
آتش امریکہ اور دیگر قدرتی آفات کو عذاب الہی کی نشانی سمجھنا ایک قابل غور موضوع ہے، لیکن یہ فیصلہ کرنا کہ یہ آفات عذاب ہیں یا محض قدرتی عوامل کا نتیجہ، ایک پیچیدہ مسئلہ ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق، ہر آفات کو عذاب الہی کا حصہ قرار دینا مناسب نہیں، کیونکہ اللہ کی حکمت اور مرضی سے ہر آفت کا مقصد انسانوں کو بیدار کرنا، توبہ کرنا اور اپنی زندگیوں میں اصلاح لانا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ، قدرتی آفات کا تعلق انسان کی اپنی سرگرمیوں سے بھی ہو سکتا ہے، جیسے کہ ماحول کی تباہی اور قدرتی وسائل کا بے دریغ استعمال۔
لہذا، آتش امریکہ یا کسی بھی قدرتی آفات کو ایک عذاب الہی کی نشانی سمجھنے سے پہلے، ہمیں اپنے اعمال کا محاسبہ کرنا چاہیے اور کوشش کرنی چاہیے کہ ہم اپنی زندگیوں میں بہتر تبدیلی لائیں تاکہ اللہ کی رضا حاصل ہو اور ہم اپنی قوم اور زمین کی فلاح کے لیے کام کر سکیں۔
خلاصہ مضمون:
آخر میں، اس مضمون کا مقصد یہ نہیں کہ ہم کسی مخصوص آفات کو عذاب سمجھیں، بلکہ یہ سوچنے کی دعوت دینا ہے کہ قدرتی آفات کے پیچھے اللہ کی حکمت چھپی ہوئی ہو سکتی ہے۔ یہ انسانوں کو اپنے اعمال اور رویوں پر غور کرنے کا موقع فراہم کرتی ہیں، اور انہیں اپنی اصلاح کی طرف مائل کرتی ہیں۔
از قلم : احمد علی ندوی ارریاوی
استاد: خنساء اسلامك انگلش اسكول بہیڑہ،دربھنگہ ،بہار

جمعرات, جنوری 16, 2025

(د ر صنعتِ غیر منقوطہ) * انس مسرورانصاری

*****نعتِ پاک ﷺ******
                   (د ر صنعتِ غیر منقوطہ) 
Urduduniyanews72 
           * انس مسرورانصاری

ا ما مِ ر سو لا ں محمد محمد ﷺ
د وعا لم کےسلطاں محمد محمد ﷺ

ہم عا صی کو ا ن کا سہا ر ملے گا
سرِ طو رِ ا مکا ں محمد محمد ﷺ

د و ا ئے د ل و ر و ح ا سمِ گر ا می 
ہراک دکھ کا درماں محمد محمد ﷺ

سرِ کو ہِ مک٘ہ صد ا لا ا لہٰ کی 
ملا ئک کا ا علا ں محمد محمد ﷺ

وہ محمو د وحامد وہ کامل وہ ا کمل
د عا ئے ر سو لا ں محمد محمد ﷺ

وہ طا ہر وہ ا طہر،کل ا مٌہ کے محور
ہر ا ک دل کے ارماں محمد محمد ﷺ

دعا ؤ ں کے سا ئے ملےحا سد و ں کو
سلو ک اور ا حسا ں محمد محمد ﷺ

ہم ا س کو ئے آ رامِ جا ں کے گد ا گر
وہ ا سعا د و سلطاں محمدمحمد ﷺ

کہا ں کو ئی ہمسر ا ما م ا لرسل کا
و ہ ﷲ کے مہما ں محمد محمد ﷺ

مد ر س، معلم، مد ا ر س ہد یٰ کے
وہ ہا د یِ د و ر ا ں محمد محمد ﷺ

ا س آ ر ا م گا ہِ معلٰی کے و ا ر ی 
کہ آ ر ا م سا ما ں محمد محمد ﷺ

ہم ا س کے ، ہما ر ا مکا ر م و ہ مولٰی
مسلما ں مسلما ں ، محمد محمد ﷺ

ہما ر ے لیے آ مدِ ا سعد ی ہے
وہ گرد و ں کےمہماں محمدمحمد ﷺ

مر ے کملی و ا لے مکرٌ م ! عطا ہو
کہ آ سی ہے دا ما ں محمد محمد ﷺ

کر م ہو مکرٌ م کہ ہو ں د و ر سا رے
مرے د ر د و حرما ں محمد محمد ﷺ

و ہ ا حر ا رِ محکم، و ہ ا سر ا رمحرم 
کہا ں و ہ مسلما ں، محمد محمد ﷺ

ہما رے لیے ر و ح و د ل کا سکو ں ہے
د مِ مد ح و ا لحا ں، محمد محمد ﷺ

وہ ہا د ی و ہ ا کرم،وہ اعلیٰ وہ محرم
مطا ع ا و ر ا حسا ں محمد محمد ﷺ

رسو لو ں کے سر د ا ر، و ا لی ہما رے
ملا ئک کے سلطا ں محمد محمد ﷺ

محمد ﷺ کا د ر ہمسرِ آ سما ں ہے
گد ا گر ہے سلطا ں۔ محمد محمد ﷺ

د رِ کو ئے طا ہر ہو ا و ر سر ہما ر ا
ہوں ا کر م و ا حسا ں،محمد محمد ﷺ

و ر و دِ محمد ﷺ ہے مسعو دِ عا لم
کر و مد حِ سلطا ں، محمد محمد ﷺ

ہم عا صی ا و ر ا س کا کر م ﷲ ﷲ
عطا ا و ر ا حسا ں محمد محمد ﷺ

کلا مِ ا لٰہی کا ا لہا م ا س کو
و ہ ا مٌی و ہ لسٌا ں محمد محمد ﷺ

مر ی ر و ح کی ہے و ہ د رگا ہ محور
مرے د ل کا ا ر ما ں محمد محمد ﷺ

صد ا ئے ہو ﷲ کے و ا سطے سے
مسا ئل ہو ں آ سا ں محمد محمد ﷺ

کرم ا و ر عطا سے ہو ں معمو ر سارے
مرا د و ں کے د ا ما ں محمد محمد ﷺ

درود ا س کودائم،سلام اس کو لاکھوں
و ہ ممد و حِ رحما ں ، محمد محمد ﷺ

سلا م اس کو،ا س کےعساکر کو لاکھوں
ہما ر ے علٓم د ا ں محمد محمد ﷺ

وہ مسر و ر ما حی و ہ مسرور ما و یٰ 
  وہ اسرارِرحماں محمد محمد ﷺ         
                  ﷺﷺ ﷺﷺ ﷺ
                 
     
                ****سلام بحضورخیرالانامﷺ****   
                            (غیرمنقوطہ) 

مہرِ د ر گا ہِ د ا و ر کو لا کھو ں سلام
سارے عا لم کے سرور کو لا کھوں سلام

سر و رِ سر و ر ا ں ، ر ہر وِ لا مکا ں
ا کمل و ا صل ر ہو ر کو لا کھو ں سلام

ا س کے آ گے ملا ئک گد ا گر ہو ئے 
ا س کی د ر گا ہِ احمر کو لا کھوں سلام 

کو ئی ہہمسر ا ما م ا لر سل کا کہا ں 
کل رسو لو ں کے سرور کو لا کھوں سلام

مہکی مہکی ہو ئی لمسِ احمدﷺ سے ہے
ا س ر د ا ئے معطر کو لا کھو ں سلام 

سا ئلو ں کو عطا ملک کے ملک ہو ں
ا س کے د ر کے گد ا گر کو لا کھوں سلام

و ہ محمد و ہ محمود و ا حمد ﷺ ہوئے
محرم سرٌِ د ا و ر کو لا کھو ں سلام

کل مر ا سِم سمو می مٹا ئے گئے
ا س کو،ا س کےعسا کر کو لا کھو ں سلام

لا مکا ں و ا لا و ا رِ د مکا ں سے ہو ا
مطلعِ ما ہِ د ا و ر کو لا کھو ں سلا م

ا س کے د ا د ا و و ا لد کو کا مل د ر و د
ا س کی ہمد رد ما در کو لا کھو ں سلام

ا س کو مسرور ا مٌی کہو ں کس طر ح
عِلم و حکمأء کے محو ر کو لا کھو ں سلام 
                                         *********
    
                    * انس مسرورانصاری
           قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن (انڈیا) 
               وہاٹس ایپ/9453347784/

اداس موسم" - ایک جائزہ

" اداس موسم" - ایک جائزہ 
Urduduniyanews72 
ڈاکٹر محمد شاہنواز عالم 
اسسٹنٹ پروفیسر 
شعبہ اردو، ملت کالج دربھنگہ- 

انوؔر آفاقی اردو کے ان مخلصین میں ہیں جنہوں نے  شاعری کے ساتھ ساتھ تنقید و تحقیق کے حوالے سے بھی قابل ذکر کارنامے انجام دینے ہیں. موصوف کی جو تصنیفات و تالیفات منظر عام پر آ کر مشاہیر ادبا و ناقدین سےداد و تحسین حاصل کر چکی ہیں ان میں 'لمسوں کی خوشبو' (شعری مجموعہ) 'دیرینہ خواب کی تعبیر' (سفر نامہ) پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی سے گفتگو '(انٹرویو)' نئی راہ نئی روشنی '(افسانوی مجموعہ)' دو بدو '(ادبی مکالمہ) اور میزان فکر و فن (مضامین) ان کے جادو بیان قلم کا بین ثبوت ہیں. 

 " اداس موسم " انور آفاقی کا دوسرا شعری مجموعہ ہے ۔ حمد اور نعت کے علاوہ ساٹھ غزلیں، بارہ نظمیں اور قطعات کے علاوہ متفرق اشعار سے مزین اس شعری مجموعہ کو انہوں نے اساتذہ، طلبہ و طالبات اور قارئین کے نام منسوب کیا ہے ۔ ان کا یہ انتساب صرف انتساب ہی نہیں ہے بلکہ اردو زبان سے ان کی والہانہ محبت ہے ساتھ ہی اس کے بین السطور میں اردو زبان کے تعلق سے ایک دعوتِ غور فکر بھی ہے ۔ پیش لفظ کے طور پر"اپنی بات " کے عنوان سے انہوں نے اپنے ادبی سفر کو اختصار لیکن جامعیت کے ساتھ پیش کیا ہے ۔ جو ان کے ادبی ذوق و شوق کی روداد ہے ۔ اندرونی فلیپ پر کامران غنی صبؔا اور احمد اشفاق نے شاعر کی انفرادیت کے متعلق اظہار خیال کیا ہے۔ جبکہ کور پیج پر عہد حاضر کے معتبر ناقد حقانی القاسمی نے انور آفاقی کے لہجے کی انفرادیت اور موضوعات و مضامین کے انوکھے پن کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے ان کی شاعری میں نصب العنیت کو ان کی شاعری کا وصف قرار دیا ہے۔
بنیادی طور پر"اداس موسم" عصری زندگی کے معاملات و مسائل سے رونما ہونے والی کیفیات کا شعری اظہار ہے ۔ انور آفاقی کا کمال فن یہ ہے کہ وہ برجستگی کے ساتھ صاف ستھری زبان میں عام فہم اور سہل انداز میں بڑی سے بڑی بات کہہ جاتے ہیں ۔ موضوع کے تعلق سے میرا ماننا ہے کہ حیات و موت کے درمیان زندگی جس نشیب و فراز سے گزرتی ہے ان میں بیشتر ہمیشہ سے موجود رہے ہیں اور ہمیشہ موجود رہیں گے ۔ لیکن جو چیز ایک فنکار کو دوسرے فنکار سے ممیز کرتی ہے وہ دراصل موضوع نہیں بلکہ موضوع کو بیان کرنے کا فنکارانہ شعور ہوتا ہے ۔ اس اعتبار سے انور آفاقی کے یہاں جدت دکھائی دیتی ہے۔ مثلاً شہری زندگی کی بےجہت رفتار اور ماحول کے بے سمت کردار کے نتیجے میں  بےچین و مضطرب کردینے والی کیفیت اردو شاعری کا اہم موضوع رہا ہے ۔ بھیڑ میں رہ کر بھی تنہائی کا احساس کوئی اچھوتا موضوع نہیں ہے۔ لیکن شامِ تنہائی کے خدشے سے پریشان اور مضطرب انورآفاقی جب جگنوؤں کو اپنے ساتھ چلنے کی گزارش کرتے ہیں تو بے بسی اور بے چینی کا سارا منظردل و دماغ پر نقش ہو جاتا ہے ۔

جگنوؤں آؤ میرے ساتھ چلو 
شامِ  تنہائی نے  پکارا  ہے

تمھارے شہر سے پھر نامراد لوٹا ہوں 
نہ در کھلا نہ ہی کھڑکی، نہ ہی صدا آئی 

ترقی کے تمام تر دعوؤں کے بیچ شہروں کی چکاچوندھ زندگی کا جو کرب ہے اس کا مشاہدہ انور آفاقی نے قریب سے کیا ہے ۔ لہٰذا شہروں کی گھٹن بھری زندگی ان کی شاعری کا ایک خاص موضوع رہا ہے ۔ انہیں شدت سے اس کا احساس ہے کہ شہروں میں مادیت پرستی غالب ہے اور اس کا زہر ہر فرد کے اندر سرایت کر چکا ہے ۔ انسانی دردمندی اور ہمدردی کی تتلی چمنیوں سے اٹھنے والی زہیر آلود دھوئیں کے نرغے میں نیم مردہ ہو چکی ہے ۔ اپنائیت ختم ہو رہی ہے اور اجنبیت اپنے تمام مکروہات کے ساتھ انسانی رشتوں کو پسپا کرنے پر آمادہ ہے ۔ وہ اس طرح کی زندگی سے بیزار ہیں ۔ لہٰذا وہ  سکون کی تلاش میں گاؤں کا رخ کرتے ہیں ۔ 

مرے بھائی چلو چلتے ہیں گاؤں 
یہاں تم  تو   بدلتے جا  رہے  ہو 

گاؤں  سے ہیں جڑی مری یادیں 
مجھ کو گاؤں میں یار جانا ہے 

ہمارے گاؤں میں پیپل کی چھاؤں کافی ہے 
تمہارے شہر میں  ہوٹل  ستارا، ہے تو ہے 

ادھر چند برسوں میں سماجی اور  سیاسی حالات نے افراد پر بڑے گہرے اثرات چھوڑے ہیں . رواداری ، وسیع المشربی اور آپسی بھائی چارگی کو ذات پات اور مذہب کے بیجا استعمال نے گہن لگا دیا ہے. ایسے میں ہر فرد کے اندر ایک عجیب بےبسی ہے ۔ انسان کی یہ بے بسی شاعر کو مضطرب اور بے چین کرتی ہے اور اس کا اظہار اس انداز میں کرتا ہے. 

آگ ایسی لگائی اندھوں نے 
جل رہا ہے گلاب لکھتا جا 

ہمارے دور میں فرعون پھر ہوا پیدا 
ہمارا دور بھی ضربِ کلیم مانگتا ہے 

ہوا اب  سنسناتی  پھر رہی ہے ہر طرف  انوؔر 
چراغ اپنے سنبھالو، یہ چراغوں کو بجھاتی ہے 

عشق و محبت شاعروں کا پسندیدہ موضوع رہا ہے. اور اس موضوع کو غزل گو شعرا کے یہاں" پیدائشی حق" کے طور پر نئے رنگ و آہنگ کے ساتھ پیش کرنے کی روایت رہی ہے ۔ انور آفاقی نے بھی اس روایت کی پاسداری کی ہے ۔ ان کے کلام میں محبوب کا تصور اور اس سے عشق کی پھوٹنے والی کونپلیں  پڑھنے والے کو جمالیاتی انبساط عطا کرتی ہیں ۔ چونکہ وہ صورتاً اور سیرتاً پارسا ہیں لہٰذا ان کے اشعار میں سطحیت اور آوارگی نہیں ہے ۔

میں گھرا ہوں اداس موسم میں 
تم  جو آ جاؤ  تو   بہار   آئے 

بات ہی بات میں یوں ہم کو رلاتے کیوں ہو 
جب سبب ہی نہیں کوئی تو ستاتے کیوں ہو 

عشق ہی راستہ ہے منزل کا 
دوسرا   راستہ   نہیں   ہوتا 

یہ کس مقام  پہ  دل  نے  مجھے  ہے  پہنچایا 
جدھر بھی دیکھوں فقط تو ہی روبرو ہے ابھی

تجھ سے ملنے کی آس میں اے چاند 
چھت  پہ  اکثر  میں رات  کرتا  ہوں 

انور آفاقی بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں. لیکن  نظم "جلتی ہوائیں" ، "خدشہ "، "غلیل کی زد پہ "اور "کرب تنہائی " میں تخلیقی فکر کی آنچ بھی گرویدہ بناتی ہے۔ مجموعی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ انور آفاقی نے فکر و خیال کی زرخیزی اور تخیل کی بلند پروازی سے  شاعری کو جو اعتبار بخشا ہے وہ ان کو اردو ادب میں زندہ رکھے گا ۔ اس شعری مجموعہ کو منظر عام پر لانے کے لئے انہیں ہم دلی مبارکباد دیتے ہیں ۔ امید ہے کہ اردو کے ادبی حلقوں میں "اداس موسم " کی خاطرخواہ پزیرائی ہوگی ۔

*****************************

بدھ, جنوری 15, 2025

*نعتِ پاک ﷺ*

******نعتِ پاک ﷺ******
                   (د ر صنعتِ غیر منقوطہ) 

           * انس مسرورانصاری

ا ما مِ ر سو لا ں محمد محمد ﷺ
د وعا لم کےسلطاں محمد محمد ﷺ

ہم عا صی کو ا ن کا سہا ر ملے گا
سرِ طو رِ ا مکا ں محمد محمد ﷺ

د و ا ئے د ل و ر و ح ا سمِ گر ا می 
ہراک دکھ کا درماں محمد محمد ﷺ

سرِ کو ہِ مک٘ہ صد ا لا ا لہٰ کی 
ملا ئک کا ا علا ں محمد محمد ﷺ

وہ محمو د وحامد وہ کامل وہ ا کمل
د عا ئے ر سو لا ں محمد محمد ﷺ

وہ طا ہر وہ ا طہر،کل ا مٌہ کے محور
ہر ا ک دل کے ارماں محمد محمد ﷺ

دعا ؤ ں کے سا ئے ملےحا سد و ں کو
سلو ک اور ا حسا ں محمد محمد ﷺ

ہم ا س کو ئے آ رامِ جا ں کے گد ا گر
وہ ا سعا د و سلطاں محمدمحمد ﷺ

کہا ں کو ئی ہمسر ا ما م ا لرسل کا
و ہ ﷲ کے مہما ں محمد محمد ﷺ

مد ر س، معلم، مد ا ر س ہد یٰ کے
وہ ہا د یِ د و ر ا ں محمد محمد ﷺ

ا س آ ر ا م گا ہِ معلٰی کے و ا ر ی 
کہ آ ر ا م سا ما ں محمد محمد ﷺ

ہم ا س کے ، ہما ر ا مکا ر م و ہ مولٰی
مسلما ں مسلما ں ، محمد محمد ﷺ

ہما ر ے لیے آ مدِ ا سعد ی ہے
وہ گرد و ں کےمہماں محمدمحمد ﷺ

مر ے کملی و ا لے مکرٌ م ! عطا ہو
کہ آ سی ہے دا ما ں محمد محمد ﷺ

کر م ہو مکرٌ م کہ ہو ں د و ر سا رے
مرے د ر د و حرما ں محمد محمد ﷺ

و ہ ا حر ا رِ محکم، و ہ ا سر ا رمحرم 
کہا ں و ہ مسلما ں، محمد محمد ﷺ

ہما رے لیے ر و ح و د ل کا سکو ں ہے
د مِ مد ح و ا لحا ں، محمد محمد ﷺ

وہ ہا د ی و ہ ا کرم،وہ اعلیٰ وہ محرم
مطا ع ا و ر ا حسا ں محمد محمد ﷺ

رسو لو ں کے سر د ا ر، و ا لی ہما رے
ملا ئک کے سلطا ں محمد محمد ﷺ

محمد ﷺ کا د ر ہمسرِ آ سما ں ہے
گد ا گر ہے سلطا ں۔ محمد محمد ﷺ

د رِ کو ئے طا ہر ہو ا و ر سر ہما ر ا
ہوں ا کر م و ا حسا ں،محمد محمد ﷺ

و ر و دِ محمد ﷺ ہے مسعو دِ عا لم
کر و مد حِ سلطا ں، محمد محمد ﷺ

ہم عا صی ا و ر ا س کا کر م ﷲ ﷲ
عطا ا و ر ا حسا ں محمد محمد ﷺ

کلا مِ ا لٰہی کا ا لہا م ا س کو
و ہ ا مٌی و ہ لسٌا ں محمد محمد ﷺ

مر ی ر و ح کی ہے و ہ د رگا ہ محور
مرے د ل کا ا ر ما ں محمد محمد ﷺ

صد ا ئے ہو ﷲ کے و ا سطے سے
مسا ئل ہو ں آ سا ں محمد محمد ﷺ

کرم ا و ر عطا سے ہو ں معمو ر سارے
مرا د و ں کے د ا ما ں محمد محمد ﷺ

درود ا س کوبےحد،سلام اس کو لاکھوں
و ہ ممد و حِ رحما ں ، محمد محمد ﷺ

سلا م اس کو،ا س کےعساکر کو لاکھوں
ہما ر ے علٓم د ا ں محمد محمد ﷺ

وہ مسر و ر ما حی و ہ مسرور ما و یٰ 
و ہ د لد ا رِ ر حما ں محمد محمد ﷺ         
                  ﷺﷺ ﷺﷺ ﷺ
                 
     
                ****سلام بحضورخیرالانامﷺ****   
                            (غیرمنقوطہ) 

مہرِ د ر گا ہِ د ا و ر کو لا کھو ں سلام
سارے عا لم کے سرور کو لا کھوں سلام

سر و رِ سر و ر ا ں ، ر ہر وِ لا مکا ں
ا کمل و ا صل ر ہو ر کو لا کھو ں سلام

ا س کے آ گے ملا ئک گد ا گر ہو ئے 
ا س کی د ر گا ہِ احمر کو لا کھوں سلام 

کو ئی ہہمسر ا ما م ا لر سل کا کہا ں 
کل رسو لو ں کے سرور کو لا کھوں سلام

مہکی مہکی ہو ئی لمسِ احمدﷺ سے ہے
ا س ر د ا ئے معطر کو لا کھو ں سلام 

سا ئلو ں کو عطا ملک کے ملک ہو ں
ا س کے د ر کے گد ا گر کو لا کھوں سلام

و ہ محمد و ہ محمود و ا حمد ﷺ ہوئے
محرم سرٌِ د ا و ر کو لا کھو ں سلام

کل مر ا سِم سمو می مٹا ئے گئے
ا س کو،ا س کےعسا کر کو لا کھو ں سلام

لا مکا ں و ا لا و ا رِ د مکا ں سے ہو ا
مطلعِ ما ہِ د ا و ر کو لا کھو ں سلا م

ا س کے د ا د ا و و ا لد کو کا مل د ر و د
ا س کی ہمد رد ما در کو لا کھو ں سلام

ا س کو مسرور ا مٌی کہو ں کس طر ح
عِلم و حکمأء کے محو ر کو لا کھو ں سلام 
                                         *********
    
                    * انس مسرورانصاری
           قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن (انڈیا) 
               وہاٹس ایپ/9453347784/

منگل, جنوری 14, 2025

کامران غنی صباشعبۂ اردو نتیشور کالج، مظفرپور

--
کامران غنی صبا
شعبۂ اردو نتیشور کالج، مظفرپور
Urduduniyanews72 
حضرت واصف علی واصفؒ : تیری الفت نے محبت مری عادت کر دی
(پیدائش: 15 جنوری 1929، وفات 18 جنوری 1993)
حضرت واصف علی واصفؒ میری پسندیدہ شخصیات میں سے ایک ہیں۔ میں نے واصف صاحب کو دیکھا نہیں ہے، صرف ان کی تحریریں پڑھی ہیں، ان کے لکچرسنے ہیں، ان کی محفلوں کے فیض یافتگان کو سنا ہے اور اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ واصف صاحب میں اللہ نے غضب کی تاثیر رکھی ہے۔ان کے چھوٹے چھوٹے اقوال اپنے اندر ایک جہانِ معنی رکھتے ہیں۔ زندگی کے عمومی مسائل جن سے ہر شخص نبردآزما ہے، واصف صاحب ان مسائل کے حل اتنے سادہ اور قابلِ عمل انداز میں پیش کرتے ہیں کہ شاعری کے سہل ممتنع کی طرح ہم یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ اتنا آسان اور قابلِ عمل حل ہمارے ذہن میں از خود کیوں نہیں آ گیا؟
 حضرت واصف علی واصف 15جنوری 1929 کو خوشاب میں پیدا ہوئے۔ 18 جنوری 1993 کو لاہور میں آپ کا وصال ہوا۔ واصف صاحب انگریزی کے استاد تھے۔ آپ نے سول سروس کے امتحان میں نمایاںکامیابی حاصل کی تھی لیکن آپ کی آزادانہ اور قلندرانہ طبیعت نے سرکاری ملازمت کو قابلِ اعتنا نہیں سمجھا۔ ابتداء میں آپ نے پنجابی کالج میں درس و تدریس کے فرائض انجام دئیے بعدمیں "لاہور انگلش کالج" کے نام سے اپنا خود مختار ادارہ قائم کیا۔
واصف صاحب کا اختصاص آپ کی قوت تاثیر ہے۔ میں نے واصف صاحب کو صرف پڑھا ہے اور کسی حد تک انہیں سنا ہے۔ ان کے الفاظ خواہ تحریری صورت میں ہوں یا تقریری، ایسا محسوس ہوتا ہے گویا سماعت میں نہیں سیدھے دل میں اُتر رہے ہوں۔ ان کے وصال کے بعد جب ان کی تحریر و تقریر اس قدر پر تاثیر ہے تو خداہی جانے جن لوگوں نے انھیں براہ راست سنا ہوگا، اُن کی قوتِ تاثیر کا مشاہدہ کیسا ہوگا؟تقریباً 2014 سے میں حضرت واصف علی واصفؒ کو پڑھ رہا ہوں۔ان دس برسوںمیں شایدہی کوئی ایسا دن گزرا ہو جب میں نے واصف صاحب کی کوئی چھوٹی بڑی تحریر نہیں پڑھی ہو۔ ان کے بعض اقوال ذہن و دل میں اس طرح پیوست ہو چکے ہیں کہ کبھی کوئی مسئلہ در پیش ہو تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کے اقوال رہنمائی کے لیے نظروں کے سامنے آ کھڑےہوئے ہوں۔ میں نے واصف صاحب کو نہیں دیکھا ہے لیکن ان کے اقوال و افعال کی روشنی میں ان کی شخصیت کا جو ہیولہ میرے سامنے ابھرتا ہے وہ اقبالؔ کےقلندر سے مشابہ نظر آتا ہے۔ وہی قلندر جو عمل لے لیے راغب کرتاہے۔ جو کہتا ہے کہ ؎
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
واصف صاحب کہتے ہیں کہ علم وہی ہے جو عمل میں آ سکے، ورنہ ایک اضافی بوجھ ہے۔ واصف صاحب عِلم پر عَمل کو ترجیح دیتے ہیں۔ وہ علم و عمل کی ترویج و اشاعت کے لیے محبت کو لازم قرار دیتے ہیں اورہر اُس رویے کو ترک کر نے کی ترغیب دیتے ہیں جو محبت کی راہ میں ہو حائل ہو۔ دنیا میں انسان کی ساری کاوشیں، ساری جدوجہدیں سکون کے حصول کےلیے ہوتی ہیں۔ بسا اوقات انسان کے پاس دولت بھی ہوتی ہے، اسےعزت و شہرت اور مقام و مرتبہ بھی حاصل ہوتا ہے لیکن اس کی زندگی سکون سے خالی ہوتی ہے۔ گھریلو رنجشوں اور گلے شکووں نے ہم سب کے ذہنوں میں اس قدر کدورتیں بھر رکھی ہیں کہ ہماری کوئی محفل گلے شکووں سے خالی نہیں ہوتی۔ حسین مجروح نے کیا ہی سچا شعر کہا ہے ؎
وہ قحطِ مخلصی ہے کہ یاروں کی بزم سے
غیبت نکال دیں تو فقط خامشی بچے
واصف صاحب زندگی کو پرسکون بنانے کے لیےگلہ اور شکوہ ترک کر دینے پر بار بار زور دیتے ہیں ۔ ایک موقع پر وہ کہتے ہیں:
"زندگی سے تقاضا اور گلہ نکال دیا جائے تو سکون پیدا ہو جاتا ہے۔ سکون اللہ کی یاد سے اور انسان کی محبت سے پیدا ہوتا ہے۔ نفرت اضطراب پیدا کرتی ہے۔ اضطراب اندیشے پیدا کرتا ہے اور اندیشہ سکون سے محروم کر دیتا ہے۔ محبت نہ ہو تو سکون نہیں۔"
ایک جگہ اپنے معتقدین کی محفل میں وہ ان سے وعدہ کرواتے ہوئے کہتے ہیں:
"اگر آپ وعدہ کریں کہ کسی انسان کا گلہ نہیں کریں گے تو آپ سے وعدہ ہے کہ آپ کو انسان کے روپ میں رحمان ملے گا، یہ پکی بات ہے کہ اگر انسان کا گلہ نہیں کرو گے تو انسان کے روپ میں راز ملے گا، اگر کبھی گلہ پیدا ہو جائے تو اپنے اللّٰه سے معافی مانگو کہ یا اللّٰه مجھے نیک کر دے اور میرے اندر گلہ نہیں پیدا ہونا چاہئے۔"
اسی محفل میں وہ کیسے پتے کی بات کہتے ہیں:
" آپ صرف اس آدمی کا گلہ کر سکتے ہو جس سے آپ کے خیال میں خدا ناراض ہے اور یہ فیصلہ صرف قیامت کو ہو گا کہ اللّٰه کس سے ناراض ہے۔ لہٰذا قیامت سے پہلے گلہ نہیں کرنا، تو آپ مجھ سے یہ پکا وعدہ کر لو کہ کسی کا گلہ نہیں کریں گے۔"
واصف علی واصف ؒ دوسرے صوفیوںکی طرح ظاہر کی بجائے باطن کی اصلاح پر زور دیتے ہیں۔ البتہ ان کے یہاں اصلاح باطن کے نام پر شریعت سے فرار کی راہ نہیں نکلتی۔ شرعی احکامات پر عمل پیرا ہوئے بغیر سلوک و تصوف کے سبھی مشاغل ان کے یہاں سعی لاحاصل ہیں۔ ایک موقع پر اپنے مریدین کو نماز باجماعت کی تلقین کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں
"بزرگوں کے جتنے بھی آستانے ہیں کوئی آستانہ بھی آپ نے ایسا نہیں دیکھا ہوگا جہاں مسجد نہ ہو۔ہم نے تو کوئی نہیں دیکھا۔آپ نے شائد کوئی دیکھا ہومگر نہیں۔لاہور میں داتا صاحب(رحمۃ اللّٰہ علیہ) کا آستانہ دیکھیں تو مسجد سارےلاہور میں سب سے اچھی ہے۔مسجد شریعت ہےآستانے کو طریقت سمجھ لو۔تو انہوں نے طریقت کو مختصر کیا ہے اور شریعت کو زیادہ کیا ا ہوا ہے۔ہر جگہ ایسا ہے۔میاں میر صاحب(رحمۃ اللّٰہ علیہ) کی مسجد دیکھ لوشاہ جمال(رحمۃ اللّٰہ علیہ) کی مسجد دیکھ لو۔تو یہ لوگ شریعت کا احترام کرتے تھے۔بلکہ اپنے آستانے سے پہلے مسجد بنایا کرتے تھے۔تو وہ شریعت کو violateنہیں کرتے۔"
واصف صاحبؒ شریعت کی روح تک پہنچنے کے لیے محبت اور عشق کی راہ پر چلنے کی تلقین کرتے ہیں۔ اقبالؔ نے کہا تھا کہ عقل و دل و نگاہ کا مرشد عشق نہیں ہو تو شرع و دیں بھی بتکدۂ تصورات بن جاتےہیں ۔ واصفؒ صاحب کہتے ہیں کہ اللہ کی محبت کا راستہ بندے کی محبت کے راستے سے ہو کر گزرتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اللہ جن انسانوں کو اپنے قریب رکھتا ہے انہی انسانوں کو ، انسانوں کے قریب کر دیتا ہے ۔ یعنی جو شخص اللہ کے ہاں جتنا محبوب ہو گا ، اس کے لئے انسانوں کی دنیا اتنی محبوب ہو گی ۔ اللہ کے ساتھ محبت کرنے والے انسانوں سے بیزار نہیں ہو سکتے اور انسان سے بیزار ہونے والے اللہ کے قریب نہیں ہو سکتے۔ایک موقع پر وہ کہتےہیں کہ انسان کا دِل توڑنے والاشخص اللہ کی تلاش نہیں کرسکتا۔ایک بار دورانِ گفتگو ابلیس کے لعین ہونے کی وجہ بتاتے ہوئے انھوںنےکہا کہ ابلیس نے خدا کو نہیں انسان کو ماننے سے انکار کیا تھا۔ واصف صاحب نے کیاہی معرفانہ بات کہی:
"اِبلیس کا معبود تو تھا، محبوب کوئی نہ تھا۔ لعین ہونے کے لیے اِتنا ہی کافی ہے۔ اِنسان کی محبت کے بغیر خدا کا سجدہ‘ اَنا کا سجدہ ہے۔ خدا اِنسان سے محبت کرتا ہے اور اِبلیس اور اُس کے چیلے اِنسان سے محبت نہیں کرتے۔ کیسے کر سکتے ہیں!اِنسان سے محبت وہی کر سکتا ہے‘ جس پر خدا مہربان ہو۔ خدا جب کسی پر بہت مہربان ہو‘ تو اُسے اپنے بہت پیارے محبوب ﷺکی محبت عطا کر دیتا ہے۔"
معاملات کی صفائی کے بغیر محبت اور عبادت کے دعوے جھوٹے ہیں۔ واصف علی واصفؒ معاملات کی صفائی پر اس قدر زور دیتےہیں کہ بسا اوقات گمان ہوتا ہے کہ وہ معاملات کی صفائی کو عبادت سے بھی مقدم تصور کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جو شخص وعدہ پورا نہ کرے اور نماز پڑھتا جائے تو وہ منافق بن جاتاہے۔ واصف علی واصفؒ کے نزدیک عبادت صرف ظاہری رسوم و قیود کا نام نہیں ہے بلکہ ان کے مطابق ہر وہ عمل عبادت ہے جو اللہ کے نزدیک محبوب ہے اور ہر وہ عمل فریب ہے جو اللہ کے نزدیک مردود ہے، خواہ وہ ظاہری اعتبار سے عبادت ہی کیوں نہ ہو۔ ان کا یہ قول کتنا معرفانہ ہے کہ "عبادت وہی ہے جو محبوب کو منظور ہو جائے ورنہ کروڑوں سال کی عبادت ایک سجدہ نہ کرنے سے ضائع ہوتے دیکھی ہے۔ "
واصف صاحبؒ کی تحریریں خاص و عام سب کے لیے یکساں تاثیر رکھتی ہے۔ بے قرار روحوں کےلیے ان کی تحریروں میں سامان قرار ہے۔ گنہ گاروں کےلیے ان کی تحریروں میں "لاتقنطوا" کی نوید ہے۔ آج جب ہر چہار جانب مایوسی ہے، خوف ہے، شکوک و شبہات ہیں، خوف ہے، ایسے میں واصف صاحب کی باتیںہمیں مایوسی کے حصار سے باہر نکال کر امید و یقین کی جنت میں داخل کرتی ہے۔ آپ کہتے ہیں:
"اللہ کی رحمت پر بھروسہ کرلیا جائے، اس کے فضل سے مایوسی نہ ہونے دی جائے تو خوف نہیں رہتا۔ کوئی رات ایسی نہیں جو ختم نہ ہوئی ہو کہ کوئی غلطی ایسی نہیں جو معاف نہ کی جاسکے۔ کوئی انسان ایسا نہیں جس پر رحمت کے دروازے بند ہوں ، رحم کرنے والے کا کام ہی یہی ہے کہ رحم کرے۔ رحم اس فضل کو کہتے ہیں جو انسانوں پر ان کی خامیوں کے باوجود کیا جائے اور یہ رحم ہوتا ہی رہتا ہے کسی کو خوف زدہ نہ کیا جائے تو خوف کا عذاب ٹل جاتا ہے۔"
واصف صاحبؒ عصر حاضرکے صوفی ہیں۔ عصری مسائل پر ان کی گہری نظر ہے۔ڈپریشن، غصہ، نفرت، تعصب، مسلکی انتشار،خونی رشتوں کی شکست و ریخت ،آج کے زمانے کے وہ مسائل ہیں جن سے ہر شخص نبردآزما ہے۔ واصف صاحب ؒ کی پوری زندگی کا ماحصل انسانی رشتوں سے وابستہ مسائل کی تفہیم و تعبیر تھی۔ رشتوں کے استحکام کے لیے انھوں نے محبت، شکر اور برداشت ان تین صفتوں کو بطور خاص اپنے اندر پیدا کرنے کی تلقین کی۔ انھوں نے خود پسندی،انا، غرور اور ہر وہ صفت جو انسان کو دوسرے انسان کی نظر میں ناپسندیدہ بناتی ہے، ترک کرنے پر زور دیا۔ ایک موقع پر آپ نے ارشاد فرمایا:
"اسلام میں داخل ہونے کے بعد اگر کوئی یہ دعویٰ کرے کہ وہ دوسرے مسلمانوں پر فوقیت رکھتا ہے’ تو اسے غلط سمجھیں۔ اپنی فضیلت کو فضیلت کے طور پر بیان کرنا ہی فضیلت کی نفی ہے’ انسان کی کم ظرفی ہے’ جہالت ہے۔ اصل فضیلت تو دوسروں کو فضیلت دینے میں ہے جیسا کہ علم میں دوسروں کو شامل کرنے کا نام علم ہے ورنہ علم سے دوسروں کو مرعوب کرنا اور احساسِ کمتری میں مبتلا کرنا جہالت ہے۔"
واصف صاحبؒ انسان کی عزت نفس کو ٹھیس پہنچانے کو گناہ کبیرہ سمجھتے تھے۔ انھوںنے نمائش سے بچنے اور سادہ زندگی گزارنے پر زور دیا۔ ان کے نزدیک وہ نمود و نمائش جس سے کسی کی غربت مجروح ہوتی ہو ناپسندیدہ ہے۔ ایک مقام پر انھوںنے کہا :
اگر نمائش کے بلب بند کر دو اور کسی غریب کے گھر میں ایک چھوٹا سا بلب جلا دو تو وہ نمائش سے بہتر ہے۔اگر تیرے گھر کی نمائش اس کے گھر کا چراغ بجھا رہی ہے تو میرا خیال ہے کہ اپنے گھر کی نمائش بند کر دو. تم اور کچھ نہ کرو صرف ایک کام کرو کہ دولت کا اظہار نہ کرو پھر غریب آدمی پریشان ہونا چھوڑ دے گا۔"
قطع تعلق اسلام میں انتہائی ناپسندیدہ عمل ہے۔ اللہ کے رسول نے تین دن سے زیادہ کسی مسلمان سے بات بند کرنے کو ناجائز قرار دیا۔ ہم میں سے ہر شخص قطع تعلق کی کراہت اور اس کی وعید سے واقف ہے لیکن المیہ ہے کہ ہم میں سے بیشتر لوگ اس گناہ کبیرہ میں ملوث ہیں۔ واصف صاحبؒ انسان کی نفسیات کا گہرا شعور رکھتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ رنجش کی حالت میں مذہبی اصول و ضوابط بالائے طاق رکھ دئیے جاتے ہیں۔ چنانچہ ایسے موقع پر وہ آیات و احادیث کی بجائے چند جملوں میں ایسی گہری بات کہہ جاتے تھے جو سیدھے دل پر چوٹ کرتی تھی۔ قطع تعلق کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے ایک بار انھوں نے کہا کہ "جس کا جنازہ نہیں چھوڑ سکتے اس سے تعلق کبھی مت توڑنا۔" اسی طرح ایک اور موقع سے آپ نے بڑا ہی بلیغ جملہ کہا۔ آپ نے فرمایا کہ جب "تعلق رکھنا ہے تو جھگڑا کس بات کا اور جب تعلق نہیں رکھنا تو جھگڑا کس بات کا۔"
مجھے افسوس ہے کہ میں نے واصف صاحبؒ کو نہیں دیکھا۔ اگر دیکھتا تو فرط عقیدت سے آپ کے دستِ مبارک کو بوسہ دیتا۔ میری زندگی پر آپ کے بے شمار احسانات ہیں۔ میرے ذہن کی منفی لہروں کو مثبت سمت عطا کرنے، میرے اندر کے اشتعال کو تھنڈا کرنے اور میرے اندر کے وحشی کو کسی حدتک انسان بنانے میں آپ کی تحریروں کا غیر معمولی کردار ہے۔ اللہ آپ کے درجات بلندفرمائے۔(آمین)۔ احمد ندیم قاسمی کا یہ شعر حضرت واصف علی واصفؒ کی ذات پر صد فیصد صادق آتا ہے ؎
مجھ کو دشمن کے ارادوں پہ بھی پیار آتا ہے
تیری الفت نے محبت مری عادت کر دی






--

ہفتہ, جنوری 04, 2025

احساس وآگہی کا نقیب انس مسرور انصاری کی کتاب عکس اور امکان پر ایک تاثراتی تحریر

احساس وآگہی کا نقیب 
انس مسرور انصاری کی کتاب عکس اور امکان پر ایک تاثراتی تحریر
Urduduniyanews72 
وصیل خان 

اس وقت میرے مطالعہ کی میز پر ٹانڈہ امبیڈکر نگر کے معروف شاعر وادیب انس مسرور انصاری کی تازہ ترین تجزیاتی تحریر پر مبنی کتاب " عکس اور امکان ,, موجود ہے جو بیشتر ادبی و تحقیقاتی مضامین پر مشتمل ہے ۔ میری عادت رہی ہے کہ میں کسی کتاب کا نہ تو طائرانہ مطالعہ کرتا ہوں نہ ہی سرسری اظہار خیال بلکہ  پوری کتاب کو بہ نظر عمیق پڑھنے کے بعد ہی اپنی رائے اور اظہار خیال کیلئے چند شکستہ  الفاظ جمع کرپاتا ہوں۔ کسی کی  بے جا تعریف وتو صیف ، مدح سرائی اور خواہ مخواہ کی  تنقیص کو بھی اللہ نے  میری فطرت سے دور رکھا ہے ۔  عام  روش سے مکمل انحراف اور تنقید و تنقیص میں فرق کرتے ہوئے خالص علمی سطح پر کلام کرتا ہوں ۔ اللہ اسی نہج کو قائم رکھے ۔ 
کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق 
نے آبلہ مسجد ہوں نہ تہذیب  کا فرزند ۔ 
انس مسرور صاحب سے میری واقفیت اس وقت سے ہے جب انہوں نے جولانگاہ ادب میں اولین  قدم رکھا تھا لیکن وہ دن اور آج کا دن نہ رکے نہ تھمے  نہ ہی تھکن سے سمجھوتہ کیا آج بھی بساط ادب پر پورے طمطراق سے نہ صرف  متمکن ہیں بلکہ آس پاس کے ادبی حلقوں میں  معتبر درجے پر فائز ہیں ۔ اب تک نثر ونظم پر مشتمل ان کی متعدد کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں ۔  انس مسرور انصاری صاحب ایک کہنہ مشق شاعر وادیب ہیں ،وہ ادب کی مختلف النوع اصناف پر نہ صرف طبع آزمائی کرتے ہیں بلکہ ان کی بیشتر کاوشات معیارو اعتبار کے درجہ پر فائز نظر آتی ہیں ۔ انس مسرور صاحب کی  شعری و نثری تخلیقات تصورات وجذبات کے امتزاج کا ایسا نگارخانہ ہے جس میں زندگی کے مختلف رنگ جھلکتے ہیں ،انسانی عظمت  میں آپ کا یقین غیر متزلزل  ہے ان کے یہاں خالی خولی جذباتی انداز نہیں بلکہ زندگی کے ٹھوس حقائق کا اظہار صاف ونمایاں نظر آتا ہے ۔ روایات کا احترام ان کی تخلیقات کا نمایاں عنصر تو ہے ہی ساتھ ہی وہ نیرنگ زمانہ کی بنتی بگڑتی صورتحال پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں اور مثبت حل بھی  تلاش کرلیتے ہیں ۔ ماضی اور حال کے دھندلکوں میں وہ نہ خود ایک تابناک مستقبل دیکھ رہے ہیں بلکہ اپنے قاری کو بھی اس تابناکی کا مشاہدہ کراتے ہیں ۔ اندھیروں کی گہری تہوں کا سینہ چاک کرکے اجالوں کو دیکھ لینا اور موسم خزاں میں بہار کا مشاہدہ بڑی بات ہے ، مزید یہ کہ وہ جس اسلوب میں قاری سے مخاطب ہوتے ہیں اس کی کشش وسادگی دلوں کو مسخر کرتی چلی جاتی ہے جس کا سبب یہ ہے کہ ان کا احساس ان کے  تخلیقی وجدان سے پوری طرح مربوط و منسلک ہے ۔ 
 عکس اور امکان ان کی تازہ ترین نثری تصنیف ہے جس میں کل بارہ مضامین شامل ہیں اولین مضمون تعلیقات نعت پر ہے جسے خالص تحقیقی انداز میں تحریر کیا گیا  ہے جس میں صنف نعت کے متعدد گوشوں پر مدلل اور موثر روشنی ڈالتے ہوئے قرآن واحادیث اور اس میدان کی عبقری شخصیات کے حوالے سے سیر حاصل بحث کی گئی ہے ۔ کتاب سے ایک اقتباس ہم یہاں نقل کررہے ہیں جس سے زبان وبیان پر گرفت کے ساتھ ان کی فکری رفعت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ 
" قوموں کے عروج وزوال کی تاریخ بتاتی ہے کہ دنیا میں کسی بھی قوم کو عروج صرف اس کی علمی برتری اور فوقیت کی بنیاد پر حاصل ہوتا ہے ۔ قرون وسطیٰ میں عرب مسلمانوں کو زندگی کے ہر میدان میں جو برتری اور تفوق حاصل تھا وہ صرف ان کی علمی برتری کا نتیجہ تھا۔ اس زمانہ میں مسلمان نہ صرف عقلی علوم میں یگانہ و یکتا تھے بلکہ دینی علوم کے امام بھی وہی تھے ۔ "
   دوسرا مضمون پروفیسر محمود الٰہی زخمی کی ادبی تحریکات و خدمات اور مولانا آزاد کے جریدہ الہلال کے تجزیاتی مطالعے پر مشتمل ہے ۔ اسی طرح ابوعلی حسن ابن اللہیشم اور یگانہ روزگار طبیب فلسفی شیخ بوعلی سینا کی فنی تحریکات ،ایجادات و اختراعات پر موثر گفتگو کی گئی ہے ۔ کچھ مضامین عصری ادباء و شعراء کی  شعری و نثری تخلیقات پر مشتمل ہیں جن میں انور جلال پوری ، شرافت حسین ،ڈاکٹر امین احسن ، احمد شبلی ، ذکی طارق ، ڈاکٹر ایم  نسیم اعظمی  اور مولانا شمشاد منظری شامل ہیں ۔ آج کے اس قحط الرجال میں خصوصاََ اردو ادب جس طرح اکھڑی  اکھڑی سانسیں لے رہا ہے اس طرح کی کتابیں یقیناً حیات بخش ثابت ہوسکتی ہیں ، انس مسرور انصاری کی یہ کاوش قابل قدر ہے ،ہم ایوان ادب میں اس خیر مقدم کرتے ہیں ۔ شائقین یہ کتاب قومی اردو تحریک  فاؤنڈیشن،سکراول ،اردو بازار ،ٹانڈہ ضلع امبیڈکر نگر  224190 یوپی سے حاصل کرسکتے ہیں۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...