Powered By Blogger

پیر, فروری 03, 2025

لے آئ زندگی تو انبار غم کہاں سےیہ کب کی دشمنی تھی اس جان ناتواں سے، کاظم رضا ۔

لے آئ زندگی تو انبار غم کہاں سے
یہ کب کی دشمنی تھی اس جان ناتواں سے، 
کاظم رضا ۔
Urduduniyanews72
ضیائے حق فاؤنڈیشن کی جانب سے صوبۂ بہار کے تین شاعروں کے اعزاز میں محفل اعزازیہ ومشاعرہ کا انعقاد ۔

پٹنہ پھلواری شریف 03/فروری 2025 ( پریس ریلیز:محمد ضیاء العظیم ) صوبہ بہار کی مشہور سرزمین۔۔ ۔۔ سے تعلق رکھنے والے تین مشہور ومعروف شاعر رہبر گیاوی المعروف چونچ گیاوی ،مظہر وسطوی اور ڈاکٹر نصر عالم نصر کے اعزاز میں صابر سہرساوی کی صدارت میں مورخہ 02/فروری 2025 بروز اتوار کو ایک خوبصورت محفل اعزازیہ ومشاعرہ مشاعرہ کا انعقاد ہوا، 
تقریب کا اہتمام محمد ضیاء العظیم (ٹرسٹی ضیائے حق فاؤنڈیشن )ڈاکٹر صالحہ صدیقی چئیر پرسن ضیائے حق فاؤنڈیشن) ڈاکٹر نصر عالم نصر (رکن ضیائے حق فاؤنڈیشن) اور ان کی ٹیم نے کیا، واضح رہے کہ ضیائے حق فاؤنڈیشن ایک سماجی ،فلاحی اور ادبی تنظیم ہے جو دیگر ادبی خدمات میں سرگرم رہنے کے ساتھ ساتھ تعلیمی کاموں میں بھی پیش پیش رہتی ہے،اس سے قبل بھی کئی اہم شعراء وادباء وصحافی کو ان کی علمی وادبی خدمات کی بنا پر اعزازات سے نواز چکی ہے، ٹرسٹ خصوصیت کے ساتھ ان شعراوادبا کو تلاش کرتی ہے جو ایک اچھے فنکار ہونے کے باوجود بھی دنیائے ادب انہیں نظر انداز کرتی ہے اور وہ گمنامی کی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں، انہیں تلاش کرکے ان کے علوم وفنون سے دنیائے ادب کو متعارف کراتی ہے ، مذکورہ فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام شہر پٹنہ کے قلب میں واقع مسلم اکثریتی علاقہ پھلواری شریف میں ایک ادارہ مدرسہ ضیاء العلوم طلبہ وطالبات کو تعلیم وتربیت سے آراستہ وپیراستہ کر رہا ہے ۔
 پروگرام کی نظامت مشہور ومعروف شاعر سید رضوان حیدر اور کاظم رضا نے کی، پروگرام کی شروعات قاری عبد الواجد عرفانی نے تلاوت قرآن پاک سے کیا ، پھر ڈاکٹر نصر عالم نصر نے اپنے مخصوص لب ولہجہ کے ساتھ نعت پاک سے محفل کو خوبصورت بنایا ۔ پھر محمد ضیاء العظیم نے ضیائے حق فاؤنڈیشن کے تعارف کے ساتھ ساتھ اعزازات سے نوازنے والے تینوں شعراء کا تعارف کرایا ۔
اس کے بعد ناظم مشاعرہ نے نظامت کی ذمہ داری سنبھالتے ہوئے تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کیا اور ضیائے حق فاؤنڈیشن کا مختصر تعارف میں انہوں نے کہا کہ بہت کم وقتوں میں یہ فاؤنڈیشن نے کارہائے نمایاں انجام دیا اور دے رہا ہے، اس کے بعد تینوں شعرا کو ان کی علمی وادبی خدمات کے اعتراف میں ضیائے حق فاؤنڈیشن کی جانب سے شال اور سند سے نوازا گیا ۔
پھر ایک خوبصورت مشاعرہ کا انعقاد ہوا۔ مشاعرہ میں پڑھے گئے شعراکے کلام سے چند اشعار ۔
مظہر وسطوی 
فصل گل، رنگ چمن، باد صبا کا مطلب، 
ہر کلی کو ہے پتہ ناز وادا کا مطلب ۔ 
نذر فاطمی 
ہمارے ساتھ ہی چلنے کی ضد اگر ٹھہری 
صعوبتوں میں بھی تم مسکرا سکو تو چلو۔
ڈاکٹر نصر عالم نصر 
اے رب کائنات ترا دل سے شکریہ، 
لاکھوں میں انتخاب کے قابل بنا دیا ۔
چونچ گیاوی 
محفل میں بھیڑ اب تو متشاعروں کی ہے،
 ہے شاعروں کے واسطے محدود دائرہ، 
مرنے کا انتظار تھا بے صبری سے اسے، 
ابا جو مر گئے تو بنی بیٹی شاعرہ ۔
وارث اسلام پوری 
کوئی بھی وفاؤں کا خریدار نہیں ہے، پہلی سی یہاں رونق بازار نہیں ہے ۔
افتخار عاکف 
پھوٹ پھوٹ کر رویا دل تب میں نے یہ غور کیا 
جان بوجھ کر K. K. D نے عاکف کو اگنور کیا۔
محمد ضیاء العظیم 
ممکن ہے وہ مجھ کو بھول کر رہ لے گا 
اچھا ہے پھر مجھ کو بھی آسانی ہے۔
سلمان احمد ساحل 
نظم "پلکوں کی اولتی" 
اسرار عالم سیفی 
متاع دین بھی اس میں حیات دنیا بھی، 
عجب ہے رنگ طرحدار شاعری کرنا ۔
چودھری سیف الدین سیف 
بے حجابانا تو اے زیست جدھر جاتی ہے، 
ہر نظر میں تری تصویر اتر جاتی ہے ۔
کاظم رضا 
صحن حرم سے اٹھے یا کوچۂ بتاں سے ، فتنہ رہے گا فتنہ چاہے جگے جہاں سے ۔
ڈاکٹر شمع ناسمین نازاں 
ناز خود پر کیوں نہ ہو نازاں کہ اب 
شاعری ہونے لگی ہے بہتر بہت ۔
سید رضوان حیدر 
یہ فروائ نعمت یہ نوازش رضوان، 
شاعری کچھ نہیں انداز ہے شکرانے کا ۔
افسر جمال افسر 
اردو مری تہنیت ہے، پہچان ہے اردو، 
اردو ہے مری جان، مری شان ہے اردو ۔
اثر فریدی 
اکڑ رہے ہو حقیقت تمہیں نہیں معلوم، 
حیات اتنا کہاں اختیار دیتی ہے ۔
معین گریڈیہوی 
رہنے تو دیجیے سدا چین وسکون سے، نفرت کی آگ آپ لگایا نہ کیجیے ۔
خالد عبادی 
اندھوں کا فرمان یہی ہے 
کام نہ لیجیے بینائی سے ۔
ظفر صدیقی 
مظلوموں نے چھوڑ دی امید انصاف، اب تو جانبدار عدالت ہوتی ہے ۔
آخر میں صدر محترم صابر سہرساوی نے اپنی شاعری کے ساتھ اپنے تاثرات کا اظہار کیا، اعزازات سے نوازے گئے نے تینوں شاعروں کے کلام پر اور ان کی خدمات پر گفتگو کرتے ہوئے انہیں مبارکبادی پیش کی ۔ اور کہا کہ میں ضیائے حق فاؤنڈیشن کی سرگرمیوں سے بخوبی واقف ہوں، اس تنظیم نے ان تینوں شعراء کا حسن انتخاب کیا اور ان کی خدمات کو سراہتے ہوئے ان کی بہترین حوصلہ افزائی کی ، یہ تنظیم اپنے محاذ پر بھر پور کارہائے نمایاں انجام دے رہی ہے، آج مجھے یہاں بہت خوشی محسوس ہورہی، یہ محفل میرے لئے یادگار ثابت ہوا ، آپ سب کی اس بے لوث محبت کو میں تا عمر یاد رکھوں گا، پھر ضیائے حق فاؤنڈیشن کے برانچ اونر محمد ضیاء العظیم نے تمام مہمانان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ہماری یہ خوش بختی ہے کہ ہماری آواز پر آپ سب اپنی ہزارہا مصروفیات کے باوجود بھی یہاں آنے کی زحمت گوارا کی، ہم پروردگار کا شکر ادا کرتے ہیں اور آپ تمام مہمانان کا شکریہ، خصوصاً ڈاکٹر نصر عالم نصر ،ڈاکٹر صالحہ صدیقی چئیر پرسن ضیائے حق فاؤنڈیشن کا کہ آپ دونوں کی باہمی تعاون سے ہی یہ پروگرام منعقد ہوا، اب ہم سب کی کوشش ہو کہ اردو زبان وادب کی تعلیم سماج ومعاشرہ کا ہر ایک ایک بچہ حاصل کرے، پڑھے، سیکھے، اور بولے، ہماری تہذیب وثقافت اسی زبان کے ذریعہ زندہ وتابندہ رہ سکتی ہے، ہم میں سے ہر ایک فرد ایک ذمہ داری کے ساتھ اس زبان کی ترویج واشاعت میں کوشاں رہے، پھر صدر محترم کی اجازت سے محفل کے اختتام کا اعلان ہوا ۔
پروگرام میں مدرسہ ضیاء العلوم کے طلبہ سمیت پھلواری شریف کی معزز شخصیات شامل رہے ، 
اس پروگرام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں خصوصی طور پر ضیائے حق فاؤنڈیشن کی چیئرپرسن واسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو سمستی پور کالج (متھلا یونیورسٹی) ڈاکٹر صالحہ صدیقی، ڈاکٹر نصر عالم نصر، محمد ضیاء العظیم کا نام مذکور ہے جن کی محنت وکاوش کی وجہ سے یہ پروگرام پایہ تکمیل تک پہنچ سکا، 
جبکہ عمومی طور پر فاطمہ خان، زیب النساء، شمیمہ بانو، فقیھہ روشن، قاری ابوالحسن،قاری عبدالواجد، مفتی نورالعظیم، حافظ ثناء العظیم، عفان ضیاء، حسان عظیم کا نام مذکور ہے۔

ہفتہ, فروری 01, 2025

شا ہ ولی اللہ انسٹی ٹیو ٹ نئی دہلی کے زیر اہتمام شائع شدہ کتاب

شا ہ ولی اللہ انسٹی ٹیو ٹ نئی دہلی کے زیر اہتمام شائع شدہ کتاب
Urduduniyanews72
 ’’شاہ ولی اللہؒ اور تصوف‘‘کی رسم اجراء اور مشاہیر علماء و دانشوران ملت کا اظہار خیال 

۱/فروری ۲۰۲۵ءنئی دہلی
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کے نظریہ تصوف وسلوک کی تفہیم و تعبیر کے لیے ایک رہنما کتاب ہے جس میں تصوف کی ابتداء و ارتقاء اور تمام سلا سل و مناہج اورطرق صوفیاء کا تفصیلی بیان موجود ہے، جس کے مولف معروف عالم دین مولانا مفتی عطاء الرحمٰن قاسمی ہیں، ان خیالات کااظہارپدم شری پروفیسر اختر الواسع نے ۳۱جنوری ۲۰۲۵ کوتسمیہ آڈیٹوریم اوکھلا،نئی دہلی میں ’’شاہ ولی اللہ ؒاور تصوف‘‘ کی رسم اجراء کے موقع پر کیاہے، جسکی صدارت ڈاکٹر سید فاروق صاحب ڈائرکٹر ہمالیہ ڈرگس نے کی اور جبکہ نظامت کے فرائض جناب شبیہ احمد خاں صاحب سابق سی یی او حج کمیٹی اف انڈیا نے بحسن و خوبی سر انجام دیا، شاہ ولی اللہ انسٹی ٹیو ٹ کاتعارف کراتے ہوئے مولانا عطاء الرحمٰن قاسمی نے کہا کہ شاہ ولی اللہ انسٹی ٹیوٹ کے تحت الحمد للہ اب تک ۵۰ سے زیادہ کتا بیں شائع ہو چکی ہیں،خصوصیت سے الاشباہ والنظائر فی القرآن الکریم( مخطوطہ مفسر قرآن شیخ مقاتل بن سلیمان ؒکی خاص اشاعت ہے)پروفیسر شہپر رسول وائس چیئرمین دہلی اُردو اکادمی نے بڑے جامع انداز میں حضرت شاہ ولی اللہ محدثؒ کا ذکر کیا اور’’شاہ ولی اللہ اور تصوف‘‘ کی اشاعت پر مفتی عطاء الرحمن قاسمی کو مبارک باد دی اور ڈاکٹر سید فاروق صاحب کے برادر خورد جناب فرخ احمد نے اپنے کلام حمد و ثناء سے مجلس کو محظوظ کیا، پروفیسر خالد محمودسابق صدر شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ نے کہا کہ شاہ ولی اللہ انسٹی ٹیوٹ فکر ولی اللٰہی کی اشاعت وترویج کا ایک بڑا مرکز ہےاور ایک چھوٹی سی جگہ سے بڑا علمی کام ہوتا رہا ہے، جس کا نمونہ یہ اہم کتاب ہے، ڈاکٹر ظفر الاسلام خاں سابق چیئرمین دہلی اقلیتی کمیشن نے کہا کہ شاہ ولی اللہ انسٹی ٹیو ٹ کا قیام ۱۹۸۶ء میں ہوا اور میں مولانا عطاءالر حمن قاسمی کو تب ہی سے جانتاہوں اور انکی تحقیقی کاموں سے واقف ہوں اور انہوں نے مزید کہا کہ تصوف وسلوک سے منسلک بہت سے صوفیاء ومشایخ نے اعلاء کلمۃ اللہ کا حق اداکیا ہے اور اپنے اپنے ملکوں میں سماجی انقلاب برپا کیا ہے، مشہور دانشورخواجہ محمد شاہد ریٹائرڈ آئی اے ایس نے بھی شاہ ولی اللہ انسٹی ٹیوٹ کے علمی کاموں کی تحسین کی اور اسکے مجوزہ منصوبہ کی تکمیل کی اپنی دیرینہ خوا ہشن ظاہر کی،معروف سماجی رہنما جناب آصف حبیب صاحب نے کہا گرچہ میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒسے زیادہ واقف نہیں ہوں لیکن وہ ایک بڑے صوفی اور برصغیر میں اسلام صو فیاء و مشایخ کے ہی ذریعہ آیا ہے، مشہور شاعر وادیب ڈاکٹر سجاد احمد صاحب نے بھی اپنے کلام سے نوازا اور انھوں نے کتاب کی تعریف وتوصیف کی اور شاہ ولی اللہ انسٹی ٹیوٹ کے علمی کاموں کو سراہااور شا ہ ولی اللہ انسٹی ٹیوٹ کے سر پرست رہے ڈاکٹر اخلاق الر حمٰن قدوائی مرحوم کے صاحبزادے جناب مونس الر حمٰن قد وائی نےشاہ ولی اللہ انسٹی ٹیو ٹ کے تر جمان و ارگن ’’ماہنامہ براہین‘‘ کی پابندی اشاعت پر خوشی کا اظہار کیا اور کہاکہ مفتی عطاءالر حمن قاسمی کی محبت کی وجہ سے حا ضر ہو ا کرتاہوں۔آخر میں ڈاکٹر سید فاروق صاحب چیئرمین تسمیہ ٹرسٹ نےاپنے صدارتی خطبہ میں بڑے موثر ناصحانہ کلمات سے نوازا اور اپنے اشعار سے سامعین کو محظوظ کرایا اور خواجہ محمد شاہد صاحب نےڈاکٹر سید فاروق صاحب کی جانب سے اس ا جرائی تقریب کے انعقاد اور ہم طعامی کا شرف بخشنے کا شکریہ اداکیا ، اسکے قابل ذکر شرکاء میں میجر عبد الحفیظ، جمال محمد خاں،، سہیل احمد صدیقی، سید محموداختر، عزیزالرحمن، ڈاکٹر انشاء تابش،ڈاکٹر خالد عثمانی شاہین باغ، ڈاکٹر خوش نور، ڈاکٹر بہار عالم، فرخ احمد دہرادون ،فرخ احمد صدیقی دہلی ،قاری محمد عرفان اور حافظ محمد عرفان دہلوی وغیرہ تھے۔


Issued by
Shah Waliullah Institute, New Delhi

پیر, جنوری 27, 2025

جمہوری اقدارکی حفاظت __جمہوری اقدارکی حفاظت __

جمہوری اقدارکی حفاظت __
جمہوری اقدارکی حفاظت __
Urduduniyanews72 
ایم رحمانی 
۷۶ جشن یوم جمہوریہ 
مدرسہ اخلاق العلوم نیوحیدرگنج کمپیبل لکھنؤ 
==============================
ہر سال کی طرح امسال بھی جشن منایا جائے گا ، ہندوستان کی تہذیبی وثقافتی جھانکیاں پیش کی جائیں گی ، دفاعی میدان اور اسلحوں کی دوڑ میں ہماری جو حصولیابیاں ہیں، اس کا مظاہرہ کیا جائے گا، شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کیا جائے گا ، پورا ملک جشن میں ڈوب جائے گا ، ترنگے جھنڈوں کے ساتھ مدرسوں ، اسکولوں اور اداروں میں رنگا رنگ تقریب ہوگی ، طلبہ وطالبات کو انعامات سے نوازا جائے گا ، سیاسی حضرات کی جانب سے ہندوستان کے مجاہدین آزادی کا گن گان کیا جائے گا ، اور لمبے چوڑے بیانات اور وعدوں کے ذریعہ سیدھے سادے عوام کو لبھانے کی کوشش کی جائے گی او رایسا پہلی بار نہیں ہوگا ، ہر سال ایسا ہی ہوتا ہے 26 جنوری گذرا اور ہم سب یہ بھول جاتے ہیں کہ جمہوریت کے لفظی نعروں کی کوئی حقیقت نہیں ہے ، اصل ہے جمہوری اقدار کا تحفظ؛ جس سے ملک دور سے دور ہوتا جا رہا ہے، ہم نے جمہوریت کا مطلب صرف عوام کی حکومت ، عوام کے لیے عوام کے ذریعہ سمجھ لیا ہے اور ہر پانچ سال پر انتخابات میں سارے حربے استعمال کرکے حکومت پر جو قبضہ کیا جاتا ہے ، اسے ہم جمہوری طریقہ کار سے تعبیر کرتے ہیں اور خوب خوش ہوتے ہیں کہ ہمارا ملک جمہوری اعتبار سے مضبوط ہے، یہاں عوامی حکومت ہے اور اس قدر مضبوط ہے کہ پڑوسی ملکوں کی طرح یہاں مار شل لا لگانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی اور ملک تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔
یقینا ترقی کر رہا ہے ، آزادی سے قبل جن گھروں میں سائیکل دستیاب نہیں تھی، آج موٹر سائیکل اس گھر میں موجود ہے اور بعض گھروں میں تو ہر آدمی کے لیے موٹر سائیکل دستیاب ہے، چار چکے کی بھی کمی نہیں ہے، کھانے کے لیے آزادی سے قبل عموما عام لوگوں کے لیے باجرہ ، جوار اور جوہی مہیا تھا ، گیہوں کی روٹی شاید باید گھروں میں ہر روز مہیا ہو پاتی تھی، دھوتی اور کپڑے بھی پورے طور پر فراہم نہیں تھے، زمینداروں کے ظلم وستم نے عام لوگوں کا جینا دو بھر کر دیا تھا ، بعض حرکات تو انسانیت کو ذلیل کرنے والی ہوتی تھیں، جو تے پہن کر ان کے دروازے سے گذرا نہیں جا سکتا تھا ، سواری پر بیٹھ کر کوئی گذر جائے تو قیامت آجاتی تھی ، لوگ بندھوا مزدوروں کی طرح ان کے یہاں کام کرتے اور کرتے کرتے مر جاتے تھے، یہ معاملہ نسل در نسل چلتا تھا ، ایسے لوگوں کی اپنی مرضی نہیں ہوا کرتی تھی ، سارا کچھ مالک کی مرضی کے تابع ہوتا تھا ، تھوڑی سی غلطی اور چوک پر چمڑی ادھیڑ دی جاتی تھی ، اور عفو ودر گذر ، رحم وکرم کا خانہ خالی رہتا تھا ، انسانیت سسک رہی تھی ، کسان خود کشی کر لیا کرتے تھے، پوس کی رات او رجاڑے کی یخ بستہ سردی میں کھیتوں کی رکھوالی کرتے کرتے عمر گذر جاتی تھی۔
ملک آزاد ہوا ، زمینداری ختم ہوئی، جمہوری دستور نافذ ہوا تو ملک کے عوام نے اطمینان کا سانس لیا او ربہت کچھ منظر بدلا ، انسانی قدروں کی پامالی پر روک لگی ، بندھوا مزدوری کا رواج ختم تو نہیں ہو سکا ، کم ضرور ہوا، کھیت کسانوں کا ہو گیا، ان کی بھی خود کشی کے واقعات سامنے آنے کے با وجود حالات پہلے سے اچھے ضرور ہیں۔
 اس جمہوری نظام کی وجہ سے حکومتیں بدلتی رہی ہیں، الگ الگ منشور اور مینو فیسٹو پر کام شروع ہوا ، جو حکومت آئی اس نے اپنے نظریات ملک پر تھوپنے کی کوشش کی ، اس کے نتیجے میں بھی بہت کچھ بدلا اور بدلتا چلا گیا ، کسی نے گھوم کر دیکھنے کی کوشش نہیں کی کہ سلطانی ٔجمہور میں، جمہوری اقدار کا جنازہ کس طرح نکلا اور نکلتا چلا گیا ، سیاسی پارٹیوں کو حکومت عزیز تھی ، جہاں سے ملے اور جس طرح ملے اور جتنے اقدار کو دفن کرکے ملے۔ سوا نہیں جمہوری اقدار کے تحفظ کی فکر کبھی نہیں ہوئی۔
 اس صورت حال نے جمہوری اقدار کو پامال کیا ، جمہوریت میں صرف حکومت کاہی عوامی ہونا ضروری نہیں ہے ، عوام کی خواہشات ، امنگیں ، ان کے حقوق کا تحفظ ، مذہب پر چلنے کی آزادی سب کا خیال رکھنا ضروری ہے، بد قسمتی سے بی جے پی کی مرکزی حکومت نے ہر سطح پر ان اقدار کو تہس نہس کر کے رکھ دیا ہے، مہنگائی بڑھتی جا رہی ہے ، گو رکچھا، لو جہاد، مندر تعمیر اور اب اس کے افتاح کے نام پر رواداری کا ماحول گذشتہ سالوں میں تیزی سے ختم ہوا ہے، نوٹ بندی اور جی ایس ٹی نے عوامی زندگی کو اس قدر متاثر کیا ہے کہ چھوٹے کاروباری تجارت کے اعتبار سے ختم ہو چکے ہیں،طویل عرصہ گذر جانے کے بعد بھی اب تک وہ اپنے کاروبا ر کو پھر سے کھڑانہیں کر پائے ہیں۔ گاندھی جی اس ملک میں عدم تشدد اور اہنسا کی علامت کے طور پر مختلف جگہوں پر تصویری شکل میں موجود تھے، انہیں بھی دیش نکالا دینے کی تیاری زوروں پر چل رہی ہے ، کئی جگہ سے انہیں ہٹایا جا چکا ہے اور روپے پر بھی کتنے دن نظر آئیں گے، کہنا مشکل ہے، نسلی اور مذہبی بنیادوں پر ملکی باشندوں کو عصبیت کا سامنا ہے اور جان بوجھ کر دلتوں ، مسلمانوں اور لسانی اقلیتوں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے ، بحالیوں میں اور اعلیٰ عہدوں پر تقرریوں میں بھی سرکار سینئرٹی کو نظر انداز کرکے پرانے لوگوں کی حوصلہ شکنی کر رہی ہے ، 
 یہ مکمل حالات نہیں ، حالات کا ہلکا سا اشاریہ ہے ، اس کو پھیلا یا جائے تو بات دیر تک چلے گی اور دور تک جائے گی، کہنا صرف یہ ہے کہ ملک میں جس طرح جمہور ی اقدار پامال ہو رہے ہیں اور کسی کو اس کی فکر نہیں ہے، ایسے میں جشن جمہوریت محض ایک رسم ہے ؛ چونکہ یہ رسم ملکی دستور سے محبت کی علامت سمجھا جاتا رہا ہے، اس لیے ہر سطح پر اس جشن کا اہتمام کرنا چاہیے اور پورے جوش وخروش کے ساتھ کرنا چاہیے ، لیکن یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ جمہوری اقدار کے تحفظ کی ضرورت پہلے سے آج کہیں زیادہ ہے، ملک کے سیاسی رہنماؤں کو اس کے لیے اقدام کرنا چاہیے ، یہ ملک سے محبت اور وفاداری کا تقاضہ بھی ہے اور جمہوری دستور کے تحفظ ؛بلکہ مجاہدین آزادی کو خراج عقیدت پیش کرنے کا بہترین طریقہ بھی۔
 چلے چلو کہ ابھی وہ منزل نہیں آئی

اتوار, جنوری 26, 2025

مولاناوحکیم امین نہیں رہے

مولاناوحکیم امین نہیں رہے           
Urduduniyanews72 
گذشتہ کل جمعہ کی نماز کے بعداستاد گرامی قدر جناب حضرت مولانا امین آزاد صاحب قاسمی وندوی کا انتقال ہوا، آج بروز شنبہ بعد نماز ظہر تدفین ہوگئی ہے، باری تعالٰی حضرت والا کے درجات بلند فرمائے، آمین 
حضرت کےانتقال کی خبر سب سے پہلے میرے ابو جناب مولانا منصور عالم صاحب نے مجھے دی اور یہ بتلایاکہ: مولانا مرحوم سے میرے دیرینہ تعلقات رہے ہیں، تقریبا چالیس سالہ رفاقت رہی ہے،وہ بڑے ذہین اور بہترین استاد تھے، عربی زبان وادب سےبڑا گہرا لگاؤ تھا،مولانا مرحوم نےدارالعلوم ندوةالعلما سے عالمیت کے بعد ازہر ہند دارالعلوم دیوبند سے بھی دورہ حدیث کی تکمیل کی، پھر طب میں وہیں سے فضیلت کی سند حاصل کی،مدرسہ اسلامیہ یتیم خانہ ارریہ میں تدریسی زندگی کی شروعات ۱۹۷۵ءمیں ہوئی،زندگی بڑی سادہ تھی، وقت کے بڑے پابند تھے، پیدل اپنے گھر بیرگاچھی سے مدرسہ تقریبا پانچ کلومیٹر کی مسافت طے کر کے روزانہ مدرسہ وقت پر پہونچ جایا کرتے تھے۔مولانا مرحوم کوفن طب میں بڑی مہارت حاصل تھی۔ درس وتدریس کے ساتھ خارجی اوقات میں بیماروں کاعلاج ومعاجلہ بھی کیاکرتے۔ ۲۰۱۴ء میں جب مدرسہ سے سبکدوشی ہوگئےتو یکسوئی کے ساتھ اپنے مطب ارریہ اور گھر میں بیمار و پریشان حال خلق خدا کی خدمت میں مصروف رہنےلگے،عوام وخواص کو مولانا سے بڑا نفع پہونچ رہا تھا، ابھی کچھ دنوں سے بستر علالت پر تھے،افسوس کہ اب ہمارے درمیان موصوف نہیں رہے۔
والد صاحب ہی نہیں بلکہ آج جنازہ کی نماز میں بھی مجمع عام نے حضرت کی ان خدمات کا برملااعتراف کیا ہے۔واقعی حضرت کی وفات بیرگاچھی گاؤں ہی نہیں بلکہ خطہ سیمانچل کے لئےایک بہت بڑاخلا اور عظیم خسارہ ہے۔ جمعیت علماء ارریہ کے جنرل سکریٹری جناب مفتی اطہر القاسمی صاحب نے نماز جنازہ سے پہلے اپنی تقریر میں یہ بات کہی ہے کہ انتقال سے کچھ دیر پہلے بھی حضرت نے سکٹی سے آئے ہوئے بیماروں کے نبض پر ہاتھ رکھ کردوا تشخیص کی تھی،پھر چند لمحہ میں ہی جان جان آفریں کے حوالہ کردی۔ لواحقین سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ڈاکٹر صادق صاحب پورنیہ سے حضرت کاعلاج چل رہا تھا، مولانا وہاں جانے کے تیار نہیں تھے، گھر والوں کی ضد پر چلے تو گئے مگر انہیں اپنی تشخیص کی ہوئی دواؤں پر اصرار تھا،گویا زبان حال سے حضرت یہ کہ رہے ہوں کہ;
 مسیحا کر نہ اب اچھا ہمیں بیمار رہنے دے 
مرض ہےعشق کااسکےعوارض خوبصورت ہیں۔ 
مولانا کے ہاتھ پر اللہ نے بڑی شفا رکھی تھی، دور دراز سے بلکہ مختلف اضلاع سے لوگ مولانا کے پاس آیا کرتے اور شفایاب ہوکر جاتے، ایک بار والد صاحب بہت زیادہ علیل ہوگئے، نقاہت اتنی بڑھ گئی تھی کہ مدرسہ کے کیمپس میں غش کھا کر گرگئے، مولانا مرحوم نے پوچھا کہ آپ کو کیاشکایت ہے؟معلوم ہوا کہ ٹائیفائیڈ بخارکاعارضہ لاحق ہے،پورنیہ سے علاج چل رہا ہے مگر افاقہ ندارد ہے۔اس بات پر بہت ناراض ہوئے کہ مولانا! آپ کوپہلے بتانا تھا، معمولی خرچ پر آپ کا علاج بروقت ہوجاتا تو یہ نوبت نہیں آتی۔ ایک پرچی میں کچھ دوائیں لکھ کر حضرت نےمجھے تھمادی،شربت خاکسی وکاسنی وغیرہ نام کی تمام ادویات ڈھائی سو روپے میں دستیاب ہوگئی۔بحمداللہ والد صاحب مکمل صحت یاب ہوگئے۔بعد میں مجھے یہ بھی علم ہوا کہ شہر ارریہ کے بہت سے اطباء حضرات بھی اس بیماری کی دوا مولانا ہی سے لیا کرتے ہیں۔یہ اپنے آپ میں ایک بڑی بات تھی مگر مولانا نےاپنی زبان سے اس کوکہنا پسند نہیں فرمایا۔عموما معالج حضرات بہت فخر سے ایسی باتیں اپنے کلائنڈ کو اعتماد میں لینے کے لئے کہا کرتے ہیں۔یہ چیزحضرت کے تواضع اور خاکساری کی بڑی دلیل ہے۔اسی پر بس نہیں بلکہ پسماندگان کی زبانی معلوم ہوا ہے کہ گھر کےمعمولی کام میں بھی حضرت ہاتھ بٹایا کرتے،اپنے ہاتھوں صفائی کا اہتمام فرماتے، اپنا کام خود انجام دیا کرتے، یہ درحقیقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نقل میں کرتے تھے اور آقائے مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی احیاء میں بکریاں بھی چرایا کرتے تھے۔رب کریم اس کے عوض میں مولانا مرحوم کو سو شہیدوں کا اجر نصیب کرے، آمین یارب العالمین 
ایں دعا ازمن وجملہ جہاں آمین باد 
ہمایوں اقبال ندوی ارریہ 
۲۵/جنوری ۲۰۲۵ء بروز شنبہ 
مطابق ۲۴/رجب المرجب ۱۴۴۶ھ

جمعہ, جنوری 24, 2025

انس مسرورانصاری قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن (انڈیا

نعت پاک*
Urduduniyanews72 
  رب کی درگاہ میں بندو ں کو فضیلت کےلیے
  حبِ سرکا رﷺ ضر و ر ی ہے عبا د ت کےلیے
 
 جب زباں کھولی ہے سرکا ر کی مدحت کےلیے
  آ گئے جن و ملک بز م میں شر کت کے لیے

  آپﷺ کے ذِ کر سے ملتا ہےطبیعت کو سکو ں 
  آپ ﷺ کا نا م ہے کا فی مر ی ر ا حت کےلیے

  یا نبیﷺجس کو بھی جوچاہیں عطافرمائیں
  منتظر میں بھی ہوں ا ک چشمِ عنا یت کےلیے

  آپﷺ کے عد ل و مساوات کے چر چے ہر سو
  آ پ ﷺ مشہو رِ خلا ئق ہیں مر وً ت کےلیے
 
 دِ ل میں ا خلا صِ و فا شرط بھی ہےلازم بھی 
  ا ن کی رحمت کے لیے ا ن کی مو د ت کےلیے

  فرش بھی ز یرِ قد م عر ش بھی ہےز یرِ قد م
  کو ئی تمثیل کہا ں شا نِ ر سا لت کے لیے

  کتنی صد یو ں سے ہے د نیا ر قم ا ندا ز مگر
  نا مکمل ا بھی مضمو ن ہے سیر ت کے لیے

  ر ب کے محبو ب کی ہر لمحہ ا طا عت کر نا
  ہم پہ لا ز م ہے یہی ر ب کی محبت کےلیے

  ا ئے محمد ﷺ و رّ فعنا لکـّ ذِ کر ک و ا لے
  ہیچ ہیں لفظ و بیاں آپ ﷺکی مدحت کےلیے
 
  نا م لیتا ہو ں تو آ نکھو ں سے لگا لیتا ہو ں 
  یہ بھی ا عز ا ز ہے ا نگشتِ شہا د ت کے لیے

  تھے جو فصحا ئے عرب، ہوگئے سب مہر بہ لب
  ر ب سے قرآ ن ملا آ پﷺ کو حجت کےلیے

  جذ بہء عشقِ ر سو لِ عربی ﷺ لا ز م ہے
  ورنہ محشر میں تر س جا ؤ گے رحمت کے لیے

  ا ب تو ا س عجز سے ہا را مر ے فن کا جا د و
  کون سا لفظ لکھوں آپ ﷺ کی مدحت کے لیے 

  کج کلا ہا نِِ جہا ں سر کو جھکا ر کھتے ہیں
  ا ک نگا ہِ کر م ا ند ا ز و عنا یت کے لیے

  مجھ سے عاجز کی خبر لیجئے ا ئے جا نِ کر م
  مو سمِ ہجر تو قا تل ہے طبیعت کے لیے

  میرے سرکار ﷺ ہی تو شا فعِ محشر ہو ں گے
  ا ئے گنہگا ر و ! نہ گھبر ا ؤ شفا عت کے لیے

  د یکھنا جذ بہءصا د ق ہے تو ا ک د ن ہم بھی
  جا ئیں گے ر و ضہء ا طہر کی ز یا رت کے لیے
 
   یہ بھی ا عجا زِ محبت ہے کہ غو ث الا عظم
  منتخب ہو گئے سر تا جِ و لا یت کے لیے

  ا ب تو بس آ رزو ئے د ل ہے کہ نکلو ں مسرور
  شہرِ طیبہ کی طر ف ، نا ز شِ جنت کے لیے

                      * انس مسرورانصاری
         قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن (انڈیا) 
                   رابطہ/9453347784/

اتوار, جنوری 19, 2025

تسمیہ جونیئر ہائی سکول میں "سیرت کی روشنی میں بچوں کی تعلیم و تربیت" کے موضوع پر ناظرہ قرآن کریم کی تکمیل کا جلسہ

تسمیہ جونیئر ہائی سکول میں "سیرت کی روشنی میں بچوں کی تعلیم و تربیت" کے موضوع پر ناظرہ قرآن کریم کی تکمیل کا جلسہ
Urduduniyanews72 
19 جنوری 2025 کو تسمیہ جونیئر ہائی سکول میں ناظرہ قرآن کریم کی تکمیل کے موقع پر ایک شاندار جلسے کا انعقاد کیا گیا، جس کا موضوع "سیرت کی روشنی میں بچوں کی تعلیم و تربیت" تھا۔ جلسے کی صدارت ڈاکٹر سید فاروق (صدر، تسمیہ آل انڈیا ایجوکیشنل اینڈ سوشل ویلفیئر سوسائٹی، نئی دہلی) نے کی، جبکہ نظامت کے فرائض جناب جاوید مظہر نے انجام دیے۔

پروگرام میں مہمان خصوصی کے طور پر پروفیسر محمد سعود عالم قاسمی (سابق ڈین، فیکلٹی آف تھیالوجی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، مدیر ماہنامہ تہذیب الاخلاق)،پروفیسر عبدل قیوم انصار ڈین فیکلٹی آف lنجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی سید یاسر ممبر تسمیہ سوسائٹی شریک ہوئے۔ ان کا استقبال ڈاکٹر سید فاروق نے پھولوں کا گلدستہ، میمنٹو، اور تحائف پیش کرکے کیا


۔




تعارف کے بعد، جماعت پنجم کے طلباء کی جانب سے نظرِ قرآن کی تکمیل کی رسم مولانا شوکت قاسمی نے ادا کروائی۔ یہ لمحہ طلباء اور ان کے اہل خانہ کے لیے بے حد فخر کا باعث تھا۔ اس کے بعد، ان طلباء کو قرآن پڑھانے والے اساتذہ کو ان کی محنت اور لگن کے اعتراف میں انعامات سے نوازا گیا۔

ڈاکٹر سید فاروق نے اپنی تقریر میں سیرت النبی ﷺ کے اسباق کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ بچوں کی تعلیم و تربیت میں والدین اور اساتذہ دونوں کا کردار نہایت اہم ہے۔ انہوں نے فرمایا، "نبی کریم ﷺ کی زندگی ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے، جس میں بچوں سے محبت، ان کے ساتھ نرمی، اور ان کی فطری صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کی واضح ہدایات موجود ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کے ساتھ وقت گزاریں، ان کی باتوں کو سمجھیں، اور ان کی کامیابیوں میں شریک ہوں۔" انہوں نے مزید کہا کہ بچوں کو اخلاقی تعلیم دینا نہ صرف دنیاوی کامیابی بلکہ اخروی فلاح کے لیے بھی ضروری ہے۔
پروفیسر محمد سعود عالم قاسمی نے قرآن و حدیث کی روشنی میں بچوں کی تربیت کے اصول بیان کیے۔ انہوں نے کہا، "نبی کریم ﷺ نے بچوں کے ساتھ شفقت اور محبت کا درس دیا ہے۔ آپ ﷺ بچوں کے جذبات کو سمجھتے اور ان کی شخصیت سازی پر توجہ دیتے تھے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم بچوں کی تربیت کرتے وقت ان کی اخلاقی، دینی، اور تعلیمی ضروریات کو مدنظر رکھیں۔" انہوں نے مزید کہا کہ قرآن کریم صرف تلاوت کے لیے نہیں بلکہ اس پر عمل کے لیے ہے، اور والدین کو اپنے بچوں کے اندر قرآن کی محبت پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

سید یاسر کا ووٹ آف تھینکس:
سید یاسر نے والدین، مہمانانِ گرامی، اور تمام شرکا کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا، "بچوں کی تعلیم و تربیت والدین کی اولین ذمہ داری ہے۔ نبی کریم ﷺ نے والدین کو تاکید کی کہ وہ اپنے بچوں کو اچھے اخلاق سکھائیں اور ان کے لیے نمونہ بنیں۔ قرآن کریم کی تعلیم اور نبی کریم ﷺ کی سیرت بچوں کی زندگی میں روشنی کی مانند ہے، جو انہیں صحیح راستے پر چلنے کی رہنمائی فراہم کرتی ہے۔" انہوں نے والدین سے درخواست کی کہ وہ بچوں کے ساتھ وقت گزاریں اور ان کی تربیت میں مکمل دلچسپی لیں۔


یہ جلسہ درجہ پنجم کے 44 طلبہ کی ناظرہ قرآن کریم مکمل کرنے کی خوشی میں منعقد کیا گیا۔ ان طلبہ کو ڈاکٹر سید فاروق نے تسمیہ سوسائٹی کی جانب سے قرآن مجید کے نسخے بطور تحفہ پیش کیے۔ پروگرام کے کامیاب انعقاد میں اسکول کے تمام اساتذہ کی محنت اور لگن شامل رہی۔

جلسے کا اختتام ڈاکٹر عبدل قيوم انصاری پروفیسر جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کی دعا کے ساتھ ہوا، جس میں تمام شرکا نے بچوں کی کامیابی اور روشن مستقبل کے لیے دعائیں کیں۔

ہفتہ, جنوری 18, 2025

سہ ماہی نقیب الخلیج کا "رباعی نمبر" (جنوری تا مارچ 2025) ایک مطالعہ

سہ ماہی نقیب الخلیج کا "رباعی نمبر" (جنوری تا مارچ 2025) ایک مطالعہ 
مضمون نگار : محمد ضیاء العظیم قاسمی، معلم چک غلام الدین ہائی اسکول،ویشالی بہار 
موبائل نمبر :7909098319 

Urduduniyanews72 
 سہ ماہی نقیب الخلیج ادبی، تاریخی، ثقافتی، اصلاحی، اور معلوماتی مضامین پر مشتمل ایک اہم اور نایاب رسالہ ہے، جسے گلف اردو کونسل کی جانب سے شائع کیا جاتا ہے- یہ رسالہ گذشتہ دو سالوں سے مسلسل اردو زبان وادب کی ترویج وترقی اور اس کی اشاعت کے لئے مکمل کوشاں ہے- سہ ماہی نقیب الخلیج کا تازہ شمارہ " رباعی نمبر "(جنوری تا مارچ 2025) 72/صفحات پر مشتمل ہے، جس میں اردو رباعی کی تاریخ، اہمیت وافادیت، اور اس کا پس منظر مکمل، مدلل، اور مفصل پیش کرنے کی بھر پور سعی کی گئی ہے، جو ایک قابل تعریف اور مستحسن عمل ہے - رسالہ میں رباعیات اور اس سے متعلق اہم اور لائق مطالعہ مضامین،معلومات عامہ، اور قارئین ادب کے خطوط شامل ہیں- 
رسالے کی شروعات اداریہ سے ہوتی ہے، جسے مدیر محترم قاضی منصور قاسمی نے قلم بند کیا ہے، اس میں رسالے کے مختصر تعارف کے ساتھ ساتھ اردو رباعی کی تاریخ، اہمیت وافادیت کو کئی زاویے سے پیش کیا گیا ہے۔فن رباعی کو مشکل فن گرداننے والوں کی مدیر نے گرفت بھی کی ہے۔ اس رسالے میں رباعیات پر جن قلمکاروں کے مضامین شامل ہیں۔ اُن میں "احساس و ادراک: ایک فکر انگیز اد بی سوغات"(رفیق جعفر، مہاراشٹر)، "امجد حیدر آبادی در باب رباعی" (ڈاکٹر امیر حمزہ، جھارکھنڈ)، "اُردو میں رباعی کی روایت: ایک تعارف"(پروفیسر ڈاکٹر محمد اشرف کمال)، "اردور باعیات: علامہ اقبال کے خصوصی مطالعہ کے ساتھ" (ڈاکٹر صالحہ صدیقی، الہ آباد)،" رباعی" (ڈاکٹر رحمت عزیز خان، چترالی)، "عبدالحق امام کی رباعیات پر ایک نظر" (سلیم انصاری، جبل پور )، "ر باعی کا شیدا: ڈاکٹر عبدالحق امام" (مصباح انصاری، گورکھپور)، وغیرہ خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں ۔
اِن مضامین کے ساتھ ساتھ تاریخ ادبیات فارسی اور دیگر حوالے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ رباعی، دیگر اصناف شعری کی طرح ایک قدیم اور عظیم صنف شاعری ہے، جو فارسی شعر وادب کے عین آغاز کے ساتھ ساتھ وجود میں آئی ۔۔
اللہ نے انسانوں کو اشرف المخلوقات کے شرف سے نوازتے ہوئے انہیں بے پناہ نعمتیں دے کر ان پر بہت سے احسانات کئے ہیں ،ان احسانات کو اگر ہم شمار کرنا چاہیں تو ہرگز انہیں شمار نہیں کرسکتے ہیں، ان احسانات اور نعمتوں میں سے ایک نعمت قوت گویائی بھی ہے، انسان اپنے احساسات وجذبات اور خیالات کے اظہار کے لیے الفاظ کا سہارا لیتا ہے، اور ان الفاظ کو جب خوبصورتی کے ساتھ سجا کر فنی اصول وضوابط پر کار بند رہتے ہوئے اپنے جذبات وخیالات اور احسات کا اظہار کرتا ہے تو وہ شاعری بن جاتی ہے، اور شاعری میں جب رباعی کا تذکرہ آتا ہے تو معلوم ہونا چاہیے کہ رباعی عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے لغوی معنی چار چار کے ہیں، رباعی کی جمع رباعیات ہے۔ شاعرانہ مضمون میں رباعی اس صنف کا نام ہے جس میں چار مصرعوں میں ایک مکمل مضمون ادا کیا جائے ۔ رباعی کا وزن مخصوص ہے، پہلے دوسرے اور چوتھے مصرعے میں قافیہ لانا ضروری ہے، رباعی کو دوبیتی بھی کہتے ہیں-فارسی میں رباعیات کے حوالے سے عمر خیام ، ابوسعید ابوالخیر، اور سرمد کے ناموں کو دنیائے ادب جانتی اور پہچانتی ہے۔ اردو میں حالی ، اکبر، انیس ، امجد، جوش، فراق اور دیگر شعرا کی شاعرانہ عظمت و شہرت کو اس مخصوص صنف نے چار چاند لگایا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ رباعی نے زندگی کے آفاقی اور عالمگیر حقائق کی عکاسی کا حق بعض کے نزدیک نہ ادا کیا ہو، لیکن تاریخ ادب شاہد ہے کہ اس نے رکاکت، ابتذال ، فحاشی ، بیہودہ گوئی ، مبالغہ اور ہجو سے اپنے دامن کو کبھی آلودہ نہیں کیا ۔ حالی نے اردو شعر و قصائد کے جس دفتر کو تعفن زدہ بتایا ہے اس میں رباعی کو شامل کرنا امر محال نظر آتا ہے ۔ اور رباعی کی یہی ایک معنوی خصوصیت اسے دیگر اصناف سخن کے مقابلے میں ممتاز و موقر بنانے کے لئے کافی ہے ۔
یہ بھی سچ ہے کہ اردو اور فارسی کے ناقدین و محققین نے رباعی کی جانب بہت کم توجہ دی- رسائل کے ذمہ داران اور مدیران نے بھی اس پر کم ہی گوشے شائع کیے تاہم سہ ماہی "نقیب الخلیج" نے خصوصی رباعی نمبر شائع کرکے اس طرف توجہ مبذول کرانے کی بھر پور سعی کی ہے کہ اردو رباعی کو اردو زبان وادب میں اب بھی وہی مقام مرتبہ حاصل ہے جو ماضی میں تھا ،اور اس کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے ۔ رسالہ میں اردو رباعی سے متعلق جتنے بھی مضامین ہیں انہیں ایک دستاویزی حیثیت حاصل ہے، البتہ رسالے میں شامل ایک مضمون جس پر میری نگاہ پڑی تو حیرت اور تجسس میں اضافہ ہوا کہ ایسا کیسے ممکن ہے کہ رباعیات کے مضمون میں غزلوں کے اشعار شامل ہو گئے ہیں، ڈاکٹر صالحہ صدیقی نے لمبے عرصے سے تحقیقی مضامین کے ساتھ ساتھ تخلیقی میدان میں بھی خامہ فرسائی کی ہے ،ان کے مضمون کی ترتیب دیکھ کر بخوبی اندازہ ہوا کہ مضمون نظر ثانی کے بغیر یا عجلت کا شکار ہو کر شائع ہوگیا ہے ، مدیر محترم اور مصنفہ سے رابطہ کرنے پر معلوم ہوا کہ رسالے میں مضمون شامل کرنے کے لیے الفاظ کی قید مقرر ہے اور مضمون چونکہ رسالے میں شمولیت کے اعتبار سے خاصا طویل اور مخلتف اصناف پر مبنی تھا لہٰذا مضمون کو رسالے کے لحاظ سے سیٹنگ کرنے میں ترتیب اور مثال کی الٹ پھیر ہوئی ہے۔ مدیر محترم اور مصنفہ نے اس کا اعتراف کیا۔ نیز انھوں نے اس بات پر خوشی اور اطمینان کا اظہار کیا کہ اس رسالے کا اتنی دلچسپی سے قارئین ادب مطالعہ کرتے ہیں،ادارہ آئندہ شمارہ میں پوری وضاحت کے ساتھ اس مضمون کو صحیح ترتیب دے کر شامل اشاعت کرے گا۔
ادب کے قارئین کے لیے اس رسالے کا مطالعہ موضوع سے متعلق واقفیت کے لحاظ سے بے حد مفید ثابت ہوگا۔ 
میں خصوصی طور پر قاضی منصور قاسمی صاحب کو اور عمومی طور پر پوری ٹیم کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ آپ عربستان میں رہ کر بھی اردو زبان وادب کی ترویج وترقی اور آبیاری کے لئے مکمل اور مسلسل کوشاں ہیں، رب کریم سے دعا ہے کہ آپ سبھوں کو اپنی حفظ وامان میں رکھے اور مزید زبان وادب کی خدمت کرنے کی توفیق وتوثيق عطاء فرمائے آمین۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...