Urduduniyanews72
٭ انس مسرورؔانصاری
/9453347784/
اکتیس کامہینہ
اتوارکادن تھا۔فرصت کے اوقات تھے۔سرفرازصاحب گھرہی پرتھے۔بچے کھیل کودمیں مصروف تھے۔اُن کی بیوی طاہرہ بیگم نے آپسی گفت گوکے دوران کہا:
‘‘سچ کہتی ہوں اورمجھے جھوٹ بولنے کی عادت ہے نہیں۔میرے دل میں جس قدرتمھاری محبت ہے اُس کااندازہ تم رائی بھربھی نہ لگاسکوگے۔’’طاہرہ بیگم کی بات کاٹتے ہوئے سرفرازنے کہا:‘‘لیکن بیگم! شاید تم بھول رہی ہوکہ یہ مہینہ اکتیس دنوں کاہے اورآج ابھی اُنتیس تاریخ ہے۔تنخواہ ابھی دوروزبعد ملے گی۔یعنی ابھی تم کوتین روزتک مسلسل پیارومحبت کی باتیں کرنی پڑیں گی۔ویسے ابھی تم نے جومکا لمے مجھے سنائے،وہ کس فلم کے ہیں۔؟’’
‘‘اُوہ....تویہ بات ہے۔؟سچ کہتی ہوں ،میری باتوں کاتم نے یقین کیاہے اورنہ کبھی کروگے۔ پیاربھری باتیں تمھیں کسی فلم کامکالمہ معلوم ہوتی ہیں۔حدہوگئی۔غضب خداکا۔تم سوچتے ہوکہ میں اس طرح کی باتیں تمھاری تنخواہ کے لیے کرتی رہی ہوں۔؟آج سے حرام جوتمھاری تنخواہ کاایک دھیلابھی اپنی ہتھیلی پر
َ رکھوں۔میرے اسکول کی تنخواہ اتنی کم بھی نہیں کہ میں تمھارے پیسوں کی مہحتاج رہوں(آنکھو پررومال رکھتے ہوئے)جب سے اس گھرمیں آئی ہوں کبھی سکھ کاسانس لینانصیب نہ ہوا۔تمھارے ساتھ میرارشتہ کیا ہواکہ میری توتقدیرہی پھوٹ گئی۔کوئی دوسری ہوتی توکب کارفوچکّرہوگئی ہوتی۔ایک میں ہی ایسی جنم جلی ہوں جوہزارطعنوں تشنوں کے باوجودبھی نباہ رہی ہوں۔کتنے اچھے اچھے رشتے میرے لیے تھے ،مگرگھرکے بڑے بوڑھے تم میں نہ جانے کون سے سُرخاب کے پرلگے دیکھے کہ رشتہ کرلیا۔میرے لیے کیارشتہ کہ کوئی کمی تھی۔ایک سے ایک پڑھے لکھے عقل مند لوگ چاہتے تھے۔ میں نصیبوں جلی تمھارے ہتھے چڑھ گئی۔’’(ہلکی ہلکی سسکیاں )
‘‘ٹھیک کہتی ہوطاہرہ بیگم!وہ لوگ عقل منداورخوش نصیب تھے جوبھاگ نکلے۔میں بے چارہ سیدھاسادہ بندہ تمھارے حسن کے جال میں پھنس گیا۔’’
سرفرازکمرہ سے نکل کرباہرریلنگ میں آکرکھڑاہوگیا
اوراخبارد یکھنےلگا۔ ۔طاہرہ بیگم کافی دیرتک بک بک جھک جھک کرتی رہیں۔زبان کے ساتھ ساتھ کام دھندوں میں ہاتھ بھی چلتارہااوروہ بالکونی میں کھڑابظاہراخبار دیکھ رہاتھا لیکن سماعت کی ساری قوت طاہرہ بیگم کی زبانی ریکارڈنگ پرلگی ہوئی تھی۔وہ زیرلب مسکرائے بھی جارہاتھا۔اپنی بیوی طاہرہ کوچھیڑکراُس کی جلی کٹی باتوں میں اسے بڑالطف آتا۔وہ جانتاتھاکہ طاہرہ دل کی بہت اچھی ہےاورچند۔سکنڈکےاندراسے منالیناکچھ بھی مشکل نہیں۔
*٭٭
کھوٹاسکہ
ایک مدت کے بعدرتن اورچمن جب ملے توپرانی یاریاں تازہ ہوگئیں۔گئے دنوں کی یادیں زندہ ہوگئیں۔دونوں بہت جذباتی ہوگئے اوردیرتک ایک دوسرے کوگلے لگاتے رہے۔خیرخیریت پوچھنے کے بعدرتن نے پوچھا:‘‘اورکہویار!کیسی گزررہی ہے۔بھابی اوربچوں کاکیاحال ہے۔؟’’
چمن نے مسکراتے ہوئے بتایا:‘‘سب ٹھیک ٹھاک ہے یار!ایک لڑکاڈاکٹرہے۔دوسراانجینئرہے ہے۔تیسراانسورش کمپنی میں ملازم ہے۔تینوں اپنی بیوی بچوں کوساتھ لے کرالگ الگ شہروں میں رہ رہے ہیں اوربہت خوش حال ہیں۔’’
‘‘بہت خوش نصیب ہوتم، مگریار!تمھاراچوتھااورسب میں چھوٹابیٹابھی توتھا۔؟’’رتن نے پوچھا۔‘‘وہ کیاکر رہاہے۔؟وہ بھی کسی پوسٹ پرضرورہوگا۔؟’’
‘‘کیابتاؤں یار!چوتھے لڑکے کوپڑھانہیں سکا۔وہ ایک نائی کی دوکان پرحجام ہے۔’’
رتن کوبڑی حیرت ہوئی۔اس نے کہا:‘‘توپھراس کم بخت کوگھرسے نکال کیوں نہیں دیتے جوتمھار ے خاندان کی پگڑی اُچھال رہاہے۔حدہوگئی۔بھلایہ بھی کوئی بات ہوئی ۔تعلیم یافتہ خاندان کالڑکاحجام ؟ میں توکہتاہوں کہ ایسے نالائق بیٹے کوگھرسے باہرہی نکال دو۔’’
‘‘کیسے گھرکے باہرنکال دوں۔اُسی کی کمائی سے توگھرکاخرچ چلتاہے۔***
نہلے پردہلا
گاؤں کے کنجوس مہاجن لیلارام ساہوکارکے پاس بھگوان کادیاسب کچھ تھا۔کسی چیزکی کوئی کمی نہ تھی۔دھن دولت تومانوچھپرپھاڑکربرس رہاتھا۔بس اُسے ایک ہی تکلیف تھی۔اس کااکلوتابیٹاسکھ دیونہاتانہیں تھا۔ہزاروں باروہ اسے سمجھابجھاکرتھک ہاربیٹھاتھا۔پھراس کی سمجھ میں ایک ترکیب آئی۔ اس نے اپنے بیٹے کونہانے کی عادت ڈالنے کے لیے ایک دن سکھ دیوسے کہا:
‘‘بیٹا!اگرتم روزبلاناغہ نہاؤ گے توایک مہینہ کے بعدمیں تمھیں ایک سوروپئے انعام میں دوں گا۔’’
باپ کی پیش کش سن کربیٹابہت خوش ہوا۔سوروپئے کے لالچ میں وہ روزانہ بلاناغہ نہانے لگا۔آخر جب ایک ماہ پوراہوگیاتواس نے باپ کواس کاوعدہ یاددلایااور سوروپئے کامطالبہ کیا۔کنجوس باپ نے مسکراتے ہوئے اس کی تعریف کی اوراس کے ہاتھ میں ایک بل تھمادیاجس میں ایک سوپچیس روپئے صابن کے درج تھے۔لیلارام نے بیٹے سے کہا۔‘‘تمھارے سوروپئے انعام کے اورپچاس روپئے جیب خرچ سے کاٹ کریہ بل دوکاندارکواداکیاجائے گا۔’’
بیٹے نے مسکراتے ہوئے باپ سے کہا۔‘‘بابوجی!آپ سوروپئے مجھے دیں۔میں روزانہ بلاصابن کے نہاتارہاہوں۔’’
٭٭
ساس اورداماد
گاؤں میں قیام کے دوران ایک روزمہمان بڑی دل چسپ نظروں سے میزبان کی لڑکی کوبھینس کا دودھ دوہتے ہوئے دیکھ رہاتھا۔اچانک ایک بھینسے کوپھنکاریں مارتے ہوئے تیزی سے آتے ہوئے دیکھ کروہ دوڑکرایک دیوارپرچڑھ گیااورچیخ چیخ کرلڑکی کوخبردارکرنے لگا۔مگرلڑکی ٹس سے مس نہ ہوئی بلکہ بے خوف اپنے کام میں مشغول رہی۔اس کے اطمینان میں کوئی فرق نہ آیا۔بھینساپھنکاریں مارتاہوا بھینس کے قریب آکررک گیا۔کچھ دیربھینس کودیکھتارہا پھرسرجھکاکرواپس چلاگیا۔
۔۔اس خوفناک بھینسے کواپنی طرف آتے دیکھ کرتمھیں ڈرنہیں لگا۔؟’’شہری مہمان نے لڑکی سے پوچھا۔
‘‘ہرگزنہیں۔’’لڑکی نے بڑے اطمینان سے جواب دیا۔‘‘میں جانتی تھی کہ بھینساکچھ نہیں کرے گا۔کیونکہ یہ بھینس اس کی ساس ہے۔’’
٭٭
شرم وحیا
گاؤں کے رہنے والے حکیم صاحب دین شہرمیں مطب کھولے ہوئے تھے۔گاؤں اورشہرکے درمیان ایک قبرستان پڑتاتھاجس میں بے شمارقبریں تھیں۔گھرسے شہرمیں دواخانہ آتے وقت یادواخانہ سے گھرجاتے وقت جب حکیم صاحب دین قبرستان کے قریب پہنچتے تواپنے چہرے پررومال ڈال لیتے ۔ایک دن کسی نے وجہ پوچھی توکہنے لگے۔‘‘اس قبرستان میں بہت سی قبریں ایسی ہیں جن میں وہ لوگ دفن ہیں جومیراعلاج کرتے کرتے اس قبرستان تک پہنچے۔اس لیے جب میں یہاں سے گزرنے لگتا ہوں توشرمندگی کی وجہ سے منھ پرکپڑاڈال لیتاہوں۔آخرانسان کے اندرکچھ توشرم وحیاہونی چاہئے۔’’
٭٭
آتنک وادی
مئی کی سلگتی ہوئی دھوپ۔شدت کی گرمی سے پریشان حال لوگ۔پسینے سے شرابوروردی میں شہرکے کوتوال مانک چندکہیں دورکے دورے سے واپس آئے تھے۔بھاری بھرکم جسم سنبھالے نہیں سنبھل رہاتھا۔ سانسیں سینے میں نہیں سمارہی تھیں۔اپنے آفس میں داخل ہوتے ہی انھوں نے اپنے آپ کوکرسی پر ڈھیرکردیاْ۔وہ بری طرح ہانپ رہے تھے۔ان کی تونداس طرح اوپرنیچے ہورہی تھی مانوغبارے میں ہوابھری اورنکالی جارہی ہو۔انھوں نے گھنٹی بجائی توایک سپاہی فوراََحاضرہوا۔‘‘انسپکٹرماتادین کوبلاؤ۔’’انھوں نے آدیش دیا۔ سپاہی سلوٹ مارکرچلاگیا۔دومنٹ میں انسپکٹرماتادین حاضرہوگیا۔‘‘سر!آپ نے مجھے بلایا۔ْ’’
‘‘ہاں ،ماتادین۔دیکھو۔سنو!کچھ سپاہیوں کو ساتھ لے کرجاؤ اورسڑک پرسے کسی بڑی بڑ ی مونچھوں والے کوپکڑلاؤ۔ذراموٹااورتگڑاآدمی ہو۔’’انسپکٹرجانےلگا توکوتوال نے اسے روکا۔‘‘دیکھو!اوپرسے بہت پریسرہے۔ہم پرالزام ہے کہ آتنک وادیوں کوہم چھوٹ دے رہے ہیں اورہمارے تھانے سے اب تک ایک بھی آتنک وادی نہیں پکڑاجاسکا ہے۔اس لیے اگرکوئی مونچھ والانہ ملے توکسی داڑھی والے کوہی پکڑلائیو۔آخرفائل بناناضروری ہے اوراس کاپیٹ بھرنابھی ضروری ہے۔نوکری اور پرموشن کامعاملہ ہے۔اب جاؤ۔’’
*٭٭
انس مسرورؔانصاری
anasmasrooransari@gmail.com