Powered By Blogger

منگل, مارچ 18, 2025

تسمیہ جونیئر ہائی اسکول میں شاندار سالانہ نتیجہ اور تقسیم انعامات کی تقریب کا انعقاد

تسمیہ جونیئر ہائی اسکول میں شاندار سالانہ نتیجہ اور تقسیم انعامات کی تقریب کا انعقاد
Urduduniyanews72
مظفر نگر ۱۷ مارچ ۲۰۲۵ تسمیہ جونیئر ہائی اسکول نے پیر کو سالانہ نتیجہ اور تقسیم انعامات کی ایک شاندار تقریب کا اہتمام کیا۔ یہ تقریب کسی بھی اسکول کے لئے ایک اہم موقع ہوتا ہے جو طلبہ کے تعلیمی سفر میں ایک نئے باب کا آغاز ہوتا ہے۔ یہ اساتذہ، طلباء اور والدین کے لئے فخر اور جذبات سے بھرا ہوتا ہے۔

تقریب کے وقار کو بڑھانے کے لئے مہمان خصوصی عزت مآب پنکج ملک (ایم، ایل، اے چر تھاول) موجود رہے۔ ساتھ ہی مہمان ذی وقار گوہر صدیقی (سماجی کارکن) نے پروگرام میں شرکت کی۔

پروگرام کے آغاز میں اسکول کے قائم مقام پرنسپل جناب جاوید مظہر نے استقبالیہ تقریر پیش کی۔ انہوں نے اسکول کی کامیابیوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ تسمیہ جونیئر ہائی اسکول تعلیمی میدان میں بہترین کام کر رہا ہے اور طلباء کو نہ صرف تعلیمی بلکہ اخلاقی اور سماجی طور پر بھی با اختیار بنا رہا ہے۔ انہوں نے طلباء کے روشن مستقبل کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کیا اور والدین سے گزارش کی کہ وہ اپنے بچوں کی تعلیم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔

مہمان خصوصی پنکج ملک (ایم ایل اے چر تھاول) نے اپنے خطاب میں تعلیم کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور کہا کہ معاشرے کی ترقی کا دارومدار تعلیم یافتہ شہریوں پر ہے۔ بچے ہمارے مستقبل کی بنیاد ہیں اور ہمیں انہیں بہتر تعلیم اور اقدار دینے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔

مہمان ذی وقار گوہر صدیقی (سماجی کارکن) نے بچوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا کہ تعلیم صرف ڈگری حاصل کرنے کا ذریعہ نہیں بلکہ ایک ایسا ذریعہ ہے جو ہمیں ایک بہتر انسان بناتا ہے۔ صرف محنت، لگن اور ایمانداری سے مطالعہ ہی بچوں کو آگے بڑھنے میں مدد دیتا ہے۔

ہونہار طلباء کو اعزاز سے نوازا گیا اس موقع پر تعلیمی اور ہم نصابی سرگرمیوں میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے اسکول کے طلباء کو اعزاز سے نوازا گیا۔ انعامات حاصل کرنے والے طلباء میں شامل ہیں:

عائرہ قریشی، عمرہ دانش، ولیہ، یو کے جی (جی) حمزه ،صمد، عاكف ۔ یو کے جی (بی) عبداللہ صدیقی، ہدایہ سمیہ (درجہ -۱) فاطمہ ذکرہ، فیضان (درجہ ۲) نور المدیحہ، زینب منصوری، شاہ باز (درجہ ۳) حمیرا عرفان، فاطمہ سمائیرا (درجہ ۴) زویا قریشی، ام حبیبہ زین قریشی (درجہ ۵) آمنہ صدیقی، عائشہ جاوید، شیرین (درجہ ۶ جی) عبدالصمد عرفان، شعبان، عبدالصمد شہزاد (درجہ ۶ بی) اقراء نبیہ، علما (درجہ ۷ جی) ارمان خان، منا، ارمان (درجہ ۷ بی) اقصیٰ شہرزاد، ام ایمن، ارین روشن (درجہ ۸ جی) محمد ایان، محمد وارث، عبدالرحمان (درجہ ۸ بی)۔

اختتامی تقریب میں جاوید مظہر نے تقریب کو کامیاب بنانے کے لئے تمام اساتذہ، طلباء اور والدین کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا "ہمارا اسکول طلبہ کی ترقی کے لئے پرعزم ہے۔ ہم ایک مشن کی طرح تعلیم کو آگے بڑھا رہے ہیں اور بچوں کو نہ صرف علم بلکہ اقدار بھی فراہم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔"

تقریب کا اختتام قومی ترانے کے ساتھ ہوا۔ تسمیہ جونیئر ہائی اسکول کا عظیم الشان کانووکیشن اسکول طلباء اور والدین کے لئے ایک متاثر کن اور ناقابل فراموش تقریب بن گیا ۔

منگل, مارچ 11, 2025

پروفیسر قاضی زین الساجدین صدیقی میر ٹھیایک مخلص عالم دین،ملی رہنما ،عظیم دانشور اور ماہر تعلیم تھے

پروفیسر قاضی زین الساجدین صدیقی میر ٹھی
ایک مخلص عالم دین،ملی رہنما ،عظیم دانشور اور ماہر تعلیم تھے
Urduduniyanews72
مولانا مفتی عطاءالر حمن قاسمی

مارچ نئی دہلی ، پروفیسر زین الساجدین صدیقی سابق صدر وڈین شعبہء سنی دینیات مسلم یونیورسٹی علیگڑھ و سابق چیئر مین یو پی مدرسہ بورڈ کے اچانک انتقال پر اظہار رنج و ملال کرتے ہوئے مولانا مفتی عطاءالر حمن قاسمی چیئر مین شاہ ولی اللہ انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی و نائب صدر آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت نے کہا کہ شہر قاضی میرٹھ پروفیسر زین الساجدین صدیقی ایک مخلص عالم دین،ملی رہنما، عظیم دانشور اور ماہر تعلیم تھے، وہ ایک علمی خانوادہ کے چشم وچراغ تھے، آپ کے والد قاضی زین العابدین سجاد میر ٹھی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر اور دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوری کے رکن تھے ، خود پروفیسر قاضی زین الساجدین صدیقی تنظیم ابنائے قدیم دارالعلوم دیوبند کے جنرل سکریڑی ،آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کی مجلس عاملہ کے رکن اورشاہ ولی اللہ انسٹی ٹیوٹ کے بھی رکن تھے، آپ ایک اچھے قلم کار اور مصنف بھی تھے، آپ اپنی حیات مستعار کے آخری دنوں میں اپنے خاندان کے حالات وکوائف ا ورعلمی، دینی اور سماجی خدمات پر ایک اہم کتاب لکھنے میں مصروف تھےاور برابر اس کاذکر فرماتے تھے، آپ کے خانوادہ کا، خاندان ولی اللٰہی سے بڑا گھرا تعلق رہاہے،وہ تحریک شہیدینؒ سے بھی وابستہ رہےہیں۔
پروفیسر قاضی زین الساجدین میر ٹھی بڑے جری و بیباک انسان تھے، وہ ہرقسم کی اپنی قومی وملی رائے بڑی قوت ومضبوطی کے ساتھ رکھنے کے عادی تھے، پروفیسر زین الساجدین صدیقی کے انتقال سے جہاں قوم وملت کا عظیم خسارہ ہوا ہے، وہاں میرا ناقابل تلافی نقصان بھی ہواہے، اللہ تعالی ان کی مغفرت فرمائے اور ان کےدرجات ومراتب بلند کرے اور ان کے پسماند گان ولواحقین کو صبر جمیل عطاء فرمائے ۔آمین!


پیر, مارچ 10, 2025

*گرتوبرانہ مانے۔۔۔۔۔ *

*گرتوبرانہ مانے۔۔۔۔۔ *
Urduduniyanews72
مدرسوں کی سفارت بہت اہم اورنازک مسئلہ ہے۔تلخ نوائی معاف مگر حقیقت یہ ہےکہ مدارس کی سفارت کاواحد مقصد بس اب یہ رہ گیا ہے کہ 
مسلم معاشرہ کے غریب ونادارمسلمانوں کے حقوق سمیٹ کر مدرسہ میں لایا جائے اوراس میں سےہر ماہ تنخواہ لے کر اقربا پروری کی جائے۔ آخر مدرسہ والے مدرسوں کے اخراجات کےلیےخودکفالتی کے طریقے کیوں نھیں اختار کرتے کہ چندہ چٹکی کے لیے در در بھٹکنانہ پڑےاورغریبوں، یتیموں اور مسکینوں تک ان کا حق پہنچتارہےاوران کے حالات بھی بدل سکیں۔ ان کے سارے حقوق مدرسےوالےسمیٹ لے جاتے ہیں اور مسلم معاشرہ غریبی کی دلدل سے کبھی باہر ، نھیں آپاتا۔ مدرسوں کے منتظمین کوان ذرائع کے متعلق بھی غور کرناچاہئیے جن کے سبب چندہ وصولی کا دروازہ ہی بند ہو جائے اورمدرسہ اپنے آپ میں خود کفیل ہو۔ مدرسوں میں تجارتی شعبہ جات کیوں نھیں قائم کیےجاتےجن کی آمدنی سے مدرسہ کےاخراجات پورے ہوں! یہ ناممکن تونھیں۔کیا ضروری ہےکہ مدارس کے طلباء کی پرورش اسی مال سے کی جائے جسے نبی کریمﷺ نے مال کامیل کہا ہے۔ مدرسوں کے منتظمین کو چاہئیے کہ وہ علمائے کرام سے چندہ وصولی نہ کرایں۔ یہ ان کے منصب کے منافی ہے۔ بلکہ انتظامیہ ایسے وسائل واسباب اختیار کرےکہ ذکاۃ اور فطرہ وخیرات وصول کرنے کی نوبت ہی نہ آئے۔مدرسوں میں الگ سے ایک تجارتی شعبہ ہو جسے تنخواہ دار ملازمین کے ذریعے چلایاجاناچاہئیے۔ ان پر نگراں مقررہو۔ محاسب ہو۔ دیکھ دیکھ کرنے والے ہوں۔ مسلم معاشرہ کے افراد کو ملازمتیں مل سکیں۔ یہ بھی اسی فعال عمل سے ممکن ہے مگر نھیں سب سے آسان طریقہ اختیار کیاگیاکہ رسیداوررودادعلماء کے ہاتھوں میں پکڑادواورکہوکہ وہ سفرپرنکلیں اور ففٹی ففٹی پرسنٹ پر چند ہ وصول کر لائیں اور اگر کوئی غیرت مند عالم انکارکرےتوملازمت سے سبکدوشی کی دھمکی دی جائے۔ کیا یہ استحصال نھیں ہے۔؟مدرسہ چلانے والے عہدہ داروں کی ذمہ داری ہےکہ وہ اس کی آمدنی اور اخراجات کےکےلیےدیگرذرائع کے متعلق غوروفکر کریں اورذکوٰۃ وفطرہ اور خیرات کومسلم معاشرہ کےکمزورافرادکےلیےچھوڑدیں۔ مگر افسوس کہ عامتہ المسلمین کے ذہنوں میں یہ بات بھی بٹھانے کی کوشش کی جاتی رہی ہےکہ مدرسہ میں ذکٰوۃ نھیں دوگےتوذکٰوۃ ادا ہی نھیں ہوگی۔ایک کروڑ روپئے کے بجٹ والےمدرسےپچاس لاکھ روپئے میں تجارتی شعبہ کیوں نھیں کھولتے۔؟جس کی آمدنی سے مدرسےکاخرچ اٹھایا جاسکے۔ 
سب کچھ ممکن ہے، اگر آدمی کرنا چاہے۔ چھوٹے اوربہت کم بجٹ والے مدرسوں کی مجبوریوں کو سمجھا جاسکتا ہے مگر وہ مدرسےجولاکھوں لاکھ اور کروڑوں کا بجٹ رکھتے ہیں اور سفارت کاروں کو چندہ وصولی کےلیےدربہ دربھٹکنے، اور ذلیل ورسواہونےپرمجبورکرتےہیں۔انھیں کیا کہا جائے اور ان کے سفیروں کے ساتھ کیابرتاؤکیاجائے۔؟ 

  انس مسرورانصاری
قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن

سامان کی قیمت معلوم ہے رمضان کی نہیں!

سامان کی قیمت معلوم ہے رمضان کی نہیں!      
Urduduniyanews72
امسال رمضان کا مہینہ سردی وگرمی کےملےجلے احساسات لیکر آیا ہے ،سردی ہے نہ زیادہ گرمی ہے، بھوک وپیاس برداشت ہے،اورسب کچھ سازگار وخوشگوارہے۔اس سے حوصلہ پاکر چھوٹے چھوٹے بچے بھی روزہ رکھ رہے ہیں، اس پر خدا کا شکرہم پر لازم ہے، اور یہ رمضان ہم سے زیادہ سے زیادہ اعمال کا مطالبہ کرتا ہے،اس ماہ مبارک کا حق صرف روزہ سے ہم ادا نہیں کرسکتےہیں ،یہ بات ملحوظ رہے کےاس برکت والے مہینے کے دامن میں اور بھی ہیرےو موتی ہیں، رمضان درحقیقت نزول قرآن کے جشن کا مہینہ ہے،کتاب الہی سے اس کو نسبت خاص حاصل ہے،اسی لئےتراویح میں قرآن کےپڑھنے ومکمل کرنے کا حکم ہے،جس طرح ایک روزہ دار کو ایمان واحتساب کے ساتھ روزہ پر پچھلے تمام گناہوں کی بخشش کی بشارت دی گئی ہے بالکل اسی طرح قیام اللیل پر بھی سابقہ گناہوں سے معافی کا پروانہ ملتا ہے،اس حدیث سے بات سمجھ میں آتی ہے کہ رمضان کادن بھی مبارک ہے اور اس کی راتیں بھی برکت والی ہیں،اور یہ سب کچھ قرآن کریم کے صدقے ہے۔نزول قرآن کےاس مہینے میں تلاوت پر نیکیوں میں یوں بھی اضافہ ہوجاتا ہے کہ عام دنوں میں ایک ایک حرف کی تلاوت پر دس نیکیاں ملتی ہیں مگر رمضان میں ہرایک نیکی کا ستر گنا ملتا ہے، نفل نماز کا ثواب فرض کے برابر ،اور فرض کا ثواب ستر فرض کے برابر کردیا جاتا ہے۔اس سے یہ رہنمائی ملتی ہے کہ نوافل کا اھتمام بھی اعمال رمضان میں شامل ہے،اس لئے کوشش یہ ہونی چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ نوافل کااھتمام ہم اس ماہ مقدس میں کریں۔ رات ودن کے ان قیمتی لمحات کا بہترین استعمال دعائیں کرنا بھی ہے۔دعا عبادت کا اصل ہے،ملکی حالات آئے دن ابتر ہوتے چلے جارہے ہیں، ساری تدبیریں الٹی پڑرہی ہیں، مسجد، مدرسہ، عیدگاہ، درگاہ،خانقاہ سب کچھ نشانے پر ہیں، خطرناک قسم کی سازشیں ہورہی ہیں، ایسی تدبیریں کہ پہاڑ بھی اپنی جگہ چھوڑ دے، ان حالات میں ایک صاحب ایمان کے لئے دعا زبردست ہتھیار کی حیثیت رکھتی ہے۔ ہمیں ملک کی سلامتی، دین اسلام کی اشاعت وحفاظت کے لئے اس ماہ مبارک میں خاص اھتمام کرنا چاہئیے۔
آج لوگوں رمضان کا حق صرف روزہ اور افطاری وسحری کی تیاری کو سمجھ لیا ہے،" میرا روزہ ہے،افطاری کرنی ہے،سحرکھانا ہے"،پورا رمضان اسی پر محیط ہوتا ہے۔یہ چیزیں ٹھیک ٹھاک رہیں تو کہتے ہیں کہ ;اب کی بار تورمضان بڑا اچھا گزر ا" 
پورے رمضان اشیاء خوردنی پرہی خاص توجہ رہتی ہے، اس کی قیمت کا بھوت دماغ پر سوار رہتا ہے، بازار میں اور گھر میں اسی بات کا چرچا ہے کہ;" رمضان شروع ہواتو پپیتا مہنگا ہوگیا، تربوز کی قیمت بڑھ گئی، کیلے مہنگے ہوگئے،ڈرائی فروٹ کی قیمت آسمان پر پہونچ گئی"،وغیرہ ۰۰۰مگر اس بات کا ذکر نہیں ہوتا کہ;" یہ نیکی کا مہینہ ہے، ہر نیکی کی قیمت بڑھا دی گئی ہے اور کئی گنا زیادہ ہوگئی ہے"، یہ بڑی نادانی اور ناواقفیت کی بات ہے،اچھے خاصے پڑے لکھے لوگ اس عنوان کو رمضان میں موضوع سخن نہیں بناتے ہیں، عام لوگوں کا تو کہنا ہی کیا ہے، نیکیوں کے چرچے پر بھی اجر ملتا ہے اورعوام الناس کا اس سے مزاج بنتا ہے اور نیکی کی چاہت دل میں پیدا ہوتی ہے۔
آج یہ سب چیزیں ہم ملک میں دیکھ رہے ہیں کہ غلط اور بے بنیاد باتیں اسقدر چرچے میں لائی جاتی ہیں کہ لوگ صحیح سمجھنے لگتے ہیں۔ہمارے پاس توخدا کا کلام ہے، قرآن ہے اور ماہ مبارک رمضان ہے،باوجود اس کے قرآن وحدیث کی باتوں کو عام کرنے اور چرچے میں لانےکی فکر نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ رمضان میں ہمیں کچھ 
  ایسے لوگ اپنی صف میں نظر آتے ہیں جو صحت مند ہوتے ہوئے بھی روزہ نہیں رکھتےہیں، ان بدنصیبوں کواس بات کا علم نہیں ہے کہ رمضان کے ایک روزہ کی قیمت کیا ہے؟پوری زندگی روزہ کی حالت میں گزاردینے سے بھی رمضان کے روزوں کی تلافی ممکن نہیں ہے۔رمضان کی سعادت اور روزہ کی توفیق کے لئے خدا بندے کے لئے فضا سازگار بناتا ہے، روزے اور نیکی کی راہ میں حائل ہر رکاوٹ کو دور کرتا ہے،
  شیطان کو قید کردیتا ہے۔بخاری ومسلم شریف کی حدیث میں یہ بات لکھی ہوئی ہے کہ آسمان کے دروازے کھول دیئےجاتےہیں، جہنم کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں، شیاطین زنجیروں میں جکڑ دیئے جاتے ہیں۔نفلی عبادت کا ثواب فرض کے برابر اور فرض کا ثواب اس ماہ مبارک میں ستر فرض کے برابر کردیا جاتا ہے۔روزہ دار کے لئے دو خوشی کے مواقع آتے ہیں، ایک جب وہ روزہ افطار کرتا ہے اور دوسرا جب وہ اپنے رب سے ملاقات کرتا ہے۔حدیث میں اللہ کا فرمان یہ بھی ہے کہ ابن آدم کا ہر عمل اس کے لئے ہے مگر روزہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا۔
یہ سب کچھ اسی لئے ہوتا ہے کہ بندہ روزہ کی برکتیں حاصل کرلےاور خدا کی خاص خوشنودی کا حقدار ہوجائے۔
یہ روز وشب یہ صبح وشام یہ بستی یہ ویرانہ سبھی بیدار ہیں انساں اگر بیدار ہوجائے     

مفتی ہمایوں اقبال ندوی 
نائب صدر، جمعیت علماء ارریہ 
وجنرل سکریٹری، تنظیم أبناء ندوہ پورنیہ کمشنری 
۹/رمضان المبارک ۱۴۴۶ھ بروز دوشنبہ

اتوار, مارچ 09, 2025

ٹرین میں ناری شکتی پردرشن

ٹرین میں ناری شکتی پردرشن 
Urduduniyanews72
عالمی یوم خواتین سے سبھی واقف ہیں، یہ ہرسال مارچ کی آٹھویں تاریخ کوپوری دنیا میں منایا جاتا ہے۔اس کا پیغام عورتوں کو بااختیار بنانا،نیز ان پر ہونے والے مظالم کو روکنا ہے، یہ ایک اہم کام ہے اوراس وقت کا ایک بڑا سماجی مسئلہ بھی ہے،اس پر محنت وکاوش کی شدید ضرورت ہے۔ افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ بدقسمتی سے اپنے ملک میں خواتین کو بااختیار بنانے والا یہ اہم ایجنڈا بھی سیاسی ہتھکنڈا بن گیا ہے۔مارچ کی پہلی تاریخ سے ہر سیاسی پارٹی کی طرف سے تیاری شروع ہوجاتی ہے، بڑے بڑے بینر تیار کئے جاتے ہیں، اس میں بلند وبانگ دعوے کئے جاتے ہیں، پھر آٹھ مارچ کے دن زبردست تقریر وتقریب کا اہتمام کیا جاتا ہے، اور اس میں یہ بات کہی جاتی ہے کہ خاتون کے لئے دراصل مسیحا ہم ہیں، ہماری وجہ سے خواتین کسی میدان میں مردوں سے کم نہیں ہیں، اور خاص طور پر ناری شکتی کرن پر فوکس کیا جاتا ہے ۔یہ باتیں اب تک اسٹیج سے ہی کہی جاتی رہی ہیں، اس کا عملی نمونہ بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے مگر اس بار عملی طور پر ٹرین سے پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے،خواتین کے ذریعہ مردوں کو پٹوا کر اس کی زندہ دلیل پیش کی گئی ہے کہ انہوں نے ہم سے حوصلہ پاکر یہ کارنامہ انجام دیا ہے، یہ بات اس لئے بھی کہی جاسکتی ہے ان واقعات میں بڑی یکسانیت ہے،راجستھان کے ایک عالم دین جو بزرگ ہیں،عمر کی آخری دہلیز پر ہیں، متشرع اور باریش ہیں، گجرات میں چھیڑ خانی کا ان پر الزام لگا کر ان کی پٹائی کی گئی۔وہیں ایک دوسرے بزرگ مفیک الاسلام پر بھی چھیڑ خانی کا الزام لگا کر خانون نے ان کی خوب پٹائی کردی، یہ سب کچھ آٹھ مارچ کے آس پاس کیا گیا ہے۔
 ، ان واقعات کی باریک بینی سے تحقیق اور جانچ ہو تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوسکتا ہے۔
اس واقعہ کا دوسرا پہلو جس کی طرف عام لوگوں کی توجہ نہیں ہے ،اس کے ذریعہ یہ پیغام بھی دینے کی ناکام کوشش کی گئی ہے کہ ہماری خواتین کو دراصل خطرہ مسلمانوں سے ہے،اور ہم نے انہیں اتنا پاور دیدیاہے کہ وہ اپنی تھپڑ کے ذریعہ ان زیر وزبر کررہی ہیں ۔یہ محض اتفاقی حادثہ نہیں ہے، بلکہ اس سے سازش کی بو آتی ہے،ناری شکتی کرن کا جو نعرہ اسٹیج سے دیا جاتا ہے اس کا عملی نمونہ ان دونوں واقعات کے ذریعہ دکھایا گیا ہے، یہ درحقیقت ٹرین میں ناری شکتی پردرشن ہے۔ اس کی پوری کہانی لکھی گئی ہے۔ایک خاتون کو طاقت انصاف کے ذریعہ مل سکتا ہے وہ تو کوسوں دور ہے، علیگڑھ کے ھاترس میں رونما ہونے والا المناک حادثہ جس نے پورے ملک کو ہلاکر رکھ دیا تھا، پھر اس وقت چرچے میں آگیا ہے۔ایک ماں اپنی بیٹی کی عصمت وعزت اور جان وجہاں کھودینے کے بعد انصاف کے لئے اس وقت در در بھٹک رہی ہے مگر انہیں سیکورٹی تو مل گئی ہے مگر انصاف نہیں۔ملاہے،ضلعی عدالت سے ملزمین بری کردئیے گئے ہیں،مذکورہ بالا دونوں واقعات کے ذریعہ اس پر پردہ ڈالنے کا کام بھی کیا گیا ہے۔ 
ہمایوں اقبال ندوی ارریہ 
۹/مارچ ۲۰۲۵ء بروز یکشنبہ

منگل, مارچ 04, 2025

** اللٌٰہ ***

** اللٌٰہ *** 
Urduduniyanews72
میرے جنوں کو شعلہ بیانی دےاللٌٰہ 
پتھر بھی ہوجائے پانی، دےاللٌٰہ

میرےدریدہ پیراہن بھی مہک اٹھیں
پھولوں سادن رات سہانی دےاللٌٰہ

میرےباغ کےگل بوٹےبھی ہوں خوش تر
گوہرِ شبنم کی ارزانی دےاللٌٰہ

میرےتیرےبیچ نہ کوئی حائل ہو
ایسا کوئی رازِ نہانی دےاللٌٰہ

طیبہ جاؤں پلکوں سے ذرات چنوں 
قسمت کو انمول نشانی دےاللٌٰہ

صحراؤں میں بیت گئی یہ عمرتمام 
برسوں کاپیاساہوں، پانی دےاللٌٰہ

موجوں کی طغیانی کا ادراک ملے
کشتی کو اب اذنِ روانی دےاللٌٰہ

خاک کاپیکرہوں لیکن تو چاہے تو
میری غزل کونور فشانی دےاللٌٰہ

اپنی قوم کے نام جسے منسوب کروں 
ایسی غیرت خیز کہانی دےاللٌٰہ

گھر آنگن کومہکادےتورحمت سے
بیلا، جوہی،رات کی رانی دےاللٌٰہ

میری کیااوقات دعا کو ہاتھ اٹھاؤں 
تو چاہے تو سب آسانی دےاللٌٰہ

سب اشعار انس مسرورکےہوں مقبول 
ایسا طرزِ پاک بیانی دےاللٌٰہ
                    **********     
                * انس مسرورانصاری
         ,قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن
سکراول،اردوبازار،ٹانڈہ۔ضلع امبیڈکرنگر۔224190/
                                ( یو، پی) 
                      رابطہ/9453347784/

جمعہ, فروری 28, 2025

رمضان المبارک کے روزے صبر وتحمل کا پیغام ۔

رمضان المبارک کے روزے صبر وتحمل کا پیغام ۔
     مضمون نگار :  محمد ضیاء العظیم قاسمی ،
معلم  چک غلام الدین ہائی اسکول بیلسر ،ویشالی ،بہار 
موبائل نمبر 7909098319 
Urduduniyanews72
           اللہ رب العزت نے اس دنیا کی تخلیق فرما کر انسانوں کے سلسلے کو جاری وساری فرمایا، اور انسانوں کے مزاج اور اس کی ضروریات کے مطابق دنیا کی تمام چیزوں کو پیدا فرمایا ہے۔ رب کائنات نے انسانوں کی تخلیقات ایک عظیم مقصد کے تحت فرمائی ہے، انسان جب اپنی تخلیقی پس منظر پر غور وفکر کرکے آیات قرآنی پر نظر ڈالتا ہے تو اسے اس بات کا علم واندازہ ہوتا ہے کہ انس وجن کی تخلیقات رب کائنات کی عبادت وریاضت اور بندگی کے واسطے کی گئی ہے، وَمَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَالۡاِنۡسَ اِلَّا لِيَعۡبُدُوۡنِ (الذریات: ٥٦)
ترجمہ: اور میں نے جنات اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔

عبادت وبندگی نام ہے امر بالمعروف ونہی عن المنکر یعنی احکامات الہی کے بنائے حدود اور دائرے میں رہ کر زندگی گزارنے کا۔
اللہ رب العزت نے انسانوں پر چند احکامات فرض کیے ہیں جنہیں بجا لانا لامحالہ کلمۂ طیبہ پڑھنے والوں اور اس پر یقین کرنے والوں کے لئے لازمی ہے، ان احکامات میں سے ایک حکم رمضان المبارک کے روزے ہیں،
اللہ رب العزت نے مسلمانوں پر رمضان المبارک کا روزے فرض کیے ہیں۔ اور روزہ نام ہے صبح صادق سے غروب آفتاب تک کھانے پینے اور نفسانی خواہشات سے رک جانے کا۔
روزہ ارکان اسلام کا ایک رکن ہے،  رمضان المبارک اسلامی سال کا  نواں مہینہ ہے اس ماہ کی فضیلت واہمیت، افضلیت و برتریت دیگر ماہ سے بڑھے ہوئے ہیں۔ کیوں کہ یہ ماہ اپنے اندر کئی جہت سے خصوصیات کا حامل ہے، اور سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اسی ماہ میں کلام اللہ کا نزول ہوا جس کی شہادت خود قرآن مجید نے دی ہے۔ 

شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَ الْفُرْقَانِۚ (البقرۃ: ١٨٥)
ترجمہ: رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کے لئے ہدایت اور رہنمائی ہے اور فیصلے کی روشن باتوں (پر مشتمل ہے۔) 
اللہ رب العزت نے روزے کی فرضیت کے وجوہات بھی خود قرآن مجید میں واضح طور پر بیان فرمائے:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ (البقرۃ: ١٨٣)
ترجمہ: اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم متقی (پرہیزگار) بن جاؤ۔

تقوی کیا ہے؟
تقوی کا استعمال شرعی لحاظ سے دو معنوں پر ہوتا ہے، بچنا احتیاط کرنا، اور گناہ ومعصیت سے خوفزدہ ہوتے ہوئے دور رہنا ،ظاہر ہے کہ جب کسی چیز سے انسان خوفزدہ ہوگا  تبھی ان چیزوں سے احتیاط کرے گا، تقوی کا اصل تقاضہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے قائم کردہ اصول شکنی سے خوفزدہ ہونا اور اس خوف کی وجہ سے ناجائز خواہشات اور تمام قسم کے معصیت اور فواحش سے بچنا۔
رمضان المبارک کے روزے ہمیں تقویٰ وخشئیت الہی کا درس دیتا ہے، کیوں کہ روزے کی حالت میں حلال اور جائز ومباح چیزیں بھی حرام ہیں اور یہ محض رب کی اطاعت و بندگی کے تقاضے پورے کرنے کے لئے، یقیناً اللہ رب العزت نے انسانوں کے درجے اور مراتب طے کرتے ہوئے واضح طور پر فرمان جاری کردیا کہ ہمارے نزدیک محترم ومکرم اور معظم وہ بندہ ہے جو مجھ سے میرے معاملے میں تقویٰ پرہیزگاری کا لحاظ رکھے؛ يَآ اَيُّـهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّاُنْثٰى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا ۚ اِنَّ اَكْـرَمَكُمْ عِنْدَ اللّـٰهِ اَتْقَاكُمْ ۚ اِنَّ اللّـٰهَ عَلِيْـمٌ خَبِيْـرٌ (الحجرات: ١٣)
اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک ہی مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے اور تمہارے خاندان اور قومیں جو بنائی ہیں وہ اس لیے تاکہ تمہیں آپس میں پہچان ہو، بے شک زیادہ عزت والا تم میں سے اللہ کے نزدیک وہ ہے جو تم میں سے زیادہ پرہیزگار ہے، بے شک اللہ سب کچھ جاننے والا خبردار ہے۔

یقیناً رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ ہمارے لئے زہد وتقویٰ کا درس دیتا ہے، مسلمان اس ماہ میں محض خوشنودئ الہی کے لئے کھانے پینے کے ساتھ ساتھ نفسانی خواہشات سے خود کو دور رکھ کر بندگی کے تقاضے پورے کرنے کی سعی کرتے ہیں، اور بزبان حال وقال اس بات کا عہد کرتے ہیں کہ میری عبادت وریاضت اور میری بندگی، میری موت وحیات، میرا جاگنا سونا، میرا اٹھنا بیٹھنا، میرا چلنا پھرنا، میری ہر سانس میری ہر آس یہ محض آپ کے لئے ہے، آپ کے احکامات کی پیروی آپ کے فیصلے پر راضی رہنا یہی میرا سرمایۂ حیات ہے، ہم سے جس طرح کی بھی قربانی کا مطالبہ ہوگا ہم ایک رب کی خاطر اس کے لیے مستعد رہیں گے۔
وہی  رب ہے جس نے انسانوں کو پیدا فرمایا اور اشرف المخلوقات کے شرف سے نوازتے ہوئے اس پر وہی احکامات مسلط فرمائے جسے وہ با آسانی بجا لا سکے ”لايُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا“ اللہ کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ کا مکلف نہیں کرتا۔ (البقرۃ: ٢٨٦)
 یقیناً اللہ کی ذات وصفات اونچی اور بلند ہے، وہ ارحم الراحمين والی صفت رکھتے ہیں، وہ کبھی بندوں کے ساتھ دشواریاں نہیں چاہتے ہیں بلکہ سہولت اور آسانی چاہتے ہیں، یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ (البقرۃ: ١٨٥)
 اللہ بندوں کے لئے سہولت چاہتے ہیں دشواری نہیں، اور رمضان المبارک کے روزے بندوں کے حق میں ہر محاذ پر بہتر اور اعلیٰ ہے، روزے سے ہمارے اندر تقویٰ کے ساتھ ساتھ تحمل و برداشت اور صبر کے آداب پیدا ہوتے ہیں،صبر وضبط یہ اسلامی تعلیمات کا اہم جزو ہے، اللہ رب العزت نے صبر کرنے والوں کو اپنا خاص دوست قرار دیتے ہوئے فرمایا: ”ان اللہ مع الصابرين“ یقیناً اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہیں،(البقرۃ: ١٥٣) صبر و تحمل اور ضبط کے اوصاف یہ بڑی نعمت ہے، اور اس کے ذریعہ ہماری زندگی مکمل کامیاب وفلاح پا سکتی ہے، اللہ رب العزت نے ایسے لوگوں کے لیے خوشخبری سنائی ہے اور مومنین کے اوصاف میں یہ ایک اہم صفت ہے؛ والکاظمین الغیظ والعافین عن الناس۔ (آل عمران: ١٣۴) ترجمہ: اور وہ اپنے غصے کو ضبط کرتے ہیں اور لوگوں کو معاف کردیتے ہیں۔

روزے کی فضیلت و اہمیت پر اگر توجہ دی جائے تو یہ مسلمانوں کے لئے بڑا ذریعہ و وسیلہ اور موقع ہے کہ وہ اپنے رب کی رضا خوشنودی حاصل کرے، کیوں کہ اللہ کا وعدہ روزہ دار کے سلسلے میں بےپناہ انعامات و اکرامات کا ہے۔

رمضان المبارک کے روزوں کی اہمیت و فضیلت اور تقاضوں کے سلسلے میں چند احادیث:

عن ابی هریرة قال، قال رسول ﷲ صلی الله علیه وآله وسلم: من صام رمضان ایماناً و احتسابا غفرله ماتقدم من ذنبه. (صحیح البخاری‘ 1: 10‘ کتاب الایمان‘ رقم حدیث: 38)
ترجمہ: حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے ایمان اور احتساب کے ساتھ رمضان کا روزہ رکھا اس کے پچھلے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔

الصیام جُنة من النار کجُنة أحدکم من القتال مالم یخرقھا بکذب وغیبة.
ترجمہ: جس طرح میدانِ جنگ میں دفاع کے لئے ڈھال ہوتی ہے۔ روزے تمہارے لئے اسی طرح آگ (جہنم) کے لئے ڈھال ہیں۔ جب تک کہ انسان اس ڈھال (روزہ) کو جھوٹ اور غیبت سے توڑ نہ ڈالے۔

علیکم بالصوم فإنه لا مثل له
ترجمہ: تم پر روزہ رکھنا فرض ہے کہ روزے جیسی عبادت کی کوئی مثال نہیں۔

قال اللہ عزوجل کل عمل ابن اٰدم له إلا الصیام فإنه لي وأنا أجزي به والذي نفس محمد بیدہ لخلوف فم الصائم أطیب عند اللہ من ریح المسك.
ترجمہ: ابن آدم ہر عمل اپنے لئے کرتا ہے مگر روزہ صرف میری خاطر رکھتا ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا۔ خدا کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں محمد ﷺ کی جان ہے، روزے دار کے منہ کی بُو خدا تعالیٰ کے نزدیک مشک و عنبر سے بھی زیادہ فرحت افزا ہے۔

ان تمام پہلوؤں پر اگر ہم توجہ دیں گے تو یقیناً ہمیں اس بات کا علم واندازہ ہوگا کہ روزہ ایک اہم عبادت ہے اور اس سے انسان کے اندر تقویٰ وخوف الہی پیدا ہوتا ہے اور ان چیزوں سے ہی دنیا و آخرت کی کامیابی ہے، اور رمضان المبارک کے روزے ہمیں صبر و تحمل کا پیغام دیتا ہے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...