Powered By Blogger

اتوار, اپریل 27, 2025

خون کا آخری قطرہ مہمان کی نذر

خون کا آخری قطرہ مہمان کی نذر               
Urduduniyanews72 
کشمیر کے ضلع پہلگام میں واقع بیسرن گھاٹی کا واقعہ نہایت ہی دردناک والمناک ہے۔ گزشتہ منگل کے دن ۲۲/اپریل ۲۰۲۵ءکو نہتے اور مظلوم۲۸/ سیاحوں کودہشت گردوں نےموت کی نیند سلادیا ہے۔اس واقعے کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ وہ سبھی بیسرن گھاٹی میں جسے "منی سویزرلینڈ" کہا جاتا ہے سیر و سیاحت کے لیے آئے تھے۔کشمیر میں باہر سے آنے والوں کی حیثیت مہمان کی سی ہے۔یہاں کی اکثریت آبادی مسلمانوں کی ہے۔ مذہب اسلام میں مہمانوں کابڑا مقام ہے، ارشاد نبوی ہے: "جو شخص خدا اور قیامت کے دن پر ایمان لایا ہے اس کو چاہیے کہ اپنے مہمان کی عزت کرے "(بخاری)
 اس حدیث کا تقاضا یہ ہےکہ مہمانوں کی عزت کی جائے، ان کی تکریم کی جائے، ان کی ضیافت کے ساتھ ان کی حفاظت کا بھی انتظام کیا جائے، یہ چیزیں ایک مسلمان پر صاحب ایمان ہونے کے لیے ضروری ہیں۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ۲۸/سیاحوں کی جان چلی گئی، دہشت گردوں نے انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا،یہ سیاح ہی نہیں بلکہ کشمیری مسلمانوں کے لئے مہمان کا درجہ رکھتے تھے، انہیں بچایا نہیں جاسکا، ان کی جانی حفاظت نہیں ہوسکی، اور یہ سب کچھ چونکہ کشمیر میں رونما ہوا، لہذا اس بات کا سب سے زیادہ صدمہ کشمیری مسلمانوں کو پہونچاہےاور واقعی یہ لائق افسوس امر ہے۔
 آج اسی پیغام کو دینے کے لیے کشمیری عوام سڑک پر ہیں، بازار بند ہیں، مساجد کے منبر و محراب سے اس بزدلانہ حملے کی مذمت ہو رہی ہے، "ٹورسٹ ہماری جان ہیں"، ٹورسٹ ہماری شان ہیں"کے نعرے بلند کیے جا رہے ہیں۔کشمیری لوگ یہ بھی کہ رہے ہیں کہ ہم ان سیاحوں سے پیسے کماتے ہیں، ان سے ہماری روزی روٹی چلتی ہے، وہ شہید نہیں ہوئے ہیں دراصل ہم شہید ہو گئے ہیں،ہم ان کے لیے اپنے خون کا آخری قطرہ دے سکتے ہیں"
کشمیریوں کی معاش کابڑا دارومدار سیاحت پر ہی ہے،اس تکلیف دہ دہشت گردانہ حملے کے بعد سیر وسیاحت پر برا اثر واقع ہونا فطری بات ہے، عموما یہ کہا جاتا ہے کہ مہمانوں کی آمد سے گھر میں برکت ہوتی ہے، اسی عنوان پر جناب 
 ماجد دیوبندی نے بڑا اچھا مصرع نظم کیا ہے کہ 
 اللہ رے میرے گھر کی برکت نہ چلی جائے
 دو روز سے گھر میں کوئی مہمان نہیں ہے
کشمیریوں کے لیے یہ مہمان برکت ہی نہیں بلکہ رزق کا سامان ہیں، ان کی آمد موقوف ہونے کا سیدھا مطلب ان کا حقہ پانی بند ہونا ہے، یہ ان کے لئے بہت زیادہ فکر وتشویش کی بات ہے۔
قرآن کریم میں مہمان فرشتوں کا ایک قصہ بھی مذکور ہےکہ حضرت لوط علیہ السلام کے پاس کچھ مہمان تشریف لائے، گاؤں والوں کو خبر ہوئی تو ان پر حملہ کرنا چاہا،حضرت لوط علیہ السلام نے مدافعت و بچاؤ کی بھرپور کوشش کی اور حملہ آوروں سے یہ کہاکہ : یہ میرے مہمان ہیں،ان کے بارے میں مجھ کوفضیحت نہ کرو، اور خدا سے ڈرو مجھے رسوا نہ کرو"( سورہ حجر)
 علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ علیہ نےاس قرآنی واقعہ سے یہ استدلال کیا ہے کہ مہمانوں کی حفاظت و مدافعت بھی ایک میزبان کے ضروری امر ہے، مہمان کے منجملہ حقوق میں سے یہ بھی ایک حق ہے۔ بحمداللہ اس آیت کی عملی تفسیر بھی ہمیں پہلگام میں دیکھنے کو ملی ہے۔کشمیری مسلمانوں نے جو وہاں موجود تھے ان کی حفاظت و مدافعت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ اس نازک ترین وقت میں بھی اپنے مہمانوں کو تنہا نہیں چھوڑا ہے جبکہ اپنے بھی ساتھ چھوڑ کر بھاگے جارہے تھے، قیامت کا منظرتھا،نفسی نفسی کا عالم تھا، تابڑ توڑ گولیاں چل رہی تھیں، سبھی اپنی جان بچا کر بھاگ رہے تھے ،وہیں یہ کشمیری بھائی اپنے مہمان کی حفاظت و مدافعت میں لگے ہوئے رہے۔
ایک ویڈیو جو سوشل میڈیا پر خوب وائرل ہورہی جسمیں ایک جوان ایک زخمی بچے کو اپنی پشت پر لاد کر دوڑتا چلا جارہا ہے، اس کا نام ساجد ہے اور پہلگام ہی کا رہنے والا ہے، جب ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے یہ واضح کیا کہ تنہا میں نے سیاحوں کی مدد نہیں کی ہے بلکہ بہت سے لوگ ہیں جو اپنے کندھے پر زخمیوں کو اٹھا اٹھا کر محفوظ مقامات کو منتقل کر رہے تھے،وہ گھوڑے والے جو سیاحوں کو بیسرن وادی پہنچانے کا ذریعہ تھے انہوں اپنے مہمانوں کی حفاظت کا سب سے زیادہ حق ادا کیا ہے۔ گولیوں کے خوف سےوہ اپنی جان بچا کر بھاگے نہیں بلکہ بیسرن میں ڈٹے رہے، اور مظلوموں کی مدد کرتے رہے۔
بھائی ساجد کا یہ پیغام بھی بہت اہم ہے جو انہوں نے ملک کے تمام لوگوں کو آن کیمرہ دیاہے کہ:" افواہ میں نہ پڑیں، یہ قتل اپ کے بھائی کا نہیں، بلکہ ہم کشمیریوں کا ہوا ہے۔ پورے کشمیر میں اس وقت ماتم ہے، ایک ساجد ویڈیو میں نظر ارہا ہے مگر بیسرن میں ہزاروں ساجد موجود تھے،اوروہ اپنے مہمانوں کی حفاظت و مدافعت کر رہے تھے،جنکی ویڈیوزنہیں آسکی ہیں"۔
 دوسرا نوجوان جس کا نام سید عادل حسین شاہ ہے ان کی کہانی تو مذکورہ قرآنی آیات کی مکمل عملی تفسیر ہے۔عین اس وقت جب سبھی لوگ بھاگ رہے تھے، افرا تفری کا ماحول تھا، گولیاں چل رہی تھیں، سید عادل حسین شاہ اپنے گھوڑے پر لادکر ٹورسٹ کو لے جا رہے تھے، ایک دہشت گرد نے اس سیاح کو اپنی بندوق کا نشانہ بنانا چاہا تو بے ساختہ وہی جملہ ان کی زبان سے نکل گیا جو قرانی ہے اورخدا کے نبی حضرت لوط علیہ السلام کی زبانی ہےکہ:"یہ میرے مہمان ہیں، ان کے ساتھ ایسا مت کرو!، اسی پرسید عادل حسین شاہ نے اکتفا نہیں کیا بلکہ ظلم کے خلاف سینہ سپر ہوگئے اور اپنے مہمان کی حفاظت میں حسینی کردار ادا کیا ہے، دہشت گردوں سے مقابلہ کیا ہے، اس رائفل کی نوک کا خود عادل نے سامنا کیا ہے جوٹورسٹ پر چلنےجارہی تھی،گولی چلتی رہی مگر وہ ہار نہیں مانے،آخری سانس تک لڑتے رہےاور اپنے خون کا اخری قطرہ مہمانوں کے نذرکردیا ہے۔ کشمیریوں نے جو کچھ اپنی زبانی دعوے میں کہا ہےاس کی یہ عملی دلیل بھی ہے،اللہ تعالٰی اس قربانی کو قبول فرمائےاورخیر کثیر کا ذریعہ بنائے، آمین 
 آج ملک میں پہلگام حادثے سے جہاں نفرت اور دہشت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے،وہیں سید عادل حسین شہید کی یہ حسینی شہادت خوب خوب رنگ لارہی ہے،نفرت پھیلانے والوں کو منھ کی کھانی پڑ رہی ہے، پریاگ راج کے بھاجپاایم ایل اے ہرش وردھن واجپئی جی بھی خود کو یہ کہنے پر مجبور پاتے ہیں کہ ;"میں ہندو ہوں، لیکن اس مسلمان خچر والے کا بھی خیال رکھیے گاجس نے نہتے روپ سے ایم فور رائفل اتنکیوں سے چھیننے کی کوشش کی اور اسی میں اس کی جان چلی گئی ۔کشمیریوں کے بارے میں سوچیے گا ،جو مسلمان ہیں، اور اج سری نگر میں شٹ ڈاؤن چل رہا ہے، بھارتی مسلمانوں کو پاکستانوں سے کمپیئر مت کیجئے گا۔
واقعی سید عادل شاہ نے اپنی اس قربانی سےپورے ملک کے انصاف پسند لوگوں کی انکھیں کھول دی ہے اور اسلام کا یہ پیغام عملی طور پر دیا ہے کہ ایک مہمان کی قیمت صاحب ایمان کی نظر میں کیا ہے؟ ہم ان کی قربانی کو سلام کرتے ہیں۔

ہمایوں اقبال ندوی
 نائب صدر جمعیت علماء ارریہ 
 و جنرل سیکریٹری،تنظیم ابنائے ندوہ پورنیہ کمشنری
26/4/2025

جمعرات, اپریل 17, 2025

وقف ایکٹ پر عدالت عالیہ کا موقف

وقف ایکٹ پر عدالت عالیہ کا موقف              
Urduduniyanews72
     وقف ترمیمی بل جو دونوں ایوانوں سے پاس ہوتے ہوئے صدر جمہوریہ کے دستخط کے بعد ایکٹ کی شکل اختیار کرچکا ہے۔اس کے عملی نفاذ کا بھی اعلان کر دیا گیا ہے، اس سے مسلم تنظیموں اور وطن عزیز کے انصاف پسند لوگوں میں بڑی مایوسی پیدا ہوئی ہے،پورا ملک سراپا احتجاج بنا ہوا ہے، تکلیف دہ بات یہ ہے کہ گزشتہ ایک سال کی محنت رائیگاں چلی گئی ہے،پورا سال اسی ایک بات کو سمجھانے میں گزر گیا کہ یہ وقف ترمیمی بل آئین ہند کے خلاف ہے۔ ضابطہ یہی ہے کہ قانون ساز پارٹی بھی ملکی آئین کے خلاف دستور سازی نہیں کرسکتی ہے، اس کا حق اسے قطعی حاصل نہیں ہے۔اتنی صاف اور سیدھی بات بھی حکومت وقت کی سمجھ میں نہیں آسکی کہ یہ بل جمہوری ملک میں بسنے والے شہریوں کے بنیادی حقوق سے متصادم ہے، ارٹیکل 14،15 کے ذریعے یہاں کے ہر شہری کو مساوات کا حق حاصل ہے، ارٹیکل 25 کے ذریعے مذہب کی ازادی حاصل ہے، ارٹیکل 26 کے ذریعے مذہبی امور کے انتظام کی ازادی کا حق دیا گیا ہے، یہ بنیادی حقوق ہیں،ان سے کھلواڑ نہیں کیا جاسکتا ہے، جبکہ وقف امیڈمینٹ بل ان تمام حقوق پر کھلا ہوا حملہ ہے،پارلیمنٹ میں مذکورہ بالا دفعات کی روشنی میں مدلل اور مفصل بحث بھی ہوئی ہے، غير مسلم ممبران پارلیمنٹ نے تواس عنوان پرتاریخ رقم کی ہے اوربہترین مثال پیش کی ہے،،دنیا بھر میں یہ پیغام گیا ہے اور ہر کسی نے اس کی بڑی پذیرائی بھی کی ہے، اپوزیشن ممبران نے اس بات کو بڑی سنجیدگی سے ہاؤس میں پیش کیا ہے کہ یہ صرف مسلمانوں کامعاملہ نہیں ہے، بلکہ ملک کی آئین کی بقا اور اس کےتحفظ کا مسئلہ ہے، اگر اس پرفوری قدغن نہیں لگایا گیا تو ملک کا آئین ختم ہوجائے گا، چنانچہ ان تمام احباب نےاپنی ذمہ داری کا بروقت خیال کیا اور اس لمحہ کو یادگار اور تاریخ سازبھی بنادیا ہے،ہم ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں، مگر افسوس کے ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ سب کاوشیں دونوں ایوانوں میں سود ہوگئیں ، حزب اقتدار کو قانون بنانا تھا سو بنا لیا گیا، اوربڑی تیزی میں اس کے نفاذ کا بھی اعلان کردیا گیا، یہ سب دیکھ کر انصاف پسند لوگوں میں بڑی بے چینی پیدا ہوئی، بالآخر مجبور ہوکر عدالت عالیہ میں اس قانون کو چیلینج کیا گیا، آج 16/اپریل 2025۶ کی تاریخ میں ان تمام عرضیوں پر پہلی سماعت کی گئی ہے اور بحمدللہ بہت ہی خوش آئندرہی ہے،پہلی شنوائی میں سپریم کورٹ نے یہی باتیں کہی ہے کہ جو گزشتہ ایک سال سے کہی جارہی ہے،جو بات گزشتہ ایک سال سے حکومت کی سمجھ میں نہیں آسکی وہ عدالت عالیہ نے اپنی پہلی سماعت میں واضح کردیاہےاور یہ کہ دیاہے کہ ;یہ پوری طرح دھارمک معاملہ ہے اور اس میں کسی طرح کی مداخلت سویکار نہیں ہے،جن آئینی دفعات کی روشنی میں اس قانون کے خلاف درخواستیں پیش گئی ہیں اور انمیں یہ بات مشترک ہے کہ یہ ملکی آئین کے خلاف ہے گویاعدالت عالیہ نے بھی اسے تسلیم کیا ہے، مذکورہ عدالتی تبصرہ سے یہ دعوٰی کیا جاسکتا ہے، علاوہ ازیں ترامیم کےاہم نکات کو سوالوں کے ذریعہ بھی آج سپریم کورٹ نے صاف کیا ہے اور یہ پوچھ لیا ہےکہ کہ; کیا آپ کسی ہندو بورڈ میں کسی مسلمان کو جگہ دیں گے، چیف جسٹس سنجید کھنہ جی سہ رکنی بینچ کا بذات خود حصہ ہیں، انہوں نے یہ تشویش ظاہر کی ہے کہ وہ وقف کی جائیداد جو طویل عرصے سے وقف کے طور پر استعمال ہورہی ہے اور اس کا کوئی وقف نامہ نہیں ہے، اگر اسے غیر موقوفہ قرار دیا جائے تو سنگین نتائج کا سامنا ہوسکتا ہے۔
وقف کمیٹی کے حوالہ سے بھی باتیں آئی ہیں، عدالت عالیہ کا موقف یہی ہے کہ مرکزی کمیٹی میں مرکزی وزیر اقلتی امور کے علاوہ غیر مسلم کو جگہ نہیں مل سکتی ہے، اور ریاستی وقف کمیٹی میں ریاستی وزیر اقلتی امور کے علاوہ غیر مسلم نہیں ہوسکتے ہیں۔
عدالت عالیہ نے واقعی پہلی بحث میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کردیا ہے،یہ اگر چہ کوئی فیصلہ نہیں ہے مگر اس سے یہ تو واضح ہوگیا ہے کہ ہمارے غم کو ملک کی بڑی عدالت نے سمجھ لیا ہےاور یہ آنسو جو جاری ہیں یہ بے سبب نہیں ہیں بقول عاجز رحمہ اللہ 
یہ آنسو بے سبب جاری نہیں ہے                  
مجھے رونے کی بیماری نہیں ہے                  
بہت دشوار ہے سمجھانا غم کا                   
سمجھ لینے میں دشواری نہیں ہے                 
ہمایوں اقبال ندوی
نائب صدر، جمعیت علماء ارریہ 
وجنرل سکریٹری، تنظیم أبناء ندوہ پورنیہ کمشنری
16/4/2025

بدھ, مارچ 26, 2025

ویشالی کی بیٹی ثانیہ شفق نے بہار بورڈ انٹر آرٹس (بارہویں) میں کامیابی کا پرچم لہرایا

ویشالی کی بیٹی ثانیہ شفق نے بہار بورڈ انٹر آرٹس (بارہویں) میں کامیابی کا پرچم لہرایا
Urduduniyanews72
ضیائے حق فاؤنڈیشن کی جانب سے ثانیہ شفق بنت ذوالفقار علی خان کو انٹر آرٹس (بارہویں) میں کامیابی پر مبارکبادی ودعائیہ نشست کا انعقاد

پھلواری شریف پٹنہ مورخہ 26 /مارچ 2025 (پریس ریلیز :محمد ضیاء العظیم )
ثانیہ شفق ساکن مجھولی ضلع ویشالی بہار نے انٹر آرٹس میں امتیازی نمبر سے کامیابی حاصل کر کے ریاست بہار میں چھٹا اور ضلع ویشالی میں دوسرا مقام حاصل کیا ہے ۔ ثانیہ شفق نے 467نمبر حاصل کرکے یہ کارہائے نمایاں انجام دیا ہے، ثانیہ شفق چک غلام الدین ہائی اسکول بیلسر ویشالی کی طالبہ ہیں ، انہوں نے محض اساتذۂ کرام کی نگرانی اور ذاتی مطالعہ کے ذریعہ اس کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کے والد ذوالفقار علی خان خود اسی ادارہ میں انگریزی کے استاذ ہیں، 
اس موقع پر ضیائے حق فاؤنڈیشن میں ایک دعائیہ نشست کا اہتمام کیا گیا جس میں قوم وملت کے تمام بچوں کی کامیابی اور اچھے مستقبل کے لئے دعا کی گئ،اور اظہار خیال کیا گیا، 
 محمد ضیاء العظیم اردو معلم نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ثانیہ شفق چک غلام الدین ہائی اسکول کی ہونہار طالبہ ہیں، انہوں نے جہد مسلسل کے ساتھ یہ کارہائے نمایاں انجام دیا ہے، یقیناً ان کی کامیابی ہم سب کی کامیابی ہے، ہم ان کے حق میں دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے مستقبل کو تابناک بنائے ۔
ذوالفقار علی خان انگریزی معلم نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کرتے ہوئے کہا کہ کامیابی حاصل کرنے والے بچوں کو زندگی کی یہ کامیابی بہت بہت مبارک ہو، میں بحیثیت والد اور استاذ ان تمام والدین، اساتذۂ کرام، اور گارجین وسرپرست کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے طلبہ وطالبات کی بھر پور رہنمائی کی جن کاوشوں کی بنا پر ایک اچھا نتیجہ ابھر کر سامنے آیا ۔ محترم انیل کمار ہندی استاذ نے بھی اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ثانیہ شفق ایک ہونہار طالبہ ہے جس نے ویشالی ضلع کا نام روشن کرکے ہم سبھوں کو ایک عظیم اور نایاب تحفہ دیا ہے، میں بحیثیت استاذ ایسے شاگردہ پر فخر محسوس کرتا ہوں، ڈاکٹر امریندر کمار صدر مدرس نے بھی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ چک غلام الدین ہائی اسکول ویشالی کے طلبہ وطالبات نے ہمیشہ عمدہ اور بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے، اور ثانیہ شفق نے اس روایت کو برقرار رکھا، ہم ان کے والدین سمیت تمام اساتذہ کرام کو مبارکبادی پیش کرتے ہیں ۔ ڈاکٹر صالحہ صدیقی چیئر پرسن ضیائے حق فاؤنڈیشن نے خصوصی طور پر ثانیہ شفق اور عمومی طور پر ان تمام طلبہ وطالبات کو مبارکبادی پیش کی جنہوں نے اساتذہ کی نگرانی اور ان کی رہنمائی میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا، موصوفہ نے کہا کہ اس دفعہ کا نتیجہ اس بات کی علامت ہے کہ قوم وملت کے طلبہ وطالبات تعلیمی میدان میں بیدار ہورہے ہیں جو اچھے مستقبل کی علامت ہے، میں دعا گو ہوں کہ رب العالمین انہیں مزید کامیاب وکامران بنائے ۔ مولانا محمد عظیم الدین رحمانی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یقیناً تعلیم اچھی سیرت سازی اور تربیت کا ایک اہم ذریعہ ہے ۔علم ایک روشن چراغ ہے جو انسان کو عمل کی منزل تک پہنچاتا ہے، 
سماج ومعاشرہ میں اگر ایک بھی فرد کامیاب ہوتا ہے تو اس کا سہرا پورے سماج ومعاشرہ کے سر باندھا جاتا ہے، یقیناً یہ کامیابی صرف ان بچوں اور ان کے والدین کی نہیں بلکہ پورے سماج ومعاشرہ کی کامیابی ہے، تمام اساتذہ گارجین وسرپرست، طلبہ وطالبات قابل رشک ہیں جو تعلیم وتربیت کو سب سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں ۔
مبارکبادی پیش کرنے والوں میں ڈاکٹر نسرین بانو، روپیش کمار، ستروگھن رام،ابھے کمار، روپم کماری، رشمی رانی، ناہید پروین، مولانا محمد عظیم الدین رحمانی، فاطمہ خان، عفان ضیاء، زیب النساء، عفیفہ فاطمہ، ازرہ فردوس کا نام مذکور ہے۔
واضح رہے کہ ضیائے حق فاؤنڈیشن ایک سماجی ،فلاحی اور ادبی تنظیم ہے جو دیگر ادبی خدمات میں سرگرم رہنے کے ساتھ ساتھ تعلیمی کاموں میں بھی پیش پیش رہتی ہے، ٹرسٹ قوم وملت کے طلبہ وطالبات کی تعلیمی میدان میں بھر پور رہنمائی کرتی ہے، ساتھ ساتھ ان شعراء وادباء، صحافی، قلمکار کو تلاش کرتی ہے جو ایک اچھے فنکار ہونے کے باوجود بھی دنیائے ادب انہیں نظر انداز کرتی ہے اور وہ گمنامی کی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں، انہیں تلاش کرکے ان کے علوم وفنون سے دنیائے ادب کو متعارف کراتی ہے ، مذکورہ فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام شہر پٹنہ کے قلب میں واقع مسلم اکثریتی علاقہ پھلواری شریف میں ایک ادارہ بھی چل رہا ہے جہاں بچے بچیاں اپنی علمی وادبی پیاس بجھا رہے ہیں۔

منگل, مارچ 18, 2025

تسمیہ جونیئر ہائی اسکول میں شاندار سالانہ نتیجہ اور تقسیم انعامات کی تقریب کا انعقاد

تسمیہ جونیئر ہائی اسکول میں شاندار سالانہ نتیجہ اور تقسیم انعامات کی تقریب کا انعقاد
Urduduniyanews72
مظفر نگر ۱۷ مارچ ۲۰۲۵ تسمیہ جونیئر ہائی اسکول نے پیر کو سالانہ نتیجہ اور تقسیم انعامات کی ایک شاندار تقریب کا اہتمام کیا۔ یہ تقریب کسی بھی اسکول کے لئے ایک اہم موقع ہوتا ہے جو طلبہ کے تعلیمی سفر میں ایک نئے باب کا آغاز ہوتا ہے۔ یہ اساتذہ، طلباء اور والدین کے لئے فخر اور جذبات سے بھرا ہوتا ہے۔

تقریب کے وقار کو بڑھانے کے لئے مہمان خصوصی عزت مآب پنکج ملک (ایم، ایل، اے چر تھاول) موجود رہے۔ ساتھ ہی مہمان ذی وقار گوہر صدیقی (سماجی کارکن) نے پروگرام میں شرکت کی۔

پروگرام کے آغاز میں اسکول کے قائم مقام پرنسپل جناب جاوید مظہر نے استقبالیہ تقریر پیش کی۔ انہوں نے اسکول کی کامیابیوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ تسمیہ جونیئر ہائی اسکول تعلیمی میدان میں بہترین کام کر رہا ہے اور طلباء کو نہ صرف تعلیمی بلکہ اخلاقی اور سماجی طور پر بھی با اختیار بنا رہا ہے۔ انہوں نے طلباء کے روشن مستقبل کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کیا اور والدین سے گزارش کی کہ وہ اپنے بچوں کی تعلیم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔

مہمان خصوصی پنکج ملک (ایم ایل اے چر تھاول) نے اپنے خطاب میں تعلیم کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور کہا کہ معاشرے کی ترقی کا دارومدار تعلیم یافتہ شہریوں پر ہے۔ بچے ہمارے مستقبل کی بنیاد ہیں اور ہمیں انہیں بہتر تعلیم اور اقدار دینے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔

مہمان ذی وقار گوہر صدیقی (سماجی کارکن) نے بچوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا کہ تعلیم صرف ڈگری حاصل کرنے کا ذریعہ نہیں بلکہ ایک ایسا ذریعہ ہے جو ہمیں ایک بہتر انسان بناتا ہے۔ صرف محنت، لگن اور ایمانداری سے مطالعہ ہی بچوں کو آگے بڑھنے میں مدد دیتا ہے۔

ہونہار طلباء کو اعزاز سے نوازا گیا اس موقع پر تعلیمی اور ہم نصابی سرگرمیوں میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے اسکول کے طلباء کو اعزاز سے نوازا گیا۔ انعامات حاصل کرنے والے طلباء میں شامل ہیں:

عائرہ قریشی، عمرہ دانش، ولیہ، یو کے جی (جی) حمزه ،صمد، عاكف ۔ یو کے جی (بی) عبداللہ صدیقی، ہدایہ سمیہ (درجہ -۱) فاطمہ ذکرہ، فیضان (درجہ ۲) نور المدیحہ، زینب منصوری، شاہ باز (درجہ ۳) حمیرا عرفان، فاطمہ سمائیرا (درجہ ۴) زویا قریشی، ام حبیبہ زین قریشی (درجہ ۵) آمنہ صدیقی، عائشہ جاوید، شیرین (درجہ ۶ جی) عبدالصمد عرفان، شعبان، عبدالصمد شہزاد (درجہ ۶ بی) اقراء نبیہ، علما (درجہ ۷ جی) ارمان خان، منا، ارمان (درجہ ۷ بی) اقصیٰ شہرزاد، ام ایمن، ارین روشن (درجہ ۸ جی) محمد ایان، محمد وارث، عبدالرحمان (درجہ ۸ بی)۔

اختتامی تقریب میں جاوید مظہر نے تقریب کو کامیاب بنانے کے لئے تمام اساتذہ، طلباء اور والدین کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا "ہمارا اسکول طلبہ کی ترقی کے لئے پرعزم ہے۔ ہم ایک مشن کی طرح تعلیم کو آگے بڑھا رہے ہیں اور بچوں کو نہ صرف علم بلکہ اقدار بھی فراہم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔"

تقریب کا اختتام قومی ترانے کے ساتھ ہوا۔ تسمیہ جونیئر ہائی اسکول کا عظیم الشان کانووکیشن اسکول طلباء اور والدین کے لئے ایک متاثر کن اور ناقابل فراموش تقریب بن گیا ۔

منگل, مارچ 11, 2025

پروفیسر قاضی زین الساجدین صدیقی میر ٹھیایک مخلص عالم دین،ملی رہنما ،عظیم دانشور اور ماہر تعلیم تھے

پروفیسر قاضی زین الساجدین صدیقی میر ٹھی
ایک مخلص عالم دین،ملی رہنما ،عظیم دانشور اور ماہر تعلیم تھے
Urduduniyanews72
مولانا مفتی عطاءالر حمن قاسمی

مارچ نئی دہلی ، پروفیسر زین الساجدین صدیقی سابق صدر وڈین شعبہء سنی دینیات مسلم یونیورسٹی علیگڑھ و سابق چیئر مین یو پی مدرسہ بورڈ کے اچانک انتقال پر اظہار رنج و ملال کرتے ہوئے مولانا مفتی عطاءالر حمن قاسمی چیئر مین شاہ ولی اللہ انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی و نائب صدر آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت نے کہا کہ شہر قاضی میرٹھ پروفیسر زین الساجدین صدیقی ایک مخلص عالم دین،ملی رہنما، عظیم دانشور اور ماہر تعلیم تھے، وہ ایک علمی خانوادہ کے چشم وچراغ تھے، آپ کے والد قاضی زین العابدین سجاد میر ٹھی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر اور دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوری کے رکن تھے ، خود پروفیسر قاضی زین الساجدین صدیقی تنظیم ابنائے قدیم دارالعلوم دیوبند کے جنرل سکریڑی ،آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کی مجلس عاملہ کے رکن اورشاہ ولی اللہ انسٹی ٹیوٹ کے بھی رکن تھے، آپ ایک اچھے قلم کار اور مصنف بھی تھے، آپ اپنی حیات مستعار کے آخری دنوں میں اپنے خاندان کے حالات وکوائف ا ورعلمی، دینی اور سماجی خدمات پر ایک اہم کتاب لکھنے میں مصروف تھےاور برابر اس کاذکر فرماتے تھے، آپ کے خانوادہ کا، خاندان ولی اللٰہی سے بڑا گھرا تعلق رہاہے،وہ تحریک شہیدینؒ سے بھی وابستہ رہےہیں۔
پروفیسر قاضی زین الساجدین میر ٹھی بڑے جری و بیباک انسان تھے، وہ ہرقسم کی اپنی قومی وملی رائے بڑی قوت ومضبوطی کے ساتھ رکھنے کے عادی تھے، پروفیسر زین الساجدین صدیقی کے انتقال سے جہاں قوم وملت کا عظیم خسارہ ہوا ہے، وہاں میرا ناقابل تلافی نقصان بھی ہواہے، اللہ تعالی ان کی مغفرت فرمائے اور ان کےدرجات ومراتب بلند کرے اور ان کے پسماند گان ولواحقین کو صبر جمیل عطاء فرمائے ۔آمین!


پیر, مارچ 10, 2025

*گرتوبرانہ مانے۔۔۔۔۔ *

*گرتوبرانہ مانے۔۔۔۔۔ *
Urduduniyanews72
مدرسوں کی سفارت بہت اہم اورنازک مسئلہ ہے۔تلخ نوائی معاف مگر حقیقت یہ ہےکہ مدارس کی سفارت کاواحد مقصد بس اب یہ رہ گیا ہے کہ 
مسلم معاشرہ کے غریب ونادارمسلمانوں کے حقوق سمیٹ کر مدرسہ میں لایا جائے اوراس میں سےہر ماہ تنخواہ لے کر اقربا پروری کی جائے۔ آخر مدرسہ والے مدرسوں کے اخراجات کےلیےخودکفالتی کے طریقے کیوں نھیں اختار کرتے کہ چندہ چٹکی کے لیے در در بھٹکنانہ پڑےاورغریبوں، یتیموں اور مسکینوں تک ان کا حق پہنچتارہےاوران کے حالات بھی بدل سکیں۔ ان کے سارے حقوق مدرسےوالےسمیٹ لے جاتے ہیں اور مسلم معاشرہ غریبی کی دلدل سے کبھی باہر ، نھیں آپاتا۔ مدرسوں کے منتظمین کوان ذرائع کے متعلق بھی غور کرناچاہئیے جن کے سبب چندہ وصولی کا دروازہ ہی بند ہو جائے اورمدرسہ اپنے آپ میں خود کفیل ہو۔ مدرسوں میں تجارتی شعبہ جات کیوں نھیں قائم کیےجاتےجن کی آمدنی سے مدرسہ کےاخراجات پورے ہوں! یہ ناممکن تونھیں۔کیا ضروری ہےکہ مدارس کے طلباء کی پرورش اسی مال سے کی جائے جسے نبی کریمﷺ نے مال کامیل کہا ہے۔ مدرسوں کے منتظمین کو چاہئیے کہ وہ علمائے کرام سے چندہ وصولی نہ کرایں۔ یہ ان کے منصب کے منافی ہے۔ بلکہ انتظامیہ ایسے وسائل واسباب اختیار کرےکہ ذکاۃ اور فطرہ وخیرات وصول کرنے کی نوبت ہی نہ آئے۔مدرسوں میں الگ سے ایک تجارتی شعبہ ہو جسے تنخواہ دار ملازمین کے ذریعے چلایاجاناچاہئیے۔ ان پر نگراں مقررہو۔ محاسب ہو۔ دیکھ دیکھ کرنے والے ہوں۔ مسلم معاشرہ کے افراد کو ملازمتیں مل سکیں۔ یہ بھی اسی فعال عمل سے ممکن ہے مگر نھیں سب سے آسان طریقہ اختیار کیاگیاکہ رسیداوررودادعلماء کے ہاتھوں میں پکڑادواورکہوکہ وہ سفرپرنکلیں اور ففٹی ففٹی پرسنٹ پر چند ہ وصول کر لائیں اور اگر کوئی غیرت مند عالم انکارکرےتوملازمت سے سبکدوشی کی دھمکی دی جائے۔ کیا یہ استحصال نھیں ہے۔؟مدرسہ چلانے والے عہدہ داروں کی ذمہ داری ہےکہ وہ اس کی آمدنی اور اخراجات کےکےلیےدیگرذرائع کے متعلق غوروفکر کریں اورذکوٰۃ وفطرہ اور خیرات کومسلم معاشرہ کےکمزورافرادکےلیےچھوڑدیں۔ مگر افسوس کہ عامتہ المسلمین کے ذہنوں میں یہ بات بھی بٹھانے کی کوشش کی جاتی رہی ہےکہ مدرسہ میں ذکٰوۃ نھیں دوگےتوذکٰوۃ ادا ہی نھیں ہوگی۔ایک کروڑ روپئے کے بجٹ والےمدرسےپچاس لاکھ روپئے میں تجارتی شعبہ کیوں نھیں کھولتے۔؟جس کی آمدنی سے مدرسےکاخرچ اٹھایا جاسکے۔ 
سب کچھ ممکن ہے، اگر آدمی کرنا چاہے۔ چھوٹے اوربہت کم بجٹ والے مدرسوں کی مجبوریوں کو سمجھا جاسکتا ہے مگر وہ مدرسےجولاکھوں لاکھ اور کروڑوں کا بجٹ رکھتے ہیں اور سفارت کاروں کو چندہ وصولی کےلیےدربہ دربھٹکنے، اور ذلیل ورسواہونےپرمجبورکرتےہیں۔انھیں کیا کہا جائے اور ان کے سفیروں کے ساتھ کیابرتاؤکیاجائے۔؟ 

  انس مسرورانصاری
قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن

سامان کی قیمت معلوم ہے رمضان کی نہیں!

سامان کی قیمت معلوم ہے رمضان کی نہیں!      
Urduduniyanews72
امسال رمضان کا مہینہ سردی وگرمی کےملےجلے احساسات لیکر آیا ہے ،سردی ہے نہ زیادہ گرمی ہے، بھوک وپیاس برداشت ہے،اورسب کچھ سازگار وخوشگوارہے۔اس سے حوصلہ پاکر چھوٹے چھوٹے بچے بھی روزہ رکھ رہے ہیں، اس پر خدا کا شکرہم پر لازم ہے، اور یہ رمضان ہم سے زیادہ سے زیادہ اعمال کا مطالبہ کرتا ہے،اس ماہ مبارک کا حق صرف روزہ سے ہم ادا نہیں کرسکتےہیں ،یہ بات ملحوظ رہے کےاس برکت والے مہینے کے دامن میں اور بھی ہیرےو موتی ہیں، رمضان درحقیقت نزول قرآن کے جشن کا مہینہ ہے،کتاب الہی سے اس کو نسبت خاص حاصل ہے،اسی لئےتراویح میں قرآن کےپڑھنے ومکمل کرنے کا حکم ہے،جس طرح ایک روزہ دار کو ایمان واحتساب کے ساتھ روزہ پر پچھلے تمام گناہوں کی بخشش کی بشارت دی گئی ہے بالکل اسی طرح قیام اللیل پر بھی سابقہ گناہوں سے معافی کا پروانہ ملتا ہے،اس حدیث سے بات سمجھ میں آتی ہے کہ رمضان کادن بھی مبارک ہے اور اس کی راتیں بھی برکت والی ہیں،اور یہ سب کچھ قرآن کریم کے صدقے ہے۔نزول قرآن کےاس مہینے میں تلاوت پر نیکیوں میں یوں بھی اضافہ ہوجاتا ہے کہ عام دنوں میں ایک ایک حرف کی تلاوت پر دس نیکیاں ملتی ہیں مگر رمضان میں ہرایک نیکی کا ستر گنا ملتا ہے، نفل نماز کا ثواب فرض کے برابر ،اور فرض کا ثواب ستر فرض کے برابر کردیا جاتا ہے۔اس سے یہ رہنمائی ملتی ہے کہ نوافل کا اھتمام بھی اعمال رمضان میں شامل ہے،اس لئے کوشش یہ ہونی چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ نوافل کااھتمام ہم اس ماہ مقدس میں کریں۔ رات ودن کے ان قیمتی لمحات کا بہترین استعمال دعائیں کرنا بھی ہے۔دعا عبادت کا اصل ہے،ملکی حالات آئے دن ابتر ہوتے چلے جارہے ہیں، ساری تدبیریں الٹی پڑرہی ہیں، مسجد، مدرسہ، عیدگاہ، درگاہ،خانقاہ سب کچھ نشانے پر ہیں، خطرناک قسم کی سازشیں ہورہی ہیں، ایسی تدبیریں کہ پہاڑ بھی اپنی جگہ چھوڑ دے، ان حالات میں ایک صاحب ایمان کے لئے دعا زبردست ہتھیار کی حیثیت رکھتی ہے۔ ہمیں ملک کی سلامتی، دین اسلام کی اشاعت وحفاظت کے لئے اس ماہ مبارک میں خاص اھتمام کرنا چاہئیے۔
آج لوگوں رمضان کا حق صرف روزہ اور افطاری وسحری کی تیاری کو سمجھ لیا ہے،" میرا روزہ ہے،افطاری کرنی ہے،سحرکھانا ہے"،پورا رمضان اسی پر محیط ہوتا ہے۔یہ چیزیں ٹھیک ٹھاک رہیں تو کہتے ہیں کہ ;اب کی بار تورمضان بڑا اچھا گزر ا" 
پورے رمضان اشیاء خوردنی پرہی خاص توجہ رہتی ہے، اس کی قیمت کا بھوت دماغ پر سوار رہتا ہے، بازار میں اور گھر میں اسی بات کا چرچا ہے کہ;" رمضان شروع ہواتو پپیتا مہنگا ہوگیا، تربوز کی قیمت بڑھ گئی، کیلے مہنگے ہوگئے،ڈرائی فروٹ کی قیمت آسمان پر پہونچ گئی"،وغیرہ ۰۰۰مگر اس بات کا ذکر نہیں ہوتا کہ;" یہ نیکی کا مہینہ ہے، ہر نیکی کی قیمت بڑھا دی گئی ہے اور کئی گنا زیادہ ہوگئی ہے"، یہ بڑی نادانی اور ناواقفیت کی بات ہے،اچھے خاصے پڑے لکھے لوگ اس عنوان کو رمضان میں موضوع سخن نہیں بناتے ہیں، عام لوگوں کا تو کہنا ہی کیا ہے، نیکیوں کے چرچے پر بھی اجر ملتا ہے اورعوام الناس کا اس سے مزاج بنتا ہے اور نیکی کی چاہت دل میں پیدا ہوتی ہے۔
آج یہ سب چیزیں ہم ملک میں دیکھ رہے ہیں کہ غلط اور بے بنیاد باتیں اسقدر چرچے میں لائی جاتی ہیں کہ لوگ صحیح سمجھنے لگتے ہیں۔ہمارے پاس توخدا کا کلام ہے، قرآن ہے اور ماہ مبارک رمضان ہے،باوجود اس کے قرآن وحدیث کی باتوں کو عام کرنے اور چرچے میں لانےکی فکر نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ رمضان میں ہمیں کچھ 
  ایسے لوگ اپنی صف میں نظر آتے ہیں جو صحت مند ہوتے ہوئے بھی روزہ نہیں رکھتےہیں، ان بدنصیبوں کواس بات کا علم نہیں ہے کہ رمضان کے ایک روزہ کی قیمت کیا ہے؟پوری زندگی روزہ کی حالت میں گزاردینے سے بھی رمضان کے روزوں کی تلافی ممکن نہیں ہے۔رمضان کی سعادت اور روزہ کی توفیق کے لئے خدا بندے کے لئے فضا سازگار بناتا ہے، روزے اور نیکی کی راہ میں حائل ہر رکاوٹ کو دور کرتا ہے،
  شیطان کو قید کردیتا ہے۔بخاری ومسلم شریف کی حدیث میں یہ بات لکھی ہوئی ہے کہ آسمان کے دروازے کھول دیئےجاتےہیں، جہنم کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں، شیاطین زنجیروں میں جکڑ دیئے جاتے ہیں۔نفلی عبادت کا ثواب فرض کے برابر اور فرض کا ثواب اس ماہ مبارک میں ستر فرض کے برابر کردیا جاتا ہے۔روزہ دار کے لئے دو خوشی کے مواقع آتے ہیں، ایک جب وہ روزہ افطار کرتا ہے اور دوسرا جب وہ اپنے رب سے ملاقات کرتا ہے۔حدیث میں اللہ کا فرمان یہ بھی ہے کہ ابن آدم کا ہر عمل اس کے لئے ہے مگر روزہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا۔
یہ سب کچھ اسی لئے ہوتا ہے کہ بندہ روزہ کی برکتیں حاصل کرلےاور خدا کی خاص خوشنودی کا حقدار ہوجائے۔
یہ روز وشب یہ صبح وشام یہ بستی یہ ویرانہ سبھی بیدار ہیں انساں اگر بیدار ہوجائے     

مفتی ہمایوں اقبال ندوی 
نائب صدر، جمعیت علماء ارریہ 
وجنرل سکریٹری، تنظیم أبناء ندوہ پورنیہ کمشنری 
۹/رمضان المبارک ۱۴۴۶ھ بروز دوشنبہ

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...