Urduduniyanews72
کشمیر کے ضلع پہلگام میں واقع بیسرن گھاٹی کا واقعہ نہایت ہی دردناک والمناک ہے۔ گزشتہ منگل کے دن ۲۲/اپریل ۲۰۲۵ءکو نہتے اور مظلوم۲۸/ سیاحوں کودہشت گردوں نےموت کی نیند سلادیا ہے۔اس واقعے کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ وہ سبھی بیسرن گھاٹی میں جسے "منی سویزرلینڈ" کہا جاتا ہے سیر و سیاحت کے لیے آئے تھے۔کشمیر میں باہر سے آنے والوں کی حیثیت مہمان کی سی ہے۔یہاں کی اکثریت آبادی مسلمانوں کی ہے۔ مذہب اسلام میں مہمانوں کابڑا مقام ہے، ارشاد نبوی ہے: "جو شخص خدا اور قیامت کے دن پر ایمان لایا ہے اس کو چاہیے کہ اپنے مہمان کی عزت کرے "(بخاری)
اس حدیث کا تقاضا یہ ہےکہ مہمانوں کی عزت کی جائے، ان کی تکریم کی جائے، ان کی ضیافت کے ساتھ ان کی حفاظت کا بھی انتظام کیا جائے، یہ چیزیں ایک مسلمان پر صاحب ایمان ہونے کے لیے ضروری ہیں۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ۲۸/سیاحوں کی جان چلی گئی، دہشت گردوں نے انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا،یہ سیاح ہی نہیں بلکہ کشمیری مسلمانوں کے لئے مہمان کا درجہ رکھتے تھے، انہیں بچایا نہیں جاسکا، ان کی جانی حفاظت نہیں ہوسکی، اور یہ سب کچھ چونکہ کشمیر میں رونما ہوا، لہذا اس بات کا سب سے زیادہ صدمہ کشمیری مسلمانوں کو پہونچاہےاور واقعی یہ لائق افسوس امر ہے۔
آج اسی پیغام کو دینے کے لیے کشمیری عوام سڑک پر ہیں، بازار بند ہیں، مساجد کے منبر و محراب سے اس بزدلانہ حملے کی مذمت ہو رہی ہے، "ٹورسٹ ہماری جان ہیں"، ٹورسٹ ہماری شان ہیں"کے نعرے بلند کیے جا رہے ہیں۔کشمیری لوگ یہ بھی کہ رہے ہیں کہ ہم ان سیاحوں سے پیسے کماتے ہیں، ان سے ہماری روزی روٹی چلتی ہے، وہ شہید نہیں ہوئے ہیں دراصل ہم شہید ہو گئے ہیں،ہم ان کے لیے اپنے خون کا آخری قطرہ دے سکتے ہیں"
کشمیریوں کی معاش کابڑا دارومدار سیاحت پر ہی ہے،اس تکلیف دہ دہشت گردانہ حملے کے بعد سیر وسیاحت پر برا اثر واقع ہونا فطری بات ہے، عموما یہ کہا جاتا ہے کہ مہمانوں کی آمد سے گھر میں برکت ہوتی ہے، اسی عنوان پر جناب
ماجد دیوبندی نے بڑا اچھا مصرع نظم کیا ہے کہ
اللہ رے میرے گھر کی برکت نہ چلی جائے
دو روز سے گھر میں کوئی مہمان نہیں ہے
کشمیریوں کے لیے یہ مہمان برکت ہی نہیں بلکہ رزق کا سامان ہیں، ان کی آمد موقوف ہونے کا سیدھا مطلب ان کا حقہ پانی بند ہونا ہے، یہ ان کے لئے بہت زیادہ فکر وتشویش کی بات ہے۔
قرآن کریم میں مہمان فرشتوں کا ایک قصہ بھی مذکور ہےکہ حضرت لوط علیہ السلام کے پاس کچھ مہمان تشریف لائے، گاؤں والوں کو خبر ہوئی تو ان پر حملہ کرنا چاہا،حضرت لوط علیہ السلام نے مدافعت و بچاؤ کی بھرپور کوشش کی اور حملہ آوروں سے یہ کہاکہ : یہ میرے مہمان ہیں،ان کے بارے میں مجھ کوفضیحت نہ کرو، اور خدا سے ڈرو مجھے رسوا نہ کرو"( سورہ حجر)
علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ علیہ نےاس قرآنی واقعہ سے یہ استدلال کیا ہے کہ مہمانوں کی حفاظت و مدافعت بھی ایک میزبان کے ضروری امر ہے، مہمان کے منجملہ حقوق میں سے یہ بھی ایک حق ہے۔ بحمداللہ اس آیت کی عملی تفسیر بھی ہمیں پہلگام میں دیکھنے کو ملی ہے۔کشمیری مسلمانوں نے جو وہاں موجود تھے ان کی حفاظت و مدافعت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ اس نازک ترین وقت میں بھی اپنے مہمانوں کو تنہا نہیں چھوڑا ہے جبکہ اپنے بھی ساتھ چھوڑ کر بھاگے جارہے تھے، قیامت کا منظرتھا،نفسی نفسی کا عالم تھا، تابڑ توڑ گولیاں چل رہی تھیں، سبھی اپنی جان بچا کر بھاگ رہے تھے ،وہیں یہ کشمیری بھائی اپنے مہمان کی حفاظت و مدافعت میں لگے ہوئے رہے۔
ایک ویڈیو جو سوشل میڈیا پر خوب وائرل ہورہی جسمیں ایک جوان ایک زخمی بچے کو اپنی پشت پر لاد کر دوڑتا چلا جارہا ہے، اس کا نام ساجد ہے اور پہلگام ہی کا رہنے والا ہے، جب ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے یہ واضح کیا کہ تنہا میں نے سیاحوں کی مدد نہیں کی ہے بلکہ بہت سے لوگ ہیں جو اپنے کندھے پر زخمیوں کو اٹھا اٹھا کر محفوظ مقامات کو منتقل کر رہے تھے،وہ گھوڑے والے جو سیاحوں کو بیسرن وادی پہنچانے کا ذریعہ تھے انہوں اپنے مہمانوں کی حفاظت کا سب سے زیادہ حق ادا کیا ہے۔ گولیوں کے خوف سےوہ اپنی جان بچا کر بھاگے نہیں بلکہ بیسرن میں ڈٹے رہے، اور مظلوموں کی مدد کرتے رہے۔
بھائی ساجد کا یہ پیغام بھی بہت اہم ہے جو انہوں نے ملک کے تمام لوگوں کو آن کیمرہ دیاہے کہ:" افواہ میں نہ پڑیں، یہ قتل اپ کے بھائی کا نہیں، بلکہ ہم کشمیریوں کا ہوا ہے۔ پورے کشمیر میں اس وقت ماتم ہے، ایک ساجد ویڈیو میں نظر ارہا ہے مگر بیسرن میں ہزاروں ساجد موجود تھے،اوروہ اپنے مہمانوں کی حفاظت و مدافعت کر رہے تھے،جنکی ویڈیوزنہیں آسکی ہیں"۔
دوسرا نوجوان جس کا نام سید عادل حسین شاہ ہے ان کی کہانی تو مذکورہ قرآنی آیات کی مکمل عملی تفسیر ہے۔عین اس وقت جب سبھی لوگ بھاگ رہے تھے، افرا تفری کا ماحول تھا، گولیاں چل رہی تھیں، سید عادل حسین شاہ اپنے گھوڑے پر لادکر ٹورسٹ کو لے جا رہے تھے، ایک دہشت گرد نے اس سیاح کو اپنی بندوق کا نشانہ بنانا چاہا تو بے ساختہ وہی جملہ ان کی زبان سے نکل گیا جو قرانی ہے اورخدا کے نبی حضرت لوط علیہ السلام کی زبانی ہےکہ:"یہ میرے مہمان ہیں، ان کے ساتھ ایسا مت کرو!، اسی پرسید عادل حسین شاہ نے اکتفا نہیں کیا بلکہ ظلم کے خلاف سینہ سپر ہوگئے اور اپنے مہمان کی حفاظت میں حسینی کردار ادا کیا ہے، دہشت گردوں سے مقابلہ کیا ہے، اس رائفل کی نوک کا خود عادل نے سامنا کیا ہے جوٹورسٹ پر چلنےجارہی تھی،گولی چلتی رہی مگر وہ ہار نہیں مانے،آخری سانس تک لڑتے رہےاور اپنے خون کا اخری قطرہ مہمانوں کے نذرکردیا ہے۔ کشمیریوں نے جو کچھ اپنی زبانی دعوے میں کہا ہےاس کی یہ عملی دلیل بھی ہے،اللہ تعالٰی اس قربانی کو قبول فرمائےاورخیر کثیر کا ذریعہ بنائے، آمین
آج ملک میں پہلگام حادثے سے جہاں نفرت اور دہشت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے،وہیں سید عادل حسین شہید کی یہ حسینی شہادت خوب خوب رنگ لارہی ہے،نفرت پھیلانے والوں کو منھ کی کھانی پڑ رہی ہے، پریاگ راج کے بھاجپاایم ایل اے ہرش وردھن واجپئی جی بھی خود کو یہ کہنے پر مجبور پاتے ہیں کہ ;"میں ہندو ہوں، لیکن اس مسلمان خچر والے کا بھی خیال رکھیے گاجس نے نہتے روپ سے ایم فور رائفل اتنکیوں سے چھیننے کی کوشش کی اور اسی میں اس کی جان چلی گئی ۔کشمیریوں کے بارے میں سوچیے گا ،جو مسلمان ہیں، اور اج سری نگر میں شٹ ڈاؤن چل رہا ہے، بھارتی مسلمانوں کو پاکستانوں سے کمپیئر مت کیجئے گا۔
واقعی سید عادل شاہ نے اپنی اس قربانی سےپورے ملک کے انصاف پسند لوگوں کی انکھیں کھول دی ہے اور اسلام کا یہ پیغام عملی طور پر دیا ہے کہ ایک مہمان کی قیمت صاحب ایمان کی نظر میں کیا ہے؟ ہم ان کی قربانی کو سلام کرتے ہیں۔
ہمایوں اقبال ندوی
نائب صدر جمعیت علماء ارریہ
و جنرل سیکریٹری،تنظیم ابنائے ندوہ پورنیہ کمشنری
26/4/2025