ایڈیٹر:ہفت روزہ آب حیات بھوپال ایم پی
یہ ملک ہندوستان جس کے بارے میں ہمارے آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے کہ مجھے ہندوستان سے ٹھنڈی ہوائیں آرہی ہیں جس کا نقشہ علامہ اقبال نے ان الفاظ میں کھینچا ہے ؎
میر عرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے
میرا وطن وہی ہے، میرا وطن وہی ہے
ہم اس ملک میں آئے تو اپنے ساتھ انصاف، اخوت، مساوات، علم و فن، ثقافت و تہذیب، امن و رواداری، محبت و انسانیت کی روشنی اور خدمت و تعمیر کا جذبہ لائے اور ہم نے ان اوصاف کو یہاں کے لوگوں پر خوب لٹایا اور فیاضی کے ساتھ لٹایا۔ اس کے عوض میں یہاں کی زرخیز مٹی نے علم و حکمت کے جو ذخیرے اپنے اندر محفوظ رکھے تھے، ہمارے قدموں میں ڈال دیئے۔ ہم نے یہاں کے ذرے ذرے سے محبت کی۔ یہاں کے چپہ چپہ کو اپنے جذبۂ عشق کی سجدہ گاہ بنایا۔ یہاں کی محبت ریز سرزمین نے ہمارے دلوں کو جیت لیا اور اس سرزمین نے ہمارے سروں پر شفقت و عنایت کا ہاتھ رکھا۔ ہمارے حوصلوں، ہماری امنگوں کو رعنائیاں اور شادابیاں عطا کیں، ہم نے اسے وطن کا پر عظمت مقام دے دیا۔ اس کی خدمت ہماری سعادت بن گئی، اس کی حفاظت اور اس کا احترام ہمارے لئے سر مایۂ افتخار بن گیا، اس کی آغوش ہمارے لئے شفقت و محبت بن گئی۔ ہم نے یہاں کے سرد و گرم کو برداشت کیا، طوفان، مصائب کا سامنا کیا، ہمیشہ خارزار کو گلستان بنانے کی کوشش کی اوروں کی جانب گل پھینکتے رہے، تاریخ کی ایک لمبی مسافت ہے جو ہم نے اس سرزمین میں عظمت و سربلندی کے لہراتے ہوئے پرچم کے سایہ میں طے کی ہے۔ یہاں کی گلریز وادیوں نے ہمارے پاؤں چومے اور سنگلاخ پہاڑیوں نے جھک کر ہمارے قدموں کو بوسے دیئے۔ مئی 1857ء کی تاریخ ہمارے اس پروقار سفر کی آخری سرحد ثابت ہوئی۔ پھر کچھ ضمیر فروشوں نے اپنی قوم، اپنے مذہب اور اپنے وطن کا سودا کیا جس کے نتیجے میں انگریزوں نے تقریباً 90 سال تک بڑے آن و بان اور شان و شوکت کے ساتھ یہاں کے ذرہ ذرہ پر حکومت کی۔ انہوں نے اپنی حکومت و اقتدار کے زمانہ میں ہندوستانیوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے۔ ہمارے آبا و اجداد نے ہندوستان کی عظمت اور آزادی کی پامال کرنے والی سفید فام قوم سے مقابلہ کے لئے اپنے برادران وطن کا انتظار کئے بغیر جنگ آزادی کے میدان میں تنہا کود گئے۔ ہم نے وطن کی عظمت اور آزادی کو پامال کرنے والی سفید فام قوم کو اپنی رگوں کے خون کے آخری قطرے تک برداشت نہیں کیا۔ انگریزوں نے ہمارے اور برادران وطن کے درمیان پھوٹ ڈالنا شروع کیا اور اس نے Divide Rool کی پالیسی اپنائی۔ انگریزوں نے نفاق کے شعلوں کو بھڑکانے کے لئے یہ عملی اقدام کیا کہ پہلے مسلمانوں کو کچلا اور ہندوؤں کو آگے بڑھایا اور پھر ہندوؤں کی ہمت شکنی کی اور مسلمانوں کی حوصلہ افزائی کی۔ 15 اگست 1947ء کی درمیانی شب میں ہمارا ملک فرنگیوں کے قبضہ و تسلط سے آزاد ہوگیا اور وطن کے دو ٹکڑے ہوگئے۔ تقسیم کے درد ناک نتائج کو ہم نے دیکھا۔ جمعیۃ العلماء چیختی رہی کہ اس ملک کو تقسیم ہونے سے بچا لو لیکن تقسیم کے لئے مسلمانوں کو ہی مورد الزام ٹھہرایا گیا۔ عام آدمی انصاف کرنے نہیں بیٹھتا، نہ اس کی رسائی غیر مسخ شدہ تاریخ تک ہو پاتی ہے اور اس اجتماعی جھوٹ کی تہہ تک جو حقیقت کے برعکس مسلمانوں کے خلاف پھیلایا گیا کہ مسلمان پاکستان بنانے کے باوجود یہاں بیٹھے ہوئے ہیں اور حکومت ان کی منہ بھرائی کر رہی ہے۔ برادران وطن نے تھوڑی دیر کے لئے بھی یہ نہیں سوچا کہ منہ بھرائی کا نتیجہ پسماندگی، تنزلی، خستہ حالی اور افلاس نہیں ہوتا۔ ہندوستانی مسلمانوں پر جو الزام لگائے گئے ان کے ازالے یا صفائی کی ہم نے بھی کوئی وقیع کوشش نہیں کی۔ اس طرح دونوں قوموں کے درمیان تلخی بڑھتی چلی گئی حالانکہ اس ملک میں ہم اقلیت میں ضرور ہیں لیکن ہماری اتنی بڑی اقلیت ہے کہ اکثریت کے بعد اس کا دوسرا نمبر ہے۔ بقول حضرت علی میاں ندوی علیہ الرحمہ کہ اس کو اقلیت کہنا بھی صحیح نہیں بلکہ اس کو ملت کہنا چاہئے اور ہم وہ ملت ہیں جو خدا کا واضح پیغام رکھتی ہے جو آخری آسمانی کتاب کی حامل ہے۔ سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی دولت ہمارے پاس ہے۔ نوع انسانی کے لئے رحمت و ہدایت کا عظیم سرمایہ اسوۂ رسول، حیات صحابہ اور مثالی و معیاری انسانوں کے کردار و عمل کا عظیم ذخیرہ ریکارڈ موجود ہے۔ اس لئے ہمیں تو چاہئے تھا کہ اپنے بساط بھر اکثریت کی بدگمانی کو دور کرتے اس سے ان کی عداوت دور ہوتی۔ شاید ہم بھول گئے یا حالات نے ہمیں بھلا دیا کہ اس ملک میں ہمیں کیا کرنا چاہئے کہ ہم نے دعوت سے نہ مثال سے نہ حسن معاملات سے نہ خوبی سیرت سے برادران وطن کا دل جیتنے کی کوشش کی۔ کیا تویہ کیا کہ ہم نے ہندوستان میں آکر اس مساوات کو بھول گئے جو ہمارا طرۂ امتیاز تھی، ہم نے اس غیر منصفانہ اور ظالمانہ تقسیم کو ایک حد تک اپنا لیا جو ہندوستان میں ہزاروں سال سے رائج تھی، ہم نے ان کو وہ پیغام نہیں پہنچایا جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ہم تک پہنچا، ہم نے اللہ کے کلمہ کو خود اپنے ذات ہی تک محفوظ و محدود رکھا، ہم نے یہ بھی نہیں کیا کہ ہم اہل وطن سے قریب ہوتے، ان کو جانتے، پہچانتے، ان کے ساتھ اچھے روابط و تعلقات قائم کرتے، انسانی بنیادوں پر ان کے کام آتے، ان کو ان کی زبان میں پریم و شانتی اور امن کا پیغام دیتے۔ انسانیت کی خدمت کرکے ان کے دلوں میں اپنی جگہ بناتے۔ عوام کی بات تو چھوڑ دیں، ممبر آف پارلیامنٹ سطح کے لوگ بھی اسلام اسلامی عقیدہ، اسلامی اخلاق، اسلامی عبادات اور اسلامی معاملات سے بالکل ناواقف ہوتے ہیں۔ وہ قرآن کو مذہبی کتاب کی طرح ایک کتاب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک اوتار اور مسجد کو مندر کی طرح پوجا کا ایک جگہ (استھل) اور نماز کو مندر میں کی جانے والی پوجا کا ایک طریقہ سمجھتے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ اگر پارلیامنٹ میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کوئی قانون بنتا ہے، عدالتوں سے قرآن و حدیث کے خلاف کوئی فیصلہ آتا ہے تو کیا اس میں ہمارا قصور نہیں ہے؟ سینکڑوں سال ہوگئے، ہمیں اس ملک میں رہتے ہوئے اور یہاں کے غیر مسلموں کے شانہ بشانہ کام کرتے ہوئے۔ ہم آج تک انہیں یہ نہیں بتا سکے کہ قرآن کیا ہے؟ حدیث کیا ہے؟ نماز کیا ہے؟ زکوٰۃ کیا ہے؟ روزہ کیا ہے؟ حج کیا ہے؟مسجد کیا ہے؟ اذان کیا ہے؟ نکاح کیا ہے؟ طلاق کیا ہے؟ وراثت کیا ہے، چار شادیوں کا مسئلہ کیا ہے، دفنانے میں حکمت کیا ہے؟ ختنہ کا فائدہ کیا ہے؟ پردہ کا مقصد کیا ہے؟ داڑھی کا معاملہ کیا ہے؟ ہمارے ملک کے چوٹی کے لیڈران اسلام سے کتنے واقف ہیں؟ اس کا اندازہ اس واقعہ سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ مسلم مطلقہ عورت کے گزارہ کو لے کر ہندوستان میں ایک جنگ چھڑی ہوئی تھی۔ یہ تین طلاق چار نکاح اور متبنی کا مسئلہ کوئی نیا نہیں بلکہ وقتاً فوقتاً یہ آواز خاص خاص موقعوں پر اٹھتی رہتی ہے اور ہم نے ہمیشہ اس آواز کو دبایا ہے اور اب بھی دبا دیں گے۔ لیکن اصل مسئلہ ہماری اپنی ذات کا ہے۔ ہندوستان میں گزارہ بھتہ کو لے کر جنگ چھڑی ہوئی تھی، اس وقت کے وزیر اعظم تھے مرحوم راجیو گاندھی۔ اس مسئلہ کے حل کے لئے مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ذمہ داروں اور وزیر اعظم راجیو گاندھی کے درمیان ملاقاتوں کا سلسلہ چل رہا تھا۔ رمضان کا مہینہ آگیا، اگلی ملاقات کے لئے جو دن طے ہوا وہ رمضان کا تھا۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدر اس وقت حضرت مولانا ابوالحسن علی حسنی علیہ الرحمہ تھے۔ انہوں نے راجیو گاندھی سے کہا کہ ہم لوگوں کو رمضان میں دہلی آنا مشکل ہے، کیوں کہ گرمی بہت سخت ہے، رمضان کے علاوہ کوئی اور دن بات چیت کے لئے رکھ لیا جائے۔ اس پر راجیو گاندھی نے جو جواب دیا اس سے اس سطح کے لیڈروں کی اسلام سے عدم واقفیت کا اندازہ ہم سب لگا سکتے ہیں اور یہ بات خوب اچھی طرح سوچ سکتے ہیں کہ ایسے ناواقف شخص کے فیصلے ہمارے مذہبی معاملات میں کیسے صحیح ہوسکتے ہیں۔ راجیو گاندھی جی نے کہا مولانا صاحب