Powered By Blogger

بدھ, ستمبر 01, 2021

چالیس گاؤں میں موسلادھار بارش تحصیل میں سیلاب کا قہر علاقہ کو گھیرا

ایس ڈی آر ایف کا دستہ بلایاگیا کنڑ گھاٹ میں چٹان دھنسنے سے آمدورفت متاثر
جلگاؤں (سعیدپٹیل) مندکھیڈے( چالیس گاؤں)دھرن اورفلو ہوجانے سے گاؤں میں پانی گھس آیا۔محکمہ موسمیات نے شمالی مہاراشٹر یعنی خاندیش میں موسلادھار بارش کا اشارہ دیاہے۔گذشتہ پیر کی رات میں چالیس گاؤں تعلقہ کے علاقہ میں ہوئی موسلادھار بارش کی وجہ سے تیتور و ڈونگری ندیوں میں سیلاب آنے سے سیلاب میں دو افراد کے بہے جانے کا اندیشہ بتایا گیا ہے۔

چالیس گاؤں کے تحصیلدار امول مورے انھوں نے ضلع کلیکٹر سے ایس۔ڈی۔آر۔ایف دستہ کا مطالبہ کیا ہے۔منیاڈ پروجیکٹ پوری طرح لبالب بھر جانے سے گرنا ندی ،اسی طرح جامدا بندھیرا سے ١٥٠٠ کیوسکے پانی کا بہاؤ نکالا گیا۔تیتور ندی ،ڈونگری ندی اور گرنا ندی کے کنارے آباد گاؤں کے باشندوں کو اس خطرے سے الرٹ جاری کرکے آگاہ کردیاگیاہے۔دوسری جانب کنڑ گھاٹ کی شاہراہ پر پہاڑ کی چٹان دھنسنے سے آمدو رفت متاثر ہوئی ہیں۔اس شاہراہ کی آمد و رفت کو خبروں کے مطابق ناندگاؤں۔شیور بنگلہ کے راستے سے موڑ دیاگیا ہے۔ضلع بھر میں پیر کے روز رات میں موسلادھار بارش نے چالیس گاؤں تعلقہ کی ندیوں میں سیلابی صورتحال پیدا کردی ہے۔ان ندیوں میں آۓ سیلاب کا پانی چالیس گاؤں کی شہری آبادی میں داخل ہونے سے سیلاب کی صورتحال بنی ہوئی ہیں۔

موسلادھار بارش نے شہر کے پیر بابا موسی قادری درگاہ کے پاس سے گذرنے والی ندی میں سیلابی صورتحال کی وجہ سے ندی میں طغیانی آنےسے سیلاب کا پانی شہر کے نشیبی علاقوں میں چار سے پانچ فٹ پانی بھرجانے سے شہریان کو مختلف مسائل سے دوچار ہونا پڑا ہے۔تعلقہ بھر میں کئ گاؤوں میں سیلاب نے لوگوں کے گھریلوں سامان کا ،کرانہ ،راشن ،کپڑے اور مویشیوں کے مرنے کی خبریں ذرائع سے موصول ہوئی ہیں۔اسی دوران کئ مکینوں کو اسکولوں میں پناہ دی گئ ہیں۔جبکہ نقصانات کے پنچ نامے فوری طور پر کرکے متاثرین کو مداد دینے کا مطالبہ کیاگیاہے۔ اسی دوران سیلاب کی صورتحال سے نمٹنے کےلیئے ایس ڈی آر ایف کے دستہ کو بلایاگیا ہےجبکہ شہر کے قریب سے اورنگ آباد کی ریاستی شاہراہ پر واقع کنڑ گھاٹ میں پہاڑ کی چٹان دھنسنے سے پانی اور مٹی اور پتھروں کا ملبہ کی وجہ سے کئ مال بردار لاریاں اور سواری کاریں شاہراہ پر پھنسی ہوئی ہیں۔اسی دوران انتظامیہ نے دونوں سمت کی آمدو رفت منسوخ کردی ہیں۔خبروں کے مطابق ملبہ صاف کرکے آمدورفت بحال ہونے میں وقت لگےگا۔

منگل, اگست 31, 2021

””””””’تو تاج محل کو بند کر دیں گے: راشٹریہ ہندو پریشد

اشٹریہ ہندو پریشد (بھارت) نامی تنظیم سے جڑے کچھ لوگوں نے تاج محل کے مغربی دروازے پر احتجاجی مظاہرہ کیا اور کہا کہ اگر بھگوان کرشن کی شکل اختیار کیے شخص کو تاج محل احاطہ میں داخل نہ ہونے دینے والے اے ایس آئی اسٹاف کے خلاف کارروائی نہیں کی جائے گی تو تاج محل کو بند کر دیا جائے گا۔ تنظیم نے اے ایس آئی (آرکیولوجیکل سروے آف انڈیا) کے افسران کو اس کے اسٹاف اراکین کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے 24 گھنٹے کا الٹی میٹم دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جن لوگوں نے کرشن کی شکل میں پہنچے مہمان کی بے عزتی کی ہے، انھیں معاف نہیں کیا جا سکتا۔

اس واقعہ کے تعلق سے آثار قدیمہ نگراں (آگرہ سرکل) وسنت سورنکار کا کہنا ہے کہ بغیر قبل اجازت کے کسی بھی محفوظ یادگار پر تشہیری سرگرمیوں کی اجازت نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قوانین و ضوابط کو مدنظر رکھتے ہوئے کرشن کی شکل اختیار کیے شخص کو تاج محل میں داخلے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ اے ایس آئی افسران کا کہنا ہے کہ ماضی میں کئی بار ایسا ہوا ہے جب رام دوپٹہ پہنے لوگوں کے گروپ کو تاریخی یادگار میں داخلے سے روک دیا گیا تھا۔

‎سی سی آئی نے آئی پی ایل 2022 میں دو نئی ٹیموں کے لیے بنیادی قیمت مقرر کی ہ

 سی سی آئی نے آئی پی ایل 2022 میں دو نئی ٹیموں کے لیے بنیادی قیمت مقرر کی ہے

نئی دہلی،31؍اگست: (اردودنیانیوز۷۲)ہندوستانی کرکٹ کنٹرول بورڈ (بی سی سی آئی) 2022 میں منعقد ہونے والی انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) کے اگلے ایڈیشن میں مزید دو فرنچائزز کو شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ بی سی سی آئی نے ان ٹیموں کی بنیادی قیمت 2000 کروڑ روپئے مقرر کی ہے۔ معلومات کے مطابق بورڈ توقع کر رہا ہے کہ نئی فرنچائز کی نیلامی کے دوران یہ رقم 5000 کروڑ روپے تک بڑھ جائے گی۔

اڈانی گروپ، آر پی جی سنجیو گوینکا گروپ اور مشہور فارما کمپنی ٹورینٹ نئی فرنچائز کے حوالے سے رہنمائی کررہی ہیں۔آئی پی ایل میں اس وقت آٹھ ٹیمیں حصہ لے رہی ہیں۔ تاہم اگلے ایڈیشن سے 10 ٹیمیں اس میں کھیلتی ہوئی نظرآ سکتی ہیں۔ بورڈ کی گورننگ کونسل کے حالیہ اجلاس میں دو نئی فرنچائزز کی بولی کے عمل سے متعلق تمام قواعد کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

بی سی سی آئی کے ذرائع کے مطابق کوئی بھی کمپنی 75 کروڑ روپے جمع کر کے بولی کی دستاویز خرید سکتی ہے۔ پہلے بورڈ نئی فرنچائز کے لیے بنیادی قیمت 1700 کروڑ روپئے رکھنے کا ارادہ کررہا تھا، لیکن بعد میں اسے 2000 کروڑ روپئے رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔ذرائع کے مطابق بی سی سی آئی ان دو نئی فرنچائزز کے لیے بولی کے عمل سے 5000 کروڑ روپئے جمع کرنے کی امید کر رہا ہے۔

اگلے سال ٹورنامنٹ میں 74 میچز کھیلے جائیں گے اور یہ سب کے لیے فائدہ مند ثابت ہونے والا ہے۔معلومات کے مطابق صرف وہی کمپنیاں ان نئی فرنچائزز کے لیے بولی لگاسکیں گی جن کا سالانہ کاروبار 3000 کروڑ روپئے سے زیادہ ہے۔ان نئی فرنچائزز کے مقامات کے بارے میں بات کرتے ہوئے، احمدآباد، لکھنؤ اور پونے اس دوڑ میں سب سے آگے ہیں۔

احمد آباد کا نریندر مودی اسٹیڈیم اور لکھنؤ کا ایکانا اسٹیڈیم شائقین کو ایڈجسٹ کرنے کی صلاحیت کے باعث ان نئی فرنچائزز کا انتخاب بن سکتا ہے۔واضح رہے کہ اس سے پہلے آئی پی ایل کے چوتھے سیزن میں 10 ٹیمیں کھیل چکی ہیں۔ اس وقت ٹورنامنٹ میں کوچی ٹسکرز اور پونے واریئرز شامل تھے۔

مجھے بہت تکلیف ہوتی ہے جب میرے بچوں کو مذہب کے نام پر ٹرول کیا جاتا ہے: فرح خان

  • بالی ووڈ کی مشہور و معروف ہستی اور فلمساز فرح خان نے ایک پروگرام کے دوران مذہب کے نام پر ٹرول کرنے والے لوگوں کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ انھوں نے چیٹ شو ’پنچ بائے اربان خان‘ میں سب سے پہلے تو اس بات کا انکشاف کیا کہ بھلے ہی وہ سوشل میڈیا پر ٹرولنگ کا سامنا کرنے سے پریشان نہیں ہوتیں، لیکن جب ان کے بچوں کو ’مذہب‘ کے نام پر ٹرول کیا جاتا ہے تو اس سے بہت تکلیف پہنچتی ہے۔

پھر انھوں نے ٹرولرس پر ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی حرکتیں مناسب نہیں۔ فرح خان نے اداکار ارباز خان کے ساتھ بات چیت کے دوران کہا کہ جب کسی تہوار کے دوران ان کے بچوں کو ’مذہب‘ کی بنیاد پر ٹرول کیا جاتا ہے تو بہت برا لگتا ہے۔

فرح خان نے ارباز خان کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے مذکورہ باتیں بتائیں اور ساتھ میں انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’’یہ سوال واقعی میں مجھے پریشان کرتا ہے کہ میرے بچے ہندو ہیں یا مسلم۔ پہلے میں دیوالی اور عید کے موقع پر اپنے بچوں کی تصویریں پوسٹ کرتی تھی، لیکن اب میں نے ایسا کرنا بند کر دیا ہے۔‘‘ اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ ’’میں مذہبی تہواروں کے دوران تصویریں پوسٹ نہیں کرتی ہوں، کیونکہ میرے بچوں کو ان کے مذہبی عقیدہ کو لے کر کئی بار ٹرول کیا گیا ہے

متھرا کے سات شہروں میں شراب اور گوشت کی بکری پرلگے گی پابندی، وزیر اعلی یوگی

اتر پردیش کے وزیراعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے متھرا میں ایک مذہبی تقریب سےخطاب کرتے ہوئے کل اعلان کیا کہ متھراکے سات شہرورنداون،گووردھن،نندگاؤں،برسانا،گوکل،مہاون اور بلدیو میں جلد ہی شراب اورگوشت کی بکری پر پابندی لگے گی۔انہوں نے ساتھ میں یہ بھی کہا کہ ان کاموں سے جڑے لوگوں کوجلد کوئی متبادل دیا جائےگا۔

اپنی حکومت کےآخری دورمیں یعنی اسمبلی انتخابات سے چندماہ پہلے ایسے اعلان کرنےکا مطلب صاف ہے کہ یہ سیاسی نظریہ سےدیا گیا بیان ہے اور اپنی ہندو مذہبی رہنما کی شبیہ کو مضبوط کرنا اس کا مقصدنظرآتا ہے۔ویسے لوگوں میں یہ بھی سوال کیا جارہاہے کہ نریندر مودی کا وزیراعظم کے لئے انتخاب گجرات ماڈل کے لئے کیا گیا تھا اور گجرات میں شراب پر پابندی ہےتو بی جے پی کی اقتدار والی دیگرریاستوں میں بھی شراب پر پابندی عائد ہونی چاہئے۔

 

یہ بھی کہا جارہا ہے کہ گزشتہ کئی سالوں کے دوران ہندوستان میں مذہبی شدت پسندی میں شدید اضافہ ہواہے اوراس کی وجہ سےسماج میں بےچینی پیدا ہوئی ہے۔اگر کوئی بھی حکومت اپنےفیصلوں میں سماج کی جگہ مذہب کوترجیح دیتی ہےتو اس سے سماج پر منفی اثر پڑتا ہے۔ اگر شراب کو سماج کے لئے برائی سمجھ کراس پر پورے صوبہ میں پابندی عائد ہوتی ہے تو اس کوسماج کےلئےاچھا قدم کہاجا سکتا تھا۔

ترنگا میں لپیٹے کلیان سنگھ کے تابوت پر بی جے پی کا پرچم قومی پرچم کی توہین

ترنگا میں لپیٹے کلیان سنگھ کے تابوت پر بی جے پی کا پرچم قومی پرچم کی توہین

Branda Kret
برنداکرت 
کئی مغربی ممالک بشمول امریکہ، برطانیہ اور کینیڈا میں قومی پرچم کے استعمال سے متعلق کوئی مخصوص قانون یا ضابطہ اخلاق نہیں ہے۔ ویٹنام میں امریکی فورسیس کے کیمپس کے خلاف #امریکی پرچم کو نذرآتش کئے جانے کی تصاویر آج بھی دیکھی جاسکتی ہیں اور یہ تصاویر ایک ہنگامہ خیز تاریخ کا حصہ ہے۔ امریکی پرچم کو جلائے جانے کو ایک غیرقانونی کارروائی نہیں سمجھا گیا، لیکن اس کے برعکس ہمارے ملک ہندوستان میں 1950ء سے #قومی پرچم کے بارے میں ضابطہ اخلاق موجود ہے اور اس قانون میں سال 2002ء میں ترمیم کی گئی۔ اگر دیکھا جائے تو یہ بہت سخت قانون ہے،۔
لیکن اسے بناء کسی مخالفت کے منظور کیا گیا، اب قومی پرچم سے متعلق قانون پھر ایک مرتبہ خبروں میں ہے، کیونکہ حال ہی میں اترپردیش کے دارالحکومت لکھنؤ میں سابق چیف منسٹر اور سابق گورنر #راجستھان کلیان سنگھ کی موت پر انہیں اس طرح خراج عقیدت پیش کیا گیا، وہ قابل مذمت رہا۔ کلیان سنگھ کے دیہانت پر انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے بی جے پی کے کئی اعلیٰ قائدین بشمول وزیراعظم نریندر مودی، وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ، چیف منسٹر اترپردیش یوگی آدتیہ ناتھ اور اہم دستوری عہدوں پر فائز بے شمار شخصیتوں نے شرکت کی۔
قوم پرستی کا دَم بھرنے والی بی جے پی نے اس دوران قومی پرچم کی عزت و احترام کو یکسر فراموش کردیا۔ کلیان سنگھ کے تابوت پر قومی پرچم ڈھانکا گیا تھا۔ ویسے بھی کسی بھی اہم قائد کی سرکاری سطح پر آخری رسومات کی انجام دہی کے دوران تابوت پر نصف حصے تک قومی پرچم رکھا جاتا ہے لیکن بی جے پی کے صدر جے پی نڈا نے قومی پرچم پر اپنی پارٹی بی جے پی کا پرچم ڈال دیا۔
جو تصاویر منظر عام پر آئیں اس میں دکھایا گیا کہ اترپردیش کے چیف منسٹر یوگی اور پارٹی صدر نڈا خراج عقیدت پیش کررہے تھے۔ تصویر میں خاص طور پر یہ بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ بی جے پی پرچم کے نیچے قومی پرچم ہے جو دراصل قومی پرچم سے متعلق قانون سال 2002ء کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اس قانون کی دفعہ 2.2(i) میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ جب کبھی قومی پرچم کی نمائش کی جائے، تب قومی پرچم کا مقام بلند و بالا اور قابل احترام ہونا چاہئے اور اسے دوسرے پرچموں سے ممتاز رکھنا چاہئے، لیکن کلیان سنگھ کے تابوت کو قومی پرچم سے لپیٹا تو گیا ، تاہم اس پر بی جے پی کا پرچم ڈال کر قومی پرچم کی بے حرمتی کی گئی۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا قومی پرچم کی اس توہین پر کیا کوئی مقدمہ درج کیا گیا۔ اس کا جواب نفی میں ہے۔ آر ایس ایس کے ترجمان ’’آرگنائزر‘‘ نے 17 جولائی 1947ء کے اپنے شمارے میں اس بات کا مطالبہ کیا تھا کہ زعفرانی پرچم کو قومی پرچم کے طور پر قبول کیا جائے۔ یوم آزادی کے موقع پر 14 اگست کو آر ایس ایس کے ’’آرگنائزر‘‘ میں یہ بات شائع کی گئی تھی کہ جن لوگوں کو قسمت سے اقتدار ملا ہے وہ ترنگا ہمارے حوالے کردیں لیکن اس کا کبھی احترام نہیں کیا جائے گا اور جو قومی پرچم ہوگا، وہ ہندوؤں کی ملکیت ہوگا۔
آر ایس ایس کے ترجمان میں یہ بھی لکھا گیا کہ لفظ ’’تین‘‘ خود اپنے آپ میں ایک برا لفظ ہے اور تین رنگوں والا پرچم یقینا ملک پر ایک نفسیاتی اثر ڈالے گا اور یہ ملک کے لئے مضر ہے۔ جس وقت مہاتما #گاندھی کا #قتل ہوا تھا، اس کے بعد آر ایس ایس پر پابندی عائد کی گئی اور حکومت سنگھ پریوار کی اس سرپرست تنظیم پر سے پابندی ہٹانے کی جو شرط عائد کی تھی۔
وہ یہی تھی کہ آر ایس ایس قومی پرچم کو قبول کرے۔ اُس وقت کے معتمد داخلہ ایچ وی آر اینگر نے مئی 1949ء کو ایم ایس گولوالکر کے نام مکتوب میں لکھا تھا ’’واضح طور پر قومی پرچم کی قبولیت ملک کو یہ اطمینان دلانے کیلئے ضروری ہے کہ آر ایس ایس ریاست کے تئیں وفاداری کے بارے میں کوئی تحفظاتِ ذہنی نہیں رکھتی‘‘۔ اس طرح کی تاریخ بی جے پی قائدین کیلئے کوئی غیرمعمولی بات نہیں کیونکہ اکثر بی جے پی قائدین، آر ایس ایس کی نفرت پیدا کرنے والی شاکھاؤں کے تربیت یافتہ ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ان لوگوں نے قومی پرچم پر اپنی پارٹی کا پرچم لپیٹ دیا۔ اکثر یہ بھی دیکھا جارہا ہے کہ بی جے پی قائدین اور کارکن کئی موقعوں پر قومی پرچم کی توہین کررہے ہیں۔ مثال کے طور پر مسلمانوں کے خلاف ہجومی تشدد، اقلیتوں کے مکانات و دکانات کو آگ لگانے جیسے واقعات کے دوران یہ غنڈے زعفرانی پرچموں کے ساتھ قومی پرچم بھی اپنے ہاتھوں میں لئے رہتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ اقلیتوں کے خلاف نفرت سے بھرپور کارروائیاں بھی قوم پرستی کا کام ہے۔
حالانکہ نیشنل آنر ایکٹ 1971ء کی دفعہ 2 میں واضح طور پر کہا گیا کہ ہندوستانی قومی پرچم اور دستور ہند کی توہین چاہے وہ برسرعام کی جائے یا پھر خفیہ طور پر کی جائے، اس کے تعلق سے توہین آمیز الفاظ بولے جائیں یا لکھے جائیں یا اسے تمثیلی انداز میں پیش کیا جائے تو وہ مستوجب سزا ہے اور اس کے لئے تین سال کی سزائے قید  دی جاسکتی ہے اور جرمانہ بھی عائد کیا جاسکتا ہے۔
آپ کو بتادوں کہ 2020ء کے دہلی فسادات کے موقع پر بھی بی جے پی کی نفرت انگیز تقاریر کرنے والے قائدین نے اپنی زہریلی تقاریر ذریعہ یہ تشدد بھڑکایا تھا۔ کپل مشرا ان میں سے ایک ہے۔ اس کی تقاریر کے نتیجہ میں فسادات پھوٹ پڑے اور حیرت کی بات ہے کہ اس میں دارالحکومت کے قلب میں خودساختہ امن ریالی کا اہتمام کیا گیا جس میں کپل مشرا کے حامی ہاتھوں میں قومی پرچم تھامے اشتعال انگیز نعرے لگا رہے تھے، ان میں ایک نعرہ ’’گولی مارو سالوں کو‘‘ بھی تھا لیکن کسی کے خلاف بھی کوئی مقدمہ درج نہیں کیا گیا۔ 
ستمبر 2015ء میں گاؤکشی کے جھوٹے الزامات عائد کرتے ہوئے ہجومی تشدد کا آغاز کیا گیا اور محمد اخلاق نامی شخص کو انتہائی بے دردی سے ہلاک کردیا گیا۔ اس مقدمہ کے ایک کلیدی ملزم کی طبعی موت ہوتی ہے تو سنگھ پریوار کے ارکان ، اس کی نعش کو قومی پرچم سے لپیٹتے ہیں اور اسے امر قرار دیتے ہیں۔
جس کے نتیجہ میں پھر ایک مرتبہ قومی پرچم کی بے حرمتی کی جاتی ہے۔ اب کئی لوگ یہ سوال کرسکتے ہیں کہ ہمیں ایک ایسے وقت جبکہ قتل ، غارت گری اور تشدد جیسے سنگین جرائم کا سامنا کررہے ہیں، ان حالات میں قومی پرچم کی بے حرمتی سے متعلق جرم کے بارے میں اس قدر فکرمند کیوں ہونا چاہئے؟
آج ہندوستان میں فرضی قوم پرستی کے نام پر تشدد بڑھتا جارہا ہے، ہندوستان کی شبیہ متاثر کی جارہی ہے اور قومی پرچم ہاتھ میں تھامے #اقلیتوں پر تشدد کیا جارہا ہے۔ غرض! بی جے پی قومی سکیولر علامتوں کی توہین کررہی ہے۔ ان حالات میں اس کی شدت سے مخالفت کرنا بہت ضروری ہے۔

دھنباد کے طلباء کلاسوں میں شامل ہونے سے پہلے 7 دن کے قرنطینہ سے گزریں گے : ‏IIT ‎- ‏ISM

دھنباد کے طلباء کلاسوں میں شامل ہونے سے پہلے 7 دن کے قرنطینہ سے گزریں گے : IIT - ISMDHANBAD

دھنباد :(اردو دنیا نیوز۷۲) آئی آئی ٹی انڈین اسکول آف مائنز (آئی ایس ایم) کے طلباء کو اپنی کلاسوں میں جانے سے پہلے ادارے میں سات دن کے قرنطینہ سے گزرنا پڑے گا۔ ماہ 18کے بعد ، مینجمنٹ نے مرحلہ وار طلباء کے لیے 1 ستمبر سے ادارہ کھول دیا ہے۔ مینجمنٹ کے نوٹس کے مطابق ، پہلے مرحلے میں ادارہ 1 ستمبر سے پی ایچ ڈی ریسرچ اسکالرز اور دوسرے مرحلے میں بی ٹیک فائنل ایئر اور ایم .ٹیک فائنل ایئر کے طلباء کے لیے کھول دیا گیا ہے۔

کورونا وبا کے تناظر میں ، مارچ 2020 میں بند کر دیا گیا تھا۔ اگرچہ یہ ادارہ مارچ 2021 میں ریسرچ اسکالرز کے لیے ایک مختصر مدت کے لیے کھول دیا گیا تھا جب کورونا انفیکشن کے کیسز نیچے آئے تھے ، اسے 15 مارچ 2021 سے دوبارہ بند کر دیا گیا تھا۔ جیسا کہ دوسری لہر نے جھارکھنڈ کے ساتھ ساتھ پورے ملک میں خطرناک شکل اختیار کی۔

مینجمنٹ کے ایک عہدیدار نے منگل کو بتایا کہ کیمپس میں طلباء کی حفاظت کے لیے خصوصی حفاظتی منصوبہ بندی تیار کی گئی ہے۔ "کیمپس پہنچنے کے بعد ، طلباء کو کوویڈ پروٹوکول پر عمل کرنا ہوگا اور سات دن قرنطینہ میں رہنا ہوگا۔ مزید یہ کہ تمام طلباء کو ثبوت دینا ہوگا کہ ان کے خاندان کے کسی فرد کو دھنباد کے ادارے میں شمولیت سے پہلے پچھلے 15 دنوں میں کوویڈ 19 کا انفیکشن نہیں تھا۔

عہدیدار نے بتایا کہ ملک بھر کے طلباء میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ کوویڈ 19 انفیکشن ابھی بھی کچھ ریاستوں میں خطرناک حالت میں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پچھلے 15 دنوں میں خاندان کے کسی بھی فرد سے کوویڈ انفیکشن نہ ہونے کا ثبوت طلب کیا گیا ہے۔چھ لڑکوں اور لڑکیوں کے ہاسٹلوں کو ان طالب علموں کے لیے حساس بنایا گیا ہے جو یکم ستمبر سے اس ادارے میں شامل ہوں گے

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...