Powered By Blogger

جمعرات, ستمبر 23, 2021

بہار میں پنچایت الیکشن کے پہلے مرحلہ کی ووٹنگ كل ، 10 اضلاع کے 12 ڈویژن میں پولنگ

بہار میں پنچایت الیکشن کے پہلے مرحلہ کی ووٹنگ كل ، 10 اضلاع کے 12 ڈویژن میں پولنگ

بہار میں پنچایت انتخابات کے پہلے مرحلہ کی پولنگ جمعہ کو ہوگی اور اس کے لیے حفاظت کے پختہ انتظامات کیے گئے ہیں۔ پہلے مرحلہ میں 10 اضلاع کے 12 ڈویژن میں ووٹنگ ہونی ہے۔ صبح سات بجے سے شام پانچ بجے تک ووٹنگ ہوگی۔ پہلے مرحلہ میں 15328 امیدواروں نے مختلف عہدوں کے لیے نامزدگی داخل کی ہے، جن میں سے 858 عہدوں پر امیدواروں کا بلامقابلہ انتخاب ہو چکا ہے۔ 72 عہدوں پر کسی بھی امیدوار نے نامزدگی کا پرچہ داخل نہیں کیا۔ریاستی انتخابی کمیشن کے مطابق جمعہ کو پہلے مرحلہ میں روہتاس ضلع کے داوتھ-سنجھولی، کیمور کے کدرا، گیا کے بیلاگنج-ضر سرائے، نوادہ کے گووند پور، اورنگ آباد کے اورنگ آباد، جہان آباد کے کاکو، ارول کے سونبھدر-بنشی-سوریہ پور، مونگیر کے تاراپور، جموئی کے سکندرا اور بانکا ضلع کے دھوریا ڈویژن میں انتخاب کرایا جائے گا۔

پہلے مرحلہ کی ووٹنگ کے لیے 1609 پولنگ عمارتوں میں 2119 پولنگ مراکز بنائے گئے ہیں۔ ووٹنگ سے متعلق مسائل اور جانکاری کے لیے ریاستی انتخابی کمیشن نے ہیلپ لائن نمبر جاری کیا ہے۔ ووٹنگ کو لے کر سیکورتی کے پختہ انتظامات کیے گئے ہیں۔ پہلے مرحلہ کی پولنگ ختم ہونے کے ایک دن بعد ووٹ شماری کرائی جائے گی۔ پہلے مرحلہ کا انتخاب ختم ہونے کے بعد 26 سے 28 ستمبر کے درمیان ووٹوں کی گنتی ہوگی۔غور طلب ہے کہ پہلے ڈویژن سطح پر ووٹ شماری ہوتی تھی، لیکن اس بار انتظام بدل گیا ہے۔ پنچایت الیکشن میں پہلی بار ووٹ شماری ضلع ہیڈکوارٹرس اور ڈویژن ہیڈکوارٹرس میں ہوگی۔ ووٹنگ کے بعد ای وی ایم اور ووٹ باکس کو الیکٹرک ہاؤس میں ڈیجیٹل لاک کیا جائے گا۔ ووٹ شماری کی جگہ پر پنچایت کے مطابق کاؤنٹر بنایا جائے گا۔ ووٹ شماری کو لے کر بھی خصوصی انتظام کیا گیا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ بہار میں 11 مراحل میں پنچایت الیکشن انجام پائے گا۔

آسام : مظاہرین اور پولیس کے درمیان تصادم میں 2 افراد ہلاک ، راہل گاندھی کا اظہار افسوس

آسام : مظاہرین اور پولیس کے درمیان تصادم میں 2 افراد ہلاک ، راہل گاندھی کا اظہار افسوس

آسام کے درانگ ضلع میں تجاوزات ہٹانے کی ایک مہم چل رہی تھی جس کی مقامی افراد مخالفت کر رہے تھے۔ اس دوران پولیس اور مقامی مظاہرین کے درمیان زبردست تصادم کی خبریں سامنے آ رہی ہیں۔ موصولہ اطلاعات کے مطابق پولیس نے مظاہرین کو ہٹانے کے لیے فائرنگ کر دی جس میں کم و بیش دو افراد کی جان چلی گئی۔ اس تصادم میں متعدد مظاہرین اور پولیس اہلکاروں کے زخمی ہونے کی اطلاع بھی موصول ہو رہی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ پولیس نے مظاہرین پر لاٹھی-ڈنڈوں کا خوب استعمال کیا جس کی وجہ سے کئی مقامی افراد بری طرح زخمی ہوئے ہیں۔

اس واقعہ کے بعد کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی نے ایک ٹوئٹ میں ریاستی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور کہا ہے کہ تشدد کے لیے ریاستی انتظامیہ ذمہ دار ہے۔ انھوں نے ایک ٹوئٹ میں لکھا ہے ''آسام اسٹیٹ-اسپانسرڈ آگ میں جل رہا ہے۔ میں ریاست کے اپنے بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ کھڑا ہوں۔ جو کچھ ہوا اس کا مستحق ہندوستان کا کوئی بچہ نہیں۔'' کانگریس کے آفیشیل ٹوئٹر ہینڈل سے بھی اس واقعہ پر شدید افسوس کا اظہار کیا گیا ہے۔ ٹوئٹ میں لکھا گیا ہے ''بی جے پی کے ذریعہ نفرت پھیلانے کا نتیجہ ہے آسام تشدد۔ کانگریس پارٹی ہندوستانی شہریوں کے خلاف تشدد کی بھرپور مذمت کرتی ہے۔''

قابل ذکر ہے کہ آسام کے درانگ ضلع میں آج دوپہر تشدد اس وقت پیدا ہوا جب ڈھالپور میں کئی برس سے مقیم لوگوں کو ہٹانے کی مہم چلائی گئی۔ اس مہم کی مخالفت میں مقامی لوگ مظاہرہ کرنے لگے جس کے بعد پولیس نے فائرنگ شروع کر دی۔ اس فائرنگ میں دو شہری کی موت ہو گئی جب کہ کئی دیگر زخمی ہو گئے۔ بتایا جاتا ہے کہ تقریباً 4500 بیگھہ زمین پر قبضہ کرنے والے کم از کم 800 کنبہ کو پیر کو غیر قانونی قبضہ کے خلاف ریاستی حکومت کی مہم کے تحت بے دخل کر دیا گیا تھا۔ اس دن لوگوں نے اپنا سامان ہٹانے کے لیے کوئی مخالفت نہیں کی تھی، لیکن آج حالات بگڑ گئے۔لوگوں کو ہٹانے کا عمل جاری رکھتے ہوئے آسام حکومت نے آج سپاجھار کے ڈھالپور میں بے دخلی کا عمل انجام دینے پہنچی جہاں مقامی لوگوں کی زبردست مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ اس مخالفت کو دیکھتے ہوئے پولیس اور مقامی لوگوں کے درمیان تصادم ہو گیا۔ ذرائع کے مطابق بے دخلی مہم کے خلاف 10 ہزار سے زیادہ لوگ تجاوزات نمبر 3 علاقہ پر مظاہرہ کر رہے تھے۔

مولانا کلیم صدیقی کی گرفتاری تمام انصاف پسند شہریوں کے لیے باعث تشویش ، زبردستی مذہب تبدیل کروانے کا الزام بے بنیاد : مولانا ارشد مدنی

مولانا کلیم صدیقی کی گرفتاری تمام انصاف پسند شہریوں کے لیے باعث تشویش ، زبردستی مذہب تبدیل کروانے کا الزام بے بنیاد : مولانا ارشد مدنی

نئی دہلی(پریس ریلیز):مولانا کلیم صدیقی کی یوپی اے ٹی ایس کی جانب سے گرفتاری کی خبر ملک کے تمام انصاف پسند شہریوں کے لئے باعث تسویش ہے ، مولانامحترم کی گرفتاری پر صدرجمعیۃعلماء ہند مولاناارشدمدنی نے سخت ردعمل کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ تبدیلی مذہب کے الزام میں مولاناکلیم صدیقی کی گرفتاری کو جس طرح سے میڈیا پیش کررہا ہے وہ قابل مذمت اورباعث تسویش ہے ،اقلیتوں اور خاص کر مسلمانوں کے معاملہ میں میڈیا کا جج بن جانا اور انہیں مجرم بناکر پیش کرنا میڈیا کی جرنلزم کے پیشہ کے ساتھ بددیانتی ہے ، میڈیا کے ٹرائل سے پوری دنیامیں بھارت کی شبیہ خراب ہوتی ہے ، نیز انصاف کی جدوجہد کرنے والوں پر عرصہ حیات تنگ ہوجاتاہے ، مولانا محترم پر غیر قانونی طریقہ سے تبدیلی مذہب کرانے غیر ممالک سے فنڈنگ جیسے کئی سنگین الزامات کے تحت گرفتارکیاگیاہے ، مولانا مدنی نے کہا کہ یہ سارے الزامات سراسربے بنیاداورغلط ہیں ، کیونکہ کسی غیر مسلم کو زبردستی مسلمان نہیں بنایا جاسکتاہے ، عقیدہ جاننے کا نہیں بلکہ ماننے کا نام ہے ، اس کا تعلق انسان کے دل سے ہے ، جو کسی کے بس میں نہیں ںوتاہے ، رہی بات فنڈنگ کی تو مولانا کلیم صدیقی ہریانہ ، اور پنچاب کے ان مختلف علاقوں میں جہاں مسلمان بہت کم ہیں اور دین سے بالکل ناواقف ہیں اور اپنے آپ کو صرف مسلمان سمجھتے ہیں ان جیسے لوگوں کو دین اسلام سکھلانے کیلئے مدارس قائم کررکھے ہیں وہاں وہ انہیں مدارس پر پیسہ خرچ کرتے ہیں نہ کہ غیر مسلموں کو مسلمان بنانے کیلئے اور اگر بزورزبردستی لالچ دیکر مسلمان بنایا جاسکتاتھا تو خلیج اور خاص کر سعودی عرب میں پچاسوں لاکھ غیر مسلم کام کررہے ہیں ان کو مسلمان بنادیا جاتالیکن ایسانہیں ہے کیونکہ اسلام جاننے کا نہیں بلکہ دل سے ماننے کا نام ہے ، اخیر میں مولانا مدنی نے کہا کہ موصوف کی گرفتاری نے ایک بارپھر کئی سوال کھڑے کردیئے ہیں ، اور اس گرفتاری کو ہندومسلم منافرت کو فروغ دینے کی مذموم کوشش قراردیا ہے ،مولامدنی نے کہا کہ تمام انصاف پسند لوگوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ فرقہ پرستوں کی اس مذموم کوششوں کی بھرپورمخالفت کریں کیونکہ فرقہ پرستی ملک کے لئے انتہائی نقصاندہ ہے۔


مولانا کلیم صدیقی کی گرفتاری بھارتی آئین کی پامالی ہے

مولانا کلیم صدیقی کی گرفتاری بھارتی آئین کی پامالی ہےمولانا کلیم صدیقی وہ نویں شخص ہیں جنہیں اتر پردیش پولیس نے مبینہ تبدیلی مذہب ایکٹ کے تحت گرفتار کیا ہے۔اسے آئندہ اسمبلی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے حکمران بی جے پی کا ایک اور 'آزمودہ حربہ' قرار دیا جا رہا ہے۔اترپردیش کی یوگی ادیتیہ ناتھ حکومت کے انسداد دہشت گردی اسکواڈ (اے ٹی ایس) کے ذریعہ عالمی شہرت یافتہ بھارتی مبلغ مولانا کلیم صدیقی کو گرفتار کیے جانے پر بھارت میں بیشتر مسلم تنظیموں نے سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ تاہم ان کی گرفتاری پر سیکولر سیاسی جماعتوں کی جانب سے مکمل خاموشی پر سوالات بھی اٹھائے جارہے ہیں۔ مولانا کلیم صدیقی کومنگل 21 ستمبر کی رات کواترپردیش کے شہر میرٹھ سے اپنے گاوں پھلت جاتے ہوئے یوپی پولیس نے تبدیلی مذہب مخالف قانون کے تحت گرفتار کرلیا تھا۔بعد میں ایک عدالت نے انہیں 14دنوں کے لیے پولیس تحویل میں دے دیا۔ اسی قانون کے تحت گزشتہ جون میں بھارتی مبلغ عمر گوتم اور ان کے ایک ساتھی مفتی جہانگیر قاسمی کو بھی گرفتار کیاگیا تھا، وہ اب بھی جیل میں ہیں۔ مسلمانوں کی جانب سے سخت ردعمل مولانا کلیم صدیقی کی گرفتاری پر مسلم تنظیموں نے سخت ردعمل کااظہار کرتے ہوئے اسے بھارتی آئین اور قوانین کی صریح خلاف ورزی قرار دیا۔ بھارتی مسلمانوں کی مذہبی اور سماجی تنظیموں کے وفاق آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے صدر نوید حامد نے ڈی ڈبلیو اردو کے ساتھ با ت چیت کرتے ہوئے کہا کہ اترپردیش کی یوگی حکومت نے مولانا کلیم صدیقی کو گرفتار کرکے ایک ساتھ کئی پیغامات دیے ہیں: ”ایک پیغام تو یہ ہے کہ بھارتی آئین نے شہریوں کو آزادی، مذہب کو ماننے اور اس کی تبلیغ و اشاعت کی خواہ جتنی بھی اجازت دے رکھی ہو، موجودہ حکومت کے فیک ایجنڈے کے تحت کم از کم مسلمانوں کو تو اس کی اجازت نہیں ہے۔" انہوں نے کہا کہ دراصل ”بھارتی آئین کو بری طرح سے پامال کیا جارہا ہے۔" نوید حامد کا کہنا تھا کہ دوسرا پیغام ہے: ”آپ کی خواہ ہندوتوا کی مربی تنظیم آر ایس ایس کے سربراہ کے ساتھ ہی رسم و راہ کیوں نہ ہواس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ آپ کو بھارتی دستور کے تحت حاصل حقوق مل بھی جائیں گے۔ تیسرا اور سب سے اہم پیغام یہ ہے کہ بی جے پی اترپردیش میں ہونے والے آئندہ اسمبلی انتخابات ہر حال میں جیتنا چاہتی ہے۔‘‘ نوید حامد کا مزید کہنا تھا، ”یہ دنیا کی واحد حکومت ہے جو اکثریتی طبقے کے اندر اقلیت کے تعلق سے خوف و ہراس پیدا کرکے اقتدار میں رہنا چاہتی ہے۔وہ اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے مسلمانوں کے خلاف ہر طرح کا زہریلا پروپیگنڈا کرسکتی ہے تاکہ برادران وطن میں خوف و ہراس پیدا ہو۔" طلبہ تنظیم اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا نے بھی مولانا کلیم صدیقی کی گرفتاری کو یوپی انتخابات سے قبل فرقہ وارانہ منافرت کو ہوا دینے کی کوشش قرا ردیا۔متعدد مسلم سیاسی رہنماؤں نے بھی مولانا کلیم صدیقی کی گرفتاری کی مذمت کی ہے۔ دہلی اقلیتی کمیشن کے سابق چیئرمین ڈاکٹر ظفر الاسلام خان نے مولانا صدیقی کی گرفتاری کو سیاسی داؤ پیچ قراردیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے آئین کے مطابق تمام لوگوں کو اپنے مذہب پر عمل پیرا ہونے اور اس کی تعلیمات کو عام کرنے کا حق ہے اور مولانا پر تبدیلی مذہب کے جو الزامات لگائے گئے ہیں وہ سراسر غلط ہیں۔ مولانا کلیم صدیقی پر کیا الزامات ہیں؟ اترپردیش کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل پولیس (امن و قانون) پرشانت کمار نے دعویٰ کیا کہ مولانا صدیقی کا بھارت کے سب سے بڑے ”غیر قانونی" تبدیلی مذہب کے ریکٹ سے براہ راست تعلق ہے۔ پرشانت کمار نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ”تفتیش کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ مولانا کلیم صدیقی تعلیمی اور سماجی تنظیموں کی آڑ میں پورے ملک میں بڑے پیمانے پر غیر قانونی تبدیلی مذہب کی سرگرمیو ں میں ملوث تھے اور انہیں بیرونی ملکوں سے مالی امداد مل رہے تھے۔" مولانا صدیقی جامعہ امام ولی اللہ کے نام سے ایک ٹرسٹ چلاتے ہیں جس کا مقصد سماجی ہم آہنگی پیدا کرنا اور مذہب تبدیل کر کے مسلمان ہونے والوں کو ایک ساتھ جوڑنا ہے۔ اے ٹی ایس نے اپنے ایک بیان میں کہا، ”مولانا صدیقی اتحاد انسانیت کا پیغام دینے کی آڑ میں جنت اور جہنم کا ذکر کر کے لوگو ں کے ذہنوں میں خوف اور لالچ پیدا کرتے تھے اور انہیں اسلام قبول کرنے کے لیے آمادہ کرتے تھے اور جو لوگ مسلمان ہوجاتے تھے انہیں دیگر لوگوں کا مذہب تبدیل کرانے پر زور دیتے تھے۔" اے ٹی ایس کے انسپکٹر جنرل جی کے گوسوامی کا کہنا تھا کہ مولانا کلیم صدیقی اپنی کتابوں کے ذریعہ، جو آن لائن اور آف لائن دستیاب ہیں، لوگوں کو مذہب اسلام کی طرف مائل کرتے تھے اور لوگوں کوبتاتے تھے، ”اگر دنیا میں شریعت کے مطابق نظام قائم ہوجائے تو ہر ایک کو انصاف مل جائے گا۔"انہوں نے بتایا کہ مولانا کلیم صدیقی کی تقریروں کی درجنوں ویڈیو یو ٹیوب چینل پر بھی موجود ہیں اوران کے ایک لاکھ سے زائد سبسکرائبرز ہیں۔ مولانا کلیم صدیقی کون ہیں؟ مولانا کلیم صدیقی عالمی شہرت یافتہ بھارتی مبلغ ہیں۔ 68 سالہ کلیم صدیقی گلوبل پیس سینٹر اور جامعہ امام ولی اللہ ٹرسٹ کے صدر بھی ہیں۔ وہ بنیادی طورپر سائنس کے طالب علم رہے ہیں۔ انہوں نے بھارت میں میڈیکل کالجوں کے لیے داخلہ جاتی امتحان میں 75واں رینک حاصل کیا تھا لیکن طب میں اپنا کیریئر بنانے کے بجائے دعوت و تبلیغ کو اپنا میدان کار بنایا۔ بھارت اور بیرون ملک میں ان کے لاکھوں عقیدت مند ہیں۔ مولانا کلیم صدیقی نے سات ستمبر کوممبئی میں آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کی صدارت میں منعقد ایک کانفرنس میں شرکت بھی کی تھی۔ اس کانفرنس میں شرکت کی دعوت بھاگوت کے چچا زاد بھائی اننت بھاگوت نے خود مولانا کے گھر جاکر دی تھی۔آر ایس ایس کے سربراہ نے مولانا کلیم صدیقی سے اس موقع پر سماجی اور بین الاقوامی امور پر تبادلہ خیال بھی کیا تھا۔ حالانکہ مسلمانوں کے بعض حلقوں نے مولانا کلیم صدیقی کی موہن بھاگوت کے ساتھ ملاقات پر اعتراضا ت کیے تھے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت کی مربی تنظیم آر ایس ایس کے سربراہ کے ساتھ قربت بھی اس بات کی ضمانت نہیں کہ آپ کے دستوری حق محفوظ رہیں گے۔ جبراً تبدیلی مذہب کی ایک بھی شکایت نہیں یہ بات قابل ذکر ہے کہ جن مبلغین کو اب تک گرفتار کیا گیا ہے ان کے خلاف کسی بھی شخص نے جبراً تبدیلی مذہب کا الزام نہیں لگایا ہے۔ حالانکہ بعض کیسز میں مذہب تبدیل کرنے والے شخص کے رشتہ داروں نے شکایت ضرور کی ہے تاہم ماہرین قانون کے مطابق ان کی شکایتیں عدالتوں میں قابل قبول نہیں ہیں۔ عدالت تبدیل مذہب کرنے والے شخص کے بیان کو ہی اہمیت دیتی ہے۔ اس سال جون میں تبدیل مذہب کرنے والی ایک خاتون نے دہلی ہائی کورٹ سے کہا تھا کہ اسے ایک صحافی اور بعض لوگوں کی جانب سے دھمکی مل رہی ہے کہ اگر اس نے تبدیلی مذہب کے سلسلے میں چھوٹا بیان نہیں دیا تو اس کے خلاف پولیس کارروائی کی جائے گی۔ دریں اثنا بھارتی وزارت داخلہ نے آر ٹی آئی کے تحت پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا ہے کہ ہندوازم کو کسی طرح کا خطرہ لاحق نہیں ہے۔ مونیش جبل پوری نامی شخص نے وزارت داخلہ سے ثبوتوں کے ساتھ یہ جاننا چاہا تھا کہ آیا ”ملک میں ہندو دھرم کو کوئی خطرہ لاحق ہے"۔ وزارت داخلہ نے اس کے جواب میں بتایا کہ اس کے پاس ایسا کوئی ثبوت نہیں ہے جس کی بنیاد پر یہ کہا جاسکے کہ بھارت میں ہندو دھرم کو کوئی خطرہ لاحق ہے۔ جاوید اختر

سپریم کورٹ نے مسلم بی ایس ایف نوجوان کی ضمانت منظور کردی

سپریم کورٹ نے مسلم بی ایس ایف نوجوان کی ضمانت منظور کردیممبئی 23/ستمبر
سپریم کورٹ آف انڈیا نے آج یہاں پاکستان کے لیئے مبینہ جاسوسی کرنے کے الزامات کے تحت گرفتار ایک مسلم فوجی نوجوان کو مشروط ضمانت پر رہا کیئے جانے کا حکم جاری کیا، چیف جسٹس آف انڈیا این وی رمنا، جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس ہیما کوہلی پر مشتمل تین رکنی بینچ نے بارڈر سیکوریٹی فورسیز (بی ایس ایف) میں برسر روزگار مہاراشٹر کے لاتور شہر کے ایک مسلم فوجی ریاض الدین شیخ کوضمانت پر رہا کیئے جانے کا حکم جاری کیا، ملزم کو
ڈھائی سال قبل پڑوسی ملک پاکستان کے لیئے جاسوسی کرنے کے الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا تھا جس کی ضمانت پر رہائی کی درخواست جمعیۃ علماء مہاراشٹر (ارشد مدنی) کے توسط سے سپریم کورٹ آف انڈیا میں داخل کی گئی تھی جس پر آج سماعت عمل میں آئی۔
ملزم ریاض الدین کے دفاع میں ایڈوکیٹ آن ریکارڈ گورو اگروال نے بحث کی اور عدالت کو بتایا کہ ملزم کے خلاف مقدمہ چلانے کے لیئے ضروری اجازت نامہ یعنی کے سینکشن آرڈر ہی نہیں ہے اس کے باوجود ملزم کو ڈھائی سالوں سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے قید کرکے رکھا گیا ہے نیز ملزم برادر نسبتی کے اکاؤنٹ میں پاکستان سے کوئی بھی پیسہ نہیں آیا جیسا کہ استغاثہ نے الزام عائد کیاہے۔
ایڈوکیٹ گورو اگرول نے عدالت کو مزید بتایا کہ آفیشیل سیکریسی ایکٹ کے اطلاق کے لیئے ضروری اجازت نامہ (سینکشن) کی غیر موجودگی میں ملزم کے خلاف فرد جرم عائد نہیں کی جاسکتی لیکن ٹرائل کورٹ نے اس اہم بنیاد کو نظر انداز کرتے ہوئے چارج فریم کردیا جو غیر قانونی ہے۔
ایڈوکیٹ گورو اگروال نے عدالت کو بتایا کہ چارج شیٹ عدالت میں داخل کی جاچکی ہے اور اگر چارج شیٹ کو من و عن صحیح مان بھی لیا جائے تو ملزم کے خلاف عائد الزاما ت ثابت نہیں ہوتے لہذا ملزم کو ضمانت پر رہا کیا جائے۔ دفاعی وکلاء گورو اگروال اور مجاہد احمد کے دلائل کی سماعت کے بعد سپریم کورٹ آف انڈیا نے ملزم کو مشروط ضمانت پر رہا کیئے جانے کا حکم جاری کیا۔
اس ضمن میں جمعیۃ علماء مہاراشٹر قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی نے ممبئی میں اخبار نویسوں کو بتایا کہ ملزم ریاض الدین شیخ جو ہندوستانی فوج کے شعبہ بی ایس ایف میں اپنی خدمات انجام دے رہا تھا کو نومبر 2018 میں پاکستان کے لئے جاسوسی کرنے کے الزامات کے تحت گرفتار کرکے اسے جیل میں قید کیاگیا اور اس کے بعد اسے ملازمت سے فوراًمعطل کردیا گیا تھا۔
گلزار اعظمی نے مزید بتایا کہ ملزم کی گرفتاری کے بعد ملزم کے اہل خانہ نے اس کی ضمانت پر رہائی کی بہت کوشش کی لیکن انہیں کامیانی نہیں ملی جس کے بعد نائب صدر جمعیۃ علماء مہاراشٹر حافظ محمد ذاکر صدیقی کے توسط سے ملزم کے اہل خانہ نے ریاستی جمعیۃ علماء سے رابطہ قائم کرکے ان سے قانونی امداد طلب کی اور کہا کہ ریاض الدین بے قصور ہے اور اس نے پاکستان کے لیئے کوئی جاسوسی نہیں کی ہے اور وہ ایسا کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا کیونکہ وہ ایک ایماندار فوجی ہے۔گلزار اعظمی نے کہا کہ ابھی تو ملزم کو ضمانت ملی ہے لیکن ہمیں پختہ یقین ہے کہ ملزم جاسوسی کے الزامات سے باعزت بری ہوگا۔

واٹس ایپ گروپ میں فرقہ وارانہ پوسٹ پر ایڈمن گرفتار

واٹس ایپ گروپ میں فرقہ وارانہ پوسٹ پر ایڈمن گرفتار

کولکاتا ، 23 ستمبر کولکاتا پولیس کی ٹیم نے میٹروپولیٹن کولکاتا کی بھوانی پور سیٹ پر ضمنی الیکشن سے قبل واٹس ایپ گروپ بنانے ، انتخابات سے متعلق فرقہ وارانہ پوسٹس کرنے اور اس میں فحش تبصرے کرنے پر ایک واٹس ایپ گروپ کے ایڈمنسٹریٹر کو گرفتار کیا ہے۔ اس کا نام پرم رائے چودھری ہے۔ وہ بنیادی طور پر بیربھوم ضلع کے نانور تھانے کے تحت گھرکل گاؤں کا رہائشی ہے۔ کولکاتا پولیس کے جوائنٹ کمشنر (کرائم) مرلیدھر شرما نے جمعرات کی صبح اس بارے میں معلومات دی۔ انہوں نے بتایا کہ بدھ کی رات دیر گئے ملزم کو گرفتار کیا گیا۔ اس کے خلاف شکایت درج کرائی گئی کہ وہ اور اس کے ساتھی واٹس ایپ گروپ میں فرقہ وارانہ پوسٹیں کر رہے ہیں۔ کولکاتا پولیس کے سائبر سیل سے شکایت موصول ہونے کے بعد ، پولیس تفتیش میں مصروف تھی اور اب اسے پکڑ لیا ہے۔ گروپ میں پوسٹ کرنے والے دیگر ارکان کو بھی گرفتار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔


بہار پولیس کی تاریخ میں پہلی بار خواجہ سرا ( ترانس جینڈر ) کانسٹیبل کی بحالی

بہار پولیس کی تاریخ میں پہلی بار خواجہ سرا ( ترانس جینڈر ) کانسٹیبل کی بحالی

بہار پولیس نے پہلی بار ایک خواجہ سرا شخص کو کانسٹیبل کے طور پر بحال کیا ہے۔خبر کے مطابق ، رچیت راج کامور ضلع میں ایس پی آفس کی خفیہ شاخ میں تعینات ہونے والے پہلے ٹرانس جینڈر کانسٹیبل بن گئے ہیں۔

رچیت راج (23) ، جو پہلے رچنا کے نام سے جانا جاتا تھا ، نے کہا کہ لڑکی کے طور پر پیدا ہونے کے باوجود اسے کبھی بھی عورتوں کے کپڑے پہننے کا احساس نہیں ہوا۔

راج نے کہا کہ''جب میں 17 سال کا تھا ، میں لڑکوں کی بجائے لڑکیوں کی طرف راغب ہوا۔ ایک ٹرانس جینڈر کی شناخت قائم کرنا انتہائی مشکل ہے۔ جب میں بازار گیا تو لوگوں نے تبصرے کیے۔ بہت سے لوگوں نے کہا کہ ایک لڑکی لڑکے کی طرح چل رہی ہے''۔

راج نے مزید کہا کہ''تمام سماجی رکاوٹوں کے باوجود ، میں نے عدالت میں ایک حلف نامہ پیش کیا تھا تاکہ ایک ٹرانس جینڈر کے طور پر پہچانا جائے۔ اپنی جسمانی شناخت کو عورت سے مرد میں تبدیل کرنا انتہائی مشکل تھا۔ میں نے بطور مرد کانسٹیبل کے عہدے کے لیے درخواست دی تھی اور میں اس سال منتخب کیا گیا ہے۔

مزید کہا کہ ''ٹرانس جینڈر پروٹیکشن ایکٹ ، 2019 کے مطابق ، کوئی بھی ٹرانس جینڈر اپنی شناخت ظاہر کر سکتا ہے۔ بہار میں ، ٹرانس جینڈر سرٹیفکیٹ لینے کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ، میں اپنے تعلیمی سرٹیفکیٹ میں اپنی جسمانی شناخت تبدیل کرنے سے قاصر ہوں۔ صنفی کالم میں ، میری جنس کو سرٹیفکیٹ میں خاتون کے طور پر رکھا گیا ہے۔''

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...