Powered By Blogger

جمعہ, نومبر 05, 2021

تریپوره فساد : شرپسند وں کے خلاف کسی کارروائی کا نہ ہونا انتہائی افسوسناک ، نفرت کی سیاست ملک کو تباہ کردے گی : مولانا ارشدمدنی

تریپوره فساد : شرپسند وں کے خلاف کسی کارروائی کا نہ ہونا انتہائی افسوسناک ، نفرت کی سیاست ملک کو تباہ کردے گی : مولانا ارشدمدنی
نئی دہلی
:تریپورہ میں ہونے والے فساد کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے جمعیت علما ہند کے صدرمولانا ارشدمدنی نے کہا کہ شرپسندوں کے خلاف اب تک کسی ٹھوس کارروائی کانہ ہونا انتہائی افسوسناک ہے یہ ردعمل انہوں نے جمعیت علما ہند کے تری پورہ فسادزدہ علاقوں کا تین روزہ دورہ مکمل کرنے کے بعدپیش تفصیلی رپورٹ پر ظاہر کرتے ہوئے کہی مولاناسید ارشد مدنی کی ہدایت پر ناظم عمومی جمعیت علما ہند مفتی سید معصوم ثاقب اور سکریٹری جمعیت علما اترپردیش مولانا اظہر مدنی پر مشتمل ایک نمائندہ وفدنے تریپورہ فساد زدہ علاقہ کا دورہ کرکے اپنی تفصیلی اور تفتیشی رپورٹ مولانا مدنی کو پیش کی ہے
مولانا مدنی نے کہاکہ تریپورہ کی سرحدیں بنگلہ دیش سے ملتی ہیں لیکن اس کے باوجود یہ ایک پرامن ریاست رہی ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ البتہ ادھرجب سے ایک مخصوص نظریہ کو ماننے والی پارٹی اقتدارمیں آئی ہے فرقہ پرست عناصراور ان کی تنظیموں کو ایک طرح سے کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے، فسادبرپاکرنے کی سازشیں توپہلے سے ہوتی رہی ہیں لیکن پچھلے دنوں بنگلہ دیش میں ہوئے واقعات کو بہانہ بناکر بعض فرقہ پرست تنظیموں نے وہاں حیوانیت اور بربریت کا جو مظاہرہ کیا وہ یہ بتاتاہے کہ فرقہ واریت کازہر کس طرح لوگوں کے دلوں میں اندرتک سرایت کرگیا ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس رپورٹ کے مطابق12مسجدوں پر حملے ہوئے، جلوس کے دوران کی گئی آتشزنی سے مذہبی عبادت گاہوں اور مسلمانوں کی دوکانوں ودیگر املاک کو زبردست نقصان پہنچاہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ تریپورہ میں جو کچھ ہواہے اس سے پوری دنیا میں ملک کی شبیہ مجروح ہوئی ہے۔ ایک ایسے جمہوری ملک میں کہ جہاں آئین کی بالادستی مسلم ہوجس میں ملک کے تمام شہریوں کو مساوی حقوق دیئے گئے ہوں ایک منتخب شدہ حکومت کے ہوتے ہوئے کسی ریاست میں اگر اس طرح کے افسوسناک واقعات رونماہوں اور مرکزوریاست دونوں حکومتیں کچھ نہ کریں تو اس سے آئین وقانون کے بالادستی کے ساتھ ساتھ انصاف کے نظام پر بھی سوالیہ نشان لگ جاتاہے۔
مولانا مدنی نے دعوی کیا کہ جلوس کے دوران شرپسندوں کی بھیڑمسلم اکثریتی علاقوں سے انتہائی دلآزارنعرہ لگاتی اور مسجدوں اور دوکانوں کو جلاتی ہوئی گزری اور پولس اور انتظامیہ کے ذمہ داران خاموش تماشائی بنے رہے یہ کتنے شرم اور افسوس کی بات ہے۔ انہوں نے مزید کہاکہ باورکرایا جارہاہے کہ بنگلہ دیش میں اقلیتوں کے ساتھ جوکچھ ہوا یہ اس کا ردعمل تھا سوال یہ ہے کہ اگر کسی غیر ملک میں کچھ ہوتاہے تو اس کا انتقام اپنے ملک کے شہریوں سے لیاجانا کہا کا انصاف ہے؟ سوال یہ بھی ہے کہ بنگلہ دیش کی حکومت نے شرپسندعناصرکے خلاف جس طرح کی کارروائی کی ویسی کارروائی ہماری حکومت نے شرپسند عناصرکے خلاف کیوں نہیں کی؟ ہم نے بنگلہ دیش میں ہوئے تشددکی سخت مذمت کی تھی، کسی بھی مہذب سماج میں ایسانہیں ہونا چاہئے۔
تریپورہ میں فرقہ پرست طاقتوں نے مسلم اقلیت کے خلاف جو کچھ کیا ہم اس کی بھی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے تریپورہ کی سرکارسے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ریاست میں مسلمانوں کے جان ومال کے تحفظ کو نہ صرف یقینی بنائے بلکہ خاطیوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی بھی کرے، اگر ایسے لوگوں کو کھلاچھوڑدیا گیا یا انہیں سیاسی تحفظ فراہم کیا گیاتو ان کے حوصلہ مزید بڑھ سکتے ہیں اور وہ مستقبل میں بھی اس طرح کی مذموم کارروائیاں انجام دیکر امن وقانون کے لئے خطرہ بنتے رہیں گے۔
مولانا مدنی نے اس امرپر بھی سخت افسوس کا اظہارکیا کہ تریپورہ کئی دنوں تک شرپسند عناصر کے نشانہ پر رہا اور آئین کی پاسداری کا حلف لینے والے ہمارے رہنماتماش بین بنے رہے۔ ملک کے آئین اور سیکولرروایت کے لئے یہ کوئی اچھی علامت نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ ایک بڑی اہم پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ تری پورہ ہائی کورٹ نے ازخودان واقعات کا نوٹس لیتے ہوئے ریاستی حکومت سے جواب طلب کیا ہے یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ریاستی سرکاراپنا فرض ایمانداری سے پوراکرنے میں ناکام رہی ہے۔
مولانا مدنی نے کہا کہ میڈیا نے ایک بارپھر اپنا دوہراچہرہ دکھادیا، بنگلہ دیش کے پرتشددواقعات کو تو اس نے خوب نمک مرچ لگاکر پیش کیا لیکن جب تریپورہ میں حیوانیت کا کھیل ہواتو اس کی کوئی خبر نہیں دکھائی گئی۔ انہوں نے کہاکہ جمعیت علما ہند شرپسندوں کے ہاتھوں جلائی ومسمارکی گئی مسجدوں کی تعمیر نوکرائے گی اور متاثرین کی بازآبادکاری بھی کریگی لیکن تریپورہ کے مسلمانوں کے دلوں میں ان واقعات کے بعد جو ڈراور خوف بیٹھ گیا ہے وہ اتنے بھرسے دورنہ ہوگا بلکہ اس کی واحد صورت یہ ہے کہ پورے معاملہ کی غیر جانبدارانہ تفتیش ہواور اس کی بنیادپر شرپسندعناصر کے خلاف قانونی کارروائی بھی ہوتاکہ انہیں ملک کے قانون کے مطابق قرارواقعی سزامل سکے۔انہوں نے کہاکہ جولوگ امتیازاور تعصب کا رویہ اختیارکرکے ایک خاص کمیونٹی کو قومی دھارے سے الگ کرنے کی کوششیں کررہے ہیں درحقیقت وہ ملک کوتباہی کے راستہ پر ڈال رہے ہیں۔جمہوری نظام سے ہی ملک کی ترقی ممکن ہے، ملک کی بڑی آبادی کا خود کو غیر محفوظ تصورکرنا انتہائی خطرناک اورتشویشناک ہے۔،حکومتیں ڈراورخوف سے نہیں بلکہ عدل وانصاف سے چلتی ہیں

ماں نے لیا تھا قرض ، ریکوری ایجنٹ بیٹی کولے کر فرار ، جانیں سارا معاملہ

ماں نے لیا تھا قرض ، ریکوری ایجنٹ بیٹی کولے کر فرار ، جانیں سارا معاملہ

بہار کی راجدھانی پٹنہ میں ایک عجیب محبت کی کہانی سامنے آئی ہے۔ ماں سے قرض کی وصولی کے لیے یہاں آنے والا ریکوری ایجنٹ بیٹی کو لے کر فرار ہوگیا۔ اب پولیس ان دونوں کو اپنی تحویل میں لے کر پوچھ تاچھ کر رہی ہے۔

موصولہ اطلاعات کے مطابق یہ لڑکا اور لڑکی جھارکھنڈ کے ہزاری باغ سے فرار ہونے کے بعد پٹنہ کے پھلواری شریف علاقے میں کرائے کے مکان میں رہ رہے تھے۔ پولیس نے دونوں کو حراست میں لے کر پوچھ تاچھ کی تو ان کی محبت کی کہانی کھل کر سامنے آئی۔ لڑکے نے پولیس کو بتایا کہ وہ ایک فنانس کمپنی میں ریکوری ایجنٹ ہے۔ اس نے لڑکی کی ماں کو اپنی کمپنی سے قرض دیا تھا۔ قرض کی وصولی کے لیے وہ اکثر اس کے گھر جاتا تھا جہاں وہ لڑکی سے آمنے سامنے آیا کرتا تھا۔ کچھ دنوں کے بعد لڑکی اور اس کی دوستی ہو گئی۔ پھر دونوں ایک دوسرے کو پیار کرنے لگے۔

پھر ایک دن دونوں گھر سے بھاگ گئے۔ ہزاری باغ سے آنے کے بعد وہ یہاں پٹنہ میں رہنے لگے۔ یہاں پڑوسیوں کو ان دونوں پر شک ہوا۔ اس نے پولیس کو اطلاع دی تو پولیس نے دونوں کو حراست میں لے کر پوچھ گچھ کی۔ تفتیش کے دوران ساری کہانی سامنے آگئی۔ معلوم ہوا کہ گھر والے کافی دنوں سے دونوں کی تلاش کر رہے تھے۔ لڑکے اور لڑکی نے بتایا کہ ان کے گھر والے ان کی شادی کے خلاف ہیں۔ اس وجہ سے مجھے گھر سے بھاگنا پڑا۔ فی الحال پولیس نے دونوں کے اہل خانہ کو اطلاع کر دی ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ دونوں کے اہل خانہ آئیں گے تو سب کو بٹھا کر بات کی جائے گی۔ دوسری جانب لڑکے اور لڑکی کا کہنا ہے کہ دونوں بالغ ہیں، ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔ ان کی شادی میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالیں

باجی گیند تو دے دو ۔۔ میچ کے دوران لڑکی نے گراؤنڈ میں آکر گیند ہی چھپا دی، پھر کیا ہوا دیکھیے


باجی گیند تو دے دو ۔۔ میچ کے دوران لڑکی نے گراؤنڈ میں آکر گیند ہی چھپا دی، پھر کیا ہوا دیکھیے



بیٹی بچاؤ_______مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

بیٹی بچاؤ_______
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
عبد الرحیم دربھنگہوی
بیٹی کے قتل کرنے کا رجحان ماضی قریب میں تیزی سے بڑھاہے او راعدادوشمار بتاتے ہیںکہ اس رجحان نے ملک میںقدرتی اور فطری جنسی نیز صنفی توازن کو تہہ وبالا کرکے رکھ دیا ہے ، کئی صوبوں میںمسئلہ یہ پیدا ہوگیا ہے کہ لڑکوں کو دلہن بنانے اور بیاہ لانے کے لئے لڑکیاں دستیاب نہیں ہیں ، اور انہیں دوسرے صوبوں کی طرف دیکھنا پڑ رہا ہے۔
صنفی توازن کواپنے طور پر غیر متوازن کرنے کی کئی وجوہات ہیں ، پہلی وجہ تو یہ ہے کہ لڑکی کی شادی کے لئے مختلف مذاہب کے ماننے والوں میںگھوڑے ، جوڑے ، سلامی اورجہیز کی جو بیماری بڑھتی رہی ہے ، اس نے اس رحجان کو فروغ دیا کہ لڑکیوںکودنیا میں آنے نہ دیا جائے، الٹراسائونڈ اور جانچ کی دوسری سہولتوں کی وجہ سے یہ ممکن ہوگیا ہے کہ حالت حمل میں ہی جنین کا پتہ چلالیا جائے ایسے میں شادی کے بکھیروں اورکمائی کا بڑا حصہ تلک وجہیز کے نام پر لڑکے والوں کو دینے سے بہتر معلوم ہوتا ہے کہ اسے دنیا ہی نہ دیکھنے د ی جائے ۔سرکار کو اس مسئلے کی سنگینی کا احساس ہے، اس لیے اس نے الٹراساؤنڈ کے ذریعہ حالت حمل میں جنس کا پتہ چلانے کو غیر قانونی قرار دیا ہے، اور الٹرا ساؤنڈ سے متعلق دکانوں پر اس مضمون کا بورڈ آویزاں بھی رہتا ہے، لیکن اس کی پرواہ کو ن کرتا ہے ، دوسرے بہت سارے غیر قانونی کاموں کی طرح یہ کام بھی معقول رقم پکڑانے پر ہو جاتا ہے اور اگر بچی ثابت ہوئی تو ماں کے پیٹ کو ہی اس کی قبر بنا دی جاتی ہے، قیامت میں اس کے بارے میں بھی سوال ہوگا کہ کس جرم کی پاداش میں قتل کی گئیں۔
اسلا م میں معاملہ اس کا الٹا ہے ، یہاںبیٹی اللہ کی رحمت ہے ، جنت میں لے جانے کا سبب ہے ، بیٹی بیوی بن جائے تو شریک حیات بن کر گھرکوپرسکون بنانے کا ذریعہ ہے ، اور جب وہ ماں بن جائے تو اس کے قدموں تلے جنت ہے ، بہن ہے تو اپنے بھائیوں اور خاندان کے لئے مونس وغم خوار ہے اور یہ عورت ہی ہے جو بڑی مصیبت اٹھا کر ہمیں دنیا میں لانے کا ذریعہ بنی ۔یہاںشادیوں میںلڑکی والے پر کوئی مالی بوجھ نہیں ہے ،نان ونفقہ ، رہائش کے  لئے مکان وغیرہ کی فراہمی لڑکے کے ہی ذمہ ہے ، خوشی میں بھوج دینا بھی جسے ولیمہ کہا جاتا ہے،اسی کی ذمہ داری، ان سارے اخراجات کے ساتھ مہر کی ادائیگی بھی نکاح کے بنیادی لوازمات میںسے ہے ، اس لئے مسلمانوں کے یہاں دختر کشی کا یہ عمل نسبتا ً کم ہے ،یہ اور بھی کم ہوسکتا ہے اگر ہم شریعت کے احکام کا پاس و لحاظ کرتے ہوئے سلامی اور جہیز کے ذریعہ معیار زندگی بڑھانے کا خیال دل سے نکال دیں ، بدقسمتی سے یہ بیماری بہت سارے علاقوں میں مسلم سماج میںبھی داخل ہوگئی ہے ، جس کی وجہ سے بڑی عمر تک لڑکیوں کے ہاتھ پیلے نہیں ہو پارہے ہیں، حیدر آباد ، بھوپال وغیرہ میں بڑی تعدادمیںلڑکیاں کنواری بیٹھی ہوئی ہیں ، اس صورت حال میں دخل کفو کے نام پر غیر ضروری میچنگMaching دیکھنے کا بھی ہے ، دین داری اصل ہے ، اس میںبرابر ی کا تصور کم ہوتا جارہا ہے اور اس کی جگہ دوسری مختلف چیزوں کو ناک کا مسئلہ بنالیا گیا ہے ، شریعت کا مطالبہ صرف یہ ہے کہ ایسا رشتہ جس کے دین واخلاق سے اطمینان ہو ، اس کو قبول کرلینا چاہئے ، اگر ایسا نہیں کیا گیا تو زمین میں بگاڑ پیدا ہونے کا خطر ہ ہے ۔واقعہ یہ ہے کہ ہماری بدعقلی ، بے شعوری اور شرعی احکام کی ان دیکھی کی وجہ سے بگاڑ پیدا ہوچکاہے ، اور مختلف مذاہب کے مابین غیر شرعی شادی کا مزاج بڑھتا جارہاہے اور ہماری لڑکیاں محفو ظ نہیں ہیں ۔
ان دنوں لڑکیاں ایمان وعقیدہ کے اعتبار سے بھی غیر محفوظ ہو رہی ہیں، آئے دن غیر مسلموں کے ساتھ ان کے رشتے کی خبر آ رہی ہے ، فرقہ پرست طاقتور کی طرف سے اسے مہم کی شکل دی گئی ہے، پہلے وہ لوگ بھولی بھالی مسلم لڑکیوں کو پیار محبت کے جھانسے میں پھنساتے ہیں، پھر انہیں شادی کی پیش کش کرتے ہیں، اور جب وہ شادی کے لیے تیار ہوجاتی ہیں تو ان کا مذہب تبدیل کراکر ہندو رسم ورواج کے مطابق ان سے ساتھ پھیرے لگوائے جاتے ہیں، کچھ دنوں کے بعد جب جی بھر جاتا ہے تو ان لڑکیوں کا قتل کرادیا جاتا ہے اور لاش کسی ریل کی پٹری پر مل جاتی ہے، حکومتی سطح پر اسے خود کشی قرار دے کر فائل بند کر دی جاتی ہے ، بیٹیوں کی حفاظت کے لیے ہمیں ان اسباب وعوامل پر بھی غور کرنا چاہیے، جس کی وجہ سے اس قسم کے واقعات پیش آتے ہیں، مخلوط تعلیمی اداروں میں جوان لڑکے لڑکیوں کا ایک ساتھ پڑھنا، موبائل کا استعمال ، شادی میں تاخیر وغیرہ اس ارتداد کے بنیادی اسباب ہیں، گارجین اور والدین کی تعلیم وتربیت میں کمی اور نگرانی کے ختم ہوتے رجحانات بھی اس کلچر کو فروغ دینے میں بڑی حصہ داری نبھاتی ہے، اس لیے بیٹیوں کے ایما ن وعقیدہ، عزت وآبرو کی حفاظت کے لیے انتہائی مستعدی کی ضرورت ہے اور ظاہر ہے جو اسباب وعوامل ہیں اس کو دور کیے بغیر ہم بیٹیوں کی حفاظت نہیں کر سکتے۔

ٹیم انڈیا کی اب بھی سیمی فائنل میں پہنچنے کے امیدیں ہیں زندہ ٹی ۔20 ورلڈ کپ میں پہلے دو میچزہارنے کے باوجود ٹیم انڈیا کی سیمی فائنل میں پہنچنے کی امیدیں زندہ ہیں

ٹیم انڈیا کی اب بھی سیمی فائنل میں پہنچنے کے امیدیں ہیں زندہ ٹی ۔20 ورلڈ کپ میں پہلے دو میچزہارنے کے باوجود ٹیم انڈیا کی سیمی فائنل میں پہنچنے کی امیدیں زندہ ہیں

ٹی۔20 ورلڈ کپ میں پہلے دو میچزہارنے کے باوجود ٹیم انڈیا کی سیمی فائنل میں پہنچنے کی امیدیں زندہ ہیں۔ بھارت نے 3 نومبر کو افغانستان کے خلاف 66 رن کی شاندار جیت درج کی اور اس کا اثر ان کے نیٹ رن ریٹ پر بھی نظر آیا۔ ہندوستان کا نیٹ رن ریٹ اب پازیٹیومیں آگیا ہے جو پہلے نگیٹیو میں چل رہا تھا۔ ہندوستان نے بھلے ہی نیٹ رن ریٹ میں بہتری لائی ہو لیکن اب بھی سیمی فائنل تک پہنچنا اس کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ اس کے لئے ٹیم انڈیا کو افغانستان یا نمیبیا میں سے کسی ایک کی مدد کی ضرورت ہوگی۔

ان دونوں ٹیموں میں سے کسی ایک کو نیوزی لینڈ کے خلاف میچ جیتنا ہوگا۔ ہندوستان کے لیے سیمی فائنل میں پہنچنے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ لیگ راونڈ کے بعد نیوزی لینڈ اور افغانستان کے ساتھ اس کے کھاتے میں بھی چھ پوائنٹس ہوں اور بہتر نیٹ رن ریٹ وجہ سے وہ سیمی فائنل میں پہنچ جائے۔ ہندوستان کو اپنا اگلا میچ 5 نومبر کوا سکاٹ لینڈ کے خلاف اور پھر 7 نومبر کو نمیبیا کے خلاف کھیلنا ہے۔ پاکستان گروپ۔2 سے پہلے ہی سیمی فائنل میں پہنچ چکا ہے۔

دوسری جانب اگر ہم اسکاٹ لینڈ اور نیوزی لینڈ کے درمیان ہونے والے میچ کی بات کریں تو کیوی ٹیم بھلے ہی یہ میچ 16 رن سے جیت گئی ہو لیکن ان کی کچھ کمزوریاں ضرور نظر آئیں۔ نیوزی لینڈ اس وقت پوائنٹس ٹیبل میں ٹیم انڈیا سے بہتر پوزیشن میں ہے تاہم اسے سیمی فائنل میں پہنچنے کے لئے گروپ۔2 میں افغانستان اور بھارت سے سخت مقابلے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔


" چند دن کا ڈرامہ ، قیمت پھر بڑھ جائے گی 11 مرکزی اکسائز ڈیوٹی اور بہار کے ویاٹ میں کمی پر لالو کا ردعمل

" چند دن کا ڈرامہ ، قیمت پھر بڑھ جائے گی 11 مرکزی اکسائز ڈیوٹی اور بہار کے ویاٹ میں کمی پر لالو کا ردعمل

مرکزی اکسائز ڈیوٹی اور بہار کے ویاٹ میں کمی پر لالو کا ردعمل
پٹنہ : مرکزی حکومت نے دیوالی سے ایک دن پہلے عام آدمی کو بڑی راحت دی ہے۔ حکومت نے پٹرول پر 5 روپئے اور ڈیزل پر 10 روپئے ایکسائز ڈیوٹی کم کردی ہے ۔ یہ قیمتیں آج سے نافذ ہوگئے ہیں ۔ اس کے بعد بہار کے چیف منسٹر نیتش کمار نے بھی ریاست میں پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں راحت دینے کا اعلان کیا ۔ انہوں نے ٹویٹ کیا ہے کہ ریاستی حکومت نے ڈیزل میں 3.90 روپئے فی لیٹر اور پٹرول میں 3.20 روپئے فی لیٹر کی اضافی راحت دینے کا فیصلہ کیا ہے ۔ ریاستی سطح پر ویاٹ کی شرحوں کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ مرکزی حکومت کے فیصلے پر صدر آر جے ڈی لالو یادو نے وزیراعظم نریندر مودی کو نشانہ بنایا ہے ۔ انہوں نے اسے ڈرامہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ چند روزبعد دوبارہ قیمتیں بڑھادیں گے ۔ نیوز ایجنسی اے این آئی پر جاری اپنے ویڈیو میں لالو یادو کہتے ہیں کہ مودی حکومت نے جو کیا وہ ڈرامہ ہے ۔ 50 (فی لیٹر) روپئے کم کئے جائیں ۔ موجودہ کٹوتی سے کوئی سکون نہیں ملتا ۔ وہ چند دنوں کے بعد اسے دوبارہ بڑھادیں گے ۔


جمعرات, نومبر 04, 2021

بہار : دیوالی کی تقریبات کے دوران زہریلی شراب پینے سے 8 لوگوں کی موت !

بہار : دیوالی کی تقریبات کے دوران زہریلی شراب پینے سے 8 لوگوں کی موت !

پٹنہ:بہار میں زہریلی شراب کا کاروبار جاری ہے۔ ریاست میں شراب پر پابندی ہے لیکن غیر قانونی فروخت بھی ہو رہی ہے اور کئی مواقع پر زہریلی شراب بھی پیش کی جا رہی ہے۔ اب مغربی چمپارن میں 8 لوگوں کی مشتبہ موت ہوئی ہے۔زہریلی شراب پینے سے موت ہونے کا اندیشہ ہے۔ ضلعی انتظامیہ نے ابھی تک ان اموات کی تصدیق نہیں کی ہے تاہم ایک مرنے والے کے لواحقین کا کہنا ہے کہ موت شراب نوشی کی وجہ سے ہوئی ہے۔ تمام مرنے والے نوتن پولیس اسٹیشن کے تحت جنوبی تلہوا گاؤں کے رہنے والے ہیں۔مرنے والوںکے رشتہ داروں کا کہنا ہے کہ بدھ کی شام شراب پینے کے بعد اچانک اس کی طبیعت خراب ہونے لگی اور وہ اسے علاج کے لیے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر لے جا رہے تھے لیکن راستے میں ہی اس کی موت ہو گئی۔کچھ دیگرمتاثرین کی بھی یہی حالت بتائی جا رہی ہے۔ انتظامیہ یقینی طور پر اس تنازعہ سے خود کو دور کر رہی ہے لیکن مرنے والوں کے لواحقین زہریلی شراب کو ہی مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں۔فی الحال اس پورے معاملے پر ضلعی انتظامیہ کا کوئی بھی افسر کچھ بھی بولنے سے گریز کر رہا۔ ذرائع کے مطابق ضلعی انتظامیہ پورے معاملے کی تحقیقات کر رہی ہے تاہم ابھی تک اس بات کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے کہ تمام اموات زہریلی شراب پینے سے ہوئیں۔دو دن پہلے گوپال گنج میں بھی مبینہ طور پر زہریلی شراب پینے سے 8 لوگوں کی موت ہو گئی تھی۔ تاہم گوپال گنج ضلع انتظامیہ نے اب تک شراب کی وجہ سے صرف 3 لوگوں کی موت کی تصدیق کی ہے۔واضح ہوکہ اس سال جولائی میں مغربی چمپارن میں زہریلی شراب پینے سے 16 لوگوں کی موت ہو گئی تھی۔


اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...