Powered By Blogger

اتوار, نومبر 14, 2021

ایک خاتون نے اپنی پوری جائیداد رکشہ والے کے نام کردی

ایک خاتون نے اپنی پوری جائیداد رکشہ والے کے نام کردیبھونیشور: ایک ایماندار رکشہ والے کی قسمت اس وقت کھل گئی جب ایک خاتون نے کروڑہا روپئے کی جائیداد اس کے نام کردی۔ یہ واقعہ ریاست اڈیشہ کے سنبھل پورکا ہے۔ مقامی 63 سالہ خاتون میتانی پٹنائک کا شوہرسال 2020 میں فوت ہوگیا جبکہ سال 2021 میں اس کی بیٹی کی موت ہوگئی۔ جائیداد کیلئے رشتہ دارخاتون کے قریب ہونے کی کوشش کررہے تھے لیکن انھوں نے برے وقت میں خاتون کی خدمت نہیں کی، رشتہ داروں کے رویہ پردل برداشتہ اس خاتون نے گذشتہ 25 سال سے ان کے خاندان کی ایمانداری کے ساتھ خدمت کرنے والے رکشہ راں بدھانکو کے نام اپنی پوری جائیداد کردی جس میں ایک کروڑ روپئے کا گھربھی شامل ہے۔ خاتون نے اپنے فیصلہ کے تعلق سے بتایا کہ رکشہ والا بنا کسی لالچ کے ان کی خدمت کررہا ہے۔

سکون حاصل کرنے کا آزمودہ نسخہکامران غنی صبا اسسٹنٹ پروفیسر نیتیشور کالج، مظفرپور

سکون حاصل کرنے کا آزمودہ نسخہ
کامران غنی صبا 
اسسٹنٹ پروفیسر نیتیشور کالج، مظفرپور 

بچوں سے پیار ہمارے نبی کی سنت ہے اور ہر سنت اپنے اندر بے شمار حکمتیں رکھتی ہے. نبی رحمت بچوں سے اس قدر پیار کرتے تھے کہ بعض احادیث سے تو یہاں تک اشارے ملتے ہیں کہ بچوں سے پیار نہ کرنا اللہ اور اس کے رسول کو تکلیف پہنچانے کے مترادف ہے. چنانچہ بخاری شریف کی ایک حدیث میں ہے
اقرع بن حابس رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو بوسہ دے رہے ہیں، یہ دیکھ کر کہنے لگے کہ حضور  میرے دس بچے ہیں، میں نے کبھی کسی کو بوسہ نہیں دیا، آپ نے فرمایا: جو شخص رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا.
بخاری شریف کی ہی ایک اور حدیث میں ہے کہ
ایک دفعہ آپ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو بوسہ دے رہے تھے ایک دیہاتی نے حیرت کا اظہار کیا تو فرمایا کہ اگر اللہ نے تیرے دل سے رحمت کو نکال دیا تو میں کیا کرسکتا ہوں.
سیرت رسول کا مطالعہ کیجیے تو بے شمار ایسے واقعات مل جائیں گے جس سے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی بچوں کے تئیں بے پناہ شفقت و محبت ظاہر ہوتی ہے.
مذہبی نقطہ نظر سے قطع نظر اگر صرف اور صرف مادی اور نفسیاتی نقطہ نظر سے بھی دیکھا جائے تو اس میں کوئی دو رائے نہیں بچوں سے محبت کرنے والے لوگ زیادہ خوش مزاج، نرم مزاج، متحمل اور پرسکون ہوتے ہیں. بچوں کی محبت میں کوئی مفاد، ریاکاری اور دکھاوا نہیں ہوتا. بچوں کی محبت دل کی سختی کو دور کرتی ہے. میں اس معاملہ میں خود کو انتہائی خوش نصیب سمجھتا ہوں کہ مجھے بچوں کی بے پناہ محبتیں ملی ہیں. اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ میری زندگی کی سب سے بڑی کمائی کیا ہے تو میرا جواب ہوگا "بچوں کی محبت".
گاؤں میں شادی ہے. اہل خانہ کا اصرار ہے کہ شادی میں کسی بھی طرح آنا ہے. دن کی شادی ہے. میں چھٹی ضائع کرنا نہیں چاہتا. کوئی معقول بہانہ تلاش کر کے گھر والوں سے معذرت کر لیتا ہوں. ٹھیک شادی والے دن صبح صبح بچوں کے والد کا فون آتا ہے کہ "سر کسی بھی طرح آ جائیے. آپ کی بہت مہربانی ہوگی. بچوں کو ضد ہے کہ سر جب تک نہیں آئیں گے ہم لوگ کمرے سے باہر ہی نہیں نکلیں گے. اگر آپ کو آنے میں دشواری ہے تو ہم کسی کو بھیج دیتے ہیں"
بچوں کی یہ محبت بسا اوقات مجھے پریشان بھی کرتی ہے لیکن سچ پوچھیے تو یہ محبت ہی میری زندگی کی کمائی ہے.
زندگی میں قدم قدم پر اذیتیں ہیں. کرب ہے. رشتوں کی شکست و ریخت ہے. شکایتیں ہیں. عداوتیں ہیں. سیاست ہے. مکر و فریب کا خوب صورت بازار ہر طرف سجا ہوا ہے. ہم اس بازار کا حصہ ہیں. کبھی ہم مکر و فریب فروخت کر رہے ہوتے ہیں تو کبھی ہماری حیثیت خریدار کی ہوتی ہے. جائے پناہ کہیں نہیں ہے. انسان ہر طرف سے تھک ہار کر مذہب کی پناہ میں آنا چاہتا ہے لیکن یہاں بھی اسے پناہ شاید ہی مل پاتی ہے. بظاہر ہنستے مسکراتے چہرے اپنے اندرون میں کتنا زخم چھپائے بیٹھے ہیں اس کا اندازہ بہت مشکل ہے.
ایسے میں حقیقی سکون اگر کہیں ہے تو وہ معصوم بچوں کی رفاقت میں ہی ہے. کتنی عجیب بات ہے کہ بچے عبادت نہیں کرتے، پوجا پاٹھ اور مذہبی رسوم و قیود کی باریکیوں سے ناآشنا.... لیکن پھر بھی فرشتے ہوتے ہیں..... جب انہیں عبادت کا شعور آ جاتا ہے تو فرشتے نہیں رہتے...... بلکہ بسا اوقات تو اتنے خطرناک ہو جاتے ہیں کہ شیطان بھی پناہ مانگنے لگتا ہے.  یہ بڑے راز کی بات ہے.
واصف علی واصف صاحب میری ائڈیل شخصیت ہیں. وہ کہتے ہیں
"ڈیپریشن آ جائے تو عبادت کرو. پھر بھی ڈیپریشن آ جائے تو خیرات کرو. پھر بھی ڈیپریشن آ جائے تو محبت کرو...... اگر زیادہ ڈپریشن آ جائے تو معصوم بچوں کو ساتھ رکھنا شروع کر دو......."
آپ سبھی کو یوم اطفال مبارک.....

بہار میں نکسل حملہ : نکسلی حملوں سے دہلا4 لوگوں کو پھانسی اورمکان کو دھماکے سے اڑا یا

بہار میں نکسل حملہ : نکسلی حملوں سے دہلا4 لوگوں کو پھانسی اورمکان کو دھماکے سے اڑا یا

بہار کے گیا میں نکسلی حملہ ہوا ہے۔ گیا، بہار میں نکسلیوں کا زبردست ننگا ناچ جاری ہے۔ گیا سے 70 کلومیٹر دور ڈومریا بلاک کے منور گاؤں میں ماؤنوازوں نے دو خواتین سمیت چار لوگوں کو قتل کر دیا۔ اس کے بعد نکسلیوں نے متوفی کے گھر کو دھماکے سے اڑا دیا۔ چاروں کو گھر کے باہر کھائی میں ٹکا دیا گیا۔ ہلاک ہونے والوں میں ایک ہی گھر کے دو شوہر اور ان کی بیویاں شامل ہیں۔

ہلاک ہونے والوں میں ستیندر سنگھ، مہندر سنگھ، منورما دیوی اور سنیتا سنگھ شامل ہیں۔ ماؤنوازوں نے کہا ہےکہ قاتلوں، غداروں اور انسانیت سے غداری کرنے والوں کے لیے موت کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ پولس کے مطابق یہ واقعہ سنیچر کی رات پیش آیا، جب نکسلیوں نے اس واردات کو انجام دیا۔ معاملے کی اطلاع ملتے ہی مقامی پولیس موقع پر پہنچ گئی۔

چاروں کو بے دردی سے مارنے کے بعد نکسلیوں نے گھر کو بھی بم لگا کر اڑا دیا۔ اس کے بعد نکسلیوں نے گاؤں میں ایک پمفلٹ بھی چھوڑا ہے۔ نکسلیوں نے اس میں لکھا ہے کہ کچھ دن پہلےمرنے والوں نے چار نکسلیوں کو زہر کھلا کر ہلاک کر دیا تھا۔ نکسلیوں نے پمفلٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ مارے گئے نکسلیوں کا کوئی انکاؤنٹر نہیں ہواہے۔ مارے گئے نکسلیوں امریش کمار، سیتا کمار، شیو پوجن کمار اور ادے کمار کے نام بھی پمفلٹ میں درج کیے گئے ہیں۔

بتا دیں کہ ہفتہ کو چھتیس گڑھ-مہاراشٹر سرحد پر گڈچرولی علاقے میں پولس اور نکسلیوں کے درمیان تصادم ہوا۔ اس تصادم میں سیکورٹی فورسز نے 26 نکسلیوں کو مار گرایا ہے۔ اس تصادم میں 3 جوان زخمی بھی ہوئے ہیں۔ گڈچرولی کے ایس پی انکیت گوئل کے مطابق، اس انکاؤنٹر میں سینئر کیڈر کٹر نکسلائٹ ملند تیلٹمبڈے بھی مارا گیا ہے۔

ہفتہ کی صبح جیسے ہی مہاراشٹر پولس کے C-60 یونٹ کے جوان اس علاقے کے جنگلوں میں پہنچے، ماؤنوازوں نے فوجیوں پر فائرنگ شروع کر دی۔ جوابی کارروائی میں جوانوں نے 26 نکسلیوں کو ہلاک کر دیا ہے۔ موقع سے بھاری مقدار میں اسلحہ بھی برآمد ہوا ہے۔

بہار بورڈ کی تانا شاہی ، ڈاکٹر ذاکر حسین ہائی اسکول کی ایک گروپ کے دباومیں آکر الحاق منسوخ کرنا افسوسناک

بہار بورڈ کی تانا شاہی ، ڈاکٹر ذاکر حسین ہائی اسکول کی ایک گروپ کے دباومیں آکر الحاق منسوخ کرنا افسوسناکبرسوں سے چل رہے مسلم اقلیتی اسکول پر بہار بورڈ کی بدنیتی پر مبنی کارروائی ،الحاق کی گئی رد
اسمبلی میں ا?واز اٹھائے جانے کے بعد بھی مسلم اقلیتی اسکول کو نہیں مل رہا ہے انصاف
پٹنہ، 14 نومبرراجدھانی پٹنہ کے ڈاکٹر ذاکر حسین ہائی اسکول کے احاطہ میں منعقد پریس کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں ڈاکٹر ذاکر حسین ہائی اسکول 2 کے پرنسل نقی امام نے خطاب کیا۔ ساتھ میں سماجی خدمت گار وصی اختر اور استاد پروین کمار بھی موجود رہے۔ انہوں نے اپنی بات رکھتے ہوئے درج ذیل نکات پر حکومت اور میڈیا کی توجہ مبذول کرائی۔
ڈاکٹر ذاکر حسین ہائی سکول 2 سلطان پٹنہ میں واقع ایک مسلم اقلیتی اسکول ہے جو اقلیتی برادری میں تعلیم کو فروغ دینے کے لئے گزشتہ 15 سال سے سرگرم ہے۔ محکمہ تعلیم کے ذریعہ اسکول کا معائنہ کیا گیا اور اس وقت کے وزیر تعلیم کے ذریعہ عمارت اور زمین کی شرائط میں نرمی کرتے ہوئے 1983 میں محکمہ تعلیم کے ذریعہ مستقل طور پر تسلیم کیا گیا تھا۔
بہار بورڈ کو کورونا مدت میں (06 اپریل - 2021)میں ایک شکایت موصول ہوئی جس میں کسی شخص کا کوئی دستخط نہیں تھا اور نہ ہی کوئی حلف نامہ منسلک کیا گیا تھا۔ بہار اسکول اکزامیشن بورڈ اسی شکایت کی بنیاد پرسہ رکنی کمیٹی کو اسکول کی جانچ کرنے کے لئے دو تین دنوں کے ا ندر بھیجتی ہے اور اسکول کمیٹی کی بات سنے بغیر حکم مندرجہ بالا کو قبول کرتے ہوئے دو مہینے کے اندر اسکول کی الحاق منسوخ کر دیتی ہے۔ جب کہ بورڈ کو 2011 سے الحاق دینے کا حق حاصل ہے۔جبکہ اسکول کو مالیات کے ساتھ مستقل شناخت حاصل ہے نہ کہ الحاق سے۔ اسکول کو ہائر سیکنڈری میں 16 اور سیکنڈری میں 12 یونٹ حاصل ہے۔
قانون ساز کونسلر مولانا غلام رسول بلیاوی کے ذریعہ اسکول سے متعلق تمام حقائق قانون ساز کونسل کی میز پر رکھے گئے تھے اس وقت وزیر اعلیٰ نتیش کمار خود ایوان میں موجود تھے۔ وزیر تعلیم وجے کمار چودھری نے یقین دہانی کرائی کہ فوری کارروائی کرتے ہوئے حقائق کی بنیاد پر حتمی فیصلہ لیا جائے گا۔ لیکن ا?ج تک ان کی سطح سے کوئی فیصلہ نہیں لیا گیا ہے۔
بہار بورڈ کی جانب سے منسوخ کیے گئے حکم نامے میں یہ ذکر کیا گیا تھا کہ اسکول کے پاس 2 ایکڑ زمین نہیں ہے ، اس لیے اسکول کی الحاق منسوخ کی جاتی ہے۔ جبکہ پورے بہار میں کئی ایسے سرکاری اسکول ہیں جو کہ دوسروں کی زمین اور عمارت میں کام کر رہے ہیں اوراگر اس طرح کا قانون نافذ ہوتا ہے تو اسکول کے پاس 2 ایکڑ زمین ہونی چاہئے تو بہار کے ہزاروں اسکول بند ہوجائیں گے۔
ڈاکٹر محمد نظر امام اسکول کے سابق سکریٹری کے عہدہ پر 18 سال تک کام کئے۔ سکریٹری کے عہدہ پر فائز رہتے ہوئے انہوں نے ڈاکٹر نظر امام انٹر نیشنل اسکول کھولا تھا جس کا زمین پرکوئی وجود نہیں تھا۔ جب 2016 میں ٹاپرس گھوٹالے میں یہ پھنسے تو بہار بورڈ کے چیئر مین کے کہنے پر اپنے اسکول کا الحاق واپس کر دیا۔ واضح ہو کہ ڈاکٹر نظر امام اور ان کی اہلیہ ڈاکٹر تبسم ا?رہ کا بورڈ کے چیئر مین کے ساتھ گہرا اور دیرینہ رشتہ ہے۔ اسکول کمیٹی نے انہیں اس فعل پر برطرف کر دیا ، پھر بددیانتی کی بنا پر بورڈ کے چیئرمین سے ملی بھگت کر کے اسکول کی الحاق منسوخ کرا دی۔ بورڈ کے صدر نے اسکول کی الحاق منسوخ کرانے میں اہم کردار ادا کئے ہیں۔
ڈاکٹر ذاکر حسین ہائی اسکول کی جانب سے الحاق کی منسوخی کے خلاف اسکول انتظامیہ کے ذریعہ سے معزز ہائی کورٹ میں درخواست د ی گئی ہے ، جو ابھی تک زیر التوا ہے۔ سینئر ایڈووکیٹ پی کے شاہی اور ایڈوکیٹ سمن کمار معزز ہائی کورٹ میں اسکول کی طرف رکھے گئے ہیں

سہارا انڈیا کے ایجنٹ نے خودکشی کر لی

سہارا انڈیا کے ایجنٹ نے خودکشی کر لیبوکارو ، 14 نومبر ۔سہارا انڈیا میں لوگوں کا خون اور پسینہ جمع ہے۔ انہیں واپس لانے کا دباؤ ایجنٹ پر شدیدہے۔ ایجنٹ اب عوام کا دبائو برداشت کرنے کے قابل نہیں رہے۔ یہی وجہ ہے کہ سہارا انڈیا کے دفتر میں ہر روز ہنگامہ ہوتا ہے۔ ایساہی ایک معاملہ میںدباؤ میں آکر سہارا انڈیا کے ایجنٹ گنیش نونیا نے پھانسی لگا کر خودکشی کرلی، واقعہ بوکارو ضلع کے گومیا کے آئی ای ایل تھانہ علاقے کی گورنمنٹ کالونی کا ہے۔ گنیش نونیا گزشتہ 20 سالوں سے سہارا انڈیا میں ایجنٹ کے طور پر کام کر رہا تھا۔ اس وقت عوام کی جمع پونجی واپس حاصل کرنے میں ناکامی کے بعد وہ ڈپریشن میں تھے۔ وہ ہفتے کی رات گھر سے نکلے اور اپنے اصطبل میں رسی کی مدد سے جھول کر خودکشی کرلی۔ اتوار کی صبح واقعہ کاپتہ اس وقت چلاجب متوفی کی بیوی رادھا دیوی اسے ڈھونڈنے گئی۔ مقامی لوگوں نے آئی ای ایل پولیس اسٹیشن کو اطلاع دی۔ پولیس نے موقع پر پہنچ کر لاش کو قبضے میں لے کر پوسٹ مارٹم کے لیے بھیج دیا۔ تھانہ انچارج آشیش کمار نے بتایا کہ گنیش نونیا کچھ دنوں سے ذہنی تناؤ سے گزر رہے تھے۔ اس کی وجہ سہارا انڈیا میں رقم واپس نہ کرنا بتایا جا رہا ہے۔ لیکن معاملے کی جانچ کی جا رہی ہے۔

مولانا محمد حنیف قاسمی ؒمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ امارت شرعیہ بہار، اڈیشہ وجھارکھنڈ کی مجلس شوریٰ وارباب حل وعقد کے رکن ، آل انڈیا ملی کونسل کے مدعو خصوصی ، مدرسہ رحیمیہ گاڑھا موجودہ ضلع مدھے پورہ، سابق استاذوپرنسپل بہت سارے مکاتب ومدارس کے سر پرست مولانا محمد حنیف قاسمی بن نبی بخش بن ابو محمد کا ۲۵؍ اکتوبر ۲۰۲۱ء برو زسوموار

مولانا محمد حنیف قاسمی ؒ
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
 امارت شرعیہ بہار، اڈیشہ وجھارکھنڈ کی مجلس شوریٰ وارباب حل وعقد کے رکن ، آل انڈیا ملی کونسل کے مدعو خصوصی ، مدرسہ رحیمیہ گاڑھا موجودہ ضلع مدھے پورہ، سابق استاذوپرنسپل بہت سارے مکاتب ومدارس کے سر پرست مولانا محمد حنیف قاسمی بن نبی بخش بن ابو محمد کا ۲۵؍ اکتوبر ۲۰۲۱ء برو زسوموار ، بوقتساڑھے نو بجے صبح اپنے  آبائی گاؤں رحمت گنج ، تھانہ شری نگر وایا کمار کھنڈ ضلع مدھے پورہ میں انتقال ہو گیا ، ایک سال قبل فالج کا حملہ ہوا تھا، جس کی وجہ سے ان کے چلنے پھرنے کی قوت کو سخت نقصان پہونچا تھا ، لاٹھی کے سہارے ضرورت کے مطابق چل لیا کرتے تھے، بڑھاپا خود بھی ایک بیماری ہے ، جو موت تک پہونچا کر دم لیتا ہے ، جنازہ کی نماز ۲۶؍ اکتوبر کو بعد نماز عصر ان کے منجھلے داماد قاری سیف اللہ نعمانی ، امام عیدین کدواہانے بڑھائی اوررحمت گنج کے مقامی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی، پس ماندگان میں پہلی اہلیہ سے تین لڑکے اور تین لڑکیاں اور دوسری اہلیہ سے تین لڑکے اور چار لڑکیاں کل سات لڑکی اور چھ لڑکے کو چھوڑا، جن میں کئی عالم اور حافظ ہیں۔
مولانا محمد حنیف قاسمی کی ولادت اسناد کے مطابق ۲۶؍ جنوری ۱۹۳۹ء مطابق ۲۰؍ شوال ۱۳۵۹ھ کو رحمت گنج موجودہ ضلع مدھے پورہ میں ہوئی ، ابتدائی تعلیم محلے کے میاں جی مولوی بھوٹائی سے حاصل کرنے کے بعد مدرسہ رحیمیہ گاڑھا میں داخل ہوئے، اور دو سال رہ کر وہاں کے اس وقت کے اساتذہ خصوصا مولانا محمد جمیل صاحب سے کسب فیض کیا، تعلیم بھی پائی اور تربیت بھی ، وہاں سے جامعہ رحمانی مونگیر چلے گیے اور چار سال دور طالب علمی کے یہاں گذارنے کے بعد دار العلوم دیو بند کا رخ کیا، جامعہ رحمانی مونگیر کے آپ کے اساتذہ میں امیر شریعت رابع حضرت مولاناسید منت اللہ رحمانیؒ بھی تھے، جن سے آپ نے شرح تہذیب پڑھی تھی، بخاری شریف آپ نے دارالعلوم میں حضرت مولانا فخر الدین صاحب ؒ سے پڑھی اور یہیںسے ۱۹۵۸ء میں سند فراغ حاصل کیا، قابل ذکر ہے کہ دار العلوم دیو بند میں آپ کا داخلہ بھاگلپوری طالب علم کی حیثیت سے ہوا اور فراغت سہرساوی کی حیثیت سے ہوئی۔ 
تدریسی زندگی کا آغاز دار العلوم لطیفی کٹیہار سے کیا، چھ ماہ کے بعد اپنے استاد مولانا محمد جمیل صاحب کی تحریک اور حضرت امیر شریعت رابع ؒ کی اجازت سے مدرسہ رحیمیہ گاڑھا چلے آئے اور سبکدوش ہونے تک پوری زندگی مادر علمی کی خدمت کرتے رہے، ۳۱؍ جنوری ۲۰۰۱ء میں سبکدوشی کے بعد بھی آپ علمی میدان میں سرگرم رہے، جس سے علاقہ کو بہت فائدہ پہونچا، آپ کے رفقاء درس میں مولانا محمود صاحب قاسمی پورینی، مولانا محمد حنیف ثانی قاسمی، مولانا عبد الستار قاسمی وغیرہ کے نام خاص طور سے قابل ذکر ہیں، اکابر علماء سے آپ کے گہرے مراسم تھے وہ لوگ مولانا پر اعتماد کرتے تھے،ا س حوالہ سے حضرت امیر شریعت رابع ؒ اور قاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ کا نام لیا جا سکتا ہے ، ان حضرات کی شفقت مولانا پر آخری دم تک رہی ۔
 مولانا کی نانی ہال اسرائین موجودہ ضلع مدھے پورہ تھی، والدہ منگلی خاتون بنت محمد اصغر علی تھیں، مولانا تین بھائی میں دوسرے نمبر پر تھے، بڑے بھائی محمد شفیق الحق مرحوم تھے، جن کے نواسہ مولانا مفتی زاہد حسین صاحب قاسمی ہیں جو ایک زمانہ تک راورکیلا میں امارت شرعیہ کے قاضی رہے، ان دنوں علاقہ کے ایک اسکول میں سرکاری معلم کے طور پر خدمت انجام دے رہے ہیں، تیسرے بھائی مولانا محمد سلیم اسجد قاسمی حی القائم ہیں، ایک بہن آمنہ خاتون بھی تھیں جو مولانا کی زندگی میں ہی فوت ہو گئی تھیں۔
 مولانا نے یکے بعد دیگرے دو شادیاں کیں، پہلی شادی گلشن آرا بنت محمد یٰسین مقام کدواہاضلع ارریہ سے ہوئی تھی ، ان سے تین لڑکے مولانا شمیم اختر ندوی، نسیم اختر ، فہیم اختر اور تین لڑکیاں زاہدہ خاتون ، ساجدہ خاتون اور عابدہ خاتون ہیں، ۱۹۸۳ء میں ان کے انتقال کے بعد نکاح ثانی حوا خاتون بنت محمد اسحاق مقام زورگنج ضلع ارریہ سے کیا، جن سے تین لڑکے حافظ کلیم اختر، حافظ نعیم اختر اور مولوی عظیم اختر اور چار لڑکیاں غزالہ پروین شائستہ ناز نین ، نغمہ چاندی اور شگفتہ چاندی تولد ہوئیں، غزالہ پروین تو اللہ کو پیاری ہو گئیں، بقیہ حی القائم ہیں۔ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ مولانا کثیر العیال تھے، ایک درجن سے زائد لڑکے لڑکیوں کی پرورش وپرداخت اور تعلیم وتربیت آسان کام نہیں ہے ، وہ بھی بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کی ملازمت کے ساتھ ، جہاں تنخواہ پہلے بہت قلیل تھی اور کبھی کبھی اس تنخواہ کو نکالنے میں چھ مہینے اورسال بھر کی مدت گذر جاتی تھی، مولانا نے اس قلیل یافت میں اپنے بچے بچیوں کی پرورش کی، انہیں پڑھا لکھا کر کام کا بنایا یہ اپنے میں خود ہی بڑی بات ہے ، جو مولانا کی قناعت پسندی اور ان کے گھر چلانے کی مضبوط صلاحیت کا مظہر ہے ، انہوں نے پوری زندگی اسی قناعت پسندی کے ساتھ کفایت شعاری سے گزار دیا، امیر شریعت سادس حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب فرمایا کرتے تھے کہ کفایت شعاری آدھی آمدنی ہے ، مولانا محمد حنیف صاحب قاسمی نے اس آدھی آمدنی کا سہارا لیا تو اللہ نے زندگی اچھے انداز میں گذار دی ، توکل الی اللہ اور قناعت پسندی میں بڑی طاقت ہے اور اس طاقت کی حقیقت مولانا مرحوم کی زندگی کو دیکھ کر سمجھ میں آتی ہے ۔
 مولانا نے پوری زندگی پڑھنے پڑھانے کا ہی کام کیا، اس حیثیت سے آپ استاذ الاساتذہ ہیں، آپ کے شاگردوں کی بڑی تعداد ہے جو ملک میں دینی، ملی اور سماجی خدمات میں مصروف ہیں، میرے قدیم رفیق مولانا نور اللہ ندوی مدھے پورہ اور مولانا محمدابو لاکلام شمسی شعبہ تعلیم اور معاون ناظم امارت شرعیہ بھی ان کے شاگردوں میں ہیں۔
 مولانا مرحوم سے میرے تعلقات انتہائی قدیم تھے، جس زمانہ میں مدرسہ احمدیہ ابا بکر پو رویشالی میں مدرس تھا اور جمعیت شباب اسلام بہار کا جنرل سکریٹری ہوا کرتا تھا، اس زمانہ میں پہلی بار پرسا جانا ہوا تھا، وہاں جمعیت شباب اسلام کے ذریعہ مولانا نور اللہ ندوی صاحب کے گاؤں میں مسجد کی تعمیر ہو رہی تھی ، پرسا کا راستہ گاڑھا ہو کر ہی گزرتا ہے ، مولانا نور اللہ صاحب کے والد بھی مدرسہ رحیمیہ گاڑھا میں پڑھا تے تھے، اس کی وجہ سے پہلے مدرسہ میں حاضری ہوئی ، پھر پر سا جانا ہوا، مولانا مرحوم سے میری پہلی ملاقات یہیں ہوئی تھی ، میں نے انہیں منکسرالمزاج، تواضع اور سادگی کا پیکر پایا ، وہ دوسروں کی عزت نفس اور حفظ مراتب کا خاص خیال رکھتے تھے، علاقہ میں دینی شعور اور تعلیم کے فروغ کے لیے ان کی فکر مندی نمایاں تھی، اسی فکر مندی کی وجہ سے حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی ؒ نے مدرسہ اسلامیہ مغلا گھاٹ نند یا ضلع سوپول کا سر پرست بنایا تھا، اس کے علاوہ مدرسہ سلیمانیہ رفیقیہ رام نگر بازار ، دار العلوم نورانی چوک چین پور، مدرسہ قاسم العلوم رحمت گنج پوربی محلہ ، مدرسہ فلاح المسلمین جدوہ پٹی، جامعہ اسلامیہ سراج العلوم ڈپرکھا مدھے پورہ ، مدرسہ نظامیہ تعلیم القرآن مکھنا ہا ضلع پورنیہ، مدرسہ جامع العلوم کدواہا ضلع ارریہ، مدرسہ اصحاب صفہ للکوریہ وایا کمار کھنڈ ضلع مدھے پور سے بھی ان کی وابستگی مختلف حیثیات سے تھی۔
 ان کی وفات سے اس پورے علاقہ کا ملی، تعلیمی نقصان ہوا ہے ، اللہ تعالیٰ اس نقصان کی تلافی کی شکل پیدا کردے، علاقہ کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے، مولانا مرحوم کو جنت الفردوس دے اور پس ماندگان کو صبر جمیل ۔ آمین یا رب العالمین وصلی اللہ علی النبی کریم۔

ہفتہ, نومبر 13, 2021

کانگریس کے دور میں ہندوستان جزوی طور پر مسلم ملک تھا : بی جے پی

کانگریس کے دور میں ہندوستان جزوی طور پر مسلم ملک تھا : بی جے پینئی دہلی: بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے کانگریس پر حملہ کرتے ہوئے الزام لگایا ہے کہ کانگریس کے دور میں ہندوستان جزوی طور پر مسلم ملک تھا۔
بی جے پی کے ترجمان سدھانشو ترویدی نے ہفتہ کو یہاں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کے دور میں اور موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کے اقتدار میں آنے سے پہلے ہندوستان جزوی طور پر مسلم ملک تھا۔
انہوں نے کہا کہ ہندوستان کا معاشرہ اپنی طاقت کو بھول چکا ہے۔ اب جب ہندوستان کو اپنی طاقت کا اندازہ ہوگیا ہے تو کانگریس پارٹی میں کھلبلی مچ گئی ہے۔
مسٹر ترویدی نے یہ بات کانگریس لیڈر اور سابق مرکزی وزیر سلمان خورشید اور کانگریس لیڈر راشد علوی کے ہندوتوا کے حوالے سے کئے گئے متنازعہ ریمارکس کے تناظر میں کہی۔
درحقیقت، مسٹر علوی نے اتر پردیش میں متنازعہ تبصرہ کرتے ہوئے بھگوان رام کا نام لینے والے شخص کو نشاچر(شیطان) قرار دیا تھا۔ قبل ازیں مسٹر خورشید نے اپنی نئی کتاب 'سن رائز اوور ایودھیا' میں ہندوتوا کا موازنہ دہشت گرد تنظیموں آئی ایس آئی ایس اور بوکو حرام جیسے سخت گیر گروپوں سے کیا تھا، جس سے تنازعہ ہوا ہے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...