Powered By Blogger

پیر, نومبر 22, 2021

منفرد لب و لہجے کا شاعر : کامران غنی صبا(22 نومبر یوم پیدائش کی مناسبت سے)سلمی صنم، بنگلور

منفرد لب و لہجے کا شاعر : کامران غنی صبا
(22 نومبر یوم پیدائش کی مناسبت سے)
سلمی صنم، بنگلور 

نئی نسل کے متحرک اور فعال شاعر ، ناقد اور بےباک صحافی کامران غنی صبا 22 نومبر 1989 کو علمی و تاریخی شہر عظیم آباد، پٹنہ، بہار میں پیدا ہوئے ۔ان کا اصل نام کامران غنی ہے اور قلمی نام کامران غنی صبا ہے۔صبا تخلص ہے۔وہ ایک تعلیم یافتہ خاندان سے تعلق رکھتے ہیں ۔ مجاہد آزادی سید شاہ عثمان غنی کے پر پوتے ہیں۔ ان کےوالد  ڈاکٹر ریحان غنی کا شمار بہار کے معروف اور بے باک صحافیوں میں ہوتا ہے. ان کی صحافتی خدمات تقریباً چار دہائیوں پر محیط ہیں. اپنے اصولوں پر سختی سے کاربند رہنے کے لیے جانے جاتے ہیں. سرکاری ملازمت سے استعفیٰ دے کر اپنی زندگی کو صحافت کے لیے وقف کر چکے ہیں. فی الحال روزنامہ پندار، پٹنہ اور دوردرشن پٹنہ سے وابستگی ہے.
کامران غنی نے اپنے نانا محترم پروفیسر حکیم سید شاہ علیم الدین بلخی فردوسی ندوی رحمتہ اللہ علیہ سجادہ نشیں خانقاہ بلخیہ فردوسیہ فتوحہ کی سرپرستی اور نگرانی میں اردو، عربی، فارسی کی ابتدائی تعلیم حاصل کی. اس کے بعد جےکے اکیڈمی پٹنہ سے اسکولنگ شروع کی. الحرا پبلک اسکول، پٹنہ مسلم ہائی اسکول، نیر پور بوائز ہائی اسکول اور سلاؤ ہائی اسکول نالندہ سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد. میٹریکولیشن کا امتحان سلاؤ ہائی اسکول نالندہ سے پاس کیا. پٹنہ کالج سے بی ایے،  جواہرلال نہرو یونیورسٹی دہلی سے ایم ایے اور جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی سے بی ایڈ کیا۔پھر پٹنہ یونیورسٹی سے پروفیسر جاوید حیات کی نگرانی میں پی ایچ ڈی کرنے لگے جو ابھی جاری ہے۔اور اس وقت شعبہ اردو نتیشور کالج مظفرپور میں اسٹنٹ پروفیسر کے فرائض انجام دے رہے ہیں  
شاعری کی ابتدا  انہوں  نے 2007 میں کی. پہلی غزل روزنامہ فاروقی تنظیم پٹنہ میں شائع ہوئی جس کا ایک شعر ہے۔
سنا تھا نقش کف پا پہ چلنا پڑتا ہے
بجز جبیں کے رہ عشق میں نشاں نہ ملا۔
ابتداء میں اپنے چھوٹے ماموں جان سید نصر الدین بلخی سے شاعری پر  اصلاح لی بعد میں ماہر عروض محمد یعقوب آسی صاحب مرحوم  ٹکسیلا نے انہیں شرف تلمذ بخشا.ان کا کلام برصغیر کے موقر رسالوں میں شائع ہوتا رہا ہے 
اب تک ان کی دو کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں
۱"۔پیام صبا۔"۔شعری مجموعہ 2017
۲۔"منصور خوشتر نئ صبح کا استعارہ" 2019
 اب تک انہیں کئی انعامات و اعزازت سے نوازا جا چکا ہے جیسے 
۱۔اردو نیٹ جاپان کی طرف سے سال 2013 کا بہترین قلم کار
۲ ۔عوامی نفاذ کمیٹی، پٹنہ کا ایوارڈ
۳  روزنامہ تاریخ انٹرنیشنل فرانس کی جانب سے مصطفوی ایوارڈ 
۴  المنصور ایجوکیشنل ٹرسٹ کی جانب سے ادبی خدمات کے اعتراف میں ایوارڈ 
۵  اکبر رضا جمشید ایوارڈ
بہت کم عمری میں ہی انہوں نے کافی شہرت پائی ہے بہت سے اہل قلم نے ان کی شاعری کو سراہا ہے۔ ڈاکٹر مقصود الہی شیخ ،
بریڈ فورڈ، برطانیہ سے
 لکھتے ہیں
"کامران غنی صبا کی نظم "مجھے آزاد ہونا ہے" پڑھی۔مجھے تیسرا حصہ پسند آیا۔ بڑی گہرائی ہے ، جوگی رنگ جھلک رہا ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ترک دنیا کی خواہش تو ہے مگر یاسیت نہیں اور نہ ہی قنوطیت دکھائی دیتی ہے۔ جہاں اگلی سطور میں بے نامی اور انکساری کا جذبہ ابھر کر سامنے آتا ہے، لگتا ہے دنیا سے کنارہ کشی کی خواہش ہے پر نہیں ہے۔ یہی اس کا حسن ہے، سندرتا اور دل کو چھوتی خوبصورت اچھائی ہے۔ کہنے کو کہا جا رہا ہے کہ یہ جگ تیاگ دینے کو جی چاہتا ہے مگراس کا درس نہیں دیا جا رہا بلکہ بے غرض (Selfless)  ہونے اور اس میں بھی جھوٹی نمائش کی نیم فطری جبلت سے چھٹکارے کی جہد ہے ،سارے عالم میں چھائی حسن و رعنائی اور اس کی نمائش سے بے نیازی ہے ۔ عارفانہ  تڑپ ہے ، تمنا ہے۔شاعر کتنا جھک کر اونچا اٹھتا ہے وہی اس نظم کا کمال ہے۔ یوں مرکزی خیال امر ہو جاتا ہے۔
( ڈاکٹر مقصود الٰہی شیخ، بریڈفورڈ، برطانیہ)
مشہور افسانہ نگار مرحوم مشرف عالم ذوق ان کی شاعری پر یوں رقم طراز ہیں
"کامران کی شاعری انسانی نفسیات کی شاعری ہے۔ وہ معمولی کو غیر معمولی اور غیر معمولی کو معمولی بنانے کا ہنر جانتا ہے۔ کربِ احساس کی شدت کامران کی شاعری کا اختصاص ہے، یہ شدت جتنی تیز ہوگی اس کی شاعری اتنی ہی کامیاب اور پائدار ہوگی"۔
ڈاکٹر عبد الرافع ( صدر شعبہ اردو،  ملت کالج ، دربھنگہ ) لکھتے ہیں
"نئی نسل کے متحرک و فعال شاعر و ناقد اور بے باک صحافی کامران غنی کی ’’کامرانی و غنائیت‘‘ پیام صبا میں مضمر ہے۔’پیام صبا‘ کی باد صبا سے ہر خاص و عام قاری مشام جاں کو معطر اور قلب و ذہن کو مطہر کر کے یک گونہ سکون و طمانیت حاصل کرے گا۔ بظاہر یہ مختصر سا مجموعہ ہے لیکن قلب و جگر کو پارہ کرنے اور نظر کو خیرہ کرنے کے لیے ضخیم کلیات کے مترادف ہے۔ ’پیام صبا‘ نے اپنے دامن میں فلسفہ تصوف، حیات و ممات، بے ثباتی دنیا، تہذیب و اخلاق اور عصر حاضر کے گوناگوں موضوعات و مسائل کو سمیٹ رکھا ہے۔ کامرانؔ نے جس خوش اسلوبی ،پاکیزگیٔ زبان اور نرالے انداز بیان کے ذریعے موضوعات و مضامین کی پیش کش کا نیا ڈھب اپنایا ہے اِن سے اُن کے انفراد اختصاص کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ مختصر و مترنم بحر اور انوکھے قوافی کا فنکارانہ استعمال اور علامات و استعارات اور لفظیات کو تراشنے کے ہنر نے ایک بیش قیمتی خزینہ بنا دیا ہے۔ مجھے قوی امید ہے کہ ’ پیام صبا‘ کہنہ مشق استاد شعرا اور نسل نو کے مابین ایک پل صراط کا کام کرے گا۔ قارئین ، مداحین اور شعری اصناف سے شغف رکھنے والے ناقدین کے لیے یکساں طور پر ایک انمول تحفہ ثابت ہوگا۔"
مغربی بنگال کے معروف شاعر اور استاد ان کی شاعری کے حوالے یوں رقم طراز ہیں
 "ناقدین ادب نے بھلے ہی شاعری کو روایتی، کلاسیکی، ترقی پسند، جدید اور مابعد جدید جیسے خانوں میں تقسیم کررکھا ہو مگر میری نظر میں ہر زمانے میں شاعری کی دو ہی بڑی قسمیں رہی ہیں۔۔۔۔اچھی شاعری اور خراب شاعری۔کامران غنی صبا کی شاعری بلا شبہ اچھی شاعری کے زمرے میں آتی ہے۔ان کے یہاں آجکل کے جدید شاعروں کی طرح الفاظ کا گورکھ دھندہ نہیں ہے۔وہ اپنی فکر اور اسلوب سے قارئین کو متاثر کرتے ہیں۔انکی نظمیں اور غزلیں دونوں یکساں طور پر میرے دعوے کی تصدیق کرتی ہیں۔توجہ سے پڑھئے تو سہی"۔
ڈاکٹر بدر محمدی۔ویشالی سے لکھتے ہیں
" صباؔ کی غزلیں اچھی ہیں یا نظمیں یہ فیصلہ کرنا ابھی قبل از وقت ہوگا۔ اس کے شاعرانہ مقام کے تعین میں ابھی دیر ہے مگر اتنا ضرور ہے کہ ’’پیام صبا‘‘ اس کے خوش آئند مستقبل کا پتہ دے رہا ہے۔ اس کی شاعری عشق کی بھیک ہے۔ بھیک ایسی ہے تو پھر تحفہ کیسا ہوگا۔ اس سے مطلب نہیں کہ شاعر کا خاندانی پس منظر کیا ہے وہ کس میدان میں سرگرم ہے بلکہ اس سے سروکار ہے کہ کوئی شاعر ہے تو شاعری کی دنیا میں کتنا کامیاب ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ صباؔ کی شاعری میں جادو ہے۔ نشہ ہے، رخ معتبر کا رنگ ہے۔ عصری آگہی، متنوع خیالات ، روایت پسندی، جدت طرازی، بالیدہ شعور نے کامران کی شاعری کو توجہ طلب بنایا ہے۔ میں تازہ کار مگر پختہ شاعر، حساس اور با ہنر فنکار کو ’’پیام صبا‘‘ جیسے شاندار آغاز پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ مجھے اس سے مسلسل پرواز کی امید ہے کہ اس کے سامنے ابھی اور بھی آسماں ہیں۔"
ڈاکٹر زر نگار یاسمین(  صدر شعبہ اردو ، مولانا مظہر الحق عربی و فارسی یونیورسٹی ، پٹنہ ) ان کی شاعری کے حوالے سے لکھتی ہیں 
"صباؔ کی انفرادیت یہ ہے کہ انہوں نے بے حد کم عمری میں ہی دنیا کی محرومیوں، ریاکاریوں اور منافقتوں کو نہ صرف سمجھ لیا ہے بلکہ اسے ایک مخصوص طرزِ اظہار کے ساتھ پیش کرنے کا پختہ ارادہ بھی کر لیا ہے۔ ’’مجھے آزاد ہونا ہے‘‘ کی بازگشت ان کی غزلوں کے اشعار میں بھی بار بار سنائی دیتی ہے۔ جس سے یہ اندازہ لگانا دشوار نہیں کہ یہ نقطۂ نظر اب ان کے تخلیقی رویے کا ایک حصہ بن چکا ہے۔ میری دعا ہے کہ وہ اسی فکری شائستگی کے ساتھ اپنا ادبی سفر طے کرتے رہیں۔"
پاکستان سے حسیب اعجاز عاشر ان کی شخصیت کے حوالے سے یوں رقم فراز ہیں
 "درس و تدریس ہو،رپورٹنگ ہو، کالم نویسی ہو، تبصرہ نگاری ہو،تجزیہ کاری ہو یا پھر شاعری ہی کیوں نہ ہو کامران غنی صباؔ نے ہر میدان میںجدیدیت اور انفرادیت کے زیرِاثر رہتے ہوئے بھرپور اورقابلِ رشک دادِ آفرین حاصل کی ہے۔میں کوئی تبصرہ نگار، نقاد یا کوئی تجزیہ کار تو نہیں اورشاعری کا شغف تو مجھے بس سننے یا پڑھنے کاہی ہے مگر کامران کی شاعری کے حوالے سے اتنا ضرورکہوں گا کہ ان کی شاعری میں گہری بصیرت، بالغ نظری،بے ساختگی ،حسن خیال کی معنی آفرینی، احساس کی نزاکت، معنویت، شفافیت، حلاوت، بلند آہنگی ، مسائل حیات کے احاطے، امیدوں کے روشن چراغ، درد مندی، انتہائی وسعت،رنج و مسرت کے علاوہ فلسفیانہ موشگافیاںاور صوفیانہ روموز و نکات بھی ملتے ہیں۔" 
شاعری ان کے نزدیک  عشق ہے..... عبادت ہے.... جس طرح عشق اور عبادت کا تعلق روح سے اسی طرح شاعری کا تعلق روح سے. ریاکاری اور دکھاوے کے ساتھ عشق اور عبادت کی تکمیل نا ممکن ہے اسی طرح شاعری صرف احساسات کو الفاظ دینے کا نام نہیں ہے بلکہ روحانی جذبات کو الفاظ کا پیکر عطا کرنے کا ہنر شاعری ہے. 
 انہیں کلاسیکی شعرا میں حافظ، رومی، غالب، اقبال اور اصغر گونڈوی.اور.دور حاضر کے شعرا میں عرفان صدیقی کا کلام پسند ہے
شاعری کے علاوہ وہ ایک بے باک صحافی بھی ہیں اپنی صحافتی
 زندگی کا باضابطہ آغاز انہوں نے روزنامہ" پندار" پٹنہ کے اسپورٹس ایڈیشن سے 2006 میں کیا. اس کے بعد اردو نیٹ جاپان، ماہنامہ کائنات کولکاتا، سہ ماہی دربھنگہ ٹائمز، سہ ماہی تحقیق دربھنگہ، ماہنامہ نیا کھلونا، کولکاتا، تعمیر افکار سمستی پور وغیرہ سے وہ وابستہ.رہے ہیں

پیش خدمت ہے ان کا نمونہ کلام 

-------غزل-------
کامران غنی صبا


حریمِ  دل کہ  مقدس  ہے ماورائے جنوں
اسی کے فیض سے روشن ہے یہ فضائے جنوں

خدا کے واسطے عقل و خرد کی بات نہ کر
قسم خدا کی ابھی میں ہوں مبتلائے جنوں

بس  اتنی  بات پہ  آئینہ پاش پاش ہوا
وہ پوچھ بیٹھے جو مفہومِ انتہائے جنوں

مرا عقیدہ ذرا مختلف ہے لوگوں سے
یہ   کائنات    بنائی  گئی  برائے  جنوں

سمجھ   لو  شہرِ  خرد   سے نکل   کے   آیا   ہے
جو شہرِ عشق میں ڈھونڈے کوئی سرائے جنوں

قسم خدا کی میں بیعت کروں گا قدموں پر
مرے جنوں کو جو مل جائیں اولیائے جنوں

کسی کا کچھ بھی بھروسہ نہیں، ذرا بھی نہیں
صبا کا کوئی نہیں ہے، نہیں، سوائے جنوں

____________________________

 -------غزل--------
کامران غنی صبا

میرے   چاروں   سمت   آتا  ہے   نظر    پانی   کا   رقص
ہائے   نادانی   کہ   دریا   میں    ہے  طغیانی   کا  رقص

اِک  یہی  صورت  بچی  ہے  اپنی  آنکھیں   نوچ  لوں
جس طرف  بھی دیکھیے  ہے دشمنِ  جانی  کا رقص

پارسائی      پردئہ   نخوت    سے     تکتی      رہ     گئی
رات    بھر    ہوتا   رہا   اشکِ  پشیمانی    کا    رقص

میرے    اوپر    کفر   کا  فتوی  لگا  دیں   شیخ   جی
دیکھ    لیں   گر   میرے  اندر  کی مسلمانی    کا   رقص

شاعری  کیا  ہے  کوئی  مجھ  سے  اگر   پوچھے  کہوں
صفحئہ    قرطاس    پر    اپنی  پریشانی   کا   رقص
 
کون    سی   ایسی   بشارت  مل  گئی  تجھ   کو   صبا
تیری   آنکھوں   میں   سدا   رہتا ہے تابانی   کا   رقص

____________________________


------------غزل
 (نذر احمد فراز)
 کامران غنی صبا

کچھ  درد اگر  ہم  کو مسلسل نہیں ہوتے
ہم عشق میں ائے دوست مکمل نہیں ہوتے

کچھ خواب مرے ہجر کی سولی پہ چڑھے ہیں
وہ  خواب  مگر  آنکھ  سے اوجھل  نہیں  ہوتے

تمثیل میں آنکھوں کی طرف دیکھ لو میری
برسات   بہت  ہوتی   ہے   بادل  نہیں  ہوتے

عشاق کے دل مملکتِ عشق کے در ہیں
ویران  تو ہوتے  ہیں  مقفل نہیں ہوتے

معلوم  اگر  ہوتا کہ  تم  بھی ہو مسیحا
نادان نہ تھے ایسے کہ گھائل نہیں ہوتے

صد  شکر  خدا تیرا کہ ہم ایسے سخنور
شاعر جو نہیں ہوتے تو پاگل نہیں ہوتے؟

___________________________

خاموشی، لامکاں اور میں
کامران غنی صبا

خموشی کیا ہے؟ 
اک احساس ہے 
اک راز ہے 
درد نہاں ہے
تشنگئ شوق ہے
اک گوہرِ نایافت کو پانے کی حسرت ہے
خموشی کچھ نہیں کہتی
مگر کہنے پہ آ جائے
تو پھر چپ بھی نہیں رہتی
خموشی آگ ہے
جس میں جھلس کر
ذات کی تکمیل ہوتی ہے 
خموشی اک سمندر ہے
بہت گہرا
خموشی کے سمندر میں
اگر طوفان آ جائے
تو سمجھو پھر قیامت ہے
خموشی "رازِ کن" ہے
عرشِ اعظم ہے مکاں اس کا
اگر یہ فاش ہو جائے
تو پتھر چیخ اٹھتا ہے
خموشی وقت کی دہلیز پر
ڈالا ہوا حکمت کا پردہ ہے
کہ جس کے بعد تاحد نظر ہے
لامکاں اور "میں"

اتوار, نومبر 21, 2021

بہار اسکول ایگزامینیشن بورڈ کا شیڈول جاری ، یکم فروری سے انٹرمیڈیٹ اور 17 سے میٹرک کے امتحانات

بہار اسکول ایگزامینیشن بورڈ کا شیڈول جاری ، یکم فروری سے انٹرمیڈیٹ اور 17 سے میٹرک کے امتحانات

بہار اسکول ایگزامینیشن کمیٹی نے ہفتہ کے روز میٹرک اور انٹر کے امتحانات کا شیڈول جاری کیا ہے۔ یکم فروری سے 14 فروری تک انٹر میڈیٹ اور 17 سے 24 فروری کے درمیان میٹرک امتحان منعقدکیا جائے گا۔ انٹر امتحان کی شروعات یکم فروری سے ہوگا۔ ریاضی کا امتحان پہلی شفٹ میں لیا جائے گا اور دوسری شفٹ میں ہندی کا امتحان لیا جائے گا۔

انٹر پریکٹیکل امتحان 10 سے 20 جنوری تک ہو گا۔ جبکہ میٹرک کے پریکٹیکل امتحان 20 سے 22جنوری تک منعقد کیا جائے گا۔

دو شفٹوں میں ہوگاامتحان

بورڈ کے مطابق امتحان دو شفٹوں میں روزانہ منعقد کیا جائے گا اور پہلی شفٹ کا امتحان صبح 9.30 بجے سے سہ پہر 12.45 بجے تک، دوسری شفٹ کا امتحان سہ پہر 1.45 سے شام 5 بجے تک منعقد ہوگا۔ ہر بار کی طرح اس بار بھی امتحان دینے والوں کو سوالیہ پرچہ پڑھنے کے لیے 15 منٹ کا اضافی وقت دیا جائے گا۔

کورونا کو لے کر بورڈ کی حکمت عملی

بہار بورڈ نے بھی کورونا کی مدت کو لے کر حکمت عملی بنائی ہے۔ امتحان کیسے لیا جائے اور کووِڈ پروٹوکول پر عمل کیسے کیا جائے۔ کیونکہ امتحانات کا کامیاب انعقاد بورڈ کے سامنے ایک بڑا چیلنج ہے۔ تمام ڈی ای او اور ڈی پی او کے علاوہ سینٹر کے عہدیدار ان سے بھی رائے طلب کی جا رہی ہے۔ سالانہ ثانوی امتحان 2022 کے شیڈول کو لیکر بہار اسکول ایگزامینیشن کمیٹی نے کہا ہے کہ 17 فروری کو ریاضی کا امتحان دونوں شفٹوں میں ہوگا۔

18 فروری کو سائنس کے مضمون کا امتحان دونوں شفٹوں میں ہوگا جب کہ 19 فروری کو دونوں شفٹوں میں سوشل سائنس کا امتحان ہوگا اور 21 فروری کو دونوں شفٹوں میں جنرل انگلش کا امتحان ہوگا۔ 22 فروری کو دونوں شفٹوں میں مادری زبان ہندی،بنگلہ،اردو اور میتھلی کا امتحان لیا جائے گا، جبکہ 23 فروری کو دونوں شفٹوں میں دوسری ہندوستانی زبان کا امتحان ہوگا۔ 24 فروری کو دونوں شفٹوں میں انتخابی منتخب مضامین کا امتحان ہوگا۔

مرنے کی جلدی مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ بہت سارے لوگ جلد مرنا چاہتے ، یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو یا توزندگی کے معاملات ومسائل سے نبرد آزما ہونے سے گھبرا کر بعجلت تمام مرنے کے لیے خود کشی کر لیتے ہیں،

مرنے کی جلدی 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
 بہت سارے لوگ جلد مرنا چاہتے ، یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو یا توزندگی کے معاملات ومسائل سے نبرد آزما ہونے سے گھبرا کر بعجلت تمام مرنے کے لیے خود کشی کر لیتے ہیں، وہ جو مہلک بیماری کے شکار ہوتے ہیں، اور اپنی زندگی سے مایوس ہو کر موت کی تمنا ہی نہیںکرتے ، عدالت میںجلد از جلد اپنی مرضی اور پسند کی موت کے لیے عرضیاں داخل کرتے ہیں، دونوں کاسبب ایک ہی ہوتا ہے ، مایوسی اور ڈپریشن ۔
 پوری دنیا میں گیارہ ایسے ممالک ہیں، جہاں زندگی سے مایوس لا علاج مریضوں کو جلد اپنی پسند کے مطابق موت کے منہ میں چلے جانے کی اجازت ہے، یہ ممالک ہیں نیوزی لیند، سوئزرلینڈ، نیدر لینڈ، اسپین، بلجیم، لکزم برگ، کناڈا، کولمبیا، آسٹریلیا، فرانس اور امریکہ، ان میں سے بیش تر ممالک میں لا علاج مرض سے پریشان مریضوں کو اپنی پسند سے موت کا وقت مقرر کرنے اور پسندیدہ طریقے سے موت کو لگے لگانے کی اجازت ہے ، البتہ مختلف ملکوں میں اس کے لیے الگ الگ شرائط اور ضابطے مقرر ہیں، نیوزی لینڈ میں اس کے لیے کم از کم دو ڈاکٹروں کی تصدیق ضروری ہے کہ جو موت چاہتا ہے وہ واقعی اس حالت کو پہونچ گیا ہے کہ اسے مرجانا چاہیے، نیوزی لینڈ میں اس قانون کو پاس کرنے سے پہلے ملکی پیمانے پر عوام سے رائے مانگی گئی تھی جس میں پینسٹھ (۶۵) فی صد سے زائد لوگوں نے اس کے حق میں ووٹ دیا تھا، اس کے بعد ہر سال نو سو پچاس لوگوں کو اس قانون کے تحت مرنے میں جلدی کرنے کی خواہش کی عرضی وصول کرنے کا نظام بنا دیا گیا ، اوریہ بھی طے کر دیا گیا ہے کہ ہر سال تین سو پچاس (۳۵۰) لوگوں کو ہی اس قانون سے فائدہ اٹھانے کا موقع مل سکے گا۔
اسلام اس بات پر زور دیتا ہے کہ جان انسان کی ملکیت نہیں ہے ، یہ اللہ کی طرف سے ہمارے پاس امانت ہے ، ہمارے اعضاء وجوارح بھی ہمارے نہیں ہیں، اس لیے اس کو خود کشی، مہلک دواؤں کے استعمال یا قتل بہ جذبۂ رحم کے تحت ختم نہیں کیا جا سکتا اسے زندگی کے اس مرحلہ تک باقی رکھناہے جب تک اللہ کا مقرر کیا ہوا وقت نہ آجائے ،اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مرض کو ئی لا علاج نہیں ہوتا، ’’لکل داء دوائ‘‘  ہر مرض کی دوا ہے، ہماری عقل وہاں تک نہیں پہونچ پا رہی ہے ، یہ ایک الگ سی بات ہے ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض کو اجر وثواب کے حصول کے ساتھ مغفرت کا سبب اور ترقی درجات کا ذریعہ بتایا، تاکہ اس شوق میں مریض زندگی سے مایوس نہ ہواور وہ مرض کوبھی نعمت سمجھے اور اللہ کے دربار میں کہتا رہے کہ اے اللہ! ہم اس نعمت کے متحمل نہیں ہیں۔اس لیے آزمائش اور ابتلاء سے اللہ کی پناہ چاہتے رہنا چاہیے۔ آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی ہدایت دی کہ تم میں سے کوئی موت کی تمنا نہ کرے ، اس لیے کہ طویل عمر میں عبادتوں کے ثواب کے اضافے اور بڑھنے کے امکانات زیادہ ہیں، اس کے علاوہ اگر وہ گناہگار ہے تو کسی مرحلہ میں توبہ کی توفیق سے بھی اس کی آخرت سنور سکتی ہے ۔
 مختلف ممالک جس طرح جلد اپنی پسند سے مرنے کے قانون کو منظور کرتے جا رہے ہیں، اس سے سماج میں انسانی زندگی کی بے وقعتی کا پیغام لوگوں میں جا رہا ہے ، اس کے علاوہ ضعفاء اور معذور لوگوں کی دیکھ ریکھ کا مزاج بھی کمے گا، ابھی تک تو لوگ یہی کہتے ہیں کہ بوڑھا مر بھی نہیں رہا ہے، اس قانون کے نفاذ سے جلد مار دینے کی کوشش بھی شروع ہو گی اور جو سماج اپنے والدین اور بوڑھے رشتہ داروں کو’’ اولڈ ایج ہوم‘‘ پہونچا دیتے ہیں، انہیں جلد مورث کی موت ہوجانے کی عرضی لگا تے ہوئے کتنی دیر لگے گی ، اللہ کرے کہ ہندوستان میں یہ قانون کبھی پاس نہ ہو ، حالاں کہ کئی مریضوں کی طرف سے اس قسم کی درخواست عدالت میں یہاں بھی زیر غور ہے۔

پارلیمنٹ تک مجوزہ ٹریکٹر مارچ کو ابھی تک منسوخ نہیں کیا گیا : کسان یونین

پارلیمنٹ تک مجوزہ ٹریکٹر مارچ کو ابھی تک منسوخ نہیں کیا گیا : کسان یونیننئی دہلی:آئندہ سرمائی اجلاس کے دوران پارلیمنٹ تک مجوزہ روزانہ ٹریکٹر مارچ کو ابھی منسوخ کرنا باقی ہے اور اس سلسلے میں حتمی فیصلہ اور کسانوں کی تحریک کے مستقبل کے لائحہ عمل پر اتوار کو ہونے والی میٹنگ میں فیصلہ کیا جائے گا۔ کسان لیڈروں نے ہفتہ کو یہ جانکاری دی ہے۔کسانوں کی تنظیموں کی ایک یونین، سمیوکت کسان مورچہ (ایس کے ایم) نے کچھ دن پہلے اعلان کیا تھا کہ تین زرعی کے خلاف جاری احتجاج کے ایک سال مکمل ہونے کے موقع پر 29 نومبر سے شروع ہونے والے سرمائی اجلاس کے دوران پارلیمنٹ تک کسان پرامن ٹریکٹر مارچ میں حصہ لیں گے۔ایس کے ایم نے وزیر اعظم کے فیصلے کا خیرمقدم کیا لیکن کہا کہ وہ پارلیمانی طریقہ کار کے ذریعے اس اعلان کے نافذ ہونے کا انتظار کریں گے۔ اس نے یہ بھی اشارہ کیاہے کہ اس کی تحریک کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی) کی قانونی ضمانت اور بجلی کے ترمیمی بل کو واپس لینے کا مطالبہ جاری رکھے گی۔کسان لیڈر اور ایس کے ایم کی کور کمیٹی کے رکن درشن پال نے ہفتہ کو پی ٹی آئی کوبتایاہے کہ پارلیمنٹ تک ٹریکٹر مارچ کی ہماری کال ابھی تک تازہ ہے۔ اتوار کو سنگھو بارڈر پر ہونے والی ایس کے ایم میٹنگ میں تحریک کے مستقبل کے لائحہ عمل اور ایم ایس پی کے مسائل پر حتمی فیصلہ لیا جائے گا۔کسان رہنما اور بھارتیہ کسان یونین (اوگرہان) کے صدر جوگندر سنگھ اوگرہن نے ٹکری سرحد پر کہا کہ ٹریکٹر مارچ کا فیصلہ ابھی واپس نہیں لیا گیاہے۔انھوں نے بتایاہے کہ ایس کے ایم پارلیمنٹ تک ٹریکٹر ٹرالی مارچ کے بارے میں فیصلہ کرے گی۔ ابھی تک اسے واپس لینے کا کوئی فیصلہ نہیں ہوا ہے۔ اتوارکوایس کے ایم کی کور کمیٹی کی میٹنگ کے بعد کوئی فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔

مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر بنے مولانا رابع حسنی ندوی ، چھٹی بار ملی یہ ذمہ داری

مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر بنے مولانا رابع حسنی ندوی ، چھٹی بار ملی یہ ذمہ داریکانپور/ لکھنو: کانپور (Kanpur) میں دو روزہ 27 ویں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ (AIMPLB) کے اجلاس کے دوسرے سیشن میں ہفتہ کی رات کو انتخاب ہوا۔ اس میں مولانا رابع حسنی ندوی مسلسل چھٹی بار بورڈ کے صدر منتخب کئے گئے۔ اس میں بہار کے مولانا خالد سیف اللہ رحمانی جنرل سکریٹری اور بورڈ کے نائب صدر کے طور پر جمعیت علما ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے پروفیسر رہے شیعہ دانشور ڈاکٹر سید علی نقوی کو منتخب کیا گیا۔ اس کے علاوہ قومی ایگزیکٹیو اراکین میں صابر احمد، محمد یوسف علی، مفتی محمد عبیداللہ، مولانا بلال حسن، طاہر حکیم، فاطمہ مظفر، عطیہ اور ڈاکٹر نکہت پروین کو منتخب کیا گیا۔ ان سبھی کا انتخاب جنرل باڈی کے اراکین نے کیا۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر مولانا رابع حسنی ندوی نے اپنے صدارتی خطاب میں موجودہ دور میں مسلم معاشرے کو ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ وہ آپسی اختلافات کو بھلاکر متحد ہوں اور موجودہ حالات کا سامنا کریں۔ کسی بھی ملک میں اقلیتی طبقے کو زیادہ فکر، توجہ اور محنت کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ تب اور بڑھ جاتا ہے، جب اقلیتی معاشرے کو کمزور کرنے کی کوششیں حکومتوں کی طرف سے کی جا رہی ہوں۔ ان کے اس خطاب کے بعد تمام اراکین نے ان کی تائید کی۔ اس میٹنگ میں پورے ملک کے تقریباً 100 سے زیادہ علمائے کرام نے میٹنگ میں شرکت کی۔ اس میٹنگ میں مسلم طبقے میں کیسے کم خرچ میں نکاح اور تعلیم کو بہتر کیا جائے اس پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ دو دنوں تک چلنے والی یہ میٹنگ ملک میں مسلم طبقے کی بہتری کے ایجنڈے طے کرے گی۔ کورونا بحران میں بورڈ کے میٹنگ آن لائن ہی پائی تھی، لہٰذا بورڈ میں خالی ہوئے عہدے اور کئی اراکین کے انتقال کے بعد نئے اراکین کو شامل نہیں کیا جاسکا تھا۔ میٹنگ میں گجرات سے لے کر پانڈوچیری تک۔ مغربی بنگال سے لے کر مہاراشٹر تک کے بورڈ کے اراکین نے شرکت کی ہے۔

ہفتہ, نومبر 20, 2021

تعلیم سے ملے گی منزل : کورونا قہر میں سرپرستوں سے محروم بچوں کو تعلیم کیلئے تقسیم کئے گئے چیک

تعلیم سے ملے گی منزل : کورونا قہر میں سرپرستوں سے محروم بچوں کو تعلیم کیلئے تقسیم کئے گئے چیکبھوپال : کورونا قہر میں اپنوں کی سرپرستی سے محروم بچوں کی کفالت اور تعلیمی سلسلہ جاری رکھنے کا اعلان یوں تو سرکاری اور غیر سرکاری طور پر بہت کیا گیا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ نوے فیصد سے زیادہ اداروں نے اپنے وعدے کو فراموش کردیا۔ مگر بھوپال مسلم ایجوکیشن اینڈ کیریر پروموشن سو سائٹی نہ صرف اپنے وعدے پر قائم ہے بلکہ کورونا قہر میں اپنے سرپرستوں سے محروم ہوئے بچوں کی تعلیمی ضرورت اور ادھورے خواب کو پورا کرنے کے لئے عملی اقدامات شروع کر دیئے ہیں ۔سو سائٹی کے ذریعہ طلبا کی تعلیمی ضرورت کے مد نظر پہلی بار پانچ نومبر کو چیک تقسیم کئےگئے تھے اور آج پھر انکی اور سماج کے کمزور طبقہ کے ہونہار طلبا کی تعلیمی ضرورت کے پیش نطر پھر چیک تقسیم کئے گئے ۔سو سائٹی کا ماننا ہے کہ زیور تعلیم سے ہم آہنگ ہوکر یہ طلبا نہ صرف اپنے خواب بلکہ اپنے والدین یا سرپرستوں کے ادھورے خواب کو شرمندہ تعبیر کر سکیں گے ۔

مسلم ایجوکیشن اینڈ کیریر پروموشن سو سائٹی کے سکریٹری ڈاکٹر ظفر حسن کہتے ہیں کہ سو سائٹی کے ذریعہ سماج کے ہونہار اور پسماندہ طبقہ کی تعلیمی ضرورت کے لئے مواقع فراہم کرنے کا کام تو پہلے بھی کیا جاتا رہا ہے لیکن اس بار کورونا نے جو قہر برپا کیا ہے اس کا بیان لفظوں میں نہیں کیا جا سکتا ہے ۔ایسے بچے جنہوں نے کورونا میں اپنا سب کچھ کھو دیا ہے اور اپنے والدین کی سرپرستی سے محروم ہوگئے ہیں ان کی تعلیمی ضرورت کو پورا کرنا نہ صرف ہماری بلکہ سماج کی مشترکہ ذمہ داری ہے ۔ ایسے طلبہ کے ساتھ سماج کے مالی طور پر کمزور طبقہ کی تعلیمی ضرورت کے پیش نظر پانچ نومبر کو بھی چیک تقسیم کئے گئے تھے اور آج پھر چیک تقسیم کرنے کے ساتھ ان کی کاؤنسلنگ کی گئی ہے تاکہ ان طلبا کو اس ذہنی دباؤ سے باہر نکالا جا سکے اور یہ تعلیم پر تمام مسائل سے آزاد ہوکر پوری طرح فوکس کر سکیں ۔ایسے طلبا سے تو ہمارا صرف یہی کہنا ہے کہ آپ تعلیم کے حصول میں اپنا سب کچھ لگائیں آپ کی تعلیم ضرورت کو پورا کرنا ہماری ذمہ داری ہے ۔

معروف کونسلر امینہ خان کہتی ہیں کہ مسلم ایجوکیشن کی تعلیمی سرگرمیوں کے بارے میں یوں تو بہت سنا تھا مگر جب یہاں پر آکر بچوں کے لئے کئے جانے والے تعلیمی کام کو دیکھا تو آنکھیں کھلی رہ گئیں۔ایسے کام کی سماج کو بہت ضرورت ہے ۔ہمارے مسلم بچوں میں صلاحیت کی کمی نہیں ہےبس انہیں صحیح سمت دیکھانے کی ضرورت ہے ۔ سو سائٹی کے ذریعہ جو تعلیمی سلسلہ شروع کیا گیا ہے وہی وقت کی ضرورت ہے۔

ماہر تعلیم رخشاں صدیقی کہتی ہیں کہ موبائل نے ہمارے بچوں کو بہت خراب کردیا ہے ۔خراب کرنے کی وجہ یہ ہے کہ بچے موبائل پر اپنا وقت تعلیم کے حصول یا علم سیکھنے کے لئے صرف نہیں کرتے ہیں بلکہ ان کا زیادہ وقت دوسرے چیزوں کے سرچ میں گزرتا ہے ۔اگر بچوں کو صحیح تربیت دی جائے گی تو یہی ٹیکنالوجی ان کی زندگی میں انقلاب لائے گی۔ تعلیم کے حصول میں مالی کمی بڑا دشوار مرحلہ ہوتا ہے اور جس سماج کے پاس ایسے ادارہ ہے اس سماج کے لوگوں کو اور بڑھ چڑھ کر اپنی تعلیمی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے آگے آنا چاہیئے۔

نویں جماعت کی طالبہ علما کہتی ہیں کہ کورونا قہر،اپنوں سے محرومی اور مالی مشکلات کے سبب تعلیم کا سلسلہ بند ہوگیا تھا۔ دوستوں نے بتایا تو یہاں تک ڈرتی ہوئی آئی کہ لوگ نہ جانیں کیا کہیں گے اور کیا سوچیں گے۔کوئی جو جانتا نہیں وہ ہمیں تعلیم کے لئے پیسہ کیوں دے گا لیکن جب یہاں کے ذمہ دارا ن سے بات کی اور اپنی حقیقت بتائی تو سارے خیال دھرے رہ گئے ۔سو سائٹی نے نہ صرف ہماری تعلیم کے لئے کونسلنگ شروع کی ہے بلکہ ہمیں چیک بھی دیا ہے تاکہ ہم اپنا اور اپنے والدین کا خواب پورا کرسکیں ۔


مسلم ایجوکیشن اینڈ کیریر پروموشن سوسائٹی کے پروگرام میں تعلیم کے لئے چیک حاصل کرنے والی منتشہ کہتی ہیں کہ سو سائٹی نے تو میرے مسائل ہی حل کردیئے ۔انہوں نے چیک دیکر اپنا کام کردیا ہے اب ہمارا کام ہے ان کے خواب کے ساتھ اپنے اور اپنے سرپرستوں کے خواب کوپورا کریں ۔ان شااللہ پوری محنت سے پڑھوںگی تاکہ سماج کے لئے آئیڈیل بن سکوں اور جب منزل پہنچ جاؤں تو لوگوں کی تعلیمی مدد کا حصہ بن سکوں ۔

اوٹکور میں ایس آئی او کی جانب سے مسلم طلبہ و اسلامی تعلیمات پر ایک روزہ تربیتی نوجوانوں کیمپ

اوٹکور میں ایس آئی او کی جانب سے مسلم طلبہ و اسلامی تعلیمات پر ایک روزہ تربیتی نوجوانوں کیمپ

اوٹکور : اسٹوڈینٹس اسلامک آرگنائزیشن کی جانب سے مسلم طلبہ و نوجوانوں میں دینی شعور بیدار کرنے اور اسلامی تعلیمات کی بیداری کو لیکر ایک روزہ تربیتی کیمپ اوٹکور منڈل کی جامع مسجد پنچ میں منعقد کیا گیا۔ جس میں ضلع ناراٸن پیٹ کے اور دیگر مقامات کے مسلم طلبہ و نوجوانوں نے شرکت کی۔تربیتی کیمپ کا افتتاح حافظ محمد علی امامی گنڈمال کی تلاوت قرآن سے ہوا۔حافظ محمد افتخار صدر ایس آٸی او ضلع ناراٸن پیٹ کی افتتاحی گفتگو کے بعد باقاعدہ پروگرام کا آغاز جامع مسجد پنچ کے خطیب و امام جناب مولانا نورالاسلام رحمانی صاحب نے سیرت النبیﷺ کے تعلق سے مکّی و مدنی زنگی کے مختلف پہلٶں پر سیر حاصل گفتگو کی۔محمد اقبال صاحب ٹیچر نے بھی اسلامی عقائد وغیرہ کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔پروگرام کے دوسرے سیشن میں محمد جاوید صاحب ٹیچر نے قرآن کا مختصر تعارف جبکہ برادر عبدالرشید نگری نے تحریک اسلامی اور ایس آٸی نامی لٹریچر کا خلاصہ پیش کیا۔

دوسرے سیشن کی اختتامی گفتگو سے قبل جامع مسجد پنچ کے خطیب و امام جناب مولانا نورالاسلام رحمانی صاحب نے اسٹوڈینٹس اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا کے قیام سے لیکر اغراض و مقاصد اور دستور کی تفہیم سے متعلق اہم نکات پر گفتگو فرماتے ہوۓ پروگرام میں موجود طلبہ و نوجوانوں سے تنظیم سے وابستگی کیلیۓ گذارش کی۔انہوں نے کہا کہ تنظیم ملک ہندوستان میں گذشتہ چالیس برسوں سے اپنے مشن " الٰہی ہدایات کے مطابق سماج کی تشکيلِ نو کیلیۓ طلبہ و نوجوانوں کو تیار کرنے کا کام انجام دے رہی ہے جسکی وجہ سے مسلم نوجوانوں میں غیر معمولی تبدیلياں محسوس کی جارہی ہیں۔کیمپ کا اختتام تنظیم کے ضلعی صدر برادر حافظ محمد افتخار صاحب کی اختتامی گفتگو اور دعا کے ساتھ کیا گیا۔اس موقع پر تنظیم کے مقامی صدر حافظ عبدالقیوم, محمد سہیل گنتہ, عبدلقیوم کرنول, محمد آصف, عرفات, اسعداللّٰه , امان اللّٰه وغیرہ موجود تھے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...