Powered By Blogger

جمعہ, جنوری 14, 2022

مرکزی وزیر ریلوے اشونی ویشنو جلپائی گوڑی پہنچ کر ریلوے حادثہ کا جائزہ لیا

مرکزی وزیر ریلوے اشونی ویشنو جلپائی گوڑی پہنچ کر ریلوے حادثہ کا جائزہ لیاکلکتہ: جلپائی گوڑی میں گوہاٹی بیکانیر ٹرین حادثہ کے بعد کل رات ہی کلکتہ پہنچ گئے تھے اور آج وہ اسپیشل ٹرین کے ذریعہ جائے حادثہ مینگوری پہنچ گئے ہیں ان کے ساتھ ریلوے بورڈ کے چیئرمین، ریلوے بورڈ کے ڈی جی)سیفٹی( بھی موجود ہیں مرکزی وزیر ریلوے اشونی ویشنونے نامہ نگاروں کو بتایا کہ جائے حادثہ تکنیکی خرابی کی وجہ سے ہواہے اور اس بات کی تحقیق کی جارہی ہے لاپرواہی کہاں پر ہوئی ۔تکنیکی خرابی کی شناخت پہلے کیوں نہیں کی تھی ۔کس حصے نے کا م کرنا چھوڑ دیا تھا ۔ٹرین ڈرائیور سے بھی تحقیق کی جاری ہے۔
اس حادثے کے پیچھے کوئی سازش ہے؟اس سوال کے جواب میں مرکزی وزیر ریلوے نے کہاکہ ابھی یقینی طور پر کچھ کہنا ممکن نہیں ہے۔ میں یہاں حادثے کی اصل وجہ جاننے آیا ہوں۔ تحقیقات بھی شروع کر دی گئی ہیں۔ وزیراعظم اس معاملے پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ میں بھی وزیر اعظم نریندر مودی سے رابطے میںہوں۔

موسم کا قہر مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

موسم کا قہر 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
 دسمبر اور جنوری کے مہینے سخت ٹھنڈ کے لیے مشہور ہیں، کپکپانے والی سردی ، یخ بستہ ہوائیں، انسان کوٹھٹھرا کر رکھ دیتی ہیں، زندگی رک سی جاتی ہے، کہاسے کی وجہ سے گاڑیوں پر بریک لگ جاتی ہے اورہوائی سروسیں متاثر ہوتی ہیں، ہندوستانی ریل تاخیر سے چلنے میں دنیا میں اپنی ایک شناخت رکھتی ہے، کہاسے کی وجہ سے تاخیر کے ساتھ چلنے والی ٹرینوں کو کثرت سے رد کیا جاتا ہے، سروس معطل ہونے کی وجہ سے پریشانیوں میں اضافہ ہو تا ہے او رنقل وحمل میں دشواریاں پیش آتی ہیں۔
یہ موسم مزدوروں، مفلسوں اور غریبوں کے لیے بڑا سخت ہوتا ہے، ان کے پاس پہننے اوڑھنے کے لیے مناسب کپڑے نہیں ہوتے، ٹھنڈک کو بر داشت کرنا ان کے لیے جان جوکھم میں ڈالنے کے مترادف ہوتا ہے، کثرت سے اموات ہوتی ہیں اور خاندان اجڑ جاتا ہے ۔
 ایسے موقعوںسے اسلامی تعلیمات یہ ہیںکہ جن کو اللہ نے مال ودولت سے نوازا ہے اور جن کے پاس ٹھنڈ کا مقابلہ کرنے کے لیے وافر سامان موجود ہے، وہ ان غریبوں ، بے کسوں کی بھی خبر گیری کریں، ان کی ضرورتوں کا خیال رکھیں اور ان کے راحت وآرام کے لیے فکر مند ہوں، پڑوس میں کوئی ٹھنڈ سے پریشان نہ ہو ،یہ تو پڑوسیوں کے حقوق کے تحت آتا ہے، لیکن اس دائرہ کو وسائل کے اعتبار سے وسیع سے وسیع ترکرنا چاہیے، اور زیادہ لوگوں تک پہونچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
امارت شرعیہ بہار اڑیسہ وجھارکھنڈ کی فکر مندی اس سلسلے میں مثالی رہی ہے، ہر سال ہزاروں کی تعداد میں تینوں صوبوں کے غرباء میں کمبل کی تقسیم کی جاتی ہے، اس کام کے لیے امارت شرعیہ کے پھیلے ہوئے نیٹ ورک کا استعمال کیا جاتا ہے، نقباء امارت شرعیہ ، ذیلی دفاتر اور قضاۃ حضرات کے توسط سے گاؤں گاؤں تک کمبل پہونچایا جاتا ہے، پھر بھی ہمارا احساس ہے کہ وسائل کی قلت کی وجہ سے جس بڑے پیمانے پر لوگوں تک ہمیں پہونچنا چاہیے، ہم نہیں پہونچ پاتے ہیں، اس کے لیے ضروری ہے کہ ہر گاؤں میں کچھ لوگ کھڑے ہوں اور مقامی آبادی کا سروے کرکے وہاں کے مالداروں کو اس کام پر ابھاریں ان سے وسائل حاصل کریں اور غرباء تک پہونچائیں۔  تُؤْخَذُ مِنْ اَغْنِیَائِھِمْ وَتُرَدُّ عَلَی فُقَرَائِھِمْ  ان کے مالداروں سے لو اور وہاں کے محتاجوںتک پہونچاؤ۔
 امارت شرعیہ نے اپنی سطح سے یہ کام شروع کر دیا ہے ، اور غرباء تک کمبل پہونچا یا جا رہا ہے، لیکن ضرورت ہے کہ اہل خیر حضرات اس کام کے لیے متوجہ ہوں اور بیت المال امارت شرعیہ میں خاص اس کام کے لیے رقم فراہم کرائیں تاکہ امارت شرعیہ راحت رسانی کا کام بڑے پیمانے پر کر سکے۔

جمعرات, جنوری 13, 2022

مولانا محمد یوسف اصلاحیمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

مولانا محمد یوسف اصلاحی
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
نامور ، معتبر، مستند عالم دین، اچھے منتظم، بہترین مدبر، مفسر، محقق،جامعۃ الصالحات رام پور کے سابق ناظم موجودہ سرپرست، مرکزی درسگاہ اسلامی رامپور کے صدر، ماہنامہ ذکریٰ کے مدیر،پانچ درجن سے زائد کتابوں کے مصنف ، آداب زندگی سکھانے والا داعی، اور دلوں میں گھر کر جانے والا مقرر، جماعت اسلامی ہند کی مجلس شوریٰ اور مجلس نمائندگان کے رکن مولانا محمدیوسف اصلاحی نے ۲۱؍ دسمبر ۲۰۲۱ء کو رات کے سوا بجے نوئیڈا کے فورٹس اسپتال میں آخری سانس لی، وہ گذشتہ ایک ماہ سے شدید تنفس اور عارضہ قلب میں مبتلا تھے، مراد آباد کے ایک اسپتال میں شروع میں داخل کیا گیا تھا، بعد میں بہتر علاج کے لئے نوئیڈا لایا گیا، لیکن موت کا توکوئی علاج ہی نہیں ہے ، وقت موعود آیا اور ملک الموت لیکر چلتا بنا، یہی زندگی کی حقیقت ہے۔
ان کی نماز جنازہ مرکزی درس گاہ اسلامی کے قریب شادی گھر میں ان کے صاحب زادہ جناب سلمان صاحب نے پڑھائی، اور مسجد قلاش کے قریب والے قبرستان میں تدفین عمل میں آئی، پس ماندگان میں پانچ صاحب زادگان، سعید اختر، سعد، سعود،سلمان ، سلیم اور دو لڑکیوں کو چھوڑا، اہلیہ پہلے ہی رخت سفر باندھ چکی تھیں۔
 مولانا محمد یوسف اصلاحی بن مولانا عبد القدیم خان کی پیدا ئش ۹؍ جولائی ۱۹۳۲ء کو بریلی اتر پردیش کے ایک اعلیٰ خانوادے میں ہوئی، بعضوں نے جائے پیدائش پر ملی ضلع اٹک موجودہ پاکستان لکھا ہے، جو صحیح نہیں معلوم ہوتا، والد تفسیر وحدیث کے بڑے عالم؛ بلکہ شیخ الحدیث تھے، تجوید، حفظ قرآن اور عربی کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہی حاصل کرنے کے بعد بریلی اسلامیہ کالج سے ہائی اسکول کا امتحان پاس کیا، والد کی خواہش عالم بنانے کی تھی، اسلئے ان کا داخلہ مظاہر علوم سہارن پور میں کرادیاگیا، دو سال تک وہاں زیر درس رہے، گھر آئے تو ان کے محلہ کا ایک درزی میر راہ کوئی کتاب ان کے حوالہ کرتا، مولانا اسے لے جا کر رکھ دیتے، اور کچھ دن کے بعد واپس کر دیتے، وہ کوئی دوسری کتاب دیتا، ایک دن مولانا نے اس کی دی ہوئی کتاب اٹھا کر پڑھنا شروع کیا، یہ مولانا مودودی کی تنقیحات تھی، اس کتاب کے مطالعہ کی وجہ سے ان کی ذہنی رو جماعت اسلامی کی طرف گئی اور انہوں نے مظاہر علوم چھوڑ کر مدرسۃ الاصلاح سرائے میر اعظم گڈ ھ میں داخلہ لے لیا، وہاں انہیں مولانا اختر اصلاحی اور مولانا امین احسن اصلاحی کی شاگردی میسر آئی، جنہوں نے انہیں قرآن کریم کے رموز ونکات سمجھائے اور اس فن میں انہیں خصوصی درک حاصل ہوا، اچھے نمبرات سے سند فضیلت حاصل کی ، دوران طالب علمی ہی میں جماعت اسلامی کے رجحانات وخیالات ان کے اوپر حاوی ہو گیے اور وہ عملی طور پر جماعت اسلامی کی تحریک سے جڑ گیے، عمر کے اکیس سال ہی پورے ہوئے تھے کہ آپ ۱۹۵۳ء میں جماعت اسلامی کے رکن بن گیے، جماعت اسلامی کے افکار میں بہت سارے اتار چڑھاؤ آئے ، لیکن مولانا نے پچیس سال کی عمر میں جو وابستگی اختیار کی تو پوری زندگی اس سے جڑے رہے۔
 مولانا کی پہلی تصنیف ’’آداب زندگی‘‘ صرف بیس سال کی عمر میں سامنے آئی، جس نے اہل علم طبقہ کے ساتھ عوام کو بھی مولانا کا گرویدہ بنا دیا، اس تصنیف کی بے انتہا پذیرائی ہوئی اور اس کتاب نے ملک وبیرون ملک میں انسانی زندگی میں بڑی تبدیلیاں پیدا کیں، مدرسۃ الاصلاح سے فراغت کے بعد آپ نے اپنا میدان عمل رام پور کو بنایا ؛کیونکہ جماعت اسلامی کا علمی مرکز ان دنوں وہیں تھا، ادارہ تصنیف اسلامی کے نام سے قائم اس ادارہ کے ذمہ دار مولانا صدر الدین اصلاحی تھے، مولانا فاروق خان ، مولانا جلال الدین انصر عمری اس کے ارکان تھے، مولانا محمد یوسف اصلاحی بھی اس ادارہ سے جڑ گیے اور تصنیف وتحقیق کے کاموں میں مصروف رہے، جب ۱۹۷۰ء میں یہ ادارہ تحقیق وتصنیف اسلامی کے نام سے پان والی کوٹھی دودھ پور علی گڈھ منتقل ہوا تو مولانا نے وہاں جانے سے معذرت کرلی، رام پور میں ہی تجارت شروع کی اور علمی کاموں میں مشغول رہے۔ ۱۹۷۲ء میں ایک مکتبہ اور ادارہ ذکریٰ قائم کیا جس سے ماہنامہ ذکریٰ نکالنا شروع کیا، اب اسے ان کے صاحب زادگان دیکھتے ہیں۔
 رام پور میں مولانا ابو سلیم عبد الحئی ؒ نے ایک مدرسہ بچیوں کی تعلیم کے لیے قائم کیا تھا، مولانا کے انتقال کے بعد جناب توسل حسین صاحب اس کے ذمہ دار منتخب ہوئے، ان کے دنیا سے چلے جانے کے بعد یہ ذمہ داری مولانا محمد یوسف اصلاحی کے سپرد ہوئی، اور مولانا نے اپنی خدا داد صلاحیت سے جامعۃ الصالحات رام پور کو ملک وبیرون ملک میں نہ صرف متعارف کرایا، بلکہ لڑکیوں کی تعلیم کے لیے اس کی شناخت معیاری تعلیمی ادارہ کی حییثت سے سامنے آئی یہ ادارہ آج بھی سر گرم عمل ہے۔ ۱۹۷۵ء میں اس ادارہ کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تو آپ اس کے صدر منتخب ہوئے اور پوری زندگی اس ادارہ کی سر پرستی کرتے رہے۔
مولانا نے قرآن واحادیث ، سیرت وفقہ اور دیگر موضوعات پر کم وبیش ساٹھ کتابیں تصنیف کیں، ان میں اسلوب کی سادگی، مواد کی فراوانی اور تفہیم کا ملکہ اس قدر ہے کہ ان کتابوں کے کئی کئی ایڈیشن نکل چکے، ان میں سے کئی کتاب کا دوسری زبان میں ترجمہ بھی ہو چکا ہے۔ مولانا نے مختلف ملکوں کے دعوتی اسفار بھی کیے، انگلینڈ، امریکہ ، جاپان، آسٹریلیا اور خلیج کے کئی ممالک میں ان کا آنا جانا ہوا کرتا تھا، بر صغیر ہند وپاک اور بنگلہ دیش کے اسفار بھی مولانا نے کثرت سے کیے۔
مولانا کی زندگی سادگی کا مرقع تھی، ان کی تقریروں میں بھی سادگی کی جھلک تھی،وہ مرصع اور بھاری الفاظ کے استعمال سے گریز کرتے تھے، ان کی تقریروں میں خطیبانہ گھن، گرج، الفاظ کا زیرو بم اور جسمانی حرکات وسکنات (باڈی لنگویج) کا استعمال کم ہوتا تھا، لیکن بات بڑی مؤثر ہوتی تھی، جس سے سامعین کو بہت فائدہ پہونچتاتھا۔
مولانا مرحوم دیکھنے میں نحیف الجثہ تھے، لیکن انکی جسمانی کیفیت کا اثر ان کے کاموں پر بالکل نہیں پڑتا تھا، ان کا چہرہ بڑا با رونق، پر کشش اور پر نور تھا، اس میں ایک مقناطیسی چمک پائی جاتی تھی ، جس کی وجہ سے جلد ہی لوگ ان کے قریب ہی نہیں گرویدہ ہوجاتے تھے، ان کی اس بارعب شخصیت میں ان کی جامہ زیبی کا بھی دخل تھا، سردی ہو یا گرمی ہر موقع سے شیروانی، آنکھوں پر چشمہ اور سر پر کشتی نما ٹوپی ہوا کرتی ، قرآن کریم کی تلاوت اس انداز میں کرتے کہ لوگوں پر ایک کیفیت طاری ہوجاتی، ان کی رہائش رام پور میں گھیسر سیف الدین خان میں تھی، وہ محلہ کی مسجد میں جب موجود ہوتے تو پابندی سے امامت کرتے، فجر کی نماز میں ان کی تلاوت کا خاص اثر مقتدیوں پر ہوا کرتا تھا، وہ صرف نماز پڑھانے پر اکتفا نہیں کرتے، جماعت اسلامی کی جانب سے درس قرآن، درس حدیث وغیرہ کا جو سلسلہ جاری ہوتا اس کا بھی اہتمام کرتے او رمقتدیوں کی ذہنی تشکیل اور اسلامی اقدار کے ساتھ ان کی تربیت کے فرائض انجام دیتے، وہ اقبال کے لفظوں میں صرف دو رکعت کے امام نہیں تھے۔
 مولانا اب اس دنیا میں نہیں ہیں، مولانا نے طویل عمر پائی اور پل پل دین کی خدمت میں صرف کیا، مواقع بہت آئے، لیکن رام پور کو جو مستقر بنایا تو آخری سانس تک اس سے رشتہ نہیں توڑا، اللہ نے آپ کے کام میں برکت عطا فرمائی ، اور اب وہ اسی خدا کے پاس گیے ہیں، جس کے لیے پوری زندگی وہ کام کرتے رہے، یقینا اللہ کی رحمت و مغفرت نے بڑھ کر استقبال کیا ہوگا، فادخلی فی عبادی وادخلی جنتی کے مژدہ نے پوری زندگی کی تکان کو دور کر دیا ہوگا۔

بدھ, جنوری 12, 2022

حج وعمرہ : ' آئندہ تین ماہ میں بیرون عمرہ زائرین کی تعداد میں اضافہ ہوگا ' مملکت لسے

حج وعمرہ : ' آئندہ تین ماہ میں بیرون عمرہ زائرین کی تعداد میں اضافہ ہوگا ' مملکت لسے لائن نیوزڈیسک
حج و عمرہ و زیارۃ امور کی قومی کمیٹی کے رکن سعید باحشوان نے توقع ظاہر کی ہے کہ آئندہ تین ماہ (رجب، شعبان اور رمضان المبارک) کے دوران بیرون مملکت سے آنے والے عمرہ زائرین کی تعداد میں اضافہ ہوگا-
العربیہ نیٹ کے مطابق 201 عمرہ کمپنیاں و ادارے عمرہ زائرین کو مملکت آمد سے لے کر وطن کے لیے روانگی تک بہترین خدمات فراہم کریں گے-
یہ توقعات ایسے ماحول میں کی جا رہی ہیں جب پاکستان، انڈیا، ازبکستان، لیبیا، مصر، تیونس، الجزائر اور انڈونیشیا سے عمرہ زائرین کی آمد کے حوالے سے کارروائی شروع کردی گئی ہے-
باحشوان نے کہا کہ 201 عمرہ کمپنیاں و ادارے سعودی حکومت کی جانب سے فراہم کردہ سہولتوں اور عظیم الشان منصوبوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عمرہ زائرین کو مطلوبہ سہولتیں ہروقت فراہم کریں گے- عمرہ زائرین اطمینان و سکون اور امن وسلامتی کے ماحول میں طواف، سعی اور زیارت کی سعادت حاصل کرسکیں گے-
باحشوان نے کہا کہ عمرہ کمپنیاں و ادارے عمرہ زائرین کی منفرد میزبانی کے لیے ہوٹلوں میں رہائش، اندرون مملکت ٹرانسپورٹ اور کھانے پینے کی سہولیات کی تیاریاں کرچکے ہیں-
عمرہ کمپنیوں اور اداروں نے مسجد الحرام میں عمرے و نماز اور مسجد نبوی نیز روضہ شریفہ میں نماز اور روضہ رسول پر حاضری کے حوالے سے اپائنمنٹ کی تیاریاں بھی کرلی ہیں- عمرہ زائرین کو وہ تمام آسانیاں اور سہولتیں مہیا کی جائیں گی جن کی انہیں ضرورت ہوگی- وزارت حج و عمرہ زائرین سے کورونا ایس او پیز کی پابندی کرانے میں غیرمعمولی دلچسپی لے رہی ہے- وزارت اس حوالے سے عمرہ کمپنیوں و اداروں کی سرگرمیوں پر نظر رکھے گی اور ان سے ربط و ضبط بھی پیدا کرے گی-
باحشوان نے توجہ دلائی کہ بیرون مملکت سے عمرہ زائرین کی آمد پر مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ شہروں میں ہوٹلوں، کاروباری اداروں، ٹرانسپورٹ کے وسائل، ریستورانوں، شاپنگ سینٹرز کا کاروبار بہتر ہوگا-
دریں اثنا وزارت حج و عمرہ نے تاکید کی ہے کہ زائرین مسجد الحرام اور مسجد نبوی میں حاضری کے موقع پر سماجی فاصلے کی پابندی کریں- حفاظتی ماسک استعمال کریں- اس سے وہ خود بھی کورونا وائرس لگنے سے محفوظ رہیں گے اور دوسرے بھی وائرس کی گرفت میں نہیں آئیں گے-

اردو میں کیریر: چیلنجز اور امکاناتکامران غنی صبااسسٹنٹ پروفیسر نتیشور کالج مظفرپور

اردو میں کیریر: چیلنجز اور امکانات
کامران غنی صبا
اسسٹنٹ پروفیسر نتیشور کالج مظفرپور

سال2021 رخصت ہو چکا ہے۔ عالمی وبا کورونا کی وجہ سے گزرا ہوا سال جہاں معاشی بحران کا سال بن کر تاریخ میں محفوظ ہو چکا ہے وہیں تعلیمی اعتبار سے بھی سال گزشتہ بہت خسارے میں رہا۔ تعلیمی اداروں میں درس و تدریس کا سلسلہ متاثر رہا۔ خدا کرے کہ نیا سال طلبہ کے لیے بہتر ثابت ہو۔ ہر چند کہ نئے سال کے آغاز کے ساتھ ہی مختلف ریاستوں میں تعلیمی ادارے ایک بار پھر بند کرنے کے سرکاری احکامات جاری ہونا شروع ہو چکے ہیں. 
نئے سال میں داخل ہونے کے ساتھ ہی امتحانات کا سلسلہ بھی شروع ہو رہا ہے۔ فروری میں انٹرمیڈیٹ اور پھر میٹرک کے امتحانات ہونے ہیں۔ ابھی تک امتحانات ملتوی کیے جانے کا کوئی امکان نہیں ہے. 
 بورڈ امتحانات کے بعد طلبہ کے سامنے سب سے بڑا چیلنج اپنے کیریر کا انتخاب ہے۔ میرے پاس طالب علموں کے اکثر فون آتے ہیں اور وہ اپنے تعلیمی سفر کو جاری رکھنے کے سلسلہ میں رہنمائی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ان میں سے بہت سارے طلبہ اردو میں اپنا کیریر بنانا چاہتے ہیں لیکن ان کے ذہن میں اس قدر خدشات بھرے ہوتے ہیں کہ وہ میدانِ عمل میں قدم رکھنے سے پہلے ہی شکست تسلیم کر لیتے ہیں۔
اردو کے تعلق سے ایک عام نظریہ یہ ہے کہ اردو پڑھنے والوں کو اچھی ملازمت نہیں مل پاتی ہے ۔میرا تجربہ و مشاہدہ اس کے بالکل برعکس ہے۔میں نے اردو سے تعلیم حاصل کرنے والے کسی باصلاحیت نوجوان کو کبھی بے روزگار نہیں دیکھا ہے۔ یہ بات قابلِ افسوس ضرور ہے لیکن مجھے کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ کالج اور یونیورسٹیوں میں اردو بطور لازمی مضمون پڑھنے والے طلبہ کی اکثریت بحالتِ مجبوری اردو کا انتخاب کرتی ہے۔ ان میں کچھ تو مدارس کے ویسے طلبہ ہوتے ہیں جن کے پاس اردو یا عربی پڑھنے کے سوا دوسرا کوئی متبادل نہیں ہوتا۔ طالبات میں اکثر کے والدین انہیں اس وجہ سے اردو دلواتے ہیں کہ ان کی بچیاں آسانی سے ڈگری حاصل کر لیں گی جس کے بعد رشتہ ڈھونڈنے میں آسانی ہوگی۔ ایسے طلبہ  میں کتنے تو ایسے بھی ہوتے ہیں کہ انہیں یہ بھی پتہ نہیں ہوتا کہ ان کے نصاب میں کون کون سی کتابیں شامل ہیں یا اگر معلوم ہو بھی گیا تو نصابی کتابوں تک ان کی رسائی کورس کی تکمیل تک نہیں ہو پاتی۔ ایسے طلبہ بازار میں چھپے گیس پیپر پڑھ کر ڈگری تو حاصل کر لیتے ہیں لیکن جب روزگار حاصل کرنے کے لیے انہیں مسابقاتی امتحانات سے گزرنا پڑتا ہے تو وہ حوصلہ ہار بیٹھتے ہیں۔ ایسے نوجوانوں کو دیکھ کر یہ تاثر قائم ہوتا ہے کہ اردو پڑھنے والوں کو روزگار نہیں ملتا اور وہ یوں ہی بے کار بیٹھے رہ جاتے ہیں۔ میں نے کئی ایسے طالب علموں کو بھی دیکھا ہے جو امتحان سے ٹھیک ایک دن پہلے گیس پیپر لے کر آتے ہیں کہ اس میں کون کون سے سوالات اہم ہیں، بتا دیے جائیں۔ یعنی وہ گیس میں بھی گیس کروا کر اردو میں اپنا کیریر بنانا چاہتے ہیں۔
حالیہ چند برسوں میں اردو میں روزگار کے مواقع بڑھے ہیں۔ نجی شعبہ میں اخبارات، الکٹرانک میڈیا، اشاعتی اداروں، تعلیمی اداروں میں اردو جاننے والوں کی ضرورت میں اضافہ ہوا ہے۔ سرکاری سطح پر بھی پہلے کی بہ نسبت اب زیادہ آسامیاں آتی ہیں۔ انٹرنیٹ اور جدید ٹکنالوجی آنے کے بعد اردو ٹائپ رائٹر، اردو ڈیزائنر، ویب ڈیزائنر، کمپیوٹر آپریٹر وغیرہ جیسے نئے روزگار پیدا ہوئے ہیں۔ کمپیوٹر کے ساتھ اردو جاننے والے آپریٹرز ابھی بھی بہت کم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اردو کے جانکار کمپیوٹر آپریٹر کے پاس دوردراز کے لوگ بھی اپنا کام لے کر آتے ہیں۔ اخبارات اور اشاعتی اداروں کے دفاتر میں بھی اردو کے جانکار اچھے کمپیوٹر آپریٹرز ہمیشہ تلاش کیے جاتے ہیں۔پرنٹ اور الکٹرانک میڈیا میں اچھا کیریر بنانے کے لیے بہت سارے ادارے اردو میں صحافت کا کورس بھی کرواتے ہیں۔ صحافت کے شعبہ میں کیریر بنانے کے لیے انٹرمیڈیٹ کے بعد ڈپلوما ان جرنلزم یا گریجوئشن کے بعد ماس میڈیا کا کوئی کورس کیا جا سکتا ہے۔
درس و تدریس کے شعبہ میں بھی اردوکے اچھے اساتذہ کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے۔درس و تدریس کے شعبہ میں آنے کے لیے انٹرمیڈیٹ کے بعد ڈپلوما ان ایجوکیشن (ڈی ایل ایڈ) یا گریجوئیشن کے بعد بیچلر آف ایجوکیشن(بی ایڈ) کیا جا سکتا ہے۔ ڈی ایل ایڈ یا بی ایڈ کرنے کے بعد آپ کسی اچھے پرائیوٹ اسکول یا ویکنسی آنے پر سرکاری اسکول کے لیے درخواست دے سکتے ہیں۔ ہندوستان سے باہر بھی بہت سارے ملکوں میں ’’انڈین اسکول‘‘ قائم ہیں۔ جہاں دوسرے مضامین کے ساتھ اردو کے اساتذہ بھی اچھی تنخواہ پر بحال کیے جاتے ہیں۔ باہر کے ملکوں میں قائم ہندوستانی اسکولوں میں اساتذہ کو قیام و طعام کے علاوہ اور بھی بہت ساری سہولتیں دی جاتی ہیں۔ان اسکولوں کے لیے انٹرویو ہندوستان میں ہی لیا جاتا ہے۔ کچھ اسکول آن لائن انٹرویو بھی لیتے ہیں۔
گریجوئیشن کے بعد اگر آپ نے ایم فل اور پی ایچ ڈی کر لیا اور نیٹ امتحان میں کامیابی حاصل کرلی تو آپ کالج اور یونیورسٹی کے استاد بننے کے اہل ہو جاتے ہیں۔لیکن یہاں تک پہنچنے کے لیے بہت ہی صبر و ضبط اور جہد مسلسل کی ضرورت ہوتی ہے۔اس لیے میرا مشورہ عام طور سے یہی ہوتا ہے کہ گریجوئیشن کرنے کے بعد بی ایڈ کر کے اسکول کی ملازمت حاصل کر لینی چاہیے ۔ یہ راستہ محفوظ ہے اور آسان بھی۔ ورنہ بہت سارے لوگ گریجوئیشن کرنے کے بعد ماسٹر، ایم فل اور پی ایچ ڈی کرنے میں کئی سال لگا دیتے ہیں اور اتنے برسوں تک ملازمت نہیں ملنے کی وجہ سے احساس کمتری اور ذہنی کشمکش کا شکار ہوتے ہیں۔
اردو پڑھ کر اچھی ملازمت حاصل کرنا پہلے کی بہ نسبت آسان ہوا ہے۔ اردو میں روزگار کے مواقع پہلے سے کہیں زیادہ بڑھے ہیں ۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ہم کامیابی کا ’’شارٹ کٹ‘‘نسخہ ڈھونڈنے کی بجائے محنت اور مطالعہ کی عادت ڈالیں۔ ہمیشہ اپنے سامنے بڑا ہدف رکھیں لیکن ساتھ ہی چھوٹے چھوٹے اہداف بھی حاصل کرتے جائیں۔ ان شاء اللہ کامیابی مقدر ہوگی۔

غیرقانونی وصولی معاملہ : ممبئی کے سابق پولس کمشنرپرمبیرسنگھ کوسپریم کورٹ نے دی راحت

غیرقانونی وصولی معاملہ : ممبئی کے سابق پولس کمشنرپرمبیرسنگھ کوسپریم کورٹ نے دی راحتنئی دہلی(ایجنسی) سپریم کورٹ نے منگل کے روز ممبئی کے سابق پولیس کمشنر پرمبیر سنگھ پر مہاراشٹر میں درج فوجداری مقدمات کے معاملے میں ان کی گرفتاری پر روک مزید تین ہفتوں کے لئے بڑھا دی ہے۔ جسٹس سنجے کشن کول اور جسٹس ایم ایم سندریش کی بنچ نے ملزم پولیس افسر کو ہدایت دی کہ وہ گرفتاری سے تحفظ فراہم کرتے ہوئے تمام معاملات سے متعلق جانچ میں تعاون کرے۔ بنچ نے سماعت کے دوران سابق پولیس کمشنر اور مہاراشٹر حکومت اور دیگر کے دلائل سننے کے بعد کہا ''یہ ایک پریشان کن صورتحال ہے، جہاں پولیس کے سربراہ رہے شخص کو اپنی ہی پولیس پر بھروسہ نہیں ہے اور نہ ہی ریاستی حکومت کو سی بی آئی پر اعتماد''۔ سپریم کورٹ نے مہاراشٹر حکومت کو ہدایت دی ہے کہ وہ تین ہفتوں کے اندر ایک حلف نامہ کے ذریعے مرکزی جانچ ایجنسی (سی بی آئی) کی جانچ کرانے کے معاملے میں مرکزی جانچ ایجنسی کے حلف نامہ پر اپنا جواب داخل کرے۔ تاہم ریاستی حکومت نے سی بی آئی جانچ کی پھر سے مخالفت کی اور کہا کہ یہ منصفانہ نہیں ہوگا۔ اس سے قبل بھی مہاراشٹر حکومت نے مخالفت کی تھی۔ عدالت عظمیٰ کی ہدایت پر سی بی آئی نے اپنا حلف نامہ داخل کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ سابق پولیس کمشنر سے متعلق معاملات کی جانچ کے لیے تیار ہے۔ بنچ کی جانب سے کسی مرکزی جانچ ایجنسی سے جانچ کرانے کے اشارے کے بعد سی بی آئی نے پچھلی سماعت کے دوران جانچ کے لئے اتفاق ظاہر کیا تھا۔ عدالت عظمیٰ نے اس سے قبل 6 دسمبر کو اپنے عبوری حکم میں پرمبیر سنگھ کو گرفتاری سے راحت دی تھی اور مہاراشٹر حکومت سے کہا تھا کہ وہ سابق پولیس کمشنر کے خلاف درج فوجداری مقدمات کی تحقیقات جاری رکھے لیکن ان مقدمات میں چارج شیٹ داخل نہ کرے۔ پرمبیر سنگھ نے عدالت عظمیٰ سے ان کے خلاف فوجداری مقدمات کی جانچ سی بی آئی سے کروانے کی فریاد کی ہے۔ اسی معاملے کی سماعت جاری ہے۔ سابق پولیس کمشنر نے مہاراشٹر کے اس وقت کے وزیر داخلہ انل دیشمکھ پر الزام لگایا تھا کہ انل دیشمکھ نے ان سے ہر ماہ 100 کروڑ روپے غیر قانونی طور پر دینے کی مانگ کی تھی۔ پرمبیر سنگھ کے خلاف ممبئی کے پولیس کمشنر رہتے ہوئے ہوٹل کاروباری سے لاکھوں روپے کی غیر قانونی وصولی سمیت کئی مجرمانہ معاملے ممبئی کے مختلف تھانوں میں درج ہیں۔ اس کے علاوہ ممبئی پولیس کے ایک اور افسر سمیت کئی دیگر بھی ملزم ہیں

انکم ٹیکس ریٹرن داخل کرنے کی تاریخ میں 15 مارچ تک توسیع

انکم ٹیکس ریٹرن داخل کرنے کی تاریخ میں 15 مارچ تک توسیع

نئی دہلی: محکمہ انکم ٹیکس نے سال 2021-22 کے ریٹرن داخل کرنے کے ساتھ ہی مختلف قسم کی آڈٹ رپورٹس داخل کرنے کی آخری تاریخ میں توسیع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے تحت سال 2021-22 کے لیے ریٹرن داخل کرنے کی آخری تاریخ 31 دسمبر 2021 تھی، جس میں توسیع کرتے ہو ئے 15 مارچ 2022 کر دی گئی ہے۔

آج یہاں جاری ایک بیان میں یہ جانکاری دیتے ہوئے سینٹرل بورڈ آف ڈائریکٹ ٹیکس (سی بی ڈی ٹی) نے کہا کہ یہ فیصلے ٹیکس دہندگان اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کو کورونا کی وجہ سے درپیش مشکلات کے پیش نظر لیے گئے ہیں۔

سی بی ڈی ٹی نے کہا کہ مالی سال 2020-21 کے لیے مختلف آڈٹ رپورٹس داخل کرنے کی آخری تاریخ جو 15 جنوری کو ختم ہوتی ہے اب اسے بڑھا کر 15 فروری 2022 کر دیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں ایک سرکلر جاری کر دیا گیا ہے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...