Powered By Blogger

ہفتہ, جنوری 15, 2022

پٹنہ (عبد الرحیم برہولیاوی)ادب کو اعلیٰ اخلاقی اقدارکے فروغ کا ذریعہ ہونا چاہیے: مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسی

پٹنہ (عبد الرحیم برہولیاوی)ادب کو اعلیٰ اخلاقی اقدارکے فروغ کا ذریعہ ہونا چاہیے: مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسی

 کون سی بات کس طرح، کس فورم او رکس ہیئت میں کہی جا رہی ہے ، اس سے زیادہ اہم یہ ہے کہ کیا کہا جا رہا ہے ؟ ادب میں کیا کہا جا رہا ہے اس پر اگر دھیان دیا جائے تو وہ اعلیٰ اخلاقی اقدار کے فروغ کا ذریعہ بن سکتا ہے، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ادب کے مختلف اصناف کو بنیے کا روزنامچہ یا واعظ کی تقریر کے طور پر پیش کیاجائے۔ یقینا یہ بھی ایک کام ہے، لیکن بات ادب کی جس صنف میں کہی جائے اس کے اصول ، اسلوب اور طریقوں کو بھی ملحوظ رکھنا ضروری ہے ، تاکہ ادب، ادب باقی رہ سکے، ان خیالات کا اظہار کاروان ادب، اردو میڈیا فوم کے صدر او راردو کارواں کے نائب صدر مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نے ڈاکٹر ممتاز احمد خان کی کتاب ’’دُر دِ تہہ جام‘‘ اور ڈاکٹر لطیف احمد خان کی کتاب ’’عزیز بگھروی ایک انقلابی شاعر‘‘ کے اجراء کے موقع سے ساجدہ منزل باغ ملی حاجی پور کے ہال میں صدارتی خطاب کے دوران کیا، انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر ممتاز احمد خان ایک اچھے انسان ، بہترین استاذ، نامور محقق اور مشہور نقاد تھے، ان کی زندگی تمام جہتوں سے قابل تعریف، لائق تحسین وتقلید رہی ہے، اس موقع سے ’’درُد تہہ جام‘‘ پر اپنا طویل تبصرہ نوجوان قلم کار ڈاکٹر عارف حسن وسطوی اور’’ عزیز بگھروی ایک انقلابی شاعر‘‘ پر تبصرہ مشہور ادیب وناقد جناب انوار الحسن وسطوی نے پیش کیا، جنہوں نے تقریب کی نظامت کے فرائض بھی ا نجام دیے، مہمان خصوصی کی حیثیت سے شریک جناب امتیاز احمد کریمی نے ڈاکٹر ممتاز احمد خان کو نا قابل فراموش شخصیت قرار دیا، انہوںنے اپنے جائزہ میں بتایا کہ اردو اساتذہ کی نوے فی صد جگہیں ویشالی میں آج بھی خالی ہیں، مہمان اعزازی کے طور پر جناب اسلم جاوداں، ڈاکٹر کامران غنی صبا اور ڈاکٹر ابو الحیات سیوان نے بھی اپنے خطاب سے نوازا، جس میں ’’ڈاکٹر ممتاز احمد خان کی شخصیت اور ان کے فکر وفن‘‘ پر روشنی ڈالی گئی، پروگرام کا آغاز امام مدینہ مسجد باغ ملی کی تلاوت کلام پاک اور اختتام مفتی صاحب کی دعا پر ہوا، ویشالی ضلع کے مختلف علاقوں سے علم دوست حضرات کی بڑی تعداد نے اس میں شرکت کی، جن میں ظہیر نوری ، نذر الاسلام نظمی ، ماسٹر مظہر، عظیم الدین انصاری، ڈاکٹر ذاکر حسین ، مولانا نظر الہدیٰ قاسمی، عبد الرحیم صاحب ریٹائرڈ جج، ماسٹرعبد الرحیم، مظہر وسطوی، قمر اعظم صدیقی ، ماسٹر محمد فداء الہدیٰ وغیرہ نے شرکت کی۔

زہریلی ہوا مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

زہریلی ہوا 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
کورونا اور اومیکرون کے ساتھ ان دنوں بہار کو زہریلی ہوا کا بھی سامنا ہے، پہلے سے ہی ہوا میں دھول اور دھوئیں کے باریک ذرات ہواؤں میں گھلے ہوئے ہیںجو سانس لینے کی صلاحیت کو متاثر کررہے تھے، اب ایک خطرناک گیس جسے این او -۲(نائٹروجن ڈائی اکسائڈ) کا نام دیا گیا ہے ، بہار کی ہواؤں میں شامل ہو گئی ہے، با خبر ذرائع کے مطابق این او -۲ کی مقدار ہوا میں اسی (۸۰) مائیکرو گرام تک قابل بر داشت ہے، لیکن بہار کے مختلف شہروں میں یہ گیس زیادہ مقدار میں تحلیل ہو گئی ہے، جس کی وجہ سے بہت سارے شہروں کی ہوا صحت کے اعتبار سے زہریلی ہو گئی ہے، اتوار کی صبح تک اس گیس کی مقدار راجگیر میں پنچانوے (۹۵) ، سیوان میں ۱۲۶، آرا میں ۱۶۱، بتیا میں ۱۲۴، بھاگلپور میں ۱۳۳، بہار شریف میں ۱۵۶، بکسر میں ۱۸۷، ارریہ میں ۱۰۷، گیا میں ۱۹۱، مظفر پور میں پنچانوے، پٹنہ میں ۱۳۸ مائیکرو گرام ہر ایک کیوبک میٹر میں شامل تھا، این او - ۲، کے علاوہ بہار کی ہوا میں اوزون، کاربن مونو آکسائڈ اور ایس  او - ۲ کی مقدار بھی لگاتار بڑھتی جا رہی ہے ۔
 مرکزی فضائی آلودگی کنٹرول بورڈ کی رپور ٹ کے مطابق ان حالات کی وجہ سے ارریہ ، بتیا، بھاگلپور، دربھنگہ ، کٹیہار ، موتی ہاری ، مونگیر ،پورنیہ، سہرسہ کی ہوا خراب ، جب کہ آرہ ، بہار شریف، بکسر ، گیا حاجی پور، کشن گنج، مظفر پور ، پٹنہ، راجگیر، سہسرام اور سیوان کی ہوا بہت خراب ہے۔
 بہار کی ہوا میں جونائٹروجن ڈائی اکسائڈ پایا گیا ہے یہ ایک خطرناک گیس ہے جو تیزی سے فضا کو آلودہ کرتا ہے، اس کا اثر انسانوں کے سانس لینے کی صلاحیت کے ساتھ دوسرے اعضاء پر بھی پڑتا ہے، جس کی وجہ سے کئی امراض پید اہو سکتے ہیں۔
 فضاکو آلودہ کرنے میں کوئلہ ، پٹرولیم اور اس سے متعلق مصنوعات ، کھیتی کے باقیات ، قدرتی گیس اور کچڑوں کا بڑا دخل ہوتا ہے ، جنہیں ہم کروڑوں ٹن کے حساب سے جلاتے اور استعمال کرتے ہیں، ہمیں فضا کو آلودگی سے بچانے کے لیے ان چیزوں کے استعمال اور ان سے خارج ہونے والے ذرات اور دھول کو قابو کر نے کی کوئی شکل سوچنی ہوگی، اس کے بغیر بظاہر کوئی شکل ہوا سے زہریلے ذرات کو کم کرنے کی سمجھ میں نہیں آتی،ہمیں جلد ہی کچھ کرنا چاہیے تاکہ اس کے زہر یلے اثرات سے بچنا ممکن ہو سکے، جب تک ہم کچھ نہیں کر پاتے ،تب تک ماسک لگائیے، یہ زہریلے ذرات کو پھیپھڑے تک پہونچنے نہیں دے گا، اسباب کے درجہ میںکورونا اور اومیکرون سے بھی محفوظ رکھے گا۔

سيرت النبئ کے مطابق زندگی گذارنے کی تلقین بھینسہ میں ایس آئی او کا ووکیشنل کیمپ ، محمد اقبال حسین و دیگر کا خطاب

سيرت النبئ کے مطابق زندگی گذارنے کی تلقین بھینسہ میں ایس آئی او کا ووکیشنل کیمپ ، محمد اقبال حسین و دیگر کا خطاببھینسہ : بھینسہ میں طلبہ تنظیم ایس آئی او کی جانب سے تین روزہ ووکیشنل کیمپ کا انعقاد عمل میں لاتے ہوئے کلاسیس کے ذریعہ طلباء کی کردار سازی اور اسلام کے بنیادی باتوں سے واقف کروانے کا انتظام کیا گیا جس میں درسِ قرآن، درسِ حدیث، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت، صحابہ کی سیرت کے پہلوؤں کو اس پروگرام کا حصہ بنایا گیا علاوہ ازیں طلبہ کے لیے پریکٹیکل سیشن منعقد کرتے ہوئے نماز جنازہ کا طریقہ، وضو اور عیدین کی نماز کا طریقہ بھی عملی طور پر طلباء کو سکھایا گیا ساتھ ہی ساتھ کھیل کود کے مقابلے بھی منعقد کیئے گئے جس میں تیس سے ذائد طلبہ نے حصہ لیا جس پر اختتامی پروگرام میں طلبہ کو مومنٹوز ، اسنادات اور انعامات سے نوازا گیا اس تقریب میں محمد اقبال حسین سابقہ قومی صدر ایس آئی او نے طلبہ کو نصیحت آموز مشورے پیش کرتے ہوئے کہا کہ ایس آئی او طلباء و نوجوانوں کو اسلامی تربیت فراہم کرتی ہے اور ایک مثالی طالب علم یا مثالی نوجوان بنانے کی کوشش کرتی ہے اور کہا کہ ایک اچھا مسلمان بننے کے لئے اسلام کو مکمل جاننے کی کوشش کریں مطالعہ کے ذوق کو پروان چڑھائیں والدین کی عزت اور استاد کا احترام کریں تعلیمی میدان میں آگے بڑھیں تب ہی ہم اسلام کو لوگوں کے سامنے پیش کرسکتے ہیں جبکہ ضلعی صدر ایس آئی او عبدالصمد نے درسِ قرآن پیش کیا امیر مقامی جماعت اسلامی بھینسہ الیاس احمد راحل نے حیاتِ طیبہ پر خطاب کیا اور طلباء سے کہا کہ وہ اللہ کے نبی کی سیرت کو پڑھیں اور اسکے مطابق اپنی ذندگی کو گذاریں جو ہمارے لیئے تا قیامت ایک نمونہ ہے آخر میں مجاہد احمد فراز صدر ایس آئی او بھینسہ نے اختتامی کلمات ادا کرتے ہوئے ایس آئی او کی کارکردگی پیش کی اور طلباء کو تنظیم سے وابستہ ہوکر مزید مستحکم کرنے کی خواہش کی اس تقریب میں برادر فرحان احمد (یونٹ سکریٹری) ، برادر برکت علی ، زبیر احمد ، شیخ زیشان کے علاوہ ممبران اور طلبہ کی کثیر تعداد موجود تھی

*آسان و مسنون نکاح کا عملی نمونہ* *دارالعلوم رحمانی زیرونائل کی جامع مسجد میں آسان و مسنون عقد نکاح*#محمداطہرالقاسمی14/جنوری 2022

*آسان و مسنون نکاح کا عملی نمونہ* 

*دارالعلوم رحمانی زیرونائل کی جامع مسجد میں آسان و مسنون عقد نکاح*

#محمداطہرالقاسمی
14/جنوری 2022
_________________________
آسان و مسنون نکاح کے لئے تقریریں کرنا،تحریری مضامین لکھنا اور اس کے لئے مہم اور تحریک چلانا بہت آسان ہے۔لیکن اس کا آغاز اپنے گھرانے سے کرنا انتہائی مشکل ترین کام ہے۔آج اس مشکل کام کو آسان کرتے ہوئے مولانا محمد الیاس شمسی بوچی ارریہ کے فرزند ارجمند مولانا محمد تنظیم قاسمی اور ماسٹر بختیار احمد ہاشمی ناظم اعلیٰ جامعہ عربیہ تعلیم القرآن بیلوا نے ایک خوبصورت مثال پیش کی ہے۔
یہ باتیں عقد نکاح سے قبل چند کلمات عرض کرتے ہوئے احقر محمد اطہر القاسمی نے کہی۔
اس مسنون عملی نکاح سے قبل دعائیہ کلمات کہتے ہوئے ناظم اعلیٰ دارالعلوم رحمانی زیرومائل ارریہ مفتی علیم الدین صاحب قاسمی نے کہاکہ آج کی مجلس سینکڑوں میں ایک ہے جبکہ ایسی آسان و مسنون نکاح کی مجلسیں جب تک سوفیصد منعقد نہیں ہوں گی نکاح میں خیر و برکت مقدر نہیں ہوگی۔
واضح رہے کہ ماسٹر بختیار احمد ہاشمی صاحب نے اپنی دختر نیک اختر کا عقد مسنون مولانا محمد تنظیم قاسمی کے ہمراہ کیا اور خود ہی نکاح بھی پڑھایا۔
اس نکاح کی خوبصورتی یہ تھی کہ دونوں طرف کے چند معزز احباب بعد نماز جمعہ یہاں مسجد میں جمع ہوئے اور مصلے پر بیٹھ کر چند دعائیہ کلمات کے ساتھ مجلس نکاح کی مسنون تقریب منعقد ہوگئی۔سب اپنی اپنی سوراری پر آگئے اور نوعروس کو اپنی دعاؤں سے نوازا۔چھوارے تقسیم ہوئے اور لوگ اپنی سواریوں سے اپنے گھر لوٹ گئے۔
نہ خوبصورت شادی کارڈ،نہ لمبی چوڑی دعوت،نہ شادیوں کے رسومات و لوازمات،نہ بینڈ باجے،نہ بارات،نہ بارات کی گاڑیوں کی لمبی قطار،نہ شامیانے نہ پنڈال اور نہ ہٹو بچو،نہ رکو رہو سنو کہو کے ہنگامے۔۔۔۔۔
آج میری آنکھیں ٹھنڈی ہوئیں کہ ایسا نکاح اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا اور خود کو اس لئے شریک مجلس کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا تھا کہ:
من احیا سنتی عند فساد امتی فلہ اجر مائۃ شہید۔۔۔
دل کی گہرائیوں سے مبارکباد اور نیک خواہشات۔۔۔
اس مسنون تقریب میں مولانا اظہار عالم قاسمی مچھیلا،
مفتی قمر الاسلام قاسمی بیلوا،مولانا اظہر قاسمی بیلوا،حافظ مظہر بیلوا،مولانا نور الاسلام ہاشمی بیلوا،حاجی منظور بوچی،ماسٹر ظفر مصوریہ،مکھیا مسعود بیلوا،مولانا عبد الرؤف قاسمی ڈوریہ،جناب محمد منصور بٹورباری،مولانا محمد علی ٹیسٹی دلی دربار زیرومائل،جناب محمد اسلام بلوات،جناب محبوب عالم بیلوا وغیرہ شریک ہوئے۔

جمعہ, جنوری 14, 2022

مرکزی وزیر ریلوے اشونی ویشنو جلپائی گوڑی پہنچ کر ریلوے حادثہ کا جائزہ لیا

مرکزی وزیر ریلوے اشونی ویشنو جلپائی گوڑی پہنچ کر ریلوے حادثہ کا جائزہ لیاکلکتہ: جلپائی گوڑی میں گوہاٹی بیکانیر ٹرین حادثہ کے بعد کل رات ہی کلکتہ پہنچ گئے تھے اور آج وہ اسپیشل ٹرین کے ذریعہ جائے حادثہ مینگوری پہنچ گئے ہیں ان کے ساتھ ریلوے بورڈ کے چیئرمین، ریلوے بورڈ کے ڈی جی)سیفٹی( بھی موجود ہیں مرکزی وزیر ریلوے اشونی ویشنونے نامہ نگاروں کو بتایا کہ جائے حادثہ تکنیکی خرابی کی وجہ سے ہواہے اور اس بات کی تحقیق کی جارہی ہے لاپرواہی کہاں پر ہوئی ۔تکنیکی خرابی کی شناخت پہلے کیوں نہیں کی تھی ۔کس حصے نے کا م کرنا چھوڑ دیا تھا ۔ٹرین ڈرائیور سے بھی تحقیق کی جاری ہے۔
اس حادثے کے پیچھے کوئی سازش ہے؟اس سوال کے جواب میں مرکزی وزیر ریلوے نے کہاکہ ابھی یقینی طور پر کچھ کہنا ممکن نہیں ہے۔ میں یہاں حادثے کی اصل وجہ جاننے آیا ہوں۔ تحقیقات بھی شروع کر دی گئی ہیں۔ وزیراعظم اس معاملے پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ میں بھی وزیر اعظم نریندر مودی سے رابطے میںہوں۔

موسم کا قہر مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

موسم کا قہر 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
 دسمبر اور جنوری کے مہینے سخت ٹھنڈ کے لیے مشہور ہیں، کپکپانے والی سردی ، یخ بستہ ہوائیں، انسان کوٹھٹھرا کر رکھ دیتی ہیں، زندگی رک سی جاتی ہے، کہاسے کی وجہ سے گاڑیوں پر بریک لگ جاتی ہے اورہوائی سروسیں متاثر ہوتی ہیں، ہندوستانی ریل تاخیر سے چلنے میں دنیا میں اپنی ایک شناخت رکھتی ہے، کہاسے کی وجہ سے تاخیر کے ساتھ چلنے والی ٹرینوں کو کثرت سے رد کیا جاتا ہے، سروس معطل ہونے کی وجہ سے پریشانیوں میں اضافہ ہو تا ہے او رنقل وحمل میں دشواریاں پیش آتی ہیں۔
یہ موسم مزدوروں، مفلسوں اور غریبوں کے لیے بڑا سخت ہوتا ہے، ان کے پاس پہننے اوڑھنے کے لیے مناسب کپڑے نہیں ہوتے، ٹھنڈک کو بر داشت کرنا ان کے لیے جان جوکھم میں ڈالنے کے مترادف ہوتا ہے، کثرت سے اموات ہوتی ہیں اور خاندان اجڑ جاتا ہے ۔
 ایسے موقعوںسے اسلامی تعلیمات یہ ہیںکہ جن کو اللہ نے مال ودولت سے نوازا ہے اور جن کے پاس ٹھنڈ کا مقابلہ کرنے کے لیے وافر سامان موجود ہے، وہ ان غریبوں ، بے کسوں کی بھی خبر گیری کریں، ان کی ضرورتوں کا خیال رکھیں اور ان کے راحت وآرام کے لیے فکر مند ہوں، پڑوس میں کوئی ٹھنڈ سے پریشان نہ ہو ،یہ تو پڑوسیوں کے حقوق کے تحت آتا ہے، لیکن اس دائرہ کو وسائل کے اعتبار سے وسیع سے وسیع ترکرنا چاہیے، اور زیادہ لوگوں تک پہونچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
امارت شرعیہ بہار اڑیسہ وجھارکھنڈ کی فکر مندی اس سلسلے میں مثالی رہی ہے، ہر سال ہزاروں کی تعداد میں تینوں صوبوں کے غرباء میں کمبل کی تقسیم کی جاتی ہے، اس کام کے لیے امارت شرعیہ کے پھیلے ہوئے نیٹ ورک کا استعمال کیا جاتا ہے، نقباء امارت شرعیہ ، ذیلی دفاتر اور قضاۃ حضرات کے توسط سے گاؤں گاؤں تک کمبل پہونچایا جاتا ہے، پھر بھی ہمارا احساس ہے کہ وسائل کی قلت کی وجہ سے جس بڑے پیمانے پر لوگوں تک ہمیں پہونچنا چاہیے، ہم نہیں پہونچ پاتے ہیں، اس کے لیے ضروری ہے کہ ہر گاؤں میں کچھ لوگ کھڑے ہوں اور مقامی آبادی کا سروے کرکے وہاں کے مالداروں کو اس کام پر ابھاریں ان سے وسائل حاصل کریں اور غرباء تک پہونچائیں۔  تُؤْخَذُ مِنْ اَغْنِیَائِھِمْ وَتُرَدُّ عَلَی فُقَرَائِھِمْ  ان کے مالداروں سے لو اور وہاں کے محتاجوںتک پہونچاؤ۔
 امارت شرعیہ نے اپنی سطح سے یہ کام شروع کر دیا ہے ، اور غرباء تک کمبل پہونچا یا جا رہا ہے، لیکن ضرورت ہے کہ اہل خیر حضرات اس کام کے لیے متوجہ ہوں اور بیت المال امارت شرعیہ میں خاص اس کام کے لیے رقم فراہم کرائیں تاکہ امارت شرعیہ راحت رسانی کا کام بڑے پیمانے پر کر سکے۔

جمعرات, جنوری 13, 2022

مولانا محمد یوسف اصلاحیمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

مولانا محمد یوسف اصلاحی
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
نامور ، معتبر، مستند عالم دین، اچھے منتظم، بہترین مدبر، مفسر، محقق،جامعۃ الصالحات رام پور کے سابق ناظم موجودہ سرپرست، مرکزی درسگاہ اسلامی رامپور کے صدر، ماہنامہ ذکریٰ کے مدیر،پانچ درجن سے زائد کتابوں کے مصنف ، آداب زندگی سکھانے والا داعی، اور دلوں میں گھر کر جانے والا مقرر، جماعت اسلامی ہند کی مجلس شوریٰ اور مجلس نمائندگان کے رکن مولانا محمدیوسف اصلاحی نے ۲۱؍ دسمبر ۲۰۲۱ء کو رات کے سوا بجے نوئیڈا کے فورٹس اسپتال میں آخری سانس لی، وہ گذشتہ ایک ماہ سے شدید تنفس اور عارضہ قلب میں مبتلا تھے، مراد آباد کے ایک اسپتال میں شروع میں داخل کیا گیا تھا، بعد میں بہتر علاج کے لئے نوئیڈا لایا گیا، لیکن موت کا توکوئی علاج ہی نہیں ہے ، وقت موعود آیا اور ملک الموت لیکر چلتا بنا، یہی زندگی کی حقیقت ہے۔
ان کی نماز جنازہ مرکزی درس گاہ اسلامی کے قریب شادی گھر میں ان کے صاحب زادہ جناب سلمان صاحب نے پڑھائی، اور مسجد قلاش کے قریب والے قبرستان میں تدفین عمل میں آئی، پس ماندگان میں پانچ صاحب زادگان، سعید اختر، سعد، سعود،سلمان ، سلیم اور دو لڑکیوں کو چھوڑا، اہلیہ پہلے ہی رخت سفر باندھ چکی تھیں۔
 مولانا محمد یوسف اصلاحی بن مولانا عبد القدیم خان کی پیدا ئش ۹؍ جولائی ۱۹۳۲ء کو بریلی اتر پردیش کے ایک اعلیٰ خانوادے میں ہوئی، بعضوں نے جائے پیدائش پر ملی ضلع اٹک موجودہ پاکستان لکھا ہے، جو صحیح نہیں معلوم ہوتا، والد تفسیر وحدیث کے بڑے عالم؛ بلکہ شیخ الحدیث تھے، تجوید، حفظ قرآن اور عربی کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہی حاصل کرنے کے بعد بریلی اسلامیہ کالج سے ہائی اسکول کا امتحان پاس کیا، والد کی خواہش عالم بنانے کی تھی، اسلئے ان کا داخلہ مظاہر علوم سہارن پور میں کرادیاگیا، دو سال تک وہاں زیر درس رہے، گھر آئے تو ان کے محلہ کا ایک درزی میر راہ کوئی کتاب ان کے حوالہ کرتا، مولانا اسے لے جا کر رکھ دیتے، اور کچھ دن کے بعد واپس کر دیتے، وہ کوئی دوسری کتاب دیتا، ایک دن مولانا نے اس کی دی ہوئی کتاب اٹھا کر پڑھنا شروع کیا، یہ مولانا مودودی کی تنقیحات تھی، اس کتاب کے مطالعہ کی وجہ سے ان کی ذہنی رو جماعت اسلامی کی طرف گئی اور انہوں نے مظاہر علوم چھوڑ کر مدرسۃ الاصلاح سرائے میر اعظم گڈ ھ میں داخلہ لے لیا، وہاں انہیں مولانا اختر اصلاحی اور مولانا امین احسن اصلاحی کی شاگردی میسر آئی، جنہوں نے انہیں قرآن کریم کے رموز ونکات سمجھائے اور اس فن میں انہیں خصوصی درک حاصل ہوا، اچھے نمبرات سے سند فضیلت حاصل کی ، دوران طالب علمی ہی میں جماعت اسلامی کے رجحانات وخیالات ان کے اوپر حاوی ہو گیے اور وہ عملی طور پر جماعت اسلامی کی تحریک سے جڑ گیے، عمر کے اکیس سال ہی پورے ہوئے تھے کہ آپ ۱۹۵۳ء میں جماعت اسلامی کے رکن بن گیے، جماعت اسلامی کے افکار میں بہت سارے اتار چڑھاؤ آئے ، لیکن مولانا نے پچیس سال کی عمر میں جو وابستگی اختیار کی تو پوری زندگی اس سے جڑے رہے۔
 مولانا کی پہلی تصنیف ’’آداب زندگی‘‘ صرف بیس سال کی عمر میں سامنے آئی، جس نے اہل علم طبقہ کے ساتھ عوام کو بھی مولانا کا گرویدہ بنا دیا، اس تصنیف کی بے انتہا پذیرائی ہوئی اور اس کتاب نے ملک وبیرون ملک میں انسانی زندگی میں بڑی تبدیلیاں پیدا کیں، مدرسۃ الاصلاح سے فراغت کے بعد آپ نے اپنا میدان عمل رام پور کو بنایا ؛کیونکہ جماعت اسلامی کا علمی مرکز ان دنوں وہیں تھا، ادارہ تصنیف اسلامی کے نام سے قائم اس ادارہ کے ذمہ دار مولانا صدر الدین اصلاحی تھے، مولانا فاروق خان ، مولانا جلال الدین انصر عمری اس کے ارکان تھے، مولانا محمد یوسف اصلاحی بھی اس ادارہ سے جڑ گیے اور تصنیف وتحقیق کے کاموں میں مصروف رہے، جب ۱۹۷۰ء میں یہ ادارہ تحقیق وتصنیف اسلامی کے نام سے پان والی کوٹھی دودھ پور علی گڈھ منتقل ہوا تو مولانا نے وہاں جانے سے معذرت کرلی، رام پور میں ہی تجارت شروع کی اور علمی کاموں میں مشغول رہے۔ ۱۹۷۲ء میں ایک مکتبہ اور ادارہ ذکریٰ قائم کیا جس سے ماہنامہ ذکریٰ نکالنا شروع کیا، اب اسے ان کے صاحب زادگان دیکھتے ہیں۔
 رام پور میں مولانا ابو سلیم عبد الحئی ؒ نے ایک مدرسہ بچیوں کی تعلیم کے لیے قائم کیا تھا، مولانا کے انتقال کے بعد جناب توسل حسین صاحب اس کے ذمہ دار منتخب ہوئے، ان کے دنیا سے چلے جانے کے بعد یہ ذمہ داری مولانا محمد یوسف اصلاحی کے سپرد ہوئی، اور مولانا نے اپنی خدا داد صلاحیت سے جامعۃ الصالحات رام پور کو ملک وبیرون ملک میں نہ صرف متعارف کرایا، بلکہ لڑکیوں کی تعلیم کے لیے اس کی شناخت معیاری تعلیمی ادارہ کی حییثت سے سامنے آئی یہ ادارہ آج بھی سر گرم عمل ہے۔ ۱۹۷۵ء میں اس ادارہ کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تو آپ اس کے صدر منتخب ہوئے اور پوری زندگی اس ادارہ کی سر پرستی کرتے رہے۔
مولانا نے قرآن واحادیث ، سیرت وفقہ اور دیگر موضوعات پر کم وبیش ساٹھ کتابیں تصنیف کیں، ان میں اسلوب کی سادگی، مواد کی فراوانی اور تفہیم کا ملکہ اس قدر ہے کہ ان کتابوں کے کئی کئی ایڈیشن نکل چکے، ان میں سے کئی کتاب کا دوسری زبان میں ترجمہ بھی ہو چکا ہے۔ مولانا نے مختلف ملکوں کے دعوتی اسفار بھی کیے، انگلینڈ، امریکہ ، جاپان، آسٹریلیا اور خلیج کے کئی ممالک میں ان کا آنا جانا ہوا کرتا تھا، بر صغیر ہند وپاک اور بنگلہ دیش کے اسفار بھی مولانا نے کثرت سے کیے۔
مولانا کی زندگی سادگی کا مرقع تھی، ان کی تقریروں میں بھی سادگی کی جھلک تھی،وہ مرصع اور بھاری الفاظ کے استعمال سے گریز کرتے تھے، ان کی تقریروں میں خطیبانہ گھن، گرج، الفاظ کا زیرو بم اور جسمانی حرکات وسکنات (باڈی لنگویج) کا استعمال کم ہوتا تھا، لیکن بات بڑی مؤثر ہوتی تھی، جس سے سامعین کو بہت فائدہ پہونچتاتھا۔
مولانا مرحوم دیکھنے میں نحیف الجثہ تھے، لیکن انکی جسمانی کیفیت کا اثر ان کے کاموں پر بالکل نہیں پڑتا تھا، ان کا چہرہ بڑا با رونق، پر کشش اور پر نور تھا، اس میں ایک مقناطیسی چمک پائی جاتی تھی ، جس کی وجہ سے جلد ہی لوگ ان کے قریب ہی نہیں گرویدہ ہوجاتے تھے، ان کی اس بارعب شخصیت میں ان کی جامہ زیبی کا بھی دخل تھا، سردی ہو یا گرمی ہر موقع سے شیروانی، آنکھوں پر چشمہ اور سر پر کشتی نما ٹوپی ہوا کرتی ، قرآن کریم کی تلاوت اس انداز میں کرتے کہ لوگوں پر ایک کیفیت طاری ہوجاتی، ان کی رہائش رام پور میں گھیسر سیف الدین خان میں تھی، وہ محلہ کی مسجد میں جب موجود ہوتے تو پابندی سے امامت کرتے، فجر کی نماز میں ان کی تلاوت کا خاص اثر مقتدیوں پر ہوا کرتا تھا، وہ صرف نماز پڑھانے پر اکتفا نہیں کرتے، جماعت اسلامی کی جانب سے درس قرآن، درس حدیث وغیرہ کا جو سلسلہ جاری ہوتا اس کا بھی اہتمام کرتے او رمقتدیوں کی ذہنی تشکیل اور اسلامی اقدار کے ساتھ ان کی تربیت کے فرائض انجام دیتے، وہ اقبال کے لفظوں میں صرف دو رکعت کے امام نہیں تھے۔
 مولانا اب اس دنیا میں نہیں ہیں، مولانا نے طویل عمر پائی اور پل پل دین کی خدمت میں صرف کیا، مواقع بہت آئے، لیکن رام پور کو جو مستقر بنایا تو آخری سانس تک اس سے رشتہ نہیں توڑا، اللہ نے آپ کے کام میں برکت عطا فرمائی ، اور اب وہ اسی خدا کے پاس گیے ہیں، جس کے لیے پوری زندگی وہ کام کرتے رہے، یقینا اللہ کی رحمت و مغفرت نے بڑھ کر استقبال کیا ہوگا، فادخلی فی عبادی وادخلی جنتی کے مژدہ نے پوری زندگی کی تکان کو دور کر دیا ہوگا۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...