Powered By Blogger

منگل, جنوری 25, 2022

دم توڑتی جمہوریت مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

دم توڑتی جمہوریت 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ(9431003131)
 ۲۶؍ جنوری کو ہر سال ہم لوگ جشن جمہوریت مناتے ہیں، سرکاری ونجی دفاتر، اسکول ، تعلیمی ادارے اور ملک کی عوام اس جشن کا حصہ بنتے ہیں، لاک ڈاؤن سے قبل انڈیا گیٹ پردہلی میں بڑا پروگرام ہوا کرتا تھا، جس میں شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے ساتھ ہم اپنی دفاعی قوت وطاقت اورہندوستان کی تہذیب وثقافت کو مختلف قسم کی جھانکیوں کے ذریعہ دیکھا کرتے تھے، لاکھ ڈاؤن کے زمانہ میں بھی یہ قومی تہوار منایا جاتا ہے، لیکن عوام کی بھیڑ اور شا ن وشوکت میں بڑی کمی آگئی ہے، پل پل کی خبروں اور مناظر کے ٹیلی ویزن پر نشر کرنے کی وجہ سے عوام انڈیا گیٹ پر جانے کے بجائے ٹی وی سے چپک کر بیٹھ جاتی ہے اور وہاں جانے کی زحمت کے بغیر پل پل کو اپنی نظروں میں قید کر لیتے ہیں جو شاید وہاں جا کر کسی حال میں ممکن نہیں ہے۔
۱۹۵۰ء میں اسی تاریخ کو ملک میں جمہوری دستور نافذ ہوا تھا، اور ہم نے یہ عہد لیا تھا کہ ہم اس ملک میں جمہوری قدروں کی حفاظت کریں گے، اس ملک کی گنگا جمنی تہذیب مختلف مذاہب اور ثقافت کے آمیزہ سے تیار اس ملک کے کلچر کو ضائع نہیں ہونے دیں گے، ملک کو اس مقام ومرتبہ تک پہونچانے کے لیے تمام مذاہب کے لوگوں نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا تھا، جیل کی صعوبتیں بر داشت کی تھیں، ان میں شیخ الہند مولانا محمود حسن دیو بندی بھی تھے، اور شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی بھی، مولانا ابو المحاسن محمد سجاد بھی تھے او رحضرت مولانا منت اللہ رحمانی بھی، مولانا عبید اللہ سندھی بھی تھے اور اشفاق اللہ خان بھی، چندر شیکھر بھی تھے اور رام پرشاد بسمل بھی، مولانا ابو الکلام آزاد بھی تھے اور موہن داس کرم چندگاندھی بھی ، کھودی رام بوس بھی تھے اور مولانا حسرت موہانی بھی، آزاد ہند فوج کے نیتاجی سبھاش چندر بوس بھی تھے اور کرنل محبوب بھی، شاہ نواز بھی تھے اور مولانا شفیع داؤودی بھی، مولانا مظہر الحق بھی تھے اور جواہر لال نہرو بھی، کس کس کا ذکر کروں اور کس کو چھوڑوں ، سب کی قربانیاں تھیں، ہاں یہ بات ضرور ہے کہ مسلمان اس جد وجہد میں ۱۷۵۷ء سے شریک تھے اور دوسرے ۱۸۵۷ء سے، ہماری قربانیاں ایک سو سال پہلے سے جاری تھیں، لیکن جب ملک آزاد ہوا تو سب سے پہلے ہم ہی بھلا دیے گیے ، بھلانے کا یہ کام اس قدر آگے بڑھ گیا ہے کہ ان شہیدوں کی یاد میں جو آثار قائم تھے ان کا نام بھی بدلا جا رہا ہے اور یہ سب اس ملک میں ہو رہا ہے، جس کی جمہوریت دنیا کی بڑی جمہوریت ہے، اور ہم جس پر فخرکرتے نہیں تھکتے۔ 
آج جب ہم تہترواں جشن جمہوریت منا رہے ہیں تو ہمارے ملک میں جمہوریت دم توڑ رہے، جمہوریت کے چاروں ستون انتظامیہ مقننہ، عدلیہ اور میڈیا جمہوری اقدار کی حفاظت کے لیے جو کچھ اور جتنا کچھ کر سکتے تھے، وہ ہو نہیں پار ہا ہے، مقننہ میں ایک خاص فکر کے لوگوں کا غلبہ ہو گیا ہے، بیورو کریٹ اور انتظامیہ بھی اسی رخ پر کام کررہی ہے جو حکمراں طبقہ چاہتاہے، الناس علی دین ملوکھم کا یہی مفہوم ہے،میڈیا بک چکی ہے، وہ نہ تو غیر جانبدار ہے نہ حق کی طرفدار، اب وہ صرف وہی لکھتا چھاپتا ، سناتا اور دیکھا تا ہے جو اس کے خریدار کہتے ہیں، رہ گئی عدلیہ، بھلی بُری توقعات اسی سے وابستہ ہیں، اور واقعہ یہ ہے کہ اب جمہوریت کی بقا کے لیے اسی کو کام کرنا ہے، ورنہ سمجھئے جمہوریت کا کام اس ملک سے تمام ہوجائے گا، جس کی آواز مختلف سطح سے ہندو راشٹر کے عنوان سے مسلسل اٹھ رہی ہے اور بی جے پی کی اصلی قیادت کرنے والی آر اس اس نے اسی سمت میں کام تیزی سے شروع کر دیا ہے، دھرم سنسد میں مسلمانوں کے قتل عام کے لیے لوگوں کو تیار کیا جا رہا ہے، اسلحے تقسیم کیے جا رہے ہیں، تاریخ بدلی جا رہی ہے ، اقدار بدلے جا رہے ہیں، تعلیمی پالیسی بدل گئی ، بابری مسجدکی جگہ رام مندرکی تعمیر ہو رہی ہے، گیان واپی مسجد اور متھرا کی عیدگاہ پر فرقہ پرستوں کی نگاہ ہے، ایسے میں جمہوریت اس ملک میں انتہائی نازک دو رسے گرزررہی ہے ۔
 اس دم توڑتی جمہوریت کی حفاظت کے لیے عوام کو آگے آنے کی ضرورت ہے، لیکن وہ اس لیے آگے نہیں آ پا رہی ہے کہ اسے ہندوتوا کا سبق مضبوطی سے پڑھایا گیا ہے، پرانے لوگ ضرور سیکولر ہیں، لیکن نئی نسلوںمیں مختلف ذرائع سے دل ودماغ میں مسلمانوں کے خلاف جو نفرت بھر دی گئی ہے اس کے رہتے ہوئے جمہوریت کی حفاظت ممکن نہیں، تھوڑی بہت امید دلت مسلم اتحاد سے ہے، وہ بھی وقوع پذیر ہو تب کی بات ہے۔

جمہوریت کی حفاظت ہر شہری کی ذمہ داری ہےساجد حسین ندوی

جمہوریت کی حفاظت ہر شہری کی ذمہ داری ہے
ساجد حسین ندوی


بھارت دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک ہے اور آبادی کے لحاظ کے یہ دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے۔ اگرپوری دنیا کی آبادی کو چھ حصوں میں تقسیم کیا جائے تو ان چھ حصوں میں ایک حصہ کی آبادی ملک ہندوستان کا ہوگا۔ دنیا کی کل آبادی کا 17.5فیصد کی آبادی ہندوستان میں پائی جاتی ہے۔آبادی کے اسی تناسب کو دیکھتے ہوئے اعداد وشمار کے ماہرین کا کہنا ہے کہ 2025تک بھارت آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک بن جائے گا۔
اسی طرح اس ملک میں مختلف مذاہب کا تنوع بھی پایا جاتاہے۔ اس ملک میں دنیا کے مختلف مذاہب کے پیروکار موجود ہیں ۔ یہاں مذہبی تنوع اور مذہبی اعتدال دونوں بذریعہ قانون قائم ہے۔ بھارت کے آئین میں واضح طور پر اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ یہاں جملہ مذاہب کے تمام لوگوں کو بلا کسی امتیاز اور تفریق کے اپنے مذہب پر عمل کرنے کا پورا پوراحق حاصل ہے۔
انگریز تاجر بن کر اس ملک میں آئے اوراپنی تجارت کو مضبوط ومستحکم کرنے کے لیے ایسٹ انڈیا کمپنی کی بنیاد رکھی۔ دھیرے دھیرے ہندوستان پر قابض ہوگئے اور سفید وسیاہ کے مالک بن گئے ۔ 1858سے لیکر 1947تک انگریزوں نے اس ملک میں حکمرانی کی ۔اس دوران انہوں نے یہاں کے باشندوں پر بڑی ظلم وزیادتی کی۔ جب ظلم وزیادتی حد سے تجاوز کرگئی تو باشندگان ہند نے ملکی اتحاد کے ذریعہ انگریزوں کو اس ملک سے نکالنے کا عزم مصمم کرلیااور بالآخر ان کی محنت رنگ لائی اور 15؍ اگست 1947 کویہ ملک انگریزوں سے آزاد ہوا۔
کسی بھی ملک یاحکومت کو چلانے کے لیے نظم ونسق اورقوانین کی ضرورت پڑتی ہے تاکہ وہ ملک اسی دستور اورآئین کی روشنی میں اپنے فرائض انجام دے سکے۔ آئین کسی بھی مملکت کا وہ اساسی قانون ہوتاہے جس کے بنیادی نظریات اندرونی نظم ونسق کے اصول اور مختلف شعبوں کے درمیان ان کے فرائض اور اختیارات کے حدود متعین کرتاہے۔ لہذا آزادی کے بعد ہمارے ملک کو بھی ایسے آئین کی ضرورت پیش آئی جو شہریوں کے حقوق کی حفاظت کرسکے اور ملک میں جوبھی قانون نافذ ہو، وہ اسی آئین کے تحت ہو۔ اسی کے پیش نظر ڈاکٹر بھیم راؤ امیبڈکر کی نگرانی میں ایک سات رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی ۔ اس سات رکنی آئین ساز کمیٹی نے 26نومبر1949کو دستور ہند مرتب کرکے حکومت کو سونپا پھر 26؍ جنوری 1950کو اس دستور کا نفاذ عمل میں آیا۔ اسی کے ساتھ حکومت ہند ایکٹ جو 1935سے نافذ تھا منسوخ ہوگیا اورہندوستان میں جمہوری طرز حکومت کاآغاز ہوا۔
پورے ملک میں 26؍ جنوری جشن ِیوم جمہوریہ کے طور پر منایاجاتاہے۔ زبان حال سے اس بات کا اعتراف کیاجاتاہے کہ ہندوستان دنیا کا واحد ملک ہے ،جہاں غیر مذہبی جمہوریت قائم ہے۔ اس جمہوریت کی سب سے امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ یہاں کے باشندوں کو اپنی حکومت منتخب کرنے کا بھرپور حق حاصل ہے۔ یہ دستور اپنے شہریوں کے حقوق کی حفاظت کرتی ہے۔یہاں کے تمام باشندو ں کو بلا تفریق مذہب وملت ایک مشترکہ جمہوریت کی لڑی میں پرودیا گیا ہے۔ اس میں تمام مذاہب کی اہمیت کا اعتراف کیا گیا ہے اور ہر مذہب کے پیروکاروں کو اپنے مذہب پر عمل پیرا ہونے کی پوری آزادی دی گئی ہے۔
لہذا جملہ باشندگان ہند کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ آئین ہند کی حفاظت کرے ، آئین کو ملک میں سربلند رکھے اور اسے پوری طرح ہر حالت میں نافذ العمل ہونے دے تاکہ جمہوری روایات کو مسلسل فروغ ملتارہے۔
ملک میں برسراقتدار حکومت کے عہدیداران اپنے فرائض کوقانون کے مطابق اداکریں، حتی کہ اگر کوئی اعلیٰ سے اعلیٰ افسر بھی انہیں قانون کے منافی عمل کرنے پر آمادہ کرے تو اس کا حکم ماننے سے صاف طورپر انکار کردے۔ کیونکہ آئین کی بالادستی کویقینی بنانا ریاست کے تینوں ستونوں عدلیہ،انتظامیہ اور مقننہ کا فرض ہے۔
آئین نے عدلیہ پربنیادی حقوق کے تحفظ کی بھاری ذمہ داری عائد کی ہے۔ لہذا عدل وانصاف کا عمل ملک میں وحدت اور اخوت وبھائی چارگی کا کا سب سے بہتر ذریعہ ہے۔ اس لیے عدلیہ کی ذمہ داری ہے کہ دستور ہند کے دائرے میں رہتے ہوئے باشندگان ہندکے مسائل کو سلجھانے کی کوشش کرے ۔ اور ملک کی فضا کو خوشگوار بنانے میں اہم کردار ادا کرے، تاکہ یہ ملک جس طرح آبادی اور جمہوریت کے لحاظ سے دنیا کے نقشے پردوسرے مقام پر ہے،اسی طرح یہ عدل وانصاف اور یہاں کے باشندوں کے حقوق کی حفاظت کے اعتبار سے بھی نمایا ں ہوں اور پوری دنیا میں اس کا شمار سب سے انصاف پسند ملک کے طور پر ہو۔

پیر, جنوری 24, 2022

دہلی میں 71 سال کا ریکارڈ ٹوٹ گیا ۔ 1950 کے بعد جنوری میں سب سے زیادہ بارش

دہلی میں 71 سال کا ریکارڈ ٹوٹ گیا ۔ 1950 کے بعد جنوری میں سب سے زیادہ بارشنئی دہلی : ہندوستان کے محکمہ موسمیات (آئی ایم ڈی) کے مطابق اس سال جنوری میں دہلی میں ہفتہ کی دیر رات ہونے والی بارش کے بعد کل 88.2 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی، جو 1950 کے بعد اس مہینے میں ہونے والی سب سے زیادہ بارش ہے۔ اتوار کو دہلی میں کم سے کم درجہ حرارت 10.5 ڈگری سیلسس ریکارڈ کیا گیا، جو معمول سے تین ڈگری زیادہ ہے۔ آئی ایم ڈی کے ایک اہلکار نے کہاکہ یہ 1950-2022 کے دوران جنوری کے مہینے میں سب سے زیادہ بارش ہے۔یکے بعد دیگرے دو مغربی ہوا کے دباؤ کے اثر کی وجہ سے دہلی میں 10 جنوری تک 63 ملی میٹر بارش ہو چکی تھی۔آئی ایم ڈی کے اعداد و شمار کے مطابق اس سے قبل دارالحکومت میں 1989 میں 79.7 ملی میٹر اور 1953 میں 73.7 ملی میٹر بارش ہوئی تھی۔ بارش کی وجہ سے قومی راجدھانی میں ہفتہ کو زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 14.7 ڈگری سیلسیس ریکارڈ کیا گیاتھا، جو اس موسم کے لیے معمول سے سات ڈگری کم تھا۔جنوری کے دوسرے ہفتے سے زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت معمول سے کم ہے۔ کم سے کم درجہ حرارت معمول سے زیادہ اور معمول کے قریب رہا۔اسکائی میٹ ویدر کے نائب صدر نے کہا کہ 9 جنوری سے 19 جنوری کے درمیان بنیادی طور پر ابر آلود موسم اور بارش کی وجہ سے کافی دیر تک دھوپ نہیں نکلی۔انہوں نے کہا کہ 7 جنوری سے 9 جنوری کے درمیان ہونے والی بارشوں سے ہوا میں نمی میں اضافہ ہوا جس کی وجہ سے کم درجہ حرارت کے درمیان دھند چھائی رہی۔ دھند کی وجہ سے 16 جنوری تک قومی دارالحکومت کے بڑے حصوں اور اس سے ملحقہ علاقوں میں سردی کی صورتحال برقرار رہی۔16 جنوری کے بعد سے ایک مغربی دباؤ کے اثر کی وجہ سے دن کا درجہ حرارت پھر گر گیا۔واضح ہو کہ ابر آلود آسمان اور بارش کی وجہ سے سورج کی کرن زمین تک نہیں پہنچ پا رہی ہیں جس سے دن کا درجہ حرارت کم ہو جاتا ہے۔

اتوار, جنوری 23, 2022

بدمزاجی -انسانی رشتوں کے لیے زہر قاتل مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب نائب امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

بدمزاجی -انسانی رشتوں کے لیے زہر قاتل 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب نائب امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ (9431003131)
 امیر شریعت سادس حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب ؒ فرمایا کرتے تھے کہ آپ کی صلاحیت بہت اچھی ہو، لیکن مزاج صحیح نہیں ہو تو لوگ آپ سے دور بھاگنے لگیں گے، بالکل اسی طرح جس طرح گُہمن سانپ کے لعل کے حصول کا خواہشمند ہر آدمی ہوتا ہے، لیکن اس کی جو پھُنکار ہوتی ہے اس سے ڈر کر آدمی اس کے قریب نہیں جاتا، اسی طرح با صلاحیت انسان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کی خواہش ہوتی ہے، لیکن اس کی بد مزاجی، بے قابو زبان اور بد اخلاقی کی وجہ سے انسان اس سے دوری بنائے رکھنے میں عافیت سمجھتا ہے، تاکہ وہ عزت نفس کے ساتھ جی سکے، جو لوگ بد مزاجوں سے قربت رکھتے ہیں، وہ کبھی بھی ذلیل ہو سکتے ہیں اور ان میں بے غیرتی کے جراثیم تیزی سے پروان چڑھنے لگتے ہیں۔
 نفسیات کی زبان میں ایسے لوگوں کو’’ ٹیکسک رویہ ‘‘کا انسان کہا جاتا ہے، اس رویہ میں صرف بُرے تجربات ہی شامل نہیں ہوتے، کچھ ایسے معاملات بھی ہو تے ہیں، جنہیں آپ معمولی سمجھ کر گزر جاتے ہیں، لیکن وہ آپ کے دل کے نہاں خانوں میں جگہ بنا لیتے ہیں، تحت الشعور میں دبی یہ چنگاریاں مایوسی اور تناؤ کی شکل میں باہر آکر دوسروں کو رسوا کرنے کا کام کرتی ہیں، اس لیے ایسے لوگوں کی شناخت کرکے انہیں اپنی زندگی سے نکال دینے میں ہی عافیت ہے ۔ اگر آپ ایسے لوگوں کو اپنی زندگی کا حصہ بناتے رہے تو اس کا بُرا اثر آپ کی خود اعتمادی پر پڑتا ہے، اگر آپ کسی بات کو سچ سمجھتے ہیں تو اسے سچ کہنے کا حوصلہ جٹائیے،ہمیشہ خاموش رہ جانا مسئلہ کا حل نہیں ہوتا ، کئی بار اہم معاملات پر اپنی رائے رکھنی بھی ضروری ہوتی ہے۔
جیسا کہ معلوم ہے بد مزاجی ایک رویہ ہے، رویہ انسانی شخصیت کا بیان ہوتا ہے، برطانیہ کے سابق وزیر اعظم سرونسنٹ چرچل(۱۹۶۵-۱۹۷۴) کے مطابق رویہ ایک معمولی سی چیز ہے، لیکن انسانی شخصیت میں اس کی بڑی اہمیت ہے۔ رویہ کا انحصار بڑی حد تک انسان کے اپنے طرز فکر پر ہوتا ہے، اگر وہ تکبر اور ترفع کا شکار ہے، ’’انا‘‘ کا اسیر ہے تو اس کے بدمزاج ہونے کے امکانات زیادہ ہیں، ایسے لوگ اپنے رویہ پر قابو پانے میں ناکام ہوتے ہیں، وہ اگر زبان سے کچھ نہ بولیں تو ان کے چہرے بولنے لگتے ہیں، ان کی بد مزاجی کے آثار ان کے چہرے سے ظاہر ہونے لگتے ہیں، ایسے لوگوں پر جذباتی تاثر فوری طور پر غالب آجاتا ہے، ان کی شخصیت کی سب سے بڑی کمزوری ان کی انفعالیت ہوتی ہے، ایسا شخص اخلاق عادات کے اعتبار سے مضبوط نہیں ہوتا، اپنا فائدہ نظر آئے تو کچھ بھی کر گذرتا ہے، انفعالیت دربار خداوندی میں تو اچھی چیز ہے، لیکن بندوں کی بارگاہ میں یہ شخصیت کی کمزوری کو نمایاں کرتا ہے۔
 بد مزاجی ایک منفی رویہ ہے، اس رویہ کا عادی شخص دوسرے کے کاموں میں خامیاں نکالنے اور تنقید کرکے نفسیاتی تسکین حاصل کرتا ہے۔ بد مزاج آدمی کا رویہ دھمکی آمیز بھی ہو سکتا ہے، وہ آپ کو نقصان پہونچانے کے درپے بھی ہو سکتا ہے، اس کے باوجودیہ یاد رکھنا چاہیے کہ بد مزاجی فطرت نہیں ہے، جسے بدلا نہ جا سکے، یہ ایک چال چلن ہے، جسے مثبت رویہ اور صحیح سوچ کے ذریعہ بدلا جا سکتا ہے، اپنی سوچ کو مثبت اور غیر ضروری اندیشوں کے خول سے باہر لائیے، دوسروں کا اکرام واحترام کیجئے، ان کی باتوں کو غور سے سنئے اور جو درست ہوں ان کو اہمیت دیجیے اور اس پرعمل کیجئے، بد مزاجی ختم ہوجائے گی، لیکن اگر کوئی شخص ہٹلر اور مسولنی کی طرح ڈِکٹیٹر بن کر بد مزاجی ختم کر نا چاہے تو یہ ناممکن العمل ہے، اس کا علاج صرف رویوں میں تبدیلی ہے۔ رویے مثبت ہوں گے تو بد مزاجی ختم ہوگی، منفی ہوں گے تو تبدیلی کبھی نہیں آئے گی،رویوں کی تبدیلی کا یہ کام بد مزاج شخص خود بھی کر سکتا ہے اور خارجی دباؤ سے بھی بد مزاجی ختم ہو سکتی ہے، یہ خارجی دباؤ کئی قسم کے ہو سکتے ہیں، جن کا انتخاب حالات اور ماحول کے اعتبار سے کیا جا سکتا ہے، ان میں سے ایک یہ ہے کہ بد مزاج شخص کے اندر سے تکبر کو نکالنے کی کوشش کی جائے ، اللہ کی بڑائی کا استحضار اذان واقامت کے کلمات کا جواب بھی اللہ کی بڑائی کے تصور کو ذہن نشیں کرنے میں بہت معاون ہوتا ہے، بد مزاج شخص کے ذہن میں اگر یہ بات بٹھادی جائے کہ تم بڑے نہیں ہو، اللہ بڑا ہے اور واقعہ یہ ہے کہ عہدے مناصب کی بلندی پر پہونچنے کے باوجود تم سب محتاج ہو، بے نیاز ذات صرف اللہ کی ہے تو بد مزاجی دور ہوجائے گی، اور لوگ بد مزاج کی بد مزاجی سے محفوظ ہوجائیں گے۔
 انفرادی زندگی سے الگ ہو کر اگر ہم اجتماعی تنظیموں اور اداروں کی بات کریں اور اس پر کوئی بد مزاج شخص کا تسلط ہو تو اس کی بدمزاجی کے اثرات اجتماعی نظام پر پڑتے ہیں، اور اداروں کو نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے، شریعت نے اسی وجہ سے اجتماعی کاموں میں خصوصیت کے ساتھ مشورے پر زور دیا ہے، وَشَاوِرْ ھُم فِی الاَمْر، وَامُرْھُم شُوْرَی بَیْنَھُم‘‘ کا حکم اسی نقصان سے بچنے کے لیے ہے ، اس پر جس قدر مضبوطی سے عمل ہوگا فرد کی اصلاح بھی ہوگی اور اجتماعی تقاضوں پر بھی عمل کیا جا سکے گا۔
بد مزاج شخص کے دل میں سختی ہوتی ہے، اس کا دل اسی کے سامنے نرم ہوتا ہے جس سے اس کا کوئی مفاد وابستہ ہو یا اسے نقصان کا خطرہ ہو یعنی ’’جلب منفعت‘‘ اور’’ دفع مضرت‘‘ اس کی زندگی کا نصب العین ہوجاتا ہے، وہ اگر کسی کے سامنے سرنگوں ہوتا ہے تو نفع کا حصول مد نظر ہوتا ہے یا نقصان سے بچنا ، اس کے علاوہ وہ دوسروں کو اپنی بد مزاجی سے محروم کرتا رہتا ہے، ایسے بد مزاج شخص کا اکرام کوئی دل سے نہیں کرتا؛ بلکہ اس کی مضرت رسانی کے خوف اور ڈر سے کرتا ہے، اسی کو حدیث میں یُکْرَمُ الرجُلُ مَخَافۃَ شَرِّہِ سے تعبیر کیا گیا ہے اور جب معاملہ یہاں تک پہونچ جائے تو حدیث میں مسلسل اور متواتر مصائب کے نزول کی بات کہی گئی ہے، بالکل اسی طرح جس طرح دھاگہ ٹوٹ جانے سے تسبیح کے دانے مسلسل گرنے لگتے ہیں۔
بد مزاج لوگوں کے ساتھ خود بد مزاج بن جانا صحیح نہیں ہے، اس سے آپ کی سوچ منفی بنتی ہے اور یہ آپ کے لیے پریشانی کا باعث ہوا کرتی ہے، ان حالات میں قرآنی ہدایات ’’ادفع بالتی ھی احسن‘‘ یعنی خوش اسلوبی سے معاملات کو ٹالنے کی ہے، ایسے لوگوں کو معاف کر دینا یا انہیں محبت کے ذریعہ قریب کرنا بھی ایک حل ہے، بعض لوگوں کی رائے ہے کہ اگر آپ کے اندر قوت بر داشت ہے تو صبر بھی کر سکتے ہیں۔لیکن یہ بد مزاج شخص کے لیے دوا کا نہیں مرض بڑھانے کا سبب بن سکتا ہے۔
ماہر نفسیات نے اس بات کی صراحت کی ہے کہ بد مزاجی کی بڑی وجہ دوسروں پر غالب آنے کی بے جا ہوس ہوتی ہے ، بد مزاج آدمی اپنی زور دار آواز اور بُرا بھلا کہہ کر دوسروں کو مغلوب کرنا چاہتا ہے، عام طور پر سا منے والا چوں کہ بد مزاج نہیں ہوتا؛اس لیے وہ خاموش رہ جاتا ہے، جس سے بد مزاج انسان کاحوصلہ بڑھتا ہے، وہ اپنی منوانے پر مصر ہوتا ہے۔ آپ ایسے لوگوں کی بات مانتے مانتے اپنی شخصیت کھو دیتے ہیں،ا ٓپ کی فکر اور سوچ بھی کہیں گم ہوجاتی ہے، اور آپ کا شمار ان لوگوں میں ہونے لگتا ہے؛ جس کی کوئی اپنی فکر نہیں ہوتی ۔آپ کی خاموشی کو لوگ آپ کی بزدلی سے بھی تعبیر کر سکتے ہیں۔
اپنی شخصیت کی حفاظت کے لیے دباؤ کے اس ماحول سے نکلنا بھی ضروری ہے، ورنہ آپ دوسروں کی دیکھا دیکھی اور دباؤ میں بہت سارے غلط ، صحیح فیصلے لینے اور قبول کرنے پر مجبور ہوجائیں گے، ایسے موقع سے ضروری ہے کہ آپ جذبات میں نہ آئیں، پر سکون رہیں، کبھی کبھی ہنسی مذاق میں ٹال سکتے ہوں تو ٹال دیجئے، اپنی بات کھل کر رکھیے اور اپنے طرز عمل سے بتادیجئے کہ عزت نفس میرے پاس بھی ہے اور مجھے اس کی حفاظت کرنی اچھی طرح آتی ہے ۔
 بد مزاجی بد اخلاقی کا ایک حصہ ہے، اور بد اخلاقی شریعت میں انتہائی مذموم ہے۔ بدمزاجی کبھی تو خود پرستی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے اور کبھی دوسروں کو حقیر سمجھنے کی وجہ سے، ایک اور وجہ اپنے مقصد اور منصوبوں میں ناکامی ہوا کرتی ہے، آپ نے اپنا ایک ہدف بنا رکھا ہے، اس ہدف تک پہونچنے میں اگر آپ ناکام ہوجاتے ہیں، یا اس میں تاخیر ہو رہی ہے تو آپ کے اندر بد مزاجی پیدا ہوجاتی ہے، بد مزاج آدمی کے پاس سر تو ہوتا ہے لیکن اس میں غور وفکر کرنے والا دماغ کمزور پڑ جاتا ہے، ایسے میں بد مزاج آدمی اندر ہی اندر جلتا رہتا ہے، سلگتا رہتا ہے، اس جلنے اور سلگنے کا نقصان دوسروں کو تو پہونچتا ہی ہے خود اس کی اپنی ذات کوبھی پہونچ جاتا ہے،ماچس کی تیلی کو آپ نے دیکھا ہے اس کے پاس سر ہوتا ہے، دماغ نہیں ہوتا اس لیے ذراسی رگڑ سے جل اٹھتا ہے اور اپنے جسم کو خاکستر کر دیتا ہے، بد مزاج آدمی کا دیر سویر یہی حال ہوتا ہے۔
 بدمزاجی اپنے ساتھ بہت سارے منفی رویوں کو بھی ساتھ لاتی ہے، بد مزاجی کی وجہ سے حسد ، جلن ، بغض وعداوت، چغل خوری وغیرہ انسانی زندگی میں گھر کر لیتے ہیں، یہ رویہ انسانی رشتوں کے لیے زہر قاتل ہوتا ہے۔ اس کا علاج اپنے رویے میں تبدیلی ہے، جب تک رویوں میں تبدیلی نہیں آئے گی ، بدمزاجی ختم نہیں ہوگی۔

آگرہ ڈویژن میں انتخابات کے پیش نظر دو لاکھ سے زیادہ لوگوں پر لگائی گئی پابندی

آگرہ ڈویژن میں انتخابات کے پیش نظر دو لاکھ سے زیادہ لوگوں پر لگائی گئی پابندی

اتر پردیش میں اسمبلی انتخابات کو پرامن طریقے سے کرانے کے لیے پولیس نے انتشار پھیلانے والے عناصر کے خلاف شکنجہ کسنا شروع کر دیا ہے۔ اس کے تحت آگرہ ڈویژن کے آٹھ اضلاع میں دو لاکھ سے زیادہ لوگوں پر پابندی لگا دی گئی ہے۔

آگرہ ڈویژن کے ایڈیشنل ڈائرکٹر جنرل آف پولیس راجیو کرشنا نے بتایا کہ انتخابات میں بدامنی پھیلانے والوں کی شناخت کرنے کے لئے الیکشن کمیشن کی ہدایت پر 'آپریشن پہچان' چلایا گیا ۔ اس کے تحت گزشتہ دس برسوں سے جیل میں بند بدمعاشوں کی تصدیق کی گئی۔ اس کے علاوہ گزشتہ پانچ انتخابات کے دوران جن لوگوں نے تنازع پیدا کیا تھا اور جن کے خلاف مقدمات درج کیے گئے، ایسے سبھی لوگوں کی فہرست پولیس کے پاس ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اس مہم کے تحت آگرہ ضلع میں 57363 ، علی گڑھ میں 36222، کاس گنج میں 29315، متھرا میں 27126، فیروز آباد میں 20839، ہاتھرس میں 18705، مین پوری میں 10517 اور ایٹا میں 7864 لوگوں پر پابندی لگائی گئی ہے۔

تذکرہ مشاہیر ادب- مشرقی مگدھمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

تذکرہ مشاہیر ادب- مشرقی مگدھ
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
ابو الکلام رحمانی (ولادت ۲؍ اگست ۱۹۴۹ئ) بن عبد الجبار ونبیہ خاتون مرحومین کی جائے پیدائش تو یحیٰ پور شیخ پورہ ہے ، لیکن اب مستقل رہائش ۳/۲۱ مومن پور کولکاتہ میں ہے، تعلیم ایم اے تک پائی ہے، مطلب ہے کہ خاصے پڑھے لکھے قلم کار ہیں، تحقیقی مقالے، ناول ، افسانے، انشائیے اور مزاحیہ کالم اخبارات ورسائل میں چھپنے کے بعد کتابی شکل میں بھی محفوظ ہیں، روزنامہ آبشار کو لکاتہ میں ان کا مزاحیہ کا لم ’’تکلف بر طرف‘‘ اور ہفتہ وار ’’میرا ملک‘‘ کولکاتہ میں ’’گستاخی معاف‘‘ کے عنوان سے جو کالم مقبول ہوتے رہے وہ در اصل انہیں کے لکھے ہوئے ہیں، جسے انہوں نے ’’رحمانی‘‘ اور ’’میرا جوگن‘‘ کے نام سے اشاعت پذیر کروائے، اردو ادب کی جو خدمت انہوں نے کی ہے اس کے لیے بہار اردو اکیڈمی ، مغربی بنگال اردو اکیڈمی، ہولی برائٹ فاؤنڈیشن مٹیا برج، انجمن فکر جدید کولکاتہ وغیرہ نے انہیں انعامات واعزاز سے نوازا ہے ، ان کے تحقیقی مضامین کے تین مجموعے تحریر وتذکرہ ، تحقیق وتلاش اور تذکرہ مشاہیر ادب - مشرقی مگدھ ۷۴۰ ۱؍ تا ۱۹۶۰ء منظر عام پر آکر دادتحقیق قارئین سے وصول کر چکے ہیں، اس سلسلے کی تیسری کتاب تذکرہ مشاہیر ادب - مشرقی مگدھ ابھی میرے سامنے ہے، یہ در اصل ابو الکلام رحمانی صاحب کا وہ تحقیقی مقالہ ہے جو انہوں نے پی اچ ڈی کے لیے پروفیسر ڈاکٹر عبد المنان صاحب کی نگرانی میں لکھا تھا، مقالہ بعض نا گزیر حالات کی وجہ سے یونیورسٹی سے سند قبول تو نہیں پا سکا، لیکن اس بہانے ایک اچھی تحقیقی وتاریخی کتاب ہمارے سامنے آگئی۔
 شیخ پورہ اور مشرقی مگدھ کا یہ ادبی منظر نامہ ابو الکلام رحمانی صاحب کے ’’کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے‘‘ سے شروع ہو کر سید عبد الرحیم کی ’’منزل‘‘ پر ٹھہرتا موضوع کتاب تک پہونچتا ہے، حصہ نثر میں اکیس(۲۱) شخصیات پر تحقیق کی روشنی ڈالی گئی ہے، شہود عالم شہود نے ابو الکلام بحیثیت انشائیہ نگار کی حیثیت سے ابو الکلام رحمانی کی انشائیہ نگاری پر ’’بھولا بسرا‘‘ کے ذیل میں جوروشنی ڈالی ہے، اسے بھی آخر میں کتاب کا حصہ بنا دیا گیا،اس طرح پوری کتاب دو سو ترسٹھ (۲۶۳) صفحات پر مشتمل ہے ۔ صفحہ ۲۶۴ پر ڈاکٹر شاہ تحسین احمد کی تصویر احسان شناشی کے طور پر دی گئی ہے، کیونکہ وہ ابوالکلام رحمانی کے استاذ پروفیسر شاہ مقبول احمد پچنوی کے صاحب زادہ ہیں اور ان کا خصوصی عملی تعاون شامل رہا ہے ، کتاب کے مندرجات سے یہ پتہ نہیں چل سکا کہ یہ تعاون تحقیق میں رہا ہے ، یا اشاعت میں، اس کتاب کی ناشرہ فرخندہ عزمی کلام ہیں جو ابو الکلام رحمانی صاحب کی دختر نیک اختر ہیں، اور پیشہ معلمی سے وابستہ ہیں۔
مگدھ کا اطلاق ایک زمانہ میں پورے جنوبی بہار پر ہوا کرتا تھا، یہ علاقہ انتہائی مردم خیز رہاہے، کیوں کہ اسی علاقہ میں دِسنہ ، استھانواں، ہرگاواں، گیلان، بہار شریف، اور نالندہ واقع ہے، جگر کی زبان میں کہیں تو سجدہ طلب راہ کا ہرذرہ لگتا ہے اور جدھر سے گذر جائیے وہ کوچہ جاناں کے حدود میں معلوم ہوتا ہے۔ اس علاقہ کی کئی نامور شخصیات پر تفصیلی کام ہوا تھا، لیکن آفتاب علم وفن کے ساتھ کئی ذرات تھے ، جو بعد میں ذرہ سے آفتاب بن گئے، ضرورت تھی کہ ان حضرات کے تذکرے بھی محفوظ ہوجائیں، تاکہ آئندہ نسلوں کے لیے وہ مشعل راہ بن سکیں۔ ابو الکلام رحمانی کے مقدر میں اللہ رب العزت نے یہ کام رکھا تھا اور انہوں نے طویل محنت کے بعد اس کام کو مکمل کر دیا ۔
 یہ کتاب شیخ پورہ اور مشرقی مگدھ کے ادبی منظرنامہ کے دوسرے حصہ اور باب سوم سے شروع ہوتی ہے ، اس مقالہ کا پہلا حصہ ’’تذکرہ مشاہیر ادب شیخ پورہ ‘‘ کے عنوان سے ۲۰۰۵ء میں چھپی تھی، جو میری نظر سے نہیں گذری ، مشرقی مگدھ کے ادبی منظرنامہ کے حوالہ سے اس علاقہ کی ادبی قدر وقیمت عصری تقاضے ، عظیم آباداسکول کے اثرات کا ذکر کرکے باب سوم کو لپیٹ دیا گیا، اس کتاب کے چوتھے باب میں شیخ پورہ اور مشرقی مگدھ کی نثر نگاری کی اہم خصوصیات پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔
تحقیق کا عمل چیونٹی کے منہ سے دانہ دانہ جمع کرنے کا عمل ہے، اس کام میں جو پریشانی ہوتی ہے اور کرب جھیلنا پڑتا ہے اسے کچھ وہی لگ سمجھ سکتے ہیں، جنہوں نے اس وادیٔ پُرخار میں کبھی قدم رکھا ہو، اس اعتبار سے جناب ابو الکلام رحمانی صاحب کی یہ کتاب قابل قدر بھی ہے اور لائق تحسین بھی، ان کے اندر قوت اخذ بھی ہے اور طاقت عطا بھی، اور پھر سید عبد الرحیم صاحب جیسا دست راست ان کو حاصل ہے اس لیے یہ کام اور بھی وقیع ہو گیا ہے۔
 تبصرہ نگار عموما خوگر مدح ہوتا ہے، لیکن اس کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ان کمیوں اور کوتاہیوں کا بھی ذکر کردے جو اس نے دوران مطالعہ پایا، چنانچہ ان میں سے ایک یہ ہے کہ
 جن ادباء وشعراء کی تاریخ ولادت ووفات تک یقینی رسائی نہیں ہو سکی ان کی زمانی تعیین بیسویں صدی کا اول نصف یا نصف ثانی لکھ کرکی گئی ہے ، کئی شعراء وادباء کی تاریخ ولادت ورحلت کا ذکر نہیں کیا گیا ہے ، کئی میں ولادت کا ذکر ہے تو وفات غائب اور کہیں وفات کا ذکر ہے تو ولادت غائب ، ایسا کم لوگوں میں ہے، لیکن ہے، تذکرہ میں تاریخ ولادت ورحلت کا ذکر نہ ہو تو مضمون کے دُم بریدہ اور نا قص ہونے کا احساس ہوتا ہے، اہل علم کے نزدیک یہ تحقیق کا نقص سمجھا جاتا ہے، اس تحقیقی کتاب میں یہ نقص کھلتا ہے، کتاب کے سر ورق پر بارہ گاواں ومضافات کا نقشہ دیا گیا ہے جو معلوماتی اور گاؤں کی مکانی حیثیت کو سمجھنے مین معاون ہے، اس کتاب پر نظر ثانی وترتیب کا کام سید عبد الرحیم نے کیا ہے، ان کی محنت بھی قابل ستائش ہے۔
 اصلا کتاب کی طباعت ۲۰۱۴ء میں ہوئی، ہم تک تبصرہ کے لیے دیرمیں پہونچی ، کتاب ڈائمنڈ آرٹ پریس کولکاتہ سے چھپی ہے، قیمت پانچ سو روپے دو سو چونسٹھ صفحات کے لیے بہت زائد ہے، یوں بھی اردو کے قاری کی قوت خرید کم ہوتی ہے، بی ۳/ ۲۱ مومن پور روڈ کولکاتہ اور راپتی اپارٹمنٹ ۴۹ ڈنٹ مسن روڈ کولکاتہ ۲۳ سے حاصل کر سکتے ہیں، جن لوگوں کو علاقہ کی تاریخ ، تہذیب اورادبی خدمات کے جاننے کا شوق ہو ان کے لیے یہ کتاب بڑا علمی ذخیرہ ہے۔

ہفتہ, جنوری 22, 2022

عورتوں کے خلاف جرائممفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

عورتوں کے خلاف جرائم
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
 ہندوستان میں مرکزی حکومت کا ایک نعرہ بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ کا بھی ہے، ہندو مذہب میں تو عورتوں کو دیوی سمجھا جاتا ہے بلکہ جتنی مورتیوں کی پوجا ہوتی ہے ان میںاکثر وبیشتر خواتین کے روپ میں ہی ہوتی ہیں، اس کے باوجود، اس ملک میں عورتوں کے خلاف جرائم کا گراف دن بدن بڑھتا جا رہا ہے، بُلّی بائی اور سُلّی ڈیلس جیسے واقعات بھی جرائم کی فہرست میں آتے ہیں، اور جن پر قانونی داروگیر کا آغاز ہو چکا ہے ، لیکن بہت سارے واقعات ومعاملات میں انتہائی سست روی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے عورتوں کے خلاف مظالم اور جرائم کا سلسلہ دراز ہوتا جا رہا ہے۔
 نیشنل کرائم رکارڈس بیورو نے اس سلسلے کے جو اعداد وشمار فراہم کیے ہیں، اس کے مطابق ۲۰۱۱ء میں عورتوں کے خلاف جرائم کی ۲۲۸۶۵۰؍ رپورٹیں درج کرائی گئی ، ۲۰۱۲ء میں اس میں ۴ء ۶؍ فی صد کا اضافہ درج کیا گیا ۔ ۲۰۱۵ء میں ۳۰۰۰۰۰ ، ۲۰۲۰ء میں ۳۷۱۵۰۱، واقعات کا سرکاری سطح پر اندراج ہو سکا، حالانکہ ۲۰۲۰ء میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے عورتوں کا باہر نکلنا بہت کم ہو گیا تھا۔
 ریاستی اعتبار سے خواتین کے خلاف جرائم کا تجزیہ کریں تو معلوم ہوگا کہ ملکی سطح پر مجموعی خواتین کی تعداد میں سے صرف ۵ئ۷؍ فی صد مغربی بنگال میں رہتی ہیں، لیکن مغربی بنگال میں خواتین کے خلاف جرائم ۷ء ۱۲ فی صد ہوئے، آندھرا پردیش میں عورتوں کی مجموعی تعداد ۳ء ۷ ؍ فیصد ہے، لیکن وہاں ۵ء ۱۱؍ فی صد عورتیں مجرموں کے ہتھے چڑھیں، اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ خواتین کے خلاف جرائم اتر پردیش میں ۴۹۳۸۵، مغربی بنگال میں ۳۶۴۳۹، راجستھان میں ۳۴۵۳۵، مہاراشٹر میں ۳۱۹۵۴ ، مدھیہ پر دیش میں ۲۵۶۴۰ ہوئے  اور خواتین کو اس کا کرب جھیلنا پڑا۔
 یہ اعداد وشمار حتمی اور آخری نہیں ہیں، ان سے کئی گنا زیادہ جرائم کا ارتکاب ہوا ہوگا ، لیکن وہ پولیس کے یہاں درج نہیں کرائے گئے، اس لیے رکارڈ میں نہیں آسکے، ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت نے بیٹی بچاؤ کا جو نعرہ دیا ہے، اس کے لیے ضروری اقدام کیے جائیں اور خواتین کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔ ورنہ جس طرح عورتوں کی عزت سے کھلواڑ کیا جا تا ہے، وہ اس ملک کی روایتی تہذیب کا جنازہ نکال کر رکھ دے گا، اور مغربی تہذیب سے قریب ہونے کی جو ہوا چل رہی ہے، اس میں سب کچھ خش وخاشاک کی طرح اڑ کر رہ جائے گا، عزت وآبرو بھی اور تہذیبی وثقافتی اقدار بھی۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...