ایس پی کے بڑھتے کارواں کو دیکھ لوگوں کو دھمکایا جارہاہے : اکھلیش
آگرہ: سماج وادی پارٹی(ایس پی) سربراہ اکھلیش یادو نے اتوار کو دعوی کیا کہ جیسے جیسے یوپی اسمبلی انتخابات کے دوران انتخابی تشہیر میں عوامی حمایت میں اضافہ ہورہا ہے ایس پی کے لوگوں اور حامیوں کو ریاست کے مختلف حصوں میں دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے آگرہ کے باہ اور اعتماد پور میں انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے اکھلیش نےکہا' میں لگاتار یہ سن رہا ہوں کہ جیسے جیسے عوامی کی انتخابی مہم کو عوامی حمایت بڑھ رہی ہے اس کے نتیجے میں ایس پی کے لوگوں کو دھمکایا اور خائف کیاجارہا ہے۔انہوں کارکنوں کو آگاہ کیا کہ آپ کے پاس موبائل ہے اگر کوئی آپ کو دھمکی دیتا ہے فورا اس کا ویڈیو بنالیجئے۔
بھارت رتن لتا منگیشکر کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے اکھلیش نے کہا کہ جب ایس پی کی ریاست میں حکومت بنے گی تو معروف گلوکارہ کی یاد و اعزاز میں یوپی میں بڑے پیمانے پر کام کیا جائے گا۔اکھلیش نے کہا کہ میں یہاں آپ سے یہ اپیل کرنے آیا ہوں کہ یہ الیکشن تنہا یوپی کا الیکشن نہیں ہے۔یہ الیکشن ملک کے مستقبل کا الیکشن ہے۔
انہوں نے الزام لگایا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) نے پولیس نظام کو بھی چوپٹ کردیا ہے۔'سماج وادی پارٹی نے ڈائل 100سروس کا آغاز کیا تھا تاکہ دیہی علاقوں میں رہنے والے افراد بحران میں پولیس کو کال کرسکیں۔ڈائل100اب بھی جاری ہے لیکن بابا(وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ)ٹائر نہیں تبدیل کیا بلکہ 100کو112سے تبدیل کردیا اور پولیس کا کباڑا کردیا۔ انہوں نے کہا کہ یوپی میں نظم ونسق کی بہتری کے لئے ایس پی حکومت پولیس فورس کی گاڑیوں میں اضافہ کرے گی۔
ایس پی سربراہ نے الزام لگایا کہ کورونا بحران کے دوران بی جے پی حکومت علاج کے لئے دوا، آکسیجن اور علاج فراہم کرنے میں ناکام رہی۔'اگر اس وقت کوئی متاثرین کے کام آیا تو وہ ایس پی میعاد کار میں شروع کی گئی ایمبولنسز ہی تھیں۔ایمبولنس گاڑیاں عوام کے درواز دروازے پہنچ رہی تھیں۔
انہوں نے کہا کہ ایس پی نگراں ملائم سنگھ یادو نے رام منوہر لوہیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنس کا لکھنؤ میں قیام کیا۔ہم نے ریاست میں طبی سہولیات کو تقویت فراہم کی۔بی جے پی نے سابق وزیر اعظم اٹل بہاری باجپئی کے نام پر ایک یونیورسٹی کے قیام کا اعلان کیا لیکن اس کی تعمیر نہیں کراسکی۔
اکھلیش نےکہا کہ جب سماج وادی پارٹی اقتدار میں آئے گی سابق وزیر اعظم کے آبائی وطن بٹیشور میں ان کے نام کی یونیورسٹی تعمیر کرائے گی۔انہوں نے کہا کہ صارفین کو بہتر پاور سپلائی کے لئے اگگر ضرورت پڑی تو مزید سب اسٹیشن قائم کئے جائیں گے۔ اکھلیش نے کہا کہ وزیر اعلی گرمی نکالنے کی بات کررہے ہیں میں گرمی کے بارے میں نہیں جانتا لیکن جب ایس پی کی حکومت بنے گی تو ہم بھرتیاں نکالیں گے۔
اتوار, فروری 06, 2022
ایس پی کے بڑھتے کارواں کو دیکھ لوگوں کو دھمکایا جارہاہے : اکھلیش

نقوش آگہیمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
نقوش آگہی
محمد وارث حسن کے اصلی اور وارث ریاضی کے قلمی نام سے اہل علم وادب کی دنیا میں مشہور اور معارف اعظم گڈھ کے حلقۂ قارئین میں خاص طور سے مقبول ومعروف شاعر، ادیب، ناقد اور محقق کا وطن سکٹا علاقہ دیوراج مغربی چمپارن ہے، ۲؍ اکتوبر ۱۹۴۹ء کو شیخ اسماعیل بن شیخ عنایت حسین کے گھر پر اس عالم گیتی میں آنکھیں کھولیں ۱۹۶۵ء میںد ار العلوم دیو بند سے فارغ ہو ئے ، بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ سے اردو فارسی میں فاضل اور بہار یونیورسٹی مظفر پور سے فارسی زبان وادب سے ایم اے کیا، فرسٹ ڈویزن حاصل کرنے والوں میں تین ہی ان سے آگے بڑھنے کی ہمت جُٹا پائے، زمانہ دراز تک دار العلوم بسوریا کے استاذ اور ذمہ دار رہے، حرف آرزو (۲۰۱۲) نقوش افکار (۲۰۱۶) اور نقوش آگہی (۲۰۲۱) میں منظر عام پر آئی، نقش آرزو زیر طبع ہے اور دیار حرم کا سفر نامہ ’’چند دن دیار حرم میں‘‘ اور مشاہیر کے خطوط ’’پیام شوق‘‘ کے نام سے زیر ترتیب ہیں، شاعری، نثر نگاری کے ساتھ اس عمر میں تحقیق کا کرب جھیلتے رہتے ہیں، ان کی عمر دیکھیے اور حوصلہ دیکھیے، ہم جیسے لوگوں کو تو یہ سب دیکھ کر کم عمری میں ہی پسینہ آنے لگتا ہے۔
’’ نقوش آگہی‘‘ مولانا وارث ریاضی کے مقالات ومکتوبات کا مجموعہ ہے، مقالات میں تحقیق کا عمل دیکھنے کی چیز ہے، بلکہ نئی نسل کو اس سے سبق لینے کی ضرورت ہے کہ تحقیق اس طرح کرتے ہیں، بہار میں قاضی عبد الودود کے بعد تحقیق کا عمل کمزور پڑا ہے، پی اچ ڈی کے نام پر جو تحقیق ہو رہی ہے وہ یا تو قینچی کا عمل ہے یا بقول گوپی چند نارنگ ، دفتیوں کے بیچ کچھ اوراق لکھے ہوئے ہوتے ہیں، ایسے میں وارث ریاضی کی تحقیق اس رسم کہن کو بچائے ہوئے ہے، جس میں جاں سوزی اور جاں کاہی کرکے چیونٹی کے منہہ سے دانہ دانہ جمع کیا جاتا تھا۔
تین سو بیس صفحات کی اس کتاب کا انتساب دار المصنفین شبلی اکیڈمی اعظم گڈھ کے ترجمان معارف کے نام ہے، جس نے مولانا وارث ریاضی کو پرورش لوح وقلم کے جذبہ والہانہ سے سرشار کیا، کتاب کا مقدمہ ڈاکٹر غطریف شہباز ندوی نے لکھا ہے، مولانا محمد عمیر الصدیق ندوی نے ’’اپنی بات‘‘ کہی ہے اور ’’عرض مصنف‘‘ میں وارث ریاضی صاحب نے ان آٹھ مقالوں کا تعارف اس طرح کرایا ہے کہ قاری اس کے مندرجات تک جلد از جلد پہونچنے کے لیے بیتاب ہوتے ہیں، یہ مقالات حضرت جگر مراد آبادی کی شاگردی کا مسئلہ حقیقت کے آئینے میں ، عمر ہا باید کے مرد پختہ کار آید چنیں حضرت مولانا سید نظام الدین ؒکی شاعری ایک تجزیاتی مطالعہ ، بہار کی ایک قدیم دینی درسگاہ ، درست گفت محدث کہ قوم ازوطن است، استدراک، سرہند شریف کا ایک مبارک سفر ، کیسے ہوتے ہیں وہ خط جن کے جواب آتے ہیں ، موضوعات کا پتہ چلتا ہے، عمر ہا باید کے مرد پختہ کار آید چنیں ، درست گفت محدث، اور استدراک نظریہ قومیت پر مولانا حسین احمد مدنی اور علامہ اقبال کے دریان جو اختلاف تھا اس پر ہے بہار کی قدیم درسگاہ میں جامعہ اسلامیہ قرآنیہ سمرا مغربی چمپارن کی تاریخ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
مکتوب بنام مشاہیر میں دس لوگوں کے نام خطوط ہیں، یہ خطوط مسرور حسین، پروفیسر جگن ناتھ آزاد، عطا عابدی، مولانا ضیاء الدین اصلاحی، ف، س اعجاز ، خلیق انجم، مولانا محمد عمیر الصیدق ندوی، پروفیسر ریاض الرحمن خان شیروانی، خورشید اکبر اور ابرار رحمانی کے نام ہیں، جو سب کے سب علم وفضل کے ماہ نجوم ہیں، یہ مکتوبات بھی علمی ، تحقیقی ہیں، ان میں وارفتگی قلب ونظر کا اظہار کم ہے تحقیق کی شمع اس طرح روشن کی گئی ہے کہ بہت ساری چیزیں جو تاریکی میں تھیں روشنی میں آگئی ہیں۔
تیسرا باب ’’بغیر لفظ باب‘‘ کے رشحات نقد ونظر ہے، جو اصلا مصنف کی کتاب نقوش افکار پر لکھے گیے ، تبصروں کا مجموعہ ہے، یہ کل چودہ تبصرے ہیں، حوصلہ افزائی اور ذرہ نوازی کے لیے ایک نمبر پر اس حقیر کی تحریر کو جگہ دی گئی ہے جو نقیب میں شائع ہوئی تھی، البتہ مولانا وارث ریاضی صاحب اور پروف ریڈر راجو خان پر اللہ رب العزت کی محبت اس قدر غالب ہے کہ میرا نام فہرست اور مضمون دونوں جگہ ثناء اللہ لکھ دیا گیا ہے، اللہ بڑا نام ہے، مگر مجھ جیسے گناہ گار کے نام کا وہ جز نہیں بن سکا، بڑے بھائی ماسٹرمحمد ضیاء الہدیٰ مرحوم سے قافیہ ملانے کے چکر میں والد صاحب نے میرا نام محمد ثناء الہدیٰ رکھ دیا، اور اسی نام سے بندہ لوگوں میںجانا جاتا ہے۔
میر ے علاوہ جن لوگوں کے تبصرے اس کتاب میں شامل ہیں، ان میں پروفیسر ریاض الرحمن خان شیروانی، نوشاد منظر، مولانا غطریف شہباز ندوی ، راجو خان، ڈاکٹر محمد طارق ایوبی ندوی، اسعد اللہ، مولانا عمیر الصدیق ندوی، شکیل رشید، پروفیسر فاروق صدیقی ، ڈاکٹر رضاء الرحمن عاکف، ثناء اللہ ثنا دوگھروی، ڈاکٹر مجیر احمد آزاد، ظفر حسین کے نام خاص طور سے قابل ذکر ہیں، ان حضرات نے نقوش افکار کے در وبست اور خوبیوں کا تفصیلی جائزہ پیش کیا ہے۔
ڈاکٹر غطریف شہباز ندوی نے مقدمہ میں لکھا ہے کہ ’’یہ مجموعہ مقالات زبردست علمی تحقیقات وافادیت سے مملو ہے اور پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔تین سو بائیس صفحات پر مشتمل اس مجموعہ کی قیمت تین سو روپے ہے، دار المصنفین اعظم گڈھ ، بک امپوریم سبزی باغ ، اور خانقاہ مجیبیہ پھلواری شریف پٹںہ سے کتاب مل سکتی ہے، میں اس تبصرہ کو مولانا عمیر الصدیق ندوی کے ان دعائیہ کلمات پر ختم کرتا ہوں، مولانا نے لکھا ہے کہ
’’اس کتاب کے مضامین اور مکاتیب کو پڑھ کر دل سے یہی دعا نکلتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اردو ادب وشعر کی صلاح وفلاح اور علم کی مقصدیت اور اس کی اصل افادیت ونافعیت اور ادب کی بقاء ترقی واستحکام کے لیے وارث ریاضی صاحب کی حیات وخدمات میں برکات کی بارش کرتا رہے، زخموں کی مہر وماہ سے علم کے بام پر جشن چراغان وہ یوں ہی بناتے رہیں۔ ‘‘(آمین)

جمعہ, فروری 04, 2022
شکر گذاری___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
شکر گذاری___
اللّٰہ رب العزت نے اس کائنات کو بنایا اور وہ تمام چیزیں فراہم کیں جو اسباب کے درجہ میں زندگی گذارنے کے لیے ضروری ہیں ، پھر جب یہ کائنات سج سنور کر انسان کے رہنے کے لائق ہوئی تو حضرت آدم علیہ السلام اور ماں حوا کو روئے زمین پر بھیجا؛ تا کہ اس دنیا میں نسل انسانی کو فروغ ہو اور یہ کائنات آباد و شاداب رہے ، چنانچہ انسانوں نے پوی دنیا کو آباد کیا ، قدرت نے جو زمین میں مخفی صلاحیتیں رکھی تھیں ان کو کام میں لا کر اسے ترقی کے بام عروج پر پہونچا دیا ، اب انسان ظلوم و جہول یہ سمجھتا ہے کہ یہ سب میں نے کیا اور یہ ساری رونق ہمارے دم سے ہے ، وہ یہ بھولتا جا رہا ہے کہ یہ ساری چیزیں اللّٰہ نے ہمارے لیے مسخر کی تھیں ، اس لیے ہم اس کو کام میں لا کر نیا جہان بناتے رہے ، لیکن اگر اللّٰہ ہوا کو روک دیتا ، آکسیجن ہماری ناک سے نہیں گذرتا، پانی کے سوتے خشک ہو جاتے ، زمین سے غلے نہیں اگتے اور ارد گرد کا ماحول خراب ہو تا تو ہم یہاں کام کیا کرتے ؟ اپنی ہی زندگی دشوار تھی ، ایسے میں انسان گھٹ گھٹ کر مر جا تا ، اللّٰہ رب العزت نے اپنی ان نعمتو ں کے بارے میں واضح کیاکہ اگر تم اللّٰہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو نہیں کر سکتے ، اللّٰہ تعالیٰ نے سورہ رحمن میں اپنی مختلف قسم کی نعمتوں کا بار بار ذکر کیا اور فرمایاکہ تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤگے۔
ان نعمتوں کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اللّٰہ رب العزت کا شکر ادا کریں کہ اس نے ہمارے لیے ان چیزوں کو مسخر کر دیا ، اللّٰہ رب العزت نے اس شکر گذاری پر نعمتوں میں اضافہ کا اعلان کیا ہے اور ناشکری پر سخت عذاب کی وعید وارد ہوئی ، لیکن انسان انتہائی نا شکرا واقع ہوا ہے ، عام حالات میں ان نعمتوں کی طرف اس کا ذہن منتقل ہی نہیں ہو تا ،خیال اس وقت آتا ہے جب اک ا ک بوند پانی اور ایک ایک سانس کی لمبی قیمت چکانی ہوتی ہے اور تب جا کر انسان کی سمجھ میں آتا ہے کہ اگر ہم پوری زندگی ساری کائنات کی نعمتوں کو چھوڑ کر انہیں دو چیزوں کی شکر گذای میں اپنا سب کچھ قربان کر دیں تو بھی شکر ادا کرنے کا ہم حق ادا نہیں کر سکتے ، واقعہ یہ ہے کہ دنیا کے سارے درخت کا قلم اورتمام سمندر کے پانی کو روشنائی کے طور پر استعمال کر لیں تو بھی مالک حقیقی اور پروردگار عالم کا حق ہم ادا نہیں کر سکتے ، اس لیے بندہ کو چاہئے کہ وہ ہر حال میں شکر ادا کرتا رہے ، مصیبت آئے تو صبر کرے اور آسائش میں ہو تو شکر کرے ، پھر اس شکر کی ادائیگی کی توفیق بھی اللّٰہ نے دی ، اس لیے اس توفیق پر بھی شکر اداکرے اور کرتا رہے ، فلاسفہ کے یہاں دور و تسلسل ممنوع اور محال ہو تو ہوا کرے ، اللّٰہ رب العزت کے شکر کے باب میں تو تسلسل ہی اصل ہے، ہر دم ، ہر آن اور ہروقت اللّٰہ کی تعریف میں رطب اللسان رہے ،یہی اللّٰہ کا حق ہے اور بندے کی سر بلندی کا مدار و معیاربھی اسی پر ہے۔

جمعرات, فروری 03, 2022
مولانا محمد یحیٰ بھاممفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
مولانا محمد یحیٰ بھام
جنوبی افریقہ کے نامور عالم دین ، امیر خدمت العوام ، صدر لینیسیا مسلم اسکول، استاذ لینیسیا مسلم ایسوسی ایشن حضرت مولانا ابر ارلحق حقی رحمۃ اللہ علیہ کے دست گرفتہ ، اشرف المدارس اور جامع مسجد اشرفیہ کے بانی، بر صغیر ہند وپاک اور بنگلہ دیش کے علمائ، مدارس اور دینی اداروں کے قدر داں مولانا محمد یحیٰ بھام کا ۲؍ جمادی الثانی ۱۴۴۳ھ مطابق ۶؍ جنوری ۲۰۲۲ء کو طویل علالت کے بعد انتقال ہو گیا، ان کی رہائش جنوی افریقہ کے شہر لینیسیا میں تھی، اور وہیں دعوت وتذکیر اور بیعت وارشاد کا کام کرتے تھے، دس سال سے زیادہ عرصہ سے وہ کڈنی کے مریض تھے اور روزانہ ڈائی لاسس ہوتا تھا، اس کے باوجود ان کی قوت فکر وعمل میں کسی قسم کی کوئی کمی نہیں تھی، جنونی افریقہ کے علماء میں انہیں امتیاز حاصل تھا۔
مولانا یحیٰ بھام کے آباؤاجداد اصلا گجرات کے رہنے والے تھے، انہوں نے نقل مکانی کرکے لینیسیا کو اپنا مستقر بنایا، مولانا کی پیدائش وہیں ہوئی، مولانا نے اپنی تعلیم ادارہ دعوۃ الحق ہردوئی اور جامعہ عربیہ ہتھورہ باندہ سے مکمل کی اور ان بزرگوں کی مجلس سے جو کچھ پایا تھا اسے افریقہ کے مسلمانوں میں بانٹنے کے لیے پوری زندگی وہیں قیام کیا، جمعیت علماء جنوبی افریقہ ٹرانزوال سے بھی ایک عرصہ تک وابستہ رہے۔
جب جمعیت علماء اٹرا نزوال نے ہندوستانی مدارس کے علماء کو شناخت نامہ دینا بند کر دیا تو انہوں نے جمعیت علماء کی اس فکر سے اختلاف کیا اور کئی بڑے علماء کے ساتھ انہوں نے بھی جمعیت سے علاحدگی اختیار کی اور سخت دباؤ کے باوجود علماء ومدارس کے لیے شناخت نامہ جاری کرنا شروع کیا اور پوری زندگی اس پر عامل رہے، بڑی مخالفت کے باوجود ان کے طرز عمل میں کوئی تبدیلی اورپائے ثبات میں کوئی لرزش نہیں آئی، وہ کہا کرتے تھے کہ میں مدارس کی چٹائی کا پروردہ ہوں، میں ان کے لیے کچھ نہیں کر سکتا تو دوسطر کی کوئی تحریر بھی نہیں دے سکتا، میں اتنا تو کرہی سکتا ہوں، میں اسے کرتا رہوں گا۔
مولانا کے اس طرز عمل سے ہندوستانی مدارس کے ذمہ داران اور علماء ان سے انتہائی قریب ہوتے چلے گیے اور کہنا چاہیے کہ ان کی حیثیت مرجع کی ہو گئی، جہاں علماء جا کر عافیت محسوس کرتے ان کے اخلاق سے متاثرہوکر ان کے گرویدہ ہو جاتے۔
جس زمانہ میں میری آمد ورفت جنوبی افریقہ تھی، سال میں کئی کئی ملاقاتیں ان سے ہو جاتیں، وہ امارت شرعیہ سے واقف تھے، اور اس کی خدمت کو محبت کی نگاہ سے دیکھتے تھے، امارت شرعیہ کے لیے جو کچھ ان سے ممکن تھا، کیا کرتے تھے، کم سے کم اتنا تو ضرور کرتے تھے کہ ہم کسی سے ملاقات کریں تو اس کے سامنے مجھے اپنا تعارف نہ کرانا پڑے۔
مولانا یحیٰ بھام نے جنوبی افریقہ میں دینی علوم کے فروغ اور دعوت وتبلیغ کے میدان میں بھی نمایاں خدمات انجام دیں، ان کی مسجد، مدرسہ اور خانقاہ بھی تھی اور انہوں نے جنوبی افریقہ جیسے ملک میں اسلامی شعار پر لوگوں کو باقی رکھنے کے لیے کامیاب جد وجہد کی، وہ وہاں کی دینی مجلسوں کی جان تھے، وہ ایک زمانہ تک ’’خدمت العوام‘‘ تنظیم کے امیر رہے، صدر لینیسیا مسلم اسکول کی حیثیت سے اسلامی ماحول میں بنیادی دینی تعلیم کے فروغ کے لیے کام کیا، ایک زمانہ تک لینیسیا مسلم ایسوسی ایشن میں استاذ کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں، اور کہنا چاہیے کہ پوری زندگی دعوت وتبلیغ ، تعلیم وتدریس کے ذریعہ بھٹکے ہوئے آہو کو سوئے حرم لانے کا کام کیا۔
لمبا قد، کھلتا رنگ ، چوڑی پیشانی ، گھنی ڈاڑھی، ابرو کشیدہ ، پنج گوشی ٹوپی کبھی کبھی سر پر عمامہ اس وضع قطع اور حلیہ میں مولانا انتہائی وجیہ نظر آتے ، چہرہ پر ایک رعب، ہونٹوں پر تبسم کی غیر مرئی لہریں ہوتیں جو دیکھتا دیکھتا ہی رہ جاتا، جب تک کوئی دور دور سے دیکھتا تو مرعوب رہتا، قریب ہوتا تو ان کی شفقت بے پایاں سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا، شرعی علوم اور بدلتے ہوئے حالات پر ان کی گہری نظر تھی، حکمت ومصلحت اور حق گوئی کے مدارج ان کے یہاں الگ الگ تھے، کسی بھی حال میں وہ ان کو خلط ملط نہیں ہونے دیتے، وہ موبائل کے بہت استعمال اور سوشل میڈیا سے بہت جڑے رہنے کے قائل نہیں تھے، لیکن علماء کے لیے بے خبری کو مضر سمجھتے تھے، چنانچہ مختلف ذرائع سے وہ دنیا کے احوال سے واقف رہتے، نجی مجلسوں میں جنچی تلی رائے دیتے، شیخ مجلس کی آراء بھی جاننا چاہتے، بات معقول ہوتی تو اپنی رائے بدلنے میں انہیں تامل نہیں ہوتا، ان کے چلنے پھرنے ، بولنے چالنے سب میں تواضع کا غلبہ ہوتا، ان کے اندر علم کی بڑائی کا خیال نہیں تھا، وہ قرآن کریم کی آیت وَفَوْقَ کَلُّ ذِیْ عِلْمٍ عَلِیْم کے قائل تھے، قرآن واحادیث کے علاوہ کسی اور چیز کو وہ آخر ی نہیں سمجھتے، علمائ، فقہاء کی آراء کی ان کے نزدیک بڑی قدر تھی، وہ فقہ حنفی پر عامل تھے، لیکن اس میں متشدد نہیں تھے، اس سلسلے میں جو علماء کی رائے ہے کہ امکان دوسری طرف بھی حق کا ہے، البتہ ہم جس پر عامل ہیں وہ مرجح ہے، وہ اختلاف رائے کو انتشار کا ذریعہ بنانے سے پوری زندگی گرازاں رہے۔
ایسی با فیض شخصیت کا جدا ہونا علمی اور دعوتی میدان کا بڑا خلا ہے، جسے مدتوں محسوس کیا جائے گا، خصوصا ہندوستانی مدارس کے لیے جنوبی افریقہ ان کی ذات شجر سایہ دار تھی، اس سایہ سے محرومی کے غم نے ان کی جدائی کے غم کو دوبالا کر دیا ہے۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ مولانا کی خدمات کو قبول فرمائے، ان کے سیئات سے در گذر کرے، اور جنت الفردوس میں جگہ عنایت فرمائے۔ ایں دعا از من واز جملہ جہاں آمین باد

بدھ, فروری 02, 2022
تاریخ بدلنے کی مہم ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
تاریخ بدلنے کی مہم ___
بھاجپا دور حکومت میں ہر محاذ پر تاریخ بدلنے کی مہم چل رہی ہے، یوگی آدتیہ ناتھ کے ذریعہ شہروں کا نام بدلنا اسی مہم کا حصہ رہا ہے، تاریخ کو از سر نو لکھنے کا جو کام آر اس اس کے نظریہ ساز مفکر ین نے شروع کر دیا ہے ، وہ بھی اسی نقطۂ نظر سے ہے، وزیر اعظم نریندر مودی جی کی سوچ یہ ہے کہ تاریخی عمارتوں میں بھی تبدیلی کی جائے اور اس پر درج سابقہ حکمرانوں کے بجائے وزیر اعظم کا نام اس پر کندہ ہو، ان کی تصویریں وہاں آویزاں ہوں، اس حوالہ سے پارلیامنٹ کی نئی عمارت کی تعمیر کامنصوبہ بنایا گیا اور ہندوستان میں جہاں ہر روز لاکھوں لوگ فاقہ کشی کے شکار ہوتے ہیں اربوں روپے اس کام پر لگا یا جا رہاہے ۔ مودی جی وزیر اعظم رہیں یا نہیں، تاریخ یہی کہے گی کہ پارلیامنٹ کی موجودہ عمارت مودی جی کی دین ہے۔
پارلیامنٹ کے قریب ہی انڈیا گیٹ پر امر جوان جیوتی کے نام سے ایک شمع روشن تھی ، ایسی شمع جو ہر وقت شہیدوں کی یاد میں جلتی رہتی تھی اور زائرین اس کو خاص کرکے دیکھنے جایا کرتے تھے، یہ شمع بنگلہ دیش کی آزادی کے وقت جن جوانوں نے قربانیاں دین ان کی یاد میں ۲۶؍ جنوری ۱۹۷۲ء کو اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے روشن کیا تھا، ۲۶؍ جنوری کو جشن جمہوریہ کی تقریب اسی کے سامنے کھلے میدان میں منعقد ہوا کرتی ہے ، اس موقع سے انڈیا گیٹ واقع اس امر جوان جیوتی کے پاس وزیر اعظم جا کر ہر سال شہداء کو خراج عقیدت پیش کرتے رہے ہیں۔
لیکن تاریخ بدلنے کی اس مہم کے تحت اب یہ شمع انڈیا گیٹ پر بجھادی گئی ہے ، اب یہ شمع بجھنے کے بعد قومی جنگی یادگار (نیشنل وار روم) کے نام سے چار سو میٹر دور پرقائم میوزیم میں روشن ہوگی، اس یادگار عمارت کا افتتاح ۲۵؍ فروری ۲۰۱۹ء کو وزیر اعظم نریندر مودی نے کیا تھا، انڈیا گیٹ کے پتھروں پر جن شہداء کے نام کندہ ہیں انہیں دھیرے دھیرے بھلا دیا جائے گا، کیوں کہ حکومت کی نظر میں وہ بنگلہ دیش کی آزادی میں شہداء کے نام نہیں بلکہ وہ پہلی جنگ عظیم اور اینگلو افغان جنگ کے مجاہدین ہیں، اس لیے نئے سرے سے اس کام کو شروع کیا گیا ہے، تاکہ آر اس اس اور بی جے پی کے لوگوں کو بھی مجاہدین کے طور پر پیش کیا جا سکے۔ با خبر ذرائع کے مطابق اب تک پچیس ہزار نو سو بیالیس افواج کے نام کندہ کیے جا چکے ہیں، یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے، امر جوان جیوتی کے یہاں منتقل کرنے سے ممکن ہے اس یادگار کی اہمیت بڑھ جائے ، لیکن انڈیا گیٹ کی اہمیت کم جائے گی، شاید یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم نے اس کے قریب ہی نیتاجی سبھاش چندر بوس کا مجسمہ نصب کیا ہے، اگر سارے مجاہدین کو نیشنل وار روم میں ہی جمع کرنا ہے تو پھر نیتاجی کو ہی کیوں اس اسمارک سے دور کیا جا رہا ہے۔

منگل, فروری 01, 2022
آن لائن تعلیم __مسائل ومشکلاتمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
آن لائن تعلیم __مسائل ومشکلات
کورونا وائرس کی وجہ سے تعلیمی ادارے بند ہیں اور ایسالگتا ہے کہ مدارس اسلامیہ کا تعلیمی سال بندی میں ہی نکل جائے گا، ایسے میں بہت سارے لوگ آن لائن تعلیم کی وکالت کرتے ہیں ، بلکہ بہت سارے ادارے عملاً آن لائن تعلیم کا اہتمام کر رہے ہیں اور مطمئن ہیں کہ تعلیمی نظام جاری ہے ۔ اس نظام کا آغاز پہلی بار ویسٹرن بی ہیورل سائنس انسٹی چیوٹ لاجولا کیلوفورنیا نے ۱۹۸۲ئ میں کیا تھا اور اسکول آف منیجمنٹ اینڈ اسٹریجٹک اینڈریز میں اس کا تجربہ کیا اور کمپیوٹر کانفرنسنگ کے ذریعہ بزنس ایگزیکیٹوکی شروعات کی ، ۱۹۸۹ئ میں امریکہ کی فینکس یونیورسیٹی نے اسے اپنایا اور ۱۹۹۸ئ آتے آتے امریکہ کی کئی بڑی یونیورسیٹیوں نے اسے اپنا لیا اور آن لائن تعلیمی سلسلہ شروع کیا، لیکن یہ طریقہ تعلیم اب تک اس قدر مقبول نہیں ہوا کہ اسکول و کالج کھولنے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہو۔
ہندوستان میں بھی یہ طریقہ پہلے سے رائج ہے اور اعلیٰ نصاب کی تکمیل کے لئے اسے استعمال کیا جاتا رہا ہے، کیوں کہ اس کی وجہ سے مختلف علوم و فنون کے ماہرین سے استفادہ آسان ہوتا ہے، اس کی اسی اہمیت کے پیش نظر ہندوستان میں بڑے پیمانے پر اس کی مارکیٹنگ کی جاتی رہی ہے، ۲۰۱۶ئ میں ہندوستان میں آن لائن ایجوکیشن کی مارکیٹ چوبیس کڑوڑ ستر لاکھ امریکی ڈالر تھی، اب کوونا وائرس کی وجہ سے اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے اور توقع کی جاتی ہے کہ۲۰۲۲ئ کے آخرتک یہ۱۰۹۶؍ ارب امریکی ڈالر کی حد کو پار کرلے گا، تعلیم کی مارکیٹنگ کرنے والے اس پر پوری توجہ اس لئے بھی صرف کر رہے ہیں کہ کلاس روم کے تعلیمی نظام کی بہ نسبت آن لائن تعلیم پر ایک سو پچھتر (۱۷۵)فی صد کم خرچ آتا ہے، لیکن یہ تصور کا ایک رخ ہے۔
دوسرا رخ یہ ہے کہ ہندوستان اب بھی غریب ملک ہے، یہاں یومیہ آمدنی فی کس لاک ڈاؤن کے پہلے بھی ۲۔۳ امریکی ڈالر سے زیادہ نہیں تھی، ایک سروے کے مطابق ایسے لوگوں کی تعداد اکاسی کڑوڑ بیس لاکھ تھی، لاک ڈاؤن کے بعد ایسے لوگوں کی تعداد اکانوے کڑوڑ پچاس لاکھ ہو گئی ہے ۔ ۲۔۳ امریکی ڈالر کا مطلب آج کے اعتبار سے صرف دو سو انتالیس روپئے ہے، اتنی کم آمدنی میں آدمی اپنی ضروریات زندگی کھانا، کپڑا اور مکان کے لئے فکرمند ہوگا،یا اپنے بچوں کو انڈرائیڈ موبائل ، ٹیبلیٹ یا لیپ ٹوپ خرید کر دیگا یا اور خرید بھی دے کسی طرح تو ماہانہ انٹرنیٹ کا خرچہ کہاں سے لائے گا، بھوکے رہ کر بچوں کے مستقبل کے لئے یہ سب کر بھی لے تو دیہات اور گاؤں میں موبائل چارج کرنے کے لئے بجلی کہاں سے دستیاب ہوگی، ان میں سے کوئی ایک بھی کڑی ٹوٹی تو آن لائن تعلیم سے فائیدہ اٹھانا بچوں کے لئے مشکل ہی نہیں ناممکن ہو جائے گا۔
آن لائن تعلیم کی حمایت کرنے والے بڑی آسانی سے کہہ دیتے ہیں کہ اب ہر شخص کے پاس انڈرائیڈ موبائل ہے، اس کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہے، ہندوستان جنگلوں اور دیہاتوں میں بھی بستا ہے، بلکہ ساٹھ سے ستر فی صدی آبادی وہیں بستی ہے، جہاں موبائل کا نیٹ ورک نہیں رہتا اور بجلی غائب ہوتی ہے تو ہفتوں کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔
ان ساری مشکلات پر قابو پا لیاجائے توبھی آن لائن تعلیم کلاس روم کا بدل نہیں ہے، کلاس روم میں استاذ صرف پڑھاتا ہی نہیں، بچوں کی نفسیات اس کی حرکات و سکنات پر بھی نگاہ رکھتا ہے، اس کے ہوم ورک اور روز مرہ کی کاپیوں کو بچوں کے سامنے چیک کرکے ان کی غلطیوں کی نشان دہی کرتا ہے، بچے کلاس روم میں صرف استاذ کا لکچرہی نہیں سنتے وہ اپنے ذہن میں اٹھنے والے سوالوں کے لئے بھی استاذ سے رجوع کرتے ہیں اور جواب پاتے ہیں، استاذ کے لکچر کی طرف طلبہ کی توجہ مرکوز ہوتی ہے۔
آن لائن کلاس میں بچہ گھر پر ہوتا ہے، اسے اسکول کا ماحول نہیں ملتا، گھر میں دوسرے بچے اورلوگ دوسری مشغولیت میں لگے ہوتے ہیں، گھر میں ہو رہے شور شرابے سے طلبہ کا ذہن اسباق پرمرکوز نہیں ہو پاتا، اساتذہ بھی طلبہ پر آن لائن کلاس میں توجہ نہیں دے سکتے ، ان کی ساری توجہ اسکرین پر رہتی ہے، بچہ لیپ ٹاپ کے اسکرین پر بیٹھا کیا کر رہا ہے، یہ استاذ کو معلوم نہیں ہوتا اور بیش تر گارجین کی دلچسپی اپنی کم علمی اور صلاحیتوں کے فقدان کی وجہ سے آن لائن کلاس کے وقت بچوں کی طرف نہیں ہوتی، وہ صرف موبائل یا لیپ ٹاپ پر اسے بٹھا کر مطمئن ہو جاتے ہیں اور بچے کارٹون اور ڈیجیٹل گیم میں لگ جاتے ہیں، جب کہ کلاس روم میں عموماً ایسا نہیں ہوتا ۔
جو لوگ اس کام پر لگائے گئے ہیں وہ اساتذہ ہی ہیں، لیکن انہیں اس طریقۂ تدریس کی تربیت نہیں دی گئی ہے اور انہیں یوں ہی بورڈ اور اسکرین پر کھڑا کر دیاگیا ہے، یہ عجیب و غریب بات ہے کہ کلاس روم میں پڑھانے کے لئے تو دو سال کی ٹریننگ ضروری قرار دی جائے اور آن لائن تعلیم کے لئے دس بیس روز کاتربیتی کورس بھی نہ کرایا جائے ، یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ کلاس روم میں جو الٹا سیدھا استاذ پڑھا دیتاہے اس کا کوئی رکارڈ نہیں ہوا کرتا، معلومات بچوں میں صحیح منتقل ہوتی ہے یا غلط اس کا جائزہ لینے والا کوئی نہیں ہوتا، لیکن آن لائن کلاس کا رکارڈ ہوتاہے اور ہمیں اندیشہ ہے کہ بعض وجوہات سے ہماری جگ ہنسائی نہ ہو، جیساکہ اساتذہ سے ذرائع ابلاغ والوں کے ذریعہ لئے گئے انٹرویو سے باربار خفت کا سامنا کرنا پڑتا رہا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جو لوگ آن لائن تعلیم دلوارہے ہیں اور ابتدائی نہیں اعلیٰ درجات میں ماہر پیشہ ور اساتذہ کو اس کام میں لگا رکھا ہے، وہ بھی اس طریقۂ تعلیم سے مطمئن نہیں ہیں، وہ اسے گپ شپ سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے، جب اعلی درجات میں اس طریقہ تعلیم کا فائیدہ اس قدر نہیں ہوا کہ نصاب کو مکمل قرار دے کر امتحان لیا جائے اور بچوں کی کامیابی ، ناکامیابی کی بنیاد پر ترقی کا فیصلہ لیا جائے ، تو بھلا پرائمری اور ثانوی درجات کے بچے کس قدر اس طریقۂ تعلیم سے استفادہ کر سکیں گے، جگ ظاہر ہے۔
ایسے میں دو سطح پر کام کرنے کی ضرورت ہے، ایک یہ کہ جو اساتذہ آن لائن پڑھا رہے ہیں یا پڑھانا چاہتے ہیں، سرکاری سطح پر ان کی تربیت کا نظم کیا جائے ، دوسرے کرونا وائرس سے بچنے کے لئے جو گائید لائن حکومت نے دیا ہے اس کی پابندی اور پاسداری کرتے ہوئے اسکول کو کھولا جائے، ثانویہ اور اعلیٰ درجات میں تویہ چنداں مشکل نہیں ہے، جب کارخانے اور دفاتر پچاس فی صد کارکنوں کے ساتھ کھولے جا سکتے ہیں تو کئی شفٹ میں سوشل ڈسٹنسنگ کا خیال کرتے ہوئے تعلیمی ادارے اپنی سرگرمیاں کیوں نہیں جاری رکھ سکتے، ایسا لگتا ہے کہ سرکار کی نظر میں معاشی مسائل کے مقابلہ میں تعلیم کی بہت اہمیت نہیں ہے، اس لئے معاشی سرگرمیوں کے لئے چھوٹ دی جارہی ہے اور تعلیمی سرگرمیوں پرمضبوط پہرہ بحال رکھا ہے، اگر کورونا کا اتنا ہی ڈر ہے تو اساتذہ کو بھی اسکول و مدرسہ کی حاضری کا پابند نہیں کرنا چاہئے۔

پیر, جنوری 31, 2022
"زاویۂ نظر کی آگہی" ____ میرے مطالعہ کی روشنی میںعبدالرحیم برہولیاوی، استاد معھدالعلوم الاسلامیہ، چک چمیلی، سرائے، ویشالی، بہا ر
"زاویۂ نظر کی آگہی" ____ میرے مطالعہ کی روشنی میں
عبدالرحیم برہولیاوی، استاد معھدالعلوم الاسلامیہ، چک چمیلی، سرائے، ویشالی، بہا ر رابطہ نمبر: 9308426298
ابھی میرے سامنے سید محمود احمد کریمی (ایڈوکیٹ)، محلہ سیناپت، دربھنگہ کی پہلی تخلیقی تصنیف ان کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ "زاویۂ نظر کی آگہی" ہے۔ محمود کریمی صاحب کی یہ پہلی تخلیقی تصنیف ضرور ہے؛ مگر وہ ترجمہ نگاری کے میدان کے ماہرین میں ہیں، اردو و انگریزی دونوں زبانوں میں یدِ طولیٰ رکھتے ہیں؛ اسی لیے اس صنف میں اردو سے انگریزی میں ابھی تک گیارہ (11) کتابوں کا ترجمہ کرچکے ہیں، جو شائع ہوکر مقبول خاص و عام ہوچکی ہیں۔ وہ کتابیں درج ذیل ہیں:
1: عضویاتی غزلیں (organvise ghazlen)،
2: ہر سانس محمد پڑھتی ہے (Encomium to Holy Prophet )،
3: بکھری اکاییاں (Assortment of short stories )،
4: قصیدہ بردہ شریف (Qasidah Burdah sharif )،
5: سورہ یاسین شریف (Surah Yaseen Sharif )،
6: قربتوں کی دھوپ (Proximal warmth )،
7: کچھ محفل خوباں کی (Closet of beauties )،
8: شبنمی لمس کے بعد ناول (After Dewy palpalibity )،
9: نبیوں میں تاج والے نعت شریف (Nabiyon Mein Taj Wale)،
10: لمسوں کی خوشبو بیاض (Fragrance of palpation )،
11: نظمیچہ ثلاثہ ( Triliterality)
محمود کریمی صاحب کی ترجمہ نگاری کا یہ سلسلہ ابھی بھی جاری ہے، آپ انگریزی زبان پر اچھی دسترس رکھنے کے ساتھ ساتھ اردو زبان پر بھی اچھی پکڑ رکھتے ہیں، جیسا کہ میں اوپر تذکرہ کرچکا ہوں۔ انہون نے اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں M.A کیا ہے، وکالت کی بھی تعلیم حاصل کی۔ زمیندارانہ ماحول میں پرورش پائی اور بچپن سے ہی علم ادب کا ماحول پایا، ادبی ذوق بچپن سے ہی پنپتا رہا پوسٹ گریجویٹ اور وکالت کی تعلیم مکمل کر لینے کے بعد لکھنے کا شوق پیدا ہوا، پہلا مضمون انگریزی می ہی: Iqbal and his missions کے عنوان سے لکھا، اس کے بعد شکوہ کا انگریزی ترجمہ کیا، اب تک ترجمہ کا یہ سلسہ جاری ہے، اللّٰہ کرے یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہے۔
مصنف نے وکالت کی تعلیم حاصل کی، مگر اس کو پیشہ اور ذریعۂ معاش نہیں بنایا؛ بلکہ دربھنگہ میں ہی اسکول اور کالج میں انگریزی زبان کے درس و تدریس سے ایک عرصہ تک جڑے رہے، اب مستقل طور پر ترجمہ نگاری کے کام میں لگے ہوئے ہیں، سید محمود احمد کریمی دیکھنے میں دبلے پتلے کمزور ضرور ہیں، مگر کام کی رفتار اس قدر تیز ہے کہ اچھے اچھے جوان بھی ان کے سامنے فیل ہیں، اللّٰہ سلامت رکھے، عمر دراز ی عطا فرمائے، آمین۔
مصنف نے اپنی کتاب "زاویۂ نظر کی آگہی" کا انتساب پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی کے نام کیا ہے۔ 144 صفحات کی اس کتاب کو تین مرکزی عناوین کے تحت تقسیم کیا گیا ہے، پہلا مرکزی عنوان "کوائف" ہے، صفحہ 6 تا 8 پر مصنف نے ضروری باتیں کے عنوان سے کتاب کے حوالہ سے روداد پیش کی ہے، صفحہ 8 تا 12 پر سوانحی خاکہ، اپنی زندگی کی تفصیل، اپنے مضامین و مقالات اور ترجمہ کی گئیں کتابوں کا ذکر اور اعزازات کا ذکر تفصیل سے پیش کیا ہے۔ صفحہ 13 اور 14 پر شجرۂ نسب درج ہے، مصنف نے پہلے دادیہال پھر نانیہال کا شجرۂ نسب درج کیا ہے، شجرۂ نسب محفوظ کرنے کا رواج اب تیزی سے ختم ہوتا جا رہا ہے، لوگ اپنے باپ دادا کے بعد کے نسب کو بھلاتے چلے جارہے ہیں۔ دوسرا مرکزی عنوان "تاثرات" کے عنوان سے شروع ہو تا ہے، جس میں سب سے پہلے 15 تا 16صفحہ پر پروفیسر عبدالمنان طرزی صاحب کا منظوم کلام "محمود احمد کریمی:مرحبا" کے عنوان سے درج ہے، پھر توشیحی نظم پروفیسر عبدالمنان طرزی صاحب کی درج ہے، جو انہوں نے محمد احمد کریمی صاحب کے لئے لکھی ہے، مصنف نے توشیحی نظم کو انگریزی ترجمہ کے ساتھ درج کیا ہے، جو کہ صفحہ 17 تا 23 پر درج ہے، صفحہ 23 پر منظوم کلام بہ عنوان "نذر محمود احمد کریمی" شاہد حسن قاسمی تابش صاحب کی درج ہے، صفحہ 24 پر عبدالاحد ساز ممبئی کا منظوم تاثر درج ہے، اس کے بعد منظوم ختم ہو کر صفحہ 25 تا 33 پر ڈاکٹر احسان عالم، پرنسپل الحرا پبلک اسکول دربھنگہ کی تحریر بہ عنوان "سید محمود احمد کریمی: شخصیت،مضامین اور فن ترجمہ نگاری " درج ہے، ڈاکٹر احسان عالم صاحب نے تفصیل کے ساتھ لکھا ہے اور اچھا لکھا ہے، احسان عالم لکھتے ہیں: دیر آید درست آید، ایک بڑا اہم مقولہ ہے، سید محمود احمد کریمی نے اپنی زندگی کے 80-85 سال گزارنے کے بعد ایک بار پھر اردو ادب کی جانب اپنا رخ کیا، اس بار انہوں نے اس دل جمعی سے اردو اور انگریزی زبان کا سنگم تیار کیا ہے کہ لوگ حیران ہیں کہ اس عمر میں بھی کام کیا جاسکتا ہے، اگر انسان حوصلہ رکھے تو کسی بھی عمر میں پورے جوش و خروش سے کام کیا جاسکتا ہے، ان کا کارنامہ نئی نسل کے لئے مشعلِ راہ ہے۔ صفحہ 34 تا 38 پر ڈاکٹر منصور خوشتر ایڈیٹر دربھنگہ ٹایمز کی تحریر "سید محمود احمد کریمی" کے عنوان سے درج ہے۔ منصور خوشتر لکھتے ہیں: محمود احمد کریمی کے مقالات نہایت دلکش اور سادہ و سلیس ہوا کرتے ہیں، پیشکش کا انداز نہایت دلچسپ اور لائق توجہ ہے، عبارت صاف، رواں اور سلیس ہے، انہیں انگریزی زبان پر عبور حاصل ہے، جس کی وجہ سے آپ کے ترجمے میں صحیح الفاظ ملتے ہیں۔ صفحہ 38 تا 41 پر ایڈوکیٹ صفی الرحمٰن راعین، میلان چوک، دربھنگہ کی تحریر "محمود کریمی کی ادبی خدمات" درج ہے، صفی الرحمٰن راعین صاحب لکھتے ہیں: محمود کریمی ماہر اقبالیات ہیں، اقبال کی شخصیت، ادبی فن، بلند تر اسلامی نظریات، جذبات اور روحانیت پر آپ نے پر مغز مقالات تحریر کیا ہے، جس میں حیات انسانی کے تمام گوشوں پر اقبال کے اسلامی افکار کی عکاسی موجود ہے۔ صفحہ 42 تا 47 پر محترم ڈاکٹر ابرار احمد اجراوی کی تحریر بہ عنوان "ترجمہ کی مشین :سید محمود احمد کریمی" درج ہے، ڈاکٹر ابرار اجراوی لکھتے ہیں سید محمود احمد کریمی عصر حاضر میں تنقید و ترجمہ کی دنیا کا ابھی اہم اور معتبر نام بن گیا ہے، ان کی شخصیت کے کئی رنگ ہیں۔ ان کا ذہنی زاویہ کسی حصار میں مقید نہیں ہے۔ وہ ضعیف العمری میں بھی ہر دم سرگرم اور متحرک رہتے ہیں، یہی سبب ہے کہ وہ برھتی عمر کے ساتھ علمی اور ادبی مشغولیتو ں کے چمنستان میں بھی گل بوٹوں کا اضافہ کرتے جا رہے ہیں۔
تیسرا مرکزی عنوان "مقالے" ہے، جہاں سے مصنف کے اپنی تخلیق مقالے شروع ہوتے ہیں، صفحہ 48 تا 54 پر "شیخ مجد کا تصور توحید " ہے۔ صفحہ 55 تا 62 پر"اقبال کا تصور خودی" درج ہے۔ پھر مقالہ بہ عنوان "اقبال کی تخلیقی قوت" ہے، اس کے بعد صفحہ 74 تا 129 پر دور ہا باید، دو قومی نظریہ اور تقسیم ہند کا تخیل، ظفر کی شاعری زندان میں، تنقید کے ضمن میں، تعلیم کی افادیت، حملہ کے وقت تجزیہ، پیغمبر پور اسٹیٹ کی ادبی ثقافتی خدمات، درد دل مسلم، جیسے اہم عناوین سے مضامین درج ہیں، سب سے اخیر میں "علامہ اقبال کا پیغام عمل" کے عنوان سے آخری مضمون صفحہ 135 تا141 موجود ہے، سید محمود احمد کریمی کے تمام مضامین اور مقالات کافی اہم اور معلوماتی ہیں، انہوں نے ان سب کو کتابی شکل میں محفوظ کرکے ایک بڑا کام کیا ہے، اس کے بعد انہوں نے جتنی کتابوں کا اب تک ترجمہ مکمل کرلیا ہے اور وہ شائع ہوگئی ہیں، ان کی فہرست پیش کی ہے۔ کتاب کے پیچھے مصنف کی تصویر بھی موجود ہے، کتاب کی اشاعت سال 2021ء میں بہار اردو سکریٹیٹ محکمہ کابینہ (راج بھاشا اردو) کے جزوی مالی تعاون سے ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس دہلی سے ہوئی ہے۔ کمپوزنگ کا کام ڈاکٹر احسان عالم نے کیا ہے، پروف کی غلطیاں نہیں ہیں، ٹائٹل پیج خوبصورت اور ورق عمدہ ہے، آپ بھی اس کتاب کو محض 150روپے دےکر نولٹی بک قلعہ گھاٹ دربھنگہ، بک امپوریم سبزی باغ پٹنہ، ادارہ دربھنگہ ٹایمز ،پرانی منصفی دربھنگہ سے حاصل کرسکتے ہیں۔

سبسکرائب کریں در:
اشاعتیں (Atom)
اردودنیانیوز۷۲
ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!
ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے! Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...
-
ٹرین میں ناری شکتی پردرشن Urduduniyanews72 عالمی یوم خواتین سے سبھی واقف ہیں، یہ ہرسال مارچ کی آٹھویں تاریخ کوپوری دنیا میں من...
-
گستاخ نبی کی قرآنی سزا اردودنیانیوز۷۲ مکہ میں سب سے پہلےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنےوالا کوئی اور نہیں بل...
-
یہ بیماری نہیں عذاب الہی ہے ! Urduduniyanews72 سی این این یہ امریکی نشریاتی ادارہ ہے،اس کی ایک رپورٹ جسے ملک کے اکثر اخبارات ...
-
بچیوں کی تربیت: ایک اہم ذمہ داری Urduduniyanews72 1. بچیوں کی تربیت کی اہمیت بچیوں کی تربیت ایک معاشرتی فریضہ ہے۔ ایک اچھی تربی...
-
مدارس اسلامیہ کنونشن میں منظور شدہ تجاویز اردودنیانیوز۷۲ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھن...
-
ملکِ ہند میں اسلامی انگریزی اسکول: وقت کی اہم ضرورت Urduduniyanews72 ہندوستان میں مسلمان قوم کا شمار ملک کی سب سے بڑی اقلیت میں...
-
نئے سال کا آغاز: ایک نیا سفر Urduduniyanews72 نیا سال ایک نیا آغاز، ایک نئی امید اور نئی جدوجہد کا پیغام لے کر آتا ہے۔ یہ دن نہ...
-
پیام انسانیت کے وفد کا سیمانچل دورہ Urduduniyanews72 Urduduniyanews72 @gmail.com ملک میں ایک ایسی تحریک جو خالص انسانی بنیاد پ...
-
سنبھل میں کرفیو کی ایک رات ) * انس مسرورانصاری Urduduniyanews72 رات آئی تو خوف کا عفریت...
-
خنساء اسلامک انگلش اسکول بہیڑہ دربہنگہ، بہار کی دینی و عصری تعلیم اور اصلاحی خدمات۔ Urduduniyanews72 تعارف: خنساء اسلامک انگلش ...