Powered By Blogger

ہفتہ, فروری 12, 2022

قابل مذمت بیان مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

قابل مذمت بیان 
 مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
حکومت بہار میں بی جے پی کوٹے سے نیرج کمار ببلو اور جے بیش مشرا وزیر ہیں، انہیں سرخیوں میں بنے رہنے کا شوق ہے، یہ شوق بُرا نہیں ہے، لیکن اس کا استعمال ریاست کی تعمیر وترقی کے لیے کریں تو فائدہ پہونچے گا، انہیں ریاست کی ترقی سے کوئی مطلب نہیں ہے ، ان کے نزدیک فائدہ ایسے بیانوں میں ہے جس سے ہندتوا مضبوط ہواور ریاست کے رائے دہندگان کا ووٹ ان کی طرف ہوجائے، اس کام کے لیے انہیں مسلمان ، مسلمانوں کے ادارے ان کی کھان پان ان کی وضع قطع ، حجاب وپردہ اور تہذیب وثقافت کے خلاف آتش فشانی کر نی ہوتی ہے، یہ رائے دہندگان کو اپنی طرف لانے کے لیے ان کی تگ ودو کا ایک حصہ ہے، ان دونوں وزراء کے مدارس کے خلاف حالیہ بیان کو اسی پس منظر میں دیکھنا چاہیے، واقعہ یہ ہے کہ مدارس اسلامیہ میں جو تعلیم دی جاتی ہے وہ طلبہ کو اچھا شہری اور اعلیٰ اخلاقی اقدار سے مزین کرنے کا کام کرتی ہے، اس کے پہلے بھی مرلی منوہر جوشی جب وزیر تعلیم تھے یہ سوال مرکز سے اٹھا تھا، اور حضرت مولانا محمد ولی رحمانی رحمۃ اللہ علیہ نے ناموس مدارس اسلامیہ کنونشن مونگیر میں منعقد کرکے اس غلط بیانی کی ہوا نکال دی تھی، اور تب سے یہ معاملہ ٹھنڈا پڑگیا تھا۔
اب پانچ ریاستوں میں انتخابات ہونے ہیں اور بہار میں بھی لوکل باڈیز سے ام ال سی کے لیے نام وحلقوں کی تعیین کی جاری ہے، اس لیے اس بیان کو اچھال دیا گیا، ان دونوں وزراء کے ذہن میں آسام ماڈل گشت کر رہا ہے، آسام ہویا ہندوستان کی کوئی ریاست یہ مدارس اسلامیہ آئین کی دفعہ ۲۹، ۳۰ اور ۳۰؍ اے کے تحت قائم ہیں اور ان کو کسی بھی درجہ میں غیر دستوری نہیں کہا جا سکتا ۔
اس بیان پر وزیر اعلیٰ کی طرف سے کوئی تبصرہ تو نہیں آیا، لیکن وزیر تعلیم وجے کمار چودھری اور وزیر اقلیتی فلاح زماں خان، وقف بورڈ کے چیرمین محمد ارشاد اللہ اور جد یو کے کئی لیڈران نے اس کا نوٹس لیا ہے اور اس کی مذمت کی ہے۔البتہ ان دونوں وزیروں کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ مدارس اسلامیہ کی تاریخ سے نا واقف ہیں، صحیح نہیں ہے ، وہ خوب جانتے ہیں کہ یہ مدارس اسلامیہ مسلمانوں کے لیے مذہبی تعلیم وتہذیب وثقافت کے لیے پاور ہاؤس کی حیثیت رکھتے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ اس کے کردار کو مجروح کرکے ان اداروں کے خلاف شکوک وشبہات پیدا کیے جائیں، پھر اس کا میڈیا ٹرائل کیا جائے اور اگر یہ ادارے بند نہ کیے جائیں توبھی ان کے کام کرنے کے طریقے کو بدل کر دکھ دیا جائے۔
 واقعہ یہ ہے کہ دستور میں ہندوستان کی مختلف اقلیتوں کو جو حقوق دیے گیے ہیں، اس کی روشنی میں صرف مذہبی تعلیم سے بھی کسی کو نہیں روکا جا سکتا ، جب رائٹ ٹو ایجوکیشن قانون آیا تھا تو مفکر اسلام مولانا محمد ولی رحمانیؒ نے مکاتب، پاٹھ شالے، گروکل وغیرہ کو بھی سرکاری طور پر تعلیمی ادارے کے طور پر منظور کر وایا تھا اور اس میں پڑھنے والے بچوں کو بھی تعلیم حاصل کرنے والا قرار دیا گیا تھا۔
 اگر ڈبل انجن کی سرکار بہار میں نہیں ہوتی او ر وزیر اعلیٰ نتیش کمار کے لیے بی جے پی کو لے کر چلنا مجبوری نہیں ہوتی تو ہمارا مطالبہ ہوتا کہ ایسے وزراء کو بر طرف کر دینا چاہیے، کیونکہ ان کے بیانات وزیر اعلیٰ کی پالیسی کے خلاف ہیں اور ایسے لوگوں کو وزارت میں بنے رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔موجودہ حالات میں بھی ان وزراء کی سخت تنبیہ ضرور کی جانی چاہیے تاکہ یہ سلسلہ دراز نہ ہو۔

جمعہ, فروری 11, 2022

خود کفیل ‌‌نظام مکاتب کو رائج کیجئے۔مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمیدینی و عصری ادارے کا قیام اور دارالقضاء کے افتتاح کے سلسلے میں جگت سنگھ کے علماء سے تبادلہ خیال

خود کفیل ‌‌نظام مکاتب کو رائج کیجئے۔مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
دینی و عصری ادارے کا قیام اور دارالقضاء کے افتتاح کے سلسلے میں جگت سنگھ کے علماء سے تبادلہ خیال

جگت سنگھ (اڈیشہ)۱۱/فروری (پریس ریلیز) بنیادی دینی تعلیم کے فروغ کی سب سے بہترین شکل یہ ہے کہ خود کفیل ‌‌نظام مکاتب کو رواج دیا جائے کیونکہ بنیادی دینی تعلیم کا حصول تمام مسلمانوں پر فرض ہے،اور کسی ادارے کے وسائل اس قدر نہیں ہیں کہ وہ ضرورت کے مطابق اپنے صرفہ سے ہر جگہ مکتب قائم کرسکے،اس لیے جس طرح مسلمان اپنی تمام ضرورتیں عام طور سے دوسروں کے مدد کے بغیر پوری کرتے ہیں اسی طرح بنیادی دینی تعلیم پر بھی اپنے خون پسینہ کی کمائی صرف کرنی چاہیے،اس کا تجربہ امارت شرعیہ نے بہار میں کیا ہے اور امیر شریعت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی دامت برکاتہم کے حکم پر محنت کی گئی تو ساٹھ خود کفیل مکاتب دو ماہ کے قلیل عرصہ میں قائم ہو گئے، ضرورت مشورہ اور ترغیب دلانے کی ہے، ان خیالات کا اظہار اڈیشہ کے پانچ روزہ دورہ کے دوسرے دن جگت سنگھ پور کے مدرسہ ریاض العلوم میں علماء کے درمیان تبادلہ خیال کرتے ہوئے امارت شرعیہ کے نائب ناظم مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی ناظم وفاق المدارس الاسلامیہ اور نائب صدر اردو کارواں نے کیا، وہ یہاں ایک سہہ نفری وفد کے ساتھ جس میں مولانا صبغت اللہ قاسمی معاون قاضی دالقضاء امارت شرعیہ کٹک اور راشد نجمی پرنسپل قاضی نور الحسن میموریل اسکول شامل تھے، آج یہاں پہونچے مفتی صاحب نے اپنے رفقاء کے ساتھ دالقضاء کی زمین کا معائنہ کیا اور اس عمارت کا جائزہ لیا جس میں مستقبل قریب میں دالقضاء کا افتتاح ہونا طۓ ہوا ہے،مفتی صاحب نے ان موضوعات پر قاری شریف صاحب،مولانا غلام صمدانی اور مولانا سرفراز بانی و مہتمم جامعہ عبد اللہ ابن مسعود سے تبادلہ خیال کیا، مفتی صاحب نے ان علماء کو یقین دلایا کہ آپ حضرات کے مشورے کی روشنی میں کام کو ان شاءاللہ آگے بڑھایا جائے گا۔
مفتی صاحب نے جامع مسجد کیسیر پور کٹک میں جمعہ سے قبل اپنے خطاب میں حضرت امیر شریعت کی سمع و طاعت، اتحاد و اتفاق،ایک امت اور ایک جماعت بن کر زندگی گزارنے،بنیادی دینی و عصری تعلیمی اداروں کے قیام اور گناہوں کے کام سے خود کو بچنے ا ور دوسروں کو بچانے کی ضرورت پر زور دیا، انہوں نے لوگوں کو جماعت کا سبق بتایا اور امارت پبلک اسکول پنشن لین بخشی بازار کٹک کے قیام میں ہر قسم  کے تعاون کی مسلمانوں سے اپیل کی ،اس موقع سے مفتی صاحب نے فرمایا کہ حجاب کے سلسلے میں جس طرح سے سیاست ہورہی ہے وہ انتہائی افسوس ناک ہے انہوں نے فرمایا کہ سکھ طلبہ پگڑ یا ہندو طلبہ جینیووغیرہ کے ساتھ کلاس میں داخل ہوسکتے ہیں تو  مسلم لڑکیوں پر حجاب کے بغیر اسکول آنے کی پابندی کیوں لگائی جارہی ہے،مفتی صاحب نے اس موقع پر مولانا منظور احمد کو بھی یاد کیا جو امارت شرعیہ کٹک کے نگراں تھے،اور ان کی قبر پر فاتحہ خوانی کے لئے تشریف لے گئے،یہ اطلاع دفتر امارت شرعیہ کٹک سے مولانا صبغت اللہ قاسمی نے دی ہے۔

دُوہرا رویہ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

دُوہرا رویہ
 مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
کرنا ٹک کے کولار میں ایک سرکاری اسکول ہے، جہاں مسلم بچے بھی پڑھتے ہیں،  اوما دیوی وہاں کی ہیڈ مسٹریس ہیں، ایک جمعہ کو انہوں نے چند مسلم بچوں کو اسکول کے ایک کمرے میں جمعہ کی نماز پڑھنے کی اجازت دے دی، بچوں نے ان کی اجازت کے بعد نماز ادا کی ، بس کیا تھا، فرقہ پرستوں کو ایک موقع مل گیا، نماز کی ویڈیو وائرل کی گئی ، میڈیا میں اس پر بحثیں شروع ہوئیں، اوما دیوی کو نہ صرف جانچ کاسامنا کرنا پڑا؛ بلکہ انہیں معطل کر دیا گیا، کرناٹک کے وزیر تعلیم بی سی ناگیش نے ان کے خلاف سخت قدم اٹھانے کا اشارہ بھی دیا ہے، یہ ایک افسوسناک صورت حال ہے۔
 اس کے بالمقابل دوسرا رویہ یہ ہے کہ ہندوستان کے بیش تر سرکاری اسکول میں سرسوتی دیوی کی پوجا ہوتی ہے، مورتیاں لگائی جاتی ہیں،بچوں سے روپے وصولے جاتے ہیں،اور اس میں مسلم اور غیر مسلم کی کوئی تفریق نہیں کی جاتی، اگر اسکول سارے مذاہب کے لیے ہیں اور سیکولرزم کی وجہ سے نماز پڑھنے کی اس میں اجازت نہیں ہے تو مورتی پوجا کو بھی روکنا چاہیے؛ کیوں کہ وہ بھی سیکولر اقدار کے خلاف ہے۔ 
 واقعہ کوئی بھی ہو، مسلم میڈیا کو ساری کمزوری مسلم اداروں میں نظر آنے لگتی ہے کہ وہ آگے کیوں نہیں آتے ، خاموش کیوں رہ جاتے ہیں، عدالت سے کیوں رجوع نہیں کرتے،مسلم قیادت کو مطعون کرکے مسلم میڈیا اور صحافی حضرات دل کی بھڑاس نکال لیتے ہیں، یقینا مسلم ادارے اور تنظیموں کو آگے آنا چاہیے،لیکن آپ کے پاس خبر رسانی کاجو نظام ہے اس کو کام میں کیوں نہیں لاتے ہیں، اس قسم کے مسائل میں آپ کی بیداری ملک وقوم کو بیدار کر سکتی ہے؛ اس لئے اردو میڈیا اور صحافت کو بھی سود وزیاں سے اوپر اٹھ کر اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری نبھانی چاہیے ، تبھی اس پر قابو پانا ممکن ہوسکے گا۔

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی : علم و ادب کے خورشید تاباں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔از قلم : فخرالدین عارفی

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی : علم و ادب کے خورشید تاباں 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
از قلم : فخرالدین عارفی 

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی   صاحب نے از راہ عنایت مجھے اپنی چار کتابوں سے نوازا ہے ۔   ۔ یہ چاروں کتابیں فی الحال میرے زیر مطالعہ ہیں ۔ مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی صاحب کی حیات و خدمات اور ادب میں ان کے  کارناموں  پر اظہار خیال کرنا بہت دشوار اور مشکل کام ہے ۔ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی صاحب ، علم کا ایک سمندر ہیں ۔ علم کے اس سمندر کی غوّاصی اور پھر علم کے اس عمیق  سمندر سے موتی اور  جواہرات نکالنا کوئی معمولی کام نہیں ہے ۔ پھر بھی میری یہ کوشش ضرور ہوگی کہ جو قیمتی نگارشات اور تحریریں  انہوں نے ہمارے سامنے رکھی  ہیں ۔ ان سے اپنے ذہن کے اندھیروں کو دور کرسکوں ۔ میں مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی صاحب سے ملا ہوں اور بار بار ملا ہوں ۔ متعدد مواقع پر ہم دونوں نے  ایک ہی اسٹیج سے تقریریں بھی کی ہیں ۔ لیکن ان کی تقریر میں  زور بیان اور شوکت الفاظ سے  جو بلند پیکر بنتے ہیں وہ سب کو کہاں میسر آتے ہیں ۔ وہ کم بولتے ہیں لیکن جب بولتے ہیں تو خوب بولتے ہیں ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پہاڑ سے ایک خوب صورت آبشار نکل رہا ہو۔۔۔۔ان کے الفاظ پہاڑ کی چوٹیوں سے ٹکراتے ہیں ، بل کھاتے ہیں ۔ کہیں کسی دوشیزہ کی زلف میں تبدیل ہوجاتے ہیں اور کہیں کسی سمندر کی لامکاں وسعتوں میں گم ہوجاتے ہیں ۔ وہ ایک انتہائی نیک ، شریف اور مہذب انسان ہیں ۔ ان کی حیثیت ایک مذہبی پیشوا کی ہے ۔ وہ شریعت اور اصول شریعت سے بخوبی واقف ہیں ۔ لیکن ادب میں بھی جو دسترس اور کمال انہیں حاصل ہے وہ بہت کم لوگوں کے حصّے میں آتا ہے ۔ ان کی جو عام گفتگو ہوتی ہے وہ آواز کی ایک مخملی چادر ہوتی ہے ۔ لیکن جب وہ کسی موضوع  پر ، کسی اسٹیج سے تقریر کرتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کہیں آسمان پر بادل گرج رہا ہو  ۔ اس وقت ان کی آنکھوں میں بھی ان کی لیاقت ، اہلیت اور قابلیت کی برق صاف نظر آتی ہے ۔ ان کے جیسا مقرر اس وقت بہار کی سرزمین پر بہت کم ہے ۔ ان کی شخصیت میں جو عاجزی اور انکساری ہے وہ بھی بہت نادر اور موجودہ عہد میں عنقا کی حیثیت رکھتی ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ یہ بیدل ، راسخ اور شاد کی سرزمین "عظیم آباد " ہے ۔ جسے شہزادہ عظیم الشان نے سجایا اور سنوارا تھا ۔ لہذا یہاں نہ تو جوہر کی کمی ہے اور نہ جوہر شناسوں کی ۔۔۔۔
یہ بستی اب بھی بازار ختن ہے باکمالوں سے 
غزال آنکھیں چراتے ہیں عظیم آباد والوں سے 
( حافظ فضل حق آزاد عظیم آبادی ) 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی اور ان کی کتابوں کے تعلق سے باقی باتیں ، ان شاء الله جلد ہی پھر کروں گا ۔ ان کی کتابیں جو دستیاب ہیں ان سے استفادہ کررہا ہوں ۔ جب کسی روز ان کے علم کے روشن چاند سے میرے ذہن و دل کی سرزمین پھر منوّر ہوگی تو اس چاندنی پر آپ کا بھی حق ہوگا ۔ یہ میرا وعدہ ہے ۔ تب تک کے لیےء اجازت دیں ۔ مفتی محمد ثناء الہدیٰ  قاسمی صاحب سے وقفے کے لیےء معذرت خواہ ہوں ۔ ہاں یہ وعدہ ضرور ہے کہ جلد ہی آپ کی کتابوں پر اظہار خیال ضرور کروں گا ، لیکن جو کچھ بھی لکھوں گا پڑھ کر ، سمجھ کر اور سنبھل کر لکھوں گا ۔ ان شاء الله ۔۔۔۔۔۔۔فخرالدین عارفی 
10 جنوری 2022 ء

حجاب پر پابندی کے کرناٹک ہائی کورٹ کے عبوری فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں عرضی داخل

حجاب پر پابندی کے کرناٹک ہائی کورٹ کے عبوری فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں عرضی داخل

نئی دہلی: کرناٹک کا حجاب تنازعہ ایک مرتبہ پھر سپریم کورٹ میں پہنچ گیا ہے۔ کرناٹک کی کچھ طالبات نے حجاب معاملہ پر ہائی کورٹ کے عبوری حکم کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے۔ انڈیا ٹوڈے کی رپورٹ کے مطابق، اس معاملے پر دائر تازہ عرضیوں کا سپریم کورٹ کے سامنے فوری سماعت کے لیے ذکر (مینشن) کیا جائے گا۔

خیال رہے کہ کرناٹک ہائی کورٹ نے جمعرات کو کالجوں میں حجاب پہننے پر ریاستی حکومت کی پابندی کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر سماعت کی تھی۔ ایک عبوری حکم جاری کرتے ہوئے ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے کہا کہ ریاستوں میں کالج دوبارہ کھل سکتے ہیں لیکن جب تک معاملہ زیر التوا ہے طلبا کو مذہبی لباس پہننے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

دریں اثنا، حکومت نے مظاہروں کی وجہ سے بند اسکولوں اور کالجوں کو پیر کے روز سے مرحلہ وار کھولنے کا فیصلہ کیا ہے۔ سب سے پہلے جماعت اول تا دس کے طلبا کو کلاسوں میں جانے کی اجازت دی جائے گی اور ان کالجوں کے بارے میں فیصلہ بعد میں کسی وقت لیا جائے گا جہاں حجاب کا مسئلہ شدید ہو گیا ہے۔

کرناٹک میں حجاب پر تنازع اس وقت شروع ہوا تھا جب کرناٹک کے ساحلی شہر اڈوپی میں ایک سرکاری پری یونیورسٹی کالج کی انتظامیہ نے 6 مسلم طالبات کو حجاب پہننے کی وجہ سے کلاس میں جانے سے روک دیا۔ اس کے بعد کالج کے ہندو طالب علم زعفرانی اسکارف اور جھنڈے لہرانے لگے تو تنازعہ نے شدت اختیار کر لی۔ اس کے بعد ریاستی حکومتوں کو اسکول کالجوں کو بند رکھنے کا حکم جاری کرنا پڑا

جمعرات, فروری 10, 2022

بنیا دی دینی تعلیم کے سا تھ معیا ری عصری تعلیم ہما را امتیاز___:مفتی محمد ثنا ء الہدی قاسمی اما رت پبلک اسکول کٹک اڈیشہ کی میٹنگ اہم فیصلوں کے سا تھ اختتام پذیر

بنیا دی دینی تعلیم  کے سا تھ معیا ری عصری تعلیم ہما را امتیاز___:مفتی محمد ثنا ء الہدی قاسمی
      اما رت پبلک اسکول کٹک اڈیشہ کی میٹنگ اہم فیصلوں کے سا تھ اختتام پذیر

کٹک 10 فروری (پریس ریلیز) : اسلا می ماحول میں بنیا دی دینی تعلیم کے سا تھ عصری معیا ری تعلیم اما رت پبلک اسکول کا امتیازہے،امارت شرعیہ چا ہتی ہے کہ اسدین بیزا ر ما حول میں بچے بچیوں کی عصری تعلیم کا ایسا نظم کیا جا ئے کہ نئی نسل اس مقا بلہ جاتی دور میں آگے بڑھ سکے اور وہ جہا ں کہیں رہیں عصری علوم کے ما ہر اور اسلا م کے نما ئندہ کے طور پر اپنے کا م کو انجام دیں اور سما ج میں اپنی شنا خت بنا ئیں۔ ان خیالا ت کا اظہا ر اما رت شرعیہ بہا ر ،اڈیشہ وجھا رکھنڈ کے نائب نا ظم ، وفاق المدا رس کے نا ظم، اردوکا رواں کے صدر اور ذیلی دفاتر کے ذمہ دا ر مفتی محمدثنا ءالہدی قاسمی نے کیا ، وہ دفتر دا را لقضا امارت شرعیہ کٹک میں اما رت پبلک اسکول کے آغا ز کے لئے بلا ئی گئی ایک میٹنگ سے صدارتی خطا ب فرما رہے تھے۔ وہ گزشتہ رات حضرت امیر شریعت مولا نا احمد ولی فیصل رحما نی کے حکم اور مولا نا محمد شبلی قاسمی قا ئم مقا م نا ظم کی ہدا یت پر قاضی نور الحسن میموریل اسکول پھلواری شریف پٹنہ کے پرنسپل جنا ب را شد نجمی  صاحب کے سا تھ اس اہم میٹنگ میں شرکت اور کٹک دفتر کے جا ئزہ کے لئے کٹک پہونچے تھے ، قا ضی شریعت کٹک مولانا عبدا لحفیظ صاحب نے  اپنی تقریر میں اما رت پبلک اسکول کے قیا م کو وقت کی ضرورت قرا ر دیا اور فرما یا کہ اس اسکول کے قیا م وآغا ز سے ان بچوں کی ضرورتیں بھی پوری ہوسکیں گی جو موٹی فیس نہ دینے کی وجہ سے دوسرے اسکولوں میں دا خلہ سے محروم رہ جا تے ہیں ۔ دارالقضا کٹک کی مقا می کمیٹی کے نگرا ں جنا ب یوسف اقبا ل صا حب کی را ئے تھی کہ شروع میں درجا ت زیا دہ نہ بڑھائے جا ئیں ؛نرسری ، ایل کےجی اور یو کے جی سے کا م شروع کیا جا ئے داخلہ اور ما ہا نہ فیس میں اس با ت کی رعا یت رکھی جا ئے کہ غریب بچوں پر زیا دہ بوجھ نہ آئے۔انہوں نے اس با ت کا بھی اعلا ن کیا کہ فیس کی آمدنی سے جو رقم آئیگی اس کے علا وہ ماہا نہ جو ضرورت ہوگی مقا می کمیٹی اس کا اناظ  م کرے گی ۔
مون لا ئٹ اسکول کے سکریٹری جنا ب اشفا ق صا حب نے فرمایا کہ ابتد ائی درجا ت کےانفراسٹریکچر  میں بچوں کے کلا س روم کو پرکشش بنا نے کی ضرورت ہے۔
میٹنگ میں مقا می کمیٹی کے ذمہ دا روں اور تعلیمی امور سے دلچسپی رکھنے وا لوں نے مفید مشورے دیے،طے پا یا کہ پہلےمرحلہ میں ہینڈبل، بینر اور مسا جد کے ذریعہ اسکول کے قیام کے با رے میں تشہیر کی جا ئے ،اسا تذہ کی تقرری جلد از جلد کر لی جا ئے، اسکول کے آغا ز سے پہلے کم از کم دو استا نیوں اور ایک خا دمہ کی بحا لی کر لی جا ئے تا کہ دا خلہ کے کاموں میں ان سے مدد لی جا ئے ، جنا ب یوسف اقبا ل صا حب نے کہا کہ مقا می کمیٹی اس سلسلے میں اقدا م کرے گی۔ پروگرا م کی نظامت مولا نا صبغتہ اللہ قاسمی معا ون قا ضی شریعت دار القضاء کٹک نےکی ، جنا ب را شد نجمی صا حب نے مقا می حا لا ت کو سا منے رکھ کر آغا ز سے قبل ضروری تیا ری کر لینے پر زور دیا ، میٹنگ کا آغا ز جنا ب مولا نا مطیع الرحمن صاحب کی تلا وت کلا م پاک سے ہوا  اورآخر میں مفتی محمد ثناء  الہدی قا سمی صا حب کی دعا پرمیٹنگ کا اختتام ہوا ، اس اہم میٹنگ میں جنا ب انجم شہا ب صا حب ، جنا ب حا جی عبدالقدوس صا حب ، جنا ب سید عبد البا طن صا حب ، مولا نا قاسم صا حب اور حا فظ را شد صا حب  کے علا وہ دیگر عمائدین شہر نے نے شرکت فرما ئی ، کٹک دفترا ما رت شرعیہ سے یہ اطلا ع حا فظ ابو نسیم صا حب نے دی۔

عام بجٹ : حاشیہ پر عوام مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

عام بجٹ : حاشیہ پر عوام 
 مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
یکم فروری ۲۰۲۲ء کو ہندوستان کی وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے سال ۲۳-۲۰۲۲ء کا عام بجٹ پارلیامنٹ میں ڈیجیٹل پیش کیا ، یہ ایک پیپر لیس بجٹ تھا، جسے انہوں نے اپنے نوے (۹۰)منٹ کی تقریر میں ممبران پالیامنٹ اور رواں نشریہ کے ذریعہ عوام کے سامنے رکھا،ایک دن قبل جو اقتصادی سروے انہوں نے پیش کیا تھا، اس سے لوگوں کی امید بڑھی تھی کہ شاید ٹیکس کی ادائیگی کے لیے مقررہ سیلیب میں تبدیلی لائی جائے گی ، جس سے اوسط درجہ کے تاجر، کسان اور عوام کو راحت ملے گی، لیکن ایسا نہیں ہو سکا، حکومت نے نئے ٹیکس لگانے سے احتراز اور احتیاط کو ہی عوام کے لیے راحت کا سامان سمجھ لیا، چوں کہ اگلا بجٹ ۲۴-۲۰۲۳ء کا انتخابی بجٹ ہو گا اس لیے ہم کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں تھے، مرکزی حکومت نے اس بجٹ کے ذریعہ ملک کے مالدار ترین گھرانوں کو خوش کیا ہے ،جس کے نتیجے میں کار پوریٹ ٹیکس میں کمی کر دی گئی ہے، بجٹ کی خاص باتوں پر توجہ دیں تو معلوم ہوگا کہ در آمد کی جانے والی اشیاء میں تیس (۳۰) فیصد ڈیوٹی بڑھا دی گئی ہے، دفاعی بجٹ میں دس(۱۰) فیصد کا اضافہ کیا گیا ہے، اچھی بات یہ ہے کہ وزارت اقلیتی امور کے لیے بجٹ میں چھ سو چوہتر کروڑ کی رقم بڑھادی گئی ہے، پاسپورٹ میں ای چیپ لگا یا جائے گا، حیرت ناک بات یہ ہے کہ مرکزی حکومت نے کرپٹو کرنسی کی مالیت کو نہ صرف تسلیم کر لیا ہے، بلکہ اسے کاروبار میں رواج دینے کے لیے رزرو بینک کو ذمہ داری دی ہے، البتہ کرپٹو کرنسی پر تیس(۳۰) فی صد ٹیکس بھی دینا ہوگا، توقع کی جاتی ہے کہ اس بجٹ کے اثرات کپڑے، چمڑے کے سامان، موبائل، فون چارجر، جوتے، ہیرے اور جواہرات پر پڑیں گے اور یہ سستے ہوں گے، جبکہ غیر ملکی چھاتا، نقلی زیورات، ہندوستان میں تیار شدہ دوائیں مہنگی ہوں گی ، بجٹ میں نو جوانوں کو خود انحصار (آتم نربھر) بھارت کے تحت سولہ لاکھ اور میک انڈیا کے تحت ساٹھ(۶۰) لاکھ ملازمتیں دی جائیں گی، اسی(۸۰) لاکھ نئے گھر بنائے جائیں گے، چار سو(۴۰۰) نئی وندے بھارت ٹرینیں چلائی جائیں گی۔
حسب سابق اس بجٹ میں ہندوستان کے عام شہری ، مزدور، کسان ، غیر منظم سکٹر میں کام کرنے والے لوگوں کو پوری طرح نظر انداز کیا گیا ہے، مہنگائی کم کرنے کے لیے بھی اس بجٹ میں کوئی منصوبہ نہیں ہے، چھوٹے روزگار اور گھریلو صنعت چلانے اور قائم کرنے والوں کے لئے بھی کسی رعایت کا اعلان نہیں کیا گیا ہے، حالاں کہ کورونا اور لاک ڈاؤن کی مار سب سے زیادہ اسی طبقہ پر پڑی ہے، ان کے کاروبار تباہ ہو گیے اور ان کے پاس نئے کاروبار کھڑے کرنے کے لیے پیسے نہیں ہیں،ملازمتوں کی فراہمی کے لیے چھوٹے کاروباری مرکز کی اہمیت ہر دور میں رہی ہے، منریگا کے فنڈ میں اضافہ نہ کرنے کی وجہ سے چند ایام کے لیے جو کام کمزور طبقات کو مل جایا کرتے تھے اب اس میں بھی اضافہ نہیں کیا جا سکے گا، کیوں کہ فنڈ کے حساب سے ہی لوگوں کو کام پر لگایا جا سکتا ہے اس طرح دیکھا جائے تو عام بجٹ نے عوام کو حسب سابق حاشیہ پر رکھا ہے، اور اس میں کوئی تبدیلی ہوتی نظر نہیں آتی۔
 نوے (۹۰)منٹ کا بجٹ بھاشن انتہائی خشک تھا، سابق میں اس خشکی کو دور کرنے کے لیے بجٹ بھاشن میں اردو اشعار کا سہارا لیا جاتاتھا، اس بار اس کی بھی کمی محسوس ہوئی، اس کے علاوہ بجٹ میں معاشیات سے متعلق جو الفاظ استعمال ہوتے ہیں، ان میں سے زیادہ تر کا تعلق انگریزی زبان سے ہوتا ہے، انگریزی اصطلاحات کا سمجھنا اس شخص کے لیے جس کا تعلق معاشیات سے فنی طور پر نہیں ہے دشوار ترین عمل ہے، ادھر چند سالوں میں ان انگریزی اصطلاحات کو سنسکرت زدہ ہندی میں بدلنے کا مزاج بنا ہے وہ اسے مزید دشوار تر کر دیتا ہے، اس لیے عوام کی دلچسپی بجٹ تقریر کے سننے سے بالکل نہیں ہوتی ، وہ دیکھنا چاہتی ہے کہ مہنگائی اس بجٹ سے گھٹے گی یا بڑھے گی، بے روزگاری میں کس قدر کمی آئے گی، روزگار کے مواقع کیا ہوں گے ، ان کی دلچسپی بجٹ کے بعد سینسکس اور نفٹی کے اعداد وشمار کے شیر بازار میں گھٹنے، بڑھنے سے بھی رہتی ہے، اگر حصص کی قیمتوں میں اچھال آیا، جیسا اس بار کے بجٹ کے بعد ہوا ہے تو وہ سمجھ لیتے ہیں کہ یہ بجٹ متوسط لوگوں کے لیے نہیں بڑے کارپوریٹ اور تاجر گھرانوں کے لیے مفید ہے، اگر شیر بازار میں گراوٹ آئی تو معلوم ہوتا ہے کہ اس بجٹ میں غریبوں کے لیے بھی کچھ ہے، یہ ان کی سوچ ہے، ضروری نہیں کہ آپ اس کی تائید بھی کریں۔
 بجٹ تقریر کے نہیں سمجھنے کا اثر ہمارے سیاسی رہنماؤں پر بھی خوب پڑتا ہے، ان کے یہاں نہ سمجھنے کی وجہ سے موافقت ومخالفت کا پیمانہ حکومت کی موافقت یا مخالفت پر مبنی ہوتا ہے، حزب اقتدار کے لوگ بجٹ کو مثبت ، ہندوستان کو آگے لے جانے والا کہتے نہیں تھکتے، جب کہ حزب اختلاف کے نزدیک بجٹ جیسا بھی ہو مایوس کن ہی ہوتا ہے، ان کے یہاں گفتگو بجٹ کے جزئیات پر نہیں ہوتی، بلکہ مجموعی طور پر ہی اسے رد کر دیا جاتا ہے، اس طریقۂ کار کو بدلنے کی ضرورت ہے، سیاسی رہنماؤں کو بیان بازی سے پہلے اپنی پارٹی کے معاشی شعور رکھنے والوں سے تجزیہ کرا کر ہی رائے زنی کرنی چاہیے، بغیر سمجھے رائے زنی کرنا نہ ان کے لیے مفید ہے نہ ملک کے لیے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...