Powered By Blogger

اتوار, فروری 13, 2022

اجتماعی کاموں میں زبان ودل کی نرمی اورسمع وطاعت ضروری:مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمیامارت شرعیہ راورکیلاکی میٹنگ اہم فیصلوں کے ساتھ اختتام پذیر

اجتماعی کاموں میں زبان ودل کی نرمی اورسمع وطاعت ضروری:مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
امارت شرعیہ راورکیلاکی میٹنگ اہم فیصلوں کے ساتھ اختتام پذیر
اجتماعی کاموں کوانجام دینے کے لئے سب بڑی چیز یہ کہ ہمارے دلوں میں نرمی ہو،قرآن کریم میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کہاگیا کہ آپ نرم دل ہیں جس کافائدہ یہ ہے کی لوگ آپ سے جڑتے ہیں،اگرآپ سخت دل ہوں گے تولوگ آپ سے چھٹ جائیں گے،اجتماعی کام جوڑکاکام ہے،اس لئے کام کوآگے بڑھانے کے لئے دل بھی نرم ہوناچاہئے اورزبان میں بھی نرمی ہونی چاہئے اس کے علاوہ بڑوں کی بات ماننے کاجذبہ ہوناچاہئے جسے سمع وطاعت کہتے ہیں،ان خیالات کااظہار امارت شرعیہ بہاراڈیشہ وجھارکھنڈ کے نائب ناظم،وفاق المدارس اسلامیہ کے ناظم اور ذیلی دفاتر کے ذمہ دار مولانا ومفتی ثناء الہدیٰ قاسمی صاحب نے امارت شرعیہ کے اہداف کوزمین پراتارنے کے لئے حضرت مولاناعبدالصمد نعمانی مدظلہ کی صدارت میں بلائی گئی ایک میٹنگ میں اراکین کمیٹی اور مخلصین امارت شرعیہ سے خطاب کرتے ہوئے کیا،انہوں نے کہاکہ آپس میں ایک دوسرے کی غلطیوں کومعاف کرنے کامزاج بھی اجتماعی کاموں کے لئے ضروری ہے،ان دوچیزوں کوبرتنے سے ہمارے اجتماعی کاموں میں پختگی آئے گی اورکام آگے بڑھے گا،مفتی صاحب حضرت امیرشریعت مولانااحمدولی فیصل رحمانی دامت برکاتہم کے حکم اور قائم مقام ناظم مولانامحمدشبلی قاسمی کی ہدایت پر اڈیشہ دورے کے تیسرے روز راورکیلاپہونچے،،افتتاحی گفتگومیں قاضی شریعت راورکیلا مفتی عبدالودودقاسمی نے کہاکہ راورکیلامیں دفترامارت شرعیہ کاقیام آج سے تقریباپچاس سال قبل ہواتھا،یہاں کے مخلصین اورامارت شرعیہ سے محبت وتعلق رکھنے والوں خصوصا حاجی محمد اسلم صاحب اور جناب عبدالوحیدخان صاحب مرحومین کی انتھک محنت اور بے پناہ قربانیوں کے نتیجہ میں دفترامارت شرعیہ کا قیام عمل میں آیاتھا،،میٹنگ میں موجودارکین کمیٹی کے ساتھ نائب ناظم امارت شرعیہ نے مختلف امورپرتبادلۂ خیال کیااور باتفاق رائے جواہم فیصلے لئے گئے ان میں   دفترامارت شرعیہ راورکیلاکی بالائی منزل میں نویں ودسویں کلاس کے طلبہ کے لئے کوچنگ سنٹرقائم کیاجاناشامل ہے،نیزیہ بھی طے پایاکہ اصلاح معاشرہ کے کام کومضبوطی کے ساتھ کرنے کے لئے نوجوانوں اورائمہ مساجد کوجوڑ کرایک کمیٹی تشکیل دی جائے اور اصلاح معاشرہ کے کام میں تیزی اور پختگی لائی جائے،میٹنگ کاآغازمولاناعتیق الرحمان صاحب معلم امارت شرعیہ راورکیلا کی تلاوت کلام پاک سے ہوااور صدر مجلس حضرت مولاناعبدالصمد نعمانی صاحب کی دعاء پرمیٹنگ کااختتام ہوا،نظامت کے فرائض قاضی شریعت مفتی عبدالودود قاسمی نے انجام دئے اس اہم میٹنگ میں مذکورہ بالاحضرات کے علاوہ جناب عرفان الحق،جناب حاجی وصی اخترخان، حاجی انعام الحق،حاجی نسیم صدیقی،جناب فیاض احمدخان،حاجی شکیل احمد بسرا،جناب مولاناعاصم قاسمی،جناب محمود،ظفرعالم صدیقی،حاجی کمال الدین،مولاناکرامت حسین صاحبان نے شرکت کی۔
اس کے قبل مفتی صاحب کی آمدپران کاپرجوش استقبال کیاگیااس موقع سے حضرت مفتی صاحب نے جامع مسجد راورکیلااورنورمسجدراورکیلامیں خطاب فرمایا،آپ نے فرمایاکہ نمازباجماعت کااخروی فائدہ تویہ ہے کہ نمازباجماعت کاثواب انفرادی نمازکے مقابلہ میں ستائیس گنا بڑھاہواہے لیکن اس کے بہت سارے دنیاوی فائدے بھی ہیں جوہماری نظروں سے اوجھل ہیں جن میں سب سے بڑافائدہ اوراہم سبق یہ کہ جس طرح ہم مسجدمیں امام کی اقتداء میں جماعت کے ساتھ نمازاداکرتے ہیں اسی طرح مسجد کے باہرکی ہماری زندگی بھی جماعتی اور اجتماعی زندگی ہو،انفرادی زندگی نہ ہو،مسجد میں مقتدی کاامام سے رشتہ قائم ہوتاہے توجماعت بنتی ہے،باہرکی زندگی میں امیر سے سمع وطاعت کا رشتہ قائم ہوگا توجماعت بنے گی، انہوں نے کہاکہ نمازبا جماعت کاایک سبق یہ بھی کہ جس طرح ہم مسجد کے صفوں میں قدم سے قدم ملاکر،کاندھے سے کاندھے ملاکر کھڑے ہوجاتے ہیں اسی طرح مسجدکے باہربھی ایمان کی بحالی کے لئے،اسلام کی برتری کیلئے،ناموس رسالت کے تحفظ کے لئے ہم سب قدم سے قدم ملاکرمتحدہوکرمشن کے طورپرکام کریں،نیزانہوں فرمایاکہ نمازباجماعت سے ہمیں یہ بھی سبق ملتاہے کہ مسلک ومشرب،ذات برادری،زبان اور خاندان کی بنیادپرہم آپس میں تفریق نہ کریں،اور جس طرح امام کے سہو پر ہم ٹوکتے ہیں،لقمہ دیتے ہیں اسی طرح مسجد کے باہرکوئی برائی اور گناہ کا کام ہوتاہوادیکھیں توہماری ذمہ داری ہے کہ اسے روکیں اورپوری طاقت کے ساتھ روکیں،حضرت والانے حجاب کے تعلق سے بات کرتے ہوئے کہاکہ آج حجاب کامسئلہ اس لئے کھڑاہواہے کہ صرف بیس فیصدلڑکیاں ہماری حجاب استعمال کرتی ہیں باقی اسی فیصد لڑکیاں اسکول وکالج میں اسی کلچرکے ساتھ ہیں جوغیرمذہب کے ہیں،میں اس سونچ کوبدلناہوگا۔بعدنماز عشاء نورمسجدمیں خطاب کرتے ہوئے حضرت نے فرمایاکہ آج معاشرے کے تمام جھگڑے اوراختلافات کی بنیادی وجہ کبراورانانیت ہے،ہرشخص اپنی بڑائی کابت دل میں لئے بیٹھاہواہے،کوئی مال ودولت کی بڑائی،کوئی ذات برادری اورخاندان کی بڑائی،یہ بڑائی اللہ کوبہت ناپسند ہے اور اس بڑائی اور انانیت کوختم کرنے لئے اللہ تعالیٰ نے آذان،اقامت اورنماز میں بارباراپنی بڑائی اورکبرائی کوبیان کیاہے تاکہ ہمارے دلوں میں اللہ کی بڑائی بیٹھ جائے اور اپنی بڑائی دل سے نکل جائے،مزیدکہاکہ جواللہ کے لئے جھکتاہے اللہ اسے بلند کرتاہے،یہ رسول اللہ صلعم کافرمان ہے جوسوفیصدصحیح ہے،نائب ناظم صاحب کااڈیشہ کادورہ ابھی جاری ہے۔

امارت شرعیہ کی عصری تعلیمی پالیسی مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

امارت شرعیہ کی عصری تعلیمی پالیسی 
 مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ(9431003131)
امارت شرعیہ نے بنیادی دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم کے فروغ پر بھی زور دیا ، اس نے ایسے اداروں کی حوصلہ افزائی کی جنہوں نے عصری تعلیم کو بنیادی دینی تعلیم کے ساتھ اسلامی ماحول میں دینے کا کام کیا، جو ادارے مسلمانوں کے ذریعہ چلائے جا رہے ہیں اس میں امارت شرعیہ نے بنیادی دینی تعلیم اور اسلامی ماحول کو ادارہ کی ترجیحات کے طور پر پیش کیا، تاکہ ڈاکٹر، انجینئربننے والے طلبہ وطالبات اسلام پر باقی رہیں، اور دیگر اداروں کا غیر اسلامی ماحول ان پر اثر انداز نہ ہو سکے، جو اسکول سرکاری ہیں ان کے نصاب ونظام کے سلسلے میں امارت شرعیہ کی پالیسی رہی کہ وہاں کے نصاب میں دیومالائی قصے اور اسکول کے ماحول میں کسی خاص تہذیب وثقافت کے فروغ کے لیے راہ ہموارنہ کی جائے، جب حکومت کا کوئی مذہب نہیں ہے تو تعلیمی اداروں میں بھی اس کی جھلکِ دکھنی چاہیے، اسی لیے جب ۱۹۳۸ء میں اس وقت کے وزیرتعلیم بہار ڈاکٹر سید محمود نے دیہات کی اصلاح کے لیے ایک اسکیم بنائی اور اس کے تربیتی کیمپ میں گاندھی جی کی سوانح عمری اور تعلیمات کو بھی موضوع تدریس بنایا تو بانی امارت شرعیہ مولانا ابو المحاسن محمد سجاد ؒ نے وزیر تعلیم کے نام لکھے ایک خط میں واضح کر دیا کہ
’’ یہ کس طرح جائز ہو سکتا ہے ، اہنسا دھرم، گاندھی جی کی تعلیمات اور ان کی سوانح عمری جو زیادہ تر ان کے مخصوص مذہبی معتقدات وتخیلات اور تلاش حق کی سرگردانیوں کا آئینہ دار ہیں، ہندوؤں کے لیے دلآویز اور بصیرت افروز ہوسکتے ہیں، لیکن یہ تمام چیزیں مسلمانوں کے مذہبی ، اخلاقی اور تمدنی بنیادوں کو کھوکھلی کرنے والی ہیں، اس لیے مسلمان اس قسم کی تعلیم وتربیت ایک لمحہ کے لیے بھی بر داشت نہیں کر سکتے ‘‘۔ (مکاتیب سجاد: ۸۴)
مولانا نے آگے لکھا : ’’ میں پوری ذمہ داری کے ساتھ آپ سے مطالبہ کرتا ہوں کہ للہ مسلمانوں کی دماغی تربیت کے لیے سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک اور خلفاء راشدین کی سوانح عمریاں رہنے دیجیے اور ’’اہنسا دھرم‘‘ اور گاندھی جی کی ’’تلاش حق‘‘ کی سرگردانی مسلمان طلبہ پر مسلط کرکے غیر اسلامی تعلیم وتربیت نہ پھیلائیے(ایضا)
بانی امارت شرعیہ کے یہ خیالات ہی عصری وسرکاری اداروں کے سلسلے میں امارت شرعیہ کا لائحہ عمل اور نصب العین ہیں ، امارت شرعیہ نے اس سے کبھی سر مو انحراف نہیں کیا، اور نصاب ونظام تعلیم میں جب بھی اس قسم کی بات آئی اس سے اختلاف کیا اور ضرورت پڑی تو سرکار کو میمورنڈم دے کر اسے بدلوانے کا کام کیا، ابھی جب نئی تعلیمی پالیسی آئی تو امارت شرعیہ نے ماہرین تعلیم کے ساتھ کئی میٹنگیں کرکے ترمیمات پیش کیں اور آج بھی امارت شرعیہ کی کوشش ہے کہ نئی تعلیمی پالیسی میں جو ایک خاص مذہب کو فوقیت دینے اور ان کی کتابوں کو نصاب کا جز بنایا جا رہا ہے ، اسے حکومت واپس لے؛ تاکہ ملک میں سیکولر اقدار کے ساتھ تعلیمی ادارے جاری رکھے جا سکیں۔ جو ادارے مسلمانوں کے ہیں ان کے بارے میں قاضی مجاہد الاسلام قاسمی کا نظریہ یہ تھا کہ ’’ابتدائی تعلیم کی عصری درسگاہیں اپنے نصاب اور نظام تعلیم کے اعتبار سے ایسی ہوں کہ بچہ وہاں سے پڑھ کر جو بھی نکلے وہ راسخ العقیدہ مسلمان ضرور ہو ‘‘  (تعلیم ترقی کی شاہ کلید : ۳۷) 
 اسی نظریہ کے تحت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی اور مولانا سید نظام الدین رحمہما اللہ کی تحریک پر حضرت امیر شریعت رابع مولانا منت اللہ رحمانی ؒ کے حکم سے قاضی نور الحسن میموریل اسکول کا قیام پھلواری شریف میں عمل میں آیا اور ابتدا میں جب اس کا رخ اورمنہج متعین کرنا تھا ، خود قاضی صاحب اس کے سکریٹری رہے ۔ حضرت امیر شریعت رابعؒ کے ہی عہد میں ایم ایم یو ہائی اسکول کا قیام عمل میں آیا، جو آسنسول کے معیاری تعلیمی اداروں میں شمار کیا جا تا ہے ۔
امیر شریعت سابع حضرت مولانا محمد ولی رحمانی ؒ کے عہد میں عصری تعلیمی اداروں کے قیام کی طرف خصوصی توجہ مبذول کی گئی ، گریڈیہہ اور رانچی میں امارت پبلک اسکول کے نام سے ادارہ قائم ہوا، اور جلد ہی اس نے لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائی، اربا میں امارت انٹرنیشنل اسکول کی بنیاد حضرت نے ڈالی، جس کی عمارت کی تعمیر اور اس پر کام ہونا ابھی باقی ہے ، موجودہ امیر شریعت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی دامت برکاتہم اس سلسلہ کو اور آگے لے جانا چاہتے ہیں اس کی روشنی میں امارت شوریٰ کی مجلس شوریٰ نے رواں سال میں کم از کم دس اسکول کے قیام کا فیصلہ کیا ہے اور کٹیہار ، پورنیہ ، کٹک وغیرہ میں اس حوالہ سے کام کو آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ ابھی ابتدائی تیاری چل رہی ہے اور انفراسٹیکچر کی فراہمی پر پوری توجہ مرکوز ہے۔
حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی کی جو تعلیمی پالیسی تھی اس میں وہ صرف سیدھے طور پر ایم اے، بی اے وغیرہ کرنے کو بہت اہمیت نہیں دیتے تھے، وہ میڈیکل کالج کے قیام سے زیادہ ٹکنیکل انسٹی چیوٹ کے قیام کو اہمیت دیتے تھے، چنانچہ حضرت امیر شریعت رابعؒ کے دور میں ٹیکنیکل انسٹی چیوٹ کا خاکہ بنا ، نقشے وغیرہ پاس ہوئے، کہنا چاہیے کہ قاضی مجاہد الاسلام قاسمی نے حضرت امیر شریعت رابعؒ کے حکم پر اس کام کے لیے طویل اور کامیاب منصوبہ بندی کی جس کی وجہ سے آج ہزاروں طلبہ ان اداروں سے کسب فیض کرکے رزق حلال حاصل کر رہے ہیں۔ حضرت کے وصال کے بعد پانچویں امیر شریعت حضرت مولانا عبد الرحمن صاحب ؒ کے عہد میں حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب نائب امیر شریعت اور ناظم امارت شرعیہ کے مشورہ اور تعاون سے امارت شرعیہ میں پیشہ وارانہ تعلیم کا آغاز ہوا، اور قاضی مجاہد الاسلام قاسمی ؒ خود ہی زمانہ تک اس کے جنرل سکریٹری رہے ، امارت شرعیہ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیر ٹرسٹ کے زیر اہتمام ٹیکنیکل انسٹی چیوٹ کا قیام عمل میں آیا اور آج الحمد للہ اس میدان میں امارت شرعیہ کی خدمات انتہائی عظیم اور وقیع ہیں، ان دنوں پانچ ٹیکنیکل انسٹی چیوٹ، ایک پارا میڈیکل اور ایک لڑکیوں کے لیے بی سی اے اور بی بی اے کالج چلا یا جا رہا ہے ، جس سے بڑے پیمانے پر طلبہ وطالبات مستفیض ہو رہے ہیں۔
حضرت امیر شریعت سابعؒ کے دور میں ارریہ میں میڈیکل کالج کے قیام کی تجویز بھی آئی تھی ، لیکن اس کے لیے زمین کی فراہمی نہیں ہونے کی وجہ سے کام آگے نہیں بڑھ سکا، حضرت کے عہد میں عصری تعلیمی اداروں کے قیام کے لیے بہار وجھارکھنڈ کے دورے بھی کیے گیے۔
 موجودہ امیر شریعت نے مسلمان بچے اور بچیوں کے نو یں دسویں کلاس کے لیے کوچنگ کا بھی آغاز کیا ہے، اور الحمد للہ بڑی تعداد میں طلبہ وطالبات اس سے فیض یاب ہو رہے ہیں ، دوسری جگہوں پر بھی اس سلسلہ کو دراز کرنے کی تجویز زیر غور ہے ۔
 امارت شرعیہ ، تنفیذ شریعت کا ادارہ ہے ، اس لیے یہاں لڑکے لڑکیوں کے لیے مخلوط تعلیم کے بجائے پڑھنے پڑھانے کاالگ الگ انتظام ہے، یہ امارت شرعیہ کی تعلیمی پالیسی کا اہم حصہ ہے ، اس لیے جہاں کہیں بھی امارت شرعیہ کے تعلیمی ادارے قائم ہیں ان میں تیسرے کلاس کے بعد سے لڑکے لڑکیوں کی تعلیم کا الگ انتظام موجود ہے ، کہیں شفٹ الگ ہے اور کہیں الگ راستے کے ساتھ الگ کلاس روم کا انتظام ہے، موجودہ بے راہ روی کے دور میں اس انتظام کی اہمیت وافادیت کافی بڑھ گئی ہے، اور لوگوں میں بھی اس طریقۂ کار کی کافی پذیرائی ہو رہی ہے ۔امارت شرعیہ کی تعلیمی پالیسی کا بڑا اہم جز معیاری تعلیم ہے، اس معاملہ میں امارت نے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا، جس کی وجہ سے امارت کے اداروں میں امتحان میں کامیابی کا تناسب بڑھانے کے ساتھ تعلیم کے معیار کی برقراری ہے، اسی لیے یہاں پڑھنے والے طلبہ وطالبات درجات میں حاضری کے پابند ہوتے ہیں، اور مطلوبہ حاضری ہونے پر ہی امتحان میں بیٹھنے کی اجازت دی جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ یہاں کے فارغین اس مقابلہ جاتی دور میں مختلف محکموں میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں، ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ کوالٹی ایچ ہے، کمپٹیشن کے اس دور میں ڈگری سے زیادہ اس کے پیچھے صلاحیت کا ہونا ضروری ہے، اس لیے امارت شرعیہ کے تمام تعلیمی ادارے کو الٹی کے معاملہ میں کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے۔
امارت شرعیہ کی تعلیمی پالیسی کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ اس نے تعلیم کو تجارت نہیں بننے دیا ، آج بڑے بڑے تعلیمی ادارے تجارتی نقطۂ نظر سے کام کر رہے ہیں، طلبہ وطالبات سے وصولی جانے والی بڑی بڑی فیس نے غریبوں کے لیے ان اداروں تک رسائی کونا کام بنا دیا ہے ، امارت شرعیہ نے اپنی تعلیمی پالیسی میں اس بات کو ملحوظ رکھا کہ فیس اس قدر رکھی جائے کہ ادارہ کو نہ زیادہ نفع ہو اور نہ زیادہ نقصان، انگریزی میں اسے No profits no lossکہتے ہیں، الحمد للہ امارت شرعیہ کی اس پالیسی کی وجہ سے غریب طلبہ وطالبات بھی اعلیٰ تعلیم کے میدان میں آگے بڑھ رہے ہیں، امارت شرعیہ کی سوچ یہ ہے کہ ہمیں تعلیم کو سستا اور عام انسانوں کی پہونچ کے لائق بنانا چاہیے۔

کرناٹک کے حجاب تنازعہ سے نیا کھیل شروع ، بی جے پی لیڈر کی سپریم کورٹ میں عرضی ، مرکز اور ریاستوں سے اسکولوں میں یکساں ڈریس کوڈ نافذ کرنے کا مطالبہ

کرناٹک کے حجاب تنازعہ سے نیا کھیل شروع ، بی جے پی لیڈر کی سپریم کورٹ میں عرضی ، مرکز اور ریاستوں سے اسکولوں میں یکساں ڈریس کوڈ نافذ کرنے کا مطالبہبی جے پی لیڈر اور وکیل اشونی اپادھیائے نے سپریم کورٹ میں ایک عرضی دائر کی ہے جس میں مرکز اور ریاستوں سے اسکولوں کے لیے یکساںڈریس کوڈ نافذ کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے طلباء میں سماجی اور قومی اتحاد کا جذبہ پیدا کرنے کے لیے دیگر ضروری اقدامات کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔واضح رہے کہ کل یوتھ کانگریس کے صدر بی وی سرینواس نے مسلم لڑکیوں کے حجاب پہننے کو بنیادی حق کا درجہ دینے کے لیے عرضی داخل کی تھی۔ جس کے بعد اب اشونی اپادھیائے نے یہ عرضی دائر کی ہے۔ تاہم سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ وہ فی الحال حجاب کے معاملے میں مداخلت نہیں کرے گی۔حجاب تنازعہ گزشتہ مہینے اُڈپی گورنمنٹ پری یونیورسٹی کالج کی کچھ طالبات کے حجاب کے ساتھ کالج کیمپس میں داخل ہونے کے بعد شروع ہوا، جنہیں کلاس میں جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ کالج حکام کا کہنا ہے کہ جو طالبات پہلے بغیر حجاب کے آتی تھیں، وہ اچانک حجاب میں آنا شروع ہو گئی ہیں۔ بعد ازاں طالبات نے حجاب کے بغیر کلاسز میں جانے سے انکار کرتے ہوئے احتجاج کیا۔ یہ مسئلہ ایک تنازعہ بن گیا اور یہ مسئلہ کرناٹک کے دیگر اضلاع کے ساتھ ساتھ دیگر ریاستوں میں بھی اٹھایا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ سے کشیدگی پیدا ہوئی اور تشدد بھی ہوا۔

ہفتہ, فروری 12, 2022

قابل مذمت بیان مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

قابل مذمت بیان 
 مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
حکومت بہار میں بی جے پی کوٹے سے نیرج کمار ببلو اور جے بیش مشرا وزیر ہیں، انہیں سرخیوں میں بنے رہنے کا شوق ہے، یہ شوق بُرا نہیں ہے، لیکن اس کا استعمال ریاست کی تعمیر وترقی کے لیے کریں تو فائدہ پہونچے گا، انہیں ریاست کی ترقی سے کوئی مطلب نہیں ہے ، ان کے نزدیک فائدہ ایسے بیانوں میں ہے جس سے ہندتوا مضبوط ہواور ریاست کے رائے دہندگان کا ووٹ ان کی طرف ہوجائے، اس کام کے لیے انہیں مسلمان ، مسلمانوں کے ادارے ان کی کھان پان ان کی وضع قطع ، حجاب وپردہ اور تہذیب وثقافت کے خلاف آتش فشانی کر نی ہوتی ہے، یہ رائے دہندگان کو اپنی طرف لانے کے لیے ان کی تگ ودو کا ایک حصہ ہے، ان دونوں وزراء کے مدارس کے خلاف حالیہ بیان کو اسی پس منظر میں دیکھنا چاہیے، واقعہ یہ ہے کہ مدارس اسلامیہ میں جو تعلیم دی جاتی ہے وہ طلبہ کو اچھا شہری اور اعلیٰ اخلاقی اقدار سے مزین کرنے کا کام کرتی ہے، اس کے پہلے بھی مرلی منوہر جوشی جب وزیر تعلیم تھے یہ سوال مرکز سے اٹھا تھا، اور حضرت مولانا محمد ولی رحمانی رحمۃ اللہ علیہ نے ناموس مدارس اسلامیہ کنونشن مونگیر میں منعقد کرکے اس غلط بیانی کی ہوا نکال دی تھی، اور تب سے یہ معاملہ ٹھنڈا پڑگیا تھا۔
اب پانچ ریاستوں میں انتخابات ہونے ہیں اور بہار میں بھی لوکل باڈیز سے ام ال سی کے لیے نام وحلقوں کی تعیین کی جاری ہے، اس لیے اس بیان کو اچھال دیا گیا، ان دونوں وزراء کے ذہن میں آسام ماڈل گشت کر رہا ہے، آسام ہویا ہندوستان کی کوئی ریاست یہ مدارس اسلامیہ آئین کی دفعہ ۲۹، ۳۰ اور ۳۰؍ اے کے تحت قائم ہیں اور ان کو کسی بھی درجہ میں غیر دستوری نہیں کہا جا سکتا ۔
اس بیان پر وزیر اعلیٰ کی طرف سے کوئی تبصرہ تو نہیں آیا، لیکن وزیر تعلیم وجے کمار چودھری اور وزیر اقلیتی فلاح زماں خان، وقف بورڈ کے چیرمین محمد ارشاد اللہ اور جد یو کے کئی لیڈران نے اس کا نوٹس لیا ہے اور اس کی مذمت کی ہے۔البتہ ان دونوں وزیروں کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ مدارس اسلامیہ کی تاریخ سے نا واقف ہیں، صحیح نہیں ہے ، وہ خوب جانتے ہیں کہ یہ مدارس اسلامیہ مسلمانوں کے لیے مذہبی تعلیم وتہذیب وثقافت کے لیے پاور ہاؤس کی حیثیت رکھتے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ اس کے کردار کو مجروح کرکے ان اداروں کے خلاف شکوک وشبہات پیدا کیے جائیں، پھر اس کا میڈیا ٹرائل کیا جائے اور اگر یہ ادارے بند نہ کیے جائیں توبھی ان کے کام کرنے کے طریقے کو بدل کر دکھ دیا جائے۔
 واقعہ یہ ہے کہ دستور میں ہندوستان کی مختلف اقلیتوں کو جو حقوق دیے گیے ہیں، اس کی روشنی میں صرف مذہبی تعلیم سے بھی کسی کو نہیں روکا جا سکتا ، جب رائٹ ٹو ایجوکیشن قانون آیا تھا تو مفکر اسلام مولانا محمد ولی رحمانیؒ نے مکاتب، پاٹھ شالے، گروکل وغیرہ کو بھی سرکاری طور پر تعلیمی ادارے کے طور پر منظور کر وایا تھا اور اس میں پڑھنے والے بچوں کو بھی تعلیم حاصل کرنے والا قرار دیا گیا تھا۔
 اگر ڈبل انجن کی سرکار بہار میں نہیں ہوتی او ر وزیر اعلیٰ نتیش کمار کے لیے بی جے پی کو لے کر چلنا مجبوری نہیں ہوتی تو ہمارا مطالبہ ہوتا کہ ایسے وزراء کو بر طرف کر دینا چاہیے، کیونکہ ان کے بیانات وزیر اعلیٰ کی پالیسی کے خلاف ہیں اور ایسے لوگوں کو وزارت میں بنے رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔موجودہ حالات میں بھی ان وزراء کی سخت تنبیہ ضرور کی جانی چاہیے تاکہ یہ سلسلہ دراز نہ ہو۔

جمعہ, فروری 11, 2022

خود کفیل ‌‌نظام مکاتب کو رائج کیجئے۔مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمیدینی و عصری ادارے کا قیام اور دارالقضاء کے افتتاح کے سلسلے میں جگت سنگھ کے علماء سے تبادلہ خیال

خود کفیل ‌‌نظام مکاتب کو رائج کیجئے۔مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
دینی و عصری ادارے کا قیام اور دارالقضاء کے افتتاح کے سلسلے میں جگت سنگھ کے علماء سے تبادلہ خیال

جگت سنگھ (اڈیشہ)۱۱/فروری (پریس ریلیز) بنیادی دینی تعلیم کے فروغ کی سب سے بہترین شکل یہ ہے کہ خود کفیل ‌‌نظام مکاتب کو رواج دیا جائے کیونکہ بنیادی دینی تعلیم کا حصول تمام مسلمانوں پر فرض ہے،اور کسی ادارے کے وسائل اس قدر نہیں ہیں کہ وہ ضرورت کے مطابق اپنے صرفہ سے ہر جگہ مکتب قائم کرسکے،اس لیے جس طرح مسلمان اپنی تمام ضرورتیں عام طور سے دوسروں کے مدد کے بغیر پوری کرتے ہیں اسی طرح بنیادی دینی تعلیم پر بھی اپنے خون پسینہ کی کمائی صرف کرنی چاہیے،اس کا تجربہ امارت شرعیہ نے بہار میں کیا ہے اور امیر شریعت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی دامت برکاتہم کے حکم پر محنت کی گئی تو ساٹھ خود کفیل مکاتب دو ماہ کے قلیل عرصہ میں قائم ہو گئے، ضرورت مشورہ اور ترغیب دلانے کی ہے، ان خیالات کا اظہار اڈیشہ کے پانچ روزہ دورہ کے دوسرے دن جگت سنگھ پور کے مدرسہ ریاض العلوم میں علماء کے درمیان تبادلہ خیال کرتے ہوئے امارت شرعیہ کے نائب ناظم مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی ناظم وفاق المدارس الاسلامیہ اور نائب صدر اردو کارواں نے کیا، وہ یہاں ایک سہہ نفری وفد کے ساتھ جس میں مولانا صبغت اللہ قاسمی معاون قاضی دالقضاء امارت شرعیہ کٹک اور راشد نجمی پرنسپل قاضی نور الحسن میموریل اسکول شامل تھے، آج یہاں پہونچے مفتی صاحب نے اپنے رفقاء کے ساتھ دالقضاء کی زمین کا معائنہ کیا اور اس عمارت کا جائزہ لیا جس میں مستقبل قریب میں دالقضاء کا افتتاح ہونا طۓ ہوا ہے،مفتی صاحب نے ان موضوعات پر قاری شریف صاحب،مولانا غلام صمدانی اور مولانا سرفراز بانی و مہتمم جامعہ عبد اللہ ابن مسعود سے تبادلہ خیال کیا، مفتی صاحب نے ان علماء کو یقین دلایا کہ آپ حضرات کے مشورے کی روشنی میں کام کو ان شاءاللہ آگے بڑھایا جائے گا۔
مفتی صاحب نے جامع مسجد کیسیر پور کٹک میں جمعہ سے قبل اپنے خطاب میں حضرت امیر شریعت کی سمع و طاعت، اتحاد و اتفاق،ایک امت اور ایک جماعت بن کر زندگی گزارنے،بنیادی دینی و عصری تعلیمی اداروں کے قیام اور گناہوں کے کام سے خود کو بچنے ا ور دوسروں کو بچانے کی ضرورت پر زور دیا، انہوں نے لوگوں کو جماعت کا سبق بتایا اور امارت پبلک اسکول پنشن لین بخشی بازار کٹک کے قیام میں ہر قسم  کے تعاون کی مسلمانوں سے اپیل کی ،اس موقع سے مفتی صاحب نے فرمایا کہ حجاب کے سلسلے میں جس طرح سے سیاست ہورہی ہے وہ انتہائی افسوس ناک ہے انہوں نے فرمایا کہ سکھ طلبہ پگڑ یا ہندو طلبہ جینیووغیرہ کے ساتھ کلاس میں داخل ہوسکتے ہیں تو  مسلم لڑکیوں پر حجاب کے بغیر اسکول آنے کی پابندی کیوں لگائی جارہی ہے،مفتی صاحب نے اس موقع پر مولانا منظور احمد کو بھی یاد کیا جو امارت شرعیہ کٹک کے نگراں تھے،اور ان کی قبر پر فاتحہ خوانی کے لئے تشریف لے گئے،یہ اطلاع دفتر امارت شرعیہ کٹک سے مولانا صبغت اللہ قاسمی نے دی ہے۔

دُوہرا رویہ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

دُوہرا رویہ
 مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
کرنا ٹک کے کولار میں ایک سرکاری اسکول ہے، جہاں مسلم بچے بھی پڑھتے ہیں،  اوما دیوی وہاں کی ہیڈ مسٹریس ہیں، ایک جمعہ کو انہوں نے چند مسلم بچوں کو اسکول کے ایک کمرے میں جمعہ کی نماز پڑھنے کی اجازت دے دی، بچوں نے ان کی اجازت کے بعد نماز ادا کی ، بس کیا تھا، فرقہ پرستوں کو ایک موقع مل گیا، نماز کی ویڈیو وائرل کی گئی ، میڈیا میں اس پر بحثیں شروع ہوئیں، اوما دیوی کو نہ صرف جانچ کاسامنا کرنا پڑا؛ بلکہ انہیں معطل کر دیا گیا، کرناٹک کے وزیر تعلیم بی سی ناگیش نے ان کے خلاف سخت قدم اٹھانے کا اشارہ بھی دیا ہے، یہ ایک افسوسناک صورت حال ہے۔
 اس کے بالمقابل دوسرا رویہ یہ ہے کہ ہندوستان کے بیش تر سرکاری اسکول میں سرسوتی دیوی کی پوجا ہوتی ہے، مورتیاں لگائی جاتی ہیں،بچوں سے روپے وصولے جاتے ہیں،اور اس میں مسلم اور غیر مسلم کی کوئی تفریق نہیں کی جاتی، اگر اسکول سارے مذاہب کے لیے ہیں اور سیکولرزم کی وجہ سے نماز پڑھنے کی اس میں اجازت نہیں ہے تو مورتی پوجا کو بھی روکنا چاہیے؛ کیوں کہ وہ بھی سیکولر اقدار کے خلاف ہے۔ 
 واقعہ کوئی بھی ہو، مسلم میڈیا کو ساری کمزوری مسلم اداروں میں نظر آنے لگتی ہے کہ وہ آگے کیوں نہیں آتے ، خاموش کیوں رہ جاتے ہیں، عدالت سے کیوں رجوع نہیں کرتے،مسلم قیادت کو مطعون کرکے مسلم میڈیا اور صحافی حضرات دل کی بھڑاس نکال لیتے ہیں، یقینا مسلم ادارے اور تنظیموں کو آگے آنا چاہیے،لیکن آپ کے پاس خبر رسانی کاجو نظام ہے اس کو کام میں کیوں نہیں لاتے ہیں، اس قسم کے مسائل میں آپ کی بیداری ملک وقوم کو بیدار کر سکتی ہے؛ اس لئے اردو میڈیا اور صحافت کو بھی سود وزیاں سے اوپر اٹھ کر اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری نبھانی چاہیے ، تبھی اس پر قابو پانا ممکن ہوسکے گا۔

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی : علم و ادب کے خورشید تاباں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔از قلم : فخرالدین عارفی

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی : علم و ادب کے خورشید تاباں 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
از قلم : فخرالدین عارفی 

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی   صاحب نے از راہ عنایت مجھے اپنی چار کتابوں سے نوازا ہے ۔   ۔ یہ چاروں کتابیں فی الحال میرے زیر مطالعہ ہیں ۔ مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی صاحب کی حیات و خدمات اور ادب میں ان کے  کارناموں  پر اظہار خیال کرنا بہت دشوار اور مشکل کام ہے ۔ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی صاحب ، علم کا ایک سمندر ہیں ۔ علم کے اس سمندر کی غوّاصی اور پھر علم کے اس عمیق  سمندر سے موتی اور  جواہرات نکالنا کوئی معمولی کام نہیں ہے ۔ پھر بھی میری یہ کوشش ضرور ہوگی کہ جو قیمتی نگارشات اور تحریریں  انہوں نے ہمارے سامنے رکھی  ہیں ۔ ان سے اپنے ذہن کے اندھیروں کو دور کرسکوں ۔ میں مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی صاحب سے ملا ہوں اور بار بار ملا ہوں ۔ متعدد مواقع پر ہم دونوں نے  ایک ہی اسٹیج سے تقریریں بھی کی ہیں ۔ لیکن ان کی تقریر میں  زور بیان اور شوکت الفاظ سے  جو بلند پیکر بنتے ہیں وہ سب کو کہاں میسر آتے ہیں ۔ وہ کم بولتے ہیں لیکن جب بولتے ہیں تو خوب بولتے ہیں ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پہاڑ سے ایک خوب صورت آبشار نکل رہا ہو۔۔۔۔ان کے الفاظ پہاڑ کی چوٹیوں سے ٹکراتے ہیں ، بل کھاتے ہیں ۔ کہیں کسی دوشیزہ کی زلف میں تبدیل ہوجاتے ہیں اور کہیں کسی سمندر کی لامکاں وسعتوں میں گم ہوجاتے ہیں ۔ وہ ایک انتہائی نیک ، شریف اور مہذب انسان ہیں ۔ ان کی حیثیت ایک مذہبی پیشوا کی ہے ۔ وہ شریعت اور اصول شریعت سے بخوبی واقف ہیں ۔ لیکن ادب میں بھی جو دسترس اور کمال انہیں حاصل ہے وہ بہت کم لوگوں کے حصّے میں آتا ہے ۔ ان کی جو عام گفتگو ہوتی ہے وہ آواز کی ایک مخملی چادر ہوتی ہے ۔ لیکن جب وہ کسی موضوع  پر ، کسی اسٹیج سے تقریر کرتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کہیں آسمان پر بادل گرج رہا ہو  ۔ اس وقت ان کی آنکھوں میں بھی ان کی لیاقت ، اہلیت اور قابلیت کی برق صاف نظر آتی ہے ۔ ان کے جیسا مقرر اس وقت بہار کی سرزمین پر بہت کم ہے ۔ ان کی شخصیت میں جو عاجزی اور انکساری ہے وہ بھی بہت نادر اور موجودہ عہد میں عنقا کی حیثیت رکھتی ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ یہ بیدل ، راسخ اور شاد کی سرزمین "عظیم آباد " ہے ۔ جسے شہزادہ عظیم الشان نے سجایا اور سنوارا تھا ۔ لہذا یہاں نہ تو جوہر کی کمی ہے اور نہ جوہر شناسوں کی ۔۔۔۔
یہ بستی اب بھی بازار ختن ہے باکمالوں سے 
غزال آنکھیں چراتے ہیں عظیم آباد والوں سے 
( حافظ فضل حق آزاد عظیم آبادی ) 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی اور ان کی کتابوں کے تعلق سے باقی باتیں ، ان شاء الله جلد ہی پھر کروں گا ۔ ان کی کتابیں جو دستیاب ہیں ان سے استفادہ کررہا ہوں ۔ جب کسی روز ان کے علم کے روشن چاند سے میرے ذہن و دل کی سرزمین پھر منوّر ہوگی تو اس چاندنی پر آپ کا بھی حق ہوگا ۔ یہ میرا وعدہ ہے ۔ تب تک کے لیےء اجازت دیں ۔ مفتی محمد ثناء الہدیٰ  قاسمی صاحب سے وقفے کے لیےء معذرت خواہ ہوں ۔ ہاں یہ وعدہ ضرور ہے کہ جلد ہی آپ کی کتابوں پر اظہار خیال ضرور کروں گا ، لیکن جو کچھ بھی لکھوں گا پڑھ کر ، سمجھ کر اور سنبھل کر لکھوں گا ۔ ان شاء الله ۔۔۔۔۔۔۔فخرالدین عارفی 
10 جنوری 2022 ء

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...