Powered By Blogger

بدھ, فروری 16, 2022

*ادب اسلامی انداز میں* ایک ڈاکٹر تھے اکثر ایسا ھوتا کہ وہ نسخے پر ڈسپنسر کے لئے لکھتے کہ اس مریض سے پیسے نہیں لینےاور جب کبھی مریض پوچھتا کہ ڈاکٹر صاحب آپ نے پیسے کیوں نہیں لئے؟

*ادب اسلامی انداز میں*
 
ایک ڈاکٹر تھے اکثر ایسا ھوتا کہ وہ نسخے پر ڈسپنسر کے لئے لکھتے کہ اس مریض سے پیسے نہیں لینے
اور جب کبھی مریض پوچھتا کہ ڈاکٹر 
صاحب آپ نے پیسے کیوں نہیں لئے؟ 
تو وہ کہتے کہ مجھے شرم آتی ھے۔
کہ جس کا نام ابوبکر ھو، عمر ھو، عثمان ھو، علی ھو یا خدیجہ، عائشہ اور فاطمہ ھو 
تو میں اس سے پیسے لوں۔
ساری عمر انہوں نے خلفائے راشدینؓ، امہات المومنینؓ
اور بنات رسولﷺ کے ھم نام لوگوں سے پیسے نہ لیئے۔ 
یہ ان کی محبت اور ادب کا عجیب انداز تھا۔

امام احمد بن حنبل رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نہر پر وضو فرما رھے تھے 
کہ انکا شاگرد بھی وضو کرنے آن پہنچا، 
لیکن فوراً ہی اٹھ کھڑا ھوا اور امام صاحب سے آگے جا کر بیٹھ گیا۔
پوچھنے پر کہا 
کہ دل میں خیال آیا کہ میری طرف سے پانی بہہ کر آپ کی طرف آ رہا ھے۔
مجھے شرم آئی کہ استاد میرے مستعمل پانی سے وضو کرے۔

اپنے سگے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے رسول اللہﷺ نے پوچھا 
کہ آپ بڑے ہیں یا میں؟ (عمر پوچھنا مقصود تھا) 
کہا یارسول اللہﷺ بڑے تو آپ ھی ہیں البتہ عمر میری زیادہ ھے۔

مجدد الف ثانی رات کو سوتے ھوئے یہ احتیاط بھی کرتے 
کہ پاؤں استاد کے گھر کی طرف نہ ھوں 
اور بیت الخلا جاتے ھوئے یہ احتیاط کرتے 
کہ جس قلم سے لکھ رہا ھوں اس کی کوئی سیاھی ہاتھ پر لگی نہ رہ جائے۔

ادب کا یہ انداز اسلامی تہذیب کا طرہ امتیاز رہا ھے 
اور یہ کوئی برصغیر کے ساتھ ھی خاص نہ تھا 
بلکہ جہاں جہاں بھی اسلام گیا اس کی تعلیمات کے زیر اثر ایسی ہی تہذیب پیدا ھوئی 
جس میں بڑوں کے ادب کو خاص اھمیت حاصل تھی 
کیونکہ رسول اللہﷺ کا یہ ارشاد سب کو یاد تھا 
کہ جو بڑوں کا ادب نہیں کرتا اور چھوٹوں سے پیار نہیں کرتا وہ ھم میں سے نہیں۔

ابھی زیادہ زمانہ نہیں گزرا 
کہ لوگ ماں باپ کے برابر بیٹھنا، 
انکے آگے چلنا اور ان سے اونچا بولنا برا سمجھتے تھے 
اور اُنکے حکم پر عمل کرنا اپنے لیے فخر جانتے تھے۔ 
اس کے صدقے اللہﷻ انہیں نوازتا بھی تھا۔ 
اسلامی معاشروں میں یہ بات مشہور تھی 
کہ جو یہ چاہتا ھے کہ اللہﷻ اس کے رزق میں اضافہ کرے 
وہ والدین کے ادب کا حق ادا کرے۔
اور جو یہ چاہتا ھے کہ اللہﷻ اس کے علم میں اضافہ کرے وہ استاد کا ادب کرے۔

ایک دوست کہتے ہیں کہ 
میں نے بڑی مشقت سے پیسہ اکٹھا کر کے پلاٹ لیا تو والد صاحب نے کہا 
کہ بیٹا تمہارا فلاں بھائی کمزور ھے 
یہ پلاٹ اگر تم اسے دے دو تو میں تمہیں دعائیں دوں گا۔ 
حالانکہ وہ بھائی والدین کا نافرمان تھا۔ 
اس (دوست) کا کہنا ھے کہ 
عقل نے تو بڑا سمجھایا کہ یہ کام کرنا حماقت ھے 
مگر میں نے عقل سے کہا کہ اقبال نے کہا ھے، 
اچھا ھے دل کے ساتھ رھے پاسبان عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے، 
چنانچہ عقل کو تنہا چھوڑا اور وہ پلاٹ بھائی کو دے دیا۔ 
کہتے ہیں کہ والد صاحب بہت خوش ھوئے 
اور انہی کی دعا کا صدقہ ھے کہ آج میرے کئی مکانات اور پلازے ہیں 
جب کہ بھائی کا بس اسی پلاٹ پر ایک مکان ھے۔

والدین کی طرح 
استاد کا ادب بھی اسلامی معاشروں کی ایک امتیازی خصوصیت تھی 
اور اس کا تسلسل بھی صحابہؓ کے زمانے سے چلا آرہا تھا۔

حضورﷺ کے چچا کے بیٹے عبد اللہ ابن عباسؓ 
کسی صحابی سے کوئی حدیث حاصل کر نے جاتے تو جا کر اس کے دروازے پر بیٹھ رہںتے۔ 
اس کا دروازہ کھٹکھٹانا بھی ادب کے خلاف سمجھتے 
اور جب وہ صحابیؓ خود ھی کسی کام سے باہر نکلتے 
تو ان سے حدیث پوچھتے 
اور اس دوران سخت گرمی میں پسینہ بہتا رہںتا، لو چلتی رہںتی 
اور یہ برداشت کرتے رہںتے۔ 
وہ صحابی شرمندہ ھوتے اور کہتے 
کہ آپؓ تو رسول اللہﷺ کے چچا کے بیٹے ہیں آپ نے مجھے بلا لیا ھوتا 
تو یہ کہتے کہ میں شاگرد بن کے آیا ھوں، آپ کا یہ حق تھا کہ میں آپ کا ادب کروں 
اور اپنے کام کیلئے آپ کو تکلیف نہ دوں۔

کتنی ھی مدت ھمارے نظام تعلیم میں یہ رواج رہا 
(بلکہ اسلامی مدارس میں آج بھی ھے) 
کہ ہر مضمون کے استاد کا ایک کمرہ ھوتا، وہ وہیں بیٹھتا اور شاگرد خود چل کر وہاں پڑھنے آتے 
جب کہ اب شاگرد کلاسوں میں بیٹھے رہتے ہیں 
اور استاد سارا دن چل چل کر ان کے پاس جاتا ھے۔

مسلمان تہذیبوں میں یہ معاملہ صرف والدین اور استاد تک ھی محدود نہ تھا 
بلکہ باقی رشتوں کے معاملے میں بھی ایسی ھی احتیاط کی جاتی تھی۔ 
وہاں چھوٹا، چھوٹا تھا اور بڑا، بڑا۔ 
چھوٹا عمر بڑھنے کے ساتھ بڑا نہیں بن جاتا تھا بلکہ چھوٹا ھی رہتا تھا۔

ابن عمرؓ جا رہے تھے کہ ایک بدو کو دیکھا۔ 
سواری سے اترے، بڑے ادب سے پیش آئے اور اس کو بہت سا ہدیہ دیا۔ کسی نے کہا کہ 
یہ بدو ھے تھوڑے پہ بھی راضی ھو جاتا آپ نے اسے اتنا عطا کر دیا۔ 
فرمایا کہ یہ میرے والد صاحب کے پاس آیا کرتا تھا 
تو مجھے شرم آئی کہ میں اس کا احترام نہ کروں۔

اسلامی تہذیب کمزور ھوئی تو بہت سی باتوں کی طرح حفظ مراتب کی یہ قدر بھی اپنی اھمیت کھو بیٹھی۔ 
اب برابر ی کا ڈھنڈورا پیٹا گیا اور بچے ماں باپ کے برابر کھڑے ھوگئے اور شاگرد استاد کے برابر۔ 
جس سے وہ سار ی خرابیاں در آئیں جو مغربی تہذیب میں موجود ہیں۔

اسلام اس مساوات کا ھرگز قائل نہیں کہ جس میں ابوبکرؓ اور ابوجہل برابر ھو جائیں۔ 
ابو بکرؓ ابوبکرؓ رہیں گے اور ابو جہل ابو جہل رھے گا۔
اسی طرح استاد، استاد رھے گا اور شاگرد، شاگرد۔ 
والد، والد رھے گا اور بیٹا، بیٹا۔ 
سب کا اپنا اپنا مقام اور اپنی اپنی جگہ ھے اُنکو اُنکے مقام پر رکھنا اور اس کے لحاظ سے ادب و احترام دینا ھی تہذیب کا حسن ھے۔

مغربی تہذیب کا مسلمان معاشروں پہ سب سے بڑا وار (شاید) اسی راستے سے ھوا ھے 
جب کہ مسلمان عریانی اور فحاشی کو سمجھ رھے ہیں۔ عریانی اور فحاشی کا برا ھونا سب کو سمجھ میں آتا ھے 
اس لیئے اس کے خلاف عمل کرنانسبتا آسان ھے جب کہ حفظِ مراتب اور محبت کے آداب کی اھمیت کا سمجھ آنا مشکل ھے 
اس لیئے یہ قدر تیزی سے رُو بہ زوال ھے. اللہ کریم ھم سب کو صحیح سمجھ اور خالص عمل کی توفیق عطا  فرمائے... امین

*علی معاویہ میمن سادات*

اتحاد امت، تعلیم اورخدمت خلق امارت شرعیہ کی ترجیحات__ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

اتحاد امت، تعلیم اورخدمت خلق امارت شرعیہ کی ترجیحات__ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

جمشیدپور۔ 16/ فروری (پریس ریلیز) موجودہ حالات کے پیش نظر مسلم معاشرہ کی اصلاح ، خواتین میں دینی بیداری ،نئی نسل کے دین وایمان کی حفاظت کرنا، اسلامی تہذیب وتمدن اور ملت اسلامیہ کی دینی تشخص کو برقرار رکھنا ہم علماء ودانشوارن کی اہم ذمہ داری ہے، جیسا کہ قرآن مقدس کا بھی حکم ہے کہ‘‘ آپ میں ایک جماعت ایسی ہو،جو اچھائی کی طرف بلائے اور برائی سے روکے، ان خیالات کا اظہار امارت شرعیہ بہاراڈیشہ وجھارکھنڈ کے نائب ناظم ، وفاق المدارس الاسلامیہ کے ناظم اور اردو کارواں کے نائب صدرحضرت مولانا مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی صاحب نے کیا، وہ جمشیدپور کے علماء ودانشوران خصوصاََ مولانا مفتی امیر الحسن قاسمی امام وخطیب جامع مسجددھتکیڈیہہ، جمشیدپور، مولانا مفتی نشاط احمد مظاہری مہتمم مدرسہ فیض القرآن کپالی، جمشیدپور، اور شہر کے معروف مضمون نگار محترم حافظ ہاشم قادری مصباحی امارت ہاسپیٹل جمشیدپور کے انتہائی متحرک اور فعال شخصیت جناب ریاض شریف سے تبادلہ خیال کے دوران کیا،مفتی صاحب نے فرمایا کہ کلمہ کی بنیاد پر امت کا اتحاد ، تعلیم اور خدمت خلق امارت شرعیہ کی ترجیحات میں شامل ہے، اتحاد امت سے اجتماعی قوت میں اضافہ ہوتا ہے، تعلیم سے دل اور خدمت خلق سے دماغ پر قبضہ ہوتا ہے،محبت کی فضاقائم ہوتی ہے، اور زندگی کی شاہ راہ پر انسان ترقیات کے منازل طے کرتا ہوا آگے بڑھتاہے،حضرت نے تنظیم ائمہ مساجدکا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ امت کے ہر فرد تک دینی وملی اور سماجی پیغام پہونچانے کے لئے منبرو محراب ،مساجد کے جمعہ کے خطاب کا کوئی بدل نہیں ہے، اور نہ اس سے بہتر نظام امت کو مل سکتاہے، مساجد کے یہ منبرو محراب اس امت کو   اللّٰہ کی جانب سے عطاکردہ ایک عظیم اور بے مثال ونایاب نبوی تحفہ ہیں ، حضرت نے فرمایا کہ جس طرح مرد حضرات کومساجد کے پلیٹ فارم سے جوڑنا ضروری ہے اسی طرح اس پر فتن دور میں مستورات کے لئے دینی اجتماع قائم کرنا ،اور اس میں دینی بیداری پیدا کرنا ہمارے لئے ضروری ہے نائب ناظم صاحب کے تما م پروگرام میں قاضی شریعت مولانا قاضی محمدسعود عالم قاسمی ومعاون قاضی شریعت مولانا قاری افروز سلیمی القاسمی بھی ساتھ ساتھ رہے ، مفتی صاحب کی آمد پرشہر کی معروف شخصیت ، ٹاٹا اسٹیل کمپنی اسپورٹ کے ہیڈکوچ محترم ڈاکٹر حسن اما م ملک نے حضرت نائب ناظم صاحب کو شال اڑھاکر ان کا استقبال کیا۔
واضح رہے کہ اس وقت امارت شرعیہ بہار، اڈیشہ و جھارکھنڈ کے نائب ناظم حضرت مولانامفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی صاحب جھارکھنڈ کے شہر آہن جمشیدپور کے دفتری جائزہ کے سفر پرہیں ، آج ان کے سفر کا دوسرا دن تھا، حضرت کی روانگی رانچی کے لئے ہوچکی ہے، جہاں وہ دفتری جائزہ کے ساتھ امارت پبلک اسکول ، پسکا نگری رانچی کا تعلیمی جائزہ لیں گے، ہندپیڑھی اور اربا میں تعلیم کے آغاز اور اس کے امکانات کے سلسلہ میں عمائدین شہر اور مقامی کمیٹی کے افراد سے تبادلہ خیال کریں گے اس سے قبل حضرت کا پانچ روزہ دورہ اڈیشہ میں تھا امیرشریعت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی دامت برکاتہم کے حکم وہدایت کی روشنی میں امارت شرعیہ کے کاموں کورفتار دینے کی غرض سے یہ اسفار ہورہے ہے، یہ رپورٹ دفتر دار القضاء امارت شرعیہ جمشیدپور سے معاون قاضی افروز سلیمی القاسمی نے دی ہے۔

اویسی پر حملہ __مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

اویسی پر حملہ __
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
گذشتہ دنوں ایم آئی ایم کے سربراہ جناب اسد الدین اویسی پر اترپردیش میں ہوئے قاتلانہ حملہ نے پورے ملک کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے، پارلیامنٹ کے ارکان اور اسپیکر نے بھی اس بزدلانہ حملہ پر افسوس کا اظہار کیا ہے، خبروں کے مطابق وہ ہاپوڑ سے انتخابی جلسہ کرکے دہلی واپس ہو رہے تھے تو ایک ٹول پلازہ پر صرف چھ فٹ کی دوری سے چار گولیاں چلائی گئیں، مجرمین دو تھے ایک کو اویسی کے ساتھیوں نے پکڑ لیا اور دوسرا سی سی کیمرے کی زد میں تھا اس لئے اس کی شناخت آسانی سے ہو گئی اور اسے دھر دبوچا گیا، دونوں مجرم اب جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔
اس حادثہ کے بعد مرکزی حکومت نے جناب اسد الدین اویسی کو زیڈپلس سیکورٹی فراہم کرنے کا اعلان کیا، لیکن اسد الدین اویسی نے اسے لینے سے انکار کردیا، ان کا کہنا تھا کہ موت ایک بار ہی آتی ہے، اتنے قریب سے گولی چلنے پر  اللّٰہ نے ہمیں بچا لیا، وہ جب تک مجھ سے کام لینا چاہے گا، لے گا اور پھر واپس اپنے پاس بلا لے گا، اس لئے ہمیں سیکورٹی نہیں چاہئے، جن لوگوں نے یہ حرکت کی اس پر یو اے پی اے لگائیے اور مسلمانوں کو اے کٹیگری کا شہری بنایئے، جو لوگ نفرت پھیلا رہے ہیں ان پر پابندی لگایئے۔میری جان اخلاق اور پہلو خان سے زیادہ قیمتی نہیں ہے، انہوں نے کہا کہ مجھے ہتھیار بند لوگوں کے ساتھ چلتے ہوئے گھٹن محسوس ہوتی ہے، وزیر داخلہ امیت شاہ نے راجیہ سبھا میں ان سے درخواست کی کہ وہ اپنی جان کے تحفظ کے لیے حکومت کی جانب سے زیڈ پلس سیکوریٹی قبول کر لیں، لیکن اویسی اپنی ضد پر قائم ہیں کہ انہیں سیکوریٹی نہیں چاہیے۔
پالیامنٹ میں اسد الدین اویسی کی اس ولولہ انگیز تقریر اور یقین محکم نے پورے ہندوستان کا دل جیت لیا، ایک وہ منظر تھا کہ پارلیامنٹ میں جب یوگی آدتیہ ناتھ اپنے خلاف ہوئے معمولی حملہ پر زار وقطار رو رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ اگر ہمیں تحفظ نہیں دیا گیا تو پارلیامنٹ کی رکنیت سے ہم استعفیٰ دیدیں گے، پارلیامنٹ کے ارکان نے یہ منظر بھی دیکھا کہ ایم آئی ایم کے سربراہ نے رونے کے بجائے زیڈسیکورٹی تک واپس کرنے کا اعلان کیا ہے، ان کے اس رویہ اور پارلیامنٹ میں ان کی دانشمندانہ اور جرأت مندانہ تقریر سن کر کئی لوگوں کا خیال ہے کہ اترپردیش میں ان کی فتح شروع ہو گئی ہے، اسمبلی میں سیٹیں جتنی بھی آویں یا نہ آویں، لیکن ان کی اخلاقی فتح تاریخ کا حصہ بن گئی ہے جسے ان سے اب کوئی چھین نہیں سکتا ہے۔

منگل, فروری 15, 2022

قرآن کریم صحت کے ساتھ پڑھنا، پڑھانا دین کی بڑی ضرورت۔ مفتی ثناءالہدیٰ قاسمی

قرآن کریم صحت کے ساتھ پڑھنا، پڑھانا دین کی بڑی ضرورت۔ مفتی ثناءالہدیٰ قاسمی
جمشیدپور۔ 15/ فروری ( پریس ریلیز) بنیادی دینی تعلیم کا سب سے اہم حصہ قرآن کریم کا صحت کے ساتھ پڑھنا ، پڑھانا ہے، اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جن کاموں کاتذکرہ اللّٰہ رب العزت قرآن کریم میں کیاہے، ان میں تلاوت کتاب بھی ہے، اسی وجہ سے امارت شرعیہ نے ہر دور میں خصوصیت کے ساتھ مکتب کے قیام کو ترجیح دیا ، اور آج بھی امیر شریعت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی دامت برکاتہم کے حکم کے مطابق بڑی تعداد میں خود کفیل نظام ِمکاتب کے قیام پر توجہ دی جارہی ہے، ان خیالات کا اظہار امارت شرعیہ بہاراڈیشہ وجھارکھنڈ کے نائب ناظم ، وفاق المدارس الاسلامیہ کے ناظم اور اردو کارواں کے نائب صدرحضرت مولانا مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی صاحب نے کیا، وہ مکتب امارت شرعیہ جمشیدپور کے جائزہ کے بعدامارت شرعیہ کے مقامی ذمہ داروں سے تبادلہ خیال کررہے تھے ، انہوں نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیاکہ جمشیدپورمیں تنظیم ائمہ مساجد بھی اس کام کے لئے سرگرم عمل ہے،اس نے مستورات میں بھی کام کا ایک خاکہ بنایاہے، اور اس پر کام بھی شروع ہوگیا ہے، یہ ایک اچھی اور قابل تحسین پیش رفت ہے، جس کا قیام حال ہی میں امارت شرعیہ کی کوششوں سے عمل میں آیاہے، مفتی صاحب نے فرمایا کہ جمشید پور میں ہیلتھ کئیرسینٹر کی عمارت کی تعمیر کاکام بھی جلدشروع ہوگا، اس  کے لئے ضروری تیاری چل رہی ہے، حضرت امیر شریعت کے حکم وہدایت کی روشنی میں کام کو آگے بڑھایاجائے گا۔
حضرت مفتی صاحب نے شہر جمشیدپور کی دھتکیڈیہہ جامع مسجد میں مسلمانوں کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ہمیں حالات کی بدتری سے پریشان ہونے کے بجائے اللّٰہ رب العزت کی قدرت کاملہ پر اعتماد رکھنا چاہئے، اور خوب اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ حالات حکمرانوں کے بدلنے سے نہیں بدلتے، اعمال کے بدلنے سے بدلتے ہیں، ہم نے دین سے دوری اختیار کی، اللّٰہ سے تعلق میں کمی آئی، شریعت پر عمل کرنے کا مزاج جاتارہا، تو مصیبتیں آنے لگیں، اس کاحل شریعت پر عمل اور اللّٰہ سے تعلق کو مضبوط کرناہے، علامہ اقبال ؒ کے لفظوں میں کہیں تو کہہ سکتے ہیں کہ‘‘ اور ہم خوار ہوئے تاریک قرآن ہوکر،، تدبیریں ہر دور میں اسلام اور اس کے ماننے والوں کے خلاف ہوتی رہی ہیں، لیکن اچھی اور غالب تدبیر اللّٰہ کی ہے، حضرت مفتی صاحب نے اپنے خطاب میں قرآن واحادیث اور سیروتاریخ کے حوالہ سے کئی مثالیں دے کر اپنی بات کو واضح کیا، اور بتایا کہ ہم ہی غالب رہیں گے اگر ہم مومن ہیں، آزمائش کے اس موقع سے دین پر سختی سے قائم رہنا اور شریعت کے مطابق زندگی گذارنا ہماری اولین ترجیحات ہونی چاہیے۔
پروگرام سے  قبل نائب ناظم امارت شرعیہ جھارکھنڈ کے چارروزہ دورہ کے پہلے دن جمشیدپور پہونچنے پر امارت شرعیہ کے ذمہ داروں خصوصاََ قاضی شریعت مولانا قاضی محمدسعود عالم قاسمی ومعاون قاضی شریعت مولانا افروز سلیمی القاسمی نے استقبال کیا، حضرت مفتی صاحب نے امارت شرعیہ کے مختلف کاموں کاجائزہ لیا اور ضروری مشورے دیئے، مختلف مجلسوں میں حضرف مفتی صاحب نے امارت شرعیہ کی اہمیت وضرورت ، اس کے مقاصد اور اہداف پر بھی روشنی ڈالی، شہر جمشیدپور کی معروف عصری تعلیم گاہ کریم سیٹی کالج کے کئی پروفیسران سے بھی مولانا عبداللہ قاسمی کے دولت کدہ پر عشائیہ کے موقع پرملاقات ہوئی، مفتی صاحب نے امارت شرعیہ جمشیدپور کے معلم مولانا اظہر القاسمی کی نانی کے انتقال پر ان سے تعزیت کرنے کے بعد دعائے مغفرت فرمائی،نائب ناظم صاحب کے تمام پروگرام میں قاضی شریعت مولانا قاضی محمدسعود عالم قاسمی ومعاون قاضی شریعت مولانا قاری افروز سلیمی القاسمی بھی ساتھ ساتھ کریک رہے ،واضح رہے کہ حضرت نائب ناظم صاحب کا جھارکھنڈ کایہ دورہ دفتری جائزہ اور امارت شرعیہ کے کاموں کو رفتاردینے کی غرض سے ہو رہاہے جو ابھی جار ی رہے گایہ رپورٹ دفتر دار القضاء امارت شرعیہ جمشیدپور سے معاون قاضی افروز سلیمی القاسمی نے دی ہے۔

مولانا عتیق الرحمن سنبھلی _____ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ(9431003131)

مولانا عتیق الرحمن سنبھلی _____
 مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ(9431003131)
ماہنامہ الفرقان اور ندائے ملت کے سابق مدیر ، انڈین مسلم فیڈریشن یو کے کے سرگرم رکن، اسلامک ڈیفینس لیگ یوکے کے بانی، حضرت مولانا عتیق الرحمن سنبھلی بن حضرت مولانا منظور احمد نعمانی بن صوفی احمد حسین (م رمضان ۱۳۶۸ھ) کا پنچانوے سال کی عمر میں دہلی میں مقیم ان کے صاحب زادہ مولانا عبید الرحمن سنبھلی کے گھر انتقال ہو گیا، انہوں نے ۲۳؍ جنوری ۲۰۲۲ء کو عشاء کی نماز سے قبل آٹھ بج کر دس منٹ پر آخری سانس لی، وہ کافی عرصہ سے بیمار چل رہے تھے، جنازہ ان کے آبائی شہرسنبھل لے جایا گیا، جہاں بعد نماز ظہر اگلے دن مفتی محمد سلمان منصور پوری استاذ حدیث مدرسہ شاہی مراد آباد نے جنازہ کی نماز مدرسہ انجمن سنبھل میں پڑھائی، اور ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں مقامی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی، پس ماندگان میں دو لڑکے اور دو لڑکیوں کو چھوڑا اہلیہ پہلے انتقال کر چکی تھیں۔
حضرت مولانا عتیق الرحمن سنبھلی نے ۱۵؍ مارچ ۱۹۲۶ء کو اتر پردیش کے قصبہ سنبھل میں آنکھیں کھولیں وہ مولانا منظور نعمانی علیہ الرحمہ کے سب سے بڑے فرزند تھے، ابتدائی تعلیم کے حصول کے بعد انہوں نے دار العلوم دیو بند کا رخ کیا، وہاں وہ حضرت مولانا محمد سالم قاسمی اور حضرت مولانا محمد اسعد مدنی ؒ کے ہم درس رہے۔ ۱۹۵۰ء میں دار العلوم سے فراغت کے بعد اپنے والد کے مشہور رسالہ الفرقان سے وابستہ ہوئے ، ۱۹۵۳ء میں وہ الفرقان کے مدیر بنا دیے گیے، انہوں نے مضبوط انداز میں ملت اسلامیہ کا موقف الفرقان میں پیش کیا، یہ موقف بے باکانہ ہو اکرتا تھا، جس کی وجہ سے الفرقان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا، ان کے الفرقان کے اداریوں کا مجموعہ’’ راستے کی تلاش‘‘ کے نام سے چھپ چکا ہے جو اہل علم میں مقبول ہے۔ ۱۹۶۲ء میں پندرہ روزہ ندائے ملت کا آغاز ہوا تو مولانا اپنے بھائی حفیظ نعمانی کے ساتھ اس کے دست وبازو بن گیے،ندائے ملت  کے بے باکانہ اداریہ نے حکومت کے ایوانوں میں زلزلہ برپا کر دیا، نتیجہ یہ ہوا کہ حفیظ نعمانی نے نو ماہ کے لیے قید وبند کی صعوبت برداشت کی خود مولانا ڈیفنس آف انڈیا رول کے تحت چھ مقدمات میں ماخوذ ہوئے۔
 مولانا مرحوم مسلم مجلس مشاورت کے بانیوں میں سے ایک تھے، مسلسل تحریکی زندگی کی وجہ سے ان کی صحت خراب رہنے لگی ، ۱۹۶۷ء میں مولانا بغرض علاج لندن گیے اور پھر وہیں کے ہو کر رہ گیے، سال میں ایک بار ہندوستان آنا ہوتا تھا، لیکن وہ مہمان بن کر ہی آتے تھے، لندن منتقلی کے بعد ان کا میدان عمل برطانیہ ہو گیا، او روہاں انہوں نے مختلف تحریکات میں بھر پور حصہ لیا، انہوں نے مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے اسلامک ڈیفنس لیگ کی بنیاد ڈالی، انڈین مسلم فیڈریشن لندن کے ذریعہ ہندوستانی مسلمانوں کو ہندوبیرون ہند میں مؤثر بنانے کے لیے جم کر کام کیا، ان کے مضامین فیڈریشن کے خبرنامہ ’’دی انڈین مسلم‘‘ میں اردو سے انگریزی ترجمہ کرکے چھپا کرتے تھے۔
مولانا عظیم صحافی تھے، ان کی انگلی زمانہ کے نبض پر ہوا کرتی تھی ، وہ سیاسی اتار چڑھاؤ اور رست وخیز پر گہری نظر رکھتے تھے، اس لیے ان کے اداریے اقدامات کی  نشان دہی بھی کرتے تھے، ان کے اداریہ نویسی کی خصوصیات کو ان کے اداریہ کے مجموعے ’’راستے کی تلاش ‘‘ میں دیکھا جا سکتا ہے ، ان کے علاوہ جو کتابیں ان کی مقبول ہوئیں اور اہل علم کی نظر میں مباحثہ کا موضوع بنیں ان میں انقلاب ایران اور اس کی اسلامیت ، واقعۂ کربلا اور اس کا تاریخی پس منظر، طلاق ثلاثہ اور حافظ ابن القیم، مجھے ہے حکم اذاں خاص طور پر قابل ذکر ہیں، ان کی آخری تصنیف محفل قرآن ہے، جو چھ جلدوں میں ہے اور تفسیر قران ہے، یہ تفسیر عصر حاضر کو سامنے رکھ کر لکھی گئی ہے ، اس لیے مشکل مقامات کے حل کے ساتھ قرآن کریم پر کیے جانے والے اعتراضات کا منطقی اور مسکت جواب بھی دیا گیاہے، یہ تفسیر اہل علم کے لیے بہترین تحفہ اور نئی نسل کے لیے ان کے شکوک وشبہات دور کرنے کا بہترین ذریعہ ہے، مولانا کا جو اسلوب او ر تحقیق میں جو جزم واحتیاط تھا اس کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت مولانا مفتی عتیق احمد بستوی استاذ دار العلوم نے بجا لکھا ہے کہ 
’’ حضرت مولانا عتیق الرحمن سنبھلی زود نویس نہیں تھے، اللہ نے ان کو جو طویل عمر عطا فرمائی اس کے اعتبار سے ان کی کتابیں اور ان کی تحریریں کم ہیں، لیکن وہ جو کچھ تحریر فرماتے تھے، طویل غور وفکر ، گہرے مطالعہ اور وسیع تجربات کا خلاصہ ہوتا تھا، ہر لفظ بہت ناپ تول کر لکھتے تھے، ان کا ہر جملہ اور فقرہ بہت محکم ہوتا تھا، ان کی تحریریں لفاظی عبارت آرائی سے پاک ہوتی تھی، ان کا اسلوب نگارش سشتہ ، سادہ اور بڑا عقلی ومنطقی ہوا کرتا تھا۔ آگے لکھتے ہیں: مولانا عتیق الرحمن سنبھلی کا مخصوص طرز نگارش ہے ، اس میں سادگی اورپرکاری کے ساتھ معقولیت کا حسین امتزاج ہے، مولانا سنبھلی کی کوئی بھی تحریر سرسری اور سطحی نہیں ہوتی، بہت غور وفکر کے بعد موضوع میں ڈوب کر لکھتے ہیں۔(مولانا عتیق الرحمن سنبھلی- نقوش وتاثرات)
یہ عجیب اتفاق ہے کہ مولانا سے میری کوئی ملاقات ہندوستان میں نہیں ہوئی ، اکیسویں صدی کی پہلی دہائی میں جب میرا ٓنا جانا لندن ہونے لگا تو کئی ملاقاتیں مختلف محفلوں میں وہیں ہوئیں، ایک دو دفعہ گھر بھی جانا یاد آتا ہے، میںنے ان ملاقاتوں میں مولانا کو متواضع ، خاموش طبع اور غیر ضروری باتوں سے پرہیز کرنے والا پایا، ممکن ہے دوستوں کی مجلس میں گھل مل جاتے رہے ہوں، لیکن میرے ساتھ ایسا کچھ نہیں تھا، میں خود بھی بڑوں کی مجلس میں خاموش ہی رہا کرتا ہوں، مولانا بھی خاموش طبع تھے، ایسے میں گفتگو سے زیادہ اس ملاقات کا مطلب ایک دوسرے کو دیکھنا ہی ہوا کرتا تھا، کچھ عمر کا تفاوت بھی تھا جو بے تکلف ہونے سے ہر ملاقات میں مانع ہی رہا ۔ اللہ رب العزت ان کی مغفرت فرمائے، پس ماندگان کو صبر جمیل دے اور امت کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین

، SOPS کرناٹک میں جلدہی یونیفارم پر : Hijab Row پری یونیورسٹی و ڈگری کالجز کا کل سے آغاز

، SOPS کرناٹک میں جلدہی یونیفارم پر : Hijab Row پری یونیورسٹی و ڈگری کالجز کا کل سے آغازکرناٹک کے وزیر اعلی بسواراج بومائی (Basavaraj Bommai) نے پیر کے روز کہا کہ حجاب (Hijab) پر بڑھتے ہوئے تنازعہ کے درمیان حکومت اسکولوں اور کالجوں میں یونیفارم کے حوالے سے ایس او پیز (SOPs) جاری کرے گی۔ وزیراعلیٰ نے صحافیوں کو بتایا کہ وہ ایس او پیز جاری کرنے سے پہلے ریاستی وزیر تعلیم سے اس معاملے پر بات کریں گے۔ سی ایم بسواراج بومائی نے کہا آج دسویں جماعت تک کی کلاسیں دوبارہ شروع ہو گئی ہیں۔ آج شام میں اپنے وزیر تعلیم کے ساتھ ایک میٹنگ میں شرکت کروں گا۔ ہم بات کریں گے کہ کیا ہوا ہے اور ایس او پیز جاری کریں گے۔ ہر ایک کو ہائی کورٹ کی ہدایت پر عمل کرنا چاہیے۔ وزیر اعلیٰ کا یہ تبصرہ ایک ایسے دن آیا جب دسویں جماعت تک کے اسکول چھ دن کے وقفے کے بعد دوبارہ کھل گئے۔ 8 فروری کو بومئی نے تمام تعلیمی اداروں کو بند کرنے کا حکم دیا تھا کیونکہ جنوبی ریاست میں حجاب کے تنازع (hijab controversy) پر ہلچل مچ گئی تھی۔ پری یونیورسٹی اور ڈگری کالج بدھ کو دوبارہ کھلیں گے۔ کرناٹک حکومت نے پیر کے روز پی یو (پری یونیورسٹی) اور ڈگری کالجز کو بدھ سے دوبارہ کھولنے کا فیصلہ کیا اور محکمہ پولیس کو جہاں بھی ضرورت ہو سیکورٹی بڑھانے کی ہدایت دی۔ حکومت نے پہلے ڈگری اور ڈپلومہ کالجوں کی بندش میں 16 فروری تک توسیع کی تھی۔ یہ فیصلہ سی ایم بومائی کی صدارت میں ہوئی میٹنگ میں لیا گیا، جس میں وزیر داخلہ آراگا جنیندر، پرائمری اور سیکنڈری تعلیم کے وزیر بی سی ناگیش، اعلیٰ تعلیم کے وزیر سی این اشوتھ، نارائن اور حکومت کے سینئر افسران نے شرکت کی۔ کرناٹک ہائی کورٹ نے اپنے عبوری حکم میں حجاب سے متعلق تمام درخواستوں پر غور کرنے کے بعد گزشتہ ہفتے ریاستی حکومت سے تعلیمی اداروں کو دوبارہ کھولنے کی درخواست دی تھی اور تمام طلبا کو زعفرانی شال، اسکارف، حجاب اور کسی بھی مذہبی جھنڈے کو پہننے سے روک دیا تھا۔ عدالتی حکم کے بعد حکومت نے 14 فروری سے ہائی اسکول کے طلبا کے لیے کلاس 10 تک اور اس کے بعد پری یونیورسٹی اور ڈگری کالجوں کے لیے دوبارہ کلاسز شروع کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور اسی کے مطابق ریاست بھر کے ہائی اسکول آج دوبارہ کھل گئے۔

طلبا نے ہائی کورٹ سے کہا کہ انہیں یونیفارم کی طرح ایک ہی رنگ کا حجاب پہننے کی اجازت دی جائے۔ اس سے پہلے دن میں کرناٹک ہائی کورٹ کی تین رکنی بنچ نے پیر کو دوبارہ سماعت شروع کرنے کے بعد حجاب کیس کی سماعت منگل کی دوپہر تک ملتوی کر دی۔

پیر, فروری 14, 2022

معاشی استحکام کے لئے پیشہ وارانہ تعلیم ضروری_مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی اڈیشہ کے پانچ روزہ دورہ کے آخری دن نائب ناظم صاحب نے کئی اداروں کاجائزہ لیا

معاشی استحکام کے لئے پیشہ وارانہ تعلیم ضروری_مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی 
اڈیشہ کے پانچ روزہ دورہ کے آخری دن نائب ناظم صاحب نے کئی اداروں کاجائزہ لیا
 اڈیسہ 14 فروری( پریس ریلیز)  امارت شرعیہ بہاراڈیشہ وجھارکھنڈکے نائب ناظم،وفاق المدارس الاسلامیہ کے ناظم اور اردوکاروں کے نائب صدر مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نے اڈیشہ دورے کے پانچویں دن امارت عمرٹکنیکل انسٹی چیوٹ بسراکاجائزہ لیا،اس موقع سے امارت شرعیہ راورکیلا کے ذمہ دار جناب محمدعرفان ،ٹیکنیکل انسٹی چیوٹ کے ذمہ دار جناب رشیداسلم ،امارت شرعیہ کے قاضی جناب مفتی عبدالودودقاسمی،معلمین مولاناکرامت حسین اورمولاناعتیق الرحمان کے علاوہ ٹینیکل انسٹی چیوٹ کے اساتذہ و طلبہ موجودتھے، اس موقع سے مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی  نے فرمایاکہ معاشی استحکام کے لئے پیشہ وارانہ تعلیم کاحصول ضروری ہے،یہ پیغمبر اسلام حضرت داوود علیہ السلام کی سنت بھی ہے، اللّٰہ رب العزت نے ان کے ہاتھوں میں لوہاکونرم کردیاتھا،اس لئے ہمارے نوجوانوں کو پیشہ وارانہ تعلیم میں مہارت پیداکرنی چاہئے،اوریادرکھناچاہئے کہ ٹیکنیکل ایجوکیشن میں تھیوری سے زیادہ عملی طورپرکام کاجانناضروری ہوتاہے،اگرآپ نے عملی طورپرمہارت نہیں پیداکی توآپ کی سندکاکوئی فائدہ نہیں ہوگا،اسی وجہ سے امارت شرعیہ کے اداروں میں امتحان میں شرکت کے لئے بھی حاضری کاتناسب دوسرے کالجز سے زیادہ ہے،ہمیں امیدہے کہ ادارہ ان خطوط پرکام کرتارہے گا جو بڑوں نے ہمیں بتایاہے،اس سے قبل بسراپہونچنے پرانسٹی چیوٹ کی انتظامیہ،معلمین اور طلبہ کی طرف سے مفتی صاحب کاوالہانہ استقبال کیاگیا،امارت شرعیہ راورکیلا کے رکن اور جامعہ امینہ ہارون للبنات اور تحفیظ القرآن کے ناظم جناب شکیل احمدصاحب کی دعوت پرمفتی صاحب جامعہ تحفیظ القرآن تشریف لے گئے اوریہاں طلبہ کے ختم قرآن کی تقریب میں شرکت فرمائی،مجمع سے خطاب کرتے ہوئے مفتی صاحب نے عظمت قرآن،تلاوت قرآن،حفظ قرآن کی اہمیت بیان کی اور صحت کے ساتھ قرآن کریم پڑھنے پرزوردیا،انہوں نے قرآن کریم کی خدمت کے حوالے سے جامعہ تحفیظ القران اورحاجی شکیل احمدصاحب کی خدمت کوسراہا ،مفتی صاحب نے امارت شرعیہ کے ذریعہ چلائے جارہے مکاتب کاتعلیمی جائزہ بھی لیااورفرمایاکہ اس قسم کے مکاتب کارول دینی تعلیم کے فروغ میں انتہائی اہم ہے،اورکہناچاہئے کہ یہیں وہ اینٹ رکھی جاتی ہے جہاں سے مسلمانوں کوپوری زندگی دین پرقائم رکھنے اورضروریات دین کوبرتنے کاسلیقہ ملتاہے،نائب ناظم امارت شرعیہ نے سیکٹر۵۱ کی جامع مسجد میں مسلمانوں کے ایک بڑے مجمع سے خطاب کیااورکہاکہ جھگڑے مت کیجئے اگرہوہی جائیں تودارالقضاء لے جائیے اورقاضی شریعت جوفیصلہ دیں اس کوبلاکسی تامل کے مان لیجئیے کیونکہ یہ فیصلہ خدااوررسول کے احکام وہدایت کے مطابق ہے،اس سے آپ کو اللہ تعالیٰ کی رضائ ملے گی اور اللّٰہ کی رضائ ہی مومن کامطلوب ومقصودہے،انہوں نے فرمایاکہ جوتکلیف دہ باتیں دوسرے مذاہب کے لوگوں کی طرف سے آپ تک پہونچتی ہیں اس کامقابلہ جوش وجذباتیت سے نہیں ،عقل وہوش،صبروتحمل کے ساتھ کیجئیے،یہی قرآنی ہدایت ہے اوریہی اولوالعزم لوگوں کاطریقہ رہاہے،سامعین کااحساس تھاکہ اس وقت کے حالات کے اعتبارسے یہ بیان بڑی اہمیت کاحامل ہے،اڈیشہ کے پانچ روزے دورے کی تکمیل کے بعدمفتی صاحب جھارکھنڈ کے چارروزہ دورے پرروانہ ہوگئے،ان کی پہلی منزل جمشیدپور ہے،جہاں سے وہ رانچی کے لئے روانہ ہوجائیں گے،یہ اطلا ع ذیلی دفتر امارت شرعیہ راورکیلاکے قاضی شریعت جناب مولانامفتی عبدالودود قاسمی صاحب نے دی ۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...