Powered By Blogger

ہفتہ, فروری 19, 2022

تحفۃ الافادات فی شرح مقدمہ مشکوٰۃ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

تحفۃ الافادات فی شرح مقدمہ مشکوٰۃ 
 مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
لمحات التنقیح فی شرح مشکوٰۃ المصابیح کا دیباچہ اہل علم کے نزدیک مقدمہ مشکوٰۃ کے نام سے معروف ومشہور ہے، یہ حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی (۱۰۵۲-۹۸۵) بن سیف الدین کی علمی یادگار ہے، اس کی مقبولیت اور محدیثن کے نزدیک اس کی حاجت وضرورت کو دیکھتے ہوئے حضرت مولانا احمد علی محدث سہارن پوری ؒ نے اس دیباچہ کو مشکوۃ شریف کے شروع میں شامل کر دیا ، اس طرح وہ اب مشکوٰۃ شریف کا جزو لازم بن گیا، کیوں کہ احادیث کے مباحث اور اس کے مدارج اور مقام کا سمجھنا اصول حدیث کے علم کے بغیر ممکن نہیں اور یہ مقدمہ اپنی جامعیت کے اعتبار سے منفرد اوراختصار کے اعتبار سے اسے پڑھنا پڑھانا ، سمجھنا سمجھانا اور بآسانی حافظہ کی گرفت میں آجانا اس کا امتیاز ہے، اس لیے یہ مقدمہ ہر دور میں مقبول رہا ہے اور اسے نصاب کا حصہ بنا دیا گیا ہے ، تاکہ احادیث کے اصولی مباحث سے طلبہ کو اس قدر واقفیت ہوجائے کہ وہ نخبۃ الفکر اور اس جیسی دوسری کتابوں کو بآسانی سمجھ سکیں۔
 دار العلوم الاسلامیہ امارت شرعیہ میں بھی یہ مقدمہ نصاب کا جزو ہے، اس کی تدریس عام طور سے مفتی آفتاب عالم قاسمی کے ذمہ رہی ہے، جو ’’آفتاب بزمی‘‘ کے نام سے بھی  جانے جاتے ہیں، گیدر گنج، اندھرا ٹھاڑی ضلع مدھوبنی کے رہنے والے ہیں، گذشتہ آٹھ سالوں سے دار العلوم الاسلامیہ میں تدریس کے فرائض انجام دیتے ہیں، احادیث کی بعض کتابوں کی تدریس بھی ان کے ذمہ ہے جواں سال ہیں، علم پختہ ہے، مطالعہ کا شوق ہے اور حاصل مطالعہ کو جمع کرنے اور اس میدان میں کچھ کر گذرنے کا جذبہ بھی جواں ہے، لکھتے پڑھتے رہے ہیں اور چیزوں کو مرتب انداز میں پیش کرتے ہیں، تحفۃ الافادات فی شرح مقدمہ مشکوٰۃ کو میں نے جو کچھ اوپر لکھا ہے اس کی دلیل کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے، شرح دیکھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ مفتی آفتاب عالم کے علم میں گہرائی بھی اور گیرائی بھی ، اس علمی انحطاط کے دور میں طلبہ عربی شروحات کے بجائے اردو شرح سے مستفیض ہونا زیادہ پسند کرتے ہیں، گو اس سے اصل ماخذ سے علم کے حصول میں انحطاط ہوتا ہے، لیکن کیا کیجئے اب تو یہ ایک ضرورت بن گئی ہے ، اور آسان ترین کتابوں کی شروحات بھی لکھی جا رہی ہیں، میں نے اردو کی چوتھی کی شرح دیکھی ہے، اور ہمارے ایک بزرگ نے شرح قواعد بغدادی بھی لکھی تھی ، مقدمہ مشکوٰۃ تو بڑی ارفع واعلیٰ چیز ہے، اس لیے مفتی آفتا ب عالم قاسمی کی اس اردو شرح کو طالب علموں کی ضرورت سمجھنا چاہیے اور طالب علم ہی کیا ، مولانا نے جو انداز اختیار کیا ہے اور جس طرح اصل متن پر اعراب لگا کر با محاورہ ترجمہ کیا ہے، پھر الفاظ کی تحقیق کی ہے، اصل متن پر جو کلام کیا ہے وہ اساتذہ کے لیے بھی مفید ہے، اساتذہ بھی تو اسی دور انحطاط کی پود ہوتے ہیں اور ان کی ضرورتیں بھی اس شرح سے پوری ہوتی نظر آتی ہیں، میں نے بعض اساتذہ کو اردو شرح سامنے رکھ کر پڑھاتے بھی دیکھا ہے، مفتی آفتاب عالم قاسمی ہم سب کی طرف سے شکریہ کے مستحق ہیں کہ انہوں نے ہم سب کے لیے علمی بھرم قائم رکھنے کا سامان بہم پہونچا دیا ہے۔
کتاب ایک سو چوراسی صفحات پر مشتمل ہے، مکتبہ صوت القرآن دیو بند نے شائع کیا ہے ، قیمت درج نہیں ہے، اس لیے مفت ملنے کے امکان سے انکار نہیں کیا جا سکتا، ملنے کے دو پتے ریان بکڈپو گیدر گنج اندھراٹھاڑی ضلع مدھوبنی اور دار العلوم الاسلامیہ امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ درج ہے، نمبر ۳ اور ۳؍ کو خالی رکھا گیا ہے، یہ محذوف منوی ہے، محذوف منوی کو متعین کرنے میں قرینہ سے کام چل جاتا ہے، یہاں اس کا بھی موقع نہیں ہے، اسی طرح فہرست میں جو تین تقریظ مذکور ہے ، اس میں ایک کی جگہ بھی صفحہ ۱۵؍ پر خالی ہے۔ ممکن ہے کسی بڑے کی تحریر مطلوب رہی ہو اور طباعت کے وقت دستیاب نہیں ہو سکی اور اس بڑے کی جگہ کسی کو دی نہیں جا سکتی تھی اس لیے خالی چھوڑ دیا گیا ، تاویلات کچھ بھی کر لیں یہ ترتیب کی کمی ہے، اسے خالی نہیں رہنا چاہیے تھا۔
 کتاب کا انتساب محدثین عظام ، ازہر ہند دار العلوم دیو بند، دار العلوم الاسلامیہ امارت شرعیہ اور والدین کے نام ہے جو سب کے سب اہم ہیں، یہ سلسلہ بھی اب متروک ہوتا جا رہا ہے ، اب تو لوگ پرانے زمانہ کی طرف لوٹ رہے ہیں، پہلے کتابوں کی طباعت کے لیے بادشاہ ، نواب، امراء رقومات فراہم کراتے تھے اور کتاب ان کے نام معنون ہوجاتی تھی، آج کے دور میں بھی کچھ ایسا ہی ہو رہا ہے ، جس نے طباعت کے لیے سرمایہ دیا، اس کے نام منسوب ہو گئی ، چاہے وہ کسی قماش کا آدمی ہو اور علمی معاملات ومسائل سے اس کا دور کا بھی واسطہ نہ ہو، کتاب کا منصہ شہود پر لانے کا وہ ذریعہ بن گیا ہے ، اس لیے ہمارے لیے وہ شخص زیادہ اہم ہے، مفتی آفتاب صاحب نے جن اشخاص اور اداروں کے نام اس کا انتساب کیا ہے وہ ظاہری اور معنوی اعتبار سے اس لائق ہیںکہ اپنے خارجی وجوداسباب اور صلاحیت وصالحیت کے حوالہ سے ان کا نام لیا جائے۔ 
کتاب پر دو تقریظ موجود ہے، ایک حضرت مولانا خضر محمد صاحب کشمیری نقشبندی استاذ حدیث دار العلوم دیو بند اور حضرت مولانا عبد اللہ معروفی استاذ تخصص فی الحدیث الشریف دار العلوم دیو بند کی۔ مفتی صاحب اس معاملہ میں بھی دور اندیش اور عقل مند ثابت ہوئے ہیں، انہوں نے جن دوشخصیات کا انتخاب کیا وہ دیو بند میں کتابوں کی مارکیٹنگ کے لیے انتہائی ضروری تھے، دار العلوم کے کسی استاذ کی تقریظ نہ ہو تو طلبہ اچھی اور علمی کتابوں کی طرف بھی متوجہ ہونے کا خطرہ مول نہیں لیتے، ان دونوں حضرات کی تقریظ سے اس شرح کے خریدنے والوں کا رجوع عام بھی ہوگا اور تام بھی ۔
 مولانا خضر محمد صاحب نے اس شرح کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’ علماء اور طلبہ کے لیے یہ کتاب حل مقدمہ کے لیے معاون ثابت ہوگی، موصوف نے اردو زبان میں مصطلحات حدیث کی بہتر اور مناسب تعریف کی ہے اور اطناب سے گریز کیا ہے ، اختیاری مطالعہ کے عنوان سے مزید تحقیق کے لیے تشنگان اصول حدیث کے لیے پیاس  بجھانے کا کام کیا ہے  (صفحہ ۱۳) 
حضرت مولانا عبد اللہ معروفی صاحب کا خیال ہے کہ ’’یہ کتاب علمی حلقوں اور طلبہ علوم حدیث کے درمیان قدر کی نگاہ سے دیکھی جائے گی (صفحہ ۱۴)
شرح اچھی ہے ، ہر اصول کی مثال دی گئی ہے ، اور مغلق عبارت کو حل کیا گیا ہے ، اختیاری مطالعہ میں کن مباحث میں کن امور کا مطالعہ کرنا چاہیے اس کی تفصیل درج کردی گئی ہے تاکہ شائقین میں ’’ھل من مزید‘‘ کی پیاس لگی رہے، حدیث سے شغف رکھنے والوں کے لیے اس کتاب کا مطالعہ انتہائی مفید ہے، کتاب اس لائق ہے کہ اسے افادہ عام کے لیے لائبریری اور مکتبوں میں رکھا جائے، اللہ سے دعا ہے کہ مفتی آفتاب عالم قاسمی کی یہ قیمتی اور علمی شرح آئندہ مزید تصنیفی وتالیفی سرگرمیوں کا نقطۂ آغاز بن جائے۔آمین

جمعہ, فروری 18, 2022

انتخابی منظر نامہ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

انتخابی منظر نامہ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
 ملک کی پانچ ریاستوں اتر پردیش، پنجاب، اترا کھند، گوا اور منی پور میں رواں ماہ میں انتخابات ہونے ہیں، پنجاب کو چھوڑ کر سبھی ریاستوں میں بھاجپا حکومت میں ہے، اس کی جوڑ توڑ کے طریقۂ کارنے اسے اقتدار تک پہونچانے میں نمایاں رول ادا کیا ہے، اس وقت سب کی نظریں اتر پردیش پر لگی ہوئی ہیں ، کیوں کہ یہ غلط بات لوگوں میں مشہور ہے کہ مرکزی حکومت کے اقتدار کا راستہ اتر پردیش سے گذرتا ہے اور جو پارٹی یہاں حکمراں ہوتی ہے وہی دہلی میں بر سر اقتدار آتی ہے،حالاں کہ اس کی حیثیت غلط فہمی سے زیادہ کچھ نہیں ، اتر پردیش میں ملائم سنگھ ، اکھلیش یادو، مایا وتی کی حکومت رہی لیکن مرکز میں بی جے پی اور اس کی حلیف جماعتیں راج کرتی رہیں،ا لبتہ یہ بات سچ ہے کہ یہاں پارلیامنٹ کی سیٹیں زیادہ ہیں اور اگر عوام مرکزی اور ریاستی حکومتوں کے انتخابات میں الگ الگ ترجیحات کو سامنے نہ رکھے تو ارکان کی مجموعی تعداد پر اس کا اثر پڑتا ہے۔
 اس وقت اتر پردیش میں کانگریس اور مایا وتی نے الگ الگ تال ٹھوک رکھا ہے، بھاجپا اور سماجوادی پارٹی کی بنیاد مضبوط ہے اور اسد الدین اویسی کی ایم آئی ایم بھی بہت سارے حلقوں سے قسمت آزمائی کر رہی ہے، بظاہر مقابلہ بھاجپا اور سماجوادی پارٹی کے درمیان ہے، چند سیٹیں ایم آئی ایم کو بھی آجائے تو حیرت نہیں ہونی چاہیے، کانگریس میں پرینکا گاندھی وہاں سے وزیر اعلیٰ کا چہرہ ہیں اور ان کی محنت بھی اچھی ہے، انہیں اپنے بھائی راہل گاندھی کی بھی حمایت حاصل ہے، لڑکی ہوں، لڑ سکتی ہوں کہ پرینکا گاندھی کے نعرے نے خواتین میں ایک نیا جوش پیدا کیا ہے، بھاجپا کو اندرونی خلفشار کا سامنا ہے اور اس کے کئی قدآور نیتا سماج وادی میں جا چکے ہیں، اس بھگدڑ کا فائدہ بھی سماج وادی پارٹی کو دکھتا نظر آ رہا ہے ۔
 پنجاب میں کانگریس کی حکومت ہے، موجودہ وزیر اعلیٰ چنئی کو ہی کانگریس نے اگلی حکومت کا سر براہ متعین کیا ہے، وہاں پارٹی کی جیت کے آثار واضح تھے، کسانوں کی تحریک میں پنجاب کا جو حصہ رہا ہے اس کا فائدہ بھی اس کو ملنا طے تھا، لیکن نوجوت سنگھ سدھو نے اپنی پارٹی کے خلاف جو محاذ کھول رکھا ہے،وزیر اعلیٰ کی کرسی تک نہیںپہونچنے کا جو انہیں صدمہ ہے اس سے پارٹی کمزور ہو رہی ہے، یہاں بھاجپا، اکالی دل بہوجن سماج پارٹی اور دو علاقائی پارٹیوں کے ساتھ عام آدمی پارٹی بھی قسمت آزما رہی ہے، سیاسی تجزیہ نگاروں کی رائے ہے کہ یہاں عام آمی پارٹی کی زمین بھی مضبوط ہے، اس لئے وہ کانگریس کو ٹکر دے سکتی ہے، بھاجپا اور دیگر پارٹیوں کی یہاں دال گلتی نظر نہیں آتی، سدھو سیاسی دانشمندی سے کام لیں تو یہاں پارٹی  دوبارہ برسراقتدار آنے کے امکانات سے انکار نہیں کہا جاسکتا۔
اتراکھنڈ میں بھاجپا کی حکومت ہے، لیکن بھاجپا کی قیادت اس سے مطمئن نہیں ہے، کم وقفہ ہیں، دو وزیر اعلیٰ یہاں برلے جاچکے ہیں، یہاں بھاجپا سے اقتدار صرف کانگریس ہی چھین سکتی تھی، لیکن عام آدمی پارٹی کے داخل ہو جانے کی وجہ سے بی جے پی کو فائدہ پہونچنے کا امکان ہے۔اور ہوسکتا ہے کہ یہاں مقابلہ سہ رخی ہوجائے۔
گوا میں بھاجپا کی حکومت گورنر کی مہربانی سے بن گئی تھی، یہاں اسمبلی کی صرف چالیس سیٹ ہے، ان سیٹوں سے زیادہ یہاں قومی اور علاقائی سیاسی پارٹیاں ہیں، بھاجپااور عام آدمی پارٹی کے علاوہ یہاں شیوشینا اور شردپوار کی ایس سی پی یہاں مشترکہ طورپر انتخاب لڑ رہی ہے، یہاں مقابلہ کثیر جماعتوں کے درمیان ہے، ترنمول کانگریس نے بھی یہاں امیدوار کھڑے کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اس معابلہ میں کانگریس کا پلڑا بھاری نظر آتا ہے کیوںکہ یہاں کی روایت فرقہ وارانہ بنیادوں پر رائے دینے کی نہیں رہی ہے، یہاں رام مندر، جے شری رام اور گئو ماتا کے نعرے انتخابی دنگل میں ہلچل نہیں پیدا کرتے ہیں۔
منی پور بھی بھگوا دھاریوں کے ہاتھ میں ہے، یہاں مسلمانوں اور مساجد کے خلاف حالیہ دنوں میں تحریک چلائی گئی تھی، اس کے اثرات یہاں موجود ہیں، یہاں مسلمانوں کی آبادی اس قدر نہیں ہے کہ وہ ارکان اسمبلی کے انتخاب پر اثر انداز ہو سکیں، بھاجپا کو اس کا فائدہ مل سکتا ہے۔انتخاب سے قبل ہی اکزٹ پول ٹی وی چینلوں پر آنے لگے ہیں، لیکن ان پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا ، کیوں کہ میڈیا بکی ہوئی ہے اور فتح وشکست کے اس کے اعداد وشمار ماضی میں غلط ثابت ہوتے رہے ہیں، اس لیے کسی بھی تجزیہ کوحتمی اور آخری نہیں کہا جا سکتا ، آخری مرحلہ میں رائے دہندگان کس نعرے سے متاثر ہوں گے، کہنا مشکل ہے، یہاں انتخابات میں ذات پات کا رول بھی نتیجہ خیزہوتا ہے، مسلمان کم ہوں یا زیادہ، ہمارا مشورہ ہے کہ اپنی آرا کا سوچ، سمجھ اور متحد ہو کر استعمال کریں تو ان کی قوت وطاقت محسوس کی جاسکتی ہے، ورنہ بکھرے ہوئے تاروں سے کیا بات بنے ۔

علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے پی ایچ ڈی اسکالر کو ذاکر حسین فاؤنڈیشن نے " مدر ٹریسا" ایوارڈ سے نوازا___

علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے پی ایچ ڈی اسکالر کو ذاکر حسین فاؤنڈیشن نے " مدر ٹریسا" ایوارڈ سے نوازا___
 بیگو سراءے 19 فروری (پریس ریلیز) ڈاکٹر ذاکر حسین فاؤنڈیشن کا سالانہ اجلاس بروز اتوار نہایت تزک و احتشام کے ساتھ میرس روڈ پر واقع ہوٹل لیمن ٹری میں منایا گیا. جس میں فاؤنڈیشن کی انیسویں سالگرہ کے موقع پر منعقدہ پروگرام میں نفسیات اور ذہنی صحت جیسے مختلف شعبوں میں سو سے زائد کارکنان کو  انعام و اعزازات سے  نوازا گیا  اس موقع پر ذاکر حسین فاؤنڈیشن کے تمام اراکین موجود تھے. مہمان خصوصی پروفیسر پرویز مسرت وائس چانسلر انٹیگرل یونیورسٹی لکھنؤ، پروفیسر سفیان بیگ پرنسپل ذاکر حسین کالج، پروفیسر اسلم پرویز سابق وائس چانسلر مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، پروفیسر راشد نہال، پروفیسر ریحان خان پرو وائس چانسلر دلی کوشل اودھمتا یونیورسٹی، پروفیسر شاہد پرنسپل جواہر لعل نہرو چکستا کالج.
واضح ہو کہ محمد شہباز حسین علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے الیکٹرانکس انجینئرنگ کے شعبے میں پی ایچ ڈی کے طالب علم ہیں، جناب پروفیسر محمد حسن صاحب کے اشراف میں اپنے پی ایچ ڈی مقالے کو تیار کر رہے ہیں.
 موصوف بیگوسرائے ضلع کے بلیا انومنڈل کے صالح چک پنچایت کے رہنے والے ہیں اور الحاج محمد برکت حسین کے فرزند ہیں  تعلیم کے ساتھ ساتھ سماجی خدمات  بھی انجام دینے میں کافی متحرک رہتے ہیں 
 لاک ڈاؤن کے   اس مصیبت زدہ دور میں جہاں مسافروں کو نئے نئے مشکلات کا سامنا کر پڑ رہا تھا  وہیں مسافروں کی امداد و تعاون کرنے والے گمنام لوگوں کی کمی نہیں ہے. ایسی ہی ایک مثال نیو دہلی سے میزورم جا رہی شارمک اسپیشل ٹرین میں سوار مسافر مزدوروں کے ساتھ پیش آیا تھا. در اصل کرونا کے پہلے لاؤکڈاؤن کے وقت ایک شارمک اسپیشل ٹرین دلی سے میزورم جا رہی تھی. بیگوسرائے ضلع میں برونی کٹیہار ریلکھنڈ کے لکھمنیا ریلوے اسٹیشن کے قریب ٹرین رکی تو ریلوے کے کنارے واقع قصبہ گاؤں کے انسانیت نواز لوگ اور صالحچک کے نیک دل انسان محمد شہباز حسین کی ٹیم نے میزورم، بنگال، منیپور جیسے مشرقی صوبوں کے شارمک ٹرین کے مسافرین کو کھانے پینے کی اشیاء اور شیرخوار بچوں کے لیے دودھ کا بہتر انتظام کرایا تھا. ان گاؤں واسیوں کے جذبات کی قدر کرتے ہوئے اس بہترین عمل کی تعریف پہلے ہی میزورم کے وزیر اعلیٰ  جورانگ تھانگا، بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار، منی پور کے وزیر اعلی این بیرین سنگھ، سنجے کمار آئ اے ایس صدر شعبہ تعلیم، آئ ایف ایس آفیسر نندا، راجد کے با وقار نیتا سابق ایم ایل سی ڈاکٹر تنویر حسن، اروناچل پردیش کے وزیراعلیٰ پیما کھانڈو نے ٹیوٹر پر اس نیک عمل کی ویڈیو اپلوڈ کرتے ہویے بیگوسرائے کے عوام کی تعریف کی اور نیک تمناؤں کا اظہار کیا تھا  اس سے پہلے انڈین ریلوے سینٹرل ڈویژن کے چیف اور میزورم کے وزیراعلیٰ جورام تھانگا نے خط لکھ کر سماجی کارکن محمد شہباز حسین سمیت صالح چک پنچایت اور قصبہ کی انسانیت نواز عوام کی تعریف و تحسین پیش کی تھی. انہوں نے کہا تھا کہ ایسے نوجوانوں کے رہتے ہوے انسانیت ہمیشہ زندہ رہے گی.
جتنے بھی خواتین و حضرات حوصلہ افزائی اور دعاؤں کے لیے اس موقع پر تشریف فرما تھے، شہباز حسین نے سبھی کا تہ دل سے شکریہ ادا کیا.

اورہم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمیجھارکھنڈ دورے کے چوتھے روز مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی کا مسلمانوں سے خطاب

اورہم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
جھارکھنڈ دورے کے چوتھے روز مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی کا مسلمانوں سے خطاب 
رانچی 18 فروری  (پریس ریلیز) مسلمانوں کو آج جن مسائل و مشکلات ،پریشانی اور مصائب کا سامنا ہے اس کی واحد وجہ احکام خداوندی اور ہدایت نبوی سے دوری ہے ،ہماری بے راہ روی ،بے عملی اور بد عملی نے ہمیں یہ دن دکھایا ہے، ہم عملا تارک قرآن ہو گئے ہیں اور علامہ اقبال نے بجا فرمایا کہ اورہم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر ،قرآن کریم میں بھی   اللّٰہ رب العزت نے فرمایا کہ رسول کہیں گے کہ میری قوم نے قرآن کریم کو چھوڑ دیا تھا ،ان خیالات کا اظہار امارت شرعیہ کے نائب ناظم ، وفاق المدارس الاسلامیہ کے ناظم اور اردو کارواں کے نائب صدر مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نے شہر رانچی  کے وسیع و عریض مدینہ مسجد ہند پیڑھی میں کیا ۔وہ یہاں مسلمانوں کے ایک بڑے مجمع سے خطاب فرما رہے تھے ،انہوں نے امیر شریعت کے سمع و طاعت ، دارالقضاء کی اہمیت اور مسلمانوں کے درمیان پھیلی ہوئی سماجی برائیاں اور منکرات پر کھل کر گفتگو کی ، ایک گھنٹے کے اپنے بیان میں نائب ناظم صاحب نے شہر کے برگزیدہ علماء جن میں قاری علیم الدین قاسمی،مولانا صدیق مظاہری اور مولانا جمیل اختر رحمہم اللہ کی سماجی ،تعلیمی خدمات اور امارت شرعیہ سے ان کے مضبوط،مستحکم اور قدیم تعلق کا ذکر کیا،نائب ناظم صاحب نے مولانا اکرام الحق عینی صاحب صدر امارت شرعیہ لوردگا، ڈاکٹر مفتی محمد سلمان قاسمی صاحب صدر مرکزی مجلس علماء جھارکھنڈ،مو لانا انصاراللہ قاسمی صاحب امام و خطیب مدینہ مسجد ہندپیڑھی، مولانا رضوان قاسمی صاحب ،قاری صہیب احمدصاحب نعمانی ،مولانا منظور عالم قاسمی صاحب رکن عاملہ امارت شرعیہ اورمفتی محمداللہ قاسمی نائب امام و خطیب مدینہ مسجد ہندپیڑھی سے جھارکھنڈ میں امارت شرعیہ کے کاموں کو استحکام اور رفتار دینے پر تبادلہ خیال کیا ،ڈاکٹر مفتی محمد سلمان قاسمی نے فرمایا کہ جھارکھنڈ میں امارت شرعیہ کے ذریعہ تعلیمی کام جس قدر مستحکم ہوگا لوگوں میں اسی قدر پذیرائی ہوگی۔ نائب ناظم صاحب دفتر کے انتظام و ارنصرام اور ضروریات پر مفتی محمد انور قاسمی قاضی شریعت دارالقضاء امارت شرعیہ رانچی ،مکتب امارت شرعیہ کے معلم اور کارکن دارالقضاء امارت شرعیہ مولانا ابوداؤد قاسمی سے تفصیلی گفتگو فرمائی، مفتی صاحب یہاں سے آسنسول کے لئے روانہ ہو گئے،مفتی محمد انور قاسمی قاضی شریعت دارالقضاء امارت شرعیہ رانچی نے اور مولانا ابوداؤد قاسمی نے انہیں الوداع کہا۔ آسنسول میں وہ ذیلی دفتر دارالقضاء کے کاموں کے ساتھ ساتھ مولانا منت اللہ رحمانی اردو ہائی اسکول کا تعلیمی جائزہ لیں گے اور وہاں کی انتظامیہ اور اساتذہ سے لاک ڈاؤن کے بعد کی صورت حال اور اسکول کو در پیش مشکلات اور اس کے حل پر گفتگو فرمائیں گے ۔یہ اطلاع  مولاناابوداؤد قاسمی نے دی ہے

معیاری عصری تعلیمی اداروں کا قیام وقت کی بڑی ضرورت - مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

معیاری عصری تعلیمی اداروں کا قیام وقت کی بڑی ضرورت - مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
جھارکھنڈ دورے کے تیسرے دن رانچی اور اس کے مضافات کے کاموں کا نائب ناظم امارت شرعیہ نے جائزہ لیا -
رانچی 17 فروری (پریس ریلیز) امارت شرعیہ بہار، اڈیشہ و جھارکھنڈ کے نائب ناظم، وفاق المدارس الاسلامیہ کے ناظم اور اردو کارواں کے نائب صدر مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نے رانچی میں امارت شرعیہ کے ذریعہ چلائی جا رہی تعلیمی اسکیموں اور اداروں کا جائزہ لیا، مفتی صاحب دارالقضاء رانچی کے قاضی شریعت مفتی محمد انور قاسمی، امارت شرعیہ کے رکن عاملہ مولانا منظور قاسمی اور مولانا پرویز صاحب مبلغ امارت شرعیہ کے ساتھ امارت پبلک اسکول پسکا نگڑی پہونچے، جہاں مولانا سہیل سجاد قاسمی اور امارت پبلک اسکول کے دیگر ذمہ داران نے ان حضرات کا گلدستہ دے کر پر جوش استقبال کیا، مفتی صاحب نے اپنے رفقاء کے ساتھ تمام درجات کا تعلیمی جائزہ لیا اور لاک ڈاؤن کے باوجود تعلیمی معیاری کی برقراری پر اطمینان کا اظہار کیا اور ضروری مشورے دیے، اس موقع سے نائب ناظم صاحب نے اساتذہ کے ساتھ تفصیلی مٹنگ کی اور انہیں بتایا کہ اچھا استاذ ہونے کے لئے ضروری ہے کہ آپ کے اندر اپنی صلاحیتوں کو طلبہ و طالبات میں منتقل کرنے کا جزبہ ہونا چاہئے، اس جزبہ کا تعلق مالیات سے نہیں ہوتا، ذمہ داریوں کے احساس سے ہوتا ہے، انہوں نے فرمایا کہ آپ کے اندر طلبہ کو کچھ دینے کا شوق جس قدر غالب ہوگا اسی قدر یہاں کے طلبہ و طالبات معیاری تعلیم کی دولت سے مالا مال ہوں گے، مفتی محمد انور قاسمی صاحب قاضی شریعت دارالقضاء امارت شرعیہ رانچی نے فرمایا کہ تدریس کا عمل خدمت بھی ہے اور عبادت بھی، دونوں حیثیت کے ادراک و احساس کے بغیر اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی ممکن نہیں ہے، انہوں نے اساتذہ کی محنتوں کو سراہا اور انتظام و انصرام پر اطمینان کا اظہار کیا - 
نائب ناظم صاحب نے دفتر امارت شرعیہ کربلا ٹینک روڈ رانچی میں چل رہے اردو دینی مکتب کا بھی تعلیمی جائزہ لیا، یہاں قرآن کریم صحت کے ساتھ پڑھایا جا رہا ہے، اوراد و اذکار بچے بچیوں کو یاد کرائے جاتے ہیں اور بنیادی دینی تعلیم سے طلبہ و طالبات کو واقف کرایا جاتا ہے، مفتی صاحب نے یہاں بھی ضروری مشورے دیئے اور طلبہ کی بڑھتی ہوئی تعداد کو دیکھتے ہوئے ضروری انتظامات کے سلسلے میں رہنمائی کی - 
امارت شرعیہ کے ذریعہ دو اور تعلیمی ادارے کے لئے تیزی سے کام جاری ہے، مفتی صاحب نے ان دونوں جگہوں کا دورہ کیا اور کاموں کا جائزہ لیا، ان میں ایک ہندپیڑھی اور دوسرا اربا میں ہے، ہندپیڑھی میں چار منزلہ عمارت بن کر تیار ہے وہاں فنشنگ کا کام چل رہا ہے، امیرشریعت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی دامت برکاتہم کے حکم و ہدایت کے مطابق جلد ہمعیاری عصری تعلیمی اداروں کا قیام وقت کی بڑی ضرورت - مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
جھارکھنڈ دورے کے تیسرے دن رانچی اور اس کے مضافات کے کاموں کا نائب ناظم امارت شرعیہ نے جائزہ لیا -
رانچی 17 فروری (پریس ریلیز) امارت شرعیہ بہار، اڈیشہ و جھارکھنڈ کے نائب ناظم، وفاق المدارس الاسلامیہ کے ناظم اور اردو کارواں کے نائب صدر مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نے رانچی میں امارت شرعیہ کے ذریعہ چلائی جا رہی تعلیمی اسکیموں اور اداروں کا جائزہ لیا، مفتی صاحب دارالقضاء رانچی کے قاضی شریعت مفتی محمد انور قاسمی، امارت شرعیہ کے رکن عاملہ مولانا منظور قاسمی اور مولانا پرویز صاحب مبلغ امارت شرعیہ کے ساتھ امارت پبلک اسکول پسکا نگڑی پہونچے، جہاں مولانا سہیل سجاد قاسمی اور امارت پبلک اسکول کے دیگر ذمہ داران نے ان حضرات کا گلدستہ دے کر پر جوش استقبال کیا، مفتی صاحب نے اپنے رفقاء کے ساتھ تمام درجات کا تعلیمی جائزہ لیا اور لاک ڈاؤن کے باوجود تعلیمی معیاری کی برقراری پر اطمینان کا اظہار کیا اور ضروری مشورے دیے، اس موقع سے نائب ناظم صاحب نے اساتذہ کے ساتھ تفصیلی مٹنگ کی اور انہیں بتایا کہ اچھا استاذ ہونے کے لئے ضروری ہے کہ آپ کے اندر اپنی صلاحیتوں کو طلبہ و طالبات میں منتقل کرنے کا جزبہ ہونا چاہئے، اس جزبہ کا تعلق مالیات سے نہیں ہوتا، ذمہ داریوں کے احساس سے ہوتا ہے، انہوں نے فرمایا کہ آپ کے اندر طلبہ کو کچھ دینے کا شوق جس قدر غالب ہوگا اسی قدر یہاں کے طلبہ و طالبات معیاری تعلیم کی دولت سے مالا مال ہوں گے، مفتی محمد انور قاسمی صاحب قاضی شریعت دارالقضاء امارت شرعیہ رانچی نے فرمایا کہ تدریس کا عمل خدمت بھی ہے اور عبادت بھی، دونوں حیثیت کے ادراک و احساس کے بغیر اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی ممکن نہیں ہے، انہوں نے اساتذہ کی محنتوں کو سراہا اور انتظام و انصرام پر اطمینان کا اظہار کیا - 
نائب ناظم صاحب نے دفتر امارت شرعیہ کربلا ٹینک روڈ رانچی میں چل رہے اردو دینی مکتب کا بھی تعلیمی جائزہ لیا، یہاں قرآن کریم صحت کے ساتھ پڑھایا جا رہا ہے، اوراد و اذکار بچے بچیوں کو یاد کرائے جاتے ہیں اور بنیادی دینی تعلیم سے طلبہ و طالبات کو واقف کرایا جاتا ہے، مفتی صاحب نے یہاں بھی ضروری مشورے دیئے اور طلبہ کی بڑھتی ہوئی تعداد کو دیکھتے ہوئے ضروری انتظامات کے سلسلے میں رہنمائی کی - 
امارت شرعیہ کے ذریعہ دو اور تعلیمی ادارے کے لئے تیزی سے کام جاری ہے، مفتی صاحب نے ان دونوں جگہوں کا دورہ کیا اور کاموں کا جائزہ لیا، ان میں ایک ہندپیڑھی اور دوسرا اربا میں ہے، ہندپیڑھی میں چار منزلہ عمارت بن کر تیار ہے وہاں فنشنگ کا کام چل رہا ہے، امیرشریعت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی دامت برکاتہم کے حکم و ہدایت کے مطابق جلد ہ حکم و ہدایت کے مطابق جلد ہی اس کا آغاز کر دیا جائے گا، اربا میں عمارت کے تعمیری منصوبے پر کام چل رہا ہے اور امیرشریعت سابع حضرت مولانا محمد ولی رحمانی رحمہ اللہ نے اسکول کے لئے جو کمیٹی تشکیل دی تھی وہ اس منصوبے کو زمین پر اتارنے اور معیاری تعلیمی ادارے کے قیام کے لئے انتہائی فکر مند ہیں، مفتی صاحب کا قیام آج شام تک رانچی میں رہے گا اور وہ عمائدین شہر سے تبادلۂ خیال کے ساتھ جمعہ سے خطاب بھی فرمائیں گے، یہ اطلاع مولانا ابوداؤد قاسمی صاحب معاون قاضی شریعت دارالقضاء امارت شرعیہ رانچی نے دی، جائزہ کے تمام پروگرام میں مفتی محمد انور قاسمی صاحب قاضی شریعت دارالقضاء امارت شرعیہ رانچی ،رکن عاملہ امارت شرعیہ مولانا منظور عالم قاسمی صاحب اور مبلغ امارت شرعیہ مولانا پرویز صاحب ساتھ ساتھ رہے

جمعرات, فروری 17, 2022

دین سے دوریمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

دین سے دوری
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

کسی حکیم کے پاس ایک ضعیف ، کمزور وناتواں انسان مر ض کی تشخیص اور علاج کے لیے گیا ، اس نے حکیم صاحب سے عرض کیا کہ بدن میں  درد ہے، حکیم نے کہا: ضعف کی وجہ سے ہے، مریض نے کہا سر چکراتا ہے، حکیم نے کہا: ضعف کی وجہ سے ہے، مریض نے عرض کیا آنکھوں میں تارے ناچتے ہیں، اور پاؤں ڈگمگاتا ہے، حکیم نے کہا: ضعف کی وجہ سے ہے، مریض کو سخت غصہ آیا ، اس نے کہا : تم نے پڑھا کیا ہے، تم کو خالی ضعف ہی یاد رہ گیا ہے، حکیم صاحب نے انتہائی تحمل ، بردباری اور سنجیدگی سے کہا : یہ جھنجھلاہٹ بھی ضعف کی وجہ سے ہے۔
 آج مسلم معاشرہ میں کم وبیش جو برائیاں پھیلی ہوئی ہیں، ان کے اسباب وعلل پر جتنا غور کیجئے، اور جتنا بھی تجزیہ کیجئے اس کا جواب اس حکیم کی طرح ایک ہی سمجھ میں آتا ہے اور وہ ہے مکمل دین سے دوری اور مذہبی بیزاری، سماج میں کہیں ظلم ہو رہا ہے، دین سے دوری کی وجہ سے ، رشوت ، سود خواری ، ناپ تول میں کمی بیشی، ملاوٹ کیا جارہاے، دین سے دوری کی وجہ سے ، جھوٹ ، وعدہ خلافی ، خیانت ، بد دیانتی ، غداری، دغا بازی ، بہتان ، چغل خوری اورآپسی جھگڑے عام ہیں ، جو اب ہے دین کی دوری کی وجہ سے ،دور خاپن بد گمانی، غیر ضروری مداحی، خوشامد، بخل، حرص وطمع بے ایمانی اور چوری نے سماج میں اپنی جگہ بنا لی ہے، اور لوگ تیزی سے اس طرف بھاگ رہے ہیں، دین سے دوری کی وجہ سے ، غیظ وغضب، بعض وکینہ، ظلم، فخر وغرور، ریا، خود پسندی ، خود نمائی، فضول خرچی حسد اور فحش گوئی انسانوںکا مزاج بن گیا ، جو اب ایک اور صرف ایک ہے، دین سے دوری کی وجہ سے آج زبان کی سچائی، دل کی سچائی، عمل کی سچائی کا وجود نظر نہیں آتا، عفت وپاکبازی، شرم وحیا، رحم ، عدل وانصاف، عہد کی پابندی دیکھنے کو نہیں ملتی ، احسان ، عفو ودر گذر ، حلم وبردباری ، انس ولطف ، تواضع وخاکساری، خوش کلامی ، ایثار، اعتدال ، اور میانہ روی ، خود داری یا عزت نفس، شجاعت اور بہادری ، استقامت اور حق گوئی کے واقعات صرف کتابوں میں ملتے ہیں، عملی زندگی میں یہ قصہ پارینہ بن گئے ہیں، گویا مسلم معاشرہ میں مکارم اخلاق اور حقوق وفرائض کی ادائیگی کا دروازہ بند ہوتا جا رہا ہے اور یہ متاع بے بہا، نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہو گیا ہے، اور اس کی جگہ رذائل تیزی سے لیتے جا رہے ہیں ، جو لوگ آج بھی فضائل اخلاق کو پکڑے ہوئے ہیں، وہ سماج کی نظر میں دقیانوس، لکیر کے فقیر اور بیوقوف سمجھے جاتے ہیں، اس سوچ نے سماج کو راہ راست پر آنے سے دور کر رکھا ہے، اسلام جو مکارم اخلاق کی تکمیل کے لیے آیا تھا، اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص طور پر اعلان کیا تھا کہ ’’میں حسن اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہوں۔ حسن اخلاق کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اتنا غلبہ تھا کہ کوئی وارد وصادر بھی بادی النظر میں اسے دیکھ کر محسوس کر سکتا تھا،  یہی وجہ ہے کہ حضرت ابو ذرؓ نے اسلام لانے سے قبل جب اپنے بھائی کو پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور تعلیمات کی تحقیق اور دریافت حال کے لیے بھیجا تو ان کے بھائی نے آکر جو رپورٹ پیش کی اس کا ایک جملہ تھا ’’میں نے ان کو دیکھا کہ وہ لوگوں کو اخلاق حسنہ کی تعلیم دیتے ہیں‘‘ اور یہی وجہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’مسلمانوں میں کامل ایمان اس کا ہے، جس کا اخلاق سب سے اچھا ہو‘‘۔ ایک دوسری حدیث میں ارشاد ہوا۔ ’’تم میںسب سے اچھا وہ ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں‘‘۔ ایک اور حدیث میں ہے۔’’ جب نامۂ اعمال تولے جائیں گے تو ترازو میں حسن خلق سے زیادہ بھاری کوئی چیز نہیں ہوگی، اس لیے کہ حسن خلق والا اپنے حسن خلق کی بدولت ہمیشہ کے روزہ دار اور نمازی کا درجہ حاصل کر سکتا ہے۔
ہم جب دین سے دور ہو گئے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ان تعلیمات کو فراموش کر بیٹھے تو اس کے نتیجے میں سارا معاشرہ فساد وبگاڑ ، اخلاقی انارکی اور رذائل کی آماجگاہ بن گیا ، اس لیے مسلم معامشرہ میں پھیلی برائیوں کو اگر دور کرنا ہے تو اس کا ایک اور صرف ایک طریقہ ہے اور وہ ہے دین کے ہر ہر جز پر عمل کے لیے اپنے کو آمادہ اور تیار کرنا ، امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ جس کے بنیادی مقاصد میں تنفیذ شریعت  علی منہاج النبوۃ ، یعنی شریعت کا نفاذ نبوی طریقۂ کار کے مطابق ہے، وہ مسلسل اس میدان میں کام کر رہی ہے، اور وہ  چاہتی ہے کہ ہر طبقہ کے لوگ اس مہم کا حصہ بنیں، علامتی نہیں، حقیقی، یہ وقت کی ضرورت بھی ہے اور ایمان کا تقاضہ بھی۔

بدھ, فروری 16, 2022

*ادب اسلامی انداز میں* ایک ڈاکٹر تھے اکثر ایسا ھوتا کہ وہ نسخے پر ڈسپنسر کے لئے لکھتے کہ اس مریض سے پیسے نہیں لینےاور جب کبھی مریض پوچھتا کہ ڈاکٹر صاحب آپ نے پیسے کیوں نہیں لئے؟

*ادب اسلامی انداز میں*
 
ایک ڈاکٹر تھے اکثر ایسا ھوتا کہ وہ نسخے پر ڈسپنسر کے لئے لکھتے کہ اس مریض سے پیسے نہیں لینے
اور جب کبھی مریض پوچھتا کہ ڈاکٹر 
صاحب آپ نے پیسے کیوں نہیں لئے؟ 
تو وہ کہتے کہ مجھے شرم آتی ھے۔
کہ جس کا نام ابوبکر ھو، عمر ھو، عثمان ھو، علی ھو یا خدیجہ، عائشہ اور فاطمہ ھو 
تو میں اس سے پیسے لوں۔
ساری عمر انہوں نے خلفائے راشدینؓ، امہات المومنینؓ
اور بنات رسولﷺ کے ھم نام لوگوں سے پیسے نہ لیئے۔ 
یہ ان کی محبت اور ادب کا عجیب انداز تھا۔

امام احمد بن حنبل رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نہر پر وضو فرما رھے تھے 
کہ انکا شاگرد بھی وضو کرنے آن پہنچا، 
لیکن فوراً ہی اٹھ کھڑا ھوا اور امام صاحب سے آگے جا کر بیٹھ گیا۔
پوچھنے پر کہا 
کہ دل میں خیال آیا کہ میری طرف سے پانی بہہ کر آپ کی طرف آ رہا ھے۔
مجھے شرم آئی کہ استاد میرے مستعمل پانی سے وضو کرے۔

اپنے سگے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے رسول اللہﷺ نے پوچھا 
کہ آپ بڑے ہیں یا میں؟ (عمر پوچھنا مقصود تھا) 
کہا یارسول اللہﷺ بڑے تو آپ ھی ہیں البتہ عمر میری زیادہ ھے۔

مجدد الف ثانی رات کو سوتے ھوئے یہ احتیاط بھی کرتے 
کہ پاؤں استاد کے گھر کی طرف نہ ھوں 
اور بیت الخلا جاتے ھوئے یہ احتیاط کرتے 
کہ جس قلم سے لکھ رہا ھوں اس کی کوئی سیاھی ہاتھ پر لگی نہ رہ جائے۔

ادب کا یہ انداز اسلامی تہذیب کا طرہ امتیاز رہا ھے 
اور یہ کوئی برصغیر کے ساتھ ھی خاص نہ تھا 
بلکہ جہاں جہاں بھی اسلام گیا اس کی تعلیمات کے زیر اثر ایسی ہی تہذیب پیدا ھوئی 
جس میں بڑوں کے ادب کو خاص اھمیت حاصل تھی 
کیونکہ رسول اللہﷺ کا یہ ارشاد سب کو یاد تھا 
کہ جو بڑوں کا ادب نہیں کرتا اور چھوٹوں سے پیار نہیں کرتا وہ ھم میں سے نہیں۔

ابھی زیادہ زمانہ نہیں گزرا 
کہ لوگ ماں باپ کے برابر بیٹھنا، 
انکے آگے چلنا اور ان سے اونچا بولنا برا سمجھتے تھے 
اور اُنکے حکم پر عمل کرنا اپنے لیے فخر جانتے تھے۔ 
اس کے صدقے اللہﷻ انہیں نوازتا بھی تھا۔ 
اسلامی معاشروں میں یہ بات مشہور تھی 
کہ جو یہ چاہتا ھے کہ اللہﷻ اس کے رزق میں اضافہ کرے 
وہ والدین کے ادب کا حق ادا کرے۔
اور جو یہ چاہتا ھے کہ اللہﷻ اس کے علم میں اضافہ کرے وہ استاد کا ادب کرے۔

ایک دوست کہتے ہیں کہ 
میں نے بڑی مشقت سے پیسہ اکٹھا کر کے پلاٹ لیا تو والد صاحب نے کہا 
کہ بیٹا تمہارا فلاں بھائی کمزور ھے 
یہ پلاٹ اگر تم اسے دے دو تو میں تمہیں دعائیں دوں گا۔ 
حالانکہ وہ بھائی والدین کا نافرمان تھا۔ 
اس (دوست) کا کہنا ھے کہ 
عقل نے تو بڑا سمجھایا کہ یہ کام کرنا حماقت ھے 
مگر میں نے عقل سے کہا کہ اقبال نے کہا ھے، 
اچھا ھے دل کے ساتھ رھے پاسبان عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے، 
چنانچہ عقل کو تنہا چھوڑا اور وہ پلاٹ بھائی کو دے دیا۔ 
کہتے ہیں کہ والد صاحب بہت خوش ھوئے 
اور انہی کی دعا کا صدقہ ھے کہ آج میرے کئی مکانات اور پلازے ہیں 
جب کہ بھائی کا بس اسی پلاٹ پر ایک مکان ھے۔

والدین کی طرح 
استاد کا ادب بھی اسلامی معاشروں کی ایک امتیازی خصوصیت تھی 
اور اس کا تسلسل بھی صحابہؓ کے زمانے سے چلا آرہا تھا۔

حضورﷺ کے چچا کے بیٹے عبد اللہ ابن عباسؓ 
کسی صحابی سے کوئی حدیث حاصل کر نے جاتے تو جا کر اس کے دروازے پر بیٹھ رہںتے۔ 
اس کا دروازہ کھٹکھٹانا بھی ادب کے خلاف سمجھتے 
اور جب وہ صحابیؓ خود ھی کسی کام سے باہر نکلتے 
تو ان سے حدیث پوچھتے 
اور اس دوران سخت گرمی میں پسینہ بہتا رہںتا، لو چلتی رہںتی 
اور یہ برداشت کرتے رہںتے۔ 
وہ صحابی شرمندہ ھوتے اور کہتے 
کہ آپؓ تو رسول اللہﷺ کے چچا کے بیٹے ہیں آپ نے مجھے بلا لیا ھوتا 
تو یہ کہتے کہ میں شاگرد بن کے آیا ھوں، آپ کا یہ حق تھا کہ میں آپ کا ادب کروں 
اور اپنے کام کیلئے آپ کو تکلیف نہ دوں۔

کتنی ھی مدت ھمارے نظام تعلیم میں یہ رواج رہا 
(بلکہ اسلامی مدارس میں آج بھی ھے) 
کہ ہر مضمون کے استاد کا ایک کمرہ ھوتا، وہ وہیں بیٹھتا اور شاگرد خود چل کر وہاں پڑھنے آتے 
جب کہ اب شاگرد کلاسوں میں بیٹھے رہتے ہیں 
اور استاد سارا دن چل چل کر ان کے پاس جاتا ھے۔

مسلمان تہذیبوں میں یہ معاملہ صرف والدین اور استاد تک ھی محدود نہ تھا 
بلکہ باقی رشتوں کے معاملے میں بھی ایسی ھی احتیاط کی جاتی تھی۔ 
وہاں چھوٹا، چھوٹا تھا اور بڑا، بڑا۔ 
چھوٹا عمر بڑھنے کے ساتھ بڑا نہیں بن جاتا تھا بلکہ چھوٹا ھی رہتا تھا۔

ابن عمرؓ جا رہے تھے کہ ایک بدو کو دیکھا۔ 
سواری سے اترے، بڑے ادب سے پیش آئے اور اس کو بہت سا ہدیہ دیا۔ کسی نے کہا کہ 
یہ بدو ھے تھوڑے پہ بھی راضی ھو جاتا آپ نے اسے اتنا عطا کر دیا۔ 
فرمایا کہ یہ میرے والد صاحب کے پاس آیا کرتا تھا 
تو مجھے شرم آئی کہ میں اس کا احترام نہ کروں۔

اسلامی تہذیب کمزور ھوئی تو بہت سی باتوں کی طرح حفظ مراتب کی یہ قدر بھی اپنی اھمیت کھو بیٹھی۔ 
اب برابر ی کا ڈھنڈورا پیٹا گیا اور بچے ماں باپ کے برابر کھڑے ھوگئے اور شاگرد استاد کے برابر۔ 
جس سے وہ سار ی خرابیاں در آئیں جو مغربی تہذیب میں موجود ہیں۔

اسلام اس مساوات کا ھرگز قائل نہیں کہ جس میں ابوبکرؓ اور ابوجہل برابر ھو جائیں۔ 
ابو بکرؓ ابوبکرؓ رہیں گے اور ابو جہل ابو جہل رھے گا۔
اسی طرح استاد، استاد رھے گا اور شاگرد، شاگرد۔ 
والد، والد رھے گا اور بیٹا، بیٹا۔ 
سب کا اپنا اپنا مقام اور اپنی اپنی جگہ ھے اُنکو اُنکے مقام پر رکھنا اور اس کے لحاظ سے ادب و احترام دینا ھی تہذیب کا حسن ھے۔

مغربی تہذیب کا مسلمان معاشروں پہ سب سے بڑا وار (شاید) اسی راستے سے ھوا ھے 
جب کہ مسلمان عریانی اور فحاشی کو سمجھ رھے ہیں۔ عریانی اور فحاشی کا برا ھونا سب کو سمجھ میں آتا ھے 
اس لیئے اس کے خلاف عمل کرنانسبتا آسان ھے جب کہ حفظِ مراتب اور محبت کے آداب کی اھمیت کا سمجھ آنا مشکل ھے 
اس لیئے یہ قدر تیزی سے رُو بہ زوال ھے. اللہ کریم ھم سب کو صحیح سمجھ اور خالص عمل کی توفیق عطا  فرمائے... امین

*علی معاویہ میمن سادات*

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...