Powered By Blogger

اتوار, فروری 27, 2022

ہندوستان کی جنگ آزادی کی زبان اردوتھی،سیمینارسے دانشوروں کا خطاب

ہندوستان کی جنگ آزادی کی زبان اردوتھی،سیمینارسے دانشوروں کا خطاب

نئی دہلی: ’’ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جہاں سینکڑوں زبانیں اور بولیاں بولی جاتیں ہیں۔ ہر خطے کی ایک الگ زبان ہے۔ ایسے میں ملک کی تحریک آزادی کی زبان اردوبن گئی کیونکہ صرف یہی زبان تھی جسے ملک کے طول وعرض میں کروڑوں افراد سمجھ سکتے تھے۔ تحریک آزادی کے قائدین نے اردوزبان میں مافی الضمیرکو پیش کیا کیونکہ عوام کا بڑا طبقہ اسی زبان کو سمجھ سکتا تھا۔‘‘قومی راجدھانی دہلی میں منعقدہ ایک سیمینار میں بیشترمقررین اوردانشوروں نے اس مضمون کا اعادہ کیا۔

سیمینار کا عنوان تھا ’’تحریک آزادی میں اردوزبان وادب کا کردار‘‘ جس کا اہتمام رحمانیہ نیشنل فائونڈیشن کی جانب سے ملی ماڈل اسکول(ابوالفضل انکلیو،نئی دہلی)میں کیا گیا تھا جسے قومی کونسل برائے زبان اردوکا مالی تعاون حاصل تھا۔

پروگرام کا افتتاح ڈاکٹرغلام یحیٰ انجم ،شعبہ دینیات، ہمدردیونیورسٹی نے کیااور کہا کہ جنگ آزادی میں علما نے بڑی قربانیاں پیش کیں۔

ہزاروں علما کو درختوں کی شاخوں پر پھانسی دیا گیا۔صدر جلسہ پروفیسرخالدمحمود نے اپنی صدارتی تقریر میں کہا کہ اردو زبان وادب میں حب الوطنی کے عناصر پائے جاتے ہیں کیونکہ مجاہدین آزادی کی زبان اردو تھی۔

انھوں نے مقالہ نگاروں کے مقالوں کا تجزیہ بھی پیش کیا۔ سیمینار کے مقالہ نگاروں میں سہیل انجم(نمائندہ وائس آف امریکہ)،ڈاکٹر خالدمبشراسسٹنٹ پروفیسرجامعہ ملیہ اسلامیہ،ڈاکٹرنعمان قیصر(جامعہ ملیہ اسلامیہ)ڈاکٹرمظہرحسنین(صحافی روزنامہ انقلاب)،محمداشرف یاسین،ریسرچ اسکالردہلی یونیورسٹی شامل تھے۔ رحمانیہ نیشنل فائونڈیشن کے صدر محمدرفیق نے حاضرین کا شکریہ اداکیا اور ظہرانہ پیش کیا۔


یوپی میں پانچویں مرحلے کے لیے ووٹنگ شروع ، 12 اضلاع کی 61 سیٹوں پر ووٹ ڈالے جا رہے ہیں ۔

یوپی میں پانچویں مرحلے کے لیے ووٹنگ شروع ، 12 اضلاع کی 61 سیٹوں پر ووٹ ڈالے جا رہے ہیں ۔

 کروڑ ووٹر 90 خواتین امیدواروں سمیت 693 امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ کریں گے۔

الیکشن کمیشن کی ہدایت پر سیکیورٹی کے سخت انتظامات، پولنگ اسٹیشنز پر نیم فوجی دستے تعینات

لکھنو¿، 27 فروری (ہ س)۔ اترپردیش میں 18ویں قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں پانچویں مرحلے کے 12 اضلاع کی 61 سیٹوں پر سخت حفاظتی انتظامات کے درمیان آج صبح 7 بجے ووٹنگ شروع ہوئی۔ ووٹنگ شام 6 بجے تک جاری رہے گی۔ پانچویں مرحلے میں 90 خواتین امیدواروں سمیت کل 693 امیدوار میدان میں ہیں۔ تقریباً 2.25 کروڑ ووٹر آج ان تمام امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ کریں گے۔

پولنگ شروع کرنے سے پہلے پولنگ اہلکاروں نے فرضی پول کے ذریعے ای وی ایم کی جانچ کی جس کے بعد ووٹرز کو پولنگ بوتھ میں ووٹ ڈالنے کی اجازت دی گئی۔ منصفانہ اور پرامن پولنگ کے لیے سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔ پولنگ بوتھ کے علاوہ حساس مقامات پر نیم فوجی دستوں کی بڑی تعداد کو تعینات کیا گیا ہے۔ 50 فیصد بوتھس پر ویب کاسٹنگ کے ذریعے براہ راست نگرانی کی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ جن علاقوں میں انٹرنیٹ کنیکٹیویٹی کا مسئلہ ہے وہاں ویڈیو کیمروں کا انتظام کیا گیا ہے۔ اس مرحلے کی کل 61 نشستوں میں سے 13 درج فہرست ذاتوں کے لیے مخصوص ہیں۔

1941 سیکٹر اور 250 زونل مجسٹریٹ تعینات

چیف الیکٹورل آفیسر اجے کمار شکلا نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے 60 جنرل آبزرور، 11 پولس آبزرور اور 20 ایکسپینڈیچر آبزرور بھی تعینات کیے گئے ہیں تاکہ پانچویں مرحلے کی پولنگ پر کڑی نظر رکھی جا سکے۔ اس کے علاوہ 1941 سیکٹر مجسٹریٹ، 250 زونل مجسٹریٹ، 207 اسٹیٹک مجسٹریٹ اور 2627 مائیکرو آبزرور بھی تعینات کیے گئے ہیں۔ پولنگ کی نگرانی کے لیے ہر ضلع کے 50 فیصد پولنگ مقامات پر لائیو ویب کاسٹنگ کا انتظام کیا گیا ہے۔

پانچویں مرحلے میں کل 25995 پولنگ مقامات

پانچویں مرحلے کی پولنگ میں 2.25 کروڑ ووٹر اپنے حق رائے دہی کا استعمال کریں گے۔ ان میں سے 1.20 کروڑ مرد، 1.05 کروڑ خواتین اور 1727 تیسری جنس کے ووٹر ہیں۔ اس مرحلے میں ووٹنگ کے لیے 14030 پولنگ اسٹیشن اور 25995 پولنگ مقامات بنائے گئے ہیں۔ ان میں سے 560 آدرش پولنگ اسٹیشن اور 171 تمام خواتین ورکرز پولنگ کے مقامات ہیں۔ انتخابی عمل کو انجام دینے کے لیے کل 1,14,089 پولنگ اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔

ووٹنگ کے لیے ووٹر شناختی کارڈ کے علاوہ 12 دیگر آپشنز

ووٹنگ کے لیے الیکشن کمیشن کی ہدایات کے مطابق ووٹر کے شناختی کارڈ کے علاوہ 12 دیگر شناختی کارڈز کی تصدیق کر دی گئی ہے۔ ان میں آدھار کارڈ، منریگا جاب کارڈ، بینکوں اور ڈاکخانوں سے جاری کردہ تصویری پاس بک، وزارت محنت کی اسکیم کے تحت جاری کردہ ہیلتھ انشورنس اسمارٹ کارڈ، ڈرائیونگ لائسنس، پین کارڈ، این پی آر کے تحت آر جی آئی کے ذریعہ جاری کردہ اسمارٹ کارڈ، ہندوستانی پاسپورٹ، تصویری پنشن، دستاویزات مرکزی یا ریاستی حکومت کی طرف سے جاری کردہ فوٹو سروس شناختی کارڈ، پبلک سیکٹر انڈرٹیکنگس، پبلک لمیٹڈ کمپنیاں اپنے ملازمین کو اور سرکاری شناختی کارڈ جو ایم پیز، ایم ایل ایز اور لیجسلیٹیو کونسل کے ممبران کو جاری کیے گئے ہیں، منفرد معذوری ID (UDID) کارڈز، جوسماجی انصاف کی وزارت اور بااختیار بنانا، حکومت ہند) سے جاری کئے گئے ہیں شامل ہیں۔

ووٹنگ کووڈ پروٹوکول کے تحت ہو رہی ہے۔

کووڈ-19 کے پیش نظر پولنگ کے وقت پولنگ مقامات پر تھرمل ا سکینر، ہینڈ سینیٹائزر، دستانے، چہرے کے ماسک، فیس شیلڈز، پی پی ای کٹس، صابن، پانی وغیرہ کا خاطر خواہ انتظام کیا گیا ہے۔ ووٹرز کی سہولت کے لیے ووٹر گائیڈز بھی تقسیم کیے گئے ہیں۔ اس میں کوویڈ 19 سے متعلق ہدایات کا ذکر ہے۔

چیف الیکٹورل آفیسر کے مطابق کووڈ-19 کے پیش نظر الیکشن کمیشن کی طرف سے پولنگ کے مقامات پر زیادہ سے زیادہ 1250 ووٹروں کو رکھنے کی ہدایات دی گئی ہیں۔ تمام پولنگ مقامات پر ریمپ، بیت الخلا اور پینے کے پانی کی سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔ ووٹنگ کے دوران تمام بی ایل اوز کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ووٹر لسٹ کے ساتھ ہیلپ ڈیسک پر موجود رہیں اور آنے والے ووٹرز کی مدد کریں۔ چیف الیکٹورل آفیسر نے تمام ووٹرز سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے ہوئے ووٹ کاسٹ کریں۔

ان 12 اضلاع میں پانچویں مرحلے کی پولنگ جاری ہے۔

پانچویں مرحلے کے 12 اضلاع میں امیٹھی، رائے بریلی، سلطان پور، چترکوٹ، پرتاپ گڑھ، کوشامبی، پریاگ راج، بارہ بنکی، ایودھیا، بہرائچ، شراوستی اور گونڈہ شامل ہیں۔

یہ پانچویں مرحلے کی نشستیں ہیں۔

پانچویں مرحلے کی 61 اسمبلی سیٹوں میں تلوئی، سیلون (ایس سی)، جگدیش پور (ایس سی)، گوری گنج، امیٹھی، اسولی، سلطان پور، صدر، لمبھوا، کادی پور (ایس سی)، چترکوٹ، مانک پور، رام پور خاص، بابا گنج (ایس سی) ، کنڈا، وشوناتھ گنج، پرتاپ گڑھ، پٹی، رانی گنج، سیراتھو، مانجھن پور (ایس سی)، چیل، پھپھاماو¿، سوراواں (ایس سی)، پھول پور، پرتاپ پور، ہنڈیا، میجا، کرچھنا، الہ آباد ویسٹ، الہ آباد شمالی، الہ آباد جنوبی، بارہ (ایس سی) )، کورون (ایس سی)، کرسی، رام نگر، بارہ بنکی، زید پور (ایس سی)، دریا آباد، رودولی، حیدر گڑھ (ایس سی)، ملکی پور (ایس سی)، بیکاپور، ایودھیا، گوسائی گنج، بلہا (ایس سی)، نانپارہ، ماترا، مہسی، بہرائچ، پیاگ پور، قیصر گنج، بھنگہ، شراوستی، مہنون، گونڈہ، کٹرا بازار، کرنل گنج، تراب گنج، مانکاپور (ایس سی) اور گورہ کی سیٹیں شامل ہیں۔

اس مرحلے میں ڈپٹی چیف منسٹر سمیت کئی سابق فوجیوں کی ساکھ داو¿ پر لگی ہوئی ہے۔

پانچویں مرحلے کے انتخابات میں نائب وزیر اعلیٰ کیشو پرساد موریہ سمیت چھ وزراءکی ساکھ داو¿ پر لگ گئی ہے۔ ان میں کیشو موریہ کوشامبی کے سیراتھو سے الیکشن لڑ رہے ہیں، جب کہ دیہی ترقی کے وزیر راجندر پرتاپ سنگھ عرف موتی سنگھ پرتاپ گڑھ کی پٹی سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ کابینی وزیر سدھارتھ ناتھ سنگھ الہ آباد ویسٹ سے اور کابینہ وزیر نند گوپال گپتا نندی الہ آباد ساو¿تھ سے امیدوار ہیں۔ اسی طرح یوگی حکومت کے کابینہ وزیر رماپتی شاستری مانکاپور سے اور ریاستی وزیر چندریکا پرساد اپادھیائے چترکوٹ صدر سیٹ سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ سابق ریاستی وزیر اور جن ستا دل کے سربراہ رگھوراج پرتاپ سنگھ عرف راجہ بھیا پرتاپ گڑھ کی کنڈا سیٹ سے میدان میں ہیں۔

ہندوستھان سماچار

ہفتہ, فروری 26, 2022

خانگی زندگی مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

خانگی زندگی 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
 انسان علمی ، سائنسی اور تحقیقی میدان میں آگے بڑھ رہا ہے اور اس نے اپنے علم وعمل سے تسخیر کائنات کے قرآنی نظریہ اور الٰہی فرمان کو سچ کر دکھایا ہے، لیکن اس کے بر عکس دین وشریعت سے دوری نے اس کی ذاتی زندگی کو اجیرن بنا رکھا ہے، خاندان ٹوٹ رہا ہے اور ذہنی سکون چھنتا جا رہا ہے، حالاں کہ اللہ رب العزت نے انسانی زندگی میں مرد وعورت کے نکاحی رشتے کو مودت ومحبت اور پر سکون زندگی کا سبب قرار دیا تھا ، لیکن  ہماری بے عملی، بدعملی اور اس رشتے کے احترام کی لازمی اہمیت کے نظر انداز کرنے کی وجہ سے گھر میں سکون وطمانینت جیسی کوئی چیز باقی نہیں رہی، بیش تر گھروں میں خانگی زندگی کو آپسی جھگڑے اور غلط فہمیوں نے بر باد کر رکھا ہے ، اس لیے گھر کے نظام کو درست کرنے کی ضرورت ہے، یہ درستگی گھر کو پر سکون بنا نے کے لیے اصول کے درجے میں ہے، ہماری خانگی زندگی کی بے تربیتی کے اثرات بچوں کی ذہنی نشو ونما پر پڑتے ہیں، ہم نے بچوں کی تربیت کا کام اسکولوں اور کنونٹوں کے ذمہ کر دیا ہے، جہاں اعلیٰ اخلاق اقدار کے فروغ کا کام تمام ہو چکا ہے، مادہ پرستی نے ا نہیں ایک صنعتی کار خانہ بنا دیا ہے جہاں نصاب پڑھا دیا جاتا ہے ، اقدار نہیں پڑھائے جاتے ،ایسے میںہماری ذمہ داری کا فی بڑھ گئی ہے، ہمیں اپنے گھر کے نظام کو چست درست رکھنا ہوگا، اور اس کے لیے ملکی قوانین وضوابط کی طرح کچھ اصولوں کو گھر میں رائج کر نا ہوگا ، تاکہ ہماری خانگی زندگی اور گھر یلونظام دوسروں کے لیے بھی اسوہ اور نمونہ بن سکے اور پر سکون ماحول میں بچے اچھی تربیت پا سکیں۔
 سب سے پہلا کام یہ کرنا ہوگا کہ گھر کا ہر فرد نماز وقت پر ادا کرے،قرآن کریم کی تلاوت کا اہتمام کرے، نماز بندگی ، عاجزی، در ماندگی، بے کسی اور بے بسی کے اظہار کا بڑا ذریعہ ہے، نماز کی پابندی سے تواضع اور انکساری پیدا ہوتی ہے اور اپنے کو بڑا سمجھنے کے بجائے اللہ کی بڑائی کا خیال ذہن ودماغ پر جمتا ہے، جو سار ے جھگڑوں کے ختم کرنے کا سبب بنتا ہے ، اس لیے کہ جھگڑے اپنی بڑائی کے خیال سے ہی پیدا ہوتے ہیں۔
گھر کا ہر فرد کسی نہ کسی درجہ میں اپنے مقام مرتبہ اور حیثیت کے اعتبار سے انا کا شکار ہوتا ہے، اور اس انانیت کی وجہ سے وہ دوسرے لوگوں کو اپنے سے کم تر سمجھتا ہے، ان کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کرتا ہے، اس لیے معاملہ بگڑتا چلا جاتاہے، یہ بیماری ختم نماز کے ذریعہ ہی ہو سکتی ہے، ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ تواضع اختیار کریں، آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے تواضع کو رفع درجات کا سبب بتایا ہے۔ من تواضع رفعہ اللہ
 گھر کے ماحول کو خوشگوار بنانے کے لیے برائے مہربانی اور شکریہ کے کلمات کو رواج دینا چاہے اس سے ایک دوسرے کی وقعت دل میں بڑھتی ہے، آتے جاتے سلام کے الفاظ دل کے دروازے ایک دوسرے کے لیے کھولتے ہیں، یہ آداب ملاقات بھی ہے اور لوگوں کے لیے سلامتی کی دعا بھی ، گھریلو مسائل جو بھی ہوں انہیں آپس میں ادب واحترام کے ساتھ ایک دوسرے کو منتقل کر نا چاہیے ، مار پٹائی ، گالی گلوج، لعن طعن سے بچنا چاہیے، عورتوں اور بچوں پر ہاتھ اٹھانا انتہائی غلط حرکت ہے، یہ ہمارے خاندان کے کمزور افراد ہوتے ہیں، اور کمزوروں پر ہاتھ اٹھانا انتہائی بزدلی کی بات ہے، تنبیہ کی گنجائش تو ہے لیکن اس کا اسلوب بھی جارحانہ نہ ہو، اس لیے کہ یہی جارحیت خانگی زندگی کو جو الا مکھی اور آتش فشاں بنا دیتی ہے۔
 خانگی نظام کو ٹھیک رکھنے میں ادب واحترام کے ساتھ خوش سلیقگی کا بھی بڑا عمل دخل ہوتا ہے،خوش سلیقگی یہ ہے کہ جب کوئی بات کرے تو توجہ سے سنی جائے ، خواہ وہ بچہ ہی کیوں نہ ہو ،ا س سے اس کے اندر یہ احساس جاگے گا کہ میری بات توجہ سے سنی گئی اور اسے اہمیت دی گئی ، اہمیت کا یہ احساس گھروں میں جو باغیانہ تیور نئی نسلوں میں پیدا ہو رہے ہیں، اسے ختم کر نے میں معاون ومدد گار ہوگا ، یہ سلیقہ گھروں میں نظر بھی آئے اس کا طریقہ یہ ہے کہ گھر کا ہر فرد اپنے ذمہ لازم کر لے کہ جو چیز جہاں سے اٹھائے گا وہیں رکھے گا ، دروازہ اور کھڑکی کھولا ہے تو ضرورت پوری ہونے کے بعد اسے بند بھی کرے گا ، رات کو بارہ بجے کے بعد کوئی جاگا نہیں رہے گا ، فضول گفتگو نہیں کرے گا ، رات کے اس حصہ میں وہاٹس ایپ اور دوسرے ذرائع کا استعمال بھی نہیں کرے گا ، یہ پابندی آپسی مجلسی گفتگو کے وقت بھی جاری رہے گی ۔
 انفرادی طور پر کھانے کے بجائے اجتماعی طور پر خورد ونوش بھی گھر کے ماحول کو ساز گار بنانے میں انتہائی معاون ہوتا ہے، اوراس سے بہت ساری غلط فہمیوں کا دروازہ بند ہوتا ہے،اپنے ضروری کام خود انجام دے لینا بھی اسوۂ رسول ہے، اپنے چھوٹوں پر رعب ودبدبہ کے ساتھ حکم جمانا بچوں کی نفسیات کے لیے مضر ہے، البتہ تربیتی نقطۂ نظر سے ایسا ماحول بچوں کو فراہم کرنا چاہیے کہ وہ اپنے بڑوں کی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور اسے اپنی سعادت سمجھیں ، در اصل یہ دو طرفہ الفت ومحبت کا معاملہ ہے ، آپ چھوٹوں  پر رحم کریں گے تو وہ اپنے بڑے کی تو قیر کریں گے، گھر میں اگر وسعت ہو اور ہر ایک کے لیے الگ الگ کمرے مختص ہوں تو حتی الامکان دوسرے کے کمرے میں جانا اس کے سامان کو الٹ پلٹ کرنا بھی ممنوع ہونا چاہیے، جانا ضروری ہو تو دروازہ پہلے کھٹکھٹا یا جائے، سلام کیا جائے، یہ سلام استیذانی کہلاتا ہے،سلام کا جواب مل جائے اور صاحب کمرہ استقبال کی پوزیشن میں ہو تو ضرور جانا چاہیے، بچوں کی تربیت کے لیے اچھے کاموں اورامتحان میں اچھے نتائج کے موقع سے حوصلہ افزائی بھی ضروری ہے، اس سے آگے بڑھنے کا حوصلہ اور جذبہ پیدا ہوتا ہے، گھر کے کسی فرد کی بیماری پر تیمار داری اور عیادت سے بھی آپسی محبت  پروان چڑھتی ہے، اس لیے اس کام کو دوسری ضروریات پر مقدم رکھنا چاہیے، خانگی زندگی کو پر سکون رکھنے کے لیے اصول اور بھی ہیں فی الوقت اتنا ہی ، باقی پھر کبھی۔

خاص پیغام اعلان برائے اجلاس دستار بندیحضرات مسلمانانِ ڈومریا

خاص پیغام اعلان برائے اجلاس دستار بندی
حضرات مسلمانانِ ڈومریا!


السّلام عليکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ سب کو معلوم ہے کہ دو سال قبل جامعہ ممتاز العلوم کا قيام عمل ميں آيا ۔ جامعہ کا خاص مقصد حفاظ پيداکرنا اور ڈومريا واطراف کے ہر گھر ميں حافظ پہنچانا تھا۔ آپ حضرات کے مالی اور جانی تعاون سے الحمد للہ جامعہ اپنے مقصد ميں کامياب ہو رہا ہے۔ دوسال کے عرصہ ميں آٹھ طلبہ عزيز نے حفظ قرآن مکمل کر ليا ہے ۔ يہ يقينًا آپ حضرات کی حوصلہ افزائی کا نتيجہ ہے ۔ ابھی جامعہ ميں پچاس طلبہ زير تعليم ہيں ۔ جن کی کفالت کھانے پينے اور رہنے کا نظم خود جامعہ کرتاہے اور آپ حضرات سے لے کر کرتا ہے ۔ جامعہ کاالگ سے کوئی مستقل آمدنی کا ذريعہ نہيں ہے۔ آپ کےاس ديرينہ توجہات پر جتنا جامعہ شکریہ ادا کرے کم ہے۔
علماء ودانشوران ڈومرياکو جب آٹھ طلبہ عزیزکے حافظ بننےکی اطلاع ہوئی تو وہ بہت خوش ہوئے اور اجلاس دستار بندی کی تجويز پيش کی ۔ان کے ساتھ متعدد ميٹنگيں ہوئی جس میں21/22 مارچ کی تاريخ رکھی گئ۔لیکن طے شده تاریخ کا اعلان باضابطہ آپ حضرات کے مشورے سے کیا جائے گا



کوشش کیجائے گی کہ: ان شاء اللہ دار العلوم ديوبند، دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ اور جامعہ رحمانی، خانقاہ، مونگير سےاکابردین علماء کرام کو بلایا جائے ۔ اور ڈومریا کی سرزمين ایک مرتبہ پھر بزرگان دین و علمائے کرام کی تشريف آوری سے لالہ زار ہو جائے

۔ آپ تمام باشندگان ڈومریاسے بالخصوص درخواست کی جاتی ہے کہ: اس اجلاس کو کامياب بنانے ميں جامعہ ہذا کا ہر طرح سے تعاون کريں۔ بلکہ خود آگے بڑھ کر اجلاس کی ذمہ داری قبول کریں۔



نوٹ: اس سلسلے ميں بروز اتوار 27 /فروری2022ء،آٹھ بجے صبح جامعہ ممتاز العلوم کے احاطے ميں ميٹنگ رکھی گئی ہے۔ آپ تمام حضرات سے شرکت کی درخواست ہے ۔

فقط والسلام
مجلس منتظمہ: جامعہ ممتاز العلوم، ڈومريا، رانیگنج،ارریہ بہار۔

جمعہ, فروری 25, 2022

کہنہ مشق قاری،ماہرفن استاذ قاری عبد الصمد صاحب کاانتقالچینئی (ساجد حسین ندوی


کہنہ مشق قاری،ماہرفن استاذ قاری عبد الصمد صاحب کاانتقال
چینئی (ساجد حسین ندوی) کہنہ مشق قاری،تجربہ کار استاذِ حفظ اور اپنے فن اور تجربے سے ہزاروں افراد کو حفظِ قرآن کی دولت سے مالا مال کرنے والے خادم قرآن،استاذ الاساتذہ، شہرکانپور کی قدیم اور مرکزی درسگاہ مدرسہ جامع العلوم پٹکاپور، کانپور کے سابق استاذِ حفظ حضرت قاری عبدالصمد صاحب فرقانی ؒکا بتاریخ 23 اکتوبر 2022 بروز بدھ کو تقریبا دوپہر 1بجکر  40 منٹ میں حرکتِ قلب بند ہونے کی وجہ سے دارِ فانی سے دارِ بقا کی طرف کوچ کرگئے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔
گذشتہ ہفتہ مرحوم کو اچانک برین اسٹوک ہوگیا تھاجس کے بعد ان کو فوری طور پرتمل ناڈو گورنمنٹ سوپر اسپیشلٹی، ماونٹ روڈ چینئی میں داخل کیا گیا جہاں ماہرڈاکٹروں کی نگرانی میں علاج ہوا اور طبیعت بحال ہونے لگی، ایک دو دن میں ڈاکٹر نے ڈسچارج کرنے کو کہا تھا لیکن 23/ فروری کو تقریبا دو پہرساڑھے بجے طبیعت بگڑنے لگی، ڈاکٹروں نے آخری حد تک کوشش کی،لیکن وقت موعود آچکا تھا۔اللہ کے فیصلے کے سامنے انسانی طاقت بے بس ہوگئی اور 1/ بجکر 40منٹ پر قاری صاحب کی روح دارِ فانی سے دارِ بقا کی طرف کوچ کرگئی۔ 24فروری کو 1:45بجے قائد ملت جمعہ مسجد چینئی میں قاری صاحب کے منجھلے فرزند قاری محمد اسجد صاحب نے جنازے کی نماز پڑھائی جس میں کثیر تعداد میں لوگو ں نے شرکت کی اور سوگواروں کی موجودگی میں امیرالنساء قبرستان رائے پیٹھہ میں سپرد خاک کیا گیا۔
 قاری صاحب مرحوم کی پیدائش بہار کے ضلع مونگیر کے ایک گاؤں محلہ حاجی سبحان میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم پنج ویر نامی ایک گاؤں میں حاصل کی، اس کے بعد جامعہ محمودیہ،گوگری ضلع کھگڑیا،بہار میں قرآن کریم کا دور مکمل کرنے کے بعد لکھنو کی مشہور درسگاہ مدرسہ تجوید الفرقان میں قرأت کی تعلیم مکمل کی۔ قرأت کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد تدریسی خدمات کے لیے آپ کا تقرر شہر کانپور کی قدیم درسگاہ مدرسہ جامع العلوم،پٹکاپور،کانپور میں ہوا،جہاں آپ نے تقریبا 24/ سالوں تک بحیثیت استاذ حفظ خدمات انجام دی اور لاکھوں کی تعداد میں حفاظ تیار کئے۔ کچھ ناگزیر حالات کی وجہ سے آپ نے مدرسہ جامع العلوم سے استعفی دے دیا اس کے بعد دارالعلوم آگرہ، مدھیہ پردیش اور مدرسہ اشاعت العلوم کانپور میں صدر شعبہ حفظ کے طور پر کام کرتے رہے۔ اسی دوران قاری صاحب کی رفیق حیات کا انتقال ہوگیا اس کے بعد قاری صاحب کافی ٹوٹ گئے اور تدریسی خدمات چھوڑ کر شہر مدراس میں اپنے لڑکوں کے ساتھ رہنے لگے۔لیکن تدریس ان کی طبیعت میں رچی بسی تھی، اس لیے فارغ رہنا ان کے لیے مشکل لگنے لگا۔بہر کیف وہ شہر مدراس سے سیدھا اپنے گاؤں آگئے اور پنج ویر مدرسہ جہاں سے آپ نے ابتدائی تعلیم اور حفظ مکمل کیا تھا وہیں درس وتدریس میں لگ گئے۔ آخری عمر تک اسی ادارہ سے منسلک رہ کر قرآن کی خدمت کرتے رہے۔
قاری صاحب کے انتقال پر ہزاروں علماء،حفاظ، قراء اور شاگردوں نے اپنے رنج و غم کا اظہار کیا اور پسماندگان سے اظہار تعزیت کرتے ہوئے رفع درجات اور مغفرت کے لیے دعائیں کی۔
پسماندگان میں قاری صاحب کے چار لڑکے اور ایک لڑکی ہے، الحمدللہ چاروں لڑکے حافظ و قاری ہیں اور شہرمدراس میں دینی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
ہم اللہ سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرماکر درجات کو بلند فرمائے اوراپنے نیک بندوں میں شامل فرمائے۔ پسماندگان اور شاگردوں کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین، ثم آمین۔
اللھم اغفرلہ وارحمہ واعف عنہ وادخلہ الجنۃ بغیر حساب

سر پر رہے اے بیٹیو ہر آن ڈوپٹہشمشیر عالم مظاہری دربھنگوی

سر پر رہے اے بیٹیو ہر آن ڈوپٹہ
شمشیر عالم مظاہری دربھنگوی
امام جامع مسجد شاہ میاں روہوا ویشالی بہار
آج کل اسلام دشمن قوتوں نے عجیب پروپیگنڈہ شروع کر دیا ہے جس سے مسلمان عورتوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اسلام نے عورتوں پر بہت زیادہ پابندیاں لگا دی ہیں ہمارے معاشرے کی پڑھی لکھی مستورات خواتین اور بچیاں غلط فہمی کا شکار ہو جاتی ہیں اور وہ یہ سمجتی ہیں کہ شاید ہمارے جائز حقوق نہیں دیے گئے حالانکہ بات ہرگز ایسی نہیں ہے سب سے پہلی بات تو یہ کی جاتی ہے کہ اسلام نے پردے میں رہنے کا حکم دیا ہے جبکہ غیر مسلم معاشرہ میں عورت بے پردہ پھرتی ہے تو یہ بات سمجھنی بہت آسان ہے کہ عورت پردہ میں رہے تو اس کا فائدہ عورت کو بھی ہے مرد کو بھی 
کتاب اللہ کے بعد اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کا مطالعہ کریں تو آپ یقین کریں کہ پردہ کے بارے میں اس قدر احادیث ہیں کہ تعجب ہوتا ہے کہ بعض لوگ کیسے حضور  صلی اللہ وسلم کا نام بھی لیتے ہیں اور بے پردگی بھی کرتے ہیں عشق  کے دعوے بھی کرتے ہیں اور زمانہ سازی کے لئے بہو بیٹیوں کو عریانیت کی اجازت بھی دیتے ہیں بلکہ بعض تو نماز بھی پڑھتے ہیں حج بھی کرتے ہیں صدقہ خیرات بھی کرتے ہیں لیکن محض قدامت پرستی اور دقیانوسیت کے طعنوں سے بچنے کے لیے بے غیرتی بھی کرتے ہیں زمانۂ جاہلیت میں عورتوں کا دستور تھا کہ دوپٹوں سے اپنے سروں کو ڈھانک کر باقی دوپٹہ کمر پر ڈال لیتی تھیں مسلمان عورتوں کو حکم ہوا کہ اپنے دوپٹوں سے سر بھی ڈھانکیں اور گلے اور سینے پر ڈالے رہا کریں چونکہ صحابیات کے پاس مال و دولت کی اس قدر فراوانی نہ تھی کہ وہ نئے دوپٹے خریدتیں اس لیے انہوں نے اس حکم کو سن کر موٹی موٹی چادروں کے دوپٹے بنالیے اور ان سے اپنے گلوں اور سینوں کو بھی ڈھکنے لگی 
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (قال المرأ ۃ عورۃ) عورت سر تا پا پوشیدہ رہنے کے قابل ہے یعنی سر سے پاؤں تک عورت ستر ہے تو سر بھی ستر ہوا پس عورتیں ننگے سر نہ پھرا کریں کہ بے پردگی ہے (ترمذی)
کئی پردہ دار عورتیں برقع کے ساتھ باہر جاتی ہیں استانیہ اسکول جاتی ہیں جب گھر آتی ہیں تو ننگے سر گھر کا کام کاج کرتی ہیں اور ننگے سر پھرتی رہتی ہیں یہ حرام ہے سر چھپانے کی چیز ہے ستر ہے اسے مستور رکھا کریں گھر میں بھی ننگے سر نہ پھرا کریں یہ بات اکثر لڑکیوں اور عورتوں کے لئے سخت کوفت کا موجب ہے بڑی جانکاہ ہے جگر خراش ہے اور اس سے ان پر اتنا بوجھ ہوگا کہ گویا ان کے دل پر ایک پہاڑ پر لا کر رکھ دیا گیا ہے۔ یاد رکھیں اسلام اسی بات کا نام ہے کہ اپنے آپ کو اسلام کے حوالے کر دیا جائے اپنی خواہشات اور چاہت کو اسلام کے حکم کے آگے دبا دیا جائے نفس پر اسلام کے قانون اور حکم کا خنجر پھیر دیا جائے پھر مسلمان ہو سکتے ہیں جب اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ عورتیں ننگے سر نہ پھریں تو عورتوں کو خدا تعالی کا یہ حکم مان لینا چاہیے اللہ کے حکم کے آگے باتیں نہیں بنانا چاہیے اور نہ انہیں یہ حق حاصل ہے کہ وہ احکام الہی سے منہ پھیر یں یا بے اعتنائی برتیں اور پھر یہ عاجز انسان جو ہر وقت اس کے رحم و کرم پر زندہ ہے چلتا پھرتا ہے اور سانس لیتا ہے خدا تعالی کے آگے دم مارے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے حکم سے بولتے ہیں خدا کے احکام کا نور پھیلاتے ہیں ہر عورت مرد کو اس نور میں گام فرسا رہنا چاہیے
حجاب اور پردے کا مقصد یہ ہے کہ معاشرے کے اندر بےپردگی کے نتیجے میں جو فتنہ پیدا ہو سکتا ہے اس کا سد باب کیا جائے ۔ حجاب کا حکم اللہ تعالی نے قرآن کریم میں نازل فرمایا اور حضور صلی اللہ وسلم نے احادیث میں اس کی تفصیل بیان فرمائی اور ازواج مطہرات اور صحابیات نے اس حکم پر عمل کرکے دکھایا اب اہل مغرب نے یہ پروپیگنڈا شروع کر دیا کہ مسلمانوں نے عورتوں کے ساتھ بڑا ظالمانہ سلوک کیا ہے کہ ان کو گھروں میں بند کر دیا ان کے چہروں پر نقاب ڈال دی اور ان کو ایک کارٹون بنادیا تو کیا مغرب کے اس مذاق اور پروپیگنڈے کے نتیجے میں ہم اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ وسلم کے ان احکام کو چھوڑ دیں؟  یاد رکھیں جب تک خود ہمارے اپنے دلوں میں یہ ایمان اور اعتقاد پیدا نہ ہو کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ وسلم سے جو طریقہ سیکھا ہے وہی طریقہ برحق ہے کوئی مذاق اڑاتا ہے تو اڑایا کرے کوئی طعنے دیتا ہے تو دیا کرے یہ طعنے تو مسلمان کے گلے کا زیور ہیں انبیاء علیہم السلام جو اس دنیا میں تشریف لائے کیا انہوں نے کچھ کم طعنے سہے؟ جتنے انبیاء علیہم السلام اس دنیا میں تشریف لائے ان کو یہ طعنے دیئے گئے کہ یہ تو پسماندہ لوگ ہیں یہ قیانوس اور رجعت پسند ہیں یہ ہمیں زندگی کی راحتوں سے محروم کرنا چاہتے ہیں یہ سارے طعنے انبیاء کو دیے گئے اور ہم آپ جب مومن ہیں تو انبیاء کے وارث ہیں جس طرح وراثت میں اور چیزیں ملیں گی یہ طعنے بھی ملیں گے کیا ان طعنوں سے گھبرا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کار کو چھوڑ دیں گے؟ اگر اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ وسلم پر ایمان ہے تو پھر ان طعنوں کو سننے کے لیے کمر کو مضبوط کر کے بیٹھنا ہوگا (اصلاحی خطبات) 
ام المومنین حضرت ام سلمہ کا بیان ہے کہ میں اور میمونہ دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھیں کہ اچانک عبداللہ بن ام مکتوم ( نابینا)  سامنے سے آ گئے اور رسول اللہ صلی اللہ وسلم کے پاس آنے لگے چونکہ عبداللہ نابینا تھے اس لئے ہم دونوں نے پردہ کرنے کا ارادہ نہیں کیا اور اسی طرح اپنی جگہ بیٹھی رہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ان سے پردہ کرو میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ وسلم کیا وہ نابینا نہیں ہیں؟ ہم کو تو وہ دیکھ نہیں رہے ہیں اس کے جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کیا تم دونوں بھی نابینا ہو؟ کیا تم ان کو دیکھ نہیں رہی ہو ؟ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورتوں کو بھی جہاں تک ممکن ہوسکے مردوں پر نظر ڈالنے سے پرہیز کرنا چاہئے حضرت عبداللہ نابینا تھے پاکباز صحابی تھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں بیویاں نہایت پاک دامن تھیں اس کے باوجود بھی آپ نے دونوں بیویوں کو حکم فرمایا کہ عبداللہ سے پردہ کریں یعنی ان پر نظر نہ ڈالیں اسلام میں مرد و زن کو حکم ہے کہ وہ اپنی نظروں کی حفاظت کریں تاک جھانک نہ کریں نگاہیں نیچی رکھیں تاکہ مرد اسے دیکھ ہی نہ سکے اگر عورتیں بے پردہ رہیں گی تو وہ صورتحال پیش آۓ گی جسے کسی دل جلے شاعر نے بیان کیا ہے 
سبھی مجھ کو کہتے ہیں نظریں نیچی رکھ اپنی
کوئی ان کو نہیں کہتا نہ نکلیں یوں بے حجاب ہوکر
آیات و احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ عورت سر سے لے کر پاؤں تک مستورہ ہے سارا جسم اس کا ستر ہے جسے ڈھانکنا ضروری ہے اب تو کئی عورتیں کہہ دیں گی کہ یہ پردہ تو پنجرہ ہے جس میں ہم کو قید کر دیا گیا ہے یاد رکھیں  کہ اللہ تعالی عورتوں کا خالق ہے وہ ان کی طبیعت مزاج اور جبلت کو خوب جانتا ہے اس نے اپنے علم اور حکمت سے عورتوں کے لیے یہ پردہ کا حکم نازل فرمایا ہے جو قرونِ اولیٰ کی عورتوں نے بسر و چشم قبول کیا اور دین اور دنیا کی خوبیاں اور بھلائیاں سمیٹ کر لے گئیں تاریخ ان کی روحوں پر تحسین اور آفرین کے پھول برساتی ہیں آج اگر عورتیں اپنی خواہش نفس اور ماحول کی کشش اور رواج اور فیشن کی نیلم پری کو خدا تعالی کے حکم کی چھری سے ذبح کر دیں اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے پردے کو اپنا لیں تو ان کے اولیاء اللہ ہونے میں کوئی شک نہیں ہوگا بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں شیطان مایوس ہو گیا تھا کہ اس کی پرستش کی جائے وحی کے نزول کے سامنے اس پر مردنی چھائی ہوئی تھی لیکن آج ابلیس مع اپنی ذریت کے ننگا ناچ رہا ہے تمام دنیا فسق و فجور اور بے حیائی سے بھری ہوئی ہے آج اگر عورتیں شرم و حیا کازلال پی کر پردہ قبول کرلیں تو فرشتے ان پر رحمتوں کے پھول برسائیں  اور حوروں کی عفت انہیں سلام کرے اور یہ اپنے لیے جنت کے دروازے کھلے پائیں 
سر پر رہے اے بیٹیو ہر آن ڈوپٹہ
ہے خانہ نشینوں کی حسیں شان دوپٹہ

حجاب پر سیاستمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

حجاب پر سیاست
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
مسلم لڑکیوں کے لیے حجاب کا استعمال اور پردہ ان کی تہذیب وثقافت ہی نہیں، دینی تقاضے کا حصہ ہے، حجاب اور اسکاف استعمال کرنے والی عورتیں سماج میں با وقار سمجھی جاتی ہیں، لیکن فرقہ پرست طاقتوں کو مسلم لڑکیوں کا حجاب میں آنا گوارہ نہیں ہے، وہ چاہتے ہیں کہ جس طرح وہ اپنی گھر کی عورتوں کو نیم عریاں رکھنا اور دیکھنا پسند کرتے ہیں ویسے ہی مسلم لڑکیوں کے دیدار سے بھی وہ اپنی آنکھیں سینکیں، یہ ایک نفسیاتی برائی ہے، جو انسان کوجسمانی تلذذ اور عیاشی کا خوگر بنا دیتا ہے، اسی لیے شریعت نے عورتوں کو پردہ کا حکم دیا ، تاکہ وہ غیرمردوں کی ہوس بھری نگاہوں سے محفوظ رہیں، کرناٹک اور ملک کی کئی ریاستوں میں حجاب پر سیاست شروع ہو گئی ہے، کرناٹک میں حجاب پہن کر کئی اسکول اور کالج میں داخلہ ممنوع قرار دے دیا گیا ہے، مسلم لڑکیاں احتجاج کر رہی ہیں، بھگوا بریگیڈ ان کے ساتھ بد تمیزی سے پیش آ رہا ہے، معاملہ عدالت میں ابھی زیر غور ہے، لیکن حجاب پر اس پابندی کی وجہ سے کرناٹک میں ہند ومسلم منافرت زوروں پر ہے ، اب یہ تحریک پورے کرناٹک میں پھیل گئی ہے، حالات اس قدر خطرناک ہو گیے ہیں کہ حکومت نے تین دنوں کے لیے تمام تعلیمی ادارے بندکر دیئے ہیں، عدالت میں سماعت چل رہی ہے، ابھی فیصلہ نہیں آیا ہے، لیکن عدالت نے اپنے تبصرے میں اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ حجاب مسلم لڑکیوں کا حق ہے اور ہم قرآن کو نہیں بدل سکتے ہیں، یہ سب اسکول یونیفارم کے لزوم کے نام پر کیا جا رہا ہے، لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ جب سکھ لڑکے پگڑی باندھ کر کلاس کر سکتے ہیں، تو مسلم لڑکیوں کا حجاب کیوں یونیفارم کے خلاف سمجھ میں آ رہا ہے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...