Powered By Blogger

اتوار, اپریل 10, 2022

#مدارس اسلامیہ نسلوں کے ایمان کے محافظ ہیں،آپ ان کی حفاظت کیجئے!

#مدارس اسلامیہ نسلوں کے ایمان کے محافظ ہیں،آپ ان کی حفاظت کیجئے!

تحریر:#محمداطہرالقاسمی
نائب صدر جمعیت علماء بہار
6/رمضان المبارک 1443
یوم الجمعہ
____________________________
مدارس اسلامیہ کو اسلام کا قلعہ کہا جاتا ہے کیونکہ پندرہ سو سال پہلے جس آخری دین کو جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے وفادار و جاں نثار ساتھی حضرات صحابہ کے درمیان چھوڑ کر رخصت ہوئے تھے وہ دین بعینہٖ اسی شکل وصورت میں اگر آج تک زندہ ہے تو یہ ان ہی مدارس اسلامیہ کی بدولت ہے۔گویا مدارس اسلامیہ ایسا عالم گیر نظام تعلیم وتربیت ہے جن پر دین اسلام کی حفظ و بقاء اور نشر و اشاعت کا دارومدار ہے۔یعنی صفہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے جو جماعت جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دینی ومذہبی تحریک کی تبلیغ کا بیڑہ لےکر اٹھی تھی؛پندرہ سو سالہ طویل عرصے کے بعد بھی اس مقدس جماعت کا وہ عالم گیر مشن ان ہی ٹوٹے پھوٹے مدارس اسلامیہ اور ان سے وابستہ علماء کرام کے ذریعے پورے عالم میں جاری و ساری ہے۔صحابہ کرام کے بعد تابعین،تبع تابعین،محدثین،ائمہ مجتہدین اور فقہاء عظام کے واسطے سے یہ دین ہمارے ملک بھارت میں بھی پہنچا۔ہم نے جب آنکھیں کھولی تو دیکھا کہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ دین ہمارے اردگرد چاروں طرف مدارس اسلامیہ کی شکل میں جال کی طرح پھیلے ہوئے ہیں اور ہرجگہ قال اللہ و قال الرسول کی صدائیں بلند ہورہی ہیں۔جبکہ سقوطِ سلطنتِ مغلیہ کے بعد یہاں ایک دور ایسا بھی آیا جب محسوس ہوا کہ اب یہاں سے دین مکمل رخصت ہوجائے گا کیونکہ صف اول کے مجاہدین آزادی ان ہی مدارس اسلامیہ سے وابستہ اکابر علماء کرام تھے جنہیں جہاد آزادی وطن کی پاداش میں ظالم و جابر انگریزوں نے چن چن کر تختہ دار پر چڑھا دیا تھا اور صدیوں سے آباد مدارسِ اسلامیہ کو نیست و نابود کر دیا تھا۔لیکن قربان جائیے اکابرین علماء دیوبند پر جنہوں نے اپنی فراست ایمانی سے محسوس کرلیا تھا کہ اگر یہاں دین زندہ رہنا ہے اور ہر حال میں رہنا ہے تو فوری طور پر مدارس اسلامیہ کی داغ بیل ڈالنی ہوگی۔چنانچہ بےسروسامانی کے عالم میں ام المدارس دارالعلوم دیوبند کی بنیاد ڈالی گئی اور اسی نہج پر ان کے سچے جانشینوں نے اس طرح دینی ادارے قائم کئے کہ الحمد للّٰہ ملک میں مدارس اسلامیہ کے جال پھیل گئے؛گاؤں گاؤں قریہ قریہ نور نبوت کی شمعوں سے منور ہونے لگا اور آج نوبت بایں جا رسید کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے برپا کیا گیا اللہ کا یہ سچا دین،چھوٹے بڑے مدارس اسلامیہ اور مکاتبِ دینیہ کی مختلف شکلوں میں ملک کے مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک تسبیح کے خوبصورت دانوں کی طرح ایک دوسرے سے مربوط و منظم ہوکر تعلیم وتربیت کی نوارنی شمعیں جلا رہے ہیں،جس میں روز بروز اضافہ ہی ہورہاہے اور یہ اضافہ قیامت تک جاری رہے گا کیونکہ اس آخری دین کو کائنات میں پیدا ہونے والے آخری فرد تک پہنچنا ہے۔
یریدون لیطفؤا نور اللہ بافواہہم واللہ متم نورہ ولو کرہ الکفرون۔(الصف/8)وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کا نور اپنے مونہوں سے بجھا دیں اور اللہ اپنا نور پورا کر کے رہے گا اگرچہ کافر برا مانیں۔
دوسری طرف ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ ان مدارس سے وابستہ علماء کرام نے دین محمدی کی آبیاری میں خود کو اس طرح وقف کرلیا کہ دنیا ترقی کی منزلیں طے کرتے ہوئے کہاں سے کہاں چلی گئی لیکن دیوانوں اور فاقہ کشوں کی یہ مخلص جماعت رفتار زمانہ کے ساتھ چلنے کے بجائے پیچھے بہت پیچھے رہ گئی۔اس طرح مسلمانوں کی نسل نو کی تعلیم وتربیت اور ان کے ایمان و عقائد کے تحفظ میں وہ اپنی ہی دنیاوی ترقی بھول گئی۔جسموں پر پھٹے پرانے کپڑے،موٹے جھوٹے کھانے،آسان و سادہ طرز زندگی،خواہشات پر چلنے کے بجائے ضروریات کی تکمیل پر قناعت،خاموش شب و روز،سماجی و معاشرتی زندگی میں اس طرح اجنبیت کہ نہ کوئی غم خوار و غمگسار،نہ آؤ بھاؤ تاؤ،نہ ہٹو بچو کے نعرے،نہ ہلا ہنگامہ،نہ چیلے چپاٹے اور نہ یاروں کے ساتھ سیر سپاٹے؛بس ملا کی دوڑ مدرسہ یا مسجد تک۔یعنی ایک ہی دھن مسجد،مکتب اور مدرسہ۔سخت لو والی گرمی ہو یا کپکپادینے والی ٹھنڈک یا پھر جھوم جھوم کر برسنے والی برسات؛ان اہل مدارس کے دل و دماغ میں بس ایک ہی فکر دامن گیر رہی کہ مسلمانوں کی نسل نو کو دینی تعلیم وتربیت سے کس طرح آراستہ و پیراستہ کیا جائے اور ان کے ایمان و عقائد کی حفاظت کس طرح کی جائے!
مدارس اسلامیہ سے وابستہ علماء کرام خواہ وہ طلبہ ہوں یا اساتذہ یا پھر منتظمین ان کی اس دھن اور لگن کا نتیجہ یہ ہوا کہ ملک میں دوطبقے بن گئے،ایک طبقہ مدارس سے وابستہ علماء کرام کا اور دوسرا اصحابِ ثروت و معاونین کا۔الحمد للہ دونوں طبقے ایک دوسرے سے مل کر مدارس اسلامیہ کی تعمیر وترقی میں اپنا کردار ادا کرتے رہے ہیں۔البتہ اسی دوسرے طبقہ میں سے دین بیزاروں کا ایک تیسرا طبقہ اب ایسا بھی پیدا ہوچکا ہے جن کی نظروں میں نہ تو ان مدارس کی کوئی اہمیت و افادیت ہے اور نہ ہی ان سے وابستہ علماء کرام کی کوئی عظمت و رفعت۔اس بےرخی اور دین بیزاری کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ملک کے چپے چپے میں پھیلے ہوئے خون جگر سے سینچے گئے یہی مدارس خود اپنی ہی برادری کی آنکھوں میں کانٹے بنے ہوئے ہیں۔
ملک بھر میں مدارس اسلامیہ اور ان سے وابستہ علماء کرام کی تعداد ایک مٹھی بھر جماعت سے زیادہ نہیں ہے۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق یہ  قوم مسلم کا محض چار فیصد حصہ ہے۔لیکن بدقسمتی کی بات ہے کہ یہ مدارسِ اسلامیہ مختلف مسائل سے دوچار ہیں اور فی الوقت انتہائی کس مپرسی کے مراحل سے گذررہے ہیں۔بالخصوص عالمی وبا کورونا اور اس کے نتیجے میں وقفے وقفے سے جاری ہونے والے لاک ڈاؤن کے بعد تو بہت سے چھوٹے چھوٹے مدارس یا تو بند ہوگئے ہیں یا پھر مالی بحران کا شکار ہوکر بند ہونے کی دہلیز پر کھڑے ہیں۔
مدارس اسلامیہ پر آنے والی اس بحرانی کیفیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ جہاں ہزاروں لاکھوں معصوم بچے ان مدارس میں تعلیم وتربیت سے آراستہ ہوکر قوم مسلم کی دینی خدمات انجام دینے کے اہل ہورہے تھے؛اب وہ مدارس کا رخ کرنے کے بجائے دہلی ممبئی بنگلور و ہریانہ کام کرنے کے لئے ہجرت کررہےہیں جبکہ اس سے بڑا سانحہ یہ ہے کہ جن علماء و حفاظ کے کاندھوں پر ملت کے ان نونہالوں کی دینی تعلیم وتربیت کی ذمےداریاں تھیں وہ مسلسل ان حالات سے مایوس ہو کر چھوٹے موٹے کاروبار یا محنت و مزدوری کرنے پر مجبور ہورہے ہیں۔
ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ کس طرح یہ طبقہ بنگلور و حیدرآباد کی فیکٹریوں میں بارہ بارہ گھنٹے کام کرتا ہےاور اپنے وقار و عہدہ کو بھول کر ایک عام مسلمان کے طرز زندگی پر گامزن ہے۔یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ طبقہ علماء کا کاروبار یا محنت مزدوری کرنا نہ تو ناجائز ہے اور نہ ہی عیب کی بات ہے لیکن یہ بات بھی مسلم ہے کہ ان ہی کے ناتواں کاندھوں پر ملت اسلامیہ ہندیہ کے نونہالوں کی تعلیم و تربیت کا بوجھ بھی ہے۔ظاہر سی بات ہے کہ اگر یہ طبقہ لگاتار اسی روش پر قائم رہا تو آپ بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ مستقبل میں قوم مسلم کے معصوموں کے ایمان و عقائد کا کیا حال ہوگا!
الحاصل اسلام دشمن طاقتوں کے اپنے خطرناک ایجنڈے اور عزائم ہیں اور جن اصحابِ ثروت مسلمانوں کو  اپنے ان مدارس کا محافظ رہنا چاہئے ان کی جانب سے الگ اشکالات و اعتراضات بلکہ بے رخی و بیزاری ہے۔ان کا حال یہ ہے کہ کوئی رفتار زمانہ کے ساتھ اداروں کی جدید کاری چاہتاہے تو کسی کو ان مدارس کے طلبہ نکمے و فرسودہ نظر آتے ہیں تو کسی کی نظر میں مدارس کی انتظامیہ خائن و مشکوک ہے۔اس لئے ان کے کام کاج پر انہیں اعتماد و اعتبار ہی نہیں ہے۔
ہم مانتے ہیں کہ موجودہ مدارس اور اہل مدارس میں بھی بہت ساری کمیاں اور خامیاں ہیں اور ماضی کی طرح کماحقہ وہ اپنی خدمات انجام نہیں دے پا رہے ہیں۔لیکن انصاف کے ترازو کے ایک پلڑے میں جب اہل مدارس کی کمیوں اور خامیوں اور دوسرے میں اس کی نافعیت و افادیت کو تولا جائے گا تو لامحالہ ان مدارس کی افادیت و نافعیت کا پلڑا بھاری پڑجائے گا۔
جب سالم لکڑیوں سے ٹیبل کرسی بنائی جاتی ہے تو لکڑیوں کا ایک حصہ آرے کی نوکوں میں پس کر برباد ہوجاتاہے لیکن اگر ایسا نہیں ہوگا تو آپ کو بیٹھنے کے لئے کرسی یا لیٹنے کے لئے پلنگ بھی نہیں مل سکے گی۔ٹھیک اسی طرح عمارت کی تعمیر میں اگر بعض سالم اینٹیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہیں ہوں گی تو خوبصورت محل کی تعمیر بھی ممکن نہیں ہوسکےگی یا پھر درزی مہنگے کپڑوں کو کاٹ کاٹ کر اس پر سلائی نہیں کرےگا تو آپ عمدہ کپڑے اپنے جسموں پر زیب تن بھی نہیں کرسکیں گے۔تو کسی بھی چیز کا سوفیصد حصہ مکمل کارآمد کبھی نہیں ہوتا،کچھ نہ کچھ حصہ نکما یا ضائع ہوجاتا ہے۔لیکن ان ہی نکمے اور ضائع شدہ حصوں کی بدولت بقیہ حصے کارآمد و خوبصورت بناکرتے ہیں۔
الغرض اپنی تمام تر خامیوں اور کمیوں کے باوجود مدارس اسلامیہ ہی کا نظام ہے جن پر دین اسلام کی حفظ و بقاء اور نشر و اشاعت کا دارومدار ہے۔صفہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے جو جماعت جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دینی ومذہبی تحریک کا بیڑہ لےکر اٹھی تھی؛پندرہ سو سالہ طویل عرصے کے بعد بھی اس مقدس جماعت کا وہ عالم گیر مشن اگر زندہ ہے تو بخدا یہ ان ہی ٹوٹے پھوٹے مطعون مدارس اسلامیہ اور ان سے وابستہ علماء کرام کی دین ہے۔
تحریر کا خلاصہ یہ ہے کہ ملک میں جاری فرقہ پرستی کے عروج اور کمرتوڑ مہنگائی کے درمیان آخر کس طرح ہم موجودہ یا آنے والی اپنی نسل کے دین وایمان کا تحفظ کرسکتے ہیں؟
تو جواب یہ ہے کہ اس کا واحد راستہ یہی ہے کہ ملک میں جال کی طرح پھیلے ہوئے چھوٹے بڑے مدارس اسلامیہ اور مکاتبِ دینیہ کو پوری قوت کے ساتھ سنبھالا دیا جائے،ان کی کمیوں کو نشانہ بنانے کے بجائے آپس میں مل بیٹھ کر دور کیا جائے،ان کی تعمیر وترقی میں اپنا موثر کردار ادا کیا جائے،ان سے وابستہ علماء و منتظمین کے دکھ درد کو محسوس کرتے ہوئے ان کے زخموں پر ایک شفیق ڈاکٹر کی طرح مرہم پٹی کی جائے،انہیں مایوسیوں کے دلدل سے باہر نکالا جائے،ان کی بھرپور حمایت و حوصلہ افزائی کی جائے اور ادارے کے ساتھ ان کی ذاتی ضروریات تک کا خیال کرتے ہوئے ان کے ساتھ داد و دہش اور عزت و تکریم کا معاملہ کیا جائے۔آخر ا ہلِ ثروت اپنے گھربار کی ایک ایک شادی پر لاکھوں کروڑوں خرچ کرسکتے تو مہمانانِ رسول اور وراثت نبوی کے علم برداروں پر اپنا سینہ کشادہ کیوں نہیں کرسکتے!!!
رمضان المبارک کا پہلا عشرہ رخصت پذیر ہے،جلد ہی دوسرا عشرہ سایہ فگن ہونے والا ہے اور پھر تیسرا عشرہ بھی آجائے گا اور یوں رمضان المبارک ایک سال کے لئے ہم سے پھر رخصت ہوجائےگا۔کل کو کون زندہ رہے گا اور کس کو چار لوگ مل کر قبرستان میں دفن کرآئیں گے۔کل تو کل ہے پل کی خبر نہیں ہے۔قبل اس کے کہ ہم کف افسوس ملیں دیگر تمام تر عبادات کے ساتھ مدارس اسلامیہ اور ان سے وابستہ علماء کرام،ائمہ عظام و حفاظ کرام کے ساتھ خصوصی شفقت و مروت کا ایسا مظاہرہ کرلیں کہ خدا بھی خوش ہوجائے اور جب روضہ رسول میں ہمارے ان خوبصورت اعمال کی پیشی ہو تو رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی روح مبارکہ بھی ہم سے خوش ہو جائے!

رمضان المبارک __پیغام مؤمنوں کے لیے رحمتوں کا ہےمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیسہ وجھارکھنڈ پھلواری شریف پٹنہ

رمضان المبارک __پیغام مؤمنوں کے لیے رحمتوں کا ہے
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیسہ وجھارکھنڈ پھلواری شریف پٹنہ (9431003131)
رمضان کا مہینہ آگیا، ہر سو رحمت کی بارش شروع ہو ئی ، خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اس باران رحمت سے فائدہ اٹھانے کے لیے پوری طرح تیار ہیں، جنہوں نے اس ماہ میں اپنی اخروی زندگی کو بنانے اور دنیاوی زندگی کو صحیح سمت اور صحیح ڈگر پر گامزن کرنے کے لیے کمر کس لیا ہے ، رحمت کے اثرات مسجدوں میں بھی نظر آتے ہیں، اور بازاروں میں بھی ، رونقیں دونوں جگہ ہوتی ہیں، کشش ہر دو میں ہوتی ہے، جن کے دل اللہ کی طرف مائل ہیں اپنی زندگی میں فوز وفلاح چاہتے ہیں، اور آخرت میں جنت کے طالب ہیں، ان کی توجہ مسجدوں اور اعمال خیر کی طرف ہوتی ہے، بازار میں ان کا وقت ضرورت کے مطابق ہی گذرتا ہے ، انہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہر وقت یاد رہتا ہے کہ روئے زمین پر مسجد سب سے اچھی جگہ او ربازارسب سے بُری جگہ ہے ، اس احساس کی وجہ سے ضروریات زندگی کی خرید وفروخت کے لیے ان کا بازار جانا ہوتا ہے ، لیکن دل مسجد میں ہی اٹکا ہوتا ہے ، یہ وہ لوگ ہیں جن کا شمار صالحین میں ہوتا ہے اور رحمت خدا وندی انہیں اس ماہ میں خصوصیت سے شرابور کردیتی ہے ، وہ رمضان کے پہلے عشرہ کا سفر حصول رحمت کے لیے کرتے ہیں، دوسرے عشرہ میں انہیں مغفرت کا مژدہ ملتاہے اور اخیر عشرہ میں انہیں جہنم سے گلو خلاصی کا پروانہ مل جاتا ہے ، مؤمن کا مطلوب ومقصود یہی  تو ہے ۔
 اس بابرکت مہینے میں بھی بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں، جن پر مسلسل ہو رہی باران رحمت کا کوئی اثر نہیں ہوتا ، ان کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آتی ، لہو ولعب کی مشغولیات میں کوئی کمی نہیں ہوتی، نزول رحمت اور شیطان کے پابند سلاسل ہونے کے با وجود ان کے اعمال اور حرکات وسکنات پر کوئی اثر نہیں پڑتا اور وہ حسب سابق نافرمانیٔ الٰہی میں لگے ہوتے ہیں ، ان کے پاس دل ہوتا ہے ، لیکن سمجھنے کی قوت نہیں ہوتی ، انہیں قوت سماعت ملی ہوتی ہے ، لیکن وہ اچھی باتیں سننے سے محروم ہوتے ہیں، ان کے پاس آنکھیں ہوتی ہیں، لیکن وہ صحیح چیزوں کو نہیں دیکھ پاتے ، ان کی ذات پر اس باران رحمت کا اثر اس لیے نہیں ہوتا کہ ان کے دل پتھر سے زیادہ سخت ہوتے ہیں، زیادہ سخت، اس لیے کہ بعض پتھر سے تو پانی کے چشمے پھوٹتے ہیں، نہریں نکلتی ہیں، وہ خشیت الٰہی سے گر بھی پڑتے ہیں، لیکن ان لوگوں کے دل کے سوتے ایسے خشک ہوتے ہیں کہ رمضان کے مہینے میں بھی ان کی آنکھوں سے آنسو نہیں نکلتے اور ان کے دل خوف خدا سے نہیں لرزتے ، اور وہ اپنی ڈگر پر چلتے رہتے ہیں، یہاں تک کہ موت انہیں آ لیتی ہے، او روہ ہمیشہ ہمیش کے لیے جہنم کے ایندھن بن جاتے ہیں، اللہ رب العزت سے ایسی زندگی سے پناہ چاہنی چاہیے، اور کوشش آخری حد تک اس کی کرنی چاہیے کہ اس مہینے میں اللہ تعالیٰ کو رو دھو کر منالیں۔
 کاغذ پر بہت سے حروف ونقوش ابھرے ہوتے ہیں، ان کے صاف کرنے کے لیے ہم ربر کا استعمال کرتے ہیں،تو کاغذ صاف وشفاف ہوجاتا ہے اور ہمارے لیے یہ ممکن ہوتا ہے کہ ہم اس کا غذ کو پھر سے کام میں لاکر اپنی من پسند چیزیں لکھ سکیں ، یہی حال تو بہ واستغفار کا ہے ، ہماری بد عملی اور بے عملی کی وجہ سے ہمارے دل پر گرد جم گئی ہے؛ بلکہ متواتر اور مسلسل گناہ کی وجہ سے یہ کالا ہو گیا ہے ۔اس پر کوئی دوسری تحریر نہیں اُگ پا رہی ہے، ضرورت ہے دل کی سیاہی کی صفائی کی، جب تک یہ سیاہی دور نہیں ہوگی ، گناہ کے اثرات ختم نہیں ہوں گے ، طاعت وبندگی کے حروف اُگانے کے لیے پہلے اس سیاہی کو صاف کرنا ہوگا، توبہ استغفار، گناہوں پر ندامت اس ربر کی طرح ہے ، جس سے نا پسندیدہ الفاظ وحروف کو مٹایا جا سکتا ہے ، اللہ بھی کیسا غفور الرحیم ہے ، بندہ جب تو بہ استغفار کرتا ہے ، ندامت کے آنسو بہاتا ہے ، اللہ سے اچھی امید رکھتا ہے تو اللہ اس کو ایسا بنا دیتے ہیں، جیسے اس نے کبھی گناہ کیا ہی نہیں تھا ، آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے، گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسے اس نے کبھی گناہ کیا ہی نہیں ہے ، اس توبہ پر رحمت خدا وندی کو ایسا جو ش آتا ہے کہ وہ گناہوں سے تو پاک کر ہی دیتاہے ، ان گناہوں کو بھی نیکیوں میں تبدیل کر دیتا ہے ، جو اس نے توبہ سے قبل کیے تھے، صحیح اور سچی بات یہ ہے کہ مراحم خسروانہ کا لفظ انسانوں پر مجازی معنی میں بولا جاتا ہے ، حقیقی مرحمت کا تعلق تو اللہ رب العزت کی ذات سے ہے ، دوسرا کوئی ایسا ہوہی نہیں سکتا، کیوں کہ اللہ کی کٹیگری کا دوسرا ہے ہی نہیں ۔ وَلَمْ یَکُنْ لَہٗ کُفُوا اَحَد۔ 
 رمضان المبارک کے اس مہینے میں روزہ سب سے بڑی عبادت ہے، جو پورے شرعی تقاضوں کے ساتھ بند ے نے رکھا ہو ۔ تلاوت قرآن، تہجد کا اہتمام ، ذکر واذکار کی کثرت، تراویح کی پابندی، فرض نمازوں کی با جماعت ادائیگی ، غرباء ومساکین کا خیال ، جھگڑے لڑائی سے اجتناب اور پر ہیز ان چیزوں میں سے ہے جس سے روزہ ، روزہ بنتا ہے ، پورے ماہ اس طرح کا روزہ رکھیے کہ سال بھر نیکیوں کی طرف دل مائل رہے اور برائیوں سے نفرت پیدا ہوجائے۔
لیکن بعض بدبخت وہ بھی ہوتے ہیں جن کے قلوب اس مہینے میں بھی شیطان کے نرغے میں ہوتے ہیں، شیطان پابند سلاسل ہوتا ہے، لیکن اس کے اثرات کسی نہ کسی درجہ میں انسانوں پر باقی رہتے ہیں، کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان کا نفس امارہ ہی شیطان بن جاتا ہے، اور اس ماہ میں چل رہی باد بہاری سے وہ متاثر نہیں ہوتا، بالکل اسی طرح جس طرح رحمت کی برسات بھی اُسّراور بنجر زمینوں میں ہر یالی پیدا کرنے میں ناکام رہتی ہے، وہ حسب سابق مسجد کا رخ نہیں کرتے ، روزہ نہیں رکھتے اور بہت بے شرمی سے ہوٹلوں میں کھاتے رہتے ہیں ، پہلے شرم ایسوں کو آتی تھی، ان کے شرم کی حفاظت کے لیے ہوٹلوں پر پردے پڑے ہوتے تھے اور ایسے لوگ چھپ کر کھا یا کرتے تھے، اب یہ شرم ختم ہو گئی ہے ، گھر اور باہر سب جگہ ایسے روزہ خوروں کی بڑی تعداد دیکھنے کو ملتی ہے، گو اب بھی بعض ہوٹلوں پر پردے پڑے ہوتے ہیں، لیکن دن بدن اس میں کمی آتی جا رہی ہے، جو اچھی علامت نہیں ہے ۔
ان روزہ خوروں سے پوچھیے کہ سال کے گیارہ مہینے تو کھاتے ہی ہو، ایک مہینہ دن میں اللہ کی خوشنودی کے حصول اور فرض کی ادائیگی کے جذبے سے نہ کھاؤ تو کیا فرق پڑتا ہے تو بڑی لجاجت سے کہیں گے کہ حضرت! طبیعت خراب رہتی ہے، ڈاکٹروں کی ہدایت ہے کہ روزہ نہ رکھوں؛ اس لیے مجبوری ہے، یقینا مریضوں کو چھوٹ دی گئی ہے کہ وہ صحت یابی کے بعد قضاء رکھیں ، لیکن عموما یہ بیماری فرضی ہوتی ہے اوررمضان میں روزہ خوری کے بعد کبھی روزے کی قضا کا خیال بھی نہیں آتا، حالاں کہ روزہ عبادت بھی ہے اور مختلف امراض کا علاج بھی ۔
 جدید تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ روزہ رکھنے سے جسم کی قوت مدافعت بڑھتی ہے، چوں کہ اعضاء رئیسہ کو روزے کی حالت میں آرام ملتا ہے اور اس آرام کے نتیجے میں ان کی کارکردگی بڑھ جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ رمضان میں معدہ کے مریض کو بھی اسہال کی شکایت نہیں ہوتی ، پیٹ خراب نہیں ہوتا ، ہارٹ کے مریضوں میں دل کی بے چینی اور سانس پھولنے کی تکلیف کم ہوجاتی ہے، دفاع کی صلاحیت بڑھ جانے کی وجہ سے جسمانی کھچاؤ اور ڈپریشن سے بھی نجات مل جاتی ہے، روزہ خوروں کی ایک بڑی تعداد شوگر کے مریضوں کی ہے ، اور انہیں ڈاکٹروں کی ہدایت کے مطابق ہر دو گھنٹے پر کچھ نہ کچھ کھانا ہوتا ہے، یہ عذر صحیح ہے، لیکن اگر آپ کی قوت ارادی مضبوط ہے اور اللہ کے فضل پر بھروسہ ہے اور آپ روزہ رکھنا چاہتے ہیں تو اللہ کی نصرت آپ کے ساتھ ہوگی اور شوگر کنٹرول ہو جائے گا۔
 ضرورت قوت ارادی کی ہے، آپ روزہ نہیں رکھنا چاہتے تو آپ کا نفس جواز کے لیے دسیوں اسباب ومحرکات پیش کردے گا ، اور اگر آپ رکھنا چاہتے ہیں تو صرف اللہ کی خوشنودی کے حصول کا جذبہ پورے مہینے آپ کو روزہ رکھنے پر خوش دلی سے تیار کردے گا۔ 
حال ہی میں شائع ایک تحقیق کے مطابق روزہ کینسر جیسے موذی مرض کی روک تھام میں بھی مؤثر کردار ادا کرتا ہے، اس تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ روزہ کی حالت میں گلوکوز کی کمی ہوجاتی ہے جسم کو جب گلوکوز نہیں ملتا ہے تو قدرتی طور پر چربی کا استعمال شروع کر دیتا ہے، اس عمل کے نتیجے میں پروٹین چھوٹے ذرات کی شکل میں بکھرنے سے محفوظ ہوجاتے ہیں، کینسر کے خلیات اور ٹشوز اپنی نشو نما کے لیے ان ذرات کا سہارا لیتے ہیں، روزے کی حالت میں یہ ذرات نہیں ملتے تو کینسر کی نشو نما نہیں ہو پاتی ، روزہ موٹا پے کے مریضوں کے لیے بھی نعمت ہے، اس سے وزن کم ہوتا ہے اور روزہ رکھنے والے کو ڈائٹنگ یعنی غذا میں کمی کی ضرورت نہیں پڑتی ، جاپان کے ایک ڈاکٹر ٹیسدایوشی ہیسی کے مطابق روزہ رکھنے سے بانجھ پن دور ہوجاتا ہے ، اس کا تجربہ اس نے چھ خواتین پر کیا ، جن میں سے چار خواتین ، تین مہینے کے ا ندر حاملہ ہو گئیں اور انہوں نے صحت مند بچوں کو جنم دیا ، اسی طرح نفسیاتی مریضوں کے لیے بھی روزہ رکھنا مفید ہے، کیوں کہ اس کی وجہ سے ذہنی تناؤ میں کمی آتی ہے اور بندہ کی توجہ ہمہ وقت مولیٰ کی طرف ہوتی ہے جس سے اسے ذہنی سکون ملتا ہے۔
مختصر یہ کہ روزہ خوری عام حالات میں معصیت ہے، سوائے ان لوگوں کے جو واقعتا مریض ہیں، جو عورتیں حاملہ ہیں، جو دودھ پلا رہی ہیں اور جو لوگ مسافر ہیں ان کو شریعت نے روزہ مؤخر کرنے کی اجازت دی ہے، لیکن مؤخر کرنا اور چیز ہے اور سرے سے روزہ نہ رکھنا بالکل دوسری چیز ، اس فرق کو ہمیں ضرور ملحوظ رکھنا چاہیے ، سِرے سے روزہ نہ رکھنا ایسا جرم ہے جس کی تلافی کے لیے کوئی کفارہ نہیں ہے۔
 سن ایاس کو پہونچا ہوا شخص جو روزہ کی صلاحیت نہیں رکھتا، اس کو شریعت نے روزہ کے بدلے بعض حالتوں میں فدیہ دے کر اس کی تلافی کی اجازت دی ہے ، ان کے علاوہ جو لوگ روزہ خوری کرتے ہیں، وہ اللہ سے بغاوت کرتے ہیں، او راللہ کا باغی کبھی کامیابی وکامرانی سے سر فراز نہیں ہو سکتا ، خوب اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ ہوٹل کے گیٹ پر پردہ کرکے کھانے اورڈاکٹروں کے فرضی نسخے دکھاکرآپ لوگوں کو تومطمئن کر سکتے ہیں، لیکن اس مالک کائنات کو جو دلوں کے احوال کو جانتا ہے اور جس کے نزدیک جلوت کے تماشے اور خلوت کی بے راہ رویوں کو چھپا یا نہیں جا سکتا، اس سے بچ کر کہاں جائیے گا اور اس کو کس طرح دھوکہ دے پائیے گا۔
 اللہ نے اپنے کرم سے شیطان کو پابند سلاسل کر دیا ہے، تاکہ خیر کی طرف لوگ متوجہ ہوں اور اپنے رب کی مغفرت کی طرف دوڑیں ، لیکن اگر ہم نے اپنے نفس امارہ کو پابند سلاسل نہیں کیا تو وہ اس پورے ماہ کی برکت ، رحمت اور مغفرت کو کھا جائے گا، قبل اس کے کہ بہت دیر ہو جائے، رمضان کے اس بابرکت مہینے میں عہد کیجئے کہ ہم اپنی زندگی میں ایسی تبدیلی لا ئیں گے ، جس سے ہمارا مولیٰ راضی ہو جائے گا اور ہم حضرت جبرئیل کی اس وعید کے مستحق نہیں ہوں گے ۔ جس پر آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر سے اترتے ہوئے آمین کہی تھی ۔

ہفتہ, اپریل 09, 2022

*ذرا ٹھہرئیے امام صاحب!*تراویح کی نماز میں ایک نمازی نے اپنے امام صاحب سے یہ گذارش کی ہے

*ذرا ٹھہرئیے امام صاحب!*
تراویح کی نماز میں ایک نمازی نے اپنے امام صاحب سے یہ گذارش کی ہے کہ؛ اللہ کے لیے مجھ پر رحم کیجیے،میں ثناء نہیں پڑھ پاتا ہوں اور نہ رکوع وسجود کی تسبیح مکمل ہوپاتی ہے۔لہذا تکبیر تحریمہ کے بعد تھوڑا رکیےتاکہ ثنا پڑھ لوں، اور رکوع وسجدے میں کچھ دیر ٹھہر جائیے تاکہ تسبیح تین مرتبہ مکمل کرسکوں۔
یہ ایک نمازی کی طرف سے کی گئی گذارش ہے مگریہ ہر نمازی کے دل کی آوازہے۔
اس تعلق سے واقعی بڑی بے اعتدالی دیکھنے میں آتی ہے۔
ایک امام کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم فرمایا ہے کہ نماز میں نمازی کے لیےامام تخفیف کرے، اور نماز کو ہلکی پڑھائے،بیماروں ،کمزوروں اور بوڑھوں کا خیال کرے،یہ بخاری شریف کی حدیث ہے۔
تراویح کی نماز میں افسوس کی بات تو یہ ہےکہ جہاں تخفیف ہونی چاہئے وہاں معاملہ لمبا اور طویل کردیا جاتا ہے، اور جہاں گنجائش نہیں ہے وہیں تخفیف کردی جاتی ہے۔
تخفیف زیادہ قرأت اور لمبی رکعت میں ہونی چاہئے مگر وہاں کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جارہا ہے بلکہ زیادہ سے زیادہ قرآن پڑھاجاتا ہے تاکہ جلد قرآن مکمل ہوجائے اور نماز کے مکمل ہونے کا بالکل خیال نہیں کیا جاتا ہے۔جماعت کے ساتھ اس نماز کو پڑھتے ہیں مگر جماعت کا مقصدبھی فوت ہورہا ہے۔فقہ کی مشہور کتاب شامی میں یہ مسئلہ لکھا ہوا ہے کہ جماعت والی نماز میں تعداد کی کثرت زیادہ قرأت اور لمبی رکعت سے افضل ہے۔پھر یہ مذکورہ حدیث کی کھلی ہوئی خلاف ورزی بھی ہے کہ نمازی کے لیے اس تراویح کی نماز کو مشکل اور سخت بناکر پیش کیا جارہا ہے، بلکہ دیکھنے میں تو یہ آتا ہے کہ کچھ لوگ مسجد کے طہارت خانے کی طرف ہوا خوری کررہے ہوتے ہیں، جب امام صاحب رکوع میں جاتے ہیں توایسے لوگ نماز میں شامل ہوتے ہیں،یہ عمل کسی بھی نمازی کے لیے مناسب نہیں ہے،یہ منافقوں والا عمل ہے،یہ سب کچھ اپنی جگہ پر مگر کہیں نہ کہیں ایک امام کی جوابدہی بھی قائم ہوتی ہے کہ اس کی نوبت کیوں آرہی ہے کہ لوگ نماز کو مشکل سمجھ رہے ہیں، صحیح جگہ نماز میں تخفیف کی یہی ہے کہ قرآن نمازیوں کی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے پڑھا جائے، جتنی رغبت ہو مقتدیوں کی اتنی ہی تلاوت کی جائے، اس کا مطلب یہ ہرگز نہ لیا جائے کہ اتنی رعایت بھی نہ کی جائے کہ پورے رمضان میں ایک ختم بھی نہ ہوسکے۔
بلکہ تراویح میں ختم قرآن ستائیسویں رمضان کی شب میں افضل ہے۔آج کی تاریخ میں اس کا مزاج ومذاق پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔یہ افضل وقت کو پانے کا ذریعہ بھی ہوگا اور جماعت کی نماز کا مقصد بھی اس سےمکمل حاصل ہوسکےگا اور آقائے مدنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل بھی ہوگی۔ یہ کرنے کی چیز ہے اسے نہ کرکے نماز میں جہاں کمی نہیں کرسکتے ہیں، وہاں تخفیف کا عمل نماز تراویح میں ہورہی ہےجویہ سنت شریعت سے ہٹی ہوئی یے، ایک امام قرآن مکمل کرنے کی فکر میں نماز ادھوری پڑھتےہیں اور پڑھاتے ہیں، یہ واقعی افسوسناک امر ہے۔
نماز میں ثناء پڑھنا مسنون ہے۔رکوع اور سجود کی تسبیح تین بار پڑھنا یہ بھی مسنون ہے۔تراویح کی نماز بھی سنت ہے،ایک سنت کے لیے دوسری سنت کو چھوڑنا کبھی جائز نہیں ہے۔
یہاں پر حیرت وتعجب کی بات تو یہ بھی ہے کہ تکبیر تحریمہ کے بعد مقتدی کو ثنا پڑھنے کا موقع نصیب نہیں ہورہا ہے وہاں امام صاحب کو پھر تعوذ اور بسم اللہ کا وقت کیسے دستیاب ہورہا ہے؟
جبکہ قرینہ اور قیاس تو صاف یہ کہتا ہے کہ بغیر تعوذ اور بسم اللہ کے قرأت ہورہی ہے، اس کی بھی حیثیت نماز میں سنت کی ہے،فقہ وفتاوی کی کتابوں میں جان بوجھ کر ایسا کرنے والے کو گنہ گار کہا گیا ہے اور اس کی نماز کو کراہت والی نماز سے تعبیر کیا گیا ہے۔
ستم بالائے ستم تو یہ ہےکہ کچھ حفاظ سے جلدی پڑھنے کے چکر میں قرآن کے حروف کٹتے ہیں، یہ عمل اگر جان بوجھ کر ہورہا ہے تو نماز فاسد ہورہی ہے۔فقہ کی کتابوں میں لکنت کی وجہ سے اگر حروف کٹتے ہوں تو گنجائش لکھی گئی ہے بصورت دیگر کوئی گنجائش نہیں ہے۔اس طرف بھی توجہ کی شدید ضرورت ہے۔
ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ 
رابطہ، 9973722710

پُر امن زندگی___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھند پھلواری شریف پٹنہ

پُر امن زندگی___
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھند پھلواری شریف پٹنہ 
اسلام اخوت ومحبت، رافت وحمت،شفقت ومروت ،امن وآشتی، مدارات ومواسات کا مذہب ہے، وہ یکجہتی کی ان تمام کوششوں کوسراہتا ہے، جوا سلامی عقائد ونظریات سے متصادم نہ ہوں، اورجن سے دوسرے ادیان کی مشابہت لازم نہ آتی ہو، اس کے برعکس وہ فتنہ وفساد کی ہر کوشش اور اس کے برپا کرنے کو مذموم قرار دیتا ہے، اس سلسلہ میں اس کا بہت صاف اور واضح اعلان ہے:فتنہ قتل سے بڑی چیز ہے ۔اللہ فساد کو پسندنہیں کرتا۔زمین کی اصلاح کے بعد اس میں فساد نہ کرو۔ایک دوسری آیت میں ان قوموں کاتذکرہ کرتے ہوئے جنھوں نے فتنہ وفساد کو اپنا شعار بنالیا، ارشاد فرمایا:جب کبھی لڑائی کی آگ بھڑکاناچاہتے ہیں،اللہ تعالیٰ اس کو فرو کردیتے ہیں، اوروہ ملک میں فساد کرتے پھرتے ہیں اوراللہ تعالیٰ فساد کرنے والوں کو محبوب نہیں رکھتے۔ایک اورآیت میں حضرت آدمؑ کے دوبیٹو کا قصہ بیان کرکے جن میں سے ایک نے دوسرے کو قتل کیاتھا۔ ارشاد فرمایا:جوکوئی کسی کی جان لے بغیر اس کے کہ اس نے کسی کی جان لی ہو، یا زمین میں فساد کیاہو، تو گویا اس نے تمام انسانوں کاخون کیا، اورجس نے کسی کی جان بچائی تو گویا اس نے تمام انسانوں کوبچایا۔
اس آیت میں اگر غور کریں تو پتہ چلے گا کہ انسانی جان کی حرمت وعظمت کا معیار قلت وکثرت پر اسلام نے نہیں رکھا، بلکہ ایک ایک فرد کوپوری سوسائٹی کے قائم مقام بنادیا، اس لیے کہ ایک ایک جان انسانیت کی متاع عزیز ہے اور اس کا ضیاع انسانیت کی ضیاع کے مترادف ہے۔
فساد پھیلانے والے چوں کہ انسانی جان کے ساتھ املاک کوبھی تباہ کردیاکرتے ہیں، پھر ان کے ساتھ حکومت کی مشنری بھی شامل ہوجائے تو یہ فساد اپنے ساتھ اوربھی تباہی لاتا ہے، اس لیے اللہ رب العزت نے ایسی حاکمانہ قوت وطاقت کی بھی مذمت کی، جو اچھے مقاصد میں استعمال ہونے کے بجائے ظلم وستم اورغارت گری کے لیے استعمال کیاجارہا۔ ارشاد فرمایا:اور جب وہ حاکم بنتا ہے تو زمین میں فساد پھیلانے کی کوشش کرتاہے،اور کھیتوں اور نسلوں کو تباہ کرتاہے اوراللہ فساد کو ہرگز پسندنہیں کرتا۔
احادیث میں بھی تاجدار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قسم کے ارشادات کثرت سے پائے جاتے ہیں، جن میں بے گناہوں کے خون بہانے کو بدترین گناہ کہا گیاہے، حضرت انسؓ بن مالک کی ایک روایت ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بڑے گناہوں میں سب سے بڑا گناہ اللہ کے ساتھ شرک کرنااور قتل نفس ہے۔
ایک دوسری حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:مؤمن اپنے دین کے دائرے میں اس وقت تک  رہتا ہے جب تک وہ حرام خون نہیں بہاتا۔قیامت کے دن بندے سے سب سے پہلے جس چیزکا حساب لیاجائے گا وہ نمازہے اور پہلی چیز جس کافیصلہ لوگوں کے درمیان کیاجائے گاوہ خون کے دعوے ہیں۔اسلام نے قتل سے اپنی ناپسند یدگی کا اظہار کرنے کے بعد ان اخلاقی قدروں پرزورد یا جن پر عمل پیرا ہونے سے فساد کا اندیشہ ہی باقی نہیں رہتا، اس سلسلے میں فساد کے تین اہم ذرائع زر، زن، زمین کی محبت واہمیت انسانی قلوب سے نکالنے کی کوشش کی، چنانچہ اللہ رب العزت ارشادفرماتا ہے:مال اور اولاد دنیاوی زندگی کی ایک رونق ہیں۔ایک دوسری آیت میں ارشاد فرمایا:تمہارے اموال اوراولاد تمہارے لیے ایک آزمائش کی چیزہیں۔
ایک اور آیت میں انسان کوامراء اورسرمایہ داروں کی طرف حریصانہ نگاہ ڈالنے سے منع کیا اوراسے عارضی بہار قراردیا اور فرمایا:اور اپنی نگاہیں ہرگز ان چیزوں کی طرف نہ دوڑانا، جو ہم نے ان میں سے مختلف لوگوں کوآرائش دنیا کی دے رکھی ہیں تاکہ انھیں اس سے آزمالیں، تیرے رب کا دیا ہوا ہی(بہت) بہتر اوربہت باقی رہنے والاہے۔

جمعہ, اپریل 08, 2022

مکیش سہنی کی چُھٹیمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھند پھلواری شریف پٹنہ

مکیش سہنی کی چُھٹی
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھند پھلواری شریف پٹنہ 
 وی آئی پی کے بانی وصدر جناب مکیش سہنی کی وزارت سے چھٹی ہو گئی ہے، وہ حکومت بہار میں وزیر ماہی پروری وآب پاشی تھے، حال ہی میں ان کی پارٹی کے سبھی تین ارکان اسمبلی نے وی آئی پی چھوڑ کر بی جے پی میں شمولیت اختیار کر لی تھی اور ان کی پارٹی کا نام ونشان اسمبلی میں ختم ہو گیا تھا، مکیش سہنی جو اپنے کو ’’سن آف ملاح‘‘، کہلوانا پسند کرتے ہیں، بی جے پی کوٹے سے وزیر بنے تھے اور بی جے پی نے اپنے حصہ کی سیٹ انہیں مہیا کرائی تھی، ایسے میں اخلاقی طور پر انہیں خود سے مستعفی ہوجانا چاہیے تھا، لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا، مجبورا وزیر اعلیٰ کو بھاجپا کے دباؤ میں ان کی چھٹی کے لیے گورنر سے درخواست کرنی پڑی اور گورنر نے انہیں وزارت سے بر طرف کر دیا، اسے کہتے ہیں بڑے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے۔
 مکیش سہنی جواں سال سیاست داں ہیں، دو ایک جلسہ ذات کی بنیاد پر گاندھی میدان میں کرکے سیاست میں داخل ہوئے، تیزی سے ابھرے، اپنی جگہ بنائی، ایم ایل سی بنے، وزارت کی کرسی تک پہونچے اور پھر اسی تیزی سے بی جے پی سے پَنگالے کر آسمان سے زمین پر آگرے، تجربات کی کمی اور سیاست میں کچھ بھی ہو جانے کی قدیم روایت نے انہیں یہ دن دکھایا، وہ ایم ایل سی ہیں اور ظاہر ہے وہ بھی انہیںبی جے پی کی مہربانی سے حاصل ہوئی ہے، لیکن وہ اس بات کو نہیں مانتے، ان کا کہنا ہے کہ ہم ایم ایل سی ’’انوکمپا‘‘ کی بنیاد پر نہیں بنے ہیں۔
 مکیش سہنی سیاست میں اس وقت اپنے وجود اور بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں،جنگ میں فتح وشکست کے امکانات ہوا کرتے ہیں، ایسا ممکن ہے کہ اس شکست کے بعد وہ دو بارہ ابھرنہ پائیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ توڑ جوڑ کی سیاست میں پھر سے وہ اپنا مقام بنانے میں کامیاب ہو جائیں، ملاح برادری کے لوگ انہیں اپنا لیڈر مانتے ہیں اورہو سکتا ہے کہ اگلے انتخاب تک ووٹ کی سیاست میں ’’سن آف ملاح‘‘ کی اہمیت بڑھ جائے۔

پردھان منتری آواس یوجنا کے تحت تین کروڑ سے زائدمکانات کی تعمیر: مودی

 

پردھان منتری آواس یوجنا کے تحت تین کروڑ سے زائدمکانات کی تعمیر: مودی

نئی دہلی: وزیر اعظم نریندر مودی نے جمعہ کو کہا کہ ملک کے ہر غریب کو پکا مکان دینے کے عزم کے تحت عوامی شراکت سے تین کروڑ سے زیادہ مکانات تعمیر کیے گئے ہیں۔ 

 نے ٹویٹ کیا،’ہم نے ملک کے ہر غریب کو پکا مکان دینے کے عزم میں ایک پڑاؤ طے کیا ہے۔ تین کروڑ سے زائد گھروں کی تعمیر عوام کی شراکت سے ہی ممکن ہوئی ہے۔

بنیادی سہولیات والے یہ گھر آج خواتین کو بااختیار بنانے کی علامت بھی بن چکے ہیں‘۔

مسٹر مودی نے ٹویٹ کے ساتھ ایک تصویر بھی شیئر کی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ پردھان منتری آواس (گرامین) یوجنا کے تحت اب تک 2.52 کروڑ مکانات تعمیر کیے جا چکے ہیں اور اس کے لیے 1.95 لاکھ کروڑ روپے کی مرکزی امداد جاری کی گئی ہے۔

پردھان منتری اجولا یوجنا کے تحت ہر مستفید شخص کو ایل پی جی کنکشن کی سہولت بھی دی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس اسکیم کے تحت اب تک شہری علاقوں میں 58 لاکھ مکانات تعمیر کیے جا چکے ہیں۔

اس کے لیے 1.18 لاکھ کروڑ روپے کی مرکزی امداد جاری کی گئی ہے۔ اس اسکیم کے تحت گھرکی خاتون رکن یا مشترکہ نام پر ملیکت ہوتی ہے۔ ہر گھر میں کچن، بیت الخلا اور پانی کی سہولت دی جاتی ہے۔(ایجنسی)


جمعرات, اپریل 07, 2022

مولانا ڈاکٹر اقبال نیر ؒمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

مولانا ڈاکٹر اقبال نیر ؒ
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
 امارت شرعیہ بہار اڈیشہ کی مجلس شوریٰ کے رکن، مدرسہ خیر العلوم بالو ماتھ ضلع لاتی ہار کے مہتمم ، جامعہ رشید العلوم چترا جھارکھنڈ کی مجلس شوریٰ کے صدر اور مؤطین کے استاذ، آل انڈیا ملی کونسل کے رکن، ماہر طبیب، مشہور داعی، نامور مقرر مولانا ڈاکٹر محمد اقبال نیر بن خورشید عالم (م ۱۹۹۲) بن محی الدین کا رانچی کے ایک ہوسپیٹل میں ۱۸؍ مارچ ۲۰۲۲ء مطابق ۱۴؍ شعبان ۱۴۴۳ھ شب جمعہ دو بجے انتقال ہو گیا، وہ بہت دنوں سے صاحب فراش تھے، برین ہیمریج کے پہلے حملے نے ایک طرف کے اعضا کو متاثر کیا تھا اور مفلوج سے ہو گیے تھے، ایک ہفتہ قبل دو بارہ برین ہیمریج ہوا، اسپتال لے جائے گئے، علاج پر بھر پور توجہ دی گئی، لیکن وہ اس دوسرے حملہ کی تاب نہ لاسکے اور داعی اجل کو لبیک کہا، ان کی نماز جنازہ ان کے بڑے صاحب زادہ حافظ الفاتح نے بعد نماز جمعہ کوئی ساڑھے تین بجے پڑھائی، اور مقامی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی، پس ماندگان میں اہلیہ تین لڑکے اور پانچ لڑکیوں کو چھوڑا، ایک لڑکی اور دو لڑکے ابھی غیر شادی شدہ ہیں۔
 ڈاکٹر اقبال نیر صاحب کی ولادت ۱۹۵۸ء میں ان کے آبائی گاؤں بالو ماتھ موجودہ ضلع لا تی ہار میں ہوئی، ابتدائی تعلیم مقامی مکتب میں حاصل کرنے کے بعد وہ اپنی نانی ہال چترا آگیے، مولانا سراج رشیدی ان کے ناناتھے، انہوں نے جامعہ رشید العلوم چترا میں ان کا داخلہ کرا دیا، چنانچہ پوری دل جمعی کے ساتھ  متوسطات تک کی تعلیم یہیں حاصل کی ، وہاں سے مظاہر علوم سہارن پور تشریف لے گیے اور وہیں سے ۱۹۷۸ء میں سند فراغ حاصل کیا، ۱۹۷۹ء میں انہوں نے دار العلوم دیو بند کا رخ کیا اور طب کی تعلیم کے لیے دار العلوم کے طبیہ کالج میں داخلہ لیا اور یہاں سے چار سالہ طب کا کورس مکمل کیا اور ۱۹۸۲ء میں فراغت حاصل کی دار العلوم کے قیام کے آخری سال میں وہ سجاد لائبریری کے صدر منتخب ہوئے اور میںنے ان کے ساتھ ناظم کی حیثیت سے کام کیا، فراغت کے بعد وہ اپنے گاؤں بالو ماتھ لوٹ آئے اور یہاں اپنا مطب کھول کر مریضوں کی خدمت کرنے لگے، اللہ نے دست شفا دیا تھا اس لیے جلد ہی آپ کا شمار علاقہ کے بہترین ڈاکٹروں میں ہونے لگا، اس طرح خدمت کے ساتھ معاشی استحکام بھی حصے میں آگیا، ۱۹۸۳ء میں آپ نے چترا کی ایک یتیم بچی سے نکاح کرلیا، اورازدواجی زندگی سے وابستہ ہو گیے، ۱۹۸۴ء میں آپ مدرسہ خیر العلوم بالو ماتھ کے مہتمم منتخب ہوئے اور اپنی جد وجہد اور کامیاب قیادت سے اس مدرسہ کو ترقی کی طرف گامزن کیا، ہرجمعہ کو بالو ماتھ کی جامع مسجد میں آپ کا خطاب ہوتا، ڈاکٹر صاحب کے خطاب سے علاقہ میں اصلاح معاشرہ کا بڑا کام ہوا، انہوں نے جامع مسجد میں درس قرآن کا سلسلہ شروع کیا اور اسے پایۂ تکمیل تک پہونچا کر دم لیا۔ تزکیہ نفس کے لیے انہوں نے حضرت مولانا ابو الحسن علی ندوی ؒ کا ہاتھ تھاما تھا، ان کے بتائے ہوئے اوراد وظائف پر وہ سختی سے عامل تھے، صحت اچھی تھی تو اوراد واذکار کے ساتھ تلاوت قرآن اور نوافل نمازوں کا اہتمام بھی خوب کرتے تھے، ان کے اندرمسلکی شدت نہیں تھی، ان کی تقریریں طویل ہوتی تھیں، لیکن معلومات کی فراوانی، بولنے کے انداز، تجزیہ کی صلاحیت کی وجہ سے لوگ اُوبتے نہیں تھے، ان کے مطالعہ میں گہرائی اور گیرائی تھی ، ان کی مجلسی گفتگو زعفران زار ہوتی تھی،وہ اپنی بات کہنے کے عادی تھے، دوسروں کی بُرائی اور غیبت سے پر ہیز کرتے تھے۔انہوں نے اپنے علاقہ میں رجال سازی پر بھی توجہ دی اور مختلف میدان میں افرادِ کار تیار کیے۔
 تقریر کے ساتھ اللہ نے ا نہیں لکھنے کا بھی ملکہ عطا کیا تھا، مطب کی پیشہ وارانہ مشغولیت کے ساتھ انہوں نے تصنیف وتالیف کا کام بھی جاری رکھا، ان کی مشہور کتابوں میں سیرت سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت (مولانا ذو الفتار صاحب) کی یادیں، مولانا رحمت اللہ ؒ حالات زندگی کا شمار ہوتا ہے۔
 مولانا اقبال نیر مرحوم سے میری ملاقات دوران طالب علمی ہی سے تھی، مظاہر علوم سے فراغت کے بعد جب انہوں نے دیو بند کے طبیہ کالج میں داخل لیا تو ۱۹۸۱ء میں وہ سجاد لائبریری کے صدر منتخب ہوئے اور مجھے ناظم چنا گیا، یہ زمانہ دار العلوم کے طلبہ وانتظامیہ کے لیے آزمائش کا تھا، اس لیے بہت بڑے پیمانے پر کام کی شکل تو نہیں بن سکی، لیکن سجاد لائبریری کی سر گرمیوں کو باقی رکھنے کا کام ہم لوگوں نے کیا، اگلے سال وہ گھر لوٹ گیے اور میں ان کی جگہ سجاد لائبریری کا صدر چن لیا گیا اور سجاد لائبریری کے لیے زمین کی خریداری اور تعمیر کا کام میرے دور صدارت میں شروع ہوا۔
مولانا کو اللہ رب العزت نے علمی رسوخ، انتظامی صلاحیت کے ساتھ قدورقامت اور چہرے مہرے کے اعتبار سے بھی انتہائی وجیہ بنایا تھا، وہ بغیر کالر کا کرتا اور اس پر کرتے کے رنگ کی دیدہ زیب اور خوشنما صدری پہنا کرتے تھے، ٹوپی عموما کھڑی پٹی کی مخملی یا بال والی پہنتے ، بہت کم میں نے انہیں گول ٹوپی میں دیکھا، ڈاڑھی ہلکی اور بہت بڑی نہیں تھی، سفیدی آنے کے بعد لال مہندی کا خضاب ڈاڑھی اور سر کے بالوں میں لگا یا کرتے تھے، پیشانی کشادہ ، آنکھ بڑی اور چہرہ روشن تھا، کہنا چاہیے کہ وہ خوش خصال، خوش جمال اور خوش لباس تھے، بعض لوگوں کی رائے ہے کہ خوش خوراک بھی تھے۔
 دیو بند سے آنے کے بعد نہ جانے کتنی میٹنگوں اور جلسوں میں ہم لوگ ساتھ ساتھ رہے، امارت شرعیہ، آل انڈیا ملی کونسل اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی میٹنگوں میں بھی وہ مختلف حیثیت اور جہتوں سے شریک ہوتے اور ہر جگہ اپنی اصابت رائے کا نقش جمیل چھوڑتے ، وہ بات کے دھنی نہیں ، کام کے آدمی تھے، ملی سر گرمیوں میں وہ پیش پیش رہتے تھے، غریبوں کی مدد اور یتیموں کی کفالت کے سلسلے میں بھی وہ بہت حساس تھے، ان کا چلا جانا ملی اور علمی خسارہ ہے۔ اللہ رب العزت مرحوم کی مغفرت اور پس ماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین ۔ للہ ما اخذ ولہ ما اعطیٰ وکل شئی عندہ لاجل مسمیٰ

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...